6/6/23

انشاء اللہ خاں انشا کے غیر منقوط ادبی کارنامے: محمد نہال افروز

 


اردو ادب میں انشاء اللہ خاں انشا (1752-1817) کا شمارایک تجرباتی تخلیق کارکے طور پر ہوتا ہے۔ انھوں نے جتنے بھی ادبی کارنامے انجام دیے ہیں ان میں سے بیشتراصناف میں ایک نیا تجربہ کیا ہے بلکہ وہ کئی ایک تجربے کے موجد اور خاتم بھی ہیں۔ انشانے نظم اور نثر دونوں اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے اور بیشتر اصناف میں اپنی یاد گار تصانیف چھوڑی ہیں۔ شاعری میں غزل، قصیدہ، مثنوی، ریختی، رباعی جیسی اصناف میں ان کی شاہکار تخلیقات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ نثر کی مختلف اصناف مثلاً داستان،قواعد،روزنامچہ، لطائف وغیرہ میں بھی ان کی قابل قدر تصانیف موجود ہیں۔ ان تصانیف میں سے ان کی کئی کتابوں کو کسی نہ کسی لحاظ سے اولیت کا شرف حاصل ہے۔انشا نے قتیل کے اشتراک سے فارسی زبان میں اردو کی قواعد ’دریائے لطافت‘ کے عنوان سے لکھی، جسے اردو لسانیات اور قواعد کی پہلی اور بنیادی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح انشا نے داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ لکھی۔اس داستان کو لکھنے کے لیے انشا نے خالص ہندوستانی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا ہے اور عربی، فارسی، ترکی کے الفاظ کے استعمال سے مکمل طور پر احتراز کیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک نیا اور انوکھا تجربہ ہے۔ اس طرح کا تجربہ اردو میں پہلی بار دیکھنے کو ملتا ہے۔اس کے علاوہ انشا نے ایک بے نقط داستان بھی لکھی ہے، جس کا عنوان ’سلک گوہر‘ ہے۔ اردو میںاس داستان سے نہ توپہلے اور نہ ہی اس کے بعد، غیر منقوطہ داستان لکھنے کا رواج ملتا ہے۔اس طرح غیر منقوط داستان لکھنے میں بھی انشا کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔

مولوی عبدالحق کے مطابق اردو کے حروف تہجی میں جملہ53 حروف ہیں،جن میں سے 18 حروف غیر منقوط ہیں۔ انشاء اللہ خاں انشانے ٹ، ڈ،ڑ کوبھی منقوطہ حروف میں شمار کیا ہے، کیوں کہ ان کے زمانے میں ان حروف کو ’ط‘ کے بجائے چار نقطوںسے لکھا جاتا تھا۔اس طرح اردو کے حروف تہجی میں جملہ اٹھارہ حروف ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ اردو کے حروف تہجی کا ایک بڑا حصہ خارج کر کے کسی بھی تخلیق کو وجود میں لاناانتہائی مشکل کام ہے،لیکن انشا نے یہ کمال کر دکھایا ہے۔انہوں نے غیر منقوط غزلیں کہیں،قصیدہ لکھا،مثنوی لکھی، رباعیاں اور مخمس کہے۔ یہاں تک کہ ایک غیر منقوط داستان بھی تخلیق کی ہے۔ذیل میںان تمام غیر منقوط ادبی کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

دیوان بے نقط

انشا کے کلیات میں دیوان اردو،دیوان فارسی اور دیوان ریختی کے علاوہ ایک دیوان’دیوانِ بے نقط‘ بھی ہے۔اس دیوان میں پچیس غزلیں (جس میں ایک نعتیہ غزل بھی ہے)،تین رباعیات اور سات مخمس شامل ہیں۔ اس میں انشا نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں، جو بے نقط ہوں۔اس کو صنعت غیر منقوط کہتے ہیں۔جب یہ پابندی شاعر خود پر لگا لے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ محدود لفظوں کی مدد سے ایسے شعر کہے جس میں جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہو سکے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ انشا  کا کلام ویسے بھی جذبہ و احساس سے عاری ہے اور غیر منقوطہ کلام میں یہ عیب اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔انشا نے اس صنعت کونعت، غزل،قصیدہ،مثنوی، رباعی وغیرہ میں استعمال کر کے اپنی قادرالکلامی کا اظہار تو یقینا کیا ہے،لیکن اس میں وہ مزہ نہیں ہے،جو انشا کی روایتی غزلوں میں ملتا ہے۔ یہ ایک بے مزہ اور بے ذائقہ کلام ہے۔مثال کے طور پر انشا کی ایک بے نقط غزل ملاحظہ ہو        ؎

اورِ کس کا آسرا ہو سر گر وہ اس راہ کا

آسرا اللہ اور آل رسولؐ اللہ کا

اہل عالم کا سہارا آسرا کس کام رکھ

ہر سحر گہ آسرا و اللہ اوس درگاہ کا

لو دکھاؤ لمعۂ اسرار کوہِ طور حمد

گرد کر دو معرکہ سو لاکھ مہرو ماہ کا

ہو اِلٰہا ہر طرح کا ہم کو آرام و سرور

دور کر دو سوہلا آلام اور اکراہ کا

اللہ اللہ کس طرح ہو ورک  اوہام و حواس

کوہ کا عالم اودھر کو طور اِدھر سو کاہ کا

دم کو ہوگا مدرکہ ساہمرہِ اہل عدم

آہ اگر معلوم ہو معدوم سر ہو واہ کا

واہ ہر دم کا وہ طور وعدۂ  امداد اور

روکھا عالم اور وہ سوکھا دلاسا آہ کا

ہو اگر درکار انشا روح اور حوار ارم

ماسو اللہ مالکٔ کر وِرد الااللہ کا

اسی طرح یہاں پر ایک رباعی بھی ملاحظہ ہو         ؎

کس کام وہ وعدہ دم دلاسا اور دہوم

گہرا کہرا سہاگ کل رسم و رسوم

لو دل کو ادا دکھا کر کہ ہوا

ہم کو سرکار کا ارادہ معلوم ہوا

ساتھ ہی اس مخمس کو بھی دیکھیے        ؎

ماہر حالِ ہم رہو اہل سلوک ہو اگر

حاکم طور دم رہو اہل سلوک ہو اگر

گرو سر حرم رہو اہل سلوک ہو اگر

در صد دہمم رہو اہل سلوک ہو اگر

کو عدمِ ورود ہو سر کو اودھر رکھا کرو

صنعت غیر منقوط میں شاعری کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعت میں انشا  سے پہلے اور انشا کے بعد اردو کے کسی اور شاعرکی اس صنعت میں قابل قدر تخلیق سامنے نہ آسکی۔البتہ اس صنعت میں مرزا دبیر کا ایک پورا مرثیہ ضرور ملتا ہے۔ یہ مرثیہ انشا کی غزلوں کے مقابلے میں زیادہ واضح اور پر لطف ہے۔ اس مرثیے میں دبیر نے اپنے تخلص کو غیر منقوطہ بنانے کے لیے عطارد تخلص استعمال کیا ہے، جو معنی کے لحاظ سے دبیر کے بہت حد تک قریب ہے۔ اس مرثیے کا ایک بند ملاحظہ ہو         ؎

حر حملہ ور ہوا کہ اسد حملہ ور ہوا

وہ حملہ ور اِدھر اُدھر اسلام ور ہوا

سر گرم معرکہ سرِ اعدا اگر ہوا

وہ گل کھلا کہ لالہ کہسار سر ہوا

اہل حسد کو درس اِدھر آہ آہ کا

حور و ملک کو ورِد اُدھر واہ واہ کا

قصیدہ طور الکلام

’طورالکلام ‘ انشاء اللہ خاں انشا کا بے نقط قصیدہ ہے، جو ان کی کلیات کے’ دیوان اردو‘ میں شامل ہے۔یہ قصیدہ حضرت علی ؓکی منقبت میں لکھا ہے۔ اس قصیدے میں جملہ 48 اشعار ہیں۔قصیدے میں جو اشعار کہے گئے ہیں وہ اردو،ترکی عربی اور فارسی سبھی زبانوں میں ہیں۔ چونکہ قصیدہ بے نقط ہے اس لیے اس کی شعری خصوصیات اور حضرت علیؓ کی شان و شوکت اس خوبی سے قارئین تک نہیں پہنچ پائی ہے،جس خوبی سے انشا پہنچانا چاہتے تھے۔ اس قصیدے کے تمہیدی حصے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

ہلاؤ مروحۂ آہ سرو کو مرگام

کہ دل کو آگ لگا کر ہوا ہوا آرام

در وصالِ دل آرام دور و رہ مسدود

مراد مرحلہ گرد وساوس و اوہام

الم مولدِ سودا و درد گردا گرد

سوادِ دورۂ صحرا مصور دو دوام

وہ گرد سودہ الماس کل ہلاہل وار

ہوا کا لطمہ محل ہلاک و ورطۂ سام

ہوا مسووۂ سرد آہ برسر مو

محل صد الم دودِ دل اصول مسام

پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ انشا نے اس قصیدے کو بے نقط بنانے کے لیے مخلوط زبان(اردو، ترکی، عربی، فارسی) کا استعمال کیا ہے جس سے قصیدے کی شعری خصوصیات اور حضرت علیؓکی شان و شوکت واضح نہیں ہو پائی ہے۔اسی کے پیش نظرانشاء اللہ خاں انشانے ’مطرالمرام‘ کے عنوان سے اس قصیدے کی شرح فارسی زبان میں لکھی۔ ’مطرالمرام‘ کاایک مخطوطہ ریلینڈ لائبریری، مانچسٹر میں محفوط ہے، جو 1233ھ کا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی ’مطرالمرام‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں

’’انشا کو اس قصیدے پر بڑا ناز تھا۔’مطرالمرام‘ میں انشانے اس قصیدے کی نہ صرف شرح لکھی ہے بلکہ ضمنی طور پر بہت سے واقعات اور نئے نئے علمی پہلو بھی بیان میں آگئے ہیں۔ڈاکٹر مختار احمد نے لکھا ہے کہ ’کتاب اگر کبھی شائع ہوئی تو اس سے اس عہد کی ادبی اور معاشرتی زندگی کی جھلکیاں، علمی نکتے، ادبی لطائف سامنے آئیں گے۔‘یہ شرح بھی فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔‘‘

(ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو(جلد سوم)، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2000،ص158)

مثنوی لوحہ موزون

کلیات انشا میںاس مثنوی کا پورانام ’مثنوی بی نقط ولوحہ سرخی نیز بی نقط وہم لوحہ موزون ‘ لکھاہے۔یہ مثنوی جملہ101اشعار پر مشتمل ہے۔اس مثنوی میں اس عہد کی مثنوی کی روایت کے مطابق پہلے حمد کے چند اشعار ہیں،اس کے بعد نعت رسولؐ ہے،پھر منقبت کے اشعار ہیں۔اس کے بعد حاکم وقت نواب سعادت علی خاں کی مدح بیان کی گئی ہے۔اس مثنوی کے نعتیہ اشعار ملاحظہ ہو      ؎

ممدوح امم رسولِ اکرم

درعلم اِلٰہ اصلِ آدم

او مالک اصلِ سر سرمد

سردار ہمہ رسل محمدؐ

گرد رہ او لوا مع طور

ہم سرمۂ مردمک دہ حور

واماء علوم سرور کل

در گلکدۂ سرور اوگل

ہم ماہِ سمأ علم و ادراک

ہم مطلع مہر سر لولاک

اس مثنوی کے علاوہ انشا نے اردو میں متعدد مثنویاں لکھی ہیں،جن میں در ہجو زنبور، در ہجو کھٹمل، در ہجو پشہ، در ہجو مگس، مثنوی فیل، مرغ نامہ، شکایت زمانۂ نافرجام، مثنوی سحرحلال، مثنوی در لہجۂ اردو، ہجو گیان چند، حکایت وغیرہ شامل ہیں۔ان مثنویوں کو اردو ادب میں کوئی خاص اہمیت نہیں ملی،لیکن مثنوی لوحہ موزون کو قابل قدر اہمیت حاصل ہے۔اس کی وجہ اس کا غیر منقوط ہونا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انشا کے تمام غیر منقوط ادبی کارناموں کی طرح اس مثنوی کا مطالعہ قدر ے دشوار ہے،لیکن ان کے تمام غیر منقوط کارنامے کی طرح اس کی بھی تاریخی اہمیت مسلم ہے۔

داستان سلک گہر

انشاء اللہ خاں انشا نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی غیر منقوط کارنامہ انجام دیا ہے۔ ’سلک گوہر‘ انشاء اللہ خاں انشا  کی دوسری کہانی ہے، جس میں انھوں نے ایک نیا تجربہ کیا ہے اور اس تجربے میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس کہانی کو لکھنے میں اردو کے ایسے حروف کا استعمال کیا ہے،جو غیر منقوطہ ہیں۔انشا کہانی کو مکمل کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں،لیکن اس کہانی میں وہ روانی اور وہ لطف نہیں ہے، جو ایک اچھی کہانی میں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی’ سلک گوہر‘ کے بارے میں لکھتے ہیں

’’بہرحال ’سلک گوہر‘ کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہ اردو کا پہلا غیر منقوطہ قصہ ہے۔ اس میں ملک روس کی ملکۂ گوہر آرا کی داستان بیان کی گئی ہے۔اس پابندی کی وجہ سے انشا کا ذخیرۂ الفاظ اتنا محدود ہو گیا کہ وہ بار بار ایک سے الفاظ استعمال کرتے ہیںاور یہ وہ الفاظ ہیں جو نہ تو بول چال کی زبان کا حصہ ہیں اور نہ معروف ہیں بلکہ غیر منقوطہ ہونے کی وجہ سے عربی، فارسی، ترکی زبانوں سے لیے گئے ہیں اور اسی لیے ساری عبارت میں اظہارِ بیان کا سانس قدم قدم پر پھولنے لگتا ہے۔ انشا کی جدت پسند طبیعت نے غیر منقوطہ نثر لکھنے کا تجربہ تو کیا مگر یہ بامعنی تجربہ نہ بن سکا۔اس میں نہ کہانی کا لطف ہے اور نہ اسلوبِ بیان کا بلکہ لفظوں کا ایک ایسا جال سا بن گیاہے، جسے لفظوں کے گورکھ دھندے کا نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘

(ایضاً،ص166)

ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ ’سلک گوہر‘ کا مطالعہ بہت مشکل ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے،طبیعت ایک دم سے الجھ جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جملے میں بالکل ربط نہیں ہے۔ اکثر مقامات پر معنی سمجھ میں ہی نہیں آتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نثری تصنیف کا مطالعہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ کوئی پہیلی بوجھ رہے ہیں۔ انشاء اللہ خاں انشا نے الفاظ کو غیر منقوطہ بنانے کے لیے اکثر لفظ کو بدل دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے اپنے نام کو غیر منقوطہ بنانے کے لیے ’انشاء اللہ‘ کی جگہ ’اراد اللہ‘ لکھا ہے اسی طرح اپنے والد کے نام ’ماشاء اللہ‘ کو لمع اللہ‘ لکھا ہے۔ اس طرح نام کو بدل دینے سے نام کے معنی نہیں بدلتے۔نمونے کے طور پر سلک گہر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو

’’ملکۂ گوہر آرا کا دل اس حال کا مطلع ہوا۔ اُس دم محرمِ اسرار، مہر کردار،ہم عمر، ماہ رو کو کہا کہ’’ ادھر آؤ، اور اس کو لاؤ‘‘۔ہر گاہ مار مہرہ عطاردِ الماس آسا کا لگا، اور محلِ لسع مارِ مدّ سما کالا ہوا، اور مدادِ مردمکِ حورِ ملائِ اعلا کا مسودہ کھلا، اور وسواس کا کلِسرا اُس کا اُگلاہوا سم کھا کر سورہا، اور گہوارہ کودکِ ماہِ مراد کا ہِلا، ملکِ روس کلاہِ مکلل گوہر و الماس و لعل رکھ کر، اُس صدورِ امر کا مامورہھو، سہما ہوا مِع ماہ رو واردِ معطر محل کر کراہا۔‘‘

(انشاء اللہ خاں انشا(مصنف)،امتیاز علی عرشی (مرتب) سلگ گوہر (طبع دوم)، رام پور رضا لائبریری، رام پور،2001،ص12)

’سلک گوہر‘ کا مخطوطہ کمیاب ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ رضالائبریری، رام پور میں محفوظ ہے اور دوسرا مخطوطہ جموں یونیورسٹی کی لائبریری میں ہے۔ عابد پیشا وری نے اپنے ایک مضمون میںقیاساً ’سلک گوہر‘ کو 1215ھ کے آس پاس کی تصنیف قرار دی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق عابد پیشاوری نے محض قیاس کیا ہے اس کی بنیاد کسی ٹھوس دلیل پر نہیں ہے۔ امتیاز علی عرشی نے رام پور میں محفوظ ’سلک گوہر‘ کے مخطوطے کو مرتب کرکے اپنے مقدمے کے ساتھ 1948 میں شائع کیا۔

انشا نے اپنی طبیعت کی اپج دکھانے کے لیے یہ بے نقط داستان لکھنے کی کوشش کی اور وہ لکھنے میں کامیاب بھی ہو گئے،لیکن اس کہانی کو وہ مؤثر نہیں بنا پائے۔ سلک گوہر کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے اسے لگتا ہے کہ اس عبارت کے مطالعے سے اسے گھٹن ہو رہی ہے۔ امتیاز علی عرشی سلک گوہر کے مقدمے میں لکھتے ہیں

’’دراصل اس بے لطفی کی وجہ یہ ہے کہ عام اردو بول چال کا سرمایۂ الفاظ انشا کے عہد میں یونہی کم تھا، اُس پر طرہ یہ ہوا کہ ہندی کے وہ لفظ،جن میں ٹ، ڈ یا ڑ پائی جاتی ہے، اس بنا پر چھوڑنا پڑے کہ اس زمانے میں ان پر چھوٹی’ط‘ لکھنے کی جگہ چار چار نقطے لگائے جاتے تھے۔ اگر موجود ہ چلن انشاکے دور میں بھی پایا جاتا تو عبارت کی سانس اتنی نہ گھٹ جاتی۔ ‘‘ (ایضاً،ص5-6)

گیان چند جین سلگ گوہر کے متعلق ’اردو کی نثری داستانیں‘ میں لکھتے ہیں

’’اس کتاب کی اہمیت محض کوہ کندن وکاہ بر آوردن میں ہے۔بے نقط کی قید کی وجہ سے اس قدر بے لطفی پیدا ہوگئی ہے کہ پوری داستان کا پڑھنا تقریباً محال ہو گیا ہے۔‘‘

(گیان چند جین، اردو کی نثری داستانیں، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1987،ص365)

سلگ گہر کے بے لطف ہونے اور بے جا ترکیبوں کے استعمال کے باجود اس داستان کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ یہ اردو کا پہلا غیر منقوطہ قصہ ہے۔ اس سے پہلے عربی زبان میں اس طرح کے کارنامے ملتے ہیں۔عربی زبان کے ادیب فیضی کی دوکتابیں ’سواطع الا لہام‘ اور ’مواردالکلم‘ نثر میں اور ’دیوان مادح نظم‘‘ فارسی میں ملتے ہیں، جو غیر منقوطہ ہیں۔انشا کے کلیات میں پورے اردو دیوان بے نقط کے علاوہ ایک فا رسی مثنوی، ایک قصیدہ ’طور الکلام‘ اورکچھ رباعیات اس صنعت میں ملتے ہیں، لیکن اردو میں سلگ گہر بے نقط نثر کا پہلا نمونہ ہے۔


Dr. Md Nehal Afroz

Assistant Professor (Urdu)

Directorate of Distance Education

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli, Hyderabad - 500032  (Telangana)

Mob  :9032815440

Email:nehalmd6788@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...