ڈاکٹر فہمیدہ بیگم1982تا 1994فروغِ ا ردو کے سب سے بڑے سرکاری
ادارے ’ترقی اردو بیورو‘دہلی، کی ڈائرکٹر اور 1994 تا 1996 قومی کونسل برائے فروغ اردو
زبان، دہلی، کی ڈائرکٹرکے عہدے پر فائز تھیں۔ 1997 میں اس عہدے سے سبکدوشی کے بعدانھوں
نے بنگلور میں قیام اختیار کر لیاتھا۔27 ؍دسمبر
2022 کی صبح بعد نماز فجر وہ اس دار فانی سے کوچ کرکے مالک حقیقی سے جا ملیں۔
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم ریاست کرناٹک کی وہ قابل ِقدر ہستی ہیں
جنھوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقا اور فروغ کے لیے کئی محاذوں پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
وہ ایک پُروقار اور مہذب،انتہائی ذمے دار اور بصیرت افروز خیالات کی مالک شخصیت تھیں۔ 1974
میںبنگلور میں شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تو بحیثیت لکچرریہاں پرخدمات
انجام دیتی رہیں اور پھر1978میںشعبے کی بانی ڈاکٹرآمنہ خاتون کی سبکدوشی کے بعد،
1979 میں ریڈر اور صدرِشعبہ کے عہدے پر فائز ہوکر انھوں نے شعبے کوپوری تن دہی کے ساتھ
ترقی کی راہوں پر گامزن کر دیا۔ وہ اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان
کے ذوق و شوق کو نکھارنے میںہر طرح سے ان کی مدد کرتی تھیں۔ شعبے میں انھوں نے کئی
ایسے اقدامات عمل میں لائے تھے جن سے طلبا میں اردو زبان و ادب سے دلچسپی کو روز افزوں
بڑھاوا ملتا رہا۔وہ ہمیشہ سے بے انتہا محنتی
اور ایک فعال اور متحرک ہستی کے طور پر اپنا لوہا منواتی رہیں۔ ان کی متانت، سنجیدگی،
محبت بھرالہجہ،خلوص اور سلجھا ہوا انداز ِ گفتگو
سب کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ ان کے طریقۂ تدریس میں بھی ایک جادو کی سی
کیفیت تھی جس کے طفیل سبھی شاگرد ان کے گرویدہ تھے۔ سنہ1974 تا سنہ 1982 نو سال کے
عرصے تک، شعبۂ اردو، بنگلور یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ان کی بے لوث اور قائدانہ
صلاحیتوں نے یونیورسٹی کے حکام کوبھی اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے کیمپس کے بچوں کے
اسکول کی صدارت اور لڑکیوں کے ہاسٹل کی وارڈن شپ کی ذمے داریاں بھی بصد اصرار انھیں
سونپ دی تھیںاور ڈاکٹر صاحبہ نے ان تمام ذمہ داریوں کونبھانے میں کبھی کوتاہی نہیں
برتی۔ شعبے کی صدارت کے ساتھ ہی 1980 میںجب اردو اکادمی کی صدارت کے لیے بھی انھیں
نامزد کیا گیا توانھوں نے وہاں پر ایک ادبی رسالے’ فصیل‘ کا اجرا کیا، اردو شعرا اور
ادیبوں کی تصانیف کو شائع کروانے کا اہتمام کیا اور ایم اے اردو میں داخلہ لینے والے
تمام طلبہ کے لیے اکادمی سے اسکالرشپ فراہم کرنے کا انتظام بھی کیا۔ 1981 میںیوپی یس
سی کی طرف سے ترقی اردو بیورو کے ڈائرکٹر کے عہدے کے لیے اعلان کیا گیا توانھوں نے
بھی درخواست بھری اورجب وہ 1982 میںترقیِ اردو بیورو کی چیئرپرسن کے عہدے پر فائز ہوکردلّی
چلی گئیں تو چونکہ ان کی نگرانی منسوخ نہیں کی جا سکتی تھی،وہ اپنی نگرانی میں تحقیقی
کام کر رہے طلبا کے لیے وہیں سے ہدایات دیتی رہتیں اور جب بھی بنگلور آتیں ان سے ملاقات
کے لیے ضرور وقت فراہم کرتیں۔
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کی پیدائش 12جون1938 کو ریاست کرناٹک کے شہر رام نگرم میںہوئی، والد
عبدالکریم صوفی منش انسان تھے۔ والدہ صغیر النساء بیگم میسور کے ضلع ٹمکور کے ایک مقام
کنیگل سے تھیںاور لاہور سے ادیب کامل اور ادیب فاضل کے امتحانات میں کامیابی حاصل کر
کے میسور میں ہائی اسکول ٹیچرکے عہدے پر فائزتھیں۔علم و ادب کا کافی ذوق رکھتی تھیںجس
کا ثبوت ان کی تصنیف ’غزلیات غالب کاعروضی تجزیہ‘ کے روپ میں ہمیں مل جاتا ہے۔ انھوں
نے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کے پانچ بھائی اور چار بہنوں، سبھی کو اعلی تعلیم سے مزین کیا
اور وہ سبھی اعلی عہدوں پر فائز رہے۔ڈاکٹر صاحبہ کے ایک بھائی ڈاکٹر محمد نورالدین
سعید اردو کے محقق ہیں اور بنگلور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے پرائمری اور ثانوی تعلیم شہر میسور
میںحاصل کی۔ 1960 میں مہاراجہ کالج،میسور سے بی اے آنرس میں اول درجے میںکامیابی حاصل
کرکے 1961 میں میسور یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں داخلہ لے لیااور اس میں بھی نمایاں
کامیابی حاصل کرکے انھوں نے1963 میںپروفیسر ڈاکٹر حبیب النسا بیگم کی نگرانی میں ’ریاست
میسور میں اردو مثنوی کا ارتقا‘ کے موضوع پر تحقیق کرنا شروع کردیا۔ 1966 میں بحیثیت
لکچرر، مہارانیس کالج میسور میںان کا تقرر ہوگیا لیکن ابھی سال بھر بھی نہ گزرا تھا
کہ 1967 میں انھیں کامن ویلتھ اسکا لرشپ کا وظیفہ مل گیا۔اسی دوران 1967 میں ایم اے
اکنا مکس کے گولڈ میڈل یافتہ محمد خلیل احمد سے ان کی شادی ہوئی، شادی کے پندرہ دن
بعد ہی وہ اسکالرشپ کی منظور ی کے تحت لندن چلی گئیں اور لندن میں اسکول آف اورینٹل
اینڈآفریکن اسٹڈیذ میںداخلہ لے کرلسانیات اور صوتیات میں تعلیم حاصل کی۔ تین سال تک
رائل ایشاٹک سوسائٹی لائبریری اور انڈیا آفس لائبریری، انگلینڈ،میں اپنے تحقیقی مو
ضوع سے متعلق تلاش و جستجو کے مراحل سر کرتی رہیں اوربہت سا ایسا مواد حاصل کرلیا جو
ہندوستان کی لائبریریوں میں موجود نہیں تھا، شیخ محمود خوش دہاں کی مثنوی’ وجود نامہ‘
اور عہد ٹیپو سلطان کے شاعر قاسم کی مثنوی ’ عروس المجلس‘ وغیرہ چندایسی مثنویوںکو
انھوں نے کھوج نکالاجو ادبی دنیا سے تعارف کی محتاج تھیں۔1970 میںانگلینڈ سے واپسی
کے بعدانھوں نے 1974 تک جے یس یس کالج، چامراج نگر، آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل اورپھرنیشنل
کالج شیموگہ میںبطور اردو لکچرر تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران اپنے تحقیقی مقالے کی تکمیل کرکے میسور
یونیورسٹی میں اپنا مقالہ پیش کیا جس کے لیے1973
میں انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوگئی،یہ میسوریونیورسٹی ہی کی نہیں بلکہ
ریاست کی دیگر یونیورسٹیوںکی ڈاکٹریٹ کی اولین ڈگری تھی۔
ڈاکٹرفہمیدہ صاحبہ کاخاص وصف یہ تھا کہ وہ بڑی انکساری سے
خاموشی کے ساتھ سارے کام انجام دیتی تھیں۔
انھیں دکنی ادب خصوصاً دکنی مثنویوں کے مطالعے میںبے حد دلچسپی تھی اور ان کے
لسانیاتی پہلوئوں کی تلاش اِن کی توجہ کا مرکز تھی۔ انھوں نے اپنی تحقیقی دلچسپیوںکے
ذوق کو اپنے شاگردوں کے دلوں میں بھی کامیابی کے ساتھ منتقل کردیا تھا۔لہٰذا کسی سے
دکنی مثنویوں میں منظر نگاری پر کام کروایا تھا توکسی کو غواصی کی مثنویوںپر تحقیق
کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کسی کو جنوبی ہند کی تصوفانہ مثنویوںپر تحقیق کی راہ پر
لگا دیا تھا۔انھیں اپنے شاگردوں کی یا یوں کہیے کہ اپنے دائرہ کارمیں موجود افراد کی،
صلاحیتوں کواچھی طرح سے پہچان کرانھیں بروئے کار لانے اور پنپنے کے مواقع فراہم کرنے
میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا تھا،
دختر نے اکنامکس میں ایم اے کی سندحاصل کرلی تو ان کے دونو ں لڑکوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ
کی سند حاصل کرلی۔
جب ڈاکٹر صاحبہ ترقی اردو بیورو میں ڈائرکٹر مقرر ہوئیں تو
وہاں بھی انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ بہت سے کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ایک تو اردو
ٹیلی پرنٹر کی ابتدا کا ڈول ڈالا جس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات
کے ثبوت ہمیں اس وقت کے اخبارات کے تراشوں میں مل جاتے ہیں۔ دوسرے مولانا آزاد اردو
یونیورسٹی کے قیام کو رو بہ عمل لانے کے سلسلے میںکئی بنیادی کام انجام دیے اور جو
بھی ضروری سہولتیں درکار تھیں انھیں مہیا کرنے کے پورے جتن کیے۔ستمبر 1 1982 کے روزنامہ منصف حیدر آباد میںیہ خبر شائع
ہوئی تھی کہ’ ایک اردو یونیورسٹی کے امکانی قیام کے پیش نظر ترقی اردو بورڈ اکنامکس، پولیٹکل سائنس اور طب جیسے موضوعات کو
اردو کا جامہ پہناتے ہوئے کتابوں کی تیاری میں مصروف ہے۔ علاوہ ازیں ترقی اردو بورڈ
ڈکشنری کی اشاعت کا اہتمام بھی کر رہا ہے تاکہ اردو والوں کو ہندی کے ثقیل الفاظ کو
سمجھنے میں دشواری نہ ہو،ڈائرکٹر ترقی اردو بورڈ ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے آج شام روزنامہ
منصف میں ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کے دوران یہ انکشاف کیا۔‘‘ اسی
کی کڑیوں کے طور پر اپنی صدارت میں چل رہے قومی ادارے ترقیِ اردو بیورو کے توسط سے
انھوں نے کتابوں کے تراجم کی کار گاہیں منعقد کیں اور کیمیا، نباتات،حیاتیات، حیوانیات
اور طب وغیرہ سائنسی و دیگر علوم کی کتابوں کے ترجموں کے لیے ان علوم کی اصطلاحات کی
فرہنگیں تیار کروائیں۔اس سلسلے میں جب آپ نے طبِ یونانی کی کتابوںکی ایک کار گاہ تلنگانہ
کے شہر کرنول میں منعقد کرائی تو وہاں کے میڈیکل کالج کے حکام و طلبااتنے متاثر ہوئے
کہ انھوں نے آپ کے کاموں کی افادیت کے پیش نظر آپ کو’ملکۂ اردو‘ کے خطاب سے نوازا۔
ترقی اردو بیورو میںاپنی ڈائرکٹرشپ کے دوران انھوں نے کئی
اہم موضوعات پر تاریخی اہمیت کے حامل کل ہند سطح کے کئی سمینار اور ورکشاپ منعقد کروائے
جن کے لیے ملک بھر کے ماہرین اردو نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا اور تسلیم کیا کہ یہ
سبھی کام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔اکتوبر 25تا27، 1987 کے دکنی ادب کی تدریس و مسائل پر منعقدہ سہ روزہ
سمینار نے تو ایک بے مثال یادگارکی حیثیت اختیارکرلی۔
اُن دنوں ’ اردو دنیا‘ سہ ماہی رسالہ تھا اور چھوٹے سائز
میں شائع ہوتا تھا اور بیورو کی سرگرمیوں کی نمائندگی کا آلۂ کار تھا۔ اس کی جلد19
بتاریخ جنوری تا جون 1987 میں انھوں نے انگریزی داں اردو طبقے کو یاد دلایا ہے کہ
’’انگریزی دان اردو طبقے کا فرض ہے کہ کم تعلیم یافتہ اردوداں طبقے کو باشعور بننے
میں مدد دے۔ انھیں عصری آگہی بخشے، عصری تقاضوں سے واقف کرائے، انھیں اپنے آئینی
حقوق پہچاننے اور انھیں طلب کرنے کی طرف آمادہ کرے اور طریقے سکھائے.... اگر ایسا
نہ ہوا تو اردو والے منتشر ہو کر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے جو فرد اور ملک دونوں کے
لیے خطرناک بات ہوگی۔ترقیِ اردو بیورو اپنے دائرۂ کار کے اندر کم تعلیم یافتہ اردو
دان طبقے کی ضرورتوں کی طرف ان دنوں توجہ کر رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں ہم نے پیش رفت
کر بھی دی ہے .....‘‘
شہرحیدر آباد میں’ترقیِ اردو بیورو کی شاخ برائے جنوبی ہند‘
کا افتتاح بھی ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کی اردو خدمات کی ایک مجاہدانہ مثال ہے۔ اس کے ذریعے
آندھرا پردیش، تامل ناڈو، کرناٹک،کیرلا اور مہاراشٹرا یعنی جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں
میں اردو کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں کئی اہم امور کو رو بہ عمل لایا گیا۔ ڈاکٹر
حسن الدین احمد، ریٹائرڈ آئی اے یس آفیسر نے اس جلسے کی صدارتی تقریر میں فرمایا
تھا کہ’’ میں ترقی اردو بیورو سے تقریباً ابتدا ہی سے منسلک رہا ہوں اور یہ کہتے ہوئے
مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹرفہمیدہ بیگم کے عہد ڈائرکٹر شپ میںاس ادارے میں جتنی
ترقی ہوئی کسی کے دور میں نہیں ہوئی۔ انھوں نے اس ادا رے کے مرتبے کو اونچا اٹھا کر
ایک بین الاقوامی مرتبہ عطا کیا ہے۔ میرے حالیہ دورۂ انگلستان اور امریکہ میں اس ادارے
اور ادارے کی ڈائرکٹر کا جگہ جگہ ذکر ہوتا رہا تو میرا سر فخرسے اونچا ہوگیا کہ ڈاکٹر
فہمیدہ بیگم اس ادارے کی کارکردگی کے ذریعے ملک میں اور ملک سے باہر ہمارے دیس کے نام
کو اونچا کر رہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹرفہمیدہ بیگم نے ترقی اردو بیورو کے ماتحت ہندوستان بھر
کی مختلف ریاستوں میں اردو کتابت کے مراکز کی تعداد میں 5 سے 48 تک کااضافہ کرکے سیکڑوں
خاندانوںکوروزگار کے مواقع فراہم کیے تھے۔بے شمار غریب لڑکیوںنے خطاطی کے فن میں مہارت
حاصل کرلی توانھیں اپنے گھر والوںکو روٹی مہیا کرنے کا ایک ذریعہ ہاتھ آگیا، ڈاکٹر
صاحبہ نے کئی مرتبہ اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب کبھی آپ کا، ان مراکز کو جانا ہوتا
تو ان لڑکیوں کی مائیں آکر آپ کو دعائیں دیتیں کہ میڈم آپ کی وجہ سے ہمارے گھر کا
چولہا جلنے لگا ہے ورنہ کئی دنوںتک ہمارے گھر وں میں چولہوں کے گرم ہونے کی نوبت نہیںآتی
تھی، اللہ آپ کو اس کا اجر دے!
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
نے اپنے دور میں ترقی اردو بیورو سے کئی ایسی نایاب کتابوں کی از سر نو اشاعت کا اہتمام
بھی کیا جوبے حد اہم تھیںلیکن ان کی فراہمی
ناممکن سی ہو کر رہ گئی تھی۔یہ بھی ان کا ایک اہم اقدام تھا۔
ان کا نظریہ تھا کہ کتابیں دراصل وہ صحیفے ہیں جن میں علوم
کے مختلف شعبوں کے ارتقا کی داستان رقم ہے اور آئندہ کے امکانات کی بشارت بھی۔ بیورو
کے اشاعتی پروگرام کے تحت شائع ہونے والی کتابوں کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس
سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مختصر عرصے میں بعض کتابوں کے دوسرے تیسرے ایڈیشن شائع کرنے
کی ضرورت بھی محسوس ہوئی ہے‘‘(کلیات سراج، ص3،
(1982۔ قارئین کی سہولتوں کا مزید خیال کرتے ہوئے کتابوں کی قیمت بہت کم رکھی
جاتی ہے تاکہ کتاب زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچے اور وہ اس بیش بہا علمی خزانے سے
زیادہ سے زیادہ مستفید اور مستفیض ہو سکیں۔
(پیش لفظ، ص4، شعر شور انگیز، جلد اول، اپریل جون
1990)
ڈاکٹرفہمیدہ بیگم صاحبہ دکنی ادب سے لے کر دور جدید کے ادبی
منظر نامے تک بھی ادب کے مختلف پہلوئوں پرگہری نظر رکھتی تھیں۔ان کے ادبی مضامین’آجکل‘
وغیرہ رسالوں میں شائع ہوتے تھے۔انھوں نے اپنے طالب العلمی کے دور میں کچھ افسانے بھی
لکھے تھے جن میں سے کئی ایک شائع بھی ہوئے۔ ان کی مطبوعہ تصانیف و تالیفات حسب ذیل
ہیں
میسوری اردو اور ’نے‘ (1975)، شعور زبان، بار اول (1989)، اردو مثنویمطالعہ و تدریس،
بار اول، 1992، راحت آرا بیگم کی افسانہ نگاری اور منتخب افسانے (1993)، قدیم
اردو نظم۔ جنوری تا مارچ (1995)، ذاکر حسین شخصیت و معمار، اکتوبر
تا دسمبر(1995)، بنگلہ ڈرامہ ڈاک گھر، اردو ترجمہ از راحت آرا بیگم مرتبہڈاکٹر فہمیدہ بیگم (1995)، انگریزی کتاب Outlines
of Islamic Culture۔
’ میسوری اردو اور نے‘ ڈاکٹر صاحبہ کی پہلی تصنیف ہے جو
1975 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں دکنی اردو میں علامت فاعل ’نے‘ کے استعمال میں پائی
جانے والی غلطیوں کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیاہے اور بعض محققین کے اس خیال کی
تردید کی گئی ہے کہ دکنی اردو میں ’نے‘ کا استعمال نہیں پایا جاتا۔ انھوں نے یہ ثابت
کیا ہے کہ’ نے‘ کے استعمال کی مناسب اور نا مناسب ہر طرح کی مثالیں دکنی مخطوطات میں
بھی ملتی ہیں اور یہاں کی بات چیت میں بھی۔
تصنیف ’شعور زبان‘، 1989میں نئی دہلی سے شائع ہوئی اور اب
تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے پیش لفظ میںپروفیسر خواجہ احمد فاروقی
نے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کو لسانیات کے میدان میںکسی قابل فرد کی اپنی تلاش و جستجو کا
حاصل قرار دیاہے اور لکھا ہے کہ’’..... فہمیدہ بیگم نے جتنا کام کیا ہے وہ لسانیات
کے حدود میں ہے، جو سخت مشکل بھی ہے اور اشد ضروری بھی ..... ان کا کوئی مضمون ایسا
نہیں ہے جس کا ہر صفحہ غور و فکر کی دعوت نہ دیتا ہو یا جس میں انھوں نے زبان کے مطالعے
کو نفسیات، عمرانیات اور دوسرے سائنسی علوم سے جوڑنے کی کوشش نہ کی ہو۔ (پہلا ایڈیشن، شعور زبان، پیش لفظ، ص7 تا9)
اسی کتاب کے ’تعارف‘ میںپروفیسر مسعود حسن خاں نے اس کی اہمیت پراظہار خیال کرتے ہوئے بتایا ہے
کہ ’’....... مجھے امید ہے کہ ان کے یہ مضامین اس لسانی شعور کے پیدا کرنے میں معاون
ہوں گے جس کی اردو داں حلقوں میں خاصی کمی پائی جاتی ہے۔‘‘
(پہلا ایڈیشن،شعور زبان، پیش لفظ، ص 12 )
تصنیف ’اردو مثنوی،
مطالعہ اور تدریس‘ کی پہلی جلد اگست 1992 میں اور دوسری جلد 1993 میں شائع ہوئی۔ اس
میںمثنوی کی ابتدا اوراس کی تدریس پر روشنی ڈالنے کے بعد کُل پندرہ مثنوی نگاروں کا
منتخب کلام پیش کیا گیا ہے جس میں سے چھ شمالی ہند سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی نو جنوبی
ہندوستان سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کتاب کا ایک مقصد یہ بتایاہے کہ ہمارے یہاں اردو
مثنوی کے مطالعے کو ابھی تک علاقے اور ادوار یعنی زماںا ور مکاں کے خانوں میں بانٹا
جاتا ہے جیسے کہ دلی کی مثنویاں،عادل شاہی دور کی مثنویاں وغیرہ تو اس کی وجہ سے اردو
ادب کے طالب العلم اور اساتذہ میر حسن، دیا
شنکر نسیم،شاہ میرانجی شمس العشاق،عبدل بیجاپوری اور ملا نصرتی کو ایک دھاگے میں پروتے
ہوئے جھجھک سی محسوس کرتے ہیں۔ یہ کتاب اس جھجھک کودور کرکے اردو مثنوی کی تاریخ میں
جوتسلسل ہے اسے واضح کرنے اور جدید اور قدیم مثنویوں کے تقابلی مطالعے کو فروغ دینے
کی ایک کوشش ہے۔
(اردو مثنوی،مطالعہ اور تدریس، بار دوم1993، ص10)
’ڈاکٹر ذاکر حسین۔شخصیت و معمار‘ 1995 ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
کی مرتبہ کتاب ہے۔ اس میںفہمیدہ بیگم صاحبہ نے ڈاکٹر ذاکرحسین جیسی عظیم ہستی کو خراج
عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک گرانقدرپیش لفظ تحریر کیا ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر ذاکرحسین کی
شخصیت اور کارناموںپرتقریباً بیس اصحاب کے مضامین، اورخود ذاکر صاحب کی مختلف موضوعات
پر قلمبند کی ہوئی چند تحریریں اس میںشامل ہیں۔
’قدیم اردو نظم، حصۂ اول‘ بھی ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کی مرتبہ
کتاب ہے جو جنوری تا مارچ 1995 ترقی اردو بیورو
سے شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹرصاحبہ نے اس کی ’’تمہید‘ میں بتایاہے کہ قدیم اردو کا مطالعہ
ہندوستانی اور بیرونی ممالک کی اکثر و بیشتر یونیورسٹیوں میں مختلف سطحوں پر ڈگری کورس،
اعلا ڈگری کورس وغیرہ میں شامل ہے مگر جدید اور قدیم اردو کے مابین جو لسانی، صوتی،
صرفی، نحوی فرق موجود ہے اس کو قاری پوری طرح سمجھنے کی کوشش میں بے شمار الجھنوں اور
رکاوٹوں کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔تہذیبی، فکری، معاشرتی، تمدنی اور علاقائی فرق بھی
درمیان میں حائل ہو جاتا ہے۔اس لیے قدیم اردو کے سلسلے میں درس و تدریس اور تحقیق کے
مسائل پر ترقی اردو بیورو کی طرف سے منعقدہ ایک سہ روزہ سمینار میں کی گئی سفارشات
میں دانش گاہوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قدیم اردو کا منتخب کلام شائع کر نے
کی سفارش بھی شامل تھی اور یہ کام ڈاکٹر فہمیدہ بیگم ہی کو سونپا گیا تھا۔ کتاب’قدیم
اردو نظم ‘ اسی کا حاصل ہے۔ اس میںتقریباً بائیس اصناف شاعری کا انتخاب موجود ہے۔
’راحت آرا بیگم کی افسانہ نگاری اور منتخب افسانے‘ میں ڈاکٹر
فہمیدہ بیگم نے کلکتہ کی ایک مشہور افسانہ نگار راحت آرا بیگم کے حالات زندگی اور
ان کی افسانہ نگاری کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کے چھ منتخب افسانے پیش کیے ہیں۔
اب مجھے یہ کہنا ہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کے اور میرے تعلقات
کچھ مدت کم آدھی صدی کے وقفے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ 1976 میں بنگلور یونیورسٹی میںایم
اے میں داخلہ لینے سے لے کران کے مخصوص موضوع ’مثنوی‘ کے ایک گوشے ’جنوبی ہند کی تصوفانہ
مثنویوں کا مطالعہ‘ سے متعلق تحقیقی منزلوں سے گزر کر 1990 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل
کرنے تک ہی نہیںبلکہ ان کے انتقال تک بھی ہمارے درمیان میرے شاگردانہ روابط کے ساتھ ہی ساتھ دوستانہ قسم
کے روابط بھی قائم تھے۔ میںاپنی پی ایچ ڈی کے موضوع کے انتخاب میںڈاکٹر صاحبہ کی بے
حد ممنون رہی کہ اُن کی وجہ سے مجھے نہ صرف اپنے وراثتی ذوق تصوف کی بیشمار کتابیں
چھاننے میں دلچسپی پیدا ہوگئی بلکہ دکنی زبان و ادب پر دسترس بھی حاصل ہوگئی۔ہر چار
پانچ دنوں بعد فون پر ہماری گفتگوکے دوران یا روبرو ملاقات کے دوران کئی ادبی امور
کے بارے میں گفتگو رہتی۔ اب جب کہ وہ ہم سے جدا ہوگئی ہیں توانتہائی مشفق اور اپنائیت
کے جذبے سے پیش آنے والی فہمیدہ آپا صاحبہ کی یادیہ احساس جگا دیتی ہے کہ میں ایک
مشفق بزرگ حقیقی بہن کے سائے سے محروم ہوگئی ہوں !
آپ چاہتی تھیں کہ
فکر و تحقیق کی وہ جلد جودلّی میں منعقدہ27تا
29 اکتوبر 1987 کے دکنی ادب کے سمینار کے مقالوں پر مشتمل ہے، اس کو بڑے فانٹ
میں منتقل کرکے چھپوائیں تاکہ قدیم دکنی ادب پر تحریر کردہ یہ گرانقدر مقالے پردۂ
خفا میں نہ چلے جائیں بلکہ منظر عام پر رہ کر علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے
ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوں۔ دوسرے، انھوں نے بڑی جانفشانی سے تکرار ِ الفاظ کے بارے
میںجو مواد اکٹھا کر رکھا تھا، اسے کتابی شکل دے کر شائع کر نے کی، اور الفاظ نفی کے
سلسلے میں جو کچھ کام کیا تھا اس کو بھی کتابی شکل میں جلد سے جلد شائع کروانے کی وہ
بے حد متمنی تھیں۔لیکن رام نگرم کے ناگہانی سیلاب میں جب ان کا بہت سا ادبی سرمایہ
پانی کی نذر ہوگیا توآپ اس سے بہت متاثر ہوگئی تھیں اور جو کچھ باقی بچا ہے اسی سے
کام کو آگے بڑھانے کے اقدامات کررہی تھیں۔ ماہ نومبر 2022 کے اختتامی ہفتے میں آپ
پر ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا، ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہیں۔ گھر آنے کے بعد
30 ؍نومبر کو میری ملاقات کے دوران طبیعت کی نا سازی کے باوجود
میرے ساتھ جتنا بھی وقت گزارا اِن ہی تین کتابوں کی تیاری کے سلسلے میں بات آگے بڑھائی۔
تین چار دن بعد ہی آپ نے فون پر بتایا کہ تکراروالا فائل پورا اکھٹا کروا کر رکھا
ہے،مجھ سے تفصیلی گفتگو کرنی ہے، میں آکر اسے لے جائوں اور کتاب کی شکل میں سلیقے
سے ترتیب دے کر کمپوزنگ کے لیے دے دوں۔ 14؍دسمبر
کو، میری ملاقات کے دوران گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک اسی سلسلے میں تفصیلی گفتگوہوتی
رہی،میں فائل لیے گھر لوٹ آئی۔ اس دن وہ ٹھیک ہی لگ رہی تھیںلیکن اس کے آٹھ دس دن
بعد25 ؍ دسمبر کو فون کرنے
پر پتہ چلاکہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ پھر سے ہسپتال میں داخل ہوئیں، کل صبح ہی گھر
واپس آئی ہیںمگر طبیعت پوری طرح بحال نہیں ہوئی ہے، میں نے فون پر آپ سے بات کروانے
کے لیے کہاتوآپ نے میرا نام لے کر کچھ کہنا چاہا، ٹھیک سے الفاظ ادا نہیں کر پارہی
تھیں، میرے ہوش اڑ گئے،میں نے انھیں کہاکہ آپا !آپ اطمینان رکھیے، آپ نے جیسا کہا
ہے ویسے ہی میں آپ کی تکرار الفاظ کی کتاب مکمل کرکے شائع کروادوں گی، آپ جلد ٹھیک
ہو جائیے، اس کی فکر مت کیجیے گا! اسی دن انھیں پھر سے اسپتال میں داخل کرایا گیا اور
27؍کی صبح وہ مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ان شاء اللہ ان کی خواہش
کے مطابق تکرارِ الفاظ والی کتاب جلد ہی اشاعت کی منزل پر پہنچ جائے گی۔
Prof.
Mahnoor Zamani
23/1, GB, Lotus heights Apartment
3rd Cross, Sultanpalya Main Road
Sultanpalya
Bangalore-
560032 (Karnataka)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں