9/3/23

اکبر الٰہ آبادی: رباعی گو درویش:سعدی صدف


اکبر نے 1846 کو بارہ، ضلع الہ آباد میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔1874میں وکالت کی ڈگری حاصل کی۔1988 میں سب جج مقرر ہوئے۔ پھر ساری زندگی وکالت کرتے رہے۔اس قدر علم کے حصول کے باوجود اکبر نہایت ہی خلیق، منکسرالمزاج، مشفق و مہربان شخص تھے۔ صداقت و ہمدردی، شوخی و ظرافت کے ساتھ ان کے مزاج میں رچی بسی ہوئی تھی۔ زود گو ئی بھی ان کے افکار پر دال ہے کہ انھوں نے چار کلیات یاد گار چھوڑی۔ جن میں غزلوں،مثنویوں، قطعات کے ساتھ ساتھ رباعیاں بھی شامل ہیں۔ان کی غزلوں میں رومان کے ساتھ طنز کی ٹیس بھی ملتی ہے۔ یہی حال ان کے قطعات کا بھی ہے۔ لیکن طنز کی ٹیس سے زیادہ مزاح کا پہلو ہے۔ جو قاری کو مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ واقعی ہماری تہذیب کی جڑیں اکھڑنے پر آچکی ہیں، بعض اوقات یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ اکھڑ چکی ہیں۔

صنف رباعی کی بات کریں تو تصوف و اخلاق ان کا خاص وصف ہے۔بے ثباتیِ دنیا اور نصیحت کے پہلو بھی اس میں شامل ہیں۔اکبر نے بھی اپنی رباعیوں میں ان مضامین کو پیش کیا لیکن ان کے ساتھ طنزو مزاح کا تڑکا بھی لگایا۔ یہ اور بات کہ کہیں کہیں طنز کی کاٹ اتنی شدید ہے کہ مزاح کا پہلو اس کے پس پشت ہوگیا ہے۔ اکبر کی رباعیوں کی تعداد260 ہے۔جو ان کے تینوں کلیات میں شامل تھیں۔ ان رباعیوں کو ’رباعیات اکبر‘ کے نام سے ادب اطفال کے معروف و خوش فکر شاعرعادل اسیر دہلوی مرحوم نے 2013میں مرتب کیا۔ ان رباعیوں کے مطالعے سے اکبر بحیثیت انشا پرداز و صوفی بزرگ کے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یعنی ایک ایسے شخص کی صورت میں جو نہایت ہی مذہبی ہے۔اور اسی وصف کے ساتھ معاشرے کو بارہا یہ پیغام دیتا ہوا، یہ نصیحتیں کرتا نظر آتا ہے کہ دنیا سے دل لگی ٹھیک نہیں۔ فکر آخرت میں ہی نجات مضمر ہے۔آئیے ان کی رباعیاں ملاحظہ فرمائیں         ؎

کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسا پایا

غفلت ہی میں آدمی کو ڈوبا پایا

آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن

کم تھیں بخدا جن کو بینا پایا

 

دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد

افکار سے رہتی ہے طبیعت ناشاد

دو ہی چیزیں ہیںبس محافظ دل کی

عقبیٰ کا تصور اور اللہ کی یاد

 ان رباعیوں کے مطالعے سے اکبر کی شبیہ ایک شاعر کی جگہ ایک بزرگ کے طور پر ابھرتی ہے۔یعنی ایک ایسا تجربہ کار شخص جس نے دنیا کو بڑے قریب سے دیکھا اور اس کی ناپائیداری سے خوب واقف بھی ہے۔اس کے تجربے نے اسے اتنا پختہ کار بنادیا ہے کہ وہ بہ بانگ دہل یہ کہنے پر بضد ہے         ؎

 جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

بے ثباتیِ دنیا کو کس خوبصورتی سے اس رباعی میں پیش کیا ہے        ؎

دنیا سے میل کی ضرورت ہی نہیں

مجھ کو اس کھیل کی ضرورت ہی نہیں

درپیش ہے منزل عدم اے اکبر

اس راہ میں ریل کی ضرورت ہی نہیں

اکبر کی شاعری کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کا زاویۂ نظر اوروں سے مختلف تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فطرت نے ان کے اندر حس مزاح کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ اسی فطری عنصر کی مہربانی رہی کہ انھوں نے بڑی سے بڑی بات بھی مزاح کے توسط سے کہہ دی کہ سننے والے کو گراں نہ گذری اور ان کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ مقصد پورا ہونے سے یہ مراد ہے کہ اکبر بحیثیت ایک انسان کے اپنی قوم و ملت کے لوگوں کے برے حال پر کف افسوس تو مل رہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی وہ انھیںاس پستی و ذلت سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ بس ان کا طرز اظہار جداگانہ تھا۔یعنی جب ہمیں کوئی بات چبھتی ہے یا معاشرے کا کوئی رنگ ہم پر اثر انداز نہیں ہوپاتا تو ہم اس سے یا تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں یا پھر اپنی فطری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کیونکہ دیرینہ توہمات کا خاتمہ کسی اکیلے کے بس کی بات نہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک آدمی ہی بغاوت کا محرک بھی بنتا ہے۔اکبر نے بھی اپنے جذبات اور اپنے مطالب کی ترسیل کے لیے شاعری کی راہ  اختیار کی۔ یاد رہے کہ جس زمانے میں اکبر طنزو مزاح کی پھلجھڑی جلا رہے تھے اسی زمانے میں شاعر مشرق علامہ اقبال اپنی سنجیدہ شاعری سے اور سر سید احمد خان اپنی تحریک اور اپنے مقالات کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی اور ان کے قلب کو گرمانے کی کوششیں کررہے تھے۔ ان بزرگوں کے طرز ایک دوسرے سے جدا ضرور تھے لیکن مقصد ایک ہی تھا۔ اس اخلاقی فریضے کی ادائیگی اکبر نے اپنی رباعیوں میں بھی کی ہے۔ یعنی انھوں نے اخلاقی مضامین کو اپنے طور پر رباعیوں میں محفوظ کردیا ہے جن کی صداقت سے مفر کسی دور میں بھی ممکن نہیں۔ نمونے کے طور پرچند رباعیاں پیش خدمت ہیں           ؎

ہو علم اگر نصیب تعلیم بھی کر

دولت جو ملے تو اس کو تقسیم بھی کر

اللہ عطا کرے جو عظمت تجھ کو

جو اہل ہیں اس کے ان کی تعظیم بھی کر

 

بے سود ہے گنج و مال و دولت کی تلاش

ذلت ہے دراصل جاہ و شوکت کی تلاش

اکبر تو سرور طبع کو علم میں ڈھونڈ

محنت میں کر سکون و راحت کو تلاش

ان رباعیوں میں شاعر نے کتنی اہم باتیں کتنے سہل انداز میں پیش کی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے ساتھ ساتھ زندگی کا شعور بھی عطا کرتی ہے۔لیکن اکثر انسان علم حاصل تو کرلیتا ہے مگر شعور سے عاری رہ جاتا ہے۔ علم اور دولت دونوں ہی محنت سے تقدیر کے دامن میں جگہ پاتے ہیں۔لہٰذا علم ہو کہ دولت ان کے حصول کے بعد انھیںدوسروں تک پہنچانا بھی کارِ خیر ہے۔بے شک اس کی صورت کوئی بھی ہو۔فائدہ اسی میں ہے کہ خدا کی جانب سے جو بھی نعمتیں ہمیں میسر ہیں انھیںدوسروں تک پہنچائیں۔ جو ان نعمتوں سے محروم ہیں انہیںان نعمتوں میں شریک کرکے خلق خدا کی خوشنودی حاصل کریں تب ہی خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکے گی۔ کیونکہ محبت ہوکہ عزت، عظمت ہو کہ دولت،یہ سب بانٹنے سے گھٹتی نہیں بڑھتی جاتی ہیں،بڑھتی ہی جاتی ہیں۔اسی سے ثوابِ لطفِ زندگی ہے۔ اسی سے تہذیب معاشرت پنپتی ہے۔ مذہب اور معاشرت بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ اگر ان میں اختلاف ہوگا تو معاشرہ ناپائیداری کا شکارہو جائے گا۔نتیجتاً خسارہ ہی خسارہ ہاتھ آئے گا        ؎

مذہب کا معاشرت سے ہے ربط کمال

دونوں جو ہوں مختلف تو آرام محال

پہلے یہ مسئلہ سمجھ لیں احباب

بعد اس کے رفارم کا کریں دل میں خیال

 

گر جیب میںزر نہیں تو راحت بھی نہیں

بازو میں سکت نہیں تو عزت بھی نہیں

گر علم نہیں تو زور و زر ہے بے کار

مذہب جو نہیں تو آدمیت بھی نہیں

ان رباعیوں میں اکبر نے مذہب کی اہمیت کو واضح کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ اکبر کا نظریہ زندگی بھی ہم پر آشکار ہوجاتا ہے کہ مذہب کا معاشرت سے گہرا تعلق ہے یا یہ کہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

اکبر کے طرز سخن سے ان کے زمانے کا رنگ صاف ظاہر ہے۔ یعنی ان کے عہد کی تصویر کشی ان کے کلام سے ہوجاتی ہے۔یہی وہ زمانہ تھا کہ جس میں سرسید جیسا محب قوم بھی اپنی تحریک کا علم تھامے،علی گڑھ کی بنیاد کو مضبوط ترین کرنے میں ہمہ تن مصروف تھا۔ سرسید نے بہت پہلے اس ضرورت کو محسوس کرلیا تھا کہ ہماری قوم توہمات اور دقیانوسیت میں مبتلا ہے۔ قوم کی زبوں حالی اسی وقت خوش حالی میں بدل سکتی ہے جب ہماری قوم جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو۔اسی لیے انھوں نے ایسے مقالات لکھے جو اس وقت خفتہ قوم کو بیدار کرنے کے لیے ضروری تھی۔ انگریزوں سے ان کے مراسم اچھے تھے اس سبب انھیںعلی گڑھ مسلم کالج کے قیام میں کافی مدد ملی۔خوش نصیب تھے کہ اپنی جدو جہد کے ذریعے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر لیا۔ نسل درد نسل ان کے اس کارنامے سے فیض پاتی رہی ہے اور آگے بھی فیض پاتی رہے گی۔ اس مناسبت سے اپنی قوم کا افتخار بلند کرنے میں سرسید سبقت لے گئے۔کام بڑا تھا تو دشواریاں بھی بڑی بڑی درپیش تھیں۔ ہم سب واقف ہیں کہ اس دردمند انسان کو کالج کے قیام میں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان کا عزم کسی بھی صورت کمزور نہ ہوسکا۔اکبر سرسید کی کوششوں کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن ان کے طرز زندگی سے ناخوش نظر آتے ہیں۔کیونکہ سرسید کے مطابق جدید تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ہمیں اپنی زندگی میں بھی جدیدیت کو اپنا نے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس جدت پسندی کے اختیار سے کسی بھی صورت یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ انھوں نے مذہب کو ترک کرنے کی بات کہی ہو۔ممکن ہے کہ جدیدت کا خمار اس قدر چھایا ہوگا کہ لوگ مذہب بیزاری پر بھی تیار ہوگئے ہوں گے۔ اسی لیے اکبر کے طنز کے نشتر اس پہلو پر بھی پڑے اور انھوں نے سر سید کی تحریک اور خود سرسید سے بھی چھیڑ چھاڑ کی         ؎

سید صاحب سکھا گئے ہیں جو شعور

کہتا نہیں تم سے میں کہ ہو اس سے نفور

سوتوں کو جگا دیا انھوں نے لیکن

اللہ کا نام لے کے اٹھنا ہے ضرور

 

سرسید کو فلک نے تننے نہ دیا

تہذیب کو پھر دوبارہ جننے نہ دیا

ملت کی شکست میں مدد دی کامل

بننے لگی قوم جب تو بننے نہ دیا

گرچہ اکبر نے ایک مدت تک سر سید کے نظریات سے اختلاف کیا لیکن انھیںقریب سے جاننے کے بعد وہ ان کے معترف بھی ہوئے اس سلسلے میں عبدالماجد دربادی جیسے انشا پرداز رقم طراز ہیں کہ

’’اکبر مذہب کے بڑے حامیوں اور مشرقیت کے خاص طرف داروں میں تھے۔ اور یہ بات یاد رہے کہ وہ وقت تھا جب ’رفارم‘یا اصلاح وتجدد کا جھنڈا سید احمد خاں مرحوم کے ہاتھ میں تھا۔ اکبر ان کے معاصر تھے۔ گو سن میں کہیں ان سے چھوٹے اور علی گڑھ میں خود منصف رہ کر ’رفارم‘ یا تجدد کے کرشمے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ کلام میں خوب ہی خوب چٹکیاں لیتے جاتے ہیں لیکن یہ چٹکیاں بھی عموماً گدگدی کے رنگ میں ہوتی ہیں۔‘‘

 (اکبر نامہ، مرتبعبد العلیم قدوائی، ص305، ادارۂ انشاے ماجدی، کلکتہ2008)

یقیناً سرسید اور اکبر کا مقصد ایک تھا۔گرچہ انھوں نے سرسید کی تحریک اور ان کے مغربی رنگ ڈھنگ پر طنز کے تیر چلائے لیکن علی گڑھ مسلم کالج کے قیام سے وہ بھی متاثر تھے اورپھر سرسید کو قریب سے جاننے کے بعد وہ ان کی اس کامیابی پر خوش بھی تھے۔اس کی تصدیق ’رباعیات اکبر‘ کے مرتب عادل اسیر دہلوی صاحب کے ان جملوں سے ہوجاتی ہے

’’سر سید کی تحریک سے اکبر الہ آبادی کو اختلاف تھا جس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ کیا ہے۔ وہ انگریزوں کی اندھی تقلید کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن جب علی گڑھ میں رہ کر سرسید کی تحریک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کے خیالات بدل گئے۔‘‘

(رباعیاتِ اکبر، مرتب عادل اسیر دہلوی، ملک بک ڈپو، دہلی، 2013، ص6 )

اس لیے اب اکبر اپنی قوم کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ بہتر ہے کہ اب ہر طرح سے علی گڑھ کا قصد کیا جائے۔کیونکہ وہاں ہر طرح کا درس اور علوم کی سبیلیں موجود ہیں۔ان کے مطابق علی گڑھ کالج مسلمانوں کے گلدان کا گلدستہ ہے۔قوم کی ترقی کا راز اب یہیں سے افشا ہونا ہے۔اس طرح اکبر خود بھی سر سید کی تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور پھر اس اعتراف کے ساتھ سرسید کی تعظیم میں بھی اکبر رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ بننا ہے اگر تو سرسید بنو۔ورنہ انگریزی تعلیم تو ہر کوئی حاصل کررہا ہے۔ یعنی سر سید کو اپنا آئیڈیل بنانا نئی نسل کے لیے ضروری ہے تاکہ قوم کی ترقی تیز تر ہو سکے۔یعنی کوئی ایسا کارنامہ انجام دینے کی ٹھانے جس طرح سرسید نے کیا اور علی گڑھ جیسا تحفہ مسلمانوں کو عطا کردیا          ؎

بہتر ہے یہی کہ اب علی گڑھ چلیے

رکیے نہ کسی کے واسطے بڑھ چلیے

جس فن کا ہو درس ہوجیے اس میں شریک

جو پیش آئے سبق اسے پڑھ چلے

 

ظاہر میں اگرچہ راز سر بستہ ہے

مضمون لطیف و خوب برجستہ ہے

پودا نہیں پھول کا علی گڑھ کالج

گلدان میں مسلموں کا گلدستہ ہے

 

اعزاز نسب کے مٹتے جاتے ہیں نشاں

اگلے سے خیال ہند میں اب وہ کہاں

سید بننا ہو تو بن سر سید

ہونا ہو خان تو تم ہو انگریزی خواں

اکبر نے طنز کے لیے معاشرے کے کم و بیش تمام پہلوؤں کواپنے دائرۂ کار میں لیا۔انھوں نے انسانوں کی بے لگام خواہشات اور ان کی مطلب پرستی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ذیل کی رباعیاں اسی ضمن میں پیش کی جاتی ہیں۔یہ رباعیاں ان کے تجربے کی دلیل بھی ہیں ساتھ ہی انسانی فطرت کی بے ضمیری پر بھی دال ہیں          ؎

تکمیل میں ان علوم کے ہو مصروف

ٹیچر کی جو طاقتوں کو کردیں مکشوف

لیکن تم سے امید کیا ہو کہ تمھیں

عہدہ مطلوب ہے وطن مالوف

 

ہے حرص و ہوس کے فن کی مجھ کو تکمیل

غیرت نہیں میری بزم دانش میں دخیل

ہیں نفس کی خواہشیں بہت مجھ کو عزیز

جب چاہیں کریں خوشی سے مجھ کو ذلیل

اسی طرح اب ان رباعیوں کو بھی دیکھیے۔ ایک تو خواہشات کی غلامی اس پر نقالی۔ان بری خصلتوں کے سبب قوم کی حالت ابتری کانمونہ بن چکی ہے۔ اکبر نے ان بشری کمزوریوں سے پاک رہنے کی تلقین اپنے انداز میں یوں کی ہے        ؎

ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے

بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی ہے صابون بھی ہے

لیکن یہ میں تجھ سے پوچھتا ہوں ہندی

یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے

 

جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں

جو بات ہے کام کی وہ چلنے کی نہیں

یہ بھی ہے بہت کہ دل سنبھالے رہیے

قومی حالت یہاں سنبھلنے کی نہیں

اکبر کی مذکورہ رباعیوں کے مطالعے سے ان کے فکرکی کئی گرہیں ہم پر کھلیں جن سے ان کے تخیل کی بلندی کا احساس ہوجاتا ہے۔ خاص کر اس درد مند دل سے شناسائیت کا موقع ملتا ہے جو اپنی قوم کی مفلوک الحالی پر ماتم کناں تھا۔طنز کے پیرائے میں اکبر نے مذہب و معاشرت کے تمام تر کمزور پہلوؤں پر کاری ضرب لگائی اور خفتہ ذہنوں کو بیدار کرنے کا وہی کام کیا جو سرسید اور علامہ اقبال نے اپنی تخلیقات سے کیا۔گرچہ ان کے انداز جداگانہ رہے لیکن مقصد بہر حال ایک ہی تھا۔اکبر کی رباعیاں صاف ظاہر کردیتی ہیں کہ وہ ایک صوفی شاعر ہیں۔ان کی رباعیات کا مطالعہ کرنے پر قاری کو مختلف موضوعات، عام طور پر وہ موضوعات جو رباعی کا خاصہ ہیں مثلاً پند و نصیحت، اخلاقی مضامین، بے ثباتیِ دنیا کا ذکر، زہد و تقویٰ، گناہ و ثواب کے فلسفے اور تصوف کے مضامین ملتے ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تر رباعیوں میں یہ پیغام ملتا ہے کہ زندگی کا سفر بغیر مذہب کی پیروی کے ممکن نہیں۔مذہب سے دوری یا لاعلمی دنیا و آخرت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ چاہے تعلیمی لیاقت کتنی ہی ہو، ہمیں اپنی تہذیب اپنے مذہب کی جڑوں سے لپٹے رہنے میں ہی کامیابی ملے گی۔کائنات کے ذرے ذرے میں خدائے واحد کی جھلکیاں ہیں جن کو باطنی آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔شاعر خود اپنی رباعیات میں تصوف کے مضامین پرو رہا ہے اس کا اعتراف خود اس کی ربایوں سے ہوجاتا ہے          ؎

دینی پہلو کو اے برادر دیکھو

کانٹوں سے محترز گلِ تر دیکھو

نظم اکبر ہوئی ہے منقوش قلوب

آنکھیں ہوں اگر خدا کا دفتر دیکھو

 

سوجھا نہیں خود غرض کو آئین ثواب

جتنا چھوڑوگے ہم کو تم ہوگے خراب

واللہ یہی نتیجہ ہوگا پیدا

دنیا میں حقارت اور عقبیٰ میں عذاب

 

ہر ایک کو ایک دن اجل آنی ہے

دنیا گزراں ہے، ہیچ ہے فانی ہے

لیکن مرنا جو عالم وجد میں ہو

گویا کہ شعاع نورِ یزدانی ہے

اکبر کی ان رباعیوں میں مذہب و معاشرت کے مختلف رنگ موجود ہیں۔انھوں نے صنف رباعی کے ذریعے وہ باتیں بھی کہہ دیں جووہ اپنی غزلوں اور نظموں میں نہ کہہ سکے تھے۔اکبراپنی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کی طرح رباعی گوئی کے فن میں بھی کامل ہیں۔ نہ صرف موضوعاتی سطح پر اکبر کامل فن ہیں بلکہ فنی اعتبار سے بھی وہ کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ان کی رباعی گوئی کا لوہا اہل فن نے مانا ہے۔اسی لیے محشر بدایونی جیسے شاعر بھی اکبر کی رباعی گوئی کے معترف نظر آتے ہیں          ؎

باقی ہے ادب کے ساتھ نامِ اکبر

سرمایۂ اردو ہے پیامِ اکبر

اربابِ نظر سے کوئی محشر پوچھے

گنجینۂ معنی ہے کلام اکبر

(مشمولہ رباعیاتِ اکبر، مرتب عادل اسیر دہلوی، ملک بک ڈپو، دہلی2013، ص 7)

آخر میں یہی کہوں گی کہ اکبر نے اپنے منفرد انداز کی بدولت صنف رباعی گوئی میں اپنا الگ آستانہ بنا لیا ہے۔  جو انھیںدنیا کی فکر سے بے نیاز کیے ہوئے ہے۔ اسی بنا پر شاعر ایک درویش کی صورت اپنی آخرت کی درستگی کے انتظام میں منہمک نظر آتاہے۔

Sadia Sadaf

67, Kolo Tola Street

Kolkata - 700073 (WB)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں