10/4/23

عرفان صدیقی کی شاعری میں عصری مسائل: مضمون نگار سید بصیرالحسن وفا نقوی

   انسان جب شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اس کے گرد وپیش لاتعداد مسائل اسے اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر وہ ان مسائل کو گہرائی سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات کا وجود مسائل کے سوا کچھ نہیں لیکن جب وہ ان پر غور و فکر کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ یہ مسائل زیادہ تر انسان ہی کے اعمال اور کارناموں کا نتیجہ ہیں۔وہ یہ بھی جانتاہے کہ کسی سکّے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔جس طرح کسی دوا کا اگر فائدہ ہوتا ہے تو اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔انسان اگر کسی کے لیے مشفق،رحم دل اور مخلص ہوتا ہے تو کسی کے لیے وہ سنگ دل اور کرخت لہجے کا مالک ہوتا ہے،وہ کسی سے وفاکرتا ہے تو یہی وفا کسی کی بے وفائی کا سبب بنتی ہے کوئی اس کا دوست ہوتا ہے تو کوئی اس کا دشمن بن جاتا ہے۔وہ ترقی کرتا ہے اور چند خوشیاں اس کے دامن میں آتی ہیں تو یہی خوشیاں اس کے مخالفین اور حاسدین پیدا کردیتی ہیں۔اسی طرح کہیں اگر اسے روٹی،کپڑا اور مکان کے سلسلے سے آسودگی ہوتی ہے تو بعض مقامات پر وہ بے گھری کا احساس رکھتا ہے۔غرض کہ سیکڑوں مسائل ہیں جو اس دنیا میں انسان کو گھیرے ہوئے ہیں اور وہ ان سے پوری زندگی چھٹکارا نہیں پاسکتا۔

اہلِ ادب نے مسائلِ حیات کو جس صورت سے سمجھااوران کے بارے میںاپنے جو خیالات نثر یا شاعری کی صورت میں پیش کیے وہ بیان کرناہر کس و ناکس کے لیے آسان نہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف ہمارے نثر نگار بلکہ شعرا نے ہر دور میں اپنے سماج اور اپنے معاشرے کے مسائل کو اپنی تخلیقات میں پر زور طریقے سے پیش کیا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر دور کے ادب میں اس وقت کی زندگی کی تصویر کشی نظر آتی ہے جس دور میں وہ ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔چاہے وہ قدیم ادب ہو،روایتی ادب ہو،ترقی پسندادب ہو،جدید غزل کا دور ہو یا مابعد جدید ادب ہو۔جو بھی بڑا شاعریا فن کار آیا اس نے اپنے مسائل کاضرور ذکر کیا ہے۔مثلاً         ؎

پیا باج پیالاپیا جائے نا

پیا باج یک تل جیا جائے نا

 

(قلی قطب شاہ)

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

 

(ولی اورنگ آبادی)

دو رنگی خوب نئیںیک رنگ ہوجا

سراپا موم ہو یا سنگ ہوجا

 

(سراج اورنگ آبادی)

    ہر دور کی زندگی میں عشق کا مسئلہ غالب رہا ہے۔عشق جہاں زندگی کو خوشیوں اور لذتوں سے بھر دیتا ہے وہیں محبوب کا فراق عاشق کے لیے قیامت بن جاتا ہے گویا کہ ہجر ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ان قدیم شعرا میںقلی قطب شاہ اور ولی اورنگ آبادی کے اشعار اس بات کی دلیل ہیں کہ عشق بھی ایک مسئلہ ہے۔سراج اورنگ آبادی کا شعرزندگی کے دیگر مسئلے کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔وہ منافقت پر کاری ضرب لگاتا ہے اور انسان کی یکرنگی پر زور یتا ہے۔

زندگی کے مسائل روایتی اور کلاسیکی شعرا کے یہاں بھی بخوبی نظر آتے ہیں۔مثلاً      ؎

ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

 

(میر تقی میر)

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

 

                       مرزا محمد رفیع سودا

سر کشی شمع کی لگتی نہیں گر ان کو بری

لوگ کیوں بزم میں گل گیر لیے پھرتے ہیں

 

                     (شیخ امام بخش ناسخ)

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

 

(حیدر علی آتش)

شاعری علامتوں اور استعاروں کے توسل سے اپنی بات کہتی ہے تاکہ شاعر کا شعر اپنے دور کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے ہر دور میں صادق اتر سکے۔یہاں میر کا شعراس بات کا گواہ ہے کہ جہاں اس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کی تکلیف بیان کرتے ہیں وہیں یہ شعر ہر دور میں سچا ٹھہر سکتا ہے کیوں کہ بعض دفعہ انسان مجبور ہوتا ہے وہ وہی کہتا ہے جو اس کا مالک یا آقا و سردار چاہتا ہے۔گویا کہ ظاہر و باطن میں فرق ہوتا ہے۔ سودا کا شعر بھی ایک مسئلہ بیان کرتا ہے کہ بعض دفعہ نااہل حضرات اعزاز سے نوازے جاتے ہیں اور مستحقین اپنے حق کے لیے ترستے ہیں۔اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اس کی آواز مخالفین کو گراں گزرتی ہے چاہے وہ زبان سے کہیں یا نہ کہیں لیکن ان کا عمل اس بات کاشاہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف اٹھتی ہوئی آوازوں سے خائف ہیں۔اس مسئلے کو ناسخ کا شعر ظاہر کرتا ہے۔اسی طرح کبھی کبھی حق چاہنے والوں کی زبان کسی وجہ سے گنگ ہوجاتی ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ دوسرا کوئی شخص ان کی بات صاحبِ اقتدار تک پہنچا دے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض مرتبہ پیامبر نصیب نہیں ہوتا اور مستحق محروم رہ جاتا ہے۔یہ مسئلہ آتش کے شعر میں نمایاں ہے۔اسی طرح غالب اور ان کے ہمعصر شعرا کے یہاں بھی سیکڑوں مسائلِ زندگی نظر آتے ہیں۔مثلاً        ؎

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

 

غالب

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھاتمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کاتمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

 

مومن خاں مومن

    غالب کا شعر جہاں بے گھری کے مسئلے کو اٹھاتا ہے وہیں مومن کا شعر بے وفائی اور احسان فراموشی کی بات کرتا ہے۔

 ہمیں مسائلِ زندگی نہ صرف قدیم اور کلاسیکل شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں بلکہ ترقی پسند شعرا کے یہاں تو ان مسائل کی گونج اپنے پچھلے ادوار سے زیادہ پر زور نظر آتی ہے۔مثلاً           ؎

اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے

اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے

مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے

قاتل کی کوئی کمی نہیں ہے

 

(علی سردارجعفری)

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

 

(کیفی اعظمی)

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

 

(فیض احمد فیض)

دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے

ایسا لگتا ہے کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے

 

(جاں نثار اختر)

   یہاںعلی سردار جعفری کے اشعار اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ بظاہر دنیا خوش معلوم ہوتی ہے لیکن ایسا ہے نہیں یہاں قدم قدم پر قاتل نظر آتے ہیں انھیں ڈر ہے کہ کہیں مقتول کم نہ پڑ جائیں یعنی ظلم و جور حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔معین احسن جذبی کے شعر میں ایک مایوسی کی لہر صاف دیکھی جا سکتی ہے جو کسی مرحلے کی ناکامی کے نتیجے میں ہوسکتی ہے۔کیفی اعظمی جھوٹی ہنسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔جب کہ فیض بھی ناکامی کا ذکر کرتے ہیں لیکن امید ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔جاں نثاراختر کسی مرحلے کی فکر کی تکلیف کا بیان کرتے ہیں۔انھیں لگتا ہے کسی بات کی حدسے زیادہ فکر بے گناہ کو بھی احساسِ گناہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔

اسی طرح جدید غزل گو شعرا بھی عصری زندگی کے مسائل کو فراموش نہیں کرتے۔ان کے یہاں ان مسائل کی نوعیت اپنے ماقبل شعرا سے منفرد نظر آتی ہے اس میں فرد کی تکلیف و احساسات اور اس کے مسائل پر زیادہ زور ملتا ہے۔مثلاً

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

 

(شکیب جلالی)

لوگ ہی آن کے یکجا مجھے کرتے ہیں کہ میں

ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں

 

(ظفر اقبال)

پھر مرے انتظار میں مری نیند

میرے بستر پہ جاگتی ہوگی

 

(خلیل الرحمٰن اعظمی)

مرے خدا مجھے اتناتو معتبر کردے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے

 

(افتخار عارف)

    شکیب جلالی،ظفر اقبال اور محمد علوی کے اشعار میں فرد کی تنہائی کا ذکر ہے جو زندگی کا اہم مسئلہ ہے کبھی کبھی انسان انجمن میں رہ کر بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے یا اس کا جب کوئی احوال نہیں پوچھتا تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا وجودبے معنی ہے۔خلیل الرحمٰن اعظمی اور بشیر بدر کے اشعار انسان کی تگ و دو،بھاگ دوڑ اور معاش کے لیے جد و جہد کا ذکر کرتے ہیں۔جب کہ افتخار عارف گھر کے ماحول کو دیکھ کر یہ دعا کرتے ہیں کہ ان کا گھر اصل معنی میں گھر ہوجائے۔

    ان مثالوں سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری یا غزل کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں غزل نے اپنے عصری مسائل نہ بیان کیے ہوں۔اب جبکہ مابعد جدیدیت کا دور ہے۔ ان کے دامن میں جہاں قدامت کی چاشنی،کلاسیکی غزل کی خوشبو،ترقی پسند شعرا کے نعرے اور جدید غزل کے فرد کا کرب ہے، وہیں وہ نئی نئی تراکیب و تشبیہات کے ساتھ ساتھ نئی نئی علامتوں کو تراشتے ہوئے غزل میں اپنے دور کی سچائی یعنی زندگی کے مسائل کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔مثلاً           ؎

ہر گلی کوچے میں رونے کی صدا میری ہے

شہر میں جو بھی ہوا ہے وہ خطامیری ہے

 

(فرحت احساس)

ندی کنارے کھڑا پیڑ سوچ میں گم ہے

کوئی بھنور اسے برباد کر نہ جائے کہیں

 

(اسعد بدایونی)

دھند میں کھوتے ہیں منظر سارے

پیچ در پیچ دھواں ہوتا ہے

 

(جمال اویسی)

ان کے بھی ظلم کا الزام ہمارے سر ہے

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

 

(عباس تابش)

    فرحت احساس کا شعر اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ سماج کتنا پر آشوب ہے اور اس کے باوجود اس کا اصل سبب فراموش کیا جارہا ہے۔اسعد بدایونی کے شعر میں پیڑ انسان کی علامت بن کر سامنے آتا ہے جسے معمولی سا حادثہ بھی زیرِ زمین پہنچا سکتا ہے۔جمال اویسی کا شعر عصرِ حاضر میں معدوم ہوتی حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے،جبکہ عباس تابش شعر میں بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ ہم پر ظلم کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور ہمت ہارجاتے ہیں تو ان کی ناکامی کا الزام بھی ہمارے ہی سر آتا ہے۔

اسی طرح مابعد جدید یت سے منسلک متعد دشعرا اپنے اپنے طریقے سے اپنی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اپنی غزل میں پیش کر رہے ہیں لیکن ان تمام آوازوں میں عرفان صدیقی کی آواز سب سے منفرد ہے۔ان کے یہاںاس سلسلے سے بالکل ایک نئی روش نظر آتی ہے۔وہ طرح طرح سے اپنے عصر کی تصویروں کو مختلف زاویوں سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کی غزل قدامت پسندی سے دور نئی اور تازہ ہوائوں کا پیغام لاتی ہے۔بقول شارب ردولوی

’’عرفان صدیقی کی شاعری اپنے عہد کی معتبر آواز ہے۔ایک ایسی آواز جس نے غزل کو فکر و اظہارکی نئی وسعتیں دیں اور جدید شاعری جو تنہائی،اداسی،اندرونی شکست و ریخت،حقیقتوں سے فرارسماجی اور تہذیبی قدروں سے انحراف کی علامت تھی،اسے عصری حسیت اور تازہ کار افکار سے اعتبار بخشا۔‘‘

(شہرِ ملالکلیاتِ عرفان صدیقی، مرتب سید محمد اشرف، عرشیہ پبلی کیشنزدہلی)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عرفان صدیقی اپنے ہمعصرشعرا کی بھیڑ میں صاف پہچانے جاسکتے ہیں۔وہ اپنے عصر کے مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ان کا مشاہدہ نہایت عمیق ہے۔وہ اپنی زندگی اپنے تجربات اور اپنی روزمرہ کی زندگی کو مختلف علامتوں اور استعارات کے جامے میں پیش کرنے کا فن بہترین طریقے سے جانتے ہیں۔مثلاً دیکھا جائے اور محسوس کیا جائے تو آج کے دور میں سماجی تعلقات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں لوگ بے حسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے معاشرے کی بد حالی دیکھتے رہتے ہیں اور افسوس نہیں کرتے۔عرفان صدیقی کہتے ہیں            ؎

زمیں پر شورِمحشر روزو شب ہوتا ہی رہتا ہے

ہم اپنے گیت گائیں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے

یعنی آج کا انسان اپنے آپ میں گم ہے وہ کسی کے رنج و غم میں اس کی مدد نہیں کرتا۔حتیٰ کہ جن افرادکو کسی زمانے میں خدمتِ خلق کا دعویٰ تھا وہ بھی خاموش ہیں           ؎

آج تک اہلِ ستم ہی سے شکایت تھی مجھے

اب مرے باب میں ہیں اہلِ وفا بھی خاموش

  گویا کہ کسی کے دکھ میں ساتھ نہ دینا آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے یعنی چاروں جانب ایک نفسا نفسی کا عالم۔شعر ہے          ؎

نہیں تھا میں بھی اتنا بے تعلق

کہ تو بھی بے خبر ایسا نہیں تھا

اور اگر کوئی کسی کو پوچھتا بھی ہے تو اس کے پیچھے مفاد ہوتے ہیں۔گویا کہ آج کی زندگی میں انسان چہرہ بدلنے میںماہر ہوچکا ہے           ؎

تم سرِ دشت و چمن مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو

میں تو ہر رت میں بدل دیتا ہوں پیکر اپنے

انسان کا قدم قدم پر بدلنا اور مختلف رنگ اختیار کرنا سادہ لوح طبیعت رکھنے والوں کے لیے ایک دھوکہ اور فریب کا عمل انجام دیتا ہے۔عرفان صدیقی کہتے ہیں            ؎

میں نے کی تھی صفِ اعداسے مبارز طلبی

تیر لیکن صفِ یاراں سے نکل آیا ہے

    یعنی اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سادہ لوح جس پر بھروسہ کرتا ہے وہی فریب دیتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو سوال بنتا ہے کہ          ؎

واقعی کیا اسی قاتل کی طرف تو بھی ہے

تو بھی ہے،اے مری جاں تیغ بکف تو بھی ہے

    یعنی جب کوئی اپنا ہی تیغ بکف ہوتا ہے تو ایک لمحے کو تعجب ہونا واجبی ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سماج میں بظاہر ہمدرد و آشنا افراد بھی دلوں میں ایک دوسرے کے لیے وہ احساس نہیں رکھتے جو ظاہر کرتے ہیں          ؎

کھلاکہ وہ بھی کچھ ایسا وفا پرست نہ تھا

چلو یہ بوجھ بھی سینے سے ہٹ گیا آخر

    لیکن کبھی کبھی اس جہان میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض افراد مروت یا مصلحت کو محبت سمجھنے لگتے ہیںجب کہ ایسا نہیں ہوتا۔شعر ہے            ؎

مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا

وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا

اور اگر بظاہر کوئی محبت بھی کرے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ محبت کسی خاص مدت تک قائم رہتی ہے اورزندگی انسان کوضرورتوں اور مسائل میںاس قدر گرفتار کر دیتی ہے کہ محبت کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔عرفان صدیقی اس بات کو علامتوں کے ذریعے اس طرح کہتے ہیں            ؎

  بڑھا کے ربطِ وفااجنبی پرندوں سے

وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی کتنا ہی سمجھدار یا جہاں دیدہ کیوں نہ ہو وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے دامِ فریب میں ضرور آتا ہے۔شعر ہے         ؎

کہیں تو لٹنا ہے پھر نقدِ جاں بچانا کیا

اب آگئے ہیں تو مقتل سے بچ کے جانا کیا

    یعنی عرفان صدیقی کاخیال ہے کہ کبھی کبھی فریب کھانے والا بخوبی جانتا ہے کہ اسے فریب دیا جا رہا ہے لیکن وہ پھر بھی کچھ سوچ کر خاموش رہتا ہے۔

دھوکہ اور فریب صرف فرد کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ جب صاحبِ اقتدار افراد بھی سماج اورعوام کی توقعات پر کھرے نہیں اترتے تو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ عوام کو ٹھگا گیا ہے۔ہم اکثر و بیشتریہ بھی دیکھتے ہیں کہ سیاست میں ایک دوسرے کی نکتہ چینی بھی کی جاتی ہے جس سے عوام میں انتشار پیدا ہوتا ہے اورقلبی و ذہنی سکون کا فقدان ہوتا ہے۔

لیکن کسی ملک کے سیاسی و سماجی حالات ایک دم تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے بھی ایک فکر کارفرما ہوتی ہے۔شعر ہے          ؎

اچانک دوستو میرے وطن میں کچھ نہیں ہوتا

یہاں ہوتا ہے ہر اک حادثہ آہستہ آہستہ

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیاسی و سماجی حالات کے زیرِ اثر عوام بھی اس طرف کو چل پڑتے ہیں جس طرف کی ہوا چلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔شعر ہے         ؎

اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے

ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خداکرتی ہے

   لیکن صرف سیاست کو ہی بدلتے ہوئے معاشرے کا سبب ماننا مناسب نہیں بلکہ سماج کے مسائل اور پریشانیوں کی ذمے داری ان پر بھی ہوتی ہے جو احتجاج نہیں کرتے      ؎

بہت کچھ دوستو،بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے

فقط اس خنجرِ دستِ جفا سے کچھ نہیں ہوتا

کسی جرم کے خلاف آواز نہ اٹھانا مجرم کے حوصلے بلند کر دیتاہے جس کی وجہ سے سماج میں فساد اور تشدد عام ہو جاتا ہے۔عرفان صدیقی کہتے ہیں          ؎

آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے

جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے

  ایسا نہیں کہ فساد برپا کرنے والوں کا کچھ نقصان نہیں ہوتا کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب فساد یا تشدد شدت اختیار کرتا ہے تو وہ بھی اس کی زد میں کسی نہ کسی صورت آ ہی جاتے ہیںجن کی وجہ سے شہر میں فساد پیدا ہواتھا۔شعر ہے          ؎

یہ شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں

کسے خیال کہ تیرا مکان بیچ میں ہے

انسان کی زندگی کا ایک بڑامسئلہ یہ بھی ہے کہ مجرم کبھی کبھی صاف بچ جاتا ہے اور انصاف دب کر رہ جاتا ہے۔فساد کرنے والے ہی بعض دفعہ صاحبِ مسند و اعزاز نظر آتے ہیں۔شعر ہے        ؎

اب ایسے شخص کو قاتل کہیں تو کیسے کہیں

لہو کا کوئی نشاں اس کی آستیں پہ نہیں

 ایسے ماحول میں حساس طبیعت رکھنے والے باشعور کو کہنا ہی پڑتا ہے          ؎

حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تونے کہا تھا تیرا کہاکیوں نہیں ہوا

جب بظاہر تشدد ختم ہوتا ہے تو لوگوں میںامن وامان کی کوششوں کے باوجود فاصلے پیدا ہوجاتے ہیںجنھیں ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔

تشدد اور فسادات افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے اور نقلِ مکانی پر آمادہ کرتے ہیں کیوں کہ ان کے سامنے اس سلسلے سے زندگی کئی مسائل کھڑے کر دیتی ہے جس میں روزگار کے ساتھ ساتھ وہ قلبی سکون کے بھی متلاشی رہتے ہیں۔عرفان صدیقی ان مسائل کو طرح طرح کی علامتوں کے ذریعے سے پیش کرتے ہیں۔مثلاً        ؎

 پرندوں کی قطاریں اُڑ نہیں جاتیں تو کیا کرتیں

ہماری بستیوں میں خشک جھیلوں کے سوا کیا تھا

   یعنی انسان کے لیے جہاں نہ معیشت کے ذرائع ہوں اور نہ سکون ہو وہ وہاں سے ہجرت کرنا ہی مناسب سمجھتا ہے۔اور جب کوئی کسی کو اس سلسلے سے روکنے والا نہ ہو تو صاحبِ حس شخص کو کہنا ہی پڑتا ہے        ؎

کیسی مٹی ہے کہ دامن سے لپٹتی ہی نہیں

کیسی ماں ہے کہ جو بچوں کو جدا کرتی ہے

  لیکن نقلِ مکانی آسان نہیں ہوتی انسان کا ماضی اس کو روکنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

اور اگر کوئی دل پر پتھر رکھ کر اپنے گھر کی چوکھٹ کو الوداع کہتا بھی ہے تو بھی وہ اپنے گھر سے دور نہیں جاپاتا اور اپنے آپ کو مسافر ہونے کے باوجود گھر میں محسوس کرتا ہے۔شعر ہے        ؎

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی

    اور زندگی بھر اسے ماضی کی صدا گھر کی جانب بلاتی ہی رہتی ہے        ؎

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے،اب گھر کی طرف لوٹ چلو

اور جب وہ گھر یا وطن لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے تو بہت دیر ہوجاتی ہے اور اس کا وطن بھی اسے اجنبی سمجھتا ہے          ؎

اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں

وطن کو لوٹنے والا شخص اپنے ماضی میں جینا چاہتا ہے اپنے گزرے ہوئے زمانے کے ماحول کو تلاشتہ ہے بچپن کے ساتھیوں اور دوستوں کو ڈھونڈتا ہے لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔شعر ہے         ؎

مکان چھوڑ گئے لوگ،ڈھونڈتے ہو کسے

کوئی ستارہ اب اس بامِ انجمیں پہ نہیں

تشدد و فساد کے علاوہ زندگی میں دیگر مسائل بھی نظر آتے ہیں مثلاً اشیاء کا بحران یا کسی چیز کی کمی یا کسی تمنا کا پائے تکمیل تک نہ پہنچنا یا روزگار مہیا نہ ہونا۔یہ تمام مسائل بھی زندگی کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں۔شعر ہے         ؎

مجھے الجھا دیا دانش کدوں نے صرف خوابوں میں

کوئی تعبیر رکھ دو میرے بچوں کی کتابوں میں

یعنی تعلیم گاہوں اور دانش کدوں میں صرف سنہرے خواب تو دکھائے جا سکتے ہیں کہ انسان فلاں ڈگری حاصل کرکے اتنا کما سکتا ہے یابرسرِ روزگار ہوسکتا ہے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں اور کبھی کبھی ایک پڑھے لکھے انسان کو اپنے خاندان کی کفالت بھی مشکل ہوجاتی ہے اور جب آسودگی اور خوشحالی کی تمنا میں مدت گزر جاتی ہے تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

انسان کی نا آسودگی اور معاشی پریشانیاں اسے مستقبل کی فکر کا شکار بنا دیتی ہیں         ؎

شاید کہ اتر آئے سوا نیزے پہ سورج

کل کے لیے کچھ سایۂ دیوار بچائیں

یعنی عرفان صدیقی کا خیال  ہے کہ عصرِ حاضر میں کوئی ایسا نہیں جسے مستقبل کی فکر نہ ہو کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے مستقبل میں زندگی اس کے ساتھ کیا رویّہ اختیار کرے اور اسے کس چیز کی اشد ضرورت ہوجائے۔

حد سے زیادہ مستقبل کی فکر انسان کے لیے ذہنی تنائو کا باعث بن جاتی ہے اور وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوکر بہت سے نفسیاتی امراض سے دوچار ہوجاتا ہے۔انسان پریشانیوں کے عالم میں یہ بھی سوچتا ہے کہ وہ کب تک کرب اور بے چینی کے عالم میں رہے گا کیوں کہ ہرچیز کی ایک انتہا ہے         ؎

ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر

چراغ ہم کس شامِ زوال ہی کے تو ہیں

مایوس کن انسان کو ہر جگہ مایوسی ہی نظر آتی ہے وہ دوسروں کو بھی دیکھتا ہے تو ان میں بھی اپنی ہی کیفیت محسوس کرتا ہے         ؎

تو یہ نہ دیکھ کے سب ٹہنیاں سلامت ہیں

کہ یہ درخت تھا اور پتیاں بھی رکھتا تھا

دھنک سے پھول سے برگِ حنا سے کچھ نہیں ہوتا

بدن صحرا ہوئے آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا

ظاہر ہے مندرجہ بالا اشعار میں ایک ایسے سماج کی عکاسی ہے جس میں کوئی آسودہ حال نہیں ہر شخص کسی نہ کسی طرح اپنے ماضی سے مختلف ہے۔

 کبھی کبھی فکر و احساس کسی ایک فرد کا نہیں رہتا بلکہ پورا خاندان ایک ہی عذاب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔شعر ہے        ؎

اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے

انتظارِ صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

 انسان کی زندگی میںجب آسودگی نہیں ہوتی تو وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے وہ لوگوںسے ملاقاتیں بند کر دیتا ہے اور تنہائی پسند ہوجاتا ہے اور اگر بحالتِ مجبوری کسی انجمن میں جاتا بھی ہے تو وہاں بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے

طاقِ تنہائی سے اٹھتا تھا چراغوں کا دھواں

اور مرے ہونے سے مجھ کوآشنا کرتا تھا رات

اپنے آنگن ہی میں تھا،راہ گزر میں کیا تھا

ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا

میں اس ہجوم میں کیوں اس قدر اکیلا ہوں

کہ جمع ہوکے بھی میزان میں نہیں آتا

مندرجہ بالا اشعار میں ظاہر ہے کہ تنہائی اور اکیلا پن جس طرح نمایاں ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ تنہائی کے عالم میں انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور وہ کس طرح خود کلامی کرتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔

 ایسا نہیں کہ انسان کی زندگی میں تنہائی ہی صرف ایک اہم مسئلہ ہے بلکہ اس کی شہری زندگی بھی اس کے لیے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور دوسری وجوہات سے میدان اور جنگلات ختم ہوتے جارہے ہیں گائوں شہر میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں         ؎

جنگلوں میں شہر در آئے ہیں خوشحالی لیے

پیڑ گملوں میں سمٹ جائیںگے ہریالی لیے

یعنی انسانی زندگی کے لیے ہریالی اور پیڑ وں کا ہونا بہت ضروری ہے جن کاجنگلات مظہر ہیں لیکن انسان شہر بسانے کی ہوس میںجنگلوں کو ختم کر رہا ہے۔

 بڑھتی آبادی اور فیکڑیوں،کارخانوں اور موٹر گاڑیوں کے شور  شرابے اور دھوئیں نے شہروں کی فضا کو جس طرح آلودہ کیا ہے اس سے عصرِ حاضر میں کوئی ناواقف نہیںیعنی یہ بھی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔عرفان صدیقی کہتے ہیں            ؎

در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں

ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں

شہر میں ہر شخص بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے۔وہ کہیں تجارت کرتا ہے تو کہیں کسی کی نوکری کرتاہے اور صبح کا نکلا دیر رات کو تھکن کے ساتھ اپنے گھر لوٹتا ہے۔عرفان صدیقی اس مضمون کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں            ؎

دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی

مرے شہر کی شب ہر چوکھٹ کی زنجیر ہوئی

اس کے علاوہ معاشرے میں پھیلی ہوئی فحاشی بھی ایک مسئلہ ہے جس کے باعث نہ صرف نوجوان بلکہ سن رسیدہ بھی بے راہ روی کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان فحاشی اور گندگی میں ملوث ہے لیکن اسے اس بات کا احساس نہیں کہ دنیا اس کی وجہ سے کتنی پستی میں جا رہی ہے۔شعر ہے          ؎

جو دیکھ لے وہ برہنہ دکھائی دینے لگے

عجیب طرح کی تصویر میگزین میں ہے

یعنی میگزین،رسائل،اخبارات،اشہتارات غرض کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں برہنگی موجود نہ ہو اب ایسے ماحول میں انسان کا جذبات پر قابو پا لینا آسان نہیں۔

غرض کہ عرفان صدیقی کی غزل میں قدم قدم پر عصری حسیت کا احساس ہوتا ہے۔ان کے یہاں عصری مسائل جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔لیکن ایسا نہیں کہ وہ صرف مسئلہ ہی بنے رہتے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک پیغام بھی نظر آتا ہے اور ان کے حل کرنے کا راستہ بھی تاکہ انسان کسی طرح عصری مسائل سے ابھر کر اپنی زندگی کی روش کو باغ و بہاربنا سکے۔

 

Syed Baseerul Hasan Wafa Naqvi

Hilal House, H.No.4/114

Nagla Mallah Civil lines

Aligarh- 202002 (UP)

Mob.: 9219782014

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...