5/6/23

ناطق گلاؤٹھی: کلام غالب کے شارح۔ مضمون نگار ابراہیم افسر

 


شعر گوئی نئے انداز کی تجدید خیال

دیکھنا چاہے تو ناطق مرا دیوان اٹھا

مذکورہ بالا شعر کے خالق ناطق گلاؤٹھی نے ہمیشہ فکری تجدید ،نئی جہت کے فروغ کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار گردانا۔ انھوں نے اپنے احباب اور اساتذہ سے خیالات و تفکرات میں تنوع اور رنگا رنگی کا درس حاصل کرنے کے بعداپنے لیے سنگلاخ راہوں کا انتخاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تازگی اور شگفتگی کااحساس قارئین کو ہوتا ہے۔ ان کی غیرت و خودداری کے سبب انھیںرونقِ بزمِ سخن، شاعرِ پر فن، عمدۃ الشعرا، پیر مغانِ خم خانۂ سخن، فخر المتاخرین، استاذ الاساتذہ جیسے القاب سے نوازا گیا۔ سیاست، صحافت، شعرو ادب ان کا اوڑھنا اوربچھونا تھا۔

مولانا ابو الحسن المعروف بہ ناطق گلاؤٹھی نے پہلے بیان یزدانی میرٹھی سے تلمذ حاصل کیا۔ بیان میرٹھی کے انتقال کے بعد داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی، لیکن جب داغ کا بھی انتقال ہو گیا تو ناطق نے کسی سے مشورۂ سخن نہیں کیا بلکہ کلامِ داغ کو سامنے رکھ کر مشقِ سخن کیا۔ ناطق گلاؤٹھی کے آباو اجداد کا تعلق بلند شہر کے قصبہ گلاؤٹھی سے تھا۔ ان کے والد ظہور الدین حسن میرٹھ میں وکالت کرتے تھے۔ان کے خاندان کے لوگ گلاؤٹھی کے علاوہ ناگپور(مہاراشٹر)میں بھی سکونت پذیر تھے۔ناطق گلاؤٹھی کی پیدائش ناگپور میں11نومبر 1886کواور وفات27مئی1969کوہوئی۔ناطق گلاؤٹھی کے شاگرد رشید،محمد عبدالحلیم کی اطلاع کے مطابق ان کی وفات کے بعد ناگپور میونسپل کارپوریشن نے ان کے گھر سے متصل سڑک اور خوش نما چوراہے کو ’مولانا ناطق روڈ‘ اور مولانا ناطق چوک‘ کے نام سے موسوم کیا۔1

ناگپور اور کامٹی کے علاوہ ان کی پرورش و پرداخت مغربی اتر پردیش کے مختلف شہروں میں ہوئی۔موصوف نے دارالعلوم دیوبندمیں شیخ الحدیث مولانا محمود الحسن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد حکمت کا سبق حکیم احمد حسن سے پڑھا۔ ہاپوڑ میں اپنے خالہ زاد بھائی مولانا سید معشوق حسین اطہر ہاپوڑوی کے ساتھ اپنے ابتدائی ایام میںمشقِ سخن کیا۔ انھوں نے نوچندی میرٹھ کے مشاعروں میں متعدد بار اپنا کلام سنایا۔ الغرض، میرٹھ سے ان کا تعلق ہمیشہ بنا رہا۔ یہاں تک کہ مولانا عبدالباری آسی الدنی نے بھی ناطق گلاؤٹھی سے مشورۂ سخن کیا۔

ناطق گلاؤٹھی کو شعر و شاعری سے شغف طالب علمی کے زمانے سے رہا ہے۔ ان کا کلام رسالہ مخزن، پیسہ اخبار، عالم گیر، جلوۂ طور وغیرہ رسائل و جرائد میں شائع ہوا۔ ابتدا میں ناطق نیچرل شاعری کی جانب متوجہ ہوئے۔ اسی مناسبت سے ان کے پہلے شعری مجموعے’نطق ناطق‘ میں نیچرل نظمیں شامل ہیں۔ ’نطق ناطق‘کی چند نظموں کا ضمیمہ ’جلوۂ یار‘ میرٹھ میں مارچ 1913میں شائع ہوا تھا۔2 حالانکہ انھوں نے مولانا حالی کے درج ذیل شعر         ؎

حالی اب آؤ پیرویِ مغربی کریں

بس اتباعِ مصحفی و میر کر چکے

پر اپنی کتاب ’کلیل اور غلیل‘ میںخط کی شکل میں تنقید لکھ کر اعتراض کیا۔ اس کتاب میں موصوف نے جدید اور قدیم شاعری پر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ 65صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پیش لفظ ان کے شاگرد ابو صالح محمد غضنفر حسین شاکر نائطی نے تحریر کیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں سبع سیّارہ، کنزالمطالب اور ’دیوان ناطق‘ (مرتبہ محمد عبدالحلیم)شامل ہیں۔

 ناطق گلاؤٹھی کو جس کتاب نے عالمی شہرت عطا کی وہ کتاب ’کنز المطالب شرح دیوان غالب‘ ہے۔ موصوف نے اس کتاب کو1926میں لکھا تھا۔ غور طلب رہے کہ ناطق گلاؤٹھی نے اس شرح کو نظم طباطبائی کی شرح کے جواب میں لکھا تھا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ شرح منظرِ عام پر نہ آسکی۔لیکن والی آسی اور ساجد صدیقی کی کاوشوں سے اس شرح کو،مکتبہ دین و ادب، کچا احاطہ ،لکھنؤ سے بعض ترمیم و اضافوں کے ساتھ، غالب صدی کے موقع پر 1968میں شائع کیا گیا۔ ’کنز المطالب ‘کی اشاعت اور اس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں خیر بہوروی رقم طراز ہیں

’’ شرح’کنز المطالب شرح دیوان غالب‘ مولانا سید ابوالحسن ناطق گلاؤٹھی کی تصنیف ہے۔ مولانا ناطق، مرزا داغ دہلوی  کے ارشد تلامذہ میں بڑے صاحب فن استاد مانے جاتے ہیں، جن کی شہرت کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ مولانا عبدالباری آسی جیسے فاضل نے ان سے مشورۂ سخن کیا تھا۔ انھیں مولانا عبدالباری آسی کے بیٹے والی آسی ہیں جنھوں نے اپنے رفیق کار ساجد صدیقی کی شرکت میں ’مکتبہ دین و ادب‘ قائم کیا ہے اور تصنیف و تالیف کی قابل قدر خدمتیں انجام دے رہے ہیں، اب وہ اسی مکتبہ سے اسی مہینے میں ’کنزالمطالب شرح دیوان غالب‘ شائع کر رہے ہیں جس کو غالب کا مہینہ قرار دیا گیا ہے اور ملک و بیرون ملک میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ یوم غالب خصوصیت سے غالب کی صد سالہ برسی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ ساجد صدیقی اور والی آسی مستحق مبارک باد ہیں کہ شخصیت پرستی اور مصلحت بینی کے اس دور میں ان لوگوں نے پوری ادبی دیانت کے ساتھ اس شرح کا انتساب میر و غالب کے قدر شناس علم و ادب کے محسن، مخیر و خوش مذاق رئیس جناب مقبول احمد صاحب لاری کے نام کے ساتھ کیا ہے جن کی علمی و ادبی خدمات کا ملک بھر میں چرچا ہے۔3

ناطق گلاؤٹھی کو کلام غالب سے والہانہ شغف تھا۔ ان کی نظر میں غالب کی جو شرحیں اس زمانے میں لکھی گئی تھیں وہ عیوب سے پاک نہ تھیں۔ اس لیے وہ خود چاہتے تھے کہ دیوانِ غالب کی ایسی شرح تیار کی جائے جس میں مشکل پسندی کے بجائے عام فہم اور سلیس زبان کا استعمال کیا جائے۔حالانکہ ان کے استاد بیان  میرٹھی نے بھی اپنے رسالے ’لسان الملک‘ میں دیوانِ غالب کی 13 غزلوں کی نا مکمل شرح’حل المطالب‘ 1895 میں لکھنا  شروع کی تھی۔بیان میرٹھی سے قبل شوکت میرٹھی بھی شوکت المطابع سے’ حل کلیات اردو مرزا غالب دہلوی‘ عنوان سے 1899میںشرح دیوان غالب شائع کر چکے تھے۔ حالانکہ بعض ناقدین کی نظر میں شوکت میرٹھی کی شرح کا اسلوب الجھا ہوا اور غیر سلیس ہے۔ ناطق گلاؤٹھی کے سامنے حسرت موہانی کی شرح ’دیوان غالب مع شرح‘ عبدالرحمن بجنوری کا ’محاسن کلامِ غالب‘ (مقدمہ دیوان غالب)، موہانی کی شرح دیوانِ غالب،سہا مجددی کی ’مطالب الغالب‘ ،جعفر علی خاں اثر لکھنوی کی ’مطالعۂ غالب‘ وغیرہ شرحیں موجود تھیں۔ لیکن انھیں سب سے زیادہ اعتراض نظم طباطبائی کی شرح ’شرح دیوان اردوئے غالب‘ (1900)پر تھا۔ جب انھوں نے نظم طباطبائی کی شرح کا مطالعہ کیا تو انھوں نے طباطبائی کی شرح کے حاشیوں پر نشانات قلم زد کیے۔یہیں سے ان کے ذہن میں دیوانِ غالب کی مکمل شرح لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے ’تفہیمِ غالب‘کے دیباچے میں اس بات کی صراحت کی کہ میں نے اس کتاب میں جگہ جگہ طباطبائی سے اختلاف کیا ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں طباطبائی کا احترام نہیں کرتا۔‘‘4حالانکہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مقدمے میںوہی بات لکھی ہے جو ناطق گلاؤٹھی نے ’کنز المطالب‘کے مقدمے میں لکھی ہے۔ قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ فاروقی صاحب نے اپنے مقدمے میں دیوان غالب کی جن20 شروحات کا ذکر کیا ہے اس میں ناطق گلاؤٹھی کی شرح کنزالمطالب کا کہیں ذکر نہیں ہے۔شاداں بلگرامی نے بھی اپنی شرح ’روح المطالب فی شرح دیوانِ غالب[اردو]کے مقدمے میں اپنے زمانے میں لکھی گئی شرحوں پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے نظم طباطبائی کی شرح پر سخت اعتراض کیے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے اپنے مقدمے کے آخر میں نظم طباطبائی سے غالب کے مشکل اشعار کے معانی و مطالب نقل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔5 ناطق گلاؤٹھی نے13جون1965کو ’کنزالمطالب‘ کے دیباچے میںشرح نظم طباطبائی میں دیوان غالب کی فروگذاشتوں کے بارے میں لکھا:

’’مجھے اس شرح کے متعلق عرض حال کے طور پر یہی لکھنا ہے کہ ناگپور شہر میں داؤدی جماعت کے ایک بزرگ بھائی حسین علی نامی رہتے تھے جو کئی سال تک جماعت کے سکریٹری بھی رہے۔ یہ بزرگ صاحب علم اور ادب نواز تھے جو مجھ سے کافی محبت کرتے تھے۔ ایک بار یہ نظم طباطبائی کی تصنیف کردہ شرح دیوان غالب لے کر میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ دیکھیے یہ مرزا غالب کے دیوان کی کتنی اچھی شرح ہے جس سے غالب کا کلام بہت آسان ہو گیا۔ میں نے ان سے کتاب لے لی اور کئی دن تک اسے اپنے مطالعے میں رکھا تو مجھے نظر آیا کہ اگر چہ مصنف نے بڑی قابلیت کے ساتھ شرح لکھی ہے لیکن کہیں کہیں کچھ زیادتی سے بھی کام لیا ہے۔ اس بات کا میں نے حسین علی صاحب سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ میرا مقصد اس کتاب کو پیش کرنے سے یہی تھا کہ غالب کے ساتھ طباطبائی صاحب نے جو نا انصافی کی ہے اس پر آپ کچھ لکھیں۔ اس وقت مجھے بھی یہی خیال ہوا کہ ان کے حکم کے[کی] تعمیل کروںلیکن بعد میں مناسب یہی سمجھا کہ پورے دیوان کی شرح لکھ ڈالوں اور طباطبائی صاحب نے جو کچھ زیادتیاں کی ہیں ان کے جواب بھی دے دوں۔ جس میں طباطبائی صاحب کا ادب بھی ملحوظ رہے۔ چنانچہ میں نے قلم برداشتہ پورے دیوان کی شرح لکھ ڈالی اور جہاں طباطبائی صاحب کی نگار شات کے خلاف لکھا وہاں اس بات کا اشارا بھی نہیں کیا کہ انھوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے۔‘‘6

ناطق گلاؤٹھی نے’کنز المطالب‘ کو مکمل کرنے کے بعد میرٹھ کا سفر کیا۔جہاں ان کی ملاقات رسالہ ’جلوۂ طور‘ کے مدیر شریف خاں آزاد سے ہوئی۔ ملاقات کے دوران یہ طے ہوا کہ اس شرح کو ’جلوۂ طور، میرٹھ‘ میں بالاقساط شائع کیا جائے گا۔رسالہ ’جلوۂ طور‘ میں یہ شرح ’ر‘ کی ردیف تک 1938تک شائع ہوئی۔ اس کے بعد شریف خاں آزاد کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ’جلوۂ طور‘ بند ہو گیا۔اس کے بعد ناطق گلاؤٹھی کے پاس قارئین کے خطوط آنے شروع ہوئے کہ اس شرح کو آپ جلد از جلد شائع کیجیے۔ مولانا عبدالباری آسی سے اس شرح کی اشاعت کے بارے میں ناطق گلاؤٹھی نے مشورہ کیا۔ آسی صاحب نے بتایا کہ خود انھوں نے اپنی شرح دیوانِ غالب کو صدیق بک ڈپو، لکھنؤ سے شائع کرایا ہے۔ اس لیے آپ اس شرح میں غالب کے فن پر بھی بات کیجیے تو بہتر ہوگا۔ ناطق گلاؤٹھی نے مولوی عبدالحق سے اس شرح کی اشاعت کی بابت مشورہ کیا۔ عبدالحق صاحب نے انھیں تسلی دی کہ اس شرح کو انجمن ترقی اردو،شائع کر دے گی۔ لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔ آخر کار عبدالباری آسی کے صاحب زادے والی آسی نے ناطق گلاؤٹھی کی ’کنزالمطالب‘ کو اپنے ذاتی اشاعتی ادارے مکتبہ دین و ادب سے فروری 1968 میں  شائع کیا۔ ’کنز المطالب‘ میں غالب کی 231 غزلوں کی شرح پیش کی گئی ہے۔ کتاب کا انتساب محسن علم و ادب عالی جناب مقبول احمد صاحب لاری کے نام ہے۔ کتاب کی ضخامت498صفحات اورقیمت بارہ روپے پچاس پیسے (علاوہ ڈاک خرچ)تھی۔’کنز المطالب‘کو بابو عبدالحلیم انصاری ناگپوری نے مرتب کیا ہے۔ لیکن اس شرح میں کہیں بھی بابو عبدالحلیم انصاری کی لکھی ہوئی ایک بھی سطر نہیں ہے۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ناطق گلاؤٹھی کی کتاب ’کلیل میں غلیل‘ میں ’کنزالمطالب‘کا اشتہارشائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں دعوا کیا گیاہے کہ کنزالمطالب اب تک کی سب سے اعلا اور بہترین شرح ہے۔ اس شرح کے منظرِ عام پر آ جانے کے بعد کسی اور شرح کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہاں تحقیقی نکتہ یہ ہے کہ اس اشتہار کو ناطق گلاؤٹھی نے خود شائع کرایا تھا یا ان کے کسی مداح یا ناشرِ کتاب نے شائع کیا تھا۔ اس اشتہار کی زبان اور بیان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ 1968 میں کنزالمطالب کے شائع ہونے کے بعد دیوانِ غالب کی بہت سی شرحیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کنز المطالب کے شائع ہونے کے بعد کسی دوسری شرح کی ضرورت نہیں ہوگی،مبالغہ نہیں تواور کیا ہے؟۔’کلیل میں غلیل‘میں شائع اشتہار ملاحظہ کیجیے:

’’کنز المطالب شرح دیوان مروجہ غالب

مصنفہ

حضرت استاذ الاساتذہ فخر المتاخرین مرشد خم خانۂ سخن مولانا ناطق گلاؤٹھی

زیر طبع ہے

جو عنقریب منصۂ شہود پر آنے والی ہے

یہ وہ شرح ہے جو شروح سابقہ کے حق میں ناسخ کا کام دیتی ہے۔ غالب کے دیوان کی اب تک جتنی شرحیں شائع ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر شارح کی فہم کو دخل ہے۔ مطلب، غالب کو نفسِ اشعار سے سمجھا نے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔  اس لیے اس کے مطالب سلجھنے کی بجائے اور زیادہ الجھ گئے ہیں۔ حضرت ناطق گلاؤٹھی اردو کے مستند اہل زبان،مسلم استاد اور نکات شعری کے زبر دست اور ماہر نقاد ہیں۔ غالب نے جس تخیلِ بلند کے تحت شعر کہا ہے اور شعر میں جس نکتے کو اجاگر کرنا چاہا ہے، اس کی شان آپ کی اس شرح سے نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اوردل میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس شرح کے بعد کسی اور شرح کی ضرورت نہیں رہتی۔ لہٰذا ہم اس کو خاتم الشروح بھی کہہ سکتے ہیں۔اردو ادب اور شعر و سخن کے شائقین اس کو قدر کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔

ملنے کا پتا

کوثر بک ڈپو،مینا چی کوئل اسٹریٹ،بنگلور‘‘ 

محمد عبدالحلیم کی اطلاع کے مطابق ’کلیل میں غلیل‘ کی اشاعت 1950اور مطبع برقی کوثر پریس بنگلور ہے7۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اشتہار ناطق گلاؤٹھی کی مرضی کے بغیر شائع نہ ہوا ہوگا۔کیونکہ ’کلیل میں غلیل‘ کے دیباچے میں ابو صالح محمد غضنفر حسین شاکر نائطی نے دعوا کیا ہے کہ یہ کتاب ناطق گلاؤٹھی کی ایما پر ہی ’برقی کوثر پریس،بنگلور ‘سے شائع ہورہی ہے۔

ناطق گلاؤٹھی مرزا غالب کی شاعری سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے غالب کی زمین پر کئی غزلیں کہی ہیں۔ انھوں نے غالب کی مشہور غزل           ؎

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

کی زمین میں مندرجہ ذیل تضمین لکھی

سن لے، کہ جا رہا ہوں اَب اَپنی خَبَر کو مَیں

لے زِندَگی سلام گیا عمَر بَھر کو مَیں

آپ اَور جِنسِ دِل کے خَرِیدار جی نہیں

پہچانتا ہوں صورَتِ اَہلِ نَظَر کو مَیں

ہر ذرّہئِ وجودِ ہے دامَن کَشِ نَظَر

بھاگوں صَنَم کَدَہ سے تَو جاؤں کِدَھر کو مَیں

کَب تَک قَدم قَدم پہ الجھتا چلے کوئی

اَب راستَہ بتا کے چَلوں راہبَر کا مَیں

رَسمِ وفا، مصِیبتِ ہَستی، بَجا درست

اَچھّا تَو اَب سے عیب سَمَجھ لوں ہنر کو مَیں

غارَتگَرِ شِکیب جَفا کار تابَہ کے

آہوں سے چِھین چِھین کے رَکھّوں اَثر کو مَیں

ناطق یہاں تَو صَبر و تَحَمّل کا وَقت ہے

غالب کے ساتھ بھیج نہ دوں نَوحَہ گَر کو مَیں!

اس کے علاوہ انھوں نے اپنے کلام میں مرزا غالب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا          ؎

واہ رے حسنِ بیان، اللہ رے اندازِ کلام

میرزا غالب ہے ناطق، یوسفِ ثانی مجھے

’دیوانِ ناطق ‘کے صفحہ211پر ’خمسہ بر غزل مرزا غالب‘ عنوان سے تضمین شامل کی گئی ہے۔ اس کا آخری بند ملاحظہ کیجیے     ؎

المدد اے تیغِ غم، سنگ شکستن المدد

کچھ گرفتاروں کی حد ہے کچھ گرفتاری کی حد

داغِ مایوسی ہزاروں، خارِ حسرت بے عدد

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسد

جانتے ہیں سینۂ پرخوں کو زنداں خانہ ہم8

بہر کیف!ناطق گلاؤٹھی کی ’کنز المطالب شرح دیوان غالب‘ میں آسان زبان کے ساتھ غالب کے اشعار کی شرح پیش کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیوانِ غالب کو سمجھنے کے لیے اس شرح کا مطالعہ ناگزیر ہے۔کیونکہ اس شرح کو 1926میںضرور لکھا گیا لیکن 42سال کے بعد جب اسے شائع کیا گیا تو اس میںمولانا عبدالباری آسی کے مشوروں کے مطابق ضروری ترمیمات و اضافے کیے گئے۔ اس شرح میں جہاں ایک جانب غالب کے اشعار کی شرح ہے وہیں غالب کے فن پر بھی ضروری بحث کی گئی ہے۔

حواشی

  1.       دیوان ناطق،مرتبہ محمد عبدالحلیم،اشاعت اکتوبر1976،ص11
  2.       تذکرۂ معاصرین ازمالک رام،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی، اپریل 1972، ص 119
  3.       کنز المطالبشرح دیوان غالب،فروری1968، ص 5
  4.       تفہیم غالب، شمس الرحمن فاروقی، غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی، چوتھا اڈیشن2019،ص18
  5.       روح المطالب فی شرح دیوان غالب(اردو)شارح سید اولاد حسین شاداں بلگرامی، دسمبر1967، ناشر شیخ مبارک علی، اندرون  لوہاری  دروازہ،لاہور، پاکستان، ص 23
  6.       کنز المطالبشرح دیوان غالب،فروری1968، ص 6
  7.       دیوان ناطق،مرتبہ محمد عبدالحلیم،اشاعت اکتوبر1976،ص13
  8.        ایضاً،ص211


Ibraheem Afsar

Ward No.:1, Mehpa Chauraha

Siwal Khas Meerut- 250501 (UP)

Mob.: 9897012528

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

میر تقی میر ایک تذکرہ شناس تذکرہ نویس شاعر (بہ حوالہ نکات الشعرا): محمد رضا اظہری

  اردو دنیا، فروری 2024 یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جس طرح اپنی زندگی کے حقائق کو دوسروں تک منتقل کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اسی طرح ...