9/3/23

2022 کا فکشن اور فکشن تنقید: ایک عالمی جائزہ: پروفیسر اسلم جمشید پوری

 


وقت کا بہتا دریا کبھی رکتا نہیں۔ وقت کے دریا کی ایک اور بوند 2022 زمانے کے بیکراں سمندر میں سما گئی۔ پانی میں مل کر پانی،پانی ہو گیا۔ اب زمانے نامی سمندر میں ایک بوند پانی کو الگ کرنا کتنا مشکل ہے۔لیکن کچھ واقعات و حادثات اور ادبی سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں،جن سے اس برس کی پہچان بہ آسانی ہو جا تی ہے۔ 2022 کی ادبی سر گرمیوں سے الگ شناخت قائم ہوتی ہے۔اس برس کیسا فکشن شائع ہوا۔یعنی کون کون سے نئے ناول منظر عام پر آئے۔کن افسانوی مجموعوں نے دھوم مچائی۔ افسانچہ، ڈراما نے کیا گل کھلائے۔ ناول، افسانے، افسانچے، ڈرامے کی تنقید نے کیا کیا رنگ دکھائے۔کن سمیناروں اور ایوارڈز نے اپنے اثرات قائم کیے۔کون سے ادیب، شاعر، صحافی ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ 2022 کا ایک مختصر عالمی جائزہ پیش ہے۔

نصف صدی کا قصہ سید محمد اشرف کے افسانوں کا کلیات ہے،جسے کافی اہتمام سے عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔تقریباً 700صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سید محمد اشرف کے تمام افسانے شامل ہیں۔سید محمد اشرف ہمارے عہد کے ان فکشن نگاروں میں ہیں، جنھوں نے اپنی تخلیقات سے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔70 کے بعد کی نسل سے تعلق رکھنے والے سید محمد اشرف نے تہذیبی زوال اور مثبت قدروں کی پامالی کو بہتر طور پر اپنے افسانوں اور ناولوں میں پیش کیا ہے۔انھوں نے اسلامی تہذیب کے نقوش،ماحولیات اور علامتوں کا ایسا نظام پیش کیا ہے جس کی تفہیم و ترسیل آسانی سے عام قاری تک ہو جا تی ہے۔پروفیسر نارنگ ان کی تحریر کے تعلق سے لکھتے ہیں

’’ مجھے اپنی روح سے شرمندگی ہوگی اگر میں اس بات کا اعتراف و اقرار نہ کروں کہ

سید محمد اشرف کے پہلے افسانوی مجموعے ’ڈار سے بچھڑے‘سے اردو افسانے کا ایک نیا پڑائوشروع ہوتا ہے۔ سید محمد اشرف کے یہاں واقعیت اور علامت کا ایسا امتزاج ملتا ہے،جس کی مثال نہیں ملتی۔جب میں ان کی کہانیوں کو بار بار پڑھتا ہوںتو ان کا اسلوب،نثر،ساخت اور تھیم دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے۔‘‘ ( فلیپ کور،نصف صدی کا قصہ،سید محمد اشرف)

اس کتاب میں سید محمد اشرف کے 36 افسانے شامل ہیں،جو ان کے افسانوں کی کل کائنات ہے۔یہ کتاب سید محمد اشرف پر کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ 70 کے بعد کے افسانے کے مزاج،علامتوں کے نظام اور بیا نیہ  کا افسانے میں استعمال پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے اس  کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

معصوم خواہش اشفاق برادرکے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے۔اس سے قبل ان کے دو افسانوی مجموعے ’ مٹی کی مہک‘ اور ’احساس میں پگھلتی برف‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اشفاق برادر کے افسانے آج کے ماحول کے عکاس ہوتے ہیں۔ آس پاس کا ان کی نظر کافی باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے۔ وہ معمولی اور سادہ سے واقعے سے بھی سنجیدہ کہانی بننے کے ہنر سے واقف ہیں۔وہ لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں۔اسی لیے ان کے افسانے ایک خاص قسم کا درد رکھتے ہیں۔

معصوم خواہش، اشفاق برادر کے 41  افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ان کے کئی ایسے افسانے بھی شامل ہیں، جو بے حد جذباتی ہیں،جو ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ان کے منفرد افسانوں میں اشتہار، کرگس، مرہم کی تلاش، ہے بھگوان، شجر کے نام، انسان، درخت اور بستی، کالے چہرے، چاند میں دھبے، دن کا اجالا، معصوم خواہش، موم، قبریں، فاتح، شاید، میرا فیصلہ، حدیں نہیں توڑنا،گتھی، چمن، سیاست،خواب اور میں،وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

 تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ نورین علی حق کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ نورین نوجوان افسانہ نگار ہیںاور ان کی نظر نئے معاملات پر بڑی گہری ہے۔ وہ صحافی بھی ہیں۔ ان کے پیروں میں چکر ہیں۔ وہ سماج کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں۔ ایسے نوجوان کو اگر لکھنے کا سلیقہ آتا ہو، اسلوب میں تازگی ہو اور اس کے پاس حساس دل ہو تو وہ اچھے افسانے لکھ سکتا ہے اور یہ تمام خوبیاں نورین علی حق میں جمع ہو گئی ہیں۔ اسی باعث ان کے افسانوں میں ایک الگ قسم کا سوز وگداز ہے۔ ایک انفرادیت ہے جو انھیں ان کے معاصرین سے الگ کرتی ہے۔ ان کے ایک افسانے کا اقتباس دیکھیں

’’ فضا میں روحانیت کے ساتھ تپش کا احساس بھی ہو رہا ہے۔بہت غور کر نے پر صرف ’لا ‘ کی صدا سمجھ میں آرہی ہے۔ ’لا‘ کی صوتی تفہیم کے بعد منظر نامہ بدلتا جارہا ہے۔ لیکن ’لا‘ کی تعبیر ممکن نہیں۔’لا‘ کے مسلسل اقرار سے شاید دنیا کے انکار کاامکان روشن ہورہا ہے۔اس کی ضربوں کی رفتار برھتی جا رہی ہے۔دل کی کیفیت بھی بدل رہی ہے‘‘

(افسانہ، تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ، مجموعہ، تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ، نورین علی حق،ص 155)

آپ نے دیکھا افسانہ نگار نے کہانی کے بیان کے لیے،کیسا اسلوب اختیار کیا۔یہ کتاب کا ٹائٹل افسانہ ہے۔ اس میں ایک مجذوب فقیر اور ہرن کا قصہ ہے۔ یہاں عرفانِ الٰہی کی بات ہے۔تصوف کا بیان ہے۔ بہت دنوں بعد ایسی کہانی پڑھنے کو ملی ہے۔

نورین علی حق کے بہت سے افسانے گہرائی اور توجہ سے مطالعے کے متقاضی ہیں۔ ان افسانوں کا گہرا مطالعہ قاری پر بہت سے جہان روشن کرے گا۔ ان افسانوں میں ظاہر کے ساتھ ساتھ فرد کے باطن کا بھی علم ہوتا ہے۔ یہ افسانے جہاں سماج میں آرہی تبدیلیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں،وہیں انسان کی نفسیات کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ،بوسیدہ حویلی میں رقص، بای ذنب قتلت،پنجرے میں قید نیند،ایک سہما ہوا آدمی، حسرتوں کے چراغ، شکار سے دو قدم آگے، سپیدیِ  سحر نورین علی حق کے ایسے ہی افسانے ہیں،جو ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔

یہ سسکتے لوگ ساوتری گوسوامی کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے۔ ساوتری گوسوامی آسٹریلیا میں تھیں۔ یہ سبھی مجموعے ان کے انتقال کے بعد نذیر فتح پوری نے اسباق پبلی کیشنز سے شائع کیے۔ ساوتری گوسوامی ساری زندگی اردو میں افسانے لکھتی رہیں۔

ساوتری گوسوامی کے افسانے معاشرتی افسانے ہیں۔ ان میں ہندوستان کے ماحول، پیار نفرت، بغض وعداوت، فرقہ پرستی کے ساتھ عورت کے ساتھ سماج کے سلوک کو پیش کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں عورت کی آزادی، وہاں کا ماحول، تنہائی، اکیلاپن، بزرگوں کی حالت کو ساوتری گوسوامی نے سیدھے سادے انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کے اچھے افسانوں میں ان کہی، ہار جیت، پیاس، زرد پتے، بیلن وین، انو کھا لاڈلا کا شمار ہونا چاہیے۔

میں اور میرے خواب نذیر فتح پوری کے مختلف خواب پارے ہیں،جو افسانے کی شکل میں بیان ہوئے ہیں۔ نذیر فتح پوری اردو میں مناظر عاشق ہر گانوی کے بعد سب سے زیادہ لکھنے اور چھپنے والے ادیب و شاعر ہیں۔ اردو کی شاید ہی کوئی صنف ایسی ہو،جس میں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ ان کے کئی ناول، ناولٹ، افسانچوں کے مجموعے اور کئی افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ کورونا جیسی مہلک بیماری کے وقت جہاں دنیا میں سونا پن، تنہائی، سناٹا، اکیلے پن نے سب کو گھیر رکھا تھا۔ سیکڑوں لوگ لقمۂ اجل ہو گئے تھے۔ نذیر فتح پوری کا قلم مستعدی سے چلتا رہا اور انھوں نے لاک ڈائون میں بیس کہانیاں لکھ ڈالیں۔ کورونا کے حالات سے پر یہ کہانیاں پچھلے سال ’کورونا کی بیس کہا نیاں‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔

’میں اور میرے خواب‘ میں نذیر فتح پوری نے ایک تجربہ کیا ہے کہ ان میں موضوعات کی مماثلت کو انداز بیان سے مختلف و منفرد بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس کتاب میں نذیرفتح پوری نے تقریباً 65 خوابوں کا بیان کیا ہے۔اس میں کچھ خواب تو بہت متاثر کرتے ہیں۔مگر بعض خواب تو بھرتی کے لگتے ہیں۔چند خواب ایسے ہیں جو بعض زندہ شخصیات کے بارے میں ہیں۔نذیر فتح پوری کا اندازِ بیان خوابوں کو قصے کہانیوں میں ڈھال دیتا ہے۔

یادوں کے جھروکے‘ ڈاکٹر نگار عظیم کے زیر ترتیب شائع ہوئی ہے۔ یہ ’بنات‘ کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں تقریباً چار درجن کہانیاں ہیں،جو یادوں پر مشتمل ہیں۔ ان کا انداز اور بیان افسانے جیسا ہی ہے۔ اس کتاب میں بنات کی ممبران کی ہی تخلیقات شامل ہیں۔ نگار عظیم، بلقیس ظفیر الحسن، ذکیہ مشہدی، قمر جمالی، صبیحہ انور، نعیمہ جعفری پا شا، عذرا نقوی، ثروت خان، افشاں ملک، آصف اظہار علی، تسنیم کوثر، نصرت شمسی، فریدہ رحمت اللہ، شبینہ فرشوری، رفیعہ نوشین، سفینہ جیسی افسانہ نگاروں کی کہانیاں شامل ہیں۔

اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں یادوں کو افسانے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ سبھی ایک تجربہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بنات نے یہ ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے نہ صرف اردو اور ادب کا فروغ جاری ہے بلکہ سماجی خدمات میں بھی یہ تنظیم آگے آگے ہے۔بنات کی صدر ڈاکٹر نگار عظیم اپنے پیش لفظ میں لکھتی ہیں

’’ ادب اور تخلیق ذاتی ہوتے ہوئے بھی ایک سماجی عمل ہے۔ہر ادیب پر سماجی ذمے داریاں ایک عام شہری سے زیادہ ہوتی ہیں۔ بہتر سماجی زندگی کے لیے  وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔سنجیدہ ادیب کو ان سماجی تبدیلیوں کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔ساتھ ہی مصروف عمل ہونا اس سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ ہر پہلو سے ادب کا مرکزی موضوع تو انسان ہی ہے۔جب بات ہم خاتون کی کریں گے تو ظاہر ہے ایک ماں، بیوی، بیٹی، بہن، محبوبہ کسی بھی روپ میںمحبتوں سے سر شار اس کا وجود اپنے فرائض کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہوجاتاہے۔بس تبھی دل سمندر بن جا تا ہے۔‘‘

(یادوں کے جھروکے،مرتبہ نگار عظیم، بنات، ص9)

کلام حیدری پروفیسر شہزاد انجم کے ذریعے لکھا گیا مونوگراف ہے،جس کو اردو ڈائریکٹوریٹ بہار،نے شائع کیا ہے۔کلام حیدری اپنے زمانے کے معروف افسانہ نگار ہیں۔ کلام حیدری کے افسانے زمانے کی داستان ہیں۔ سماج کے غماز ان کے افسانوں میںدلکش اسلوب، علامتوں کا نظام، تجربات وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم سنجیدہ لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔

مذکورہ مونو گراف میں کلام حیدری کی سوانح، افسانہ نگاری، صحافتی خدمات، تنقید نگاری،منتخب نگارشات شامل ہیں۔کئی افسانے، سخی، زندگانی، روشنی کی ضمانت، سوانح اپنی زندگی کے کچھ سچ اور کئی اداریے مونواگرف میں شائع کیے گئے ہیں۔اس مونوگراف کے مطالعے سے کلام حیدری کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

غیاث احمد گدی ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے ذریعے تحریر کردہ مونوگراف ہے۔جسے اردو ڈائریکٹوریٹ بہار نے شائع کیا ہے۔ غیاث احمد گدی اردو کے ایک بہترین افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ان کے افسانے، بابا لوگ، پرندہ پکڑنے والی گاڑی،تج دو تج دو،افعی،کوئی روشنی، آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

ہمایوں اشرف ہماری نسل کے ایک اہم ناقد ہیں۔ انھوں نے اردو فکشن تنقید میں اپنا انفراد ثابت کیا ہے۔ان کی کئی کتابیںمنظر کاظمی، الیاس احمد گدی، سعادت حسن منٹو، غیاث احمد گدی،وہاب اشرفی جیسے    

اردو کے معروف فکشن نگاروں پر آپ کی کتابیں مشہور ہیں۔

مذکورہ مونو گراف میں غیاث احمد گدی کے ادب کو سمجھنے کے لیے ایک واسطہ ہے۔اس کتاب میں غیاث احمد گدی کی شخصیت اور ادب کے ممکنہ گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کے منتخب افسانے بھی مونو گراف میں شامل ہیں۔

*    اس سال افسانچوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے۔

 کھول دو تنویر اختر رومانی کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ تنویر اختر رومانی ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’ ببول‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے، جس نے ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل کی۔ تنویر اختر رو مانی کے افسانے شہروں اور دیہات کے انسان کی اندرونی کشمکش اورجذبات کی ترجمانی کے افسانے ہیں۔

مذکورہ کتاب  کے نام سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ منٹو کے مشہور افسانے سے متعلق کتاب ہو گی۔دراصل تنویر اختر رومانی نے بین المتونیت کے ذیل میں یہ کامیاب تجربہ کیا ہے کہ انھوں نے اردو کے مشہور ومعروف افسانوں پر افسانچے قلمبند کیے۔جنھیں ری میک افسانچے کہا گیا۔ اردو افسانچے کی روایت میں تنویر اختر رومانی نے پہلی بار ری میک افسانچے لکھے۔اس کتاب میں بارہ ری میک افسانچے جن میںعید گاہ،کفن،پنچایت( پریم چند) کھول دو،بو (سعادت حسن منٹو)بابا لوگ(غیاث احمد گدی) رئیس خانہ (احمد ندیم قاسمی) لحاف( عصمت چغتائی) لاجونتی (راجندر سنگھ بیدی) جیسے افسانوں پر افسانچے اس طرح لکھے گئے ہیں کہ اصل افسانے کا مزاج ا،اختتام  اور تا ثردو بالا ہو جاتا ہے۔دوسرے حصے میں 69 افسانچے ہیں جو ان کے 55سالہ ادبی سفر کی یاد گار ہیں۔

 گلشن افسانچہ منتخب افسانچے خالد بشیر تلگامی کی ترتیب دی ہوئی کتاب ہے۔ خالد بشیر تلگامی خود بھی ایک افسانچہ نگار ہیں۔انھوں نے اس کتاب میں 71 افسانچہ نگاروں کو شامل کیا ہے۔کتاب میں 121 افسانچے شامل ہیں۔کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ افسانچہ نگاروں کا مختصر تعارف بھی درج کیا گیا ہے۔اس میں سے زیادہ تر افسانچے وہاٹس ایپ گروپ ’گلشن ِ افسانچہ‘ پر شائع ہو چکے ہیں۔یہ افسانچے زندگی کے فلسفے، آس پاس کے ماحول، انسان کے بدلتے مزاج، دوہراپن، فرقہ پرستی، منبر و مسجد کے قصے، سماجی نشیب و فراز، ظلم و ستم، طبقاتی کشمکش، بے روزگاری، چھل کپٹ، دھوکہ و فریب، محبت و الفت، نفرت کا پھیلتا کاروبار وغیرہ موضوعات کو اپنے دامن میں میں سمیٹے ہوئے ہیں۔مرد اور خواتین کے افسانچے الگ الگ دیے ہیں،جبکہ ایسی تفریق کی ضرورت نہیں ہے۔ 

*       اس برس تنقیدی مجموعے یا فکشن تنقید پر مسلسل کتاب خاصی تعداد میں سامنے آئیں۔

اردو کے 23 افسانہ نگار اور ان کا پہلا افسانہ: ڈاکٹر محمد پر ویز کی شہرت یافتہ کتاب ہے۔ شروع میں لوگوں میں یہ تجسس تھا کہ وہ کون سے افسانہ نگار ہیں جن کا اس کتاب میں ذکر ہے۔بعد میں کھلا کہ ڈاکٹر پرویز نے اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کام کیا ہے۔ویسے یہ کتاب اپنی نوعیت کی منفرد کتاب تھی۔

اس کتاب میں ڈاکٹر پرویز نے علی محمود،علی عباس حسینی، کوثر چاندپوری، حیات اللہ انصاری، مجنوں گورکھپوری، ہنس راج رہبر، صالحہ عابد حسین، شکیلہ اختر، بلونت سنگھ، رام لعل، جوگندر پال، غیاث احمد گدی، کلام حیدری، انور خان، شموئل احمد، قمر جہاں، حسین الحق، شوکت حیات، عشرت بیتاب، اقبال حسن آزاد، پیغام آفاقی، صادقہ نواب سحر کے  پہلے افسانے اور افسانہ نگار کا تعارف بھی پیش کیا ہے۔ان افسانوں کے مطالعے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ بعض ایسے بھی افسانہ نگار ہیں،جن کے پہلے افسانے ہی نقش اول ثابت ہوئے اور انھوں نے مزید اچھے افسانے تخلیق کیے۔بعض افسانہ نگاروں نے دوسرے اور تیسرے افسانے سے رفتار پکڑی اور وہ اپنے عہد کے اچھے افسانہ نگار ثابت ہوئے۔اس سے کئی دور کی افسانہ نگاری کا بھی پتہ چلتا ہے۔اس فہرست میں حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں تو رومانی شناخت والے بھی،اس میں ترقی پسند ہیںتو جدیدیے بھی،مابعد جدید ہیں تو نئی صدی کے لکھنے والے بھی ہیں۔خواتین افسانہ نگار ہیں تو غیر مسلم افسانہ نگار بھی۔یہ کتاب اپنے آپ میں انفرادیت کی حامل ہے۔

 چھٹا پروفیسر شمیم نکہت یادگاری خطبہ ’ہم عصر اردوفکشن‘ کتابچے کی شکل میں سامنے آیا۔ 64 صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں پروفیسر شمیم نکہت اورپروفیسر ابن کنول کے تعارف کے ساتھ پروفیسر ابن کنول کے ذریعے دیے گئے خطبے کو شائع کیا گیا ہے۔پرو فیسر ابن کنول نے ترقی پسند افسانے کا ذکر کرتے ہوئے جدید اور مابعد جدید افسانے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اکیسویں صدی کے افسانے پر موصوف نے سرسری نگاہ بھی ڈالی ہے۔

الیاس احمد گدی حیات و نشانات ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ 944 صفحات کی کتاب میں ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے الیاس احمد گدی کی شخصیت اور ان کی تخلیقات سے متعلق ہر گوشے پر ماہرین کے مضامین کو یکجا کر دیا ہے۔الیاس احمد گدی پر ریسرچ کرنے والے محققین کے لیے یہ کسی تحفے سے کم نہیں۔ کتاب میں تقریباً 80 مضامین شامل ہیں جو الیاس احمد گدی کے تعلق سے وضاحت کے ساتھ ہر گوشے پر سیر حاصل مواد فراہم کرتے ہیں۔کتاب میں شمیم حنفی،وارث علوی،علی احمد فاطمی، علیم اللہ حالی، انور پاشا، عبدالقیوم ابدالی، عبدالمغنی، احمد یوسف،  انیس رفیع، مناظر عاشق ہر گانوی، قیصر شمیم، مشرف عالم ذوقی، نامی انصاری، اے خیام، آفتاب احمد آفاقی، شہاب ظفر اعظمی،عارفہ بشریٰ وغیرہ نامی گرامی لوگوں کے مضامین شامل ہیں۔ خودمرتب کا تقریباً 60 صفحات کا مقدمہ اور کئی مضامین کتاب میں موجود ہیں۔

شفیع مشہدی کے افسانے ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی مرتب کردہ کتاب ہے۔کتاب میں شافع  مشہدی کے 30 افسانے شامل ہیں۔ جن کے مطالعے سے شفیع مشہدی کی افسانہ نگاری کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ان افسانوں کے متعلق ڈاکٹر ہمایوں اشرف کا طویل مضمون(44) بھی شامل کتاب ہے، جس سے شفیع مشہدی کی افسانہ نگاری کے مختلف پہلوئوں پر سیر حاصل روشنی پڑتی ہے۔شفیع مشہدی کے تعارف میں افسانے کے علاوہ ان کے دیگر ادبی کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں بھر پور معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔

شفیع مشہدی کے افسانوں میں ان کے سبھی معروف افسانے شامل ہیں۔کرچیاں، سنیچر شاہ، بنت ِ زلیخا، سید کی حویلی، طوطے کا انتظار، گرتی دیواریں، جلدی کرو،مٹی کی خوشبو،میک اپ،کبوتر،روشنی کی آگ،نیلے بادبان والی کشتی،آہنی ہے پیرہن وغیرہ شامل ہیں،جن کے مطالعے سے شفیع مشہدی کے افسانوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اردو فکشن اور اسلم جمشیدپوری کی تنقیدی بصیرت عرفان عارف کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ جسے قاسمی کتب خانہ،جموں نے عمدگی سے شائع کیا ہے۔ عرفان عارف نوجوان شاعر ہیں۔تحریک بقائے اردو، نامی تنظیم چلاتے ہیں، جس کا روزانہ جلسہ فیس بک کے ذریعے منعقد ہوتا ہے۔ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

کتابِ ٰہذا میں انھوں نے اسلم جمشیدپوری کے ناول،افسانے اور افسانچے پر لکھے مضا مین کو جمع کیا ہے اور ایک مقدمہ لکھا ہے۔ساتھ ہی بڑی عرق ریزی سے صاحب ِ مضامین کا تعارف نامہ جو تقریباً40 صفحات پر مشتمل ہے،تیار کیا ہے۔یہ مضامین طالب علموں کے لیے خصوصاً بہت مفید ہیں۔

اکیسویں صدی میں اردو ناول منظور حسین کی کتاب ہے،جسے قاسمی کتب خانہ،جموں نے شائع کیا ہے۔ منظور حسین نوجوان اسکالر ہیں۔وہ ایسے کام کرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ کتاب میں منظور حسین نے  اس کتاب میں دو درجن ایسے ناولوں پر مختلف اسکالرز کے مضامین کو یکجا کیا ہے،جو اکیسویں صدی میں شائع ہوئے۔کئی اہم اسکالرز کے ناول پر لکھے گئے مضامین کتاب میں شامل ہیں۔ قدوس جاوید، علی احمد فاطمی، صغیر افراہیم، غضنفر،سید احمد شمیم، مولا بخش، انتخاب حمید، نورالحسنین، سید محمد اشرف، خلیل مامون، ریاض احمد، ریاض توحیدی، شاداب علیم کے مضامین طالب علموں کی صحیح رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔

 اردو ناول اور ناولٹ پروفیسر اسلم جمشید پوری کی نئی کتاب ہے۔ 368 صفحات کی اس کتاب کو ماڈرن پبلشنگ ہائوس نے بہت اچھے گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں ناول اور ناولٹ کے متعلق تحقیقی مضامین اور تجزیے شامل ہیں۔ان مضامین کے ذریعے ادب کی د نیا میں ناولٹ کو لے کر جو کنفیوژن ہے،اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب کے آخر میں 2000 سے 2022 تک شائع ہونے والے ناولوں کی ایک فہرست دی گئی ہے۔ساتھ ہی ابتدا سے اب تک کے خاص ناولٹس کی بھی ایک فہرست دی گئی ہے۔ جو ناول یا ناولٹ پر تحقیقی وتنقیدی کام کرنے والوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا  کے نمائندہ افسانے عمران عاکف خان کی مرتب کردہ کتاب ہے۔جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نے شائع کیا ہے۔

کتاب ِ ہٰذا میں عمران عاکف خان نے نعیمہ جعفری پاشا کے افسانوں کاایک انتخاب شامل کیا ہے۔نعیمہ جعفری پاشا کے 28 افسانے کتاب میں شامل ہیں۔ ان افسانوں کے مطالعے سے نعیمہ جعفری کی افسانہ نگاری کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان افسانوں میں نعیمہ جعفری پاشا کے مشہور و مقبول افسانے شامل ہیں۔چوتھی کا ایک اور جوڑا، امر بیل، بابل کا آنگن،ٹوٹا ہوا آدمی، کرائے کی کوکھ، زہریلی دھوپ،اف یہ آسمان،خوبصورت، آنکھوں کی مہکتی خوشبو، چاند کا داغ، داغدار اجالا، کینچوے، ایک وفا ایسی بھی، وغیرہ نعیمہ جعفری پاشا کے اچھے اور نمائندہ افسانے ہیں۔ پھر عمران عاکف خان کا طویل مقدمہ بعنوان ’مابعد جدید افسانے کا نمائندہ نام ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا‘ موصوفہ کے افسانے کی تفہیم میں معاون ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ نعیمہ جعفری پاشا کو مابعد جدید کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں۔ان کے زیادہ تر افسانے ترقی پسندی کا رنگ لیے ہوئے دل کو چھو لینے والے افسانے ہیں۔اگر کتاب میں نعیمہ جعفری پاشا کا تعارف بھی شامل ہوتا تو ان پر کا م کرنے والوں کو آسانی ہوتی۔

اردو ناول نظری اور عملی تنقید ڈاکٹر سفینہ بیگم کی ایک اہم تنقیدی کتاب ہے۔ ناول کی تنقید پر مبنی اس کتاب کو عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ناول کے متعلق مغربی نظریات کے ساتھ ساتھ اردو میں موجود ناول کی تنقید سے بھی بحث کرتی ہے۔سفینہ بیگم ایک سنجیدہ طالب علم ہیں۔ وہ خود بھی ناول نگار ہیں۔ گذشتہ برسوں ان کا ناول ’ خلش‘ ادبی حلقوں میں سراہا جا چکا ہے۔

مذکورہ کتاب میں ناول کے تعلق سے عمدہ تنقید کی گئی ہے۔ ناول کی ہئیت، پلاٹ، اسلوب، کردار، واقعات وغیرہ پر سیر حاصل بحث ملتی ہے۔ اردو ناول میں وجودی عناصر، ناول تنقید کے امکانات،ناول میں اظہار و بیان کے مسائل، اردو ناول میں تاریخ کے تجربات،اردو ناول کی تانیثی قرأت، ناول کا تصور اور اس کی ساخت،بین المتونیت اور اردو ناول، جیسے موضوعات سے سفینہ بیگم نے صحت مند بحث کی ہے۔ساتھ ہی اردو ناولوں کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

سفینہ بیگم نے اپنی کتاب میں کئی چاند تھے سر آسماں (شمس الرحمن فاروقی) غلام باغ، حسن کی صورت حال (مرزا اطہر بیگ) خواب سراب (انیس اشفاق) آخری سواریاں (سید محمد اشرف) شہرِ لازوال، آباد ویرانے(بانو قدسیہ) جیسے معرکۃ الآرا ناولوں کا مختلف زاویے سے مطالعہ  پیش کیا ہے۔ان ناولوں کے مطالعے میں ناول کی نظری اور عملی تنقید کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ ناول پر کام کرنے والے اسکالرز اور تحقیق کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب بہت ضروری ہے۔

قرۃ العین حیدر کے منتخب افسانے ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ کی مرتب کر دہ کتاب ہے۔ ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ کی اس سے قبل بھی ایک کتاب ’قرۃالعین حیدر کے نمائندہ افسانے‘ منظر عام پر آچکی ہے۔ ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی قرۃالعین حیدر پر کی ہے۔ اسی لیے ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ قرۃالعین حیدر کے فکشن  پر اچھی خاصی نظر رکھتی ہوں گی۔ امید کے عین مطابق ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ نے عینی آپا کے  ایسے افسانے منتخب کیے ہیں،جن کا تعلق نصاب سے ہے۔ اودھ کی شام، مونا لیزا، جہاں کارواں ٹھہرا تھا۔ جلا وطن،برف  باری سے پہلے، ڈالن والا، یاد کی ایک دھنک چلے، سکریٹری، دو سیاح اور فقیروں کی پہاڑی،جیسے افسانوں کی شمولیت اور ان کے تجزیے ریسرچ اسکالرزکے لیے بڑے کام کے ہیں۔ آپ نے اس کتاب میںایک مقدمہ بھی لکھا ہے۔جس میں انھوں نے قرۃ العین حیدر کے فکشن اور خاص کر افسانوں سے متعلق بہت کچھ لکھاہے۔

تنقید و تعبیر ڈاکٹر زرینہ بیگم کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹرزرینہ بیگم ویسے تو بنیادی طور پر شاعرہ ہیں۔مگر ان کے مختلف مضامین ہندوپاک کے ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔تنقید و تعبیر،ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔اس کتاب کو مصنفہ نے دو حصوںمیں تقسیم کیا ہے۔پہلے حصے میں شاعری پر تنقیدی مضامین شامل کیے ہیں۔ دوسرے حصے میں فکشن پر تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ جن میں پریم چند،ترقی پسند افسانے،عصمت چغتائی، پریم چند کے بعد اردو افسانہ اور نئے اردو افسانے پر خاطر خواہ مضامین شامل ہیں۔          

 قدرت اللہ شہاب کے منتخب افسانے اور تجزیے ڈاکٹر شبستاں آس محمد کی کتاب ہے۔ڈاکٹر شبستاں ابھرتی ہوئی ناقد ہیں۔ان کی اس سے قبل ایک کتاب ’ جہان قدرت اللہ شہاب‘شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہے۔ جس میں انھوں نے قدرت اللہ شہاب کی سوانح، ناولٹ، افسانے، وغیرہ پر تنقیدی بحث کی ہے۔ڈاکٹر شبستاں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی قدرت اللہ شہاب پر مکمل کی ہے۔

مذکورہ کتاب ’قدرت اللہ شہاب کے منتخب افسانے اور تجزیے‘ میں ڈاکٹر شبستاں نے قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کو جمع کیا ہے اور ان کے تجزیے بھی کیے ہیں۔یہ وہ افسانے ہیں جو آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔مثلاً چندراوتی، ماں جی، دورنگا، جال، پہلی تنخواہ، شلوار، غریب خانہ، اسٹینو گرافر، پکے آم، پھوڑے والی ٹانگ، تلا ش، ریلوے جنکشن،جگ مگ افسانوں کے ساتھ ساتھ ان کے تجزیے اس کتاب میں شامل ہیں۔یہ کتاب قدرت اللہ شہاب اور ترقی پسند افسانے پر کام کرنے والوں کے لیے خاص طور سے مفید ہے۔

کہکشاں پروین فکری و فنی جہات ڈاکٹر مکمل حسین کی مرتب کردہ کتاب ہے۔اس کتاب کے پہلے حصے الف کے سارے مضامین مکمل حسین کے ہیں۔مکمل حسین نے کہکشاں پروین کی ادبی خدمات پر اچھا خاصا لکھا ہے۔ کہکشاں پروین کی تحقیق،تنقید،شاعری اور افسانوں کا مکمل جائزہ پیش کیا ہے۔اس حصے میں کہکشاں پر وین کے مشہور افسانے بھی شامل کیے ہیں۔ ایک مٹھی دھوپ، دھوپ کا سفر،سرخ لکیریں،پانی کا چانداور مور کے پائوں جیسے مشہور افسانے شامل کیے گئے ہیں۔

کتاب کے دوسرے حصے میں مشہور ومعروف ناقدین اور فکشن نگاروں کے مضامین شامل کیے ہیں۔ قمر جہاں، ہمایوں اشرف، شموئل احمد، عبیداللہ ہاشمی، اختر آزاد، غالب نشتر، ارشاد سیانوی، لائق فاطمہ نقوی، شرافت حسین، خورشید پر ویز صدیقی، عرفان کوثر اور تقریباً ایک درجن اسکالرز کے مضامین شامل ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے کہکشاں پروین کی مکمل شخصیت اور فن ابھر کر سامنے آتا ہے،جو مکمل حسین کی تنقید کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

افسانچہ اور افسانچہ نگار کتاب اسلم جمشید پوری کی تحریر کردہ ہے۔ اس کتاب میں افسانچے کے فن پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔افسانچہ کب اور کس ادیب کے ذریعے وجود میں آیا۔ کس نے اسے افسانچہ نام دیا۔ کن کن افسانچہ نگاروں نے اس کے فروغ میں حصہ لیا۔ موجودہ اور ماضی کے عہد کے معروف افسانچہ نگار اور ان کے افسانچے اس میں شامل ہیں۔پہلی بار افسانوں کے تجزیے بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ افسانچے پر کام کرنے والے طالب علموں کے لیے یہ کتاب کام کی ہے۔

قرۃالعین حیدر کے 52 افسانے ڈاکٹر نازیہ بیگم جافو خان(ماریشس) کی کتاب ہے،جسے کتابی دنیا،لاہور نے شائع کیا ہے۔اس سے قبل بھی نازیہ بیگم کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ قرۃالعین حیدر ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔پچھلے سال بھی قرۃالعین حیدر پر ان کی کتاب شائع ہوئی تھی۔

ڈاکٹر نازیہ بیگم گا ندھی انسٹی ٹیوٹ، ماریشس میں پروفیسر ہیں۔مذکورہ کتاب میں نازیہ بیگم نے عینی آپا کے سارے افسانوں کے تجزیے کیے ہیں۔انھوں نے عینی آپا کے پانچوں افسانوی مجموعوں،ستاروں سے آگے،شیشے کے گھر،پت جھڑ کی آواز،روشنی کی رفتاراور جگنوئوں کی دنیا کے ہر افسانے کا تجزیہ کیا ہے۔

’تجزیہ میں پلاٹ، کردار، پس منظر، نقطۂ نظر، اسلوب، وحدت تاثراور آغاز و اختتام پر افسانے کے فن کی مناسبت سے بحث کی گئی ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ افسانہ کس نو عیت کا ہے۔‘‘

(قرۃالعین حیدر کے 52 افسانے، ڈاکٹر نازیہ بیگم جافو خان،پیش لفظ)

بارود اور کونپل،عارف نقوی (جرمنی ) کے منتخب افسانے اسلم جمشید پوری کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس کتاب میںعارف نقوی کے بیس افسانے اور پانچ افسانچے شامل ہیں۔ساتھ ہی اسلم جمشید پوری کا ایک طویل مقدمہ جس میں عارف نقوی کی شخصیت اور فن پر بحث کی گئی ہے۔عارف نقوی کی افسانہ نگاری کے مختلف شیڈس کا انکشاف بھی اس مقدمے میں ہے۔

عارف نقوی یوں بھی کثیر رخی فنکار ہیں۔وہ افسانہ نگار، افسانچہ نگار، شاعر، صحافی، سفر نامہ نگار، محقق و ناقد، خاکہ نگار، ناولٹ نگارکے ساتھ ساتھ اچھے استاد بھی ہیں اور ان کے معروف افسانوں میں بارود اور کونپل، زلیخا، رکشے والا، پشیمانی، کیرم بورڈ، تعویذ، نوکر، سوئے فردوس بریں، بیرک نمبر 108، پہلا جوتا، لوسی، پاسپورٹ وغیرہ ہیں۔ ان افسانوں میں عارف نقوی کا ترقی پسند نظریہ واضح ہے۔ جو منفی حالات میں بھی،مثبت قدروں کا امین رہتا ہے۔

خاموش صدائیں صبیحہ تزئین کے ذریعے مرتب کر دہ کتاب ہے،جسے عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔اس کتاب میںمحبت کے موضوع پر 12 افسانوں کو جمع کیا گیا ہے۔ ایسی کوشش پہلے بھی عابد سہیل نے کی تھی۔اس کتاب میں ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو محبت کے جذبات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوں۔وہ خواہ کسی بھی عہد کی ہوں۔لہٰذا اس کتاب میں بھی قرۃالعین حیدر،قاضی عبدالستار،ضمیر الدین احمد،عبد اللہ حسین،سے لے کر موجودہ عہد کے شفیع جاوید،زاہدہ حنا،صدیق عالم،مشرف عالم ذوقی، خورشید اکرم،سہیل وحید،عمر عادل،ضمیر الدین احمد کی کہانیاں شامل ہیں۔

دھنورا اسلم جمشید پوری کا پہلا ناول ہے۔جو کولاژ تکنیک میں گائوں دیہات کے منظر اور پس منظرمیں لکھا گیا ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار کی شکل میں گائوں، دھنورا ہے۔ باقی سبھی کردار آتے ہیں،اپنا رول ادا کرتے ہیںاور چلے جا تے ہیں۔یہ اردو ناول میں ایک تجربہ ہے۔ناول کے بارے میں نوجوان محقق وناقد ڈاکٹر ابرا ہیم افسر لکھتے ہیں

’’ناول ’دھنورا‘ کا اندازِ پیشکش اتنا دل کش، شستہ اور رواں دواں ہے کہ ہر باب میںقاری اپنے آپ کو ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ گاؤں کی جزئیات،شادی بیاہ،کھیل تماشے، کاروباری لین دین،کھیتی باڑی کے طریقے،نوکری چاکری کے لیے گاؤں سے باہر نکلنا، گھرکے بام و در میں ہونے والی گفتگو،جمعے کی نماز پڑھنے کے لیے دوسرے گاؤں کا سفر،مندر میں ہونے والی آرتی،گاؤں کی عورتوں کے مسائل،ہجرت کا کرب،اپنے لوگوں سے بچھڑنے کا درداورمالی مسائل وغیرہ کاپروفیسر اسلم جمشید پوری نے خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے   ‘‘

(ناول دھنورا کا تجزیاتی مطالعہ،ڈاکٹر ابرا ہیم افسر، سہ ما ہی عالمی فلک، شمارہ نمبر9-10، دھنباد،ص 103)

 محصور پرندوں کا آسمان نئی نسل کی افسانہ نگار حمیرا عالیہ کا پہلا ناول ہے،جسے عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔حمیرا عالیہ کا اپنا انداز ہے۔انھوں اس ناول کے ذریعے خود کو ثابت کیا ہے۔ان کے یہاں پختگی ہے۔ وہ اچھی زبان لکھتی ہیں۔ان کا بیانیہ پر اثر ہے۔

سسٹم عبد الصمد کا تحریر کردہ تازہ ناول ہے،جسے کتاب دار نے شائع کیا ہے۔عبد الصمد ہمارے ان فکشن نگاروں میں ہیں، جنھوں نے ہمیشہ نیا لکھا ہے۔ ملک کی تازہ صورت حال ان کے ناولوں سے منعکس ہوتی ہے۔وہ جوں جوں عمر کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں،ان کی تخلیقیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔تقریباً ہر سال ان کا ایک ناول یا افسانوی مجموعہ یا کوئی کتاب منظر عام پر آتی ہے۔اس سے قبل اک کا ناول’کشکول‘ شائع ہوکر مقبول ہو چکا ہے، جو کورونا جیسی مہلک بیماری میں فقیروں کی سر گر میوں کو عمدگی سے اجا گرکرتا ہے۔

مذکورہ ناول ’سسٹم‘بھی حالاتِ حاضرہ کا عکاس ہے۔ اس ناول میں پولس محکمے کی بد عنوایوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔مرکزی کردار’میں‘ہے جو محکمہ پولس میں سپاہی ہے۔ ایک سپاہی کے ذریعے پورے پولس ڈپارٹمنٹ کے طریقۂ کاریعنی سسٹم پر سوال اٹھا ئے گئے ہیں۔ مال کے بٹوارے کانظام سمجھایا گیا ہے۔اس کی بیوی زلیخا ایک مذہبی عورت ہے اور رشوت کو اپنے،اپنے بچوں اور پورے گھر کے لیے زہر سمجھتی ہے اور ساری زندگی عسرت میں گذار دیتی ہے،جبکہ ناول کا مرکزی کردار رشوت لیتا ہے۔انور اس کا کہانی کار دوست ہے۔ راجو ایک گھاگ سیاست داںہے۔اور ’میں ‘کا دوست بن جاتا ہے۔اس کے ریٹائر منٹ کے بعد اسے اپنے یہاں رکھ لیتا ہے۔ یہاں سیاست کے گھنائونے سسٹم کی پرتیں کھلتی ہیں۔پورا ناول پولس محکمے اور سیاست کی بد عنوانیوں،عمل اورمال کے بٹوارے کے گرد گھومتا ہوا زندگی کے کئی رخ کی نقاب کشائی کرتا ہے۔    

شہر ِ ذات شاہد اختر کا نیا ناول ہے۔ شاہد اختر اردو فکشن کا ایک مستند نام ہے۔ان کے افسانے اور ناول انفرادیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل ان کے تین افسانوی مجموعے، برف پرننگے پائوں،مونٹی،خوابگینے اور ایک ناول شہر میں سمندر آکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

مذکورہ ناول ’ شہر ِ ذات‘ دراصل انسان کی باطنی حالت اور کیفیت کوظاہر کرتا ہے۔یہ ناول جتنا معاشرے کی تبدیلیوں کوظاہر کرتا ہے،اتنا فرد کی نفسیات اور اس کے اندرون کو بھی پیش کر تا ہے۔ناول کا مرکزی کردار خرم ہے۔ دوسرے کرداروں میں انترا،خرم کی ماں، ماموں، بھائی جان، جمیلہ بھابھی وغیرہ    ہیں۔خرم کی اچانک موت سے قاری بھی پریشان ہوجاتا ہے۔مگر یہ ایک فطری موت ہے۔ناول کے بارے میں شعیب نظام لکھتے ہیں

’’پورا ناول شروع سے آخر تک قاری،کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور خرم کے کردار کے ذریعے باہر سے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو بہت فنکاری سے پیش کیا گیا ہے۔یہ ناول جتنا خارج کو اپنے احاطے میں لیتا ہے،اس سے زیادہ داخلی دنیا میں اتھل پتھل مچاتا ہوا اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ اسی لیے اس کاعنوان بھی شہر ِ ذات ہے۔ ‘‘

(شہر ذات،شاہد اختر،ص11)

’کوشل خاتون‘ کی شکل میں ان کا نیا ناولٹ بازار میں آیا ہے۔ ایک نئے مسئلے کو ان کے اسلوب نے ایسا گرفت میں لیا ہے کہ لگتا ہے وہ عام مسئلہ ہے۔گھر گھر کی کہانی ہے۔ماں باپ کی توجہ جب اپنے بچوں خاص کر بچیوں کی طرف نہیں ہوتی ہے،تو ایسے گل کھلتے ہیں۔ایک دو کمروں میں کئی کئی بچوں کے ساتھ رہنے میں  ایسے ایسے جنسی مسائل پیدا ہوتے ہیں،جو والدین نے سو چے بھی نہیں ہوتے۔لڑکیوں کی بے راہ روی ایک خطرناک نتائج سامنے لاتی ہے۔اور والدین کا سرشرم سے جھکتا ہی نہیں بلکہ وہ کہیں منھ بھی دکھا نے کے لائق نہیں رہتے۔شفق سو پوری نے کوشل خاتون،کی شکل میں آنکھیں کھول دینے والا کردار اور واقعات قلمبند کیے ہیں۔

 بجھتے جلتے چراغ عار ف نقوی کا تازہ ناولٹ ہے۔ عارف نقوی زود گو قلم کار ہیں۔انھوں نے ادب کی کئی اصناف میں کامیاب طبع آزمائی کی ہے۔یہ ان کا پہلا ناولٹ ہے۔

اس ناولٹ کی کہانی جرمنی، ترکی، عراق، لکھنؤکی تہذیب و تمدن کو پیش کر تی ہے۔آدھی سے زیادہ کہانی لکھنؤکے ارد گرد گھومتی ہے۔ماریہ اور ساجد دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ساجد لکھنؤکا رہنے والا ہے۔ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ عارف نقوی کا تعلق لکھنؤسے ہے۔ان کا بچپن لکھنؤکی گلیوں اور محلوں میں گزرا ہے۔اس ناولٹ کے مرکزی کردار ساجد میں کبھی کبھی عارف صاحب کی جھلک نظر آتی ہے۔

اپنا اپنا سچ دیپک بد کی کا نیا ناولٹ ہے۔ دیپک بدکی کا یہ پہلا ناولٹ ہے۔اس سے قبل دیپک بدکی کے قلم سے آٹھ افسانوی مجموعے، دو افسانوں کے مجموعے، دس تنقیدی کتب، ایک سوانح، ایک تحقیقی کتاب نکل چکی ہیں اور اب یہ ناولٹ’اپنا اپنا سچ‘۔ دیپک بدکی کی تخلیقات میں کشمیری پنڈتوں کا درد و کرب جھلکتا ہے۔اور ایک ایسی ہجرت کا غم بھی آشکار ہوتا ہے،جو انھیں اپنی زمین سے اجڑنے کا سبب بنی تھی۔

ناولٹ، اپنا اپنا سچ،میں انھوں نے کشمیر کی قدیم تاریخ، جب ہندو مسلمان شیر و شکر کی طرح ایک ہو کر رہتے تھے،کا بیان کیا ہے۔کشمیر ہندوئوں کا تھا یا مسلمانوں کا۔ دونوں اپنی اپنی کہانی بیان کرتے ہیں۔ دونوں اپنی جگہ صحیح ہیں۔ معاملہ سیاست کا ہے۔ 1947 میں جب ملک تقسیم ہوا اور ایک بار حضرت بل سے موئے مبارک غائب ہو گیا تھا۔ ان دو مواقع پر پورے علاقے نے فرقہ وارانہ فسادات نہ صرف دیکھے بلکہ جھیلے۔ ناگرائے اور ان کی بیوی  ہمالہ اور بیٹے اگنی شیکھر نے ہجرت کے دردناک عذاب کا سامنا کیا۔ پورے ناولٹ میں ہندئوں اور مسلمانوں کا انمٹ میل جول،فرقہ واریت،ہجرت کے تماشے وغیرہ کو دیپک بدکی نے تاریخی نقطۂ نظرسے ناولٹ کے قالب میں کامیابی سے ڈھالا ہے۔

 سبز پوش خاتون طٰہ نسیم کا تاریخی ناولٹ ہے۔

مذکورہ ناولٹ ’سبز پوش خاتون‘ دراصل 1857 کے بطن سے پیدا حالات میں ایک خاتون کی بہادری کی کہانی ہے۔یہ کہانی دہلی کی ایک بہادر دوشیزہ روشن کی ہے،جس نے اپنی جنگی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی سے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیے۔روشن نے جنگی آلات،گھوڑا،اور تلوار چلانے کی مشقیں کی،پھر اپنے وفا دار ساتھیوں کا ایک ٹولہ بنا کر ہر محاذ پر انگریزوں کے دانت کھٹے کیے۔ بارہا انگریزوں کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔روشن کی پلاننگ اتنی زبر دست ہوتی تھی کہ انگریز بہت زمانے تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ان کو نقصان کس نے پہنچایا ہے۔طٰہ نسیم کو روشن جیسے کردار کو سامنے لانے کے لیے مبارکباد۔

بالکونی ماریشس کی نوشین نورمحمد کا ناولٹ ہے۔نوشین نورمحمد گاندھی انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ ہیں۔ ماریشس کی تاریخ میں یہ پہلا ناولٹ ہے۔

مذکورہ ناولٹ میں کورونا جیسی مہلک بیماری سے ناولٹ کی کہانی پروان چڑھتی ہے۔نتاشا اس ناولٹ کا مرکزی کردار ہے۔ جو بچپن سے ہی ہکلاتی ہے،مگر بہت مترنم آواز میں گاتی ہے۔گاتے وقت اس کی زبان ٹھیک ہو جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ کافی شہرت اور پیسہ کی لیتی ہے۔ جس سے وہ اپنا علاج کراتی ہے اور ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اس کے والد اس کی ہکلاہٹ کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔اور اس سے کتراتے ہیں۔اسے بھی اپنے والد سے نفرت ہو جا تی ہو۔ کورونا کا زمانہ آجا تا ہے۔نتاشا کورونا کے زمانے میں کافی خدمت خلق کرتی ہے۔ ایک اچھا جذباتی ناولٹ ہے۔نوشین سے بہت سی توقعات ہیں،آئندہ وہ اس سے اچھا ناول لکھیں گی۔ 

*       بہت سے رسائل نے اردو کے فکشن اور فکشن نگاروں پر نمبر اور گو شے نکال کر فکشن کی خدمت کی ہے۔

n

Prof. Aslam Jamshedpuri

HOD, Dept of Urdu

Chaudhary Charan Singh University, Ramgarhi, Meerut- 250001 (UP)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں