ارد و کی جدید اصناف نثر میں ایک اہم صنف خاکہ نگاری بھی
ہے۔بقول ابن کنول:
’’خاکہ
نگاری بہت ہی نازک صنف ہے،شیشہ گری ہے۔ذرا سی لغزش سے خاکہ نگار بھی اور وہ شخصیت بھی
جس پر خاکہ لکھا گیا ہے،برباد ہو سکتے ہیں۔غزل کی طرح اس میں اشاروں اور کنایوں میں
بات کی جاتی ہے۔جو شخص اشاروں میں بات نہیں کرسکتا وہ خاکہ نہیں لکھ سکتا۔خاکہ میں
مختصر الفاظ میں مکمل شخصیت پیش کرنی ہو تی ہے۔تحریر کو دلچسپ بنانا بھی ضروری ہے ورنہ
کوئی قاری کسی کے بارے میں کوئی تحریر کیوں پڑھے گا...... اس لیے مزاح کی چاشنی ضروری
ہے۔ ‘‘
(کچھ
شگفتگی کچھ سنجیدگی، ص10)
وہیں ابن کنول یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک اچھے خاکہ نگار کو
چاہیے کہ وہ ایمانداری کا ساتھ کبھی بھی نہ چھوڑے کیونکہ ہر ذی شعور کے اندر اچھی او
ربری خو بیاں پائی جاتی ہیں۔یہ اقتباس دیکھیں
’’کسی
بھی شخص کی شخصیت خاکہ میں اسی وقت ابھر کر سامنے آسکتی ہے جب اس کی اچھائیوں کے ساتھ
اس کی خامیاں بھی بیان کی جائیں۔یہی خاکہ نگارکی دیانت داری کا تقاضاہے۔‘‘
قدیم اردو نثر ونظم میں خاکہ نگاری کے نقوش جابجا ملتے ہیں۔چاہے
وہ قصیدہ ہو یا ہجویہ قصیدہ،مثنوی ہو یا مرثیہ۔فکشن کی اصنا ف میں ناول،افسانہ اورڈرامہ
وغیرہ میں بھی خاکے کے مختلف نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں۔اگر ابتدائی خاکہ نمانقوش
کی بات کریں تو ان میں محمد حسین آزاد،عبدالحلیم شرر،مرزا ہادی رسوااور خواجہ حسن
نظامی وغیرہ اہم ہیں۔ اس کے بعد اس صنف کومکمل فنی اور ہیئتی مقاصد کے اعتبار سے آگے
بڑھانے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، مولوی عبد الحق، رشید احمد صدیقی، اشرف صبوحی،
عبدالمجید سالک وغیرہ ہیں۔ خاکہ نگاری کی روایت کومستحکم کر نے والوں میںعصمت چغتائی،
سعادت حسن منٹو، محمد طفیل، فکرتونسوی، شوکت تھانوی، مالک رام، شاہد احمد دہلوی کے
علاوہ مجتبیٰ حسین، خواجہ احمد فاروقی، عرش ملسیانی، صالحہ عابد حسین،عبدالقوی دسنوی،
رضیہ سجاد ظہیر، یوسف ناظم، وہاب عندلیب، سلیمان اطہرجاوید وغیرہ نے طنز و مزاح کے
ذریعے اس صنف کو بام عروج پر پہنچایا۔
خاکہ نگاروں کی اس فہرست میں ایک نام ابن کنول کا ہے۔ ان
کے خاکوں کا مجموعہ ’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ‘ ہے جس میں 25 خاکے ہیں۔ہر خاکے میں کچھ
شگفتگی کی جھلک پائی جاتی ہے توکہیں سنجیدگی کا اظہار ملتا ہے، ان کے تمام تر خاکے
شخصیات پر مبنی ہیں،ان میں بعض خاکے اساتذہ کرام،کچھ نامور ہستیوں کی عقیدت میں اور بعض اپنے ہم عصر دوست احباب پر فنکارانہ انداز
میں تحریرکی ہیں۔ابن کنول اپنے خاکوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
’’اس
کتاب میں جو خاکے شامل ہیں ان میں میرے قابل احترام اساتذہ ہیں،کچھ ایسی شخصیات ہیں
جن سے مجھے عقیدت ہے یا جن کا میں احترام کر تا ہوں،کچھ میرے وہ دوست ہیں جن کے ساتھ
زندگی کا طویل سفر طے کیا ہے،کچھ خرد دوست ہیں جو مجھے بہت عزیز ہیں۔ اس میں ایک خاکہ
جو میںنے اپنے اسکول ’منٹوسرکل ‘ کے صد سالہ جشن پر لکھا تھا وہ شامل ہے۔منٹو سرکل
میری زندگی کا اہم حصہ ہے۔آخری خاکہ ایک ملازم
پرہے،اس کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی شخصیات کی کتنی ضرورت ہو تی ہے جنھیں
ہم کمتر سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔‘‘(کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ، ص11)
تمام تر خاکے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان خاکوں کی خوبی
یہ ہے کہ مطالعے کے دوران تلخ حقائق کو بھی بڑی فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے جو کھلکھلا
کرہنسنے کے بجائے زیر لب مسکراہٹ کے مصداق ہے۔ یہی مہارت خاکوں کی کامیابی کی دلیل
ہے۔ان کے خاکوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلا حصہ ان خاکوں پر مشتمل ہے
جس میں ان کے اساتذہ کرام اور وہ افراد ہیں جن سے انھیں عقیدت ہے۔ ان میںمنشی چھٹن،
قاضی عبد الستار، قمر رئیس، تنویر احمد علوی، گوپی چند نارنگ، حیات اللہ انصاری،عصمت
آپا، محمد عتیق صدیقی، عینی، محمدزماں آزردہ وغیرہ اہم ہیں۔
خاکوں کے دوسرے حصے میں ابن کنول نے اپنے ہم عصر دوست و
احباب جن میں کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے بھی تھے،ان کو بھی موضوع بنا یا ہے،ان میں ارتضیٰ
کریم، ایڈووکیٹ اے رحمن، علی احمد فاطمی، پیغام آفاقی، فاروق بخشی، خواجہ محمد اکرام
الدین، محمد کاظم، عظیم صدیقی، اسلم حنیف، نعیم انیس کے علاوہ ایک خاکہ ایسا بھی ہے
انسان کی زندگی میں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی اس کے باوجود اس کے بنا کوئی کام بھی
نہیں ہو تا ہے،وہ آخری خاکہ ’محمد شریف ‘ کا ہے جو دراصل ایک ملاز م ہے۔ا س خاکے کی
تحریک انہیں مولوی عبدالحق کی’نام دیو مالی‘ اوررشید احمد صدیقی کی’کندن‘ سے ملی ہے۔
مجموعہ’ کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ‘کا پہلا خاکہ ’منشی چھٹن‘ ہے۔ ابن کنول کا یہ خاکہ
تعلیمی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ انسان کی زندگی میں بہت سے اساتذہ کرام آتے ہیں لیکن
چند ہی نقش بن کر رہ جاتے ہیں۔ان کے ابتدائی استادوں میں منشی چھٹن کا کردار بہت اہم
ہے جو آرٹ اور ریاضی کے ماہراستاد ہیں۔ان کی ذاتی صفات اور کردار سے بہت متاثر تھے
یہی وجہ ہے کہ ان کی خوبیوںکو بہت سراہا ہے۔اس خاکے کو پڑھنے کے بعد مجھے بھی اپنے
استاد محترم پروفیسر ابن کنول کے گفتارو کردار،شفقت و محبت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔دونوں
کی زندگی میں یکساںمماثلت پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسکول کے منشی اور یہ
یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ ابن کنول کی زبانی یہ تحریردیکھیں
’’ہر
طالب علم کی زندگی میں استاد بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض اساتذہ ذہن پر اپنی شخصیت کے
ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں جو تمام زندگی دھندلے نہیں ہو تے،خصوصاً اسکول کے استاد....لیکن
چھٹن منشی جی کا چہرہ اور ان کی باتیں اب بھی یاد ہیں۔سنا ہے بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔
میرے ذہن میں وہ ابھی بوڑھے نہیں ہوئے ہیں۔ان کی وہی صورت اور وہی مشفقانہ باتیں مجھے
یاد دلاتی رہتی ہیں۔ انسان بچھڑجاتا ہے لیکن اس کا کردار اسے زندہ رکھتا ہے۔ ‘‘(کچھ
شگفتگی کچھ سنجیدگی، ص 16 )
ابن کنول نے ’منٹو سرکل ‘میں حصول علم کے لیے پانچ سال گزارے
تھے۔یہ پانچ سال ان کی زندگی کے ہر دلعزیز تھے۔’منٹو سرکل‘ دراصل مسلم یونیورسٹی علی
گڑھ کا قدیم اور تاریخی اسکول ہے جو 1909 میں
وائسرائے لارڈ منٹو کے مالی تعاون دینے کی وجہ سے اس کا نام ’منٹو سرکل‘قرار پایا۔ابن
کنول نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس اسکول کی علمی، ادبی، تہذیبی اور روایت کو پیش کیا
ہے، ماضی کی یادوںکے ساتھ ساتھ اپنے دوست و احباب اور نامور شخصیات کا بھی ذکر کیا
ہے جو سرسید کے خوابوںکی تعبیرہیں۔اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ان کی زندگی میں اس
اسکول کی تعلیم و تربیت کا اثر اخیر عمر تک نظر آتا ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔
’’اسکول
میں گزارا ہوا وقت کبھی دل سے محو نہیں ہو تا اور پھر منٹوسرکل جیسا اسکول جو ایک تعلیمی
ادارہ ہی نہیں ایک تہذیبی مرکز ہے،جو سرسید کا خواب ہے اور ہم اس کی تعبیر ہیں۔
‘‘(کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی، ص 23 )
’قاضی
عبدالستار‘ پر قلم بند کیا گیا خاکہ ابن کنول کا اہم خاکہ ہے۔ یہ خاکہ منفر د اسلوب
کا ہے۔ ابن کنول ان سے بہت متاثر تھے،افسانہ نگاری کی تربیت انہی سے لی تھی کیونکہ
قاضی صاحب کا اردو فکشن‘ ناول اور افسانے میں بہت بڑا نام تھا۔قاضی صاحب بڑے خوددار
انسان تھے۔خودی کو ہمیشہ بلند رکھتے تھے،حق گو ئی اوربے باکی ان کے خمیر میں تھی۔ابن
کنول کو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی۔قاضی صاحب کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات
کا ذکر نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ اپنے خاکے میں یو ں کیا ہے
’’قاضی
صاحب نے زندگی چاہے ’غالب‘ کی طرح گزاری ہو،لیکن ’خالد بن ولید‘ کی طرح رسول ِ خدا
سے محبت کرتے،مجاہدانہ انداز ’صلاح الدین ایوبی ‘ جیسا تھا، ’داراشکوہ ‘ سے گنگا جمنی
تہذیب کا درس لیا تھا۔وہ ’شب گزیدہ ‘ فنکار ’غبارشب‘،میں بھٹکتے ہوئے ’بادل‘ کو ’مجّوبھیا
‘ کا یہ پیغام دیتا تھا کہ اب کسی ’حضرت جان ‘ کا ’پہلا اور آخری خط‘ نہیں آئے گا۔
’پیتل کا گھنٹہ‘‘ بس ’ایک کہانی ‘ بن چکا تھا۔ ’نیا قانون‘ آنے کے بعد ’میراث ‘ میں
بس ایک ’دیوالی ‘ کا دیا بچاتھا جو ’لالہ امام بخش ‘ نے ’ٹھاکر دوارے‘ کی ’مالکن ‘
کے آگے رکھ دیا تھا،جس کی مدھم روشنی سے ’تاجم سلطان‘ کا حسن دمک رہا تھا،لیکن ’بھولے
بسرے‘ کبھی ’مجریٰ ‘ ہو تا تھا۔ ‘‘(کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ، ص 34)
ابن کنول کے کچھ خاکے ایسے ہیں جو انتقال کے بعد لکھے گئے
ہیں ان میںایک خاکہ ’قمر رئیس ایسا
کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘ہے۔اس خاکے میں قمر رئیس کی سوانحی زندگی کی ہلکی
سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ابن کنول اور قمر رئیس کے مابین شاگرد اور استادکا رشتہ خوب
نظر آتا ہے۔ علی گڑھ میں قاضی عبد الستار کی سرپرستی رہی تو دہلی میں قمر رئیس رہبر
و رہنما اور شفیق انسان کی شکل میںرہے۔ابن کنول اس خاکے میں شوخی و ظرافت کا سہارا
لے کر اپنی گفتگو کو آگے بڑھا تے ہیں۔قمر رئیس کی شخصیت کثیر الجہات تھی،فکشن کے اہم
ناقد تھے، ترقی پسند تحریک ہمیشہ ان کی وجہ سے فعال رہی اور اچھے شاعر بھی تھے،شاعرانہ
مزاج رکھتے تھے،غزل جیسی صفت ان کے خمیر میں پیوست تھی۔ایک جگہ اس شوخ مزاج پر ابن
کنول لکھتے ہیں کہ
’’اتنے
نرم دل تھے کہ جس نے ہنس کے بات کی، بس اسی کے ہولیے۔خصوصاً اگر سامنے کوئی صنف نازک
ہے تو تمام طاقت لسانی اور شیریں زبانی مع تبسم صرف کردیتے تھے۔ قمر صاحب تو اب دنیا
میں نہیں ہیں لیکن جن حسین چہروں کو دیکھ کروہ باغ و بہار ہو جاتے تھے خواہ مخواہ ان
کی رسوائی ہو گی۔پریم چند نے کہا تھا کہ اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا۔قمر صاحب
نے زندگی کا معیار تو بدل لیا لیکن حسن کا معیار جو غزل اور داستان میں تھا وہی رکھا
۔‘‘ (ایضاً، ص 47)
ابن کنول نے ’مشکل کشا محمد کاظم‘ نامی خاکے میں ان کی شخصیت کو واضح کیا
ہے۔ آپ ڈرامے کے ماہر استاد ہی نہیں بلکہ ہر فن کے استاد ہیں۔ڈرامہ نگار ہو نے کے
ساتھ ساتھ اداکار اور ہدایت کار بھی ہیں۔آ پ کی شخصیت ہر فن مولا ہے۔ابن کنول اسی
ہر فن مولا استاد کو استادی کا مقام متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’میں
نے غور سے دیکھا،یہ کون ہے ؟ یہ تو کاظم ہے، ڈاکٹر محمد کاظم،دہلی یونیورسٹی کے شعبہ
ٔ اردو میں استاد.... واقعی یہ استاد ہے ... ہر جگہ استادی دکھا تا ہے۔ہر فن میں استاد
ہے۔بنگالی ہے نا،بنگالی تو ہر فن مولا ہو تے ہیں،ڈرامہ بہت کرتے ہیں،بنگالیوں کے لیے
زندگی ہی ڈرامہ ہے۔ہر بنگا لی خود کو ستیہ جیت رے سمجھتا ہے۔کاظم بھی کچھ ایسا ہی ہے
اور ستیہ جیت رے بھی کیا وہ تو ماضی ہے،کاظم تو حال ہے ۔‘‘ (ایضاً، ص 226)
ابن کنول کے خاکوں کا مجموعہ ’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘ کا
جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو تا ہے کہ ان کے خاکوںمیں ظرافت اور شوخی کا عنصر جابجا
نظر آتا ہے،یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ابن کنول کے زیادہ تر مضامین شخصی خاکے
کے زمرے میں آتے ہیں۔ان کے خاکوں میں مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی،خواجہ محمد شفیع
دہلوی اورمولانا عبدالماجد دریابادی کے اثرات کافی حدتک پائے جاتے ہیں۔ ابن کنول نے
داستانوی اثرات کے سبب خاکوں میں چھوٹے چھوٹے واقعات اور تجربات کو خو ب برتا ہے۔
’کچھ
شگفتگی کچھ سنجیدگی ‘ میں ابن کنول کا امتیازی وصف یہ ہے کہ طنز کا پہلو تو ہے لیکن
اس طنز میں اخلاقی سبق کار فرما ہے۔وہ زبان و بیان کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ان
کے خاکوں میں رنگ برنگ کے ادبی اسلوب جلوہ افروز ہے۔زبان و بیان میں شگفتگی اور سنجیدگی
کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔جملوں اور محاوروں کا برجستہ استعمال ملتا ہے۔انھیں خوبیوں
کے باعث ان کے جملوں میں ندرت اور دلکشی پائی جاتی ہے یہی ان کے خاکوں کی انفرادیت
ہے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ابن کنول کے یہ تمام خاکے نئی نسل کے لیے مشعل راہ
ثابت ہوں گے اور خاکہ نگاری کی دنیا میں بہترین نمونہ کے طور پر جانے جائیں گے۔
n
Dr. Md Arshad Nadwi
Assistant Professor (Ad-hoc)
Department of Urdu
Dyal Singh College (M),
(University of Delhi)
Lodhi Road, New Delhi-03
Mob: 9213307499
Email :arshaddu786@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں