4/5/23

علامہ واقف عظیم آبادی حیات اور شاعری: ‎شاذیہ کمال

ہمارے اردو ادب میں بہت سی ایسی شخصیات ہوئیں جنھوں نے اردو کی بقا کے لیے خود کو وقف کر ڈالا مگر ان کی خود اپنی زندگی نہایت بے حال اور بدحال رہی ایسے ہی لوگوں میں ایک بہت اہم نام علامہ شاہ فضل امام واقف ارولی، آروی ثم عظیم آبادی کا ہے۔ ان کی پیدائش 18 مارچ  1916 کو دریائے سون کے کنارے سوسنا نامی ایک گائوں میں ہوئی۔ ان کے والد شاہ منظر امام کا شمار ارول کے رئوسا اور اپنے عہد کے قادر الکلام شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کے دادا سید شاہ اظہر حسین بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے اور نانا چودھری منظور احمد، محلہ چودھرانہ آرہ کے معزز زمیندار اور معروف شاعر تھے۔ دو طرفہ زمیندارانہ ٹھاٹ باٹ اور علم وادب کا شہرہ خاندان کا طرۂ امتیاز تھا۔ ان گھرانوں کی سخاوت وفیاضی سے بے شمار لوگ فیضیاب ہوتے رہے مگر رفتہ رفتہ یہ باتیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں۔ علامہ واقف کے والد کا انتقال ان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی ہوگیا تھا۔ گھر پر ابتدائی تعلیم کے بعد ان کا داخلہ مدرسہ حنفیہ، میر گنج، آرہ میں ہوا جہاں سے انھوں نے مولوی تک کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازیں مدرسہ وحیدیہ آرہ سے عالم اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے فضیلت کی سندلی۔ اس کے ساتھ معروف شاعر تمنا عمادی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے۔ ان کی طبیعت ابتدا سے ہی نہایت موزوں تھی۔ ادب اور شاعری سے ان کا رشتہ جنون کی حد تک تھا اسی جنون نے ان کی زندگی کا ایسا نقشہ بدلا کہ نانِ شبینہ بھی محال بن گئی۔ مگر نامساعد حالات کے باوجود کبھی انھوں نے اپنی انا اور خود داری کا سودا نہیں کیا۔ خود شناسی اور اپنی ذات کا فہم وادراک انھیں بخوبی تھا۔ تبھی تو انھوں نے اس طرح کے اشعار کہے       ؎

یہ اُمنگیں، یہ ترنگیں، یہ گلوں سے چھیڑ چھاڑ

فصلِ گل آئی تو عالم ہی نرالا ہوگیا

اشک حسرت، چشم نم، یاس و حرماں، درد و غم

سیکڑوں عنوان تھے لیکن ایک ہی افسانہ تھا

چراغ کُشتۂ بزم محبت ہوں میں اے واقف

فروزاں عمر بھر رہنا ہے مجھ کو سوزشِ دل سے

سخن ان کا موروثی ترکہ تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا عمر طفلی میں ہی شروع کر دی تھی۔

اِن کا بچپن نہایت حسین گزرا۔ نہ فکر معاش، نہ تلاش روزگار، اوپر سے آرہ کا ادبی ماحول۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غزل مزاج میں رچ بس گئی۔ مگر ان کی آگے کی زندگی معاشی اعتبار سے بڑی محال بن گئی تھی۔ حالات نے جو کروٹ لیے تھے وہ اس کا شکار ہوئے اور خود ان کی اپنی لاپرواہی اور بے فکری نے انھیں ایسے پڑائو پر کھڑا کیا تھا جہاں انھیں دو وقت پیٹ بھرنے کے لالے پڑگئے تھے اور مرتے دم تک وہ معاشی مسائل سے دوچار رہے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف خود کیا کہ شعر وشاعری کے شوق، خبط اور موسیقی کے ذوق نے ہم کو تباہ کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’مشاعرے میں غزل پڑھنی تھی، اس کی تیاری میں منہمک تھا۔ دیوان جی تشریف لائے اور خبر دی کہ سرکاری مالگذاری کے جمع کرنے کی آخری تاریخ 31  دسمبر ہے اور صرف آٹھ یوم رہ گئے ہیں۔ ہم نے اَن سنی کردی۔ پھر کچھ دن بعد دیوان جی آئے اور کہا کہ آج آخری تاریخ ہے، کچھ صورت نکالیے ورنہ جائیداد نیلام ہوجائے گی، وہ واقعی نیلام ہوگئی۔ یہاں خوشی اس بات کی تھی کہ غزل مکمل ہوئی، رہی جائیداد تو اس کی ما لگذاری کے لیے مقدمہ شروع کردیا‘‘۔ یہ ان کی زندگی کا دوسرا دور تھا جہاں زمینداری کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اِن حالات نے ان کی غزل کی صورت بھی بدل ڈالی۔ اس دور کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں            ؎

یہ آبگینۂ دل واقف ضربِ پیہم ہے

نفس کی آمد وشد زندگی کا ماتم ہے

یہ اضطراب لیے صبحِ انقلاب آئی

چراغِ شامِ غریباں کی روشنی کم ہے

جو اب چنگ ورباب ہے واقف

شکستہ دل کی جو آواز آج مدھم ہے

علامہ واقف کی شہرت کا خاص سبب ان کے قطعات ورباعیات تھیں جن کی ایک عرصے تک ’واقف آرٹ‘ اور ’شذرات واقف‘ کے نام سے مقامی رسالوں اور اخباروں میں اشاعت ہوتی رہی مگر اصنافِ سخن کا کوئی بھی شعبہ ان سے اچھوتا نہیں رہا۔ غزل، نظم، حمد، سلام، نعت، منقبت، قصیدہ، نوحہ، سہرا کے ساتھ ساتھ ظریفانہ اور ہجویہ کلام پر انھیں خاص دسترس حاصل تھی۔ ان کے عہد میں پیروڈی میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔

علامہ وضع دار اور ظریف طبع انسان تھے۔ وہ جدیدیت کے دور میں پرانی تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے شاعر تھے۔ ان کا طرز حیات بھی کسی فلسفے سے کم نہیں تھا۔ کرتے کی جیب میں راکھ اور ہاتھ میں چھڑی لے کر چلنے والی اس ہستی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو خود فاقہ مست رہ کر اپنی ادبی چٹکیوں سے قارئین کے دل میں گدگدی پیدا کردیتا ہے۔ گرچہ وقت اور حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا مگر اپنے فن کے معاملے میں وہ نہایت انصاف پسند تھے۔ انھوں نے اپنے کلام میں جو کچھ بھی کہا جو بھی لکھا بالکل صاف صاف لکھا ہے۔ انتہائی سادگی اور ظرافت آمیز سنجیدگی سے اپنے خیالات واحساسات کا اظہار کیا ہے۔ وہ خود ہی کہتے ہیں          ؎

میرے اشعار میں منظر کشی بھی ہے ظرافت بھی

قلم نے کھینچ دی تصویر جو خاکہ لکھا میں نے

زبان سادہ میں رنگینیاں رکھ دیں سیاست کی

مزہ آنے لگا دونوں کو جب یکجا لکھا میں نے

علامہ واقف کی شاعری میں ظرافت کا برملا اظہار ملتا ہے تو طنز کے پہلو بھی ان کے یہاں خاصے نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنے الفاظ کے تیر ونشتر سے بہتوں کو لہولہان کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار         ؎

ہوںگی کعبہ میں ادا خاک نمازیں اپنی

جب کبھی شیخِ حرم کو بھی قضا یاد نہیں

اے بتو! سنگ حوادث کا نشانہ بن کر

میں خدا لگتی کہوں اپنا خدا یاد نہیں

ان کی شاعری میں محبوب کا تصور بھی ہے تو وطن سے محبت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ ملاحظہ کریں یہ اشعار       ؎

کیا چیز ہے جینے کی تمنا مرے نزدیک

کیا شے ہے مری ’جان‘ میری جاں تیرے آگے

کیا شے ہے بزم شعر و سخن کچھ نہ پوچھیے

کیا چیز ہے فضائے وطن کچھ نہ پوچھیے

وہ اپنی شاعری میں دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں اور بے ثباتیِ عالم اور زندگی کی جفا سے بے پروا بھی نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں          ؎

سانس لینے میں بھی ہیں دشواریاں اے ہم نشیں

زندگی سے موت کا رشتہ نظر آنے لگا

مدعائے زیست نے کی بے رخی جب اختیار

میں بھی اس دنیا سے بے پروا نظر آنے لگا

وہ اپنے آپ میں ایک مکمل شاعر تھے۔ انھوں نے زندگی کے گوناگوں مسائل اور اس کے مختلف رنگوں کو اپنی شاعری میں بڑی فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ انھیں اپنی شاعری کی انفرادیت پر خود بھی ناز تھا۔ وہ کہتے ہیں         ؎

ہر اک برنگ ٹاپک پر لکھا میرے سوا کس نے

جو لکھا وہ برنگ، آتش صحرا لکھا میں نے

بہار کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے علامہ واقف کو علم عروض اور شاعری کے فن پر دسترس حاصل تھی۔ ادبی لوازم کی رو سے ان کی شاعری اہمیت اور قدر کی حامل ہے۔ ادبی محاسن سے ان کے اشعار آراستہ پیراستہ ہیں۔ صنعت نگاری، شعر کو خوبصورت، پرکشش اور بامعنی بنانے میں بڑی معاون ہوتی ہیں۔ ردیف اور قافیے کی پابندی سے غزل میں تسلسل اور روانی آتی ہے، اشعار کے درمیان ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔ علامہ نے اپنی غزلوں میں ردیف کا اہتمام بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ مثالیں پیش ہیں            ؎

بتا اے دوست آوازِ درا آگے ہے یا پیچھے

تیرا رہبر نصیبِ نقشِ پا آگے ہے یا پیچھے

چالاک ہے عیار ہے معلوم نہیں کیوں

جو شخص ہے عیار ہے معلوم نہیں کیوں

لیلیٰ کرے گی زلفِ پریشاں اِدھر اُدھر

تو مجنوں بھی ہوگا چاکِ گریباں اِدھر اُدھر

نہ یہ دنیا ہے مجنوں کی نہ وہ دنیا ہے مجنوں کی

فقط لے دے کر آوازِ انا لیلیٰ ہے مجنوں کی

قطرہ نہیں قانون کہ دریا نہیں قانون

منفی ہو اگر ذہن تو کیا کیا نہیں قانون

رہے سکون، دلِ مُدعا رہے نہ رہے

اے ذوقِ سجدہ تیرا نقشِ پا رہے نہ رہے

ان کے کلام میں تشبیہات واستعارات کا خاص اہتمام نہیں ملتا۔ ان کا غزلیہ اسلوب جن عناصر سے تشکیل پاتا ہے اُن میں اضافت کا نظام خاص ہے۔ علامہ کے فنی اسالیب میں ترکیبِ اضافی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے یہاں ایسے اشعار کم ملیں گے جن میں اضافتیں ناپید ہیں۔ اس رو کے چند اشعار ملاحظہ کریں          ؎

مرید پیر مغاں آورد صبح گاہ میں ہے

ہوائے گوشۂ مے خانہ خانقاہ میں ہے

ستم ظریف ہے کتنا جمالِ فطرت بھی

بہارِ خندۂ گل فیضِ اشکِ شبنم ہے

مستِ خوابِ نگہ یار نہ ہونے پائے

زندگی نرگسِ بیمار نہ ہونے پائے

یہ فیض گریہ شبنم ہے صحن گلشن میں

پھول کھلتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں

ان کے یہاں اضافتیں بھری ہوئی ہیں جبکہ بیشتر شعرا اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ کیونکہ ان کی بے احتیاطی سے اشعار کے ثقیل ہونے کا خدشہ بنا رہتا ہے۔ مگر علامہ نے اپنی غزل میں ترکیبِ اضافی کا استعمال اس سلیقے سے کیا ہے کہ نہ غزلیت مجروح ہوتی ہے اور نہ اس کی موسیقیت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔

جدیدیت کے دور میں کلاسکی طرز کی شاعری کرنے والے علامہ واقف کو اردو کے علاوہ عربی وفارسی پر قدرت حاصل تھی۔ یہ نہ صرف ایک قادر الکلام شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ اپنی نثری خدمات کے سبب بھی بہار کی ادبی تاریخ میں زندہ جاوید ہیں۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار (اس وقت کے ڈائرکٹر، خدابخش لائبریری، پٹنہ) کی فرمائش پر علامہ واقف نے ہندوستان اور صوبہ بہار کی مختلف ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیات پر مبنی مخطوطہ تخلیق کیا تھا جو کہ بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کا یہ بڑا کارنامہ ’نگارشاتِ علامہ واقف‘ کے نام سے خدابخش لائبریری میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ جہاں تک ان کی نثر نگاری یا انشا پردازی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی رائے بڑی قیمتی ہے

’’اگر علامہ واقف کو نظر انداز کردیا گیا تو بیسویں صدی کے صاحب طرز نثر نگاروں کی فہرست مکمل نہیں ہوسکتی‘‘۔ اردو کے اس عظیم خادم کی زندگی میں ان کی کوئی کتاب شائع نہ ہوپائی۔ ادھر چند سالوں میں ان کی تخلیقات ان کے چاہنے والوں کی کوششوں سے منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں پانچ شعری مجموعے ہیں اور ایک نثری کتاب ہے۔ یہ کتابیں حسب ذیل ہیں۔

  1.       لطف ستم :  مرتب سید جاوید حسن
  2.       رازہائے درونِ پردہ: مرتب کاشف امام  2007
  3.       گلدستۂ نعت ومنقبت  2008
  4.       طنزیاتِ واقف (واقف آرٹ کا انتخاب)
  5.       فرد نامہ واقف عظیم آبادی
  • مضامین کی کتاب
  1.   مضامین واقف عظیم آبادی  2006

افسوس کہ ان کے کلام کا بیشتر حصہ آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ تھوڑا تھوڑا انتخاب کی شکل میں لطفِ ستم، راز ہائے درونِ پردہ، طنزیات واقف (واقف آرٹ کا انتخاب) اور فرد نامہ واقف عظیم ابادی میں آگیا ہے۔ ڈاکٹر نسیم اختر نے اپنی کتاب ’تلاش وتصنیف‘ میں وہ پچیس غزلیں اور تین نظمیں محفوظ کردی ہیں جو علامہ واقف نے ان کے سپرد کی تھیں۔ اب تک علامہ کے جتنے بھی انتخاب منظرِ عام پر آئے ہیں وہ دراصل ان کی شاعری کا انتہائی چھوٹا حصہ ہے۔ علامہ نے بڑی بڑی سماجی اور سیاسی شخصیتوں پر ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے مدنظر جو شاعرانہ گفتگو کی ہے اس کا انتخاب اب تک منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔ کسی برسراقتدار سیاسی شخصیت پر کسی شاعر کا ردعمل بھی عوامی جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہذا موصوف کی شاعری بھی ادب کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔

واقف نے 1967میں آرہ سے پٹنہ مراجعت کی تھی اور ذریعہ معاش صحافت کو بنایا تھا۔ اس دوران اداریہ نگاری، مضمون نگاری، تبصرہ نگاری اور خبر نویسی سے لے کر شاعری تک وہ سب کچھ کیا جس میں آمدنی کا ذریعہ دکھائی دیا۔ یہیں سے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ شامل ہوا جسے انھوں نے ’’تنگ تغزل‘‘ کا نام دیا۔ انھوں نے اپنے کثرتِ مطالعہ اور اپنی مشاہداتی آنکھوں سے دنیا ومافیہا کے مختلف النوع حالات کو اپنے زورِ قلم سے شاعری میں قید کیا۔ غریبی، بے روزگاری، مہنگائی، بدعنوانی،  فرقہ واریت، رہبرانِ ملک وقوم کی بے عملی، عوام کی بے حسی، حالاتِ حاضرہ، قومی وملی مسائل، ملکی وغیرملکی حالات وغیرہ غرض وہ کون سے مسائل تھے جن پر واقف نے اپنے قلم کی سیاہی صرف نہیں کی ہو۔ چند مثالیں دیکھیں            ؎

قلب میں اس کے مگر حوصلہ پیدا نہ ہوا

ورنہ ذرہ جسے کہتے ہیں وہ دریا ہوتا

ثریّا تک چلی جاتی ہے وہ دیوار بے ڈھنگی

رکھے جب اس کی خشتِ اوّلیں معمار بے ڈھنگی

اُس مرد برہنہ کو بھی تنقید کی سوجھی

مجنوں کو میرا چاکِ گریباں نظر آیا

علامہ واقف کا اردو صحافت سے بڑا گہرا رشتہ رہا۔ واضح رہے کہ اردو صحافت سے علامہ کی وابستگی کا آغاز آزادی سے قبل رسالہ الکوثر میں کالم نگاری سے ہوا اور دہلی، کلکتہ، پنجاب کے متعدد رسائل مثلاً مسلمان، الفقیہ، ریاست، روزنامہ ہند اور ترجمان میں وہ لکھتے رہے۔ وہ ابتدا میں واقف ارولی کے نام سے لکھتے تھے۔ بہار کی اردو صحافت سے علامہ کا تعلق آخر تک رہا۔ وہ روزنامہ سنگم کی ادارت سے جڑے رہے۔ مجاہد اردو اور سیاسی رہنما غلام سرور کو جب جب ملی اور سیاسی مسائل کے سبب جیل جانا پڑتا تو سنگم کی ادارت کے فرائض علامہ بخوبی انجام دیتے۔ ان سب باتوں کا ذکر ان کی نثری کتاب میں موجود ہے۔ 1972 میں انھوںنے ذاتی طور سے  ہفت روزہ ’طشت ازبام‘ کا اجرا کیا جو جلد ہی بند ہوگیا۔

اردو کے اس بے لوث خادم کے بچپن کے اور جوانی کے اوقات جتنے پرسکون گزرے بڑھاپا اس کے برعکس بے سروسامانی میں بیتا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ آرہ میں گزارا اور پھر وہ پٹنہ آگئے۔ پٹنہ میں انھوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ گزارا۔ اپنی عمر کے آخری نصف حصے میں انھیں جن معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کا ایک زمانہ شاہد ہے۔ علامہ کبھی پھلواری شریف میں کرائے کے مکان میں رہتے تو کبھی سبزی باغ سے لے کر پٹنہ سٹی کے علاقے کے درمیان بے مکانی کی صورت حال سے جوجھتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر اوقات انھیں بنیادی ضروریات کی تکمیل کے مرحلے میں اپنی تخلیقات کو فروخت کرنا پڑا تاکہ وہ اور ان کا کثیر الاولاد خاندان جو کہ منجملہ آٹھ افراد پر مشتمل تھا کو نان شبینہ نصیب ہوسکے۔ علامہ کی اس مجبوری کا ذکر نسیم اختر کی کتاب ’تلاش وتصنیف‘  (2013)  میں بھی ملتا ہے۔

علامہ واقف کا انتقال 6 دسمبر 1993کو ساڑھے پانچ بجے شام میں کاکو میں ہوا۔ ان کی لاش آرہ لائی گئی اور اپنے نانیہالی قبرستان بوعلی منزل منشا پانڈے کا باغ، آرہ میں مدفون ہوئے۔ علامہ واقف نے اپنی حیات میں یہ شعر کہا تھا          ؎

لحد میں یہ فرشتوں نے کہا واقف مبارک ہو

کہ تم کلمہ سے جنت کی فضا لیتے ہوئے آئے

بہت افسوس کی بات ہے کہ بہار کے ادب میں علامہ واقف کو جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہ مل سکا ہے۔ بہار کے مختلف رسائل وجرائد میں بکھرا ان کا کلام دعوت غور وفکر کے ساتھ اپنی ناقدری کا ماتم کررہا ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ شذراتِ واقف اور واقف آرٹ ہی ان کی شاعری کی شناخت بن گئی ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر اصنافِ سخن میں ان کا کلام استادانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی قوت زود گوئی کا بہترین نمونہ ہیں جو نہ صرف اعلیٰ درجے کی کلاسکی شاعری کا درنایاب ہیں بلکہ اس کا معیار بھی ہیں۔

ان کی تخلیقی اور فکری توانائی کا جائزہ لینے کے لیے ان کے ذریعے چھوڑے گئے علمی سرمایے کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے۔ ویسے محمد ثاقب نے ’علامہ واقف عظیم آبادی حیات وخدمات‘ کے موضوع پر 2006 میں ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی کی نگرانی میں بہار یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔


Dr. Shazia Kamal

C/o: Haji Rahmatullah

Milli Masjid Lane, New Millat Colony

Sec-2, Phulwari Sharif

Patna- 801505 (Bihar)

Mob.: 9386134522

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں