17/4/23

ابن کنول کی افسانہ نگاری: عزیر احمد


پروفیسر ابن کنول کے لیے ’تھے‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن اللہ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے۔  ابن کنول کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے اور غیر جانب دارانہ طور پر ان کی ادبی قدر و قیمت متعین کی جائے۔  ابن کنول ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ افسانہ، ڈرامہ، خاکہ، انشائیہ، تنقید اور تحقیق ہر میدان میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی ادبی شناخت داستانوں کے پارکھ اور افسانہ نگار کی ہے۔ داستان ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔  داستانوں کی جمالیات پر ان کی نظر تھی۔  ان کی افسانہ نگاری بھی داستانوں کے اثرات سے خالی نہیں ہے۔  ابن کنول کے افسانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے  داستانوی رنگ و آہنگ کی حامل ہے مثلا صرف ایک شب کا فاصلہ، ایک ہی راستہ،شام ہونے سے پہلے، ہار کسی کی، جیت کسی کی ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وارث، پہلا آدمی، خوف وغیرہ افسانے۔  پروفیسر عبدالحق نے ابن کنول کے افسانوں کی تین خصوصیات  شمار کرائی ہیں ’’اقدار کی ارجمندی، قصہ پن اور اساطیری اسالیب بیان۔‘‘ یہ تینوں خصوصیات دراصل ابن کنول کے افسانوں کے موضوعات اور اسلوب دونوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ابن کنول کے افسانوں کا موضوع ابن آدم کی سرکشی کی روداد ہے۔ یہ سرکشی سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کی شکل میں ہو  یا  زمین دارانہ نظام کی شکل میں۔  لال فیتہ شاہی کی شکل میں ہوا یا گندی استحصالی سیاست کی شکل میں ابن کنول نے اپنے افسانوں کے ذریعے اس کے خلاف آواز بلند کی۔  ان کے افسانوں میں سماج کے نچلے اور دبے کچے طبقے کے لیے ہمدردی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔    وہ اس بات پر دکھی ہوتے ہیں کہ فائیو اسٹار ہوٹل بنانے والا مزدور  خود اس ہوٹل میں کیوں نہیں داخل ہوسکتا ہے۔   ’فورتھ کلاس ‘ کے ’بکسو‘  کا دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ کل تک اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے والا مالک ہوٹل بننے کے بعد اس کو پہچاننے سے کیوں منع کررہا ہے۔ ’اشرف المخلوقات‘  میں  انھوں نے غربت و افلاس کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ حیات اللہ انصاری کے افسانہ ’آخری کوشش‘  اور منشی پریم چند کے کفن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ فقیرا چاہ کر بھی بڑھیا کو بچا نہیں پاتا اس لیے کہ اس کے پاس اس کو کھلانے کے لیے اور نہ ہی دوا کے لیے کچھ پیسے ہیں۔ مرنے کے بعد کفن دفن کی رسم پر خرچ کرنے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن زندوں پر خرچ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ ابن کنول کو نچلے طبقوں کی زبان اور ان کی نفسیات پر گہری نظر ہے۔ ’اشرف المخلوقات‘ میں بھیک مانگنے والوں کے مکالمے ملاحظہ فرمائیں:

’’ارے بھیا دنیا جیسے جیسے جارہی ہے، آدمی کنجوس ہو رہے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ بڑے دل والے ہوتے تھے۔ نہ کھلانے میں کنجوسی نہ دینے میں۔‘‘

’’اور کیا سادی بارہ ہو، پھاتحہ درود ہو، سیکڑوں بھائی بند کھا آتے تھے۔ کوئی ٹوکنے والا بھی نہ تھا، آج کل تو گھسنے بھی نہیں  دیتے۔‘‘

’’یہ پینٹ پتلون والے بڑی محنت کرواتے ہیں، بڑی مشکل سے پانچ پیسے نکالتے ہیں۔ سگریٹ سنیما میں دسیوں روپے لٹا دیتے ہیں۔‘‘

’’آجکل چجمن کے یاں کے ٹھرے میں نسہ نہیں آریا۔‘‘

’’سالا پانی بہت ملاتا ہے۔‘‘  (اشرف المخلوقات)

ابن کنول نے ہندوستان کے دیہی  اور شہری دونوں علاقوں کو دیکھا ہے۔ ان کی نظر دونوں آبادیوں کے مسائل پر ہے۔ ’سراب‘ گاؤں سے شہر کی طرف ہجرت اور شہروں میں ان مہاجر مزدوروں کی کسمپرسی کی  ایسی روداد ہے جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ گاؤں سے شہر میں آکر سڑک کنارے خوانچہ لگاگر، رات میں فٹ پاتھ پر سوکر زندگی گزارنے والا رام چرن گاؤں والوں کے سامنے جھوٹی شان دکھا کر ان کے دل میں شہرکا شوق پیدا کردیتا ہے۔ اس  کے دکھاوٹی رہن سہن کو دیکھ کر  گھر والوں کو بتائے بغیر گھنشیام شہر چلا آتا ہے۔ یہاں آکر اس کو شہر کی حقیقت  کا علم ہوتا ہے۔  افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:

’’رات ہوئی تو رام چرن نے اپنا سامان ایک دکان میں رکھا اور گھنشیام کے ساتھ کھانا کھایا۔ جب رات کے ساتھ ساتھ سردی بھی بڑھنے لگی تو گھنشیام بولا۔’’بھیّا! گھرنا ہیں چلو گے؟‘‘

رام چرن نے اس کی معصومیت پر ہنستے ہوئے کہا۔

’’ابے کیسا گھر؟ پوری دہلی اپنا گھر ہے۔ چاہے جہاں رہو۔‘‘

گھنشیام نے رام چرن کو دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ جب سب بازار بند ہوگیا۔ اور فٹ پاتھ پر سونے والے اپنی جگہوں پر پہنچ گئے۔ رام چرن بھی اپنی جگہ پر پہنچا۔ جگہ کو جھاڑ کر چادر بچھائی۔ گھنشیام سے بیٹھنے کو کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔ گھنشیام اپنے ساتھ ایک چادر لایا تھا۔ رام چرن نے کھیس اور چادر کو ملا لیا اور دونوں اوڑھ کر لیٹ گئے۔ گھنشیام میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جاڑوں کی رات جب نقطۂ عروج پر پہنچی تو گھنشیام ٹھنڈ کی وجہ سے سکڑنے لگا۔ لیکن رام چرن بڑے آرام سے سو رہا تھا، جیسے اسے سردی کا احساس ہی نہ ہو۔ سردی جب ناقابل برداشت ہوئی تو گھنشیام منمنایا’’بھیّا!بھیّا!‘‘

’’کا بات ہے ؟‘‘

’’ٹھنڈ لاگت ہے‘‘

’’ابے سوجا یہاں لحاف کہاں رکھا ہے۔ دیکھ اسے دیکھ ایک چادر ہی اوڑھ رکھی ہے اورکتنے آرام سے سو رہا ہے۔ اور وہ دیکھ اس کے پاس چادر بھی نہیں۔ لے سنبھا ل کے اوڑھ لے۔‘‘ (سراب)

اس کو یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فٹ پاتھ پر  سردی کے دنوں میں بھی بغیر لحاف کے رات گزارنی ہوتی ہے۔ بسوں میں جان پر کھیل کر سفر کیا جاتا ہے۔  گھنشیام یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شہر کی چکاچوند صرف سراب ہے۔  اس لیے وہ دوسرے دن کی گاڑی پکڑ کر گاؤں چلا جاتا ہے۔

شہری زندگی  میں رہائش ایک اہم مسئلہ ہے۔ ابن کنول کا افسانہ ’سویٹ ہوم‘  اسی مسئلے پر لکھا گیا ان کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔  اس افسانے میں ابن کنول نے بتایا ہے کہ یہاں کرایے کے مکان میں رہنے والے تو مالک مکان کے برتاؤ سے پریشان ہوتے ہی ہیں اگر کوئی اپنی جمع پونجی سے گھر بنا لے تو بھی  اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کے سبھی مسائل حل ہوگئے۔  شوکت کو جب معلوم ہوا کہ انھوں نے جہاں گھر بنایا ہے اس بستی کو سرکار  توڑنے جارہی ہے کیونکہ وہ سرکاری زمین ہے جس کو بلڈر  نے دھوکے سے لوگوں کو بیچ دیا ہے۔   شہروں کی کچی آبادیوں میں گھروں کو توڑنا اور ان کے مکینوں کو بے گھر کرنا ایک عام بات ہے۔  اس سے ان میں رہنے والوں پر کیا گزرتی ہے اس کی روداد ابن کنول کا یہ افسانہ بیان کرتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں:

’’اسے اب اس سوئٹ ہوم کی دیواریں ہلتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور ان ہلتی ہوئی دیواروں کے بیچ  جب وہ اپنے معصوم بچوں کو ایک بار پھر بے گھری کے عالم میں دیکھتا تو تڑپ اٹھتا تھا۔ ان بچوں نے اس گھر کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں ، کھلونوں کے بجائے گھر کے لیے اینٹیں خریدی تھیں۔ اپنے آپ کو کھلونوں سے کھیلنے والے بچوں کی عمرسے بلند کرایا تھا اور اس معصوم بڑپن نے بازاروں میں بکتے ہوئے کھلونوں کی طرف سے منہ پھریر لیا  تھا تاکہ  انھیں سر چھپانے کے لیے اپنی چھت مل جائے۔‘‘

(سویٹ ہوم)

’آنکھوں کی سوئیاں‘   میں شہروں میں قرض پر گھر لینے کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ راوی اپنا مکان بنوانے کے باوجود  اس میں جانے کے بجائے اس کو بیچ کر قرض چکانے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔

ابن کنول کا قلم دیہات میں رہنے والے کسانوں کے لیے بھی دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ’کنیا دان ‘ اور ’غبار‘  ایسے مظلوم ولاچار کسانوں کی کہانی ہے جہاں  انسانی جان کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی ہے۔ کسان قدرت کی ستم ظریفی اور حکومتی اہلکاروں کی بے حسی کا شکار ہوتے ہیں۔

جب بات دیہی زندگی کی آتی ہے تو زمیں دارانہ نظام کی طرف بھی ذہن متوجہ ہوتا ہے۔  ابن کنول نے زمیں دارانہ نظام  پر بھی افسانے لکھے ہیں لیکن اردو کے روایتی افسانہ نگاروں سے ہٹ کر انھوں نے یہاں بھی انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے  دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھا ہے۔ جہاں ایک طرف  ’کچے گھڑے‘ کا شمیم ہے جو یہ مانتا ہے کہ کسان محنت کے لیے ہی پیدا ہوئے اس لیے اگر ان کو سزا دی جائے تو حرج نہیں۔ وہ اپنے دادا کے ذریعے ایک کسان کے گھوڑے کو حاصل کرنے کے لیے اس کے قتل کرنے کو فخریہ بیان کرتا ہے وہیں  دوسری طرف ’ واپسی‘ کے چودھری ریاست علی ہیں ’’ان کے یہاں سیکڑوں بھوکے اپنا خالی پیٹ بھرتے تھے۔ نہ جانے کتنی یتیم لڑکیوں کی ڈولیاں ان کی دہلیز سے اٹھ کر سسرال چلی گئی تھیں۔ ریاست علی کی فراخ دلی کے چرچے دور دور تک ہوتے تھے۔‘‘ (واپسی)

واپسی افسانہ  زمین داری کے زوال کے بعد  زمین داروں پر کیا گزری اس کی ایسی کرب ناک داستان  ہے جس کو عموماً مکافات عمل سجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

فرقہ وارانہ فسادات   پر اردو کے اکثر افسانہ نگاروں نے قلم اٹھایا ہے۔  ابن کنول  نے اپنے  افسانوں میں کسی ایک فریق کی حمایت کرنے کے بجائے انسانیت کی موت  پر ماتم کیا ہے۔ ابن کنول کے افسانے ایک ہی راستہ، تیسری لاش،  خانہ بدوش، خدشہ،  مٹی کی گڑیا، ایک گھر کی کہانی، سفر اور ابن آدم ایسے افسانے ہیں جس میں ابن کنول نے فسادات اور اس کے نتیجے میں انسانیت کو پہنچنے والے نقصانات کا بیان کیا ہے۔ ابن کنول کا افسانہ ’خدشہ‘ فسادات پر لکھا گیا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ اس افسانے کے ذریعے ابن کنول نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حالات کو خراب کرنے والے دونوں طرف ہوتے ہیں۔ یہ احمد گڑھ کی کہانی ہے جہاں لال چوک پر محرم کے دشہرے کے میلے اپنے اپنے وقت پر لگتے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے میلے میں شرکت کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک سال محرم اور دشہرہ ایک ہی ساتھ پڑ گیا۔ دونوں نے اس کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ کوئی اپنے جلوس کے وقت کو تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہوا۔  نتیجہ یہ نکل کر سامنے آیا کہ

’’یوم عاشورہ آگیا۔ رام کاوجے دوس آگیا، لیکن لال چوک خالی تھا، کسی سمت سے کوئی جلوس نہیں آیا۔ فوج کے دو ٹرک لاشوں کو لے کر ٹھیک اس وقت لال چوک میں پہنچے کہ جب تعزیوں کے دفنانے کی رسم ادا ہوتی ہے اور راون کے پتلے کو جلایا جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے لاشوں کو اۡتارا گیا اور فوج کی نگرانی میں ان افراد کی لاشوں کو دفنا دیا گیا کہ جنھیں تعزیوں کے دفنانے کی رسم ادا کرنی تھی اور ان لوگوں کی لاشوں کو نذر آتش کردیا گیا کہ جنھیں راون کو جلانا تھا۔ یوم عاشورہ اور یوم ہلاکت راون بہت پرسکون انداز میں گزر گیا۔ حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت سنگھ حسبِ روایت دیوان خانے میں بیٹھے شربت کا گلاس ہاتھ میں لیے اطمینان بخش لہجے میں یہ باتیں کررہے تھے

’’اب یہ مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا ٹھاکر صاحب۔ اس لیے کہ آئندہ سال چاند دس دن پہلے دکھائی دے گا۔‘‘

دروازے کے قریب کھڑا نوکر پاس آکر زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا

’’ صاب جی مسلا کیسا؟ اب کی بار کے تہوار تو یادگار تہوار ہوئے۔‘‘

حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت نے نوکر کو گھۡور کر دیکھا، وہ بولتا رہا

’’ ہاں صاحب جی، اب کی بار تو لوگ امام حسین کی طرح شہید ہوئے اور تعزیوں کی جگہ آدمی دفن ہوئے اور ہاں صاب جی لنکا کی طرح احمد گڑھ جلا۔ سچ مچ کا تہوار تو اب کی بار ہی ہوا۔‘‘

حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت سنگھ ایک لفظ نہ بول سکے اور نوکر بولتا رہا۔‘‘(خدشہ)

فسادات پر لکھے گئے افسانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے فسادات کے خونی واقعات کو براہ راست بیان کرنے کے بجائے اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے خوف  وہراس کی کیفیت کو بیان کرنے پر توجہ دی ہے۔   ان فسادات کا حل ان کی نظر میں یہ ہے کہ سب مل جل کر اس دھرتی پر ایک ساتھ رہیں، کسی کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاؤ نہ ہو۔ ابن کنول کا مشہور افسانہ ’تیسری دنیا کے لوگ‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس میں فسادات کی قتل و غارگری  کی وجہ سے اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر لوگ مشترکہ خود کشی کا فیصلہ کرتے ہیں۔  راستے میں انھیں ایک بزرگ ملتے ہیں اور انہیں اس بزدلانہ عمل سے روکتے ہیں

’’تم نا فہم ہو۔ تم چاہتے ہو کہ تمھارے بعد اور بستیاں جلیں اور تمھاری طرح ان بستیوں کے لوگ بھی خود کو سمندر کے حوالے کر دیں اور یہ سلسلہ چلتا ر ہے۔‘‘

آخرتم چاہتے کیا ہو؟ اگر خدا ہماری مددنہیں کرتا تو ہمارے فعل سے ہمیں روکتا کیوں ہے؟ ان کے غصے میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوگئی تھی۔

’’یہ زمینتم لوگوں کے لیے بنائی گئی لیکن تم نے اسے بانٹ لیا۔ تم نے اس زمین پر خونریزی کی، شر پھیلایا، کیا اب بھی تم خدا سے امید کرتے ہو کہ وہ تمھاری مدد کرے گا۔ اس نے تمھیں زمین پر خودمختار بنایا پھر وہ کیوں تمھاری مدد کرے۔‘‘

’’اپنے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ہم خودکشی کر رہے ہیں۔‘‘

’’لیکن خودکشی کرنا زندگی سے فرار ہے اور زندگی سے فرار کم ہمتی اوربزدلی ہے۔ کیا  تم بزدل ہو؟ پیر مرد نے استفسار کا۔‘‘

’’نہیں۔ لیکن ہم مجبور ہیں۔‘‘

’’مجبوری کم ہمتی کا دوسرا نام ہے۔ جاؤ اپنا حق مانگو،  زمین تم سب کے لیے ہے۔‘‘

’’لیکن ہم تعداد میں کم ہیں اور بے یار  ومددگار ہیں۔‘‘

’’کیا تم تین سو تیرہ سے زیادہ ہو۔ کیا تم تین سو تیرہ کی فتح کے بارے میں نہیں جانتے۔ (تیسری دنیا کے لوگ)

یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ابن کنول نے بزرگ کی زبانی یہ نہیں کہا کہ تم مظلوم یا ظالم ہو۔  انھوں نے بغیر کسی جانب داری کے کہا کہ ملک میں امن امان قائم کرنے کی ذمے داری سب کی ہے۔ زمین کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے ذمے دار سبھی ہیں  خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔  انھوں نے اس افسانے کے ذریعے فسادات کا ایک مستقل حل پیش کیا ہے وہ یہ فرار کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اپنے حق کے لیے کھڑے ہوکر لڑنا ہی اس مسئلے کا پائیدار حل ہوسکتا ہے۔

ابن کنول نے اپنے ایک  افسانہ نما مضمون ’میں کیوں لکھتا ہوں‘  میں اپنی افسانہ نگاری کے محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔  وہ لکھتے ہیں

’’اسلم میری اس بات پر ہنسا اور پو چھنے لگا ‘‘

’’تم کہانیاں کیو ں لکھتے ہو ؟‘‘

ا س کے اِس سوال پر میں اسے غور سے دیکھا اور کہا ’’میں دنیا کو آئینہ دکھا نا چاہتا ہوں دنیا جو بہت خوبصورت ہے لیکن آدمی کی شرپسندی نے اسے جہنم بنا دیا ہے ‘‘۔

’’کیا تمھارے کہا نیاں لکھنے سے دنیا جنّت بن جائے گی ‘‘

’’نہیں۔لیکن میں خود سے شرمندہ نہیں رہوں گا۔ اس لیے کہ میں برائی کو دیکھ کر خاموش نہیں ہوں۔کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار کر تا ہوں۔ ‘‘ (میں کیوں لکھتا ہوں)

ابن کنول کے زیادہ تر افسانے اخلاق کی انھیں اعلی قدروں کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں جس کو انھوں نے خود اپنی زندگی میں برتا ہے۔ ’نیا درندہ‘ اور  ’خوف‘ میں  ابن کنول نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اپنی سرکشی کی وجہ سے اتنا خونخوار ہوگیا ہے کہ اب انسانوں کو درندوں سے زیادہ خود انسانوں سے ڈر لگنے لگا ہے۔ جھوٹے گڈریے کی کہانی  ہمارے  لوک ادب کا حصہ ہے۔  ابن کنول نے اسی کہانی سے اپنے افسانے ’نیا درندہ ‘ کا خمیر تیار کیا ہے۔  افسانے کا اقتباس ملاحظہ کریں

’’اپنے ساتھی بچّوں کو ڈراتے ڈراتے اس کی عادت سی بن گئی تھی، وہ ہر روز جنگل سے گاؤں کی طرف یہ کہتا ہوا دوڑا چلا آتا تھا

’’شیر آیا... شیر آیا۔‘‘

وہ گڈریے کا لڑکا تھا اور اس نے گڈریے کے لڑکے کی کہانی سن رکھی تھی، جو برسوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی۔ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ دن بھر جنگل میں رہتا تھا، جنگلی جانوروں کاخوف اس کے دل سے محوہوچکا تھا۔ اۡسے معلوم تھا کہ اب شیر کبھی نہیں آئے گا، سارے شیر بوڑھے ہوچکے ہیں یا چڑیا گھروں میں قید ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سب کو ڈرانا چاہتا تھا۔ اس کی آواز سن کر اکثر لوگ اس کا مذاق بناتے تھے ، وہ پھر بھی پرامید تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔ ایک مرتبہ اس کی آواز سن کر احمد حسین نے اپنے بچّوں سے کہا

’’یہ لڑکا بھی پاگل ہوگیا۔ ایسے چلاّتا ہے جیسے شیر اس کے پیچھے چلا آرہا ہے۔ اب کہاں شیر؟ اب تو شیر کا بچّہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شیر تو انگریز بہادر کے زمانے میں تھے۔‘‘(نیا درندہ)

گڈریا پریشان تھا کہ آخر کوئی شیر ، بھیڑیے اور لکڑ بگھے کے نام سے ڈرتا کیوں نہیں  ہے؟  آخر اس کو ایک ترکیب سوجھی  وہ پہاڑی سے  چلاتے ہوئے گاؤں کی طرف بھاگا

’’بھاگو... بھاگو... بلوائی آگئے... دنگائی آگئے... بھاگو۔‘‘

اس کی یہ آواز جیسے ہی لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی پورے گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ بے تحاشہ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ پلک جھپکتے ہی گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہوگئے۔ لوگ اپنی بہو، بیٹیوں اور بچوں کو محفوظ جگہوں پر چھپانے لگے۔ بازار بند ہوگئے۔ ذرا سی دیر میں چاروں طرف سنّاٹا ہوگیا۔ دہشت اور وحشت سڑکوں پر منڈلانے لگی۔ گڈریے کا لڑکا ایک گوشے میں خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔‘‘(نیا درندہ)

گویا کہ انسان اپنی درندگی میں اصلی درندوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔

ابن کنول کا پہلا مطبوعہ افسانہ ’اپنے ملے اجنبی کی طرح‘  ہے جو 1974میں سکندر آباد سے نکلنے والے رسالہ ’آفتاب سحر‘ میں شائع ہوا تھا۔  علی گڑھ میں قاضی عبدالستار کی سرپرستی میں ان کا ادبی سفر شروع ہوا جو زندگی کے آخری مرحلے تک جاری رہا۔  انتظامی مشغولیت کی وجہ سے بعد میں انھوں نے افسانے کی طرف توجہ کم کردی تھی۔ لیکن گاہے بگاہے وہ افسانے لکھا کرتے تھے۔ابن کنول کے افسانے فنی لحاظ سے سیدھے سادے کرداروں پر مبنی اور قصہ پن سے بھرپور ہوا کرتے ہیں۔  ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ افسانے کی ابتدا دلچسپ اور خاتمہ معنی خیز ہو۔  وہ اپنے ہر افسانے کے ذریعے کوئی نہ کوئی اہم پیغام قاری کو دینا چاہتے تھے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تخلیقات کی وجہ سے وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔


حوالہ جات

  1. تیسری دنیا کے لوگ ابن کنول 1884
  2. بند راستے ابن کنول 2000
  3. ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار عزیر احمد 2014
  4. www.ibnekanwal.com


Dr. Uzair Ahmad
Asst Professor,
Islampur College (North Bengal University)
Rd, Babupara, Islampur- 733202 (WB)
Mob.: 9210919540

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...