پروفیسر ابن کنول جن کا اصل نام ناصر محمود کمال اور قلمی نام ابن کنول ہے،کی پیدائش 15اکتوبر 1857 کوضلع مراد آباد کے قصبہ بہجوئی میں ہوئی۔ان کے اجداد مغلیہ دور کے حکمران شاہجہاں کی حکومت میں ہندوستان آئے تھے۔بادشاہ نے ان کو قاضی کے عہدے پر فائزکیا اور جاگیر بھی دی۔بعد میں یہ خاندان ڈبائی قصبہ میں آکر رہائش پذیر ہوا۔پروفیسر ابن کنول کی عظیم المرتبت شخصیت کے پیچھے جو عناصر کارفرما ہیں ان میں سب سے پہلے پروفیسر صاحب کا خاندان ہے جن کی تربیت و پرورش نے انھیں ایک قابل قدر تخلیق کار بنایا۔پردادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے،دادا قاضی شریعت اللہ ایک قابل وکیل اوروالد قاضی شمس الدین کنول ڈبائیوی ایک مشہور شاعر اور لوک ناٹک روایت کے علمبردار تھے، انھوں نے دو شعری مجموعے ’بساطِ زیست‘ اور ’سوز وطن‘ لکھے ہیں۔اس طرح جس قصبے میں پروفیسر ابن کنول نے بچپن گزارا وہا ں کی ادبی فضا بھی نہایت بلند و بالا تھی جس کے اثرات بھی ان کی شخصیت پر پڑے۔یہ ادبی فضا جن بزرگوں اور ادیبوں سے پر تھی ان میں وفا ڈبائیوی، دعا ڈبائیوی،انتظار حسین، امید فاضلی، ندا فاضلی اور منیب الرحمان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔پروفیسر ابن کنول کی شخصیت کو نکھارنے کے پیچھے جو ایک اور محرک کارفرما ہے وہ گنورسے منٹو سرکل،منٹو سرکل سے پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر دہلی یونیورسٹی تک اساتذہ کی وہ پود ہے جن سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور جن کی تربیت نے پروفیسر صاحب کو کھرا سونا بنا دیا۔ ان میں حاجی صفدر علی،منشی چھٹن،پروفیسر خورشید الاسلام، پروفیسر قاضی عبد الستار،ڈاکٹر خلیل الرحمٰن عظمی، پروفیسر شہر یار،پروفیسر نورالحسن نقوی،پروفیسر عتیق احمد صدیقی،پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں پروفیسر ابن کنول کے احباب کی صحبت نے بھی پروفیسر صاحب کی شخصیت کو سدا بہار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان رفیقوںاور قرابت داروں میں شارق ادیب، سید محمد اشرف،غضنفر، پیغام آفاقی، طارق چھتاری، غیاث الرحمان، صلاح الدین پرویز، آشفتہ چنگیزی،فرحت احساس، اسعد بدایونی، مہتاب حیدر نقوی وغیرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر ابن کنول کا تعلیمی سلسلہ گنور کے پرائمری اسکول
سے 1962 میںشروع ہوا اور پانچویں کے بعد ’منٹو سرکل ‘ میں داخلہ لیا جہاں سے 1972 میں
دسویں کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد سائنس میں
داخلہ لیا لیکن طبیعت اس جانب نہ گئی اور بی اے کیا۔1978 میں علی گڑھ سے ایم اے اردو
کیا۔بعد میں پروفیسر ابن کنول نے دہلی کا رُخ کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دہلی کے ہو
کر رہ گئے۔ پی ایچ ڈی تنویر احمد علوی کی نگرانی میں 1984 میں’بوستانِ خیال کا تہذیبی
و لسانی مطالعہ‘ کے موضوع پر مکمل کیا۔بعد میں دہلی یونیورسٹی میں ہی بحیثیت ریسرچ
اسسٹنٹ کام شروع کیا۔1987 سے 1990 تک یہ سلسلہ جاری رہااور1990 میں مستقل لیکچرر کے
طور پر کام شروع کیا۔1998 میں آپ یونیورسٹی کے ریڈر منتخب ہوئے اور2006 میں لیکچرر
سے ترقی کرکے پروفیسر بن گئے۔ 2005 سے لے کر 2008 تک شعبہ اردو کے صدر بھی رہے اور
سال2022 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ پروفیسر ابن کنول کی زیرِ نگرانی 38 طلبا و طالبات
نے ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مکمل کیں۔37 سال تک آپ درس وتدریس سے وابستہ رہے۔چند
روز قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائیوا کے لیے گئے تھے۔ وائیوا کے بعد علی گڑھ
میں ہی جمال پور علاقے میں قریبی عزیزوں سے ملاقات کی غرض سے گئے ہوئے تھے کہ اچانک
دل کا دورہ پڑ گیا اور اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج لے جایا گیا جہاں11فروری2023
کو آخری سانس لی۔
پروفیسر ابن کنول ایک شریف النفس،ملنسار،خوش خلق، ہنس مکھ
اور سادہ گوشخص تھے۔جب بھی بات کرتے تھے نہایت باریکی اور ٹھہرائو کے ساتھ کرتے تھے۔اپنے
شاگردوں کے ساتھ استاد کم دوست زیادہ لگتے تھے۔ انتہائی باکمال،باصلاحیت اور باذوق
تخلیق کارتھے۔تحقیق و تنقید میں اعلیٰ مرتبت،درس و تدریس میں ماہر اور ایک زود نویس
قلم کار کے بطور تقریباً 29 سے زائدکتابیں تصنیف و ترتیب دیں۔اردو ادب میں پروفیسر
ابن کنول ایک جدید افسانہ نگار کے بطورجانے جاتے ہیں لیکن ان کی تخلیقی صلاحیتیں جس
صنف کو ہاتھ لگاتی ہیں وہ ان ہی کی ہو جاتی ہے۔ان کی تخلیقی کاوشوں میں افسانے، ڈرامے،
خاکے، انشائیے، تنقیدی مضامین، سفر نامے اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔پروفیسر ابن کنول
کی ادبی خدمات کے تئیں انھیں مختلف مراحل پر ادبی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
ادب کے میدان میں پروفیسر ابن کنول نے طالب علمی کے زمانے
میں ہی قدم رکھا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںجب ’انجمن اردوئے معلیٰ‘ (یہ وہی انجمن
ہے جس کی بنیاد حسرت موہانی نے ڈالی تھی)کے سیکرٹری بنے تو اسلم حنیف سے متاثر ہوکر انھوں نے انسان
کے چاند پر قدم رکھنے پر پہلی نظم کہی جو ماہنامہ’نور‘ رامپورمیں شائع ہوئی۔لیکن جلد
ہی پروفیسر صاحب نے اندازہ لگایا کہ ان کا حقیقی میدان افسانہ ہے اور اپنی پوری توجہ
افسانہ نگاری پر صرف کی۔ادبی دنیا میں ان کا قدم رکھنے کے پیچھے ان کے گھر کا ماحول
اوردوستوں کا خاصا اہم کردار ہے۔وہ خود بتاتے ہیں
’’جیسا
کہ میں نے کہا کہ گھر میں ادبی ماحول تھا، پھر بچپن ہی سے کچھ دوست بھی ایسے ملے،اسکول
ہی کے زمانے میں شعر موزوں کرنا شروع کر دیا تھا۔چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھیں،گنور میں
اس وقت مشاعرے بہت ہوتے تھے۔ علامہ ابراحسنی گنوری اس وقت موجود تھے۔والد مرحوم مشاعروں
میں شرکت کرتے تھے،میں بھی شریک ہوتا تھا۔ علی گڑھ آنے کے بعد باقاعدہ افسانے لکھنے
شروع کردیے تھے۔علی گڑھ کے ماحول کا بہت اثر ہوا۔‘‘
(بحوالہ
’اردو فکشن اور علی گڑھ‘، ڈاکٹر فرح جاوید ایچ ایس آفسیٹ پرنٹرس، دہلی2012، ص252)
ابتدا میں آپ ناصر کمال کے نام سے افسانے لکھتے تھے۔بعد
میں ابن کنول کے نام سے لکھتے رہے۔پروفیسر ابن کنول نے 1972 میں افسانہ نگاری کے میدان
میں قدم رکھا اور 1974 میں ان کا پہلا مطبوعہ افسانہ ’ اپنے ملے اجنبی کی طرح‘ رسالہ
’آفتاب سحر‘ سکندر آباد میں شائع ہوا۔ اس کے بعد پروفیسر صاحب کے افسانے ملک کے مختلف
ادبی رسائل (شاعر،عصری ادب، آہنگ اور نشانات وغیرہ) میں لگاتار شائع ہوتے رہے۔ ان
کے افسانوں میں اساطیری اور تخیلی ادب کی کارفرمائی سے کہانیوں کا رنگ داستانوی ہوگیا
ہے لیکن قصہ اور لطفِ خاص سے بھرپور یہ کہانیاں قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتی
ہیں۔ پروفیسر ابن کنول اپنے افسانوں میں عموماََ ثقافتی اسالیب کی مہم جوئی میں مصروف
نظر آتے ہیں۔
1976
میں ان کا ایک اور افسانہ ’بند راستے‘ رسالہ ’عصری ادب ‘ میں شائع ہوا تو ڈاکٹر محمد
حسن نے داد و تحسین دی جس نے پروفیسر ابن کنول کے حوصلے میں اضافہ کیا۔ جون1984 میں
ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’تیسری دنیا کے لوگ‘
جمال پرنٹنگ پریس،دہلی سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل 15 افسانے شامل ہیں۔
2000 میں افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’ بند راستے‘ ہم قلم پبلی کیشنز، دہلی سے شائع ہوا۔اس
مجموعے میں افسانے شامل ہیں۔ 2014 میں افسانوں کا تیسرا مجموعہ ’پچاس افسانے‘ کتابی
دنیا،دہلی سے شائع ہوا جس میں پچھلے دو مجموعوں میں شامل سبھی افسانوںکے ساتھ ساتھ
کچھ نئے افسانے شامل ہیں۔پروفیسر ابن کنول کی کامیاب افسانہ نگاری کے پیچھے ان کے استاد
قاضی عبد الستار کا ہاتھ ہے۔اس بات کا اعتراف بھی پروفیسر صاحب نے خود کیا ہے۔ ملاحظہ
ہو
’’دیکھیے
مجاز نے تقریباً سبھی کو متاثر کیا ہے۔ میرے اوپر رشید احمد صدیقی اور قاضی عبد الستار
کا بہت اثر رہا۔
رشید احمد صدیقی تو واقعتا قابل تقلید ادیب تھے
اور قاضی عبد الستار کے قدموں میں بیٹھ کر تو میں نے افسانہ
لکھنا سیکھا۔مجھے قاضی صاحب کے اسلوب اور موضوع
نے بہت متاثر کیا۔میرے زمانے کے علی گڑھ
کے میرے ہم عمر تقریباََ سبھی افسانہ نگاروں نے قاضی صاحب کا اثر قبول کیا۔‘‘
(بحوالہ
’اردو فکشن اور علی گڑھ‘، ڈاکٹر فرح جاوید ایچ ایس آفسیٹ پرنٹرس،دہلی 2012، ص253)
صنف ’ڈراما نگاری‘ میں بھی پروفیسر ابن کنول نے دو مجموعے
لکھے ہیں۔پہلا مجموعہ’پہلے آپ‘ 2008 میں شاع ہوا اور 2020 میں ’بزم داغ‘ کے عنوان
سے دوسرا مجموعہ شائع ہوا،جس میں 4 ڈرامے شامل ہیں۔اس میں ایک اہم ڈراما’ بزم داغ‘
اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کی زبانی پیش کیا گیا ہے جس میں داغ ہی راوی ہیں اور
مرکزی کردار بھی۔
پروفیسر ابن کنول ایک معتبر محقق ہیں انھوں نے انتہائی چابکدستی
سے تحقیق کا حق ادا کیا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی صحیح سمت میں تحقیق کی تلقین کرتے
تھے۔ پروفیسر صاحب کی تحقیقی خدمات میں سب سے پہلے ’ہندوستانی تہذیب(بوستان خیال کے
تناظر میں)‘ ہے جو ان کی پی۔ایچ۔ڈی کا موضوع بھی تھا،1988 میں اردو اکیڈمی،دہلی سے
شائع ہوئی۔اس کتاب کو پروفیسر ابن کنول نے اپنے استاد پروفیسر قمر رئیس کے نام معنون
کیا ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ ’پروفیسر مونس رضا‘ نے لکھا ہے۔چوں کہ ڈاکٹر تنویر احمد
علوی کی نگرانی میں پروفیسر ابن کنول نے پی ایچ ڈی مکمل کیا اور سند کے طور پر ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے ’سخن
در سخن‘ کے عنوان سے چند کلمات لکھے ہیں۔اپنی اس تحقیقی کاوش میں پروفیسر ابن کنول
نے پہلے داستان گوئی کے فن پر مکمل گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد بوستان خیال کا تعارف پیش
کیا ہے۔اگلے ابواب میں پھر اس عہد کا سیاسی پس منظر،تہذیبی اقدار، معاشرتی حالات، شکوہ
سلطنت، تفریحات، اخلاقی اقدار، اعتقادات، رسم ورواج اور فنون لطیفہ پر مفصل گفتگو کرکے
مختلف دریچوں کو وا کیا ہے۔پروفیسر ابن کنول کی تحقیقی خدمات میں ایک اہم کارنامہ’داستان
سے ناول تک‘ ہے۔ یہ کتاب 2001 میں بھارت آفسیٹ پریس،دہلی سے اور پھر اضافہ شدہ ایڈیشن
کے ساتھ 2003 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بھی داستان کے فن پر اور اردو کی مختلف ومشہور
داستانوں (سب رس،قصہ مہر افروزو دلبر، نوطرزِ مرصع،عجائب القصص، باغ و بہار، مذہبِ
عشق، فسانہ عجائب اور بوستان خیال ) کو پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ اضافہ شدہ ایڈیشن میں
داستان ایک عوامی صنف، اردو داستانوں میں ہندوستان کی تہذیب، داستانوی طریقہ اظہار
اور مختصر افسانہ،بوستان خیال کا لسانی مطالعہ اور فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات کو
پیش کر کے اردو فکشن کی وسعتوں میں اضافہ کیا۔پروفیسر ابن کنول تنقید کی نسبت تخلیق
اور تحقیق پر زیادہ زور دیتے تھے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
’’تحقیقی
مقالات کی اہمیت سائنس میں بہت زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ وہاں نئی ایجادات کے امکانات
رہتے ہیں لیکن ادب میں اس کا اطلاق کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا لیکن یہی ہو رہا ہے
جس کی وجہ سے تخلیق کار بڑا فنکار ہونے کے باوجود بھی نقاد کے پیچھے کھڑا دکھائی دیتا
ہے۔سمیناروں میں تخلیق کاروں کوکم دعوت دی جاتی ہے اور ناقدین ان کی تخلیقات پر اپنا
حلوہ مانڈہ پکاتے ہیں۔‘‘
(پیش
لفظ)تنقید وتحسین، پروفیسر ابن کنول، کتابی دنیا، دہلی 2006، ص8)
اردو تحقیق کے میدان میں پروفیسر ابن کنول کا تاریخی کارنامہ
یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کا پہلا ناول ’مراۃ العروس
‘نہیں بلکہ منشی گمانی لعل کی ’ریاض دلربا ‘ ہے۔
تحقیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ پروفیسر ابن کنول تنقیدی بصیرت
رکھتے تھے۔تنقید نگاری کے میدان میں پروفیسر
صاحب نے نادر نمونے پیش کر کے اردو تنقید نگاری کو مزید وسعت بخشی۔ان کے تنقیدی رویے
کو دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے تنقید نگار تھے۔تنقید نگاری کے
ضمن میں پروفیسر ابن کنول کی متعدد کتابیں ہیں لیکن بنیادی طور پر’تنقید و تحسین
(2006)‘، ’اردو افسانہ(2011)، تنقیدی اظہار(2015)، اردو شاعری (2019) اور داستان کی
جمالیات (2020) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
’تنقید
و تحسین‘ اگر چہ مضامین کامجموعہ ہے جس میں
18 مضامین شامل ہیں لیکن تمام مضامین تنقیدی بصیرت سے تیار کیے گئے ہیں۔ خود پروفیسر
ابن کنول کے نزدیک یہ مجموعہ تنقید نگاری نہیں بلکہ ذاتی تسکین کا سامان ہے لیکن ان
کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ صاف ہوجاتا ہے کہ پروفیسر ابن کنول نہایت باریک تنقیدی شعور
رکھتے ہیں۔ سرسید اور ان کے عہد سے لے کرمراثی انیس ودبیر کے ساتھ ساتھ خطوط غالب،مصحفی
کے جائزے اورہم عصر پاکستانی ادب تک بات کرتے ہوئے بھر پور تنقیدی قوت کا مظاہرہ کیا
ہے۔ اسی طرح ’اردو افسانہ‘ جو کتابی دنیا، دہلی سے 2011 میں شائع ہوئی،میں بھی افسانہ
نگاری کے مختلف دریچوں کو وا کر کے قارئین کو صنف ِ افسانہ کی بھر پور سیر کرائی ہے۔پریم
چند، علی عباس حسینی،کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات
اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، قرۃ العین حیدراور قاضی عبد الستار کی افسانہ نگاری
کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ابن کنول نے ان افسانہ نگاروں کے معروف افسانوں کو پیش
کر کے آنے والی نسل کے لیے راہیں ہموار کیں۔ تیسری کتاب ’تنقیدی اظہار‘ بھی کتابی
دنیا،دہلی سے سال 2015 میں شائع ہوئی اس کتاب میں 19 مضامین شامل ہیں۔ اس کے بھی تمام
مضامین تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے ہیں۔بہر حال تنقید نگاری کے حوالے سے پروفیسر ابن
کنول کا نظریہ بالکل واضح ہے۔شارب ردولوی سے متعلق خاکے میں فرماتے ہیں
’’ اگر
نقاد نہ ہوں تو کوئی طالب علم کسی امتحان میں پاس نہیں ہو سکتا۔ولی،میر،غالب اور اقبال
کو تو چھوڑیے ناصر کاظمی جیسے سہل ممتنع کے
شاعر کو بھی سمجھنے کے لیے نقاد کی ضرورت ہوتی ہے۔عہدِ حاضر میں ولی کے کلام کو تو خود دکن کے لوگ نہیں سمجھ پاتے۔بھلا ہو ڈاکٹر
شارب ردولوی کا انہوں نے ولی اور ان کی شاعری پر اتنا تفصیل سے لکھ دیا کہ طالب علموں
کو امتحان کے لیے ولی کا کلام پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔‘‘
(اخبار
(قومی آواز)، نئی دہلی، مضمون نگار(جمال عباس فہمی)، 13فروری2023)
پروفیسر ابن کنول کی تخلیقی کاوشوں میں افسانے، ڈرامے، تحقیقی
و تنقیدی مضامین کے علاوہ خاکے،انشائیے اور سفرنامے بھی شامل ہیں۔خاکہ نگاری اور انشائیہ
نگاری کی عمر ان کی افسانہ نگاری،تحقیق و تنقید نگاری سے کم ہے لیکن پچھلے تین چار
برسوں کے دوران انھوں نے خاکہ نگاری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔خاکہ نگاری میں ان کی
کتاب’ کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘ ہے جو 2020 میں کتابی دنیا،دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ مجموعہ
پروفیسر ابن کنول نے عالمی وبائی بیماری کووڈ 19 اور ملک گیر لاک ڈائون کے دوران تحریر
کیا۔ چونکہ آدمی کا باہر نکلنا مشکل تھا اور عالم انسانیت گھروں کے اندر محصور ہو
کر کے رہ گئی تھی جس کے نتیجے میں پروفیسر ابن کنول یہ خوبصورت کتاب قارئین کے سامنے
رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں
’’اس
نظر بندی میں مجھے میرے اپنے یاد آئے، جن سے میرا خون کا رشتہ نہیں لیکن دل کا رشتہ
تھا۔ اور دل کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔میں
نے انھیں قلم کے ذریعے یاد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 12اپریل کو’داستان کی جمالیات‘ کا
پیش لفظ لکھ کر کتاب مکمل کی اور 14 اپریل سے خاکے لکھنے شروع کردیے۔سب سے پہلے اپنے
پرائمری اسکول کے استاد کو یاد کیا۔پھر اسکول کے ہم جماعت کی یاد آئی۔پھر علی گڑھ
اور دہلی کے اساتذہ کو یاد کیا۔ہر روز ایک خاکہ لکھا،پھر سوچا کہ محنت کیوں رائیگاں
جائے، اسے کتابی شکل دے دی جائے،سو کتاب حاضر ہے۔‘‘ (چار کھونٹ، ابن کنول، کتابی دنیا،
دہلی 2020، ص9)
اس مجموعے میں کل 25 شخصیات (معلمین، محبین، مربین، مشفقین
اور منسلکین )کے خاکے ہیں۔سب سے پہلا خاکہ ’ منشی چھٹن‘ 14اپریل 2020 کو لکھا۔منشی چھٹن پروفیسر ابن کنول
کے گنور کے پرائمری اسکول میں استاد رہ چکے
تھے۔ دوسرا خاکہ ’منٹو سرکل ‘ جو اپنی نوعیت کا پہلا خاکہ ہے جس میں پروفیسر ابن کنول
نے اسکول اور ہم جماعتوں کی خوبصورت تصویر کھینچی ہے۔یہ وہ اسکول ہے جہاں پرائمری کے
بعد پروفیسر ابن کنول کا داخلہ ہوا تھا۔ یہیں سے انھوں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس
کیا تھا۔ مذکورہ کتاب میں شامل دیگر خاکے قاضی عبد الستار، قمر رئیس، تنویر احمد علوی،گوپی
چند نارنگ،عنوان چشتی، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر،محمد زماں آزردہ،
محمد عتیق صدیقی،پیغام آفاقی،اسلم حنیف اور ارتضیٰ کریم پر مشتمل ہیں۔پروفیسر ابن کنول نے قارئین کرام کی
توجہ اس کتاب کی جانب حلفیہ انداز میں یوں مبذول کرائی ہے
’’ جو
کچھ کہوں گا سچ کہوں گا،سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔یقین کریں یا نہ کریں،آپ کو اختیار
ہے۔‘‘
(کچھ
شگفتگی کچھ سنجیدگی، پروفیسر ابن کنول، کتابی دنیا،دہلی 2020، ص4)
پروفیسر ابن کنول کی اس تصنیف کا مطالعہ کرنے کے بعد اس
بات کا اعتراف کرنے میں کوئی شبہ نہیں کہ پروفیسر
صاحب نے یہ خوبصورت کتاب تخلیق کرکے اردو خاکہ نگاری کو بامِ عروج و ارتقا تک پہنچایا۔اس
کتاب میں شامل خاکوں کے علاوہ پروفیسر ابن کنول کے چند اور خاکے اردو دنیا کی ویب پورٹل’ادبی
میراث‘ پر دستیاب ہیںجن میں’خوش گفتار صدیق الرحمٰن قدوائی‘،’کتاب دوست سید شاہد مہدی‘،’سدا بہارپروفیسر اختر الواسع‘، ’ماہر اقبالیات پروفیسر
عبد الحق‘، ’ خاتونِ مشرق پروفیسر شمیم نکہت‘ اور ’خاقانی جامعہ پروفیسر خالد
محمود‘ قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر ابن کنول نے مختلف ممالک کا سفر کیا اور مختلف بین الاقوامی سمیناروں میں بطور خصوصی ممبر کے شرکت
کی۔ آپ نے پاکستان، متحدہ عرب امارات، امریکہ، ازبکستان، موریشس،ماسکو اور لندن کاسفر
کیا اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں واقع یونیورسٹیوں کی جانب سے منعقد
سمیناروں میں بھی شرکت کی۔اس کے علاوہ بطور ممتحن بھی آپ نے ملک کی مختلف جامعات کا
دورہ کیا۔اپنے اس سارے سفری سلسلے کو پروفیسر ابن کنول نے ’چار کھونٹ‘ میں جمع کیا
ہے۔یہ کتاب 2022 میں کتابی دنیا،دہلی سے شائع ہوئی۔اس میں شامل پہلا سفر’حج بیت اللہ‘
سے متعلق ہے۔اس کے بعد امریکہ، موریشس، لندن (انگلینڈ)، پاکستان (پشاور)، پاکستان
(فیصل آباد)، متحدہ عرب امارات، ماسکو، ازبکستان اور پھر اختتامیہ (سارے جہاں سے اچھا
ہندوستان ہمارا)لکھا ہے۔’چار کھونٹ‘ کے متعلق محمدزماں آزردہ فرماتے ہیں
’’چار
کھونٹ‘ ابن کنول کے ان سفرناموں پر مشتمل ہے جو انھوں نے سفر حج کے علاوہ محض ادبی
اجتماعات میں شمولیت کرنے اور اپنے اہل خانہ
کو مختلف جگہوں کی سیرو تفریح کرانے کے سلسلے میں کیے ہیں۔لیکن اپنے ان سفرناموں کے ذریعے ہمیں یعنی قارئین کو شریک کرکے
نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کیا ہے بلکہ ان کی اپنی شخصیت کے مختلف گوشے اس طرح
واضح ہوئے ہیں کہ سامنے نظر آنے والا ابن کنول آنکھوں سے اوجھل ہو کے ایک قدآور،دور
دور تک اپنا سایہ پھیلانے والا اور مختلف رنگوں کی روشنیوں کو اپنے اندر جذب کرنے والا
ایک محیر العقل ذی روح کا سامنا کرا دیتا ہے۔‘‘
(چار
کھونٹ، ابن کنول، کتابی دنیا، دہلی 2022، ص10)
ابن کنول نے اپنے والد ’کنول ڈبائیوی‘ کا سفر نامہ ’بحر
تجلیات‘ کو ترتیب دے کر فنِ سفرنامہ نگاری کو مزید تقویت بخشی۔
پروفیسر ابن کنول نے ادبی زندگی کا آغاز اگر چہ شاعری سے
کیا لیکن بنیادی طور پر آپ شاعر نہ تھے البتہ شعری ذوق غضب کا رکھتے تھے۔شاعری کی
متعدد کتابیں ترتیب دے کر پروفیسر ابن کنول نے اپنی سخن فہمی اور نکتہ رسی کا بھر پور
ثبوت دیا ہے۔اس ضمن میں ان کی ترتیب کردہ کتابیں ’انتخابِ سخن(2005)‘، ’منتخب نظمیں
(2005)‘، ’منتخب غزلیات(2005)‘، ’اصنافِ پارینہ (2005)‘ اور ’نظیر اکبر آبادی کی منتخب
شاعری (2013) لائقِ ستائش ہیں۔اس کے علاوہ پروفیسر ابن کنول نے اپنے والد کنول ڈبائیوی
کی کلیات کو ’مضراب ‘ کے عنوان سے بھی ترتیب دیا ہے۔
بہرحال پروفیسر ابن کنول کی شخصیت اتنی ہم گیر اور ہم جہت ہے جس کو اس مختصر سے مقالے میں قید کرنا ناممکن ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پچھلی پانچ دہائیوں پرمحیط ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ لکھتے رہے۔ ان کی ہر تخلیق اور ہر قدم ایک نئی منزل کا پتا دیتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔
n
Shabeer Ahmad Lone
R/o: Frisal Kulgam - 192232 (J&K)
Mob.: 9906638397
Email.: shabeerlone2018@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں