3/3/23

اردو بلٹز کی صحافت خواجہ احمدعباس اور آر کے کرنجیا کی خدمات: ذاکر حسین ذاکر


 

آر کے کرنجیا نے بلٹزاردو ویکلی کو ممبئی سے 1964 میں جاری کیا۔اس کا ایڈیٹر مشہور کہانی کار انور عظیم کو بنایا گیا۔ بلٹز اردو دراصل انگریزی بلٹز کا ہی اردو ورژن Version تھا۔ کرنجیا نے انگریزی بلٹز 1941میں جاری کیا تھا۔ کرنجیا نے1930 میں بحیثیت نامہ نگار اپنی صحافت کی شروعات ٹائمز آف انڈیا سے کی تھی۔مگر دوسری جنگ عظیم میں انھیں احساس ہوا کہ ٹائمز گروپ پر برٹش کمپنیوں اور جوٹ بارنس کا کنٹرول ہے۔اس لیے یہ  اخبار ان کے احساسات کی ترجمانی کے لیے ناکافی ہے۔ وہ اپنے ذہن میں کافی بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ در اصل کرنجیا ایک ترقی پسند‘اشتراکی اور سامراج مخالف صحافی تھے۔ان کے لیے برٹش مفاد پر کام کرنا بہت بھاری پڑ رہا تھا۔ ایک دن چائے کے ٹیبل پر انھوں نے اپنے دوست دینکر وی ناڈکرنی سے کہا کہ کیوں نہ خود کا اخبار جاری کیا جائے۔ اس ٹیبل پر ان کے دوست وی جی ہارنی من بھی بیٹھے تھے۔ان تینوں کی رضامندی سے اخبار نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ انھوںنے اپنے اخبار کا نام بلٹز رکھا۔ یعنی یلغار۔دشمن پر سیدھا اوراچانک حملہ۔خواجہ احمدعباس نے بلٹز کے مفہوم کو سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لفظ جرمن لفظ Blitzkrieg کامخفف ہے۔اس لفظ کا سب سے پہلا استعمال 1939 میں پولینڈ کی جنگ میں جرمنی نے کیا تھا۔یہ جرمنی کا طریقہ جنگ تھا‘ جسے Blitz lightning and krieg warکہا گیا۔کرنجیا نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے اخبار کا نام بلٹز رکھاتھا۔ انھوں نے پہلے ہی شمارے میں بلٹز کو متعارف کراتے ہوئے لکھاOur Blitz, India's Blitz against Hitler یعنی ہمارا بلٹز ہندوستان کا بلٹز جو ہٹلر کا مخالف ہے۔

جب ہم بلٹز کی فطری بناوٹ کا جائزہ لیتے ہیںتو بلٹز کے نام کی معنویت کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ بلٹز نے ہندوستان چھوڑو تحریک کا کوریج بلٹز کے طریقے سے کیا۔ہندوستان چھوڑو تحریک میں بلٹز کے طریقہ کار نے انگریزی حکومت کو چوکنا کر دیا۔صرف چار ماہ بعد بلٹز کا سرکولیشن 20ہزار پہنچ گیا اور پچیس سال بعد اس کا سرکولیشن لاکھوں میں تھا۔تب کرنجیا نے بلٹز کو People's paper   یعنی عوام کا اخبار کہا‘جو بنیادی ضرورتوں کی عکاسی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔بلٹز کے ایڈیٹوریل بورڈ میں اس زمانے کے جانے مانے ترقی پسند اور اشتراکی صحافی شامل تھے۔اس میںاہم نام خواجہ احمد عباس کا تھا جو لاسٹ پیج لکھتے تھے۔رمیش سنگھاوی‘اے راگھون جیسے صحافی مستقل کالم لکھتے تھے۔وی ناڈکرنی ‘وی جی ہارنی من اور ظہیر بابر قریشی مقبول  مشہور کالم نگار تھے۔ظہیر بابر قریشی  ZABAK کے فرضی نام سے کالم لکھتے تھے۔بلٹزکے سرکولیشن ‘تجارتی تعلقات اور اشتہار ات کی دیکھ بھال نادر بومن بہرام کرتے تھے۔

ہندوستانی صحافت میں سنسنی خیزی اور اسٹنگ کا چلن بلٹز نے شروع کیا۔ یہ بلٹز کا مخصوص طریقہ کار تھا۔کیوں کہ کرنجیا ایک عظیم کہانی کار تھے۔وہ حالات کو بہت بے خوفی اور جواں مردی سے منعکس کرنے کے عادی تھے۔نچلے طبقے کے عام انسان مل مزدور اور فٹ پاتھ پر رہنے والوں نے ہمیشہ بلٹز کو اپنے قریب تر پایا ہے۔کرنجیانے بلٹز کو ہمیشہ Embedded jounalism یعنی ریاست یا فوجی خبروں کی ترجمانی سے دور رکھا۔وہ صحیح معنوں میں Embellished jounalismیعنی حسن پرستی اور جدت پسند صحافت کے قائل تھے۔وہ بلٹز کو سبھی کے لیے یکساں طور پر مقبول بنانا چاہتے تھے۔تمام ذہنیت کے لوگوں کے لیے چاہے وہ فلم انڈسٹری میں ہوں یا چالوں میں رہنے والے مل مزدور۔یہی وجہ ہے کہ بلٹز میں ہر طرح کے موضوعات شامل کیے جاتے تھے۔بلٹز غیر قانونی پیسہ بنانے والوں ‘دھمکی دینے والوں اور غیر قانونی طریقے سے کام کرنے والوں یعنیRacketeerکا پردہ فاش کرنے پر یقین کرتا تھا۔بڑے بڑے سیاسی بازیگر ‘ وزرائے اعلیٰ ‘کابینہ کے وزرااور گورنر تک بلٹز کی تحقیقاتی رپورٹ کی زد میں ہوتے تھے۔بلٹز کے قاری عام طور پر کرنجیا کی ہمت اور جرأت پر حیران رہ جاتے تھے۔اسی حوصلے اور ہمت کی وجہ سے بلٹز چین کی سرحد سے لے کر ممبئی کے مل مزدوروں میں یکساں طور پرمقبول و مشہور تھا۔اکثر ان کے معاملات عدالت میںگئے اور ان کو ہرجانے بھی اداکرنے پڑے۔مگر وہ کبھی اپنی بے خوفی سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔

(R K Karanjia:Living through the Blitz by P.Sainath, The Hindu Daily,Dated-06-02-2008)

70 کی دہائی میں جب انگریزی بلٹز اپنے عروج پر تھااور اس کا سرکولیشن تین لاکھ سے زائد پہنچ چکا تھا۔ لوگوںنے اس کا اردو ایڈیشن جاری کرنے کا مطالبہ شروع کیا۔ بلٹز گروپ نے ہندی بلٹز اور مراٹھی بلٹز کی اشاعت  پہلے ہی شروع کر رکھی تھی۔بلٹز کے ایک کلیدی رکن خواجہ احمد عباس تھے‘ جو 1946سے ہی انگریزی بلٹز کے لیے لاسٹ پیج لکھ رہے تھے۔اردو جاننے والے مشہور کالم نویس ظہیر بابر قریشی نے بھی اردو بلٹز شائع کرنے کا مشورہ دیا۔اس کے علاوہ فلم اور ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی بلٹز کے اردو ورژن کی اشاعت کا شدیدمطالبہ کیاجا رہا تھا۔لیکن کرنجیا کو اردو بلٹز کے لیے کوئی مناسب ایڈیٹرنہیں مل رہا تھا۔ اردو کے لیے کسی ایڈیٹر کی تلاش شروع ہو گئی۔اس موقعے پر ان کی رہنمائی خواجہ احمد عباس نے کی۔ انھوںنے اپنے دور کے رشتہ دار انور عظیم کو اس عہدے کے لیے منتخب کرنے کا عندیہ دیا۔ان دنوں وہ دلی میں ریڈیو کے لیے پروگرام مرتب کر رہے تھے۔ اس سے قبل انور عظیم ماسکومیں غیر ملکی زبانوں کے مترجم کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات پیش کر چکے تھے۔کرنجیا نے انھیںدلی سے بلا کر بلٹز اردو کی ادارت کی ذمے داری سپرد کر دی۔ انور عظیم 1924-1999 بہار کے گیا ضلع کے رہنے والے تھے۔وہ مشہوراشتراکی ادیب‘شاعر اور صحافی تھے۔انور عظیم نے بلٹز شروع کر دیا اور اسے کامیابی کے ساتھ پانچ سال تک چلایا۔ان کی اہلیہ دلی رہ رہی تھیں اور وہ ممبئی رہتے تھے۔اس لیے وہ ذہنی طور پرممبئی میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہو پا رہے تھے۔انھوں نے 1968 میں بلٹز کو خیر باد کہہ دیا اور دلی چلے گئے۔کچھ دنوںبعد ان کی تقرری سویت لینڈ میگزین کے تمام پانچوں ایڈیشنوں کے ایڈیٹر کے طورپر ہو گئی۔انور عظیم 1990 تک  اسٹائل ایڈیٹر اور تجزیہ کارکی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ انھیں 1969میں سویت لینڈنہرو ایوارڈ سے بھی نواز گیا تھا۔

انور عظیم کے بلٹز چھوڑنے کے بعد جلدی جلدی کئی ایڈیٹر بدلے گئے۔1968میںسب ایڈیٹر اختر حسن کو بلٹز اردو کا ایڈیٹر بنایا گیا۔مگروہ بہت کامیاب نہیں ہوئے۔ انھیں ایک سال کے اندربلٹز چھوڑنا پڑا۔آرکے کرنجیا نے ہندی ایڈیشن کے ایڈیٹر منیش نرائن سکسینہ کو اردو کی بھی ذمے داری دے دی۔اس دوران کرنجیا سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہے تھے کہ اردو ایڈیشن بند کر دیا جائے۔ لیکن جس طرح لوگوںنے اردو ایڈیشن کا خیر مقدم کیا تھا۔اس سے کرنجیا پس وپیش میں تھے۔آخر کار اردو بلٹز کو بلندی تک پہنچانے والے شخص کی دریافت ہو گئی اور وہ تھے حسن کمال جو بلٹز اردو میں1965سے ہی کام کر رہے تھے۔حسن کمال مہاراشٹر سرکار کے رسالے ماہنامہ امکان اور سہ ماہی نورس کی ادارت بھی کرتے تھے۔کرنجیا نے 1974میں حسن کمال کو بلٹز کا ایڈیٹر بنایا دیا۔مشہور صحافی‘ شاعر اور ادیب حسن کمال 1943میںلکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ان کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے ممتاز انٹر کالج سے ہوئی۔پھر انھوںنے لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوانٹ سکریٹری رہے۔ یونیورسٹی فیسٹول اور تقریبات میںجم کر حصہ لیا۔ حسن کمال ایک مزاحیہ‘ قہقہے باز ‘یار باش اورالہڑقسم کے نوجوان تھے۔ان کی لکھنؤ یونیورسٹی کی شخصیت کے متعلق اقبال مجید نے خوب لکھاہے۔’’لکھنؤ یونیورسٹی کی کینٹین میں پارے کی طرح تھرکتا ہوا ‘ قہقہہ لگاتا‘ سنجیدہ ہوتا لڑتا جھگڑتاحسن کمال میری آنکھوں کے سامنے بار بار آجاتاہے۔‘‘

(حاصل سہی از حسن کمال،قلم پبلی کیشنز ممبئی 2005ص5)

آج حسن کمال سنجیدہ اور باکمال شاعر ہیں۔ایک اعلیٰ درجے کے صحافی کے طور پر پورے ہندوستان میں جانے جاتے ہیں۔حسن کمال نے بلٹز کی ادارت سنبھالنے کے بعداسے بلندمقام پر پہنچایا۔اس کے کلیور میںتبدیلی کی اور اس کے صفحات پر نئے مضامین اور مواد شامل کیے۔ اس کے بعد بلٹز کے سرکولیشن میں زبردست اچھال آیا۔ منیش نرائن سکسینہ کے زمانے میں جہاں بلٹز کا سرکولیشن 13ہزار تھا وہیں حسن کمال کے چارج سنبھالنے کے 6ماہ بعد اس کا سرکولیشن 27000تک پہنچ گیا۔مقبولیت کی یہ رفتار بڑھتی رہی اور 1977کا سال آتے آتے اس کا سرکولیشن 107000ہو گیا۔ یہ حسن کمال کے ذوق ا ور جنون کا کمال تھا ‘جس نے صحافت میں شعریات کا تڑکہ لگایااوراردو بلٹز کو بھی انگریزی کے ہم پلہ کھڑا کر دیا۔ان کا انداز بلٹز اردوقارئین کو اس قدر پسند آیا کہ قارئین ایک ہفتے تک اس کے تجزیے اور خبروں کو پڑھنے کے منتظر رہنے لگے۔ ان دنوں اردوبلٹز کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔جو لوگ اس کے خریدار تھے‘  وہ ہفتے کے روز بلٹز کے بنڈل کھلنے سے قبل اسٹال پرقطار میں کھڑے رہتے تھے۔زرد کاغذ پر شائع ہونے والے بلٹز کے صفحات سے یگانگت‘رواداری اور دوستانہ لمس کی خوشبو دل تک محسوس ہوتی تھی۔بلٹز کے صفحات 20ہوتے تھے اور قیمت ایک روپے تھی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا تھاکہ اس کے قاری ایک روپہ کا بلٹز دس روپئے میں خریدنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے۔

حسن کمال نے بلٹز میں اس وقت ممبئی کے تمام بڑے لکھاریوں کو جمع کر رکھا تھا۔قیصر مظہر حسین‘ اختر حسین‘ امجد عثمان‘شفیع محمود ایوبی ‘ اور ہارون رشید جیسے کامیاب صحافی بلٹز کی مستقل ادارت میںشامل تھے۔ اس کے علاوہ ندا فاضلی ‘ظ انصاری‘کیفی اعظمی ‘سلمیٰ صدیقی اورسردار جعفری کے مستقل کالم بلٹز میں شائع ہوتے تھے۔ندا فاضلی کا مستقل کالم ’ملاقاتیں ‘ایک ایسا بد کالم تھا‘ جس میں ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات کی روداد مزاحیہ انداز میں شائع ہوتی تھی۔اس کالم میں کئی بار تنازعے کاماحول قائم ہو جاتا۔مگر جیسا کہ اخباری دنیا جانتی ہے آر کے کرنجیا کسی تنازعے سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ یہ کالم بے خوف و خطر شائع ہوتے رہتے۔ کیفی اعظمی نے کچھ سالوںتک مزاحیہ کالم نئی گلستاں لکھا۔وہ ان کالموںمیں شیخ سعدی کی شہرہ آفاق کتاب گلستاں کی طرز پر تبصرے کرتے تھے۔حسن کمال نے عالم اسلام ‘کے نام سے ایک نیا کالم شروع کیا۔اس کالم کو ظفر پیامی لکھتے تھے۔یہ کالم بھی بہت مقبول ہوا۔ان کالموں کے ذریعے ظفر پیامی مسلم ممالک کے مسائل اور دیگر حالات کی جانکاری دیتے تھے۔مسلم ممالک کے مسائل پر ان کے تبصرے بے حد ہمدردانہ اور مثبت ہوتے تھے‘جسے اردو قاری بہت پسندکرتا تھا۔ظ انصاری کی خدا لگتی کے عنوان سے کالم ادبی تنقید اور تنقیح کا بہترین مظہر تھا۔ کالم کھیل کی دنیامشہور صحافی ہارون رشید علیگ لکھتے تھے۔ایک مستقل کالم طب یونانی اور اس کی مسیحائی حکیم مختار احمداصلاحی لکھتے تھے۔ان کالموں کا تذکرہ بے معنی ہے جب تک خواجہ احمدعباس کا مستقل کالم’آزاد قلم ‘ کا ذکر نہ ہو۔خواجہ احمد عباس کے آخری صفحے کا کمال تھا بلٹز کے ہر زبان کے قاری اسے آخری صفحے سے پڑھتے تھے۔

خواجہ احمدعباس نے1946سے بلٹز کے لیے لاسٹ پیج(Last page)  لکھنا شروع کیااوراپنی وفات تک اس سلسلے کو قائم رکھا۔یہ کارنامہ صحافتی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ کوئی صحافی مسلسل چالیس سال تک پابندی سے کالم لکھتا رہاہو۔بلٹز اخبار میں صرف خواجہ احمدعباس ہی ایسے صحافی تھے جن کی تحریر پریس میں بھیجنے سے قبل آر کے کرنجیا کے پاس نہیںجاتی تھی۔اردو میں لاسٹ پیج آزاد قلم کے نام سے شائع ہوتا تھا۔آزاد قلم اردو صحافت کا مقبول کالم تھا۔آزاد قلم میں ادب ‘فلم ‘کلچر اور کتابوں کے متعلق ان کی خاص رپورٹ ہوتی تھی۔ان رپورٹوں میں اتنی معلومات ہوتی تھی کہ ادب اور کلچر میں دلچسپی نہ رکھنے والے بھی اسے پڑھتے تھے۔اس کے علاوہ آزاد قلم میں سیاسی تڑکہ ان کے مخصوص انداز میں منعکس ہوتا تھا۔ان سیاسی کالموں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا جیسے عباس ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔عباس کا ہاتھ عوام کی کمزورنبض پر ہوتا تھا۔لوگوں کو یہ محسوس ہوتا تھا‘ جیسے ان کے دل کی بات کہہ دی گئی ہو۔

خواجہ احمد عباس ہفتے میں صرف ایک دن بلٹز کے لیے نکالتے تھے۔وہ جمعرات کواپنے اپارٹمنٹ کے پیچھے واقع دفتر میںبیٹھ کردن بھر آزاد قلم لکھتے رہتے تھے۔ان کے ساتھ ان کے دونوں سیکریٹری عبدالرحمن ا ور وحید انور موجود ہوتے۔ان کے ایک سکریٹری شفیق احمد نے بڑے دلچسپ انداز بیان میںان کے کام کرنے کے طریقے پرروشنی ڈالی ہے۔’’جمعرات کے دن ناشتہ کرتے ہی عباس صاحب اردو بلٹز کے لیے لکھنا شروع کردیتے تھے۔وحید انور صرف جمعرات کے دن آتے تھے اور ان کے مضمون کی نقل کر کے دوکاپیاں بناتے تھے۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد عباس صاحب سو جاتے تھے اور چار بجے اٹھ کرانگریزی بلٹز کے لیے دوسرا مضمون لکھتے تھے‘جو عبدالرحمن صاحب ٹائپ کرتے تھے۔ہندی بلٹز کے ایڈیٹر ان کے اردو مضمون کا ہندی میں ترجمہ کرتے تھے۔وحید انور صاحب ان کے مضمون کوبلٹز کے دفتر دے کرآتے تھے۔ (ماہنامہ نیا دور لکھنؤ۔مارچ۔ستمبر 1988ص66 )

’آزاد قلم‘ میں خواجہ احمدعباس ملک کے سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی مسائل کا زبردست محاسبہ کرتے تھے۔ اس کالم میں عباس سماجی تفریق ‘جہالت اور وحشیانہ عقیدت مندی میںغیرانسانی سلوک پر بھی اظہار خیال کرتے تھے۔کبھی وہ ان مسائل پر طنز کرتے ہیں کبھی اس کی تفسیر بیان کرتے ہیںاور کبھی وہ ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔آزاد قلم کا انداز ہر کالم میںمتفرق ہوتاہے۔ طنزیہ‘ مزاحیہ اور تبصراتی انداز بھی وہ حسب ضرورت استعمال کرتے تھے۔وہ اکثر سماجی اصلاحات میں اہم کارکردگی انجام دینے والے افراد کی تعریف و توصیف بھی کرتے تھے۔جیسے مہاراشٹر کے ایک گاؤں میں لوگوں نے پانی پنچایت کی تشکیل کی تو خواجہ صاحب کی نظر ادھر گئی۔ انھوںنے آزاد قلم میں اس موضوع پر توصیفی اظہار خیال کیا۔1975میں مہاراشٹر میں مراہٹواڑا علاقے میں خزانے کی تلاش کے لیے دوشیزاؤں کی بلی دے دی گئی۔ عباس کے آزاد قلم نے اس اقدام کی سخت مذمت کی۔ انھوںنے لکھا۔ کیا ہم ابھی تک وحشی ہیں۔انھوں نے اس درندگی کی لعن طعن کی۔انھوںنے اس کالم میں کرشن چندرکے افسانے ہم وحشی ہیںکا بھی تذکرہ کیا۔

آزاد قلم کے موضوعات خواجہ احمد عباس کی سچائی اور ایمانداری کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کالموں کے موضوعات میں تنوع ہے۔ ان کی سادگی اور پرکاری اور اپنی بات کو نپے تلے غیرشاعرانہ انداز میں کہنے کی ان کی ادا بھی لوگوں کوان کے کالموں کی طرف کھینچتی تھی۔خواجہ صاحب کہا کرتے تھے کہ ان کے کالم لوگ اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ سچ کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔

خواجہ احمد عباس

فلم ساز ‘کہانی کار‘ ناول نگاراور معروف صحافی خواجہ احمد عباس 1914-1987پانی پت کے ایک روشن خیال علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ان کے والدکا نام غلام السبطین تھا۔ان کے چچا غلام الثقلین اور غلام الحسنین دونوں تعلیم یافتہ تھے۔خواجہ احمدعباس کی ابتدائی تعلیم پانی پت میںہوئی۔انھوںنے حالی مسلم ہائی اسکول سے ہائی اسکول پاس کیا۔کہا جاتا ہے کہ بھگت سنگھ ان کے ہم مکتب تھے۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںداخل کرا یاگیا۔علی گڑھ سے انھوںنے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔پھرایل ایل بی کیا۔علی گڑھ کے ادبی ماحول میں عباس کی شخصیت میںبہت کچھ تبدیلی آئی۔ وہ علی گڑھ سے ڈرامہ ‘فلم اور ادبی ذوق کی ہمہ گیری کے ساتھ باہر نکلے۔

خواجہ احمد عباس کو وکالت پسند نہیں تھی۔ انھوںنے صحافت کو بطور پیشہ منتخب کیا۔وہ علی گڑھ میں یونیورسٹی میگزین کی ادارت کر چکے تھے۔انھوں نے علی گڑھ میں علی گڑھ اوپینین اخبار شائع کیا،جس میں وہ خود مضامین لکھتے‘ اسے پریس میں دیتے اور سائکل پر بیٹھ کر اسے تقسیم کرتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے ‘جہاں ان کے والد نے دوا خانہ کھول رکھا تھا۔عباس نے دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار’ نیشنل کال ‘ میں بطور نامہ نگار کام کرناشروع کر دیا۔دراصل صحافت کا الف بے انھوںنے نیشنل کال سے سیکھا۔لیکن انھیںجلد ہی ممبئی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بامبے کرونیکلBombay Chronicle میں سب ایڈیٹر کی نوکری مل گئی۔ ان کی اصل صحافتی تربیت بامبے کرونیکل میںہوئی۔ان کی فلموںسے رغبت کی وجہ بھی بامبے کرونیکل بنا ‘جس میں انھیں فلمی تبصرے لکھنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ان کے فلمی تبصرے فلم ساز پسند نہیں کرتے تھے۔کیوں کہ وہ فلم سازوںکو آئینہ دکھانے کا کام کرتے رہتے تھے۔فلم سازی کے شعبے میں قدم بڑھانے کی پوری تفصیل انھوںنے اپنی خود نوشت’ جزیرہ نہیں ہوں میں‘ کے باب ’ غیر معمولی ناقد فلم ‘میں دیا ہے۔

آر کے کرنجیا

رستم خورشید جی کرنجیا موسوم بہ آر کے کرنجیا 1912-2008 ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے دوست اور گھر والے انھیں پیار سے روسی کہتے تھے۔وہ پارسی النسل تھے اور انتہائی امیر کبیرپارسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اس خاندان نے انگریزی طرز رہائش اختیار کر لی تھی۔ان کے والد آنکھ کے معروف سرجن تھے۔انھوںنے ایڈن برگ سے سرجری کی تربیت حاصل کی تھی۔ان کی والدہ پاکستان کے کویٹا شہر کی ایک امیر پارسی خاندان کی بیٹی تھیں۔ان کی تعلیم و تربیت انگریز ی گورنیس کے ذریعے ہوئی تھی۔ کرنجیا خاندان اورینٹ کلب کے سامنے چوپاٹی بیچ کے پاس کویٹا ٹیریس میں رہتا تھا۔یہ مکان ان کے نانا نے ان کی والد ہ کو شادی کے تحفے میںدیا تھا۔آر کے کرنجیا کے گھر میں موسیقی کے تمام جدید آلات اور آرام و آسائش کے سامان موجود تھے۔ کرنجیا کی پرورش انگریزی کے اشرافیہ پارسی خاندان میں ہوئی۔ان کی تعلیم شہر کے بہترین اسکول سینٹ زیویئرس میں ہوئی۔انھوں نے ولسن کالج سے گریجویشن کیا،  لندن جاکر آکسفورڈ سے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے مگر ٹائمز میں ان کی نوکری نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔کرنجیا صرف انگریزی بول سکتے تھے۔یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ بلٹز جیسے عوامی اخبار کے چیف ایڈیٹر ہونے کے باوجود کرنجیاکسی ہندوستانی زبان کا ایک لفظ نہیں جانتے تھے۔انھیںصرف گجراتی کے چند الفاظ یاد تھے۔

کرنجیا کی وفات یکم فروری 2008 کو ہوئی جب کہ انھوںنے 68سال قبل یکم فروری 1941کو بلٹز کا اجرا کیا تھا۔ایسا اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ کرنجیا کی چالیس سال کی زندگی کے شب وروز بلٹز کے ساتھ گزرے تھے۔


Zakir Hussain Zakir

Shanti Nagar Mahuabari

Near Sant Pushpa School

Deoria- 274001 (UP)

Mob.: 9415276138

Email.: zakirhssn8@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں