شفیق جونپوری 1902کو جونپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انیق جونپوری ممتاز صوفی عالم دین آسی جونپوری کے پاس گئے۔جنھوں نے شفیق کا نام ’ولی الدین‘ رکھا۔ شفیق جونپوری کی شخصیت اور ذہنی رویے پر اس کے واضح اثرات مرتب ہوئے۔شفیق کی خالہ واحدہ خاتون شعروادب سے والہانہ ذوق رکھتی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا تخلص ہی ’پردہ نشیں‘ رکھا تھا۔شفیق جونپوری کا بچپن انہی کی نگرانی میں گزرا۔شفیق شاعر کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن اور عالم دین بھی تھے۔ انھوں نے شاعری کے ابتدائی دور میں جونپور کے مشہور شاعر حکیم محمود نصیر سے اصلاح لی۔ ان کے انتقال کے بعد حفیظ جونپوری کے تلمذ میں آگئے۔بعد میں نوح ناروی سے بھی مشورۂ سخن کیا۔ 1925 میں حسرت موہانی کی شاگردی اختیار کی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شفیق جونپوری شعرو ادب کے باب میں بہت سنجیدہ تھے۔ گرچہ شعر گوئی کا عمدہ سلیقہ انھیں آگیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی سے مشورہ سخن کرتے رہے۔وہ قصیدہ ، تاریخی قطعات اور نعت و منقبت میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ان اصناف سخن میں وہ والد محترم مولانا انیق جونپوری کو اپنا استاد مانتے ہیں۔شفیق نظم نگاری میں حالی ، شبلی اور خاص طور اقبال سے بہت متاثر تھے ، جس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں کئی جگہ کیا ہے۔اس مختصر معلومات سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ شفیق جونپوری شاعری میں کسی ایک صنف سخن تک محدود نہیں تھے۔ایک غزل گو کے طور پر ان کو زیادہ شہرت ملی مگر دیگر اصناف سخن میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی۔شفیق جونپوری کا پہلا شعری مجموعہ بانگ جرس 1935میں محسنی پریس جونپور سے شائع ہوا۔اس مجموعے کا مقدمہ کامل جونپوری نے لکھا تھا۔ بانگ جرس کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے علاوہ قطعات تاریخ اور رباعیات بھی شامل ہیں۔یہ مجموعہ اکیاون صفحات پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ خرمن عشق ،نَے ، شانہ،خرمن، سفینہ ،طوبی، شفق، صبح کعبہ ، اورفانوس کے نام سے ان کے مجموعۂ کلام شائع ہوئے۔ پھول اور چراغ کے نام سے 1965 میں ان کے کلام کا ایک انتخاب بھی شائع ہوا۔ جسے سید محمد اقبال جونپوری نے مرتب کیا تھا۔ان کا خیال ہے کہ شفیق جونپوری کے چھوٹے بڑے تین درجن مجموعۂ کلام شائع ہوئے۔
شفیق جونپوری شاعرکے ساتھ ساتھ نثر نگار بھی تھے۔ اپنے شعری
مجموعوں کے دیباچے اور مقدموں سے ان کی نثر نگاری کا اندازہ ہوتا ہے۔لیکن ان کی صحافتی
سرگرمیوں سے ان کی پختہ نثر نگاری کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے خود ایک رسالہ ماہنامہ
وحیدالعصر اور دوسرا رسالہ ’طارق‘ جاری کیا۔اور پھر حسرت موہانی کے رسالے ’اردوئے معلی‘
کے حلقۂ ادارت میں بھی شامل رہے۔ مولانا صبر شاہجہاں پوری نے روز نامہ ’مشیر‘ جب نکالا
تو اس کے ایڈیٹر کے طور پر شفیق جونپوری کو طلب کیا۔ان کے نثری کارناموں میں ان کی
صحافت اور ان کے سفر حج بیت اللہ میں لکھے گئے دو سفر نامے قابل ذکر ہیں۔شفیق کے سفر
ناموں میں حمد و نعت اور سلام و قصائد کثیر تعداد میں درج ہیں۔
شفیق جونپوری کا شمار بیسویں صدی کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔
ان کی شہرت کا دارومدار شاعری میں علم وحکمت اور شعری و فنی کمالات کے اظہار میں مضمر
ہے۔ جس نے بھی ان کا کلام پڑھا یا سنا وہ ان کی شاعری کا گرویدہ ہوگیا۔اسی باعث لوگوں
کے دلوں میںشفیق کی شاعری کے لیے عزت واحترام کا جذبہ مزید بڑھ گیا۔ان کے متعدد اشعار
ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیںاور آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ وتابندہ ہیں۔
اس ضمن میںکچھ مثالیں دیکھیے ؎
کشتی کا ذمہ دار فقط نا خدا
نہیں
کشتی پہ بیٹھنے کا سلیقہ بھی چاہیے
خدا معلوم یہ شہر خموشاں کیسی بستی ہے
زمیں آباد ہو جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
عشق کی ابتدا تو جانتے ہیں
عشق کی انتہا نہیں معلوم
شفیق جونپوری ادب برائے زندگی کے شاعر ہیںوہ کہتے ہیں کہ
زندگی کے تقاضے مختلف ہوتے ہیںوہ کبھی زمانی ہوتے ہیں کبھی مکانی اس لیے ادب کی تخلیق
دونوں تقاضوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہونی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح شے برائے
شے کی ترکیب بے معنی ہے اسی طرح ادب برائے ادب اور شعر برائے شعر کا نعرہ بھی فضول
ہے۔اس کا باقاعدہ اظہار انھوںنے اپنے شعری مجموعے فانوس کے مقدمے میں کیا ہے۔اس مقدمے
سے شعروادب کے تئیں ان کے رویے اور رجحان کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
شفیق جونپوری کی شاعری ان کے گہرے سماجی شعور کی بھی آئینہ
دار ہے۔ان کے بہت سے اشعار اس کی غمازی کرتے ہیں۔ عصری حسیت پر مبنی یہ اشعار دیکھیں ؎
تہذیب بھی ہے دورِ ترقی بھی ہے مگر
انسانیت ہے آج کہاں کچھ نہ پوچھیے
کیا اسی کا نام ہے دور ترقی اے شفیق
جگمگاتے ہیں درو دیوار دل بے نور ہیں
شفیق جونپوری مشرقی تہذیب کے بڑے دلدادہ تھے۔جس کے عوض انھیں
’شاعر مشرق‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ان کے اشعار میں بھی مشرقی تہذیب کی جھلک دکھائی
دیتی ہے ؎
سر پہ گاگر لیے جاتی ہے جو پنگھٹ کی طرف
میری جانب سے اسی دختر دہقاں کو سلام
وہ میرے ساتھ ہر تتلی کے پیچھے دوڑنا ان کا
وہ بچپن کی کہانی یاد آتی ہے کئی دن سے
مٹنے دوں گا نہ شفیق اپنے کھنڈر کے آثار
پھر بنانا ہے اسے جنت معمور مجھے
شفیق جونپوری اشتراکی فکروخیال کے مخالف تھے۔ انھوں نے اپنی
متعدد نظموں اور غزلوں میں اس نظریۂ فکر کو تنقید کانشانہ بنایا۔سچّی’اشتراکیت ‘ ’کمیونسٹ شاعر اور تاج محل‘
’کمیونسٹ دوست سے خطاب‘اور’گندم نما جو فروش‘ جیسی نظمیںاسی سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ اشتراکی نظریے کے ادیبوں میں کبھی وہ پسند نہیں کیے گئے بلکہ ایک طرح ان
کی شاعری کو طنزکا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں متعدد اشعارایسے ملتے
ہیں جن میں اشتراکی نظریۂ فکر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
مثال کے طور پر’نظم تاج محل‘ کا ایک بند دیکھیے ؎
قاعدہ یہ ہے کہ ہر دور کے آثار حیات
دیکھے جاتے ہیں اسی دور کی تہذیب کے ساتھ
قصرو ایواںپہ ہو جب عظمت اقوام امم
مقبرہ کیوں نہ ہو ممتازمحل کا ممتاز
قوم پر شاہ جہاں کا یہ کم احسان نہیں
کہ مسلمان فن تعمیر میں پیچھے نہ رہا
دیکھ کر تاج محل کے درودیوارکی شان
قوم کو حق ہے کرے عظمت اسلاف پہ ناز
اسی طرح غزل کا شعر ملاحظہ ہو ؎
جو تجھ سے خوش نہیں
تیرا نہ ہو سکا یا رب
بھلا اسے ترے بندوں کا درد کیا ہوگا
شفیق ایک روایت پسند شاعر ہیں لیکن روایت پسندی میں وہ کسی
کی تقلید نہیں کرتے۔ اگر چہ وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں متعدد شعرا سے متاثر
رہے اور ان کی طرز پر انھوں نے اشعار بھی کہے ، لیکن بعد میں انھوں نے اپنی راہ خود
نکالی، جس کا اظہاربھی انھوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ؎
اغیار کی تقلید نہیں مجھ کو مناسب
میں سب سے الگ راہ گزر کیوں نہ بنائوں
شفیق اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میںاقبال سے متاثر تھے۔
کبھی کبھی وہ خود کو اقبال کے رنگ و آہنگ والا شاعر گمان کرتے ہیںجس بات کا اظہار
انھوں نے فخریہ طور پر کیا ہے
خدا رکھے شفیق جونپوری کو زمانے میں
اٹھا اقبال تو یہ دوسرا دانائے راز آیا
ہماری خود پسندی غیر کی تقلید کیا جانے
ہم اے اقبال ! تیری پیروی پر ناز کرتے ہیں
شفیق جونپوری کا نظریۂ محبت بھی جدا گانہ ہے وہ مانتے ہیں
کہ محبت جتنی بلنداور پاکیزہ ہوگی، اتنا ہی بلند و پاکیزہ تغزل ہوگا۔ اور دل پر اس
کا اثر دیر پا ہوگا۔وہ اپنے اشعار کی نوک پلک اسی محبت کے سانچے میں ڈھال کرسنوارتے
اور نکھارتے ہیں۔اس بات کو نثر میں انھوں نے اس انداز سے بیان کیا ہے
’’
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرنا چاہیے محبت جتنی ہی بلند
پیش کی جائے گی، تغزل اتنا ہی بلندو با کیف ہوگااور وہ اظہار نیاز مندی جو عاشق کی
طرف سے ہوتاہے تمام دیوانگیوں کاحاصل ہے جس کا خلوص حقیقتاًعظمت عشق ہے۔بشرطیکہ عشق
عشق ہو۔‘‘ ( شفیق جونپوری شخصیت و فن ،
ایس ایم عباس، ص، 186
)
شفیق جونپوری اپنی شاعری میں محبوب کو موردالزام نہیں ٹھہراتے،
ان کے اشعار میں عاشق و معشوق کے رشتے کی پوری پاسداری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری
میں محبوب کے عزت واحترام کا جذبہ دوسرے شعرا کے مقابل زیادہ نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری
میں پیش کردہ تصور محبت انھیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔انتخاب غزلیات ’شفیق جونپوری‘ میںراجندر بہادر موج نے شفیق کی شاعری
میں محبوب کے تصورپر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے
’’
شفیق کی غزلیات میں شان تغزل بھی ہے، بے ساختگی بھی ہے اور
رواںبھی مگر ان کے محبوب کے ہاتھوں میں خنجر
نہیں ہے وہ حسن و عشق کا وقار قائم رکھتے ہیںاور وصل و ہجر دونوں کے اظہار میں دامان
ادب کبھی نہیں چھوڑتے وہ شکوہ بھی کرتے ہیں تو احترام کے ساتھ‘‘ [ انتخاب غزلیات شفیق جونپوری ، راجہ بہادر موج،
اتر پردیش اردو اکادمی، 1989]
مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
دامن سے بھی نہ تم نے لپٹنے دیا کبھی
ہم نے اسی امید میں مٹی خراب کی
تمہی نے زندگی بخشی تھی ہم کو
تمہی پر زندگی ہم نے لٹادی
خفا تم تھے تو دشمن چاندنی تھی
میری قسمت میں تنہائی لکھی تھی
اس طرح کے اشعار شفیق کی شاعری
میں ورق در ورق درج ہیں۔ شفیق جونپوری کا ماننا ہے کہ رو لینے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے۔
اور دماغ کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ عام طورپر آنسو غم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ آنسو اور
غم کے اس رشتے کو شفیق جونپوری نے کیا خوب نفسیاتی انداز میں بیان کیا ہے ؎
آنسوؤں سے غم کی زینت ہو گئی
رو لیے تو دل کو راحت ہو گئی
کبھی کبھی شعری حد بندیوں میںرہ کر شعر بے لطف وبے مزہ ہو
جاتا ہے اور اس کا پیغام ترسیل بے معنی و بے سود ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس کبھی کبھی
فنّی لغزشیںشعرمیں حسن پیداکردیتی ہیںکہ سننے والے کی زبان سے بے ساختہ داد نکلتی ہے۔بس
شرط یہ ہے کہ اس لغزش میں ایک کیفیت ہواور وہ کیفیت سامع کے کان میں سرور بھر دے۔ مثال
کے طور پر یہ شعر دیکھیے ؎
فریاد پہ ، فریادپہ، فریاد کر وں گا
بے دادپہ ، بے دادپہ، بے داد نہ کرنا
مذکورہ شعر میںالفاظ کی تکرار کے ذریعے صوتی آہنگ سے مزید
غنائیت اور دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
متروک الفاظ کے سلسلے میںبھی شفیق جونپوری کاخاص نظریہ ہے۔ان
کا ماننا ہے کہ اگرمتروک الفاظ سے شعر میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہو تو ان کا ا ستعال
درست ہے چونکہ کچھ الفاظ متعدد خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں جن کے استعمال سے شعرکی قدرو
قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور شعر کا حسن مزید دوبالا ہو جاتا ہے۔ ایسے الفاظ کا استعمال
شاعری میں درست ہے۔ جیسے لفظ ’نے ‘ بمعنی ’ نہ‘
مدت سے متروک شمار کیا جاتا ہے لیکن شفیق جونپوری نے بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری
میں متعدد جگہ اس کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ شعر دیکھیے ؎
مغنی کا ترانہ نے صدائے مطرباں سنیے
دل مظلوم کی فریاد بے کس کا فغاں سنیے
بیسویں صدی میںغزل کے بارے میں یہ خیال عام سمجھا جاتاتھاکہ
اس میں صرف عاشق ومعشوق کی باتیں ہوںگی۔چونکہ دیگر مضامین اور خیالات سے غزل کی روح
مجروح ہوتی ہے۔لیکن شفیق جونپوری نے بڑی بے باکی وجرأت مندی سے دیگر مضامین کواس ہنر
مندی سے باندھاہے کہ غزل کے تغزل میں مزید دلکشی پیدا ہو گئی۔اس بات سے انکار نہیں
کیا جا سکتاکہ اس طرح کے مضامین دیگر شعراکے یہاں بھی اکثروبیشتر مل جاتے ہیں۔لیکن
شفیق جونپوری نے شعری نقطۂ نظر کواپنی غزلو ں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ غزل اپنی تمام
تر قدروں کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی قاری کے ذہن پر اپنی چھاپ چھوڑنے میںکامیاب نظرآتی
ہے ؎
یہ کہہ کر شمع ساری رات تنہائی پہ روئی ہے
کہ یا رب روشنی دی ہے تو پروانوں کی محفل دے
میرے آزاد تصور! تیری وسعت کو سلام
تو بھی ہوتا ہے اسیر قفس ودام کہیں
اردو شاعری میں شیشہ و ساغر، جام و پیمانہ، رندو ساقی جیسے
الفاظ کا علامتی استعمال اکثرشعرا کے یہاں مل جاتاہے۔ لیکن شفیق جونپوری نے ان الفاظ
کو قدرے مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔اس بات کا اندازہ ذیل میں دی گئی مثالوں سے بہ
خوبی لگایا جا سکتا ہے ؎
ساغرو مینا پہ رونق پھر نہ آئی میرے بعد
میرے ساقی نے بہت محفل سجائی میرے بعد
نہ صراحی، نہ سبو اور نہ ساغر دینا
رند خطرے میں ہے ساقی مجھے خنجر دینا
اگر ساقی مجھے آنے نہیں دیتا نہ آنے دے
ذرا دیکھوں تو کیوں کر میکدہ آباد ہوتا ہے
مزہ کیا اعتماد غیر پر پینے پلانے کا
جہاں جاتا ہوں اپنا جام وساغر لے کے جاتا ہوں
امید ایک ایسی دھند ہے جو صاف دِکھتی بھی نہیں اور چھپتی
بھی نہیں۔لیکن پھر بھی دنیا اس کے سہارے چل رہی ہے۔کوئی انسان اپنا سب کچھ گنوادے اور
اس کے پاس کچھ نہ بچے تب بھی امید اس کا آخری سہارا ہوتی ہے، جس کے سہارے وہ اپنی
زندگی کے مستقبل کو دیکھتا ہے۔ایک شاعر کے پاس بھی بس یہی امید کی دولت ہوتی ہے جس
کے سہارے وہ خود کو زندہ رکھے ہوئے ہوتا ہے۔اسی لیے ہجر کی طویل راتوں میں بھی اسے
سرمئی صبح کی امید نظر آتی ہے۔اس تناظر میں فیض احمد فیض کا یہ شعر دیکھیں ؎
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
اسی مضمون کو شفیق جونپوری نے بھی بیان کیا ہے ؎
مایوسیوں کو پاس نہ آنے دے آدمی
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
شفیق جونپوری کی شاعری کی اہم خصوصیت رجائیت ہے۔وہ کبھی
مایوس نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر اتنے مضبوط ہیںکہ ان کے حوصلے کبھی پست نہیں
ہوتے۔ امیدو امکان کی دنیا وہ ہمیشہ آباد رکھتے ہیں۔
اردو شاعری میں زاہد ، ناصح وغیرہ پر اکثر شعرانے اشعار
کہے ہیں۔ جن اشعار کی نوعیت اکثر طنزیہ ہی رہی ہے۔ شفیق صاحب نے بھی اس میں طبع آزمائی
کی ،اوراپنے اشعار میں حقیقت پسندی کا اظہار کیا،جوحقیقت آج کے کچھ زاہدوں پر بھی
صادق آتی ہے ؎
شفیق ان زاہدان شہر کو پہچانتا ہوں میں
برستا ہے تقدس منہ پہ دل چالاک ہوتاہے
شفیق جونپوری کی شاعری میںموضوعات کا تنوع، تغزل و شعریت کی فراوانی اور آفاقیت کا پہلو نمایاں
نظر آتا ہے۔وہ قدیم فنی و شعری اقدار سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید اقدار کے حامی
ہیں۔ان کی شاعری زندگی کے تمام تر تقاضوں کی آئینہ دار ہے۔ شاعری میں ان کا اپنا خاص
لہجہ ہے جس کو بآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ان کی شاعری میں آفاقیت کا عنصر بدرجۂ اتم
موجود ہے۔غالباًاسی سبب ان کی پذیرائی ہمیشہ
ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ان کی شاعری کے امکانات روشن رہیں گے۔
مراجع و مصادر
- شفیق جونپوری شخصیت و فن ، ایس ایم عباس، ہندوستان پرنٹرس ممبئی،1983
- انتخاب غزلیات شفیق جونپوری، راجہ بہادر موج،اتر پردیش اردو اکادمی، 1989
- پھول اور چراغ، انتخاب کلام، شفیق جونپوری، مرتب،سید اقبال احمد،علمی الیکٹرک مشین پریس بنارس، 1965
- شفیق جونپوری ایک مطالعہ،ڈاکٹر تابش مہدی، ادبیات عالیہ اکادمی،جامعہ نگر نئی دہلی،2002
Mohd Arshad
502/122, Tegore Marg, Near Shabab Market
Lucknow - 226020 (UP)
Mob.: 8948578605
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں