2/6/23

قاضی عبدالستارشخصیت اور فن: محمد فیصل خان

 


قاضی عبدالستار وہ اہم نام ہے جس نے اپنے تاریخی، سماجی ناولوں اورافسانوں کے ذریعے اردو فکشن میں ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ قاضی عبدالستارصرف فکشن نگار کی حیثیت سے ہی نہیں پہچانے جاتے بلکہ وہ اردو ادب کے ایک بلند پایہ استاد کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قاضی عبدالستار ایک بے باک انسان، خوش بیاں مقررکی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ ہندی کے مشہور ادیب ’بابا ناگاارجن ‘نے ان کو اردو ادب کا دوسرا پریم چند کہا ہے۔قاضی عبدالستار نے اس وقت قلم اٹھایا جب ترقی پسند تحریک کا جادو اردو ادب کی دنیا میں سرچڑھ کو بول رہا تھا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ بڑے بڑے نامور ادیب، نقاداور فکشن نگار اردو ادب کی دنیا پر حکومت کررہے تھے۔ ایسے میں قاضی عبدالستار نے اپنی تخلیقی کاوشوں کے ذریعے اپنے لکھے کی داد ان نامور اور شہرت یافتہ ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں سے اس طرح حاصل کی جیسے خراج وصول کیا جاتا ہے۔ قاضی عبدالستار نے اپنے تخلیقی کارناموں کی عظمت وانفرادیت کا پرچم اس طرح لہرایا جسے اردو ادب کی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ قاضی عبدالستار کی تخلیقات اردو ادب کے دیوانوں اور متوالوں کے لیے ہمیشہ مسرت و بصیرت کا سامان فراہم کرتی رہیں گی۔ ڈاکٹرعبدالغفورر قم طرازہیں:

’’اردو ادب کے ناول نگاروں میں ان کی شخصیت اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ انھوں نے اودھ کی سماجی زندگی کے علاوہ تاریخی شخصیات و حقائق کو فنی پیرائے میں اپنے منفرد اسلوب و نگارش کے ذریعے پیش کرکے نہ صرف اردو ادب کے قارئین کی دلچسپی کا سامان مہیّا کیا ہے بلکہ حقائق و تاریخ کو بھی پکی روشنائی سے بقائے دوام بخشا ہے۔ اس کارِنمایاں سے اُنہیں بھی فیض حاصل ہوا۔ انھیں بین الاقوامی شہرت ملی۔اور دور حاضر کے ناول نگاروں میں روشنی کے مینار کہلائے۔‘‘

(قاضی عبدالستار: بحیثیت ناول نگار، مرتب ڈاکٹرعبدالغفور:دانش کدہ، دریا پور، سبزی باغ پٹنہ2016، ص291)

قاضی عبدالستار کی پیدائش 9 فروری 1933 کو ضلع سیتاپور کے ایک گاؤں مچھریٹہ کے ایک معزز خاندان میں ہوئی، گھرمیںچھبّن کے نام سے جانے جاتے تھے۔ والد کا نام ’قاضی عبد العلی‘ عرف ننھے میاں اور والدہ کا نام ــ’عالمہ خاتون‘ تھا۔ والد صاحب کو شکار کا بہت شوق تھا وہ مہینوں مہینوں شکار کی مہم سے گھر واپس نہیں آتے تھے، ان کے اس شوق کو خود قاضی صاحب نے جنون سے تعبیر کیا ہے۔

قاضی صاحب نے ہائی اسکول 1948 میں راجہ رگھو ویر دیال انٹر کالج (آرآرڈی) سے اور انٹر میڈیٹ بھی اسی کالج سے 1950 میں پاس کیا، 1952 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے (آنرز)  اول نمبر سے پاس کیا، اور 1954 میں ایم اے کی ڈگری فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی جس پر انھیں بہادر شنکر دیال گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ’ پروفیسر رشید احمد صدیقی‘ کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ ’اردو شاعری میں قنوطیت ‘ کے موضوع پر لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری 1957 میں حاصل کی، قاضی عبد الستار کی ملازمت کا سلسلہ 1956 سے شروع ہوتا ہے۔ 1956 میں بحیثیت عارضی لکچر رقاضی عبدالستارکا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبئہ اردو میں تقررہوااوراس کے بعد 1961-62 میںیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مستقل طور پر لکچرر مقرر ہوگئے۔1967 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریڈر ہوئے۔ 1980 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے۔1988 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1993 میں اپنی طویل خدمات انجام دینے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔

قاضی عبدالستار کی شخصیت پہلو دار تھی۔ ان کی زندگی میں کئی رنگ دیکھے جا سکتے ہیں،جیسے یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ یہ وہم پرست انسان تھے۔ نجومیوں، پنڈتوں، سجادہ نشینوں اور ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والوں کی باتوں پر یقین رکھتے تھے،جن، بھوت، پری،جادو،ٹونا، ٹوٹکا وغیرہ سے خوف زدہ رہتے تھے۔ میرے استاد محترم پروفیسرابوبکر عباد اپنے مضمون ’قاضی عبدالستار شخص، فن اور اسرار‘میں لکھتے ہیں:

’’مختلف قسم کے اوہام میں مبتلا ہو جانا ان (قاضی عبدالستار) کی نفسیاتی کمزوری تھی، چنانچہ وہ ستاروں کی چال، ہاتھوں کی لکیر‘جوگی کی پیشین گوئی اور دوسرے شگون وغیرہ پر یقین رکھتے اور جن، بھوت، چڑیل سے ڈرتے تھے۔‘‘(’ایوان اردو‘ دہلی اکتوبر2019،ص 22)

قاضی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے1947 میں شروع کیا اور صہبا تخلص اختیار کیا۔ یہ تخلص ان کے دادا کے دوست ’بابو گرچرن لال شید انبی نگری‘ نے دیا تھاجو شاعری میںان کے استادبھی تھے، لیکن جلد ہی قاضی صاحب نے شاعری ترک کر دی، اس کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں۔

شاعری سے دست برداری کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے دادا کے دوست ’شہزاد لکھنوی‘ قاضی صاحب کو مشاعروں میں لے جاتے اور انھیں اپنی غزل دے کر زبردستی اسٹیج پر کھڑا کردیتے اور جب قاضی صاحب مصرعہ غلط پڑھتے تو وہ محفل میں ہی ترمیم کرکے درست کردیتے جس سے لوگ یہ سمجھ جاتے کہ یہ غزل قاضی صاحب کی نہیں بلکہ شہزاد لکھنوی کی ہے اس سے آپ کو رسوائی محسوس ہوتی۔ شاعری کو چھوڑنے کی ایک اور وجہ بھی ملتی ہے کہ قاضی صاحب اپنی غزلوں پر بابوگرچرن لال شیدا نبی نگری سے اصلاح لیتے تھے اور وہ شراب کے گھونٹ اور سگریٹ کے کش کے ساتھ ایسی اصلاح کرتے کہ دس منٹ میں قاضی صاحب کی غزل ان کی ہوجاتی۔ شاعری ترک کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ 1956میںقاضی صاحب مشاعرے کے لیے بارہ بنکی گئے جہاں ایک واقعہ پیش آیا جس کے بعد تو شاعری سے نفرت ہی ہوگئی۔ قاضی عبدالستار کے چہیتے شاگرد اور میرے استاد پروفیسر ابن کنول کی زبانی اس واقعہ کو خود پڑھ لیں:

’’ہوا یہ کہ بارہ بنکی کے مشاعرے میں گئے وہاں ایک رئیس کے مہمان خانہ میں آرام کررہے تھے کہ کچھ لڑکیاں ادھر کو آتی ہوئی دکھائی دیں لیکن فوراً ہی پیچھے سے ان کی ماں دوڑی ہوئی آئیں اور کہنے لگیں ’’اے لڑکیو! ادھر مت جانا ادھر وہ شاعر ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘ قاضی صاحب نے سوچا شاعر ایسی چیز ہے کہ لوگ اپنی لڑکیوں کو بھی اس کے سامنے جانے سے روکتے ہیں اور شاعری بالکل چھوڑ دی۔‘‘

(’نذر قاضی عبدالستار‘مرتب پروفیسرمحمدغیاث الدین۔ مشمولہ ’منفرد فنکار قاضی عبدالستار‘ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2006، ص258)

قاضی صاحب کی طبیعت فکشن کے لیے بہت موزوں تھی جس کو انھوںنے بہت جلد ہی پہچان لیا اور متعدد تاریخی، سماجی، رومانی اورسوانحی ناول اور افسانے لکھ کر اردو ادب میںاپنی ایک منفرد جگہ بنائی۔قاضی صاحب کا پہلا افسانہ ’اندھا 1946‘ ہے جولکھنؤ کے ایک رسالے میں شائع ہوا۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے 1962 تک افسانے نہیں لکھے بلکہ باقاعدہ افسانے کا آغاز 1964 میں ’پیتل کا گھنٹہ‘ سے ہوتا ہے۔ جو ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ قاضی صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے جس میں تین افسانے اور ایک ناولٹ شامل ہیں۔ بعد میں قاضی صاحب کے عزیز شاگرد پروفیسر محمد غیاث الدین نے 1995 ’آئینۂ ایام ‘ کے نام سے قاضی صاحب کے 28 افسانو ں کو مرتب کرکے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیاتھا۔

قاضی عبدالستار کے ابتدائی افسانوں میں اودھ کے علاقے میں رہنے والے زمین داروں کے زوال پذیر معاشرے کے ساتھ ہمدردی دیکھنے کو ملتی ہے۔انھوں نے اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے ساتھ روایتی سلوک نہیں برتا جو خصوصاً ترقی پسند وں نے کیا کہ ان کی نظر میں ہمیشہ جاگیر دار طبقہ ہی ظالم ہوتا ہے۔ بلکہ قاضی عبدالستار درمیانی راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور انصاف کے ساتھ دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ایک بڑی خوبی ان کا استدلالی اندازِ بیان ہے وہ ہر کہانی کو کسی نہ کسی سچے واقعے سے جوڑ دیتے ہیں اور اس کا تعلق اکثر وبیشتر سیتاپور کے زمین دار گھرانوں سے ہوتا ہے۔ قاضی عبدالستار نے تعلقہ داروں کی زندگی کا تجربہ ہی نہیں کیا تھا بلکہ ان کا بچپن انھیں کے درمیان میں گزرا اور وہ پروان بھی انھیں کی سرپرستی میں چڑھے۔ لہٰذا جس باریکی اور گہرائی سے قاضی صاحب نے اس تہذیب کو دیکھا، سمجھا اور اپنی تخلیقات کا حصہ بنایا وہ بس انھیں ہی کا حصہ تھا جس میں وہ پوری طرح سے کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔

قاضی عبدالستار کے افسانوں میں مختلف موضوعات کی پیش کش دیکھنے کو ملتی ہے۔ان میں زمین دار طبقے کا عروج وزوال، جاگیرداری کا خاتمہ،نئی تہذیب کی آمد اورپرانی تہذیب کے مٹتے ہوئے نقوش،  دولت مندوں کی عیش پرستی، عیاشی اور بے جااسراف، غریبوں اور بے کسوں کا استحصال، تعلقہ داروں سے ہمدردی اور ان کی کمیوں کی نشان دہی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی برائیاں، اخلاقی پستی، اعلیٰ اور اوسط طبقے کی عورتوں کے جنسی مسائل، قتل وغارت گری، اغوا، بلیک میلنگ، آبروریزی، روایتی قدروں کی بقا کے لیے خوں ریزی، مزدوروں اور کسانوں کے حالاتِ زندگی،تقسیم ہند اور ہجرت کے مسائل، فرقہ وارانہ فسادات،مغلیہ سلطنت کی شان وشوکت اور اس عہد کی عکاسی جیسے بے شمار موضوعات شامل ہیں جس کو قاضی عبدالستار نے اپنے قلم کی زینت بنایا۔ لہٰذا قاضی صاحب کے بیالیس افسانوں کو موضوعات کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1      دیہاتی موضوعات سے متعلق افسانے :

 پیتل کا گھنٹہ، مالکن، روپا، لالہ امام بخش،وراثت، رضو باجی، پرچھائیاں، نازو، واپسی، دیوالی، ٹھاکردوارہ، ساملی، ایک کہانی، میراث، نومی، سینگ، کھاکھا، قد آدم مشعل، مجری، دھندلے آئینے، گرم لہو میں غلطاںاور سایہ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

2      شہری موضوعات سے متعلق افسانے:

 سوچ، ماڈل ٹاون، پہلی موت، جنگل، مشین، ایک دن، داغ،تحریک، کتابیں، آڑے ترچھے آئینے وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

      تاریخی موضوعات سے متعلق افسانے:

 آنکھیں، نیا قانون، سات سلام، بھولے بسرے وغیرہ اہمیت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ قاضی صاحب کے چند افسانے اور بھی ہیں جیسے   حرفوں کے صلیب، گھسو، ممواں لالہ اور بلا عنوان وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

قاضی صاحب کا پہلا ناول’شکست کی آواز‘ہے جو1954میں شائع ہوا، اسی ناول کو ہندی میں ’پہلا اور آخری خط‘ کے نام سے 1962 میں الہ آباد سے شائع کیا گیا، یہی ناول پاکستان میں ’دودِچراغ محفل ‘ کے نام سے 1961 میں رسالہ نقوش میں لاہور سے شائع کیا گیا، اسی ناول کو مجروح سلطانپوری 1958-60کے درمیان ممبئی لے کر گئے اور کسی بڑے رسالے میں شائع کرایا۔قاضی صاحب کے ناولوں کو سماجی،رومانی،سوانحی اور تاریخی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

قاضی صاحب کے سماجی ناولوں میں شب گزیدہ (1960)، مجو بھیا (1963)، بادل (1965)، غبار شب (1966)،  حضرت جان (1990) کا شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قاضی صاحب کے دوناول تاجم سلطان (2005) اور آخری کہانی (2015)  ہے۔جن کاشماررومانی اورسوانحی دونوںزمروں ہوتاہے۔

قاضی صاحب کے تاریخی ناولوں میں بڑی جان ہے، وہ فن اور تاریخ دونوں کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں،ان میں سے کسی ایک کا دامن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا، یہی وجہ ہے کی قاضی صاحب کو تاریخ جیسے اہم موضوع کو فن پارے کی شکل دینے والوں میں ایک بلند مقام حاصل ہے اور یہی ان کی شہرت اور عظمت کا سب سے بڑا سبب ہے، قاضی صاحب کے مشہور تاریخی ناولوں میں  صلاح الدین ایوبی (1964)،  داراشکوہ (1967) اور خالد بن ولید (1995) کا شمار ہوتا ہے۔

قاضی عبد الستار ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، انھوںنے تاریخی ناولوں کے ذریعے اردو ادب میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے، قاضی صاحب نے تاریخی ناولوں کے ذریعے اس روایت کو پروان چڑھایا جس کی بنیاد ’ عبد الحلیم شرر‘ نے رکھی تھی، اس کے بعدتاریخ کو موضوع بناکر ادب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کئی ادیبوں نے کی جیسے عزیز احمد، قرۃ العین حیدر،حیات اللہ انصاری، عبداللہ حسین،خدیجہ مستور اور قاضی عبد الستار وغیرہ کے نام قا بل ذکرہیں، مگر ان میں جو شہرت اور بلندی تاریخی ناولوں کے بنا پر قاضی صاحب کے حصے میں آئی وہ قابل غور بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔بقول ڈاکٹر ہارون ایوب لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر قاضی عبدالستار نے اپنے مخصوص اسٹائل اور دلفریب اندازِ بیان سے تاریخی ناولوں میں ایک ایسے گوہر کا اضافہ کیا ہے جس کی آب و تاب کبھی ماند نہیں پڑے گی۔‘‘

( اردو ناول پریم چند کے بعد، مرتب ڈاکٹر ہارون ایوب: اردو پبلشرز تلک مارگ لکھنؤ 1978،ص236)

ان سب کے علاوہ قاضی عبدالستار کی دو تنقیدی کتابیں بھی ہیں ان میں پہلی ’اردو شاعری میں قنوطیت‘ ہے یہ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس کو انھوں نے 1957 میں مکمل کرلیا تھا جو 1963میں پہلی بار منظر عام پر آئی۔ اور دوسری کتاب ’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘ ہے جو1973 میںشائع ہوئی، اس کے علاوہ انھوں نے دو درجن کے آس پاس تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان میں نثر کا عہد، مجاز کا لکھنؤ، سرسید کا اسلوب، فن افسانہ نگاری، رشید احمد صدیقی کی نثر کا آہنگ،سوانح خوانی کے آداب، ملکہ ترنم نورجہاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

قاضی عبدالستار کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھیںعلمی وادبی کاوشوں کے سلسلے میں متعدد اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا۔ ہندی کے مشہور ادیب ’باباناگا ارجن‘ نے1962 میں قاضی عبدالستار کو الٰہ آباد بلایا اور ’الکا‘ ہوٹل میں ’تامپترا ایوارڈ‘ سے نوازا، شال اوڑھائی اور تقریب میں قاضی عبدالستار کے لیے کچھ تاریخی جملے کہے۔

  1.       ’’قاضی عبدالستار کے روپ میں دوسرا پریم چند پیدا ہوا‘‘
  2.       ’’ہندی ادب کے جس شخص کو دیہات پر لکھنا ہو وہ قاضی عبدالستار کو ٹیکسٹ بک کی طرح پڑھے‘‘
  3.       ’’قاضی عبدالستار Prose کا بادشاہ ہے‘‘

قاضی عبدالستار کو ’صلاح الدین ایوبی‘ لکھنے پر اس وقت کے صدر جمہوریۂ ہند جناب فخرالدین علی احمد کے ہاتھوں اردو فکشن کا پہلا ’غالب ایوارڈ‘ 1973  میں دیا گیا۔ 1974 میں ’پدم شری‘ سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ قاضی صاحب کو ’اعزاز میر‘1977، ’یوپی اردواکادمی‘ 1978، ’عالمی فکشن ایوارڈ‘ 1987، ’ قومی اردوایوارڈ‘ 1988، ’مہاراشٹراردوساہتیہ اکادمی گیانیشور ایوارڈ‘ 1988، ’پہلا نشانِ سرسید ایوارڈ‘ 1988، ’پہلا سدبھاؤنا کمیٹی سرسید ایوارڈ‘1996، ’بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ 2002، ’عالمی اردو ایوارڈ‘ 2005، مدھیہ پردیش کی جانب سے دیا جانے والا ایوارڈ ’اقبال سمان‘2006،  ’پہلا یونیورسٹی اردو ٹیچر ایوارڈ‘2008، ’پہلا یوپی ہندی سنستھان ایوارڈ‘ 2011   جیسے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

اس طرح اردو فکشن کا ایک بلندپایہ شخص جس نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے نام کو حیاتِ جاودانی تو عطا کردی۔ مگر ’کل نفس ذائقۃ الموت‘ کی حقیقت سے خود کو محفوظ نہ کرسکااور داغِ مفارقت دیتا ہوا اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ اس واقعے کو’ڈاکٹر پریم کمار‘ کی زبانی جس کا ترجمہ ’ڈاکٹر نثار کوثر‘ نے کیا ہے ملاحظہ فرمائیں

’’وہاں (مچھریٹہ میں)23ستمبر کو اچانک طبیعت بگڑی، جلدی جلدی کرکے سرگنگارام ہسپتال دہلی لے جایا گیا دومہینے ہسپتال کے آئی سی یو میں رہنے کے درمیان کئی مرتبہ صحت میں کمی آئی۔ کئی مرتبہ حالت سنورتی دکھائی دی لیکن 29اکتوبر2018 کو رات 2:30(ڈھائی بجے) اپنے صاحب زادے شاہ ویز کے گھر پر انھوں نے آخری سانس لی۔ اسی دن دوپہر میں انھیں علی گڑھ لایا گیا۔ جہاں شام پانچ بجے اے ایم یو کے قبرستان (منٹوئی) میں دفن کیا گیا۔‘‘

( مضمون ’تنہائی کے عاشق اور قلم کے جادو گر قاضی عبدالستار ‘ سہ ماہی فکر و نظر علی گڑھ دسمبر 2021، ص69-70)

قاضی عبدالستار کی جو شہرت اور عظمت ہے اس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور قوی امید ہے کہ گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے روشن موتی جگمگائیںگے جس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی۔قاضی صاحب کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’محسن نقوی‘ کا یہ شعر موقع اور مناسبت کے لحاظ سے بہت موزوں معلوم ہوتا ہے           ؎

یاد آؤںگا تجھے ذہن کی ہر منزل پر

حرفِ سادہ تو نہیں ہوں کہ بھلایا جاؤں

کتابیات

  1. اردو ناول پریم چند کے بعد:مرتب ڈاکٹر ہارون ایوب، اردو پبلشرز،تلک مارگ لکھنؤ 1978
  2. قاضی عبدالستار: فکر فن اور فنکار،ڈاکٹر احمد خان،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی 2005
  3. قاضی عبدالستار:اسرار وگفتار، راشد انور راشد، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی 2014
  4. قاضی عبدالستار :بحیثیت ناول نگار :مرتب ڈاکٹر عبدالغفور، دانش کدہ دریا پور،سبزی باغ پٹنہ 2016
  5. نذر قاضی عبدالستار، مرتب پروفیسر محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی پہلا اڈیشن 2006
  6. فکر ونظر (سہ ماہی )علی گڑھ دسمبر 2021
  7. ایوانِ اردو (ماہنامہ) اپریل 2019

 

M o Faisal Khan

Research Scholar Delhi University

Delhi- 110007

Mob.: 9918998144

Email.:  fk.nadwa123@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں