ان کے دوافسانوی مجموعے ’رنگوں کاتعاقب‘ (2011) اور ’تلاش‘
(2018) طبع ہوئے ۔اس کے علاوہ بے شمار افسانے مختلف رسالوں میں منتشر ہیں۔
عبدالمتین نے سماجی زندگی کے نشیب وفراز،دھوپ چھاؤں اورانسان
کی نفسیاتی الجھنوںاورنفسانی پیچیدگیوں کواپنے افسانے کامحور بنایاہے ۔تجربات اورحوادث
کی تپش اور فنی لوازمات کی آمیزش اورجاذب توجہ اظہار بیان کے توسط سے اپنے افسانوںکوآراستہ
کیا ہے ۔ انھوںنے اپنے افسانوں میںعلامتی اور استعاراتی اندازبیان اور تحلیل نفسی کے
نظریات کواپناوسیلۂ اظہار بنایاہے ۔ان کے افسانوںکی کہرآلود،شبنمی اورعلامتی و استعاراتی
فضااپنے قاری کے اذہان وقلوب کوموسیقی کی طرح مسخر کرنے کی قوت سے متصف ہے ۔
عبدالمتین کے افسانے کا اختصاص ہے کہ یہ ناسٹلجک صورت حال
کے پیرایہ ٔ اظہار میںزندگی کی حرارت کشید کرتے ہیں،اوراحساسات وجذبات کی رنگ آمیزی
کے سہارے حیات انسانی کی گرد شوں اورلطافتوںکوگویامجسم کردیتے ہیں ۔اکثر انسان زندگی
کی راہوں میں ارادتاً یاغیرشعوری طورپرگویاایک Puppetکی
طرح حرکت وعمل کامرتکب ہوتے ہیں۔ زندگی کے جھکڑ، تھپیڑے، شادکامی اورفرحت بخش فضائیں،اس
کے ہمراہی ہوتے ہیں۔ زندگی کی ایسی ہی سچائیاں عبدالمتین کے افسانوں میں سحرانگیز کیفیتوں
میں ڈھل کرانوکھی کشش اورتشکیک حیات وکائنات کامظہربن جاتی ہیں ۔
عبدالمتین کے افسانوں میں چھوٹے چھوٹے معنی خیز، دورگامی
جملے موضوع سے منطبق اورمبسوط اظہارکے توسط سے واقع پذیرہوتے ہیںاورقاری کواپنی گرفت
میںلے کر زندگی کی تہہ داری،کائنات کے رمزاوروقت کی گردش ناتمام کو اجاگر کرتے ہیں
’’یہ زندگی کیاہے؟ لمحے کیوں بیت جاتے ہیں! کدھرجاتے ہیں؟
بچپن کی رعنائیاں کہاںگئیں؟ ‘‘
(اے خالق کائنات
)
’’..... میں پیچھے مڑا،مگروہاں کوئی نہ تھا ۔مگر آواز حقیقت
تھی ۔ لہٰذا میں انتظار کرنے لگا۔ میںاور تنہائی ..... تنہائی اورانتظار عجب کیفیت
تھی ۔ (سمندر کاآئینہ )
.....’’بیٹی،انسان کافیصلہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اصل فیصلہ
وقت کا ہوتا ہے، جوبامعنی ہوتاہے۔ (افق گمشدہ)
عبدالمتین کے افسانوں میں مظہر کائنات،انسان اوررشتے ناتے،لوگ
باگ متحرک اورفعال نظر آتے ہیں۔ زندگی کی کٹھن مسافت،سماج کے مختلف طبقوں کے پیچیدہ
اورالجھے مسائل کے ساتھ ہی ساتھ نیرنگیِ حیات کا حقیقت افروزمنظر نامہ، جاذب توجہ ہے۔ اسلوب اورطرز اظہار میںتحیرخیزی اورتجسس کے جوہرنمایاں
ہیں۔
ماں، بھابھی، بابو، عورت، رات کی رانی، گلاب، گیندا، ستارے،دریا،
ساحل، سمندر، سفر،آواز،درخت، انار، رنگ، گلابی،بنفشی فالسی،سفید سیاہ..... یہ اور
ایسے الفاظ ان کے افسانوں میں باربارروپ بدل بدل کرآتے ہیںاورمعنویت کانت نیا جہاں
آباد کرتے ہیں۔
لفظ رنگ اوررنگوں کی قوس قزح کی چمک اورمعنی خیزی عبدالمتین
کے افسانوں میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ رنگ اپنے آپ میں ایک خوش کن احساس اورلذت
آمیز کیفیت سے مملوہوتے ہیں۔ یہاں زندگی کی مختلف النوع آسائش اوراحساس سرخوشی کے
تعاقب کاسلسلہ نظر آتا ہے۔ ان رنگوں کے تعاقب میں عبدالمتین نے زندگی اور وقت کے بہاؤ
کوماضی اورحال میں فنکاری اور ہنرمندی کے ساتھ مدغم کیاہے۔ گویا یہ ان کا پسندیدہ اسلوب
ہے۔ جس کے تحت یہ گزرے ہوئے لمحوں کی یادوں سے وابستہ ماضی کے دھندلکوں کوحال کے اجالوںسے
روشن کرنے کی سعیٔ پیہم سے فن پارہ خلق کرتے ہیں۔
وزیر آغانے ایک جگہ لکھاہے
’’انسان اپنے ماضی کی نفی کرنے پرمشکل ہی سے رضا مندہوتاہے۔
اس لیے قدیم سے وابستہ رہنے کی کوشش کرتاہے۔یوں اس کی زندگی ایک عجیب سی منافقت کی
زدمیںآجاتی ہے۔ ذہنی طورپروہ نئے زمانے کے
ساتھ ہوتاہے اورجذباتی طورپرپرانے زمانے کے ساتھ۔ تاریخ انسانی میں یہ ایک نہایت نازک
اورکرب ناک دورہے ۔جسے فن کے ذریعے عبور کرناممکن ہے ۔‘‘
اس اقتباس کی روشنی میں عبدالمتین کے افسانہ ’رنگوں کاتعاقب
‘ کامطالعہ دلچسپ ہے اوران کی فنی گرفت کوبھی واضح کرتاہے ۔
افسانہ رنگوں کاتعاقب ماضی کی گزرگاہوں میں ڈوبنے ابھرنے
کی کیفیت سے مملوشاہکارتخلیق ہے۔ افسانے کی ابتدادیکھیں
’’میری اماں کہتی تھیں۔ جب میں چھ ماہ کاتھا تو انھوں نے
رنگ برنگ کے کپڑے کی چڑیاں بناکرچھت میں آویزاں کردی تھیںاورمیں منہ میں انگوٹھاڈال
کرانھیں دیکھتا رہتا۔ لال گلابی، فالسئی اور بنفشی رنگ کی چڑیاں دیکھتے دیکھتے میں
پاؤں پٹخنے لگتا.....‘‘
رنگوں کے تعاقب میں دراصل وقت کے ہردم رواں پیہم دواں رفتارکوفن
کی گرفت میں لینے کی کوشش ہے۔ افسانے کے بچے کاپاؤںپٹخنازندگی اوروقت کے ارتباط کا
اشاریہ ہے۔ لال گلابی،فالسئی اوربنفشی چڑیاں کائنات کی رنگینی اوراس کے حصول کے جہد
مسلسل کا استعارہ ہیں یعنی زندگی کاسفر جاری ہے ۔
’’..... اورپھرمیں دریاکے کنارے کھڑاتھا ۔یک بیک ساحل پراس
کا سرخ دوپٹہ لہرایا۔ میں نے پکڑنا چاہا اور میرے پاؤںپھسل گئے۔ میں پانی میںچلاگیا
اورہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ کچھ دیربعد میرے ہاتھ پاؤں جواب دینے لگے اورمیںنے خود کوپانی
کے حوالے کردیا۔ میں دریا کی لہروں پربہنے لگا.....‘‘
یہاں وقت کابہاؤ اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ کے پہلے بندکی
طرح پرشوراوربلاخیز نہیں بلکہ نہایت سبک رو اورغیر محسوس طورپر وقت کے بہاؤ کاسلسلہ
جاری ہے۔ وہ وقت جوقائم ودائم ہے، اور بتدریج آگے بڑھ رہاہے اورفضا ئے بسیط کی دلکشی
کو اپنے جلومیں لیے رواں ہے ایک لامتناہی اور کبھی نہ ختم ہونے والایہ سفر اسراراورتحیرخیزی
کے دھندلکوں میں ڈوبا ہے، لیکن زندگی پھربھی بقائے دوام کی امین ہے کہ ؎
رَو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پرہے نہ پاہے رکاب میں
افسانے کا اختتامیہ قاری کوعالم استغراق میں پہنچا دیتاہے۔
’’رنگوں کے تعاقب کاسلسلہ کہاں ختم ہوتاہے ؟ ‘‘
شایدیہ سلسلہ روزاول سے ابد تک جاری ہے۔ اپنے افسانہ ’اے
خالق کائنات‘ میں عبدالمتین نے گویااس کی توضیح پیش کی ہے
’’..... میںدیکھتاہوں۔ قاضی میری قمیص پہن کراچھل رہاہے اورکہہ
رہاہے میںابابن گیا..... قاضی کی یہ بات سنتے ہی محسوس ہواکہ میںنے خودکوپالیا۔ اب
میری نظروں کے سامنے ایک وسیع سمندرہے۔ موجیں ابھررہی ہیں۔موجیں مٹ رہی ہیں۔ یہ سلسلہ
ابدتاازل جاری وساری ہے..... زندگی حسین ہے اور موت بامعنی۔ اے خالق کائنات تیرا شکریہ
! ‘‘
زندگی کے تسلسل اورحیات دوام کایہ سلسلہ دراز ہے۔ اسی قبیل
کے ایک افسانے ’سفر‘ میںبھی یہ احساس جاں گزیں ہے
’’ہرلحظہ پانی بڑھ رہاتھا اورہمارے جسم اس میں گم ہوتے جارہے
تھے۔
میںخوف زدہ ہوگیااور اس سے کہا۔
’’تم مجھے کہاں لے جارہی ہو؟ اس طرح ہم مرجائیں گے۔ ‘‘
’’تم کچھ سن رہے ہو‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں بچہ کی آواز۔‘‘
’’توہم نہیں مرسکتے ‘‘
’’کیسے ؟ ‘‘
’’وہ ہماری آواز ہے اور آواز کبھی نہیں مرتی۔‘‘ (سفر)
افسانہ ’سفر‘ زندگی کے طمطراق اورچہل پہل کا اشاریہ ہے، لیکن زندگی کے اس سفر میں تذبذب بے یقینی اورگم
ہونے کااحساس بھی شامل ہے کہ انسان کوعلم ہی کہاں ہے! وہ کہاں جارہاہے،کیوں جارہاہے
’’مجھے خبر نہیں تھی، نہ ابتداکی آگاہی اور نہ انتہا کا
پتہ‘‘ میںصرف اتنامحسوس کرتاتھا کہ سفر میںہوں
اور بس.....‘‘ (سفر)
بے سمت سفرکااحساس اورلاعلمی انسان کی سرشت میں رچی بسی ہے۔
دراصل ہم وہی جانتے ہیں، وہی علم رکھتے ہیں، جو خالق کونین نے ودیعت کی ہے۔ زمین و
آسمان، فضائے بسیط اورمظاہر قدرت کے تمام تر نظارے ایک رہسیہ، ایک بھید کے سے ہیں،
یہ دھندلکے میں ڈوبے ہیں اور ہم ان دھندلکوں کے سفر ناتمام کے راہی ہیں ۔
عبدالمتین کے افق تاافق، رنگوں کے تعاقب کے سلسلے زندگی کی
تمام تر پیچیدگیوں اور تہہ داریوں کے جوہر سے متصف اورثروت مندہیں۔ رنگوں کے تعاقب
کایہ خواب ناک اور منطقی سفر، کائنات افسانہ میں حاوی بھی ہے اور جاری بھی، جو زندگی
کے ہرروپ، رنج والم، رعنائیوں اور ہجوم شادکامی کی کیفیت، نازک خیالی کی آماجگاہ اوررمز
حیات کے اشاریے ہیں ۔
ارتباط حیات اورزندگی کے قائم ہونے کے خیال انگیز منطقیانہ
تخیل کی کارکردگی کی جھلکیاں ان کے اکثر افسانوں میں نمایاں ہیں ۔ اس خیال کی عکاسی
کانمونہ ان کے افسانہ ’عکس کے بعد‘ میںبھی دیکھاجاسکتاہے۔ اس افسانے میںزندگی کی بدلتی
کیفیتوں اورتغیر پذیروقت کی عکاسی استدلالی واقعات اوراستعاراتی نظام کے سہارے اجاگرکی
گئی ہے۔ یہاںتغیر زماں کی کیفیت نمایاں ہے، لیکن وقت کے قائم ودائم ہونے کااحساس بھی
بین السطور سے جھلکتاہے۔ قرۃ العین حیدر کے افسانے ’فوٹوگرافر‘ میںوقت مائل بہ فنا
ہے
’’ہم جہاں جاتے ہیں فنا ہمارے ساتھ ہے، فنا مسلسل ہماری ہم
سفر ہے۔‘‘ (فوٹو گرافر )
اس کے برخلاف عبدالمتین وقت کے فنا کے منحرف ہیں،ہاں اس کے
تغیر پذیرہونے کی کیفیت کے قائل ہیں
’’وقت پر انسان کا اختیار نہیں۔ یہ وقت کبھی ہوا کا ساتھی
بن کر خون کے آنسورلاتاہے اورکبھی تھم تھم کے چل کرسوئیاں چبھوتاہے۔‘‘ (نور کاہالہ
)
افسانہ ’عکس سے پہلے عکس کے بعد‘کے کردار شکیل کی زندگی میں
حالات اور گردش زمانہ کے باعث سناٹگی درآتی ہے
’’..... اس نے چاروں طرف سناٹا محسوس کیا،جس میں اس کی حیثیت
پت جھڑ کے موسم میںسوکھے پتے کی سی تھی۔ اداسی،تنہائی،خاموشی..... وہ کہاں جائے، کیا
کرے..... لوگوں کودیکھتا تومحسوس ہوتا کہ زندگی بہت حسین ہے،مگرجب اپنے اندرجھانکتاتوبے
حد سناٹا اور اتھاہ اندھیراپایا۔‘‘
لیکن اس سناٹے اوراتھاہ اندھیرے میں،وہ ختم نہیں ہوتاہے،وہ
فنا نہیں ہوتاکہ
’’دنیاکی ریت ہے کہ افسانے وہی رہتے ہیں، صرف عنوان بدلتے
رہتے ہیں۔‘‘(نورکاہالہ )
اس ضمن میںایک اورافسانہ ’سوال‘ انسانی وجودکی حقیقت اوراس
کے بقائے دوام کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے اورتخلیق کے کرب اوراجزائے پریشاں کے عمل کی
اذیت کو بھی منکشف کرتاہے۔حالانکہ انسان اس قدر مجبور محض ہے کہ اسے اپنی زندگی اوراردگرد
تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال اوراپنے اندرکی تبدیلیوں اوراس کی کیفیت وکمیت کانہ اندازہ
ہے،نہ اختیار۔ زندگی کے کرب اور جدوجہد اورکاوشوں کے سلسلوں کو نشان زدکرتے ہوئے افسانہ
’سوال ‘ میںانسانی وجود،ایک رہسیہ ایک سوال نظر آتا ہے۔ انسان اپنے وجود کے خلق کے
وقت بھی سوال ہوتاہے اوروقت رخصت حیات بھی سوال ہوتاہے
’’تمھیں قفس عنصری سے آزاد ہونے میںدردکی شدت کااس قدر احساس
کیوں ؟ ‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے درد کی شدت کے باعث بہت ہی مدھم لہجے میںکہا
’’اس لیے کہ تم پیدائش کی اذیت اوراس کی شدت سے واقف ہو۔‘‘
’’اُف۔تمھیں معلوم نہیں۔تخلیق کے کرب سے زیادہ ’اجزائے پریشاں‘
کے عمل میں اذیت کاسامنا ہوتاہے۔‘‘
گویاانسان زندگی کے دھندلکوں اورنامعلوم سمت ومنزل کے سفر
میں جینے کی تمنا اپنے دل میں بسائے رہتاہے کہ مرنے کا عمل شاید اسی لیے تخلیق کے کرب
سے بھی زیادہ اذیت دیتاہے۔لیکن یہ انسان جب اس اذیت کوجھیل کر، اگلی منزل میںداخل ہوتاہے
، وہاں بھی اس کاوجود ایک سوال ہی ہوتاہے
’’میں کون ہوں ؟‘‘
’’اور صدیوں کے بعد لطیف ترین پیکرمیں ڈھل کربھی میںنے خود
کو ایک سوال محسوس کیا۔ میں آگے بڑھتا گیا اورخلامیںآگیا۔مگروہاں بھی میں سوال تھااورنہ
جانے کب تک سوال رہوں گا۔‘‘ (افسانہ سوال )
گویاوجودانسانی روزاول تاابدلاینحل سوال ہے۔
گائیکی اورموسیقی میںطلسماتی صفت ہوتی ہے سُر لے اور، دھن
سے سجی سنوری گلو کاری کے الفاظ اگرغیر مانوس بھی ہوں توقلب وذہن کو، سرور،کشش اورحظ
تو حاصل ہوتاہی ہے اور روح تک حصارلذت وآسودگی سے سرشار ہوجاتی ہے۔
ادب و شعرمیں ابہام کی یہی کیفیت ہے۔ ابہام اگر قصداً یاکسی
تحریک کے زیراثر خلق کیا گیا ہوتو لاحاصل، ورنہ عجز بیان کے باعث نموپانے والی علامتیں،
غیرآ شنا اور بظاہر ناقابل فہم بھی ہوں،یاپہلی نظرمیںان کی تہہ تک پہنچناممکن نہ ہو،
پھربھی اس صورت حال میں رونما ہونے والے ابہام موسیقی کی طرح قلب وروح کو مسخرکیے دیتے
ہیں۔ لیکن گڑھی ہوئی علامتیں اس قدرقابل اعتنا نہیں، جیساکہ تخلیق کے بطن سے ہویدا علامتیں اور ان کے زیراثرابہامی کیفیت
سرورآگیں ہوتی ہیں۔
عبدالمتین کے اسلوب بیان اور افسانے کے اسٹرکچر سے علامتیں
ازخود ابھرتی ہیں، ان کے اکثرافسانے علامتی اوراستعاراتی نظام کے سبب ایک کہرآلود،
نرم وگداز احساس و فضا خلق کیے دیتے ہیں۔ لیکن ان علامتوں کی بندش اوراظہارواسلوب خوش
کن اورسحرآگیں اورپر تجسس صورت حال سے قاری کوروبروکراتے ہیں۔ عبدالمتین کے ایسے افسانوں
میں ’تلاش‘ ’چٹان ‘ اور’سمندرکاآئینہ ‘ نمائندہ اوراہمیت کے حامل افسانے ہیں۔ ان افسانوں
میں ابہام کاجادوئی حسن نمایاں ہے۔
شاید ترقی کی انتہامیںانسانی تہذیب اورروایت کی پامالی چھپی
ہوتی ہے کہ عروجِ آدم خاکی کی یہ منزلیں گویا زندگی کی اصل اورفطری لذتوں اورتسکین
قلب کی راہوں کو مسدود کیے دیتی ہیں۔
کرشن چندرکے ناول ’مشینوں کاشہر‘ میں فٹ بال میچ کا ایک منظر
ہے۔ دونوں ٹیمیں کمپوٹرائزڈ ہیں اور روبوٹ ان کے کھلاڑی۔ کھیل کاہرعمل مشینی آلات
کے تحت نپے تلے انداز میںظہورپذیرہوتاہے۔ ایسے میںکسی بھی جانب کوئی گول نہیں ہوتاکہ
روبوٹ غلطیاں نہیں کرتے اورگول تو غلطیوں کی رہین منت ہوتے ہیں۔ لہٰذا تماش بین کوئی
لطف اورحظ نہیں حاصل کرپاتے۔ ایسے میں ناول کاایک کردار ایک روبوٹ کھلاڑی کو ہٹاکر
خود ایک ٹیم میں شامل ہوجاتا ہے۔ انسان تو غلطیوں کا پتلا ہے۔ لہٰذا مخالف ٹیم گول
کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
اس خلاصۂ اقتباس کی بنیادی تھیم کومحل نظررکھتے ہوئے عبدالمتین
کے افسانہ ’تلاش‘ اور ’چٹان‘ کا مطالعہ کیا جائے توافسانے کامرکزی نکتہ اوراس کی معنوی
آفاقیت کے تناظر روشن ہوجائیں گے۔ دراصل آسائش احساس کو کچل دیتی ہیں، آلات انسان
کی جمالیاتی حسیت کوفنا کردیتے ہیں، افسانہ ’تلاش‘ میں جمالیاتی حسیت اور آسودگی بصورت
متاع گم گشتہ محسوس کی جاسکتی ہے کہ جس کی تلاش کاکرب منعکس ہواہے۔
علامتی پیرایۂ اظہار
میںرقم کیاگیاافسانہ ’تلاش ‘ میں واحد متکلم اپنے دوست کی تلاش میں سرگرداں ہے، جب
کہ اس کادوست ترقی معکوس کی بے لذتی سے اکتاہٹ کا شکار اور فطری زندگی کا متلاشی ہے۔
خیال کی نازکی اور لطافت اظہار سے مزین افسانے میںپیش کردہ فطرت کی تلاش سعیِ پیہم
کایہ سلسلہ کہرآلود اورشبنمی احساس کے جلو میں قاری کو ایک عالم استغراق میںمبتلاکیے
دیتاہے۔
’’میری نظر ایک ننگ دھڑنگ شخص پرپڑی،وہ ایک کونہ میں بیٹھا
ہڈی سے گوشت نوچ کرکھارہاتھا۔ اس کے سامنے ایک برہنہ عورت کھڑی تھی اور بڑی حسرت سے
اسے دیکھ رہی تھی۔ میں نے غورسے دیکھا،یہ میرا دوست تھا۔ اچانک اس نے ہڈی عورت کی جانب
پھینک دی، عورت نے ہڈی اٹھالی اوربہت اطمینان سے اسے نوچنے لگی اورمیرے دوست کاچہرہ
خوشی سے دمک اٹھا۔ایسی خوشی جس کی اسے تلاش تھی۔‘‘
افسانہ ’چٹان ‘ اپنی کیفیت اورمزاج کے اعتبار سے افسانہ
’تلاش ‘ کاہم قبیل ہے لیکن اس کے برتاؤعمل اورنتیجۂ فکر میں بعدہے اورقاری کوفکرکی
ایک نئی راہ پرگامزن کرتا ہے۔ افسانے میںمعنی خیز دوکردار وجود اورامید اپنی اپنی فکراور
زندگی گزارنے کے اندازکی نمائندگی کرتے ہیں۔ امیدمعنوی اعتبار سے اورفکری طورپر بھی
رجائیت پسند (Obtimist)
ہے۔ لیکن وجوداس کے برعکس منفی سوچ کے حصار میں قید نظر آتا ہے،وہ کہتا ہے
’’..... روسو نے کہاتھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، مگر
اسے زنجیروں میں جکڑدیاگیاہے.....‘‘
وجود تنہائی پسند کردارہے اورفطرت کے نشاط انگیز اورشانت
فضاؤں کاحامی ومتلاشی، وہ سوچتاہے
آج سے کروڑوں سال پہلے، زندگی کتنی حسین تھی۔ انسان بالکل
آزاد، فطرت کی آغوش میں مچلتا تھا.....‘‘
اوریہ بھی
؎
’’ہاں (میں )تنہا نہیں ہوں۔میرے ساتھ فطرت ہے۔‘‘
اورپھر دوسرے دن ایک عورت اورایک مردنے دیکھا
’’چٹان کے نیچے وجودگراپڑاتھا..... وجود کی آنکھیں پتھرا
گئی تھیں۔‘‘
افسانہ ’تلاش‘ کاکردار،فطرت
کی آغوش میں پناہ گزیں ہوتاہے۔ جب کہ ’چٹان ‘ کے وجود کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔
لگ بھگ ہم مزاج دو افسانوں کے دواختتامیہ فکر وتدبرکی اورزندگی جینے کے نظریوںکے دو
مختلف نکتوں کونمایاں کرتے ہوئے دومتضاد راہیں واکرتے ہیں —!
اسٹیونس نے کہاہے
’’افسانے کومجموعی طورپرواضح نہیں ہوناچاہیے،اس میں توایک
رمزوایماکی کیفیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔‘‘
اس نقطۂ نظر سے عبدالمتین کے اکثرافسانے دیکھیں تو ایسا
لگتاہے گویا وہ اسٹیونس کے ہم نوا ہیں۔ انسان کی زندگی سمندر کی سی گہری اورمختلف کیفیتوں
کی حامل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے افسانہ ’سمندرکاآئینہ‘رمز و ایماکی کیفیت اورابہامی
حسن کاآئینہ دارہے
’’میں محوسفر تھا اوروہ ہم سفر۔مگرہرقدم اٹھانے کے بعد مجھے
محسوس ہوتاکہ میرا یہ پہلا قدم ہے..... سامنے دیکھا تو راستہ ختم تھا اورایک عظیم سمندر
رواں تھا..... سمندر بپھر پڑا اوراس کی موجیںآسماں سے باتیں کرنے لگیں..... پھر آہستہ آہستہ سمندر کاغیظ و غضب کم ہوتاگیا
اورسمندر پرسکون ہوگیا، بالکل آئینہ کی طرح خاموش اور غیرمتحرک.....‘‘
’سمندر کاآئینہ ‘ زندگی کی تفسیر ہے، کامیابی ناکامی، طوفان
وحوادث اورسکون و عافیت کی نیرنگیوں سے یہ دنیا بھری پڑی ہے اوراس میںانسان بے پتوارکی
کشتی کی مانند بہے چلا جارہاہے
’’.....سمندرمتحرک ہوگیا۔ زبردست موجیںاٹھنے لگیں میںہاتھ
پاؤں مارنے لگا۔ پھرمیں تھک گیا۔ میں نے خود کوموجوں کے حوالہ کردیا۔ میں بہتا چلا
جارہا تھا۔ معاً میری نظر پاس ہی ایک کشتی پر پڑی۔اس میں پتوار رکھاتھااورکھینے والاکوئی
نہ تھا.....‘‘
’سمندر کاآئینہ ‘ دراصل زندگی اور حادثات زندگی کے کنفیوژن
سے عبارت ہے۔ اس کی جادوئی سچائی (Suspension of disbelief)کافنی اثر قاری کے ذہن کومسخر کیے
دیتاہے۔ اوریوں نظر کے سامنے نئے افق نمودار ہوتے ہیں۔
’عورت ‘ اردوافسانے کادلچسپ،مستحکم اور ناقابل فراموش حصہ
ہے ہمارے افسانہ نگاروں نے عورت کی جبلت اس کی تہہ داری اورناقابل تسخیر پیچیدگیوں
کو افسانے کا موضوع بنایاہے۔کرشن چندر کاافسانہ تائی ایسری، شہزادہ، منٹو کاہتک،موذیل،
بیدی کااپنے دکھ مجھے دے دو، لاجونتی اورقرۃ العین حیدر کے ناولٹ ’چائے کے باغ‘ اور ’اگلے جنم مجھے بٹیانہ کیجو‘ وغیرہ، اس رجحان
کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عبدالمتین کی افسانوی کائنات بھی عورت کے مختلف النوع روپ کی
رنگ آمیزی سے مزین ہیں۔ انھوںنے اپنے افسانوں میں عورت کے مختلف روپ کوکئی زاویے سے
اس کے دلچسپ پہلوؤں کواجاگر کرتے ہوئے ہنرمندی اورفن کے جوہر دکھائے ہیں۔
عبدالمتین کے افسانوں میں عورت کاوجود حیات وکائنات کے تعلق
سے وسیع تر معنی اورمختلف النوع تناظر میںجلوہ گرہے۔ ان کے افسانوں میںعورت محض دل
بستگی کا ذریعہ اور آرائش حیات نہیں۔
عبدالمتین کے افسانوں کی عورت حیات وکائنات میں،حیات افروزبھی
ہے اورزندگی کی تمام تر نیرنگیوں اورکثافتوں کی بھی تصویر ہے۔گویایہ اقبال کی اس فکرکی
تفسیر و تعبیرہے ؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوز دروں
عبدالمتین کے افسانوں میں عورت پرشکوہ اور طاقتور استعارہ
ہے،اس استقامت کے تحت ان کے افسانوں میں ہمہ جہت معنوی تلازموں کی دلکش صورت حال خلق
ہوئی ہے۔ ان کاخیال ہے
’’..... عورت بہت حساس ہوتی ہے.....‘‘ (سوال )
لہٰذا اپنے افسانوں میں عورت کے مختلف النوع روپ اورنہاں
خانہ ٔ دل کی کیفیتوں کی پیش کش میں عورت کی حساسیت کوانھوں نے ملحوظ رکھا ہے۔
افسانہ ’تنفر‘ اور ’تھوک‘ میں عورت کی نفسانی کیفیت کی نفسیات
کے عقدہ ٔ سر بستہ کواس طرح پیش کیاگیاہے کہ، اس کے نہاں خانہ ٔ دل کابھیدکھل کربھی
بظاہر عقدہ ٔ لاینحل ہی رہتاہے اور بصورت ابہام حسن جلوہ گرہوتا ہے۔
افسانہ ’نیم کادرخت‘ میں عورت ایک پراسرار ہستی کے طورپر
ابھرتی ہے، اس افسانے کی فضا رہسیہ اوراسرار میں گندھے ہوئے لب ولہجہ اوراظہار بیان
کی پرتجسس کیفیت لیے ہوئے ہے، لہٰذا اس کی قرأت موسیقی کی سی سحر خیزی سے ابتدا تاانتہامسحورکیے
دیتی ہے۔
ان کے یہاں عورت وفاوخودسپرگی اورایثار کی کیفیتوں میں مجسم
دکھتی ہے (مجرم / نیا رشتہ )توکبھی عیاری اوربے وفائی کی کثافتوں میںملفوف بھی ہوجاتی
ہے ( غلط فہمی /پردہ ) یہ عورت زندگی میں رنگ بھرنے والی محبوبہ کے طورپرزندگی کونیرنگیوں
اورشاد کامیوں کی راہیں بھی دکھلاتی ہے۔ (ماوراء /عکس سے پہلے عکس کے بعد ) یہ دامن
عصمت وعفت کی نگہبان بھی ہے۔ (نورکاہالہ) اورداغدار ہوجانے پراپنی جان قربان کرنے کاحوصلہ
بھی رکھتی ہے۔ (پیراڈکس/لمس کی پرچھائیاں )
عورت نئی فکر اورنئی تہذیب میںاس قدردورنکل آئی،کہ اکثر
اسے اپنی متاع عزیزکی اہمیت کانہ احساس ہوتاہے اورنہ اس کے کھوجانے پراس کے دل میں
کوئی ملال،کوئی تاسف کی کیفیت ابھرتی ہے
’’بیٹی تمھیں کیاہوگیاہے،بتاؤ توسہی،کوئی تکلیف ہے؟‘‘
’’نہیں ممی کوئی تکلیف نہیں،مگر ایک غلطی ہوگئی۔‘‘
ممی کاماتھا ٹھنکا،مگر پھربھی انھوںنے مزیددریافت کیا۔
’’کیسی غلطی ؟‘‘
’’یہی غلطی کہ میں کونٹراسیپٹیو (Contraceptive) کا استعمال کرنابھول گئی تھی.....‘‘
لیکن اس کے برخلاف افسانہ ’برقع‘ میں عورت کاوہ روپ بھی عکس
ریز ہے کہ جہاں عورت تہذیب وروایت کی پاسداری میںذہنی اورعملی طورپرمنہمک دکھتی ہے
افسانہ ’خانہ بدوش‘ میں زندگی کی لایعنی، غیر پائیدار، مشقت آمیز ڈگرپربڑے عزم اورتندہی
کے ساتھ رواں دواں بھی نظر آتی ہے۔
عبدالمتین کی افسانوی کائنات میں موضوعات کا تنوع اورانوکھاپن
بھی نمایاں ہے۔ جہانِ آب وگل کے نظاروں،فطرت کی نیرنگیوں،انسان کے تیزی سے ترقی کی
اور بڑھتے قدموں،مسائل حیات اورافراد کے ظاہری وباطنی مدوجزرکی کیفیتوں کوافسانے کے
قالب میں منتقل کرنے کے ہنر اورجوہرسے یہ پوری طرح بہرہ یاب ہیں۔ اگرچہ ان کے زیادہ ترافسانے نہایت مختصرہیں تاہم
معنوی اورموضوعی اعتبار سے ان کاوژن وسیع ترہے۔
یہ عہد ترقی پذیر ہے۔یہاں ہرلمحہ انسان اپنی ذہانت وتدبر،
جستجواور تلاش پیہم کے طفیل نئی دنیادریافت کررہا ہے اور ترقی کی منزلیں سر کرتا جارہا
ہے۔ اس تعلق سے ان کاافسانہ ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘ ایک بہترین تخلیق ہے۔ یہ افسانہ اس وقت لکھا گیا
جب میڈیکل سائنس نے پہلی دفعہ برین گرافٹنگ کامعجزاتی کارنامہ انجام دیا، اور ٹرانسپلا
نٹیشن کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ لیکن یہ انسان کاکارنامہ ہے۔ قدرت کے نظام
میںانسان کے مختلف اعضاکی کارکردگی کادائرہ طے ہے، لہٰذا قدرت کی تخلیق انسان اورانسان
کی تصوراتی تخلیق افسانہ میں، آپریشن کی کامیابی کے ساتھ ہی ایک حیران کن اور دلچسپ
لیکن تفاوتی صورت حال ظہور پذیر ہوتی ہے، اس کے زیر اثر افسانہ ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں
‘ فنی چابک دستی اورخیال کی ندرت کانادرنمونہ بن جاتا ہے۔ عبدالمتین کے اس افسانے کی
حیثیت گویابرین گرافٹنگ کے معجزاتی کارنامے کے متوازی فنی شاہکار کی ہے۔
ہر ترقی کاکوئی نہ کوئی تاریک پہلو بھی ہوا کرتا ہے۔ انسانوں
کی اپنی محافظت میںایجادات اوراٹھائے گئے مختلف اقدام اکثر انسان کے لیے باعث تباہی
اور انسانیت کے لیے سوہان روح بھی ہوجایاکرتے ہیں۔
دنیانے 1945میں ہیروشیماپر اٹیک کے اندوہناک نتائج کودیکھااور
جھیلاہے۔ یہ نیوکلیراٹیک ایساتھا کہ بم گرائے
جانے کے وقت یعنی، جب یہ جہاز سے نکلا اور پھٹنے تک محض 45سکنڈبعداس میںموجوددھماکہ
کے نظام شروع ہوگئے، اس کاٹھوس مادہ بکھرنے لگااور لاتعداد توانائی، انسان اورانسانیت
کے خاتمے کے درپے ہوگئی۔
ملکی سطح پربھوپال گیس سانحہ (3/12/1984) دنیاکاسب سے دردناک
صنعتی تباہی کانشان ہے۔یونین کاربائیڈ لمیٹیڈ میںکیمیکل ری ایکشن کے نتیجے میںگیس لیک
ہوئی۔ لوگوںنے سوچابھی نہ تھاکہ 2اور 3دسمبرکی درمیانی رات کی گویاصبح نہ ہوگی۔ یہ
گیس آناً فاناً بھوپال شہر میںپھیل گئی اورسارا پانی زہریلاہوگیا۔تین نسل بعد بھی
اس کے اثر سے بچے اپاہج پیداہورہے ہیں۔
نیوکلیرجنگ کے اندیشوں اورامکانی تباہ کاریوں کونشان زد کرناعبدالمتین
کاافسانہ ’کائنات کی موت ‘ ہمیں عجیب سی المناک سناٹگی میںڈبوئے دیتاہے۔ کائنات کو
ویران کرنے والے خدشات سے پرے انسان بنیادی طور پر فطرت اورحسن کائنات کادلدادہ ہے۔ اس خیال کاعکس افسانے کے ابتدامیں ابھرتاہے
’’.....حسن ازل کاپردہ کائنات پرنمودار ہونے کی خواہش عملِ
تخلیق، وجود زن اور عروج آدم کے تصورات کواس نے چھوٹے کینوس پر پکاسوکی لکیروں والی
ٹکنیک سے اس طرح پیش کیاتھاکہ مشاہدین محوحیرت ہوگئے ..... وجودزن کے تصور کوپیش کرنے
میں اسے اپنی محبوبہ لی لی سے کافی انسپریشن ملاتھا،لی لی کے حسن میںکروڑوں سال کی
انسانی تہذیب وتمدن اورحسن کااس نے سراغ لگایا۔‘‘
کروڑوں سال کے انسانی تہذیب وتمدن اورحسن کووجود زن کے سہارے
منعکس کیاگیاہے کہ وجودزن سے ہے کائنات میںرنگ۔لیکن زندگی کاالمیہ یہ ہے کہ ہمیشہ اس
کے حسن اوراس کی نیرنگیوں کوتضاد کاسامنا ہوتاہے۔ انسان کو حسن کاتضاد کسی صورت قابل
قبول تو نہیں۔ لیکن ادب میں،افسانوی کائنات میں، زندگی کی سچائیاں جب بیان ہوں گی،
زندگی کاحسن اوراس کی المناکی بھی زیر بحث آئے گی۔ اس افسانہ ’کائنات کی موت‘ کی ابتدامیںجارج
کی حسن پرستی اوراس کی آراستگی کی کاوش نمایاں ہے،لیکن افسانہ نگار نے زندگی کے فطری
حسن اورمظاہرقدرت کی دلکشی کے مقابل،اس سے چھیڑ چھاڑاور ذہن کی سفاکیت کو عکس ریز کرنے
میں اوراس کے بھیانک اوراندوہناک نتائج کوابھارنے کے لیے، تضادکی کیفیت پیداکی ہے،
افسانے میں یہ تضادجس کے زیر اثر کائنات کی تباہی کے امکانات ابھرتے ہیں، دراصل فنی
حسن اورہنرمندی کابہترین نمونہ ہے۔دیکھیں افسانے کا اختتا میہ
’’..... جب غار سے باہر آئے تو دیکھاسارے درخت جل چکے ہیں۔
سبزہ کاکہیں نام ونشان نہیں ہے۔ انھیں محسوس ہورہاتھا جیسے بھٹی میںہیں۔ دھوپ میںاتنی
حدت تھی کہ بدن سے چنگاری پھوٹتی ہوئی محسوس ہورہی تھی بہت تگ ودو کے بعدایک چشمہ کے
پاس پہنچے۔لی لی نے جھک کرچلوسے پانی لے کر پیا۔ پانی پیتے ہی وہ حلق پکڑکربیٹھ گئی۔جارج
نے اسے سنبھالنا چاہا اور جوں ہی اس کے ہاتھ کوپکڑا،اس کے ہاتھ میںلی لی کے ہاتھ کے
چمڑے، دستانے کی طرح اترگئے۔‘‘
افسانہ ’کائنات کی موت‘ ترقی کی راہ میں سرگرداں انسان کے
اس جبلی جذبے، کو اس کی خود کی ایجاد نیوکلیر طاقت نے ایک ایسی راہ پر گامزن کردیا
جہاں، اس کے حصے میں سناٹگی،وحشت اوربے بسی تھی،اور
’’کائنات خاموش تھی۔‘‘
عبدالمتین کے موضوعات انسان اورانسان کی امنگوں زندگی اورزندگی
کے مسائل سے عبارت ہیں۔لہٰذا ان کے افسانوں کے موضوعاتی تناظر میں وسعت بھی ہے اوران
کے برتاؤ میںحسن ودلکشی اورزندگی کاسوزبھی۔
افسانہ ’جبلت ‘ رومی نامی لڑکی سے راکٹ (کتے ) کی مانوسیت
کی المناک کہانی پیش کرتاہے
’’.....یک بیک راکٹ آگیا اورکندھے پراپنی گردن رکھ کر اپنے
روئیں دار منہ کو اس کے گال پردھیرے دھیرے رگڑنے لگا.....‘‘
’’آج رومی تم نے تو...... ‘‘یک بیک ان کی نظررومی کے چہرے
پرپڑی اوروہ اپناجملہ ادھورا چھوڑ کرپوچھ بیٹھے۔ رومی تمھارے چہرے پریہ خراش کیسی؟
’’جی راکٹ نے.....‘‘رومی کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑا۔
’’یہ تواچھی بات نہیں۔کتے کو شوخ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خطرناک
ثابت ہوسکتاہے۔‘‘
آج اونچی سوسائٹی میںکتے پالنے اوراسے مانوس کرنے کارجحان
اورشوق پرورش پارہاہے،اوراس بڑھتی ہوئی چاہت اورمانوسیت کے دائروں میںکتے کاعمل دخل،
اکثر خطرناک ہوجاتاہے جبلت اکثر منہ زور اور بے قابوگھوڑے کی طرح سراٹھاتی ہے، جسے
شعور کی قوت سے پسپاکیاجاسکتا ہے،لیکن جانوروں میںشعورتو ہوتا نہیں، لہٰذا ان کی جبلت
اکثراندوہناک ہوجاتی ہے۔ ایسی غیرمتوقع اور خطرناک صورت حال کوہنرمندی اور فنکاری سے
عکس ریز کرنا عبدالمتین کاافسانہ ’جبلت ‘ موثر انداز بیان کے سہارے اس موضوع کی کچھ
ظاہری اورکچھ بین السطورکے تحت رودادبیان کرتاہے۔
انسان مختلف صورت حال میں مختلف اعمال کا مرتکب ہوتا ہے۔
لیکن اکثروہ مثبت ومنفی فکر کی زورآزمائی اور تذبذب کی کیفیت میںمبتلابھی رہتاہے۔
ایسی فطری کیفیت کی عکاسی ان کے افسانہ ’وہ اورمیں وہ اورمیرابچہ‘ میں
نہایت خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ منعکس ہوا ہے۔ اپنے موضوعی حسن اوراسلوب بیان کے
دلکش پیرائے کے لیے یہ ان کے نمائندہ افسانوں میں شمار کیاجائے گا۔
عبدالمتین کے افسانوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوںنے
کسی خیال، تصور یاکیفیت کے اظہارکے لیے بہترین سلجھے ہوئے اورمضبوط بیانیے کے سہارے
نہایت ہنرمندی اورفنکاری کے ساتھ اپنے افسانوں کی دنیا تخلیق کی ہے۔ وہ اپنے بیانیے
کو جا بہ جا علامت اشارے اور استعارے سے پرمعنی بنادیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معنی خیزاوروہ
دور رس جملوں کے سہارے وہ اپنے منفرد اوراثر انگیز بیان میں کہانی پن کے عناصر کوبطریق
احسن ہم آہنگ کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں اکثر کردار چند لمحوں کے لیے یاچند مکالموں
کی ادائیگی کے لیے اچانک نمودار ہوتے ہیں اور پھرغائب۔لیکن یہ عمل افسانے کے مواد موضوع
اورکیفیت وہیئت کوبامعنی اورموثر بناتے ہیں۔
عبدالمتین کی شخصیت میں خاموشی، سنجیدگی اور متانت فطری طورپر
رچی بسی تھی، ان کی افسانہ نگاری کا عمل بھی اسی نہج پریعنی نہ ستائش کی تمنانہ صلے
کی پرواہ، کے مصداق رواں دواں تھا۔ لہٰذا ان کاثروت مند افسانوی ادب ارباب نباض کی
نظروں سے گویا اوجھل ہے۔
عبدالمتین کی افسانوی دنیا نباض ادب اور محقق ادب کے نگاہ
التفات کی منتظر ہے !
n
Ishrat
Zaheer
House
No: 470 A, Gali No.: 6A
Zakir
Nagar, Jamia Nagar, Okhla
New
Delhi - 110025
Mob.: 9801527481
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں