1/6/23

اردو ناول میں ثقافتی نوحہ گری: خالد اشرف

 

ناول کو اس کی وسعت، وضاحت اور جزئیات کی بنا پر ام الاصناف کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے ڈی ایچ لارنس (1885-1930) نے کہا تھا کہ ’’چونکہ میں ایک ناول نگار ہوں، اس لیے میں اپنے آپ کو کسی سنت، کسی فلسفی، کسی سائنس داں اور کسی بھی شاعر سے برتر سمجھتا ہوں، جو انسان کے مختلف حصوں کے ماہر ہیں، مگر پورے انسان تک نہیں پہنچتے۔ ناول ایک ایسا ارتعاش ہے جو پورے زندہ انسان کے اندر لرزش پیدا کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو شاعری، فلسفے، سائنس یا کسی اور کتاب کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘

ناول کی وسعت کی بنا پر عموماً اس کو نفسیات سے زیادہ سماجیات کا آئینہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ملکوں، خطوں، طبقوں اور قوموں کی زندگی کی آئینہ داری میں انسانی  ذات کے گہرے داخلی، مسائل اس کی جنسی محرومی، اس کی تنہائی اور اس کے ارادو ںکی شکستگی جیسے داخلی مسائل کہیں دنیاوی مسائل کے بالمقابل دب جاتے ہیں۔ تاہم ایسے کامیاب ناول کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو صرف افراد کے بجائے اقوام  اور طبقات پر مرکوز رہے اور فرد کی داخلی اتھل پتھل اور جنسی تبدیلیوں کو نظرانداز کردے۔ یعنی ایک اچھے ناول کی اچھائی یہ ہے کہ علامت اور تجرید کے جنجال میں زیادہ ملوث ہوئے بغیر انسانی زندگی کے اطراف اور داخل دونوں پر بھرپور روشنی ڈالے۔

یہاں ہم نسبتاً قریب کے زمانے کی اردو ناول نگاری کے چند شاہکاروں کا جائزہ لے کر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان قریبی زمانوں کا سب سے بڑا نام قرۃ العین حیدر کا ہے جنھوں نے تقسیم کے زمانے میں فکشن لکھنا شروع کیا تھا اور تقریباً پچاس برس تک لکھتی رہیں۔ ان کے تھیم زیادہ متنوع نہیں تھے اور وہ زیادہ تر مشترکہ ثقافت کے زوال، ہجرت سے پیداشدہ جذباتی مسائل اور تاریخ کی بے رحم قوتوں کے آگے انسانی ارادوں کی بیچارگی وغیرہ کو موضوع بناتی رہیں۔ یہاں ان کے آخری دور کے ایک نمائندہ ناول ’گردش رنگ چمن‘ (1987) کا اجمالی جائزہ لیا جائے گا۔ یہاں پرانی اور مٹ چکی جاگیردارانہ تہذیب اور نودولتیوں کی چمک دار اور بآواز بلند تہذیب کے فرق کو سامنے رکھ کر کہانی تشکیل دی گئی ہے۔ کہانی کیا ہے، ماضی کی بازیافت بلکہ ماضی پرستی کی رام کتھا ہے جس کو شعری و شیریں زبان کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ایک طرف عندلیب بیگ، عنبریں بیگ، منصور کا شعری اور وکی میاں ہیں تو اسپیکٹرم کے دوسرے سرے پر صاحبزادی شہوار خانم، نگار خانم اور ان کے تاجر پیشہ بھائی ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی ہمدردیاں مٹتے ہوئے مشترکہ کلچر کے نمائندو ںکے ساتھ ہیں لیکن گھریلو ملازموں اور کھیت مزدوروں پر ڈھائے جانے والے ان کے مظالم کو وہ زیربحث نہیں لاتی ہیں۔ یہاںتک کہ واجد علی شاہ جیسے نااہل حکمراں کا دفاع تک کرتی ہیں

’’آخری مغل بادشاہ اور اودھ کے فرمانروا اگر عیش پرست، ظالم اور لغو تھے، محمد شاہ محض رنگیلے اور واجد علی شاہ صرف ناچاگایا کرتے تھے تو سارے ہندوستان میں دولت اور تجارت کی یہ فراوانی  کیسے رہی؟ سلطانِ عالم جب مٹیابرج لے جائے گئے تو اودھ کا بچہ بچہ اشکبار تھا۔ بھلا کوئی جابر اور نکمے بادشاہوں کے لیے روتا ہے؟‘‘

(گردش رنگ چمن، دہلی 1987، ص 52)

کچھ انہی نوعیت کی ثقافتی ناول نگاری انتظار حسین کیا کرتے تھے، ان کا ناول ’بستی‘ (1980) کافی حد تک ایک سیاسی قصہ تھا، لیکن قدیم ہند اسلامی ثقافت کی عکاسی کے ضمن میں ان کا تیسرا ناول نما قصہ ’تذکرہ‘ (1986) قدیم جاگیرداری ثقافت کی نوحہ گری میں قرۃ العین حیدر کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ ’تذکرہ‘ کی کہانی اس قدر ہے کہ اخلاق (یا انتظار حسین) مع اپنی والدہ بوجان یوپی کے ایک قصبے سے ہجرت کرکے لاہور آبستا ہے۔ ایک دن پرانے کاغذات میں اخلاق کو ایک تذکرہ ملتا ہے جس میں آبا و اجداد کے حالات درج ہیں۔ چراغ حویلی کے یہ مکین اپنے رویوں میں قدیم جاگیرداری اقدار کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کے تمام معمول معین اور سخت ہیں۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ جو معاشرتی اتھل پتھل ہوئی، اس میں یہ بزرگ اپنی جامد زندگی کے طے شدہ اصولوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں،لیکن وقت ان کا ساتھ نہیں دیتا

’’دنیا ناپائیدار ہے، یہاں کس چیز کو قرار ہے۔ ابھی تخت پر بیٹھے ہیں، ابھی تابوت میں لیٹے ہیں— یہ ہیچ پوچ چراغ علی اپنی مثال لاتا ہے۔ ان دو آنکھوں نے اس عمر میں کیا کیا کچھ دیکھ لیا۔ تیموری بساط کو لپیٹتے دیکھا، جہان آباد کو اجڑتے دیکھا۔ تایا حضور کو دار پر بلند ہوتے دیکھا اور اہلِ جہان آباد نے زیر آسمان کیا کیا دیکھا۔ جس بادشاہ کو تخت شاہی پر لباس شاہانہ میں رونق افروز دیکھا تھا، اسی کی ننگی لاش جمنا کی ریتی پر پڑی دیکھی۔ تایا حضور نے ایک روز یہ احوال بیان کیا اور اتنا روئے کہ ریش مبارک ان کی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ ایسا ان پر اثر ہوا کہ جینے سے جی سرد ہوا، رنگ چہرے کا زرد ہوا۔‘‘

(تذکرہ، لاہور، 1987، ص 187)

تقریباً یہی کیفیت بوجان کی بھی تھی، وہ اخلاق کے ساتھ مجبوراً پاکستان آگئی تھیں، لیکن یہاں آکر وہ اس بادشاہ کی طرح بے بس ہوجاتی ہیں، جس کی مملکت چھن گئی ہو کیونکہ چراغ حویلی والا تحکم اور دبدبہ لاہور میں ممکن نہ تھا۔ ان سبھی عزیزوں کا المیہ یہ تھا کہ وہ لاہور کے لیے کلچر کو اپنانے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے اور یوپی کے جاگیردارانہ کلچر کی نام نہاد برتری کے احساس کا شکار تھے۔

یہی ثقافتی احساس برتری خدیجہ مستور کے ناول ’آنگن‘ (1962) کے کچھ کرداروں کے اطوار میں نظر آتا ہے، لیکن خود مصنفہ اس قسم کی ذہنیت کے خلاف ہیں۔ بڑے چچا کا متوسط مسلم گھرانہ قدیم جاگیرداری  نظام کے زوال کا آئینہ دار ہونے کی بنا پر داخلی و خارجی سطح پر شدید انتشار کا شکار ہے۔ اسی آنگن میں تہمینہ کو ان سخت گیر اور انسان دشمن قدروں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، جب نجابت اور اعلیٰ نسبی کے نام پر اس کو صفدر جیسے ذہین انسان سے شادی کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اسی جاگیرداری درجہ بندی کے شکار اسرار چچا ہیں جو ایک داشتہ کی اولاد ہونے کی بنا پر مردود ہیں۔ اسرار میاں زندگی بھر سارے کنبے کی خدمت کرتے رہے، لیکن اس کے صلے میں انھیں باسی روٹیاں اورجھوٹا سالن ملتا تھا۔ کچھ اسی نوعیت کی ظالمانہ صورت حال قاضی عبدالستار، کرشن چندر اور جیلانی بانو کے ناولوں میں بھی نظر آتی ہے، تاہم خدیجہ مستور، کرشن چندر اور جیلانی بانو کا پرانی تہذیبی اقدار کے بارے میں رویہ تنقیدی ہے، تحسین آمیز نہیں۔

لیکن جاگیرداری اقدار کی پیداکردہ ثقافت کے تئیں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور قاضی عبدالستار والا تحسینی رویہ نسبتاً دو نئے ناول نگاروں شمس الرحمن فاروقی اور سید محمد اشرف کے یہاں بھی نظر آتا ہے جنھوں نے اکیسویں صدی میں ناول تصنیف کیے، لیکن قدیم جاگیردارانہ کلچر کو فراموش نہ کرسکے۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوں بالخصوص ’گردش رنگ چمن‘ اور شمس الرحمن فاروقی کے ضخیم ناول ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ (2006) میں ثقافتی بوجھ (Cultural Load) اس قدر زیادہ ہے کہ ناول کی روانی مجروح ہوتی ہے۔ دراصل ہر ناول کسی نہ کسی حد تک اطلاعات (Informations) پر مبنی ہوتا ہے، مثال کے طور پر چارلس ڈکنس کے ناولوں کو پڑھ کر ہم وکٹورین عہد کے انگلینڈ کی عوامی زندگی کے بارے میں نہایت باریک تفصیلات سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح عزیز احمد کا ناول ’آگ‘ پڑھ کر تقسیم سے قبل کے کشمیر کے افلاس اور عوامی زندگی کی ذلتوں کی جیتی جاگتی تصویریں فراہم ہوتی ہیں، لیکن ناول، کسی بھی قسم کی اطلاعات کا بار ایک حد تک ہی برداشت کرسکتا ہے، ورنہ وہ معلومات کی خشک اور بھاری بھرکم کھتونی بن جاتا ہے۔ یہی گردش رنگ چمن کے ساتھ ہوا اور یہی انجام ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کا ہوا،لیکن چونکہ قدیم جاگیرداری کلچر کا ایک خوشنما پہلو اردو ثقافت بھی تھی، اس لیے ان دونوں ناولوں کی کمزوریوں کو عموماً زیربحث نہیں لایا گیا۔ آئیے ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کے ثقافتی بوجھ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کی جائیں۔

ناول کے ابتدائی چہارم میں فاروقی صاحب قاری کو بتاتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے کالونیل ہندوستان میں قومِ انگریز کے لیے سب سے اعلیٰ نوکریاں تھیں

’’ریزیڈنٹی/ پولیٹیکل ایجینٹی، پھر افواجِ مسلح میں افسری، پھر محاصل جن میں مالگذاریاں، کروڑ گیری پرمٹ Custom اور Excise وغیرہ۔ ریزیڈنٹی اور پولیٹکل ایجنٹی میں عموماً دس میں سے نو عہدے بہت چنیدہ فوجی افسروں سے  اور باقی غیرفوجی محاصلات کے محکموں سے پرکیے جاتے تھے۔ اپنے اپنے ضلعوں میں افسرِ محاصل و دیوانی و فوجداری یعنی کلکٹر/ ڈپٹی کمشنر کی شان سب سے اعلیٰ تھی۔ محنت کرنے اور ذمہ داری  اٹھانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنا  اختیارات کا روزانہ استعمال،  مشکل معاملات سے ہر وقت نپٹنا اور کمپنی کی شان اور دبدبہ قائم رکھنا۔‘‘

(کئی چاند تھے سر آسماں، دہلی، 2006، ص 177)

فاروقی صاحب نے یقینا یہ تمام تفصیلات ریسرچ کے ذریعے  حاصل کی ہوں گی، جن کو قاری تک پہنچانا انھوں نے اس لیے ضروری سمجھا کہ قاری اٹھارہویں صدی کے سیاسی و سماجی پس منظر سے واقف ہوسکے۔

1829 کے کرسمس کا ذکر کرتے ہوئے فاروقی صاحب ’ڈالی‘ کے تحفے کی اصل بیان کرتے ہیں کہ ڈالی کا تعلق پھولوں یا پھلوں سے نہ تھا بلکہ ڈالی ان چھوٹی چھوٹی کشتیوں یا ٹوکریوں کو کہتے تھے جن میں پھل رکھ کر لائے جاتے تھے۔ عموماً دو کشتیوں یا ٹوکریوں کو ایک ساتھ باندھتے تھے اور ایک ڈالی میں ایک ہی طرح کا پھل ڈالتے تھے۔ انگریزوں کے یہاں تحفے میں پھل بھیجنے کا اتنا رواج تھا کہ آہستہ آہستہ ’ڈالی‘ کے معنی ہی ’پھلوں کا تحفہ‘ او رپھر ’تیوہاروں پر حکام کے یہاں بھیجنے کا تحفہ‘ ہوگئے۔‘‘ (کئی چاند تھے سر آسماں، ص 196)

مزید معلومات کے ضمن میں فاروقی صاحب سواریوں کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بناوٹ کے لحاظ سے رتھ اور پالکی بہت مشابہ تھے،  لیکن رتھ میں جگہ زیادہ ہوتی تھی اور وہ چار پہیوں کی سواری تھی جسے دو یا چار بیل کھینچتے تھے۔ اس کے برخلاف پالکی میں پہیے نہ تھے، پالکی کی طرح اسے بھی کہار اٹھاتے تھے جو عام طور پر آٹھ ہوتے تھے۔ پالکی کے  ساتھ سونٹا سردار اور کبھی کبھی چوبدار بھی ہوتے۔ پالکی ایک رتھ کی طرح چھوٹا سا حجرہ ہوتی تھی اور اس  کا دروازہ لکڑی  کا ہوتا تھا۔‘‘ (کئی چاند تھے سر آسماں، ص 234)

شمس الرحمن فاروقی اردو فارسی شعریات کے آخری بڑے اسکالر تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع اور علم وقیع تھا۔ وہ بنیادی طور پر اردو-فارسی کلچر کے پروردہ اور نقیب تھے۔  ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ جیسا ضخیم ا ور Intense ناول ان کی تمام زندگی کی فارسی- اردو اور انگریزی علمیت کا نچوڑ تھا اور بلاشبہ وہ اپنی تمام تر علمیت کو کاغذ پر منتقل کرکے مستقبل کے لیے محفوظ کردینے کی گہری خواہش رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کو محفوظ کرنے کا یہی جذبہ ناول میں بھی اکثر نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا صہبائی کی عروض پر مہارت، میر شمس فقیر کی کتاب ’حدائق البلاغت‘ کا ترجمہ، فن معما پر ان کا ادق رسالہ ’گنجینۂ رموز‘ وغیرہ کا ذکر فاروقی صاحب نے مفصل کیا ہے۔

ایک مقام پر رفاعی سلسلے کے بارے میں فاروقی صاحب پھر معلومات کا دریا بہاتے ہیں

’’مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی اصلاً دلی والے نہ تھے۔ وہ قوم کے شیخ فاروقی اور مولداً بڑودہ، گجرات کے تھے۔ ان کے والد شیخ دین محمد نے بڑودہ میں حضرت سید نورالدین سیف اللہ الرفاعی (دفات 1225ھ مطابق 1810) کے  دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک مدت انہی کے آستانے پر مراقب و معتکف رہے۔ رفاعی سلسلے کے بانی شیخ احمد الرفاعی (1106-1182) عربی النسل تھے، لیکن انھوں نے عمر کا بہت بڑا حصہ جنوبی عراق کے دلدلی علاقے کی ایک چھوٹی سی بستی بطائح میں گذارا۔ وہ خود قادری سلسلے میں بیعت تھے، لیکن ان کے ماموں شیخ منصور البطائحی نے انھیں سلسلۂ رفاعیہ یا بطاالحیہ کا سجادہ اور شیخ مقرر کردیا۔ ابن خلدون نے حضرت شیخ احمد الرفاعی کا مفصل ذکر کیا ہے۔ رفاعی سلسلے کی مقبولیت مالدیپ اور سراندیپ ہوتی ہوئی ملک دکن و ہند اور جزائر لکھن دیپ تک پہنچی۔ ابن بطوطہ نے مالدیپ کی رفاعی خانقاہوں اور اس سلسلے کے فقرا کا ذکرکیا ہے۔‘‘

(کئی چاند تھے سر آسماں، ص 742)

یہ اور اسی قسم کی بہت سی تاریخی اور ثقافتی معلومات سے ناول بھرا پڑا ہے۔ فاروقی صاحب نے فکشن نگاری کا آغاز افسانوی مجموعہ ’سوار‘ (2001) سے کیا تھا اور انجام ضخیم ریسرچ ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ (2006) پر کیا اور اپنی زندگی کا تمام مطالعہ ’زوال زدہ مغلیہ عہد کی تاریخ اور اردو- فارسی شاعری کے تغیرات کے انضمام سے کیا تھا لیکن یہاں فکشن کی روانی اور زبان کی توانائی مجروح ہوئی، کیونکہ فاروقی صاحب کی زبان تخلیقی کم، تنقیدی اور محققانہ زیادہ ثابت ہوئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ میں ’شب خون‘ کی مروجہ علامت نگاری اور تجرید یکسر غیرموجود ہے اور قصے کا سارا اسٹرکچر سادہ بیانیہ پر ٹکا ہوا ہے ،جس کو وہ ’پریم چندی بیانیہ‘ کہہ کر مذمت کیا کرتے تھے، افسوس کہ ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ میں وہی کمزوری حاوی رہی، جس کو فاروقی صاحب خود ناقابل تحسین قرار دے چکے تھے۔ الہ آباد کے ایک ادبی اجتماع میں خود انھوں نے شکایتاً کہا  تھا کہ

’’آج اردو ناولوں کی دنیا سمٹ گئی ہے۔ اطلاعات پر زیادہ لکھا جارہا ہے، لیکن اس سے بڑا سچ نہیں بنتا۔‘‘

(بحوالہ پروفیسر علی احمد فاطمی، دہلی، 2016، ص 50)

انتظار حسین، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر، قاضی عبدالستار اور شمس الرحمن سبھی یوپی کے پرانے جاگیردارانہ اردو کلچر کے پر وردہ تھے اور اسی لیے انھوں نے اہم کلچرل ناول تخلیق کیے۔ اسی کلچرل تخلیقیت کو اگلی نسل کے فکشن نگار سید محمد اشرف (پ 1957) نے اپنے ناول ’آخری سواریاں‘ (2016) کے ذریعے آگے بڑھایا۔

کہانی کا راوی اپنی بیوی سے اپنے پر دادا کا روزنامچہ اور بیوہ کا ذکر کرتا ہے۔ اس روزنامچے میں عہد وسطیٰ کی جنگی فتوحات اور بالخصوص مغل خاندان کے عروج کا عقیدت مندانہ تذکرہ کیا گیا ہے اور اس عہدکی گنگا جمنی  ثقافت کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر

’’ہمارے ملک میں خوشبو کا شوق ہمیشہ سے ہے۔ … جائفل، دارچینی، لونگ، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، یہ سب اشیائے خوردنی اپنے دیگر خواص کے ساتھ ساتھ خوشبو کا وصف بیش از بیش رکھتی ہیں۔ لگانے کی خوشبو یعنی عطر مختلف علاقوں کے ہوتے ہیں، مشک کشمیراور دیگر پہاڑی علاقوں کے ہرن کے نافے سے حاصل ہوتا ہے۔ عود عربوں کو بہت پسند ہے۔ عنبرمچھلی سے حاصل ہوتا ہے اور ساحلی علاقوں سے ہمارے پاس آتا ہے۔ خس کی جھاڑی ہوتی ہے۔ کیوڑے کی بال ہوتی ہے۔ یہ سہسوان میں بہت ہوتا ہے۔ گلاب اصلاً ایران کا عطرہے۔ عطر گل مٹی کے برتنوں کو ابال کر کشید کرتے ہیں۔ حنا لکھنؤ میں بہت اچھا بنتا ہے لیکن اس کے مصالحے ملک کے مختلف حصوں سے منگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح شمامہ بھی مختلف مصالحوں سے مل کر بنتا ہے۔‘‘

(آخری سواریاں، دہلی، 2016، ص 157)

’آخری سواریاں‘ میں یوپی کے گاؤں کے بیرونی ہندو- مسلم کلچر کے انسانی مظاہر کے زیرسایہ ایک معصوم سی عشقیہ واردات بھی پہلو بہ پہلو چلتی ہے لیکن پرانی ثقافت کے جمالیاتی و انسانی پہلوؤں کے خاتمے اور اس معدوم ہوتی ہوئی ثقافت کے تحفظ کا جذبہ سید محمد اشرف کے یہاں بھی قرۃ العین حیدر اور شمس الرحمن فاروقی کے فن پاروں کی طرح ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزوں کے رحم و کرم پر روز و شب بسر کرنے والے بے کس بادشاہ ظفر کی ہزیمت و ذلت کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کے بجائے سید محمد اشرف بادشاہ کے دسترخوان کا منظر بیان کرتے ہیں

کہاریاں، کشمیر میں دوڑیں، نعمت خانہ کھڑا کیا، خاصے والیوں نے پہلے سات گز لمبا، تین گز چوڑا، چمکیلا چمڑا بچھایا، اس پر سفید دسترخوان، خاصے کے خانے چوکی پہ لگائے گئے کھانا چنا گیا۔

چپاتیاں، پھلکے، روغنی، برئی، بیسنی، خمیری نان،  شیرمال، گاؤدیدہ، کلچہ، باقرخانی، بادام، پستے، چاول، گاجر اور مصری کی روٹی، نان پنبہ، نانِ گلزار، نانِ قماش، نانِ تنکی، نان خطائی۔ یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نرگس پلاؤ، سبزی پلاؤ، انناس پلاؤ، نکُتی پلاؤ، فالسی پلاؤ، آبی پلاؤ، زمردی پلاؤ، زعفرانی پلاؤ، مُزعفر، طاہری، زردہ، سوئیاں، من و سلوا، یاقوتی، فرنی، بادام کی کھیر، کدو اور کنگھی کی کھیر، نمش، شاخیں، کھجلے، قتلے، دودھ کا دُلمہ، بینگن کا دُلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال،کباب  سیخ، شامی کباب، گولی کباب، تیتر، بٹیر، لوزات خطائی، حلوے، مربّے، بادام، پستے،خشخاش اور سونف کی نقل، موتی پاک، دُربہشت۔‘‘

(آخری سواریاں، دہلی، ص 193)

یہ اور اس قسم کی مزید کلچرل معلومات ہیں جنھوں نے کئی مقامات پر قصے کو بوجھل بنا دیا ہے اور واقعات کی روانی کو گزند پہنچائی ہے۔ اس قسم کی تفصیلات ’گزشتہ لکھنؤ‘ جیسی تاریخ کے لیے موزوں ہوسکتی ہیں، فکشن کے لیے نہیں۔

انیس اشفاق تنقید سے فکشن کی راہ پر آئے ہیں۔ ان کا کلچرل ناول ’خواب سراب’ 2017 میں منظرعام پر آیا تھا۔ اس میں ’امراؤ جان ادا‘ (1899) کو بنیاد بنا کر پرانی لکھنوی ثقافت کی عکاسی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر لکھنؤ کے معروف حاجی مراد علی عرف ٹنڈے کبابی، اپنے کبابوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ قصے میں محرم کی رسومات کا ذکر بھی بڑی وسعت کے ساتھ کیا گیا ہے، لیکن ہولی اور دیوالی یکسر ندارد ہیں۔

ایک مقام پر انیس اشفاق رقم طراز ہیں

’’میرے پاؤں اٹھتے رہے اور میں گومتی کے کنارے چلتا رہا۔ چلتے چلتے میں نے سوچا اسی طرف سے نجم النسا عرف امراؤ جان کے بابا کا بجرا دلکشا کی طرف جاتا ہوگا۔ جہاں میں تھا اسی کے آگے بیگم کوٹھی تھی، جس کے احاطے میں غدر سے کچھ پہلے شرف النسا نے ایک امام باڑہ اور مسجد بنوائی تھی۔ شرف النسا، نصیرالدین حیدر کی انگریز بلکہ ولایتی بیگم کی بڑی بہن تھیں۔ بیگم کوٹھی کے آگے دریا کے بالکل قریب سعادت علی خاں کی بنوائی ہوئی کوٹھی فرح بخش تھی۔ اسی نواح میں ان انگریز افسروں کی قیام گاہیں بھی تھیں جنھوں نے اودھ کی حکومت کو ٹھیک سے چلنے نہیں دیا تھا۔ ریزیڈنٹ نے جب ریڈنسی میں رہنا شروع کیا تو یہ تین منزلہ عمارت ریزیڈنسی کہلائی۔ یہاں طعام خانے، چوکیاں، توپ خانے اور ہسپتال، ڈاک خانہ، گرجاگھر، جیل خانہ اور مطبخ، جانورخانہ، باغات، فوارے اور بہت کچھ تھا۔ میںاس زمانے کے اس فرنگی شہر میں گھوم گھوم کر کھنڈر بن جانے والے حصوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا، غدر میں کیسا گھمسان کارن پڑا ہوگا یہاں!‘‘

(خواب سراب، لکھنؤ، 2017، ص 202)

متذکرہ بالا پانچ ناولوں کی زمرہ بندی یہاں ’کلچرل ناول‘ کے طور پر کی گئی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر اچھا ناول ایک گھنے جنگل کی طرح ہوتا ہے جس کی اندرونی ساخت کو سمجھنا، اس کے بنیادی تھیم تک پہنچنا اور کرداروں کی داخلی نفسیات کو پہچان پانا ایک دقت طلب اور تفصیل طلب مرحلہ ہے۔ ایک مختصر مقالے میں کسی اہم ناول کے ایک سے زیادہ پہلو کا احاطہ کرنا خاصا دشوار ہے۔ یہاں متذکرہ پانچ ناولوں میں پرانی جاگیردارانہ ثقافت کی نشاندہی کرنے کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ ان کے مصنّفین پرانے کلچر کے تئیں ایک قسم کی ناسٹلجیا کے دباؤ میں تھے، جس کی بنا پر بار بار وہ معذرت آمیز لہجے میں سنہرے ماضی Glorious Past کا سہارا لیتے ہیں۔ گویا

ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

تاہم ان ناولوں کو صرف کلچرل ناول قرار دے کر مباحثے کو ختم کردینا، ان مصنّفین کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ یہ سبھی اردو کی نئی تخلیقیت کے نمائندہ شاہکار بھی ہیں اور پرانی ثقافت کے علاوہ پرانی اور نئی زندگی کے سیکڑوں گوشوں کو منور بھی کرتے ہیں اور ع

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے


Prof. Khalid Ashraf

4414/7, Darya Ganj

New Delhi- 110002

Mob.: 8800489012

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں