بیسویں
صدی کا آغاز ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک کشمکش کا دور تھا۔ مسلم معاشرے کے سامنے
سب سے پہلے اہم سوال یہ تھا کہ کون سی راہ اختیار کرنی ہے۔ ایک طرف زوال پذیر تہذیب
تو دوسری طرف مغربی تہذیب کے اثرات ہندوستانیوں کو متاثر کر رہے تھے۔ یہ ابتدائی زمانہ
مسلمانوں کی سیاسی پستی کا آئینہ دار تھا۔جو آہیں بھرتی سسکیاں لیتی تہذیب کا مظہربھی
تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اردوادب کے عروج کا دور بھی نظر آتا ہے۔ ایسے دور میں
ہندوستانی ادب کے افق پر کئی ستارے جلوہ گر ہوئے جن میں قابل ذکر فضل الرحمن بھی ہیں۔
جنھوں نے اپنی ادبی زندگی کے حوالے سے شعر و ادب کے ایوانوں کو منور کیا۔
فضل
الرحمن نے بیسویں صدی کے ماحول میں آنکھیں کھولیں جو ہر لحاظ سے ہندوستان میں جمود
کا دور تھااور جب شباب کی منزل پر پہنچے تو پہلی جنگ عظیم کے باد ل سارے ماحول پر چھائے
ہوئے تھے اور مشرقی تہذیبی قدروں کے درمیان کشاکش عروج پر تھی۔
فضل
الرحمن کا تعلق نوائیط خاندان سے تھا۔ اہل
نوائیط کے متعلق یہ بات مشہو ر ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور ذہین و فطین ہوتے
ہیں۔بقول عزیز رضوی
’’فضل
الرحمن نوائیط خاندان کے چشم و چراغ تھے۔جس کا مقصد ہی حصول علم رہا ہے۔حتیٰ کہ اس
خاندان کی خواتین بھی کافی پڑھی لکھی اور علم دوست ہوتی ہیں۔‘‘
(شخصی
انٹرویوعزیز رضوی)
فضل
الرحمن کے آباواجدادکسی زمانے میں مدراس کی سکونت ترک کر کے شہر حیدرآباد چلے آئے۔
آج بھی ان کے خاندان کے افراد حیدرآباد کے علاقہ ’بنجارہ ہلز‘پر قیام پذیر ہیں۔فضل
الرحمن کے والد مولوی عبداللہ موروثی منصب دار، خاندانی عالم دین، صوفی منش،اور پیشہ
ور حکیم تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد حدیث و فقہ کا درس حاصل کریں اور دینی مدارس
میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھیں۔
مولوی
عبداللہ کے خیال میں انگریزی تعلیم حاصل کرنا کفر کے برابر تھا۔اس لیے انھوں نے اپنے
بچوں کو ایک دینی مدرسے میں داخل کروایا۔ لیکن ان کی دور اندیش والدہ شمس النساء بیگم
کی کاوشوں سے فضل الرحمن، ان کے بڑے بھائی عطا الرحمن اور خلیل الرحمن کو انگریزی مدرسے
میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ شمس انساء بیگم کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ علم و ادب کی
دنیا میں تینوں بھائیوں نے اپنے نام روشن کیے۔
فضل
الرحمن 25 /دسمبر 1901میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد مولوی عبداللہ کے دامن
تربیت میں عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ چادر گھاٹ ہائی اسکول سے میٹرک
پاس کیا،پھر حیدرآباد کے نظام کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد پونہ چلے گئے۔ وہاں
اپنے تعلیمی جوہر دکھاتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔ ان کی صلاحیتیں
دیکھ کر پونہ دکن کالج نے انھیں فیلو شپ کے اعزاز سے نوازا۔ بعد ازاں بمبئی یونیورسٹی
سے انھوں نے 1923میں بی۔اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
تعلیم
سے فارغ ہو کر فضل الرحمن نے ملازمت کا آغاز بحیثیت لکچرر معاشیات،سٹی کالج کیا جو
آج بھی شہر حیدرآباد کا ایک نامور کالج مانا جاتا ہے۔ درس و تدریس کے علاوہ آزادی
ہند کی تحریکوں میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے انھیں ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ملازمت
سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے اسٹیج اور ڈراما نگاری کی طرف رخ کیا۔ انھیں بحیثیت
ڈراما نگار ملک گیر شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ اس شہرت اور مقبولیت کے نتیجے میں جب سنہ
1938میں محکمہ نشریات کی تنظیم جدید ہوئی تو علی یاور جنگ جو محکمہ نشریات کے معتمد
تھے، انھوں نے فضل الرحمن کی خدمات حاصل کیں۔ملازمت کے دوران انھیں حکومت کی طرف سے
بی بی سی نشریات کی باقاعدہ ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے لندن روانہ کیا گیا۔ وہاں انھوں
نے چھ ماہ تربیت حاصل کی۔ بعد ازاں مارکونی (مصر) میں ایک ماہ کی تربیت حاصل کر کے
1941میں ہندوستان لوٹے اورانھیں دکن ریڈیو میں ناظم لاسلکی کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
1946تک
وہ ریڈیو سے وابستہ رہے۔ کچھ عرصے بعد ان کی خدمات محکمہ تعلیم کے سپرد کر دی گئی جہاں
وہ محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور وہیں سے وظیفے
پر سبکدوش ہوئے۔ علاوہ ازیں تقریباً پندرہ سال تک شعر و ادب، اسٹیج اور ڈرامانگاری
سے وابستہ رہے۔اسی اثنا میں علی یاور جنگ کے کہنے پر جو حیدرآباد کے محکمہ تعلیم اور
بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے،فضل الرحمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
میں بحیثیت پرو وائس چانسلرکا عہدہ سنبھالا اور وہیں سے سبکدوش ہوئے۔ بعد ازاں انھیں
علی یاور جنگ نے اردو انسا ئیکلوپیڈیا کی ذمے داری سونپی،1973میں یہ کام شروع ہوا اور
فضل الرحمن نے بحیثیت چیف ایڈیٹر اپنی ذمے داری بخوبی نبھائی۔ 1981میں اردو انسا ئیکلوپیڈیا
کے کام کی تکمیل ہوئی۔
محمد
فضل الرحمن تا عمر مجرد رہے۔آپ کی طبیعت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ جس سے بھی
ملتے بڑے ہی پر خلوص انداز میں ملتے۔ جس محفل میں جاتے رونق پیدا کر دیتے،جس محفل میں
بیٹھتے وہاں چار چاند لگا دیتے، طبیعت میں انکساری، ملنساری کے علاوہ ہمدردی کا جذبہ
بے حد نمایاں تھا۔ خاندانی افراد ہوں کہ دوست احباب ہر ایک کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتے
تھے۔آخر کار اردو ادب کی مشہور و معروف شخصیت فضل الرحمن نومبر 1992 کو علی الصبح چار بج کر 30منٹ پر آفتاب کے طلوع ہونے
سے پہلے غروب ہو گئی۔ یہ شہر حیدرآباد کا ایک ایسا آفتاب تھاجو آسمان علم و ادب
پرنور کی کرنیں بکھیرتا رہا۔ فضل الرحمن نے تقریباً 91برس اس دنیائے آب و گل میں ایک
دانشورانہ حیات کی تکمیل کی اور مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت پر ادارہ ادبیات سے
شائع ہونے والا ماہنامہ رسالہ ’سب رس‘ شمارہ 12جلد54، دسمبر1992میں مغنی تبسم کا دیا
ہوا تعزیتی بیان اس طرح ہے
’’اردو
کے ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر جناب فضل الرحمن صاحب 1992کو 91برس کی عمر میں انتقال
کر گئے۔ وہ قدیم ریاست حیدرآباد میں نائب ناظم لاسلکی رہے۔ پھر محکمہ تعلیمات سے وابستہ
ہوکر نائب ناظم کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس
چانسلر بنائے گئے۔ ترقی ارد وبیورو نے اردو انسا ئیکلو پیڈیا کے ڈائریکٹر کی حیثیت
سے ان کی خدمات حاصل کیں اور ان کی عالمانہ رہنمائی میں یہ کام تکمیل کو پہنچا۔ وہ
مرکزی انجمن ترقی اردو دہلی اور انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش سے وابستہ رہے۔ جناب
فضل الرحمن صاحب مرحوم منفرد رنگ کے شاعر تھے۔ ان کے کلام کے مجموعے’دھوپ چھاؤں‘،’بساط
نو‘، ’نوائے فطرت‘ اور ’نگار حکمت‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اردو میں ڈرامائی
صنف کو فروغ دینے میں نمایاں حصہ لیا۔ ڈراموں کے متعدد مجموعے شائع کیے۔ جن میں’ ظاہر
و باطن‘، ’روشنی‘،’سقراط‘، ’چنگیز‘ اور ’آئندہ زمانہ‘ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے گوئٹے
کی ڈرامائی نظم ’ہیلنا‘ کا منظوم ترجمہ کیا جو ادارہ ادبیات اردو کی طرف سے شائع ہوا۔
اس کے علاوہ البسن کے ڈرامے ’سمندری لٹیرے‘ کو اردو کا جامہ پہنایا۔ادارہ ’سب رس‘ ان
کے انتقال پر گہرے جذبات غم کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ انھیں مغفرت عطا کرے اور متعلقین
کو صبر جمیل کی توفیق دے۔‘‘
فضل
الرحمن کی شخصیت ایک پہلو دار شخصیت تھی۔ وہ ملنسار، خوشگوار، سادگی پسند، خوش مزاج،
خوش اطوار انسان تھے۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا ڈراما نویسی سے کی،اس کے باوجود
شاعری فضل الرحمن کے دامن سے چمٹی رہی۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اندازہ ان کے کلا
م سے ہوتا ہے۔ اعلیٰ اقدار کے حامل شاعروں میں شہر حیدرآباد کے ممتاز و معروف ترقی
پسند شاعر فضل الرحمن کی ہمہ گیر شخصیت بھی پورے آب و تاب کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
بلکہ ایک طرف تو وہ ڈراما نگار نظر آتے ہیں تو دوسری طرف شعر و شاعری میں ایک عندلیب،
قادرا لکلام شاعر، تصنیف وتالیف کے پیمانے سے دیکھیے تو مواد، اسلوب،ترتیب اور تحقیق
کے اعتبار سے ہر تصنیف ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ بحیثیت ناظم ریڈیو کنٹرولر تو
کبھی پرو وائس چانسلر (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) تو کبھی انگریزی کے استاد تو کبھی رسالوں
کے مدیر،بہرحال ان کی شخصیت ایک صاحب ایجاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ جسے انھوں نے صرف تصنیف
و تالیف کے لیے وقف کر دی۔
فضل
الرحمن کی قد آور شخصیت کا اندازہ ہمیں ان کی تخلیقات شعر وادب اور صنف ڈراما نگاری
کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ وہ ادب کو برائے ادب نہیں بلکہ ادب کو برائے زندگی سمجھتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ ادب صرف مطالعے کے لیے نہیں ہوتاہے بلکہ ادب دراصل زندگی کا نچوڑ
ہے۔ جس کے ذریعے ہم زندگی کے نشیب و فراز بہتر انداز میں طے کر سکتے ہیں۔انھیں دوران
تعلیم ہی سے صنف ڈراما نگاری سے دلچسپی رہی۔اس لیے انھوں نے آگے چل کر اپنی توجہ ڈراما
نگاری پر منعطف کر دی۔ اس بات کا اندازہ ہمیں ان کی ڈراما نگاری کے مطالعے سے ہوتا
ہے۔ وہ اردو ڈراما نگاری کی انجمن کے اساسی رکن نظر آتے ہیں۔
فضل
الرحمن نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا ڈراما نویسی سے تو کی لیکن وہ ایک اچھے شاعر بھی
رہے ہیں۔ انھوں نے کوئی تخلص اختیار نہیں کیا۔ بقول فضل الرحمن کہ’’اس دور میں بھی
شعر کہنا ان کا مشغلہ تھا۔‘‘اس بارے میں فضل الرحمن خود رقم طراز ہیں
’’میں
ہر چیز زیر لب کہتا ہوں اور تحت اللفظ سناتا ہو ں۔محفل آرائیوں سے الگ،جماعت بندیوں
سے دور گوشۂ تنہائی میں فکر سخن کرنے کا عادی ہوں۔جب ڈراموں کے مکالموں سے تشفی نہیں
ہوتی تو اشعار گنگناتا ہوںکیوں کہ ڈرامے کی نسبت شاعری میں اپنے جذبات اور خیالات کے
راست اظہار کا بہتر موقع حاصل ہے۔ شاید اظہار خیال کایہی شوق مجھے اس میدان میں لے
آیا ہے۔‘‘ (بساط نواز فضل الرحمن،ص20)
گویا
شاعری کا یہ ابتدائی دور جو ڈھکا چھپا ہی رہا،آخر ان کا یہ شوق اس وقت سامنے آیا
جب ان کا اولین مجموعہ ’دھوپ چھاؤں‘ کے نام سے1945میں شائع ہوا۔ فضل الرحمن اپنی شاعری
اور مجموعوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’پچھلے
برسوں میں نے اردو شاعری میں جو تجربے کیے تھے وہ سب مختلف موقعوں پر شائع کیے جا چکے
ہیں۔ مجموعوں کی اشاعت سے قبل ان میں سے اکثر نظمیں ریڈیو سے نشر کی گئیں۔ بعض نظمیں
مقامی اخباروں اور رسائل میں طبع ہوئیں یا مشاعروں میں پڑھی گئیں۔ میری نظموں کا پہلا
انتخاب ’دھوپ چھاؤں‘ کے نام سے 1945اور دوسرا انتخاب ’نقش حیات‘ 1948میں چھپا۔ اس
کے بعد ’گوتم بدھ‘ (منظوم سوانح) 1953میں ’ہیلنا‘ گوئٹے کے ڈرامے کا منظوم ترجمہ
1958میں ’نیا انسان‘ طبع زاد ڈرامائی نظم 1960اور انگریزی اردو نظمیں جو منتخب انگریزی
غنائی نظموں کے شعری ترجموں کا مجموعہ 1961 میں شائع ہوا۔ 1965میں ’سرور وقت‘ کے نام
سے ان کا انتخاب شائع ہو چکا ہے۔ لیکن اب یہ سارے مجموعے بازار میں تقریباً نایاب ہیں۔
اس لیے ان کا اب مزید انتخاب اپنی غیر مطبوعہ نظموں اور منظوم ترجموں کے ساتھ نذر ناظرین
کر رہا ہوں۔‘‘(پیش لفظ، نوائے فطرت، ص،3)
فضل
الرحمن کی شاعری کے متعلق نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں
’’ان
کے کلام میں زبان کی پاکیزگی بحور کی موزونیت، تخیل کی لطافت اور مضامین کی بلندی قابل
داد ہوتی ہے۔ وہ ترقی پسند شعرا میں بلند مقام رکھتے ہیں۔وہ ترقی پسند ادب کے ایک نئے
باب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں غنائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کا کلام لحن
اور لطافتوںکا گنجینہ ہے۔ غلام یزدانی صاحب ان کو ان کی بلند پایہ شاعری اور بہترین
نقاد کی بنا پر ان کو شاعری کا میتھو آرنلڈقرار دیتے ہیں۔‘‘(دکن میں اردواز نصیرالدین
ہاشمی)
فضل
الرحمن کی شاعری میں معنی آفرینی ہے۔حسن و عشق کی رنگینیاں موجود ہیں۔ سلیس انداز
میں انسان دوستی اور انسانی مسائل کے علاوہ سائنسی موضوعات پر مبنی نظمیں بھی موجود
ہیں۔زیادہ تر نظمیں مناظر فطرت، مسائل ِحکمت اور انسانی زندگی کے مراحل حیات کے مختلف
عنوانات پر خیال آرائی کی گئی ہے۔ فضل الرحمن اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں
’’مغربی
شاعروں کی طرح جدید اردو شاعری زندگی کے تمام مسائل پر طبع آزمائی کرتی ہے۔نہ صرف
حسن و عشق کی معاملہ بندیاں بلکہ سماجی، سیاسی اور اخلاقی مسائل کی پیچیدگیاں بھی ہماری
شاعری میں داخل ہو گئی ہیں۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں موضوع شعر و سخن کے لیے
موزوں نہیں ہے۔ صرف یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ فلاں نظم میں شعریت نہیں ہے۔ اسی کسوٹی
پر میں چاہتا ہوں کہ اس انتخاب کو پرکھا جائے اگر یہ محسوس ہو کہ جن موضوعات پر جس
طرح ان نظموں میں اظہار خیال کیا گیا ہے نثر میں بہتر طریقے پر انھیں پیش کیا جا سکتا
تھا۔ یوں پھر میں تسلیم کروںگا کہ ساری کوششیں رائیگاں ہوئی ہیں۔‘‘
یقینا
فضل الرحمن نے قدیم روایتی شاعری جس میں حسن و عشق کی سر مستی ہوا کرتی تھی،صنف نازک
کی خوبصورتی میںشعرائے کرام تعریفوں کے پل باندھتے تھے، اس سے ہٹ کر الگ روش اختیا
ر کی۔ قدیم شعرا سے انحراف ان کا مقصد نہیں بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کواپنی شاعری کے
ذریعے انسانی زندگی اور کائنات کی افادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ عصری تقاضے
میں آزاد خیالی، انسان دوستی، بھائی چارے اور قدرتی مناظر کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔
جیسے ان کی نظمیں’کار گاہ حیات‘، ’کرشمہ وجود‘ جو اپنے اندر شاعرانہ اسلوب کے ساتھ
ساتھ انسانی زندگی اور کائنات کی افادیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ان کی نظموں میں
نئے عہد کی نشاندہی بھی ملتی ہے۔ مثلاً ’نیا زمانہ‘ اور ’نئے صبح و شام‘ وغیرہ۔ فضل
الرحمن کی شاعری اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ بقول فضل الرحمن
’’ڈرامے
کی نسبت شاعری میں اپنے جذبات اور خیالات کے راست اظہار کا بہتر موقع حاصل ہے۔ شاید
اظہار خیال کا ہی شوق مجھے اس میدان میں لے آیا ہے۔‘‘(پیش لفظ، نوائے فطرت،ص4)
بعض
خیالات و جذبات کو صرف شاعری میں ہی موزوں و مناسب اندا ز سے ظاہر کر سکتے ہیں۔ فضل
الرحمن کو قدرتی مناظر سے بے حد دلچسپی تھی۔ جنگل، پہاڑ، سمندر، دریا، چٹانیں وغیرہ
اس بات کا اندازہ ان کے کلام میں موجود منظر کشی کے نمونوں سے ملتا ہے۔ مثلاً
منظر زندگی
سراب نہیں
یہ
نظارہ خیال وخواب نہیں
ہر
گھڑی ایک نئی چمک ہے ولے
سیمیا
کی یہ آب و تاب نہیں
اس
کے علاوہ انھیںمشاعروں سے بھی دلچسپی تھی۔ ملازمت سے لے کر سبکدوش ہونے تک وہ مشاعروں
میں شرکت کرتے رہے اور بہت لطف اندوز ہوتے رہے۔
مشاعروں سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ سبکدوشی کے بعد اپنے ہی گھر کی چھت پر
شعری نشست کااہتمام کرتے۔ جس میں اس وقت کی شاعرانہ شخصیتیں حصہ لیتیں۔ خاص طور پرمخدوم
محی الدین اہمیت کے حامل ہیںجو خود بھی اپنا کلام سناتے تھے۔
فضل
الرحمن کا ماننا تھا کہ شاعری دراصل دل و دماغ کوسر سبز و شاداب کرتی ہے۔جو خیالات
اور موضوعات شاعری میں پیدا کیے جا سکتے ہیںوہ نثر نگاری میں نہیں کر سکتے۔وہ اپنی
ذات میں ایک انجمن تھے۔ علم و ادب کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے انھوں نے نمایاں خدمات
انجام دیں۔عالمی امن کی تحریک اور ایٹمی دور کی انقلابی تبدیلیوں سے متاثر ہو کر انھوں
نے جو نظمیں کہیںان میں قابل ذکر ’طلسم تخلیق‘، ’جوہری بم‘،’جگ بیتی‘ وغیرہ ہیں۔طلسم
تخلیق سے چند اشعار دیکھیے ؎
بساط
مہر بنے بزم ماہتاب بنے
نئے
سرے سے یہ دنیائے خاک و آب بنے
اگر
یہی ہے سماں ارتقائے فطرت کا
عجب
نہیں جو ہر اک ذرہ آفتاب بنے
فضل
الرحمن نے روایتی اسلوب کو قائم رکھتے ہوئے جدید تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا۔ ان
کے کلام میں انسان دوستی، آزاد خیالی، بھائی چارگی وغیرہ کے جذبے ملتے ہیں۔
نظم
’چالیس کروڑ‘ سے یہ شعر ملاحظہ ہوں
؎
جب
آگے بڑھیں گے دست و قدم
چالیں
کروڑ انسانوں کے
ہل
جائیں گے گنبد مشرق سے
مغرب
تک سب ایوانوں کے
فضل
الرحمن کی شاعری کی بنیاد قوم پرستی پر ہے اور اردو ادب میں اہمیت کی حامل اس لیے ہے
کہ انھوں نے آزادی وطن اور مساوات پر اثر انگیز نظمیں کہی ہیں۔ان کے خیالات میں وسعت
اور افکار میں گہرائی ہے۔ انسانی زندگی کے مد و جزر، انسانی زندگی سے گہری محبت نے
ان کے یہاں ایسی نغمگی پیدا کی ہے جس میں انسانیت کا سوز وگداز موجزن ہے۔فضل الرحمن
لکھتے ہیں
’’
اگر یہ محسوس ہو کہ جن موضوعات پر جس طرح ان نظموں میں اظہار خیال کیا گیا ہے نثر میں
بہتر طریقہ پر انھیں پیش کیا جا سکتا تھا۔ یوں پھر میں تسلیم کروںگا کہ ساری کوششیں
رائیگاں ہوئی ہیں۔‘‘
فضل
الرحمن کی شاعری میں انگریزی کے مشہور شاعر میتھو آرنلڈ کا سا انداز ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر
یزدانی نے انھیں دکن کی شاعری کا میتھو آرنلڈ قرار دیا ہے۔فضل الرحمن کی شاعری دراصل
عوامی شعور کو جلا بخشنے کی ایک اچھوتی کوشش ہے۔ جس کا مطالعہ دل و دماغ کو نور و سرور
ہی نہیں کا رزار حیات کو ایک نئی جہت بھی عطا کرتی ہے۔ ان کی شاعری گھٹا ٹوپ اندھیرے
کو دور کر کے بے حوصلہ انسانوں کے دلوں میں تزئین چمن کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ علاوہ
ازیں فضل الرحمن کی شاعری میں رمزیت کے ساتھ ساتھ ترنم اور آہنگ سب میں ایک جدت کا
احساس ہوتا ہے اور ایک نئی ابھرتی ہوئی روایت نظر آتی ہے۔ بقول فضل الرحمن
’’میری
شاعری کی بنیاد اردو ادب کی ان ہی روایت پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ زیر نظر انتخاب میں
چند سائنسی موضوعات سے قطع نظر کئی نظمیں مناظر قدرت سے متعلق ہیںیا وطنی آزادی،قومی
اتحاد امن اور ترقی پر کہی گئی ہیں۔ متعدد ایسی نظمیں بھی ملیں گی جن سے اس ہنگامہ
خیز زمانے کے حالات پر روشنی پڑتی ہے جس کے عہد آفریں نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔‘‘
1953میں
انھوں نے ’گوتم بدھ‘(منظوم سوانح) نظم لکھی۔ 1958میں المانوی شاعر اعظم گوئٹے کی تصنیف
’فاوسسٹ‘ کا ترجمہ’ہیلینا‘کے نام سے منظوم ڈرامائی نظم کی شکل میں کیا جسے ادارہ ادبیات
اردو کی طرف سے شائع کیا گیا۔ اس ترجمے کے تعلق سے فضل الرحمن لکھتے ہیں
’’اپنے
ترجمہ کے بارے میںکیا عرض کروں۔میں جرمن زبان سے واقف نہیںاس لیے میں نے البرٹ لیتھام
کے انگریزی ترجمے سے استفادہ کیاہے۔ یوں بھی نظم کا نظم میں ترجمہ مشکل ہے۔ اصل اور
نقل میںبڑا فرق ہو جاتا ہے اور یہ نقل کی بھی نقل ہے۔ اردو میں ڈرامائی شاعری کی اس
قدر کمی نہ ہوتی تو شاید اس کی اشاعت کا بھی جوا زنہ تھا۔ بہرحال اگر اس میں کوئی خامیاں
ہیں تو وہ میری اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہیںاور کچھ خوبی نظر آئے تو اسے المانوی شاعر
اعظم کا فیض خیال کیجیے۔‘‘
33مارچ
1950میں انھوں نے ڈرامائی نظم ’نیا انسان لکھی‘جسے نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان
حیدرآباد سے شائع کیا گیا۔اس منظوم ڈرامائی نظم کی تعریف کرتے ہوئے سلیمان اریب لکھتے
ہیں
’’پہلے
تو اردو ادب میں ڈرامے کی صنف باوجود بہت سی قابل قدر انفرادی کوششوں کے ابھی عہد طفولیت
ہی میں ہے۔پھر اردو نظم بھی مغربی زبانوں میں نظم نگاری کے ارتقا کو سامنے رکھتے ہوئے
ابھی بہت پیچھے ہے۔ ایسی صورت میںمنظوم ڈرامہ لکھنے کی ہمت کرنا ہی ایک مشکل کام ہے
پھر اس میں فکر شاعری کرنا اور بھی مشکل ہے۔‘‘
1961میں
فضل الرحمن نے ’انگریزی اردو نظمیں‘ کے نام سے منتخب انگریزی غنائیہ جس میں شکسپئر
سے میتھو آرنلڈ تک تین صدیوں کی مشہور اور منتخب نظموں کا انتخاب جمع کیے اور’انگریزی
اردو نظمیں‘کے نام سے شائع کیا۔ اس کتاب میں انگریزی نظموں کے انتخاب کے ساتھ ان کا
انتخاب اردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
1965میں
’سرودوقت‘ کے نام سے ان کا انتخاب اردو زبان میں شائع ہو چکا۔اور پھر تقریباً چودہ
سال کی خاموشی کے بعد فضل الرحمن نے مارچ 1980میں اپنا ایک اور مجموعہ کلام ’اسرار
فطرت‘ کے نام سے شائع کیا۔ جس میں غیر مطبوعہ نظموں کے علاوہ منظوم ترجمے بھی شامل
ہیں۔ ان کے سارے مجموعے بازار میں تقریباً نایاب تھے۔ اس لیے انھوں نے ان سب کا مزید
انتخاب ’نوائے فطرت ‘کے نام سے شائع کیا۔فضل
الرحمن کے مطابق
’’سرود
وقت کی اشاعت کے چودہ سال بعد اب یہ انتخاب جو زیادہ جامع ہے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس
میں منظوم ترجموں کے علاوہ اسرار فطرت کے موسومہ حصے میں چند تازہ ترین غیر مطبوعہ
نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔جو چودہ سال کی خاموشی کے بعد کہی گئی ہیں۔ بر خلاف سابقہ
نظموں کے یہ نہ کسی رسالے میں شائع ہوئی ہیں اور نہ کسی محفل میں سنائی گئی ہیں۔اس
لیے ان کے حسن و قبح کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا خود میرے لیے بھی مشکل ہے۔‘‘
اس
کے بعد ’نگار حکمت‘ کے نام سے ان کی چند منظومات منظر عام پر آئیں۔فضل الرحمن کی خواہش
تھی کہ ان کا کلام پاکستان سے بھی شائع ہو او ر پاکستانی احباب تک پہنچے۔ چنانچہ بہادر
یار جنگ اکیڈمی کراچی نے ان کے کلام کا انتخاب ’بساط نو‘کے عنوان سے 1987میں شائع کیا۔بقول
عزیز رضوی
’’ان
کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ ان کا کلام پاکستانی بھائیوں تک پہنچے۔خدا کے فضل و کرم
سے ان کی یہ خواہش اب پوری ہو رہی ہے۔اس انتخاب میں ان کے ساتھ شاید پورا انصاف نہ
ہو لیکن انتخاب بہرحال انتخاب ہی ہوتا ہے۔‘‘(بساط نو،عزیز رضوی،ص16)
1991میں
’سخن پارے‘جو مختصر قطعات کا شعری مجموعہ ہے منظر عام پر آیا جسے انجمن ترقی اردو
آندھرا پردیش نے شائع کیا۔ نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں
’’فضل
الرحمن صاحب کا کوئی تخلص نہیں ہے۔ان کے کلام میں زبان کی پاکیزگی،بحور کی موزونیت،
تخیل کی لطافت اور مضامین کی بلندی قابل داد ہوتی ہے۔ وہ ترقی پسند شعرا میں بلند مقام
رکھتے ہیں۔ وہ ترقی پسند ادب کے ایک نئے باب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں غنائیت
کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کا کلام لحن اور لطافتوںکا گنجینہ ہے۔‘‘
فضل
الرحمن کی شاعرانہ عظمت کا سیر حاصل جائزہ ایک مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں۔ لیکن
اتنا ضرور عرض کر دوں کہ وہ روایتی انداز کے ساتھ ساتھ جدید تقاضوں کی بھی بھرپور عکاسی
کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں فکر انسانی کا خوب اظہار ملتا ہے۔ جو فضل الرحمن کی
انفرادیت کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے ؎
نسل
آدم ظلم کی چوکھٹ پہ جھک سکتی نہیں
بندشوں
سے زندگی کی موج رک سکتی نہیں
n
Rafia Saleem
Asst. Professor, Dept of Urdu
University of Hyderabad
Hyderabad- (Telangana)
Mob.: 9700681530
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں