11/4/23

کشمیری تہذیب وثقافت کا عکاس حکیم منظور: مشتاق احمد گنائی

شاعر ہمارے معاشرے کا ایک حساس فرد ہوتا ہے۔ وہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات اور وجود کے علاوہ اپنے اطراف واکناف کی ہر چیز کو ایک مخصوص نظر سے دیکھتا ہے۔غور وفکر کرتا ہے اور جو کچھ محسوس اور مشاہدہ کرتا ہے اس کا اظہار شاعری کے پیرائے میں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری دنیا کے ہر ملک اور علاقے میں پسند کی جاتی ہے۔شاعری میں دلکشی اور دلفریبی کے عناصر بہ درجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔شعرا حضرات نے شاعری کے ذریعے حیات وکائنات کے بے شمار راز کھولے ہیں۔ غزل اُردو شاعری کی وہ صنف سخن ہے جو اپنی ہر دلعزیزی کی وجہ سے ہر دور میں پسند کی گئی ہے۔ اُردو شاعری کی تاریخ میں غزل واحد ایسی صنف سخن ہے جو ہر عہد میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہی ہے۔ اگرچہ اس پر مختلف ادوار میں طرح طرح کے حملے بھی کیے گئے لیکن یہ صنف ہر مشکل دور سے گزرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ابتدا سے تاحال غزل نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ہر دور میں اس نے اپنی سحر انگیزی سے قارئین ادب کی ایک کثیر تعداد کے دلوں کو لبھایا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔آج بھی بہت سے لوگ شاعری سے مراد غزل ہی لیتے ہیں۔        

اردو کی جملہ شعری اصناف میں غزل حکیم منظور کی پسندیدہ صنف سُخن رہی ہے۔اگرچہ انھوں نے نظمیں، مرثیے، نعت اور قطعات وغیرہ بھی لکھے ہیں۔لیکن اُردو ادب میں وہ ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے ہی پہنچانے جاتے ہیں۔ منظور اردو غزل کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو غزل کے اساتذہ کا خوب مطالعہ کیا ہے۔ لیکن وہ روایتی شاعری میں اسیر ہوکر نہیں رہتے بلکہ ان کی غزل اردو شاعری میں نئی وسعتیں پیدا کرتی ہیں۔موصوف کی غزلیہ شاعری نئی غزل کی بہترین مثال ہے۔ان کی غزلوں میں نئے احساس کی فراوانی ہے اور اس احساس کو ان کے اسلوب اور افکار میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ ان کے دیگر معاصرین یا تو روایت یا پھر جدیدیت میں الجھ کر رہ گئے ہیں لیکن حکیم منظور نے اپنی فکر ی بلندی اور گہری شعری بصیرت کے بل پر ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے جس میں قدیم رسم و رواج اور جدید طرز ِ احساس کی دلفریب آمیزش نظر آتی ہے۔انھوں نے جو کچھ بھی کہا ہے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے اور یہی ان کی خصوصیت ہے کہ انھوں نے دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں سے الگ اپنی نئی پگڈنڈی پر چلنا پسند کیا جو آگے چل کر ان کی پہچان کا سبب بنی۔پروفیسرشمیم حنفی حکیم منظور کی غزل گوئی میں روایت اور جدت کو پیش نظر رکھتے ہوئے رقمطراز ہیں

’’شعری سطح پر ہمارا زمانہ مسلمات سے انحراف کے معاملے میں خاصا پُر جوش رہا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ رسموں اور روایتوں کی پاسداری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کچھ شاعروں نے ایک بیچ کی راہ یوں نکالی ہے کہ آزمودہ اور پرانے اسالیب اور نئے طرز احساس کا قصّہ اُن کے یہاں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔حکیم منظور کی شاعری نئے اور پرانے رنگوں کی آمیزش کے سبب مختلف حلقوں کے لیے یکساں اپیل رکھتی ہے اور عام حد بندیوں کو قبول نہیں کرتی۔‘‘ (ماہنامہ ’شیرازہ‘ سرینگر،حکیم منظور نمبر،ص189)

جہاں تک حکیم منظور کی غزلوں میں موضوعات کا تعلق ہے۔اس سلسلے میں ان کا سب سے اہم اور توانا موضوع کشمیر اور کشمیریت ہے۔منظور اپنے مادر وطن سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔انھیں یہاں کے ذرے ذرے سے دیوانگی کی حد تک عشق ہے جس کی بے شمار مثالیں ’ناتمام‘ سے ’قلم زبان شگاف‘ تک ہر شعری مجموعے میں ملتی ہیں۔انھوں نے اپنی غزلوں میں اس موضوع کو بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔وادی کشمیر قدرت کا ایک دلکش شہکار ہے۔منظور نے عالمی سطح پر کشمیر کی خوبصورتی کو مقامی تلا زموں اور ترکیبوں کے سہارے سے غزل کی صورت میں جلوہ افروز کیا ہے۔ یہاں کے نظاروں اور بہاروںکی خوبصورت تصویر کشی منظور اپنی غزلوں میں مخصوص انداز اور اسلوب میں کچھ اس طرح کرتے ہیں        ؎

اہربل کی موج کا اپنا خرام اپنی ادا

سو گیا یہ بھی اگر ہمسر کہاں سے لایئے

تازہ دم نمکین چائے،کانگڑی،ہنستی ہوئی برف

گل بو پہنچے پھر مدعا کیا پوچھنا

کانگڑی بستر میں رکھ کر کھڑکیوں کو وا کروں

برف گرنے کا کبھی میں یوں ہی نظارہ کروں

بکے ہیں کس لیے اخروٹ میرے سنگ کے بھاو

بس ایک بات فقط یہ میں پختہ کار نہ تھا

لگتے ہیں سب خوش سیب صورت آج بھی منظور

کہ میں اپنے کسی عہد شکستہ کا اعادہ ہوں

گہری ہوئی ہیں اور بھی ڈل کی خموشیاں

جہلم پر جو رواں تھی وہ گفتار سوگئی

اے میرے کشمیر آنکھوں میں تیری

میں سجاؤں عرش سے آگے کے خواب

ہے لاکھوں بولتے رنگوں کا درپن

پھرن پہنی ہوئی پریوں کا آنگن

مذکور ہ بالا اشعار سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ حکیم منظور کس حد تک وطن عزیز سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر پریمی رومانی ایک جگہ لکھتے ہیں         ؎

’’حکیم منظور کا موضوع خاص کشمیر رہا ہے۔انھوں نے اپنی غزلوں میں اس موضوع کو نہایت ہی سلیقے سے برتا ہے۔اُن کے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جس سے اس سرزمین کی خوشبو ٹپکتی ہے۔وہ تازہ اور جاندار تراکیب اور علائم بروئے کار لانے کے قائل ہیں جن سے کشمیر کی سدا بہار تصویر سامنے آجاتی ہے۔ان کا اسلوب کشمیر کی بہاروں کی طرح خوشنما اور ملائم ہے۔‘‘

( پریمی رومانی،توازن،ص67)

حکیم منظورنے اپنی ثقافت اور کلچر سے تادم حیات مضبوطی کے ساتھ رشتہ جوڑے رکھا ہے۔وہ اپنے بزرگوں کے بیش بہا ورثے کو جان سے بھی عزیز رکھتے تھے۔اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو اور اپنی تہذیب وثقافت کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منظور نے اپنی غزلوں کے ذریعے متعارف کرایا ہے۔ شاعر جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اس کو اپنے کلام میں ضرور منعکس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔حکیم منظور کی غزلوں میں اپنی ثقافت اور کلچر کی پیش کش کے لیے پروفیسر قدوس جاوید ان کی غزل کو سُخن ثقافت زاد کہتے ہیں۔چنانچہ رقمطراز ہیں

’’حکیم منظور کی شاعری میں چمن ہوکہ چنار برف ہو کہ لہو اشجار،ڈل اور وُلر کی جاں گسل سکموں سے لے کر شفق کی نرم ٹھیکروں تک ہر جگہ اپنی زمیں اپنی ثقافت سے وابستگی کی ایک فطری حرارت رقصاں نظر آتی ہے۔کشمیر اور کشمیری ثقافت کے بیان کے حوالے سے حکیم منظور کی غزل کو سُخن ثقافت زاد قرار دینے کا جواز رولاںبارتھ (Rollen Barth) کے اس فقرے میں بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی(Geneune) فنکار خواہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرے اپنے معاشرے،اپنی ثقافت کی جانب سے آنکھیں بند کرکے عمدہ فن پارے کی تخلیق نہیں کرسکتا...حکیم منظور کے تخلیقی عمل میں اس کا (Cultural Passage) ایک اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔اسی لیے حکیم منظور کی غزل کو سُخن ثقافت زاد کہنا غلط نہیں ہوگا۔‘‘

(ماہنامہ،شیرازہ،سرینگر،حکیم منظور نمبر، ص37-38)

حکیم منظور اپنے تجربات اور مشاہدات کو غزل کی زبان دینے کے لیے لفظیات کا ایک مخصوص نظام بروئے کار لائے ہیں،جس میں اس عہد کے مروجہ الفاظ، علامات اور تراکیب کے علاوہ اپنی زمین سے جڑی ہوئی بے شمار ترکیبوں اور اضافتوں کا بھی بھرپور استعمال کیا ہے۔ حکیم منظور کی غزلوں میں معنی آفرینی کو کشمیر ی تلازموں سے نئی وسعتیں ملی ہیں۔ جس کی بدولت ان کے اشعار میں مقامیت کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ منظور نے کبھی بھی رعایت لفظی کو اپنا شعار نہیں بنایا ہے۔وہ ہمیشہ الفاظ کی جگہ افکار کو ترجیح دیتے ہیں،جس کی بدولت ان کی غزلوں میں منفرد تخلیقی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ منظور بصارت سے زیادہ بصیرت، علم سے زیادہ تجربے، مطالعے سے زیادہ مشاہدے کے قائل ہیں، جس کی بدولت ان کے کلام میں تہہ داری اور معنی آفرینی میں اضافہ ہواہے۔کلام منظور میں جوالفاظ، تراکیب، استعارات اور علامات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں اور جن کا استعمال متعدد مرتبہ ہوا ہے، ان میں برف زاد، شہر گماں، چنار چہرے، دھوپ لہو، دھوپ بدن، سراپا جمال، درونِ جسم، صبح آتش پا، سیب شگوفے، سنگ ہوا زاد، قلم گریزاں، برف نم، لہو شجر، پھول نظر، آسمان تختی، چپ آنگن، پھول قبا، شاخ ثمر، گجر ساعتیں، برف رُت، شفق تلاوت، صبح شفق، شام شفق، شفق رنگوں، پیاسی ہوا، شفق سراب، سایہ شجر، شفق زاد، سیب صورت، لہوعبارت، پھول بستر، سنگستان، موسم سنگ، سورج امکان، وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔مذکورہ الفاظ علائم اور تراکیب کے حوالے سے چند اشعار ملا حظہ ہوں          ؎

مجھے لگتے ہیں خوش سب سیب صورت آج بھی منظور

کہ میں اپنے کسی عہد شکستہ کا اعادہ ہوں

حاصل اس ایک رنگ کا چشم پُر آب ہے

اب سایہ برف زاد کا سرد آفتاب ہے

اہرہ بل کا کتنا پانی بہہ گیا

کون سنگستان سے یہ پوچھے کہو

کس لیے اخروٹ کے چھلکوں سے رستا ہے لہو

کون رکھتا ہے یہاںاس کی خبر میرے سوا

چھپا کے خود کو کہیں رکھ نہ پائے گی خوشبو

کہ برف جب بھی گرے مجھ تک آئے گی خوشبو

ذراسا مطمئن ہوتا چناروں میں ہے دم باقی

میں ان کے نام گروی جان کیا اپنی انا رکھتا

شفق بدن بے قرار، ہرلمس خواہشوں سے

میں تنگ آیا ہوں اپنے دل کی نوازشوں سے

حکیم منظور کے کلام میں جو لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ وہ ’برف‘ ہے۔موسمِ سرما میں وادی کشمیر کے طول وعرض میں برف باری کم یا زیادہ ہر سال ہوتی ہے۔برف گرنے کا موسم قابل دید ہوتا ہے۔ برف پوری وادی کو سفید چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔جو ایک خوش نما نظارہ پیش کرتی ہے۔حکیم منظور کو برف کے ساتھ بہت ہی زیادہ انسیت رہی ہے۔اس مناسبت سے بعض مفکرین انھیں برف رتوں کا شاعر بھی کہتے ہیں۔انھوں نے برف اور برف سے متعلق متعدد الفاظ اور تراکیب وضع کی ہیں۔ جوکہ اردو غزل میں ایک اہم اور نادر اضافہ ہے۔یہاں تک کہ ان کے چند شعری مجموعوںبرف رتوں کی آگ، برف آفتاب، سُخن برف زاد کے ناموں سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برف کے ساتھ ان کی دلی وابستگی کس حد تک رہی ہے۔برف سے متعلق  تراکیب میں  برف بدن،برف رُت،عالی برف،برف زاد،خون برف،برف شب،برف زاروں،برف نواح،برف بے قلم،برف تن اشجار،برف سمندر،سلگتی برف،برف آزار سناٹے،برف ملبوس،برف شگوفے،برف آشنا،برف نم وغیرہ قابل ذکر ہیں، اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے        ؎

بارش بلا کی برف بدن بھی نہ تر ہوا

سایا کہ مستِ خواب رہا بے شجر ہوا

وُلر آبدیدہ ہے جہلم اُداس

سبب صرف بے لمس تاثیر برف

میرا بس چلے برف زاروں کے بیچ

بنائوں میں کوئی مکاں دھوپ کا

برف بے قلم کب تک میرے رنگ لکھے گی

چاہتا ہوں اک شعلہ آسماں بھررکھوں

دعا میرا جہلم نہ سوکھے کبھی

دعا برف کی ہے دعا برف کی

قرطاس گل مرگ پہ جب سوچا اک منظر لکھوں

یا بارش ہی بارش برسی یا پھر خالی برف گری

ہر صنوبر پر شفق فریاد لکھی جائے گی

برف قلموں سے نئی روداد لکھی جائے گی

برف کے ساتھ ساتھ چنار لفظ کا استعمال بھی کلام منظور میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔چنارایک ایسا تناور،سایہ دار اور خوبصورت درخت ہے جو وادی کشمیر کے ہر شہر ہر گائوں میں کم یا زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔یہ درخت کشمیر کی پہچان کا حصہ ہے۔اس لفظ کو مختلف اوقات میں موصوف نے ظاہری معنوں کے ساتھ ساتھ علامتی معنی میں بھی استعمال کیاہے۔جس کی بدولت ان کے کلام میں معنی آفرینی اور افہام و تفہیم کی گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ چند اشعار ملا حظہ ہوں           ؎

موسم آنکھوں کی شفق کو بے سماں ہوتے ہوئے

میں نے دیکھا ہے چناروں کو دھواں ہوتے ہوئے

چنار چہرے ہیں ان کی کوئی زبان نہیں ہے

سلگ رہے ہیں پر کہیں دھواں نہیں ہے

کس نے توڑے میرے آئینے کہو!

گم چناروں کے ہیں کیوں سائے کہو!

حکیم منظور کی غزلوں میں ان خوش نما اور وسیع المعانی تراکیب اور علائم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جناب مسعود منور یوں رقمطراز ہیں         ؎

’’حکیم منظور کی غزلیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کی جڑیں اپنی زمین میں بہت گہری ہیں۔چنانچہ انھوں نے ارض سیب کی اخروٹ نکہتوں،سکوت برف شبی،نزول آفتاب، برف ملبوس، برف کا بستر، سلگتی برف جیسی تراکیب وضع کرکے جہاں اپنے مقامی رنگ کو نمایاں کیا ہے وہاں غزل کے پیکر کو ایک تازہ تر،ایک بالکل منفرد،ایک غایت درجہ انوکھا ملبوس بھی دیا ہے۔اور وہ اپنے اس رویے کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں بالکل علیحدہ دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

(ماہنامہ،شیرازہ،حکیم منظور نمبر،ص191)

جہاں ایک طرف منظور کشمیر کی خوبصورتی اور مناظر قدرت کی عکاسی اوراپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی نمائندگی بہ زبان غزل کرتے ہیں۔وہیں دوسری جانب کشمیر کے پُر آشوب حالات کی پیش کش میں بھی وہ پیش پیش رہے ہیں۔وادی گلپوش گذشتہ تیس چالیس برسوں سے جن خونی حالات سے گزر رہی ہے اس کی بھر پور عکس بندی اپنے اپنے انداز اور محسوسات کے مطابق یہاں کے ہر چھوٹے بڑے شاعر نے کی ہے۔منظور جوکہ حد درجہ حساس ہیں،وہ ان نا ساز حالات کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں۔اپنے گردونواح میں روز رونما ہونے والے حالات و واقعات کو منظور اپنی مخصوص لفظیات اور منفرد انداز میں شعری جامہ کچھ اس طرح پہناتے ہیں           ؎

خون تشنہ شام روسیہ، زخم آفتاب

پائوں سے سرتک آنکھ کا منظر اُداس ہے

چنار چہرے ہیں ان کی کوئی زبان نہیں ہے

سلگ رہے ہیں پر کہیں دھواں نہیں ہے

تمھارے آموں پر کیا گزری جانتا ہوں

لہو ہیں اخروٹ میرے،موسم کی سازشوں سے

موسم آنکھوں کی شفق کو بے سماں ہوتے ہوتے

میں نے دیکھا ہے چناروں کو دھواں ہوتے ہوتے

رستے عجب ہیں،راہی عجب،پیڑ عجب ہیں، پات  عجب

میں جس شہر کا رہنے والا اس کے ہیں حالات عجب

دھواں کہیں سے اُٹھے میںسوچوں جلا ہے کوئی چنار میرا

یہ خوف میراث میں ملا ہے یہی ہے اب اعتبار میرا

مذکورہ اشعار میں خبر خبر کا لہو ہونا،چناروں کا دھواں ہونا، اخروٹوں کا لہو ہونا،موسموں کی سازش کرنا،خوف کا میراث میں ہونا،چناروں کا جلنا، وغیرہ کے ذریعے حکیم منظور نے کشمیر میں رونما ہونے والے حالات کی دلدوز تصویر کشی کی ہے۔وہ اپنے وطن اور قوم کی حالت ِزاردیکھتے ہیں تو بہت مایوس اور افسردہ ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کے دل کے پیمانے میں یہ درد حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو وہ اس کو غزل کے ساغر میں انڈھیلتے ہیں۔ڈاکٹر پریمی رومانی اس حوالے سے لکھتے ہیں

’’حکیم منظور نے اپنی غزلوں میں اس دور کا آشوب پیش کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ منظور کی شاعری میں عصر حاضر کے انسان کا درد و کرب کھل کر سامنے آیا ہے۔اس درد و کرب اور ذہنی افسردگی کے ساتھ ساتھ اُن کی شاعری میں قوم پرستی اور وطن پرستی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے احساسات اور خیالات انھوں نے جس انداز سے اپنی شاعری میں پیش کیے ہیں وہ قابل داد ہیں۔‘‘     ( ڈاکٹر پریمی رومانی،توازن،ص64)

بہرکیف حکیم منظور کی غزل کشمیر میں اُردو غزل کی توانا آواز ہے۔انھوں نے نہ صرف ریاست بلکہ ملک کے طول وعرض میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی غزل میں اظہار کی توانائی اور جذبے کی حلاوت نظر آتی ہے۔تو مشفق خواجہ انھیں روش عام سے ہٹ کرچلنے، اپنے ماحول کی خوبصورت عکاسی کرنے اور خود وضع کردہ لفظوں کو نئے معنی عطا کرنے والے شاعر مانتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالمغنی ان کو فکر،تجربے اور احساس کے منفرد شاعر تسلیم کرتے ہیں۔مظہر امام کا ماننا ہے کہ منظور کی غزل جدید فکر اور طرز احساس سے آمیز ہوکر دوآتشہ ہوگئی ہے۔شمیم حنفی کو ان کی غزل میں نئے اور پرانے رنگوں کی آمیزش نظر آتی ہے۔اسی طر ح محمود ہاشمی کو حکیم منظور کی غزلوں میں ذات،کائنات اور شخصیت کے درمیان منقسم خلائوں کو یاد کرنے اور ایک تکمیلی شخصیت کی تلاش کا منظر نامہ پیش کرنے کی خوبی نظر آتی ہے۔

 

Dr. Mushtaq Ahmad Ganai

S/O Ab Gaffar Ganai

47,Ganaie Mohallah Samboora, Pampore.

Distt:Pulwama Kashmir- 192304 (J&K)

Mob:7006402409

Email:mushtaqalamphd87@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں