11/4/23

کیف عظیم آبادی: ہمایوں اشرف

کیف عظیم آبادی، اردو کے ایک قابل قدر شاعر ہیں۔ان کا شمار پختہ گو، قادر الکلام اور واضح فکری میلان رکھنے والے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی۔ غزلیات، قطعات، رباعیات،  حمد و نعت، سہرے اور قصیدے، بہت کچھ یادگار چھوڑے لیکن ان کا اصل میدان غزل گوئی تھا۔ کیف دل نشیں شاعری اور پُرکیف آواز کے لیے خاصے مشہور تھے۔ اپنی سخن سرائی اور نغمہ سنجی کے سبب وہ اردو اور ہندی داں حلقوں میں یکساں مقبول تھے۔ اردو میں ان کے تین شعری مجموعے ’صدائوں کے سائے‘ (مجموعۂ غزلیات 1982)، ’انگنائی‘ (مجموعۂ قطعات1986)، ’اپنے لہو کا رنگ‘ (مجموعۂ غزلیات 1988) اور دیو ناگری رسم الخط میں ’سنولائی دھوپ‘، ’لہریں‘ اور ’پچھلے پہر کی بانسری‘ کے عنوان سے ان کی زندگی میں ہی اشاعت پذیر ہو چکے تھے اور ان پر عطا کاکوی، پروفیسر محمد محسن، ڈاکٹر عبدالمغنی، شفیع مشہدی، بشیر بدر، علیم اللہ حالی، خورشید سمیع، اسرائیل رضا، اعجاز علی ارشد، احمد حسین آزاد، شاداب رضی، انور پاشا، نریندر کمار نوین، ستیش راج پشکرن، جے شنکر پرساد، شنکر دیال سنگھ جیسے اردو و ہندی کے معروف قلم کاروں نے خامہ فرسائی بھی کی ہے۔ ایچ۔ایم۔وی۔ اور ٹی سیریز جیسی نامور میوزک کمپنیوں نے کیف کی غزلوں کے آڈیو کیسیٹ بھی تیار کیے تھے جو ہاتھوں ہاتھ خوب بکے اور آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔ کیف مقامی، قومی اور بین الاقوامی مشاعروں اور کوی سمیلنوں کے روح رواں تھے۔ ان کی شرکت شعری محفلوں کی کامیابی کی ضامن تصور کی جاتی تھے۔ وہ پیدا تو عظیم آباد میں ہوئے لیکن ان کی آوا زکی سحر انگیزی جغرافیائی حدوں کو پھلانگتی ہوئی دور دور تک محسوس کی گئی۔ ملکی سطح پر تمام چھوٹے بڑے مشاعروںمیں تو وہ لازمی طور پر شریک ہوتے ہی تھے۔ دوبئی، شارجہ، ابو ظہبی، العین، جدّہ،ریاض، اسلام آباد اور کراچی کے مشاعروں میںبھی نغمے بکھیرنے کے لیے وہ مدعو کیے جاتے تھے۔

کیف عظیم آبادی کی پیدائش 8جون 1937 کو محلہ شاہ گنج،  محمدپور، پٹنہ میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام محمد یٰسین اور تخلص کیف تھا۔ عظیم آباد ان کا وطن تھا، اسی مناسبت سے عظیم آبادی لکھتے تھے۔ کیف کے دادا عبد اللہ مرحوم، تحریک مجاہدین( صادق پور، پٹنہ) کے ایک سرگرم رکن تھے۔ کیف کے والد کا نام عبد الغفور تھا،جن کے گھر تین بیٹے محمد لقمان، محمد یٰسین، محمد اکرام اور ایک بیٹی زینت النساء پیدا ہوئی۔ کیف کے بڑے بھائی محمد لقمان پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور چھوٹے بھائی محمد اکرام عظیم آباد کے آبائی مکان میں ہی سکونت پذیر رہے۔ یہ تمام بھائی بہن اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔

کیف کے والد کی مدرسہ شمس الہدیٰ کے نزد، سائنس کالج، پٹنہ کے سامنے سلائی کی ایک معمولی سی دکان تھی۔ ابھی کیف کا بچپن ہی تھا کہ ان کے والد کا سایہ سرسے اُٹھ گیا۔غمِ روزگار سے مجبور ہو کر تعلیم کو خیرباد کہنا پڑا اور انہیں اپنی آبائی دکان کو ہی اپنا مرکز اور محور بنانا پڑا۔ کیف صاحب ایک نہایت مخلص، نیک طینت، منکسر المزاج، نرم گفتار، قناعت پسند اور حسّاس انسان تھے۔ خاکساری اور وضع داری ان کی شخصیت میں رچی بسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دکان ایک ادبی مرکز میں تبدیل ہو گئی۔ جہاں گاہکوں کے ساتھ ہر عمر اور ہر مکتبِ فکر کے ادبا و شعرا کا ایک جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ کیف عظیم آبادی خندہ پیشانی سے انہیں بیٹھاتے اور تادیر ادبی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سلائی کی دکان بند ہو گئی اور شعری دکان کھل گئی۔ کیف عظیم آبادی 19 نومبر 1979 کو دوران سفر ایک شدید حادثے کا شکار ہوئے، جس کی نذر ان کی داہنی ٹانگ ہو گئی۔ اس کے بعد انھیں بقیہ عمر بیساکھی کے سہارے گزارنی پڑی۔ وہ تقریباً اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے، لیکن ان کے دوست و احباب قدم قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں انھوںنے اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ تاہم حادثے کے بعد کی زندگی کے تلخ حقائق اور مایوس کن حالات کی پرچھائیاں ان کی شاعری میں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ 24 جنوری 1994 کو پٹنہ کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیلوجی میں محض 56 سال کی عمر میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

کیف عظیم آبادی نے غزل کے علاوہ حمد، نعت، منقبت، گیت، سہرا اور قطعات لکھے ہیں لیکن ان کی تخلیقیت کا اصل جوہر ان کی غزلیہ شاعری میں کھلتا ہے۔ وہ روایت آشنا اور اپنے عہد کی حقیقتوں کا ادراک رکھنے والے، اعلیٰ تہذیبی اقدار کے پاسدار، مستقل مزاج اور صاحب شعور تھے۔ انھوںنے اپنی ریاضت اور صلاحیت سے روایت کو تازہ کار بنایا، جس کے باعث ان کے کلام میں داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر تازگی اور دل کشی کا احساس ہوتا ہے۔ کیف کی شاعری میں تنوع اور رنگارنگی ہے۔ ان کے یہاں رومان و حقیقت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ صحت مند روایت اور جدید حسیت کے عناصر ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ترقی پسندی کے خصائص بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں خلوت و جلوت، ہجر و وصال، کیف و سرمستی، حظ و انبساط کے جلوے ان کی شاعری میں جلوہ فگن ہیں۔ 1965 کے بعد ان کی شاعری کے رنگ و آہنگ میں ایک نئی تبدیلی در آتی ہے۔ ان کے یہاں زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلو در آئے ہیں۔زندگی کے مختلف رنگوں کو وہ اپنے کلام میں کیف و سرور اور شائستگی اور شستگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ بہت کیف آگیں اور کیف آور ہوتا ہے، جس میں جدت، تا زگی، لطافت، نزاکت، ملاحت، فصاحت اور بلاغت کے عناصر ملتے ہیں۔وہ اپنے تجربات و احساسات کو مدھم اور نرم و لطیف پیرائے میں تخلیقی ہنر مندی اور فنی چابک دستی سے پیش کر کے اپنی انفرادیت کا نقش ثبت کرتے ہیں۔ پروفیسر علیم اللہ حالی کی یہ رائے مبنی بر حقیقت ہے کہ

’’کیف نے اپنی غیر معمولی طباعی اور تخلیقیت کے زور پر الفاظ کو نئی معنوی جہتوں سے روشناس کیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک الفاظ لغات سے نکل کر نئے مفاہیم کے اشارہ نما نہیں بنتے، اس وقت تک اچھی شاعری کا جزو نہیں بن سکتے۔ کیف عظیم آبادی نے لفظوں کو معنوی وسعت عطاکرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دل آویز آہنگ سے بھی آشنا کیا ہے اور یوں ان کے لہجے میں الفاظ سرورنغمے کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ یہ گنگناتے بھی ہیں اور بسا اوقات رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ ’کیف عظیم آبادی مقام و کلام‘ مرتبہ زرنگار یاسمین، ص4)

کیف اپنے مشاہدات اور محسوسات کو ذہنی بالیدگی سے کام لے کر فنّی و فکری سطح پر بہت ہی حسین و جمیل پیرائے میں سامنے لاتے ہیں۔ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت جمالیاتی حسن، شعریت، تغزل، نغمگی، شیرینی اور موسیقیت ہے۔ یہاں ان کے چند اشعار پیش ہیں           ؎

وہ شخص عمر بھر جو فرشتہ بنا رہا

کم حوصلہ تھا خود ہی تماشا بنا رہا

میں کس کو اپنا کہہ کے بلاتا جہان میں

ہر آئینہ خلوص کا دھندلا ملا مجھے

تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو

تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جائو گے

کل حادثہ میں مرنے سے پہلے ہی زندہ لوگ

جیبیں ٹٹولتے تھے وہ منظر عجیب تھا

پھیلی ہوئی ہے شہر میں عریانیت کی آنچ

تہذیب کے بدن سے قبا کون لے گیا

حال نہ پوچھو پڑھ کر دیکھو

ہر چہرہ اخبار ہے بابا

میں سمندر سے پیاسا لوٹ آیا

جاگ اٹھی تھی میری انا مجھ میں

راہ چلتے ہوئے شو کیس کو دیکھا نہ کرو

کرب ہی کرب لیے لوٹ کے گھر جائوگے

میری صورت پہ سب گئے لیکن

کس کو فرصت تھی جھانکتا مجھ میں

اس امنڈتے ہوئے چہروں کے سمندر میں کوئی

جو شناسا سا لگے آئو وہ چہرہ ڈھونڈیں

کاندھے پہ مصلحت کا جنازہ لیے ہوئے

بہروں کی انجمن میں زباں کھولتے رہے

کیف کی غزلوں میں خیال انگیزی و معنی آفرینی بھی ہے اور حسن و جمال بھی۔ مجھے پروفیسر اعجاز علی ارشد صاحب کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ ’’کیف فکرو فلسفہ سے زیادہ احساس اور جذبہ کے شاعر ہیں‘‘۔ ان کی شاعری میں جہاں اظہار ذات، داخلی،  ذہنی انتشار، محرومی، تنہائی، تشنگی، بے چہرگی، بے اعتباری، غم و خوشی کے احساس کروٹیں لیتے نظر آتے ہیں وہیںمعاشرے کی بدنظمی، تہذیبی قدروں کی پامالی، سماجی نا انصافی، معاشی استحصال، زمانے کی بدعنوانیاں، مکروفریب، فرقہ وارانہ زہر افشانی، خوف و ہراس، فسادات اور قتل و غارت گری سے پیدا ہونے والی صورت حال کا پرتو بھی جابہ جا بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ کیف کی شاعری پر ’’جدیدیت‘‘ کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا کلام کلاسیکی رچائو اور عصری حسیت دونوں کا آئینہ دار ہے۔ پروفیسر عطا کاکوی نے ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے بجا فرمایا ہے کہ ’’کیف کے کلام میں جدت ہے، جدیدیت نہیں‘‘۔ پروفیسر محمد محسن عظیم آبادی، کیف عظیم آبادی کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں

’’کیف کی شاعری عصری حسیت کی فنکارانہ ترجمانی ہے اور یہی ان کا وصف ہے۔ان کی شاعری جدید حسیت کی پوری آئینہ داری کرتی ہے۔ ان کے لب و لہجے میںجدید ترین عصری تقاضوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جدیدیت کے غیر صحت مندانہ میلانات سے بیزاری کا دوٹوک اظہار کیف نے کیا ہے۔ وہ اپنے خیالات اور واردات قلب کے اظہار میں مبہم استعاروں اور پیچیدہ علامتوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ غزل کے لوازم کا احترام کرتے ہوئے رمز و کنائے کا بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کلام قاری کے لیے معمّہ نہیں بن جاتا۔‘‘

بلاشبہ کیف کی شاعری محرومی، تنہائی، بے چہرگی، بے چارگی اور تشنگی کا نوحہ نہیں، کسک ہے، زندگی سے مکالمہ اور امکانات کی تلاش کے ساتھ ان کے کلام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ناآسودگی، بے چارگی کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ احتجاج کی دبی ہوئی لَے بن کر ابھرتی ہے اور واردات قلب احساس و تجزیے کے عمل سے گزر کر شاعرانہ سطح پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ان کے کلام میں جدید تراکیب، تشبیہات و استعارات، پیکر تراشی اور لفظی صنعت گری کے نمونے ملتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ توڑ پھوڑ اور شکست و ریخت کو روا نہیں رکھتے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں ابہام و پیچیدگی کے بجائے دلکش و پُر کشش سادگی اور پُر کاری ملتی ہے۔ ان کے لب و لہجے اور رنگ و آہنگ میں ندرت اور تازہ کاری جھلکتی ہے۔ وہ اردو، فارسی الفاظ کے دوش بدوش ہندی کے سبک اور شیریں الفاظ کو اس طرح استعمال میں لاتے ہیں کہ کلام میں ایک خاص قسم کی دلکشی، جاذبیت اور حلاوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

گائوں کی دھرتی بانجھ ہوئی ہے پنگھٹ سونا سونا ہے

پیپل کے پتوں میں چھپ کر ڈھونڈتی ہے تنہائی دھوپ

اوشا کی وہ شیتل کرنیں لہروں سے جب کھیلتی ہوں

سندرتا کی مورت بن کے نیل کنول میں آجانا

جیون کے اندھیارے پتھ پر سارے ساتھی چھوٹ گئے

ذہن میں پت جھڑ ہی پت جھڑ ہے یادوں کی مدھو ماس نہیں

چلتی پھرتی زندہ لاشیں کیف ہمارے یُگ کے لوگ

چہرہ ہے جذبات سے عاری دل میں کوئی احساس نہیں

راتوں کی تنہائی میں یوں ہی خواب سنورتے رہتے ہیں

یادوں کے درپن میں اکثر عکس ابھرتے رہتے ہیں

چلتے پھرتے لوگوں میں اب جینے کا احساس نہیں

گائوں کا پنگھٹ سونا سا ہے شہروں میں ویرانی ہے

شنکر بن کر زہر پیو تو امرت دھارا برسے گی

دنیا شاید بھول گئی ہے گنگا جل کے بارے میں

غزل روایتی ہو یا جدید اس میں تغزل نہ ہو تو ایسی غزل قابل توجہ نہیں ہوتی۔ جہاں تک کیف عظیم آبادی کا تعلق ہے، وہ اردو غزل کے قدیم اور جدید اسلوب سے اپنی شاعری کا خمیر تیار کرتے ہیں، جس کی موسیقیت قاری کے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مذکورہ بالا اشعار میں گائوں کا پنگھٹ، پیپل کی چھائوں، اوشا کی کرنیں، سندرتاکی مورت، یادوں کی مدھوماس، شہروں کی ویرانی اور پت جھڑ کی تصویر کشی ہمیں ملک کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کا احساس دلاتی ہے۔ کیف کے ان اشعار میں سرگم کی لے ہے جو زندگی کو حقیقی دھڑکنوں سے آشنا کراتی ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو جو خاص حسن، دلکشی اور جاذبیت عطا کی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔

کیف عظیم آبادی قطعات و رباعیات پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ’انگنائی‘ کے قطعات میں گھر آنگن اور ازدواجی زندگی کی خوشبورچی بسی ملتی ہے۔ یہاں مرد اور عورت کے احساسات و جذبات اور ان کی گھریلو زندگی کی دھوپ چھائوں، محبت و چاہت، بحث و تکرار، ایثار و قربانی، صبر و قناعت، شرافت و طہارت، سادگی و بے ریائی اور شرم و حیا کی وہ تصویریں ملتی ہیں جوبلا تفریق مذہب و ملت ہمارے ملک کا طرّۂ امتیاز ہیں۔ کیف نے اپنے قطعات میں ملک کی تہذیبی اور روایتی قدروں کو بہت ہی ہنر مندی سے فطری انداز میں پیش کیا ہے۔ بطور مثال چندقطعات پیش ہیں          ؎

مضمحل دل کی کیسی حالت تھی

درد تھا، غم تھا اور ندامت تھی

آج لڑنے پہ یہ ہوا احساس

آپ سے کس قدر محبت تھی

——

عشق کی چل رہی ہے پُروائی

ہے خفا شام ہی سے تنہائی

پھر ترے قرب کا گلاب کھلا

پھر مہکنے لگی ہے انگنائی

——

میری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں

کس محبت سے آج اس نے کہا

چائے پی کر ہی جائیے باہر

آج موسم بہت ہے برفیلا

——

دل میں اٹھتے ہوئے حسیں جذبات

اِک نئے رُخ پہ موڑ دیتی ہے

میز پر رکھ کے وہ مری تصویر

کتنی شردھا سے چوم لیتی ہے

——

میری آنکھوں میں آج پھر اس کی

کتنی سندر چھَوی اُبھرتی ہے

کچّی نیندوں سے اٹھ کے جاڑے میں

میرا کھانا وہ گرم کرتی ہے

’جنون و آگہی‘ میں کیف نے گھریلو زندگی کے برعکس دنیاوی معاملات و مسائل کو اپنے قطعات میں سنجیدگی سے برتا ہے اور سادگی و پُرکاری کے ساتھ ایسے قطعات پیش کیے ہیں جو قارئین کو دعوتِ فکر دیتے ہیں        ؎

جب بھی تنہائیاں ملیں مجھ کو

ان سوالات ہی میں الجھا ہوں

کاش کوئی یہ مجھ کو بتلائے

کون ہوں میں، کہاں سے آیا ہوں

——

زندگی جس کو لوگ کہتے ہیں

ایک مشکل سوال ہے ساقی

لوگ تو دوسروں کو پڑھتے ہیں

خود کو پڑھنا کمال ہے ساقی

کیف عظیم آبادی کی شاعری قدیم و جدید سے ہم آہنگ ہے۔ ان کا کلام عشق و محبت کا آئینہ دار بھی ہے اور سماج و حالات حاضرہ کا عکاس بھی۔ وہ واردات قلبی اور معاملات حسن و عشق کو ایک خاص انداز میں برتنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس انداز کو ان کا امتیاز بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں ندرت بیان کے ساتھ تاثر بھی موجود ہے، سوچنے کا انداز بھی نیا ہے، خیالات کی بوقلمونی بھی ہے اور طرز اظہار کی رنگینی بھی۔ بلا شبہ کیف نے شعر و سخن کا جو گلستان سجایا اور گلستان شاعری میں جو گل بوٹے کھلائے ان کی رعنائی ذہن اور روح کو بہت فرحت بخشتی ہے اور ان کی خوشبو مشام جاں کو معطر کر دیتی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی وفات کے بعد ادبی مورخین و ناقدین نے انہیں فراموش کر دیا ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کا بھرپور مطالعہ و محاسبہ نہیں ہو سکا ہے۔ ان کی باقیات تقریباً 29 سال گزر جانے کے باوجود طباعت سے محروم ہیں۔ ابھی حال ہی میں ان کی صاحبزادی ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے اپنے والد گرامی کے تخلیقی شہہ پاروں کو ترتیب دے کر ’کیف عظیم آبادی مقام اور کلام‘ کے نام سے شائع کر کے کیف شناسی کے لیے از سر نو راہ ہموار کی ہے۔ انھوںنے اس کتاب میں جو منتخبہ کلام پیش کیے ہیں اسے بلا شبہ کیف کی شاعری کا عطر قرار دیا جا سکتا ہے۔

امید قوی ہے کہ کیف عظیم آبادی کی شخصیت اور شاعری پر سنجیدہ سخن فہموں اور انصاف پسند نقادوں کی نگاہ پڑے گی اور ان کے کلام پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوگا۔     


Dr. Humayun Ashraf

Head P.G. Department of Urdu

Vinoba Bhave University

Hazaribagh-825319  (Jharkhand)

Mob.: 9771010715

Email: dr.h.ashraf@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں