جناب منظر اعجاز سے میری دید شنید کا وقفہ کوئی تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب میں سائنس کا طالب علم تھا اور منظر اعجاز مظفر پور میں ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرم تھے اور 1978 میں انھوںنے ایک رسالہ ’انجو‘ کا اجرا کیا تھا جس کی حیات تیسرے شمارے پر مکمل ہوگئی پھر 1981میں پندرہ روزہ ’انعکاس ‘ جاری کیا،لیکن یہ بھی چند شماروں کے بعداپنے مقدر کو پہنچ گیا۔ ہر چند کہ اس کا ضخیم ’فراق‘نمبر شائع ہوا۔ منظر اعجاز نے انعکاس کا فراق نمبر شائع کرکے ایک بڑا ادبی کارنامہ انجام دیا۔ ادبی حلقے میں اس کی خوب خوب پذیرائی بھی ہوئی۔ 1982 میں جب مظفرپور کے چند نوجوانوں نے روحوں کا مشاعرہ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تو خصوصی ادبی مشیر کی حیثیت سے منظر اعجاز مدعو کیے گئے اورمیں صرف یوں ان نوجوانوں کا معاون تھا کہ اگر کسی نے پروگرام کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی تو میں ایسی کوششوں کو ناکام کردوں۔ اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے پھر حسن اتفاق کہ میں نے سائنس سے ادب کا رخ کیا تو 1986 اور 1987 میں بالترتیب ایم اے اردو وایم اے فارسی کے امتحانات ہم دونوں نے ایک ہی ساتھ دیا اور نتیجہ تقریباً مقابلے کا رہا اور اسی زمانے میں میں نے جانا کہ منظر اعجاز دراصل سید محمد منظر الحق ہیں۔یوں منظر اعجاز کا شمار میرے سنیئر ز میں ہے۔ پھر 1991 میں ہم دونوں نے ہی ڈاکٹر قمراعظم ہاشمی، صدرشعبۂ اردو، ایل۔ ایس۔ کالج مظفرپور کی نگرانی میں پی ایچ، ڈی کی سند بہار یونی ورسٹی مظفرپور سے حاصل کی۔حسن اتفاق کہ مجھے یہ سند جون 1991 میں ملی جبکہ منظر اعجاز کو نومبر 1991 میں دراصل یہی وہ زمانہ تھاجب منظر اعجاز کا مطالعہ ومشاہدہ نکھرنے لگا تھااورمیں رفتہ رفتہ ان کی تحریروں سے متاثر ہونے لگا تھا۔ ان کے کلام کا جو رنگ وآہنگ تھا اور فکر کی جو بالیدگی چھن کر آتی تھی وہ یقینا اس عہدکے نوجوانوں میں منظر اعجاز کی انفرادیت کی دلیل تھی۔ 1992 میں درس و تدریس کے فرائض سے وابستہ ہوتے ہی منظر اعجاز کی ادبی سرگرمیاں تیزسے تیز تر ہوتی گئیں اور آج ان کی پہچان نہ صرف یہ کہ زودنویس تنقید نگار کی حیثیت سے ہونے لگی ہے بلکہ زود گو شاعرکی حیثیت سے بھی ان کی پہچان تقریباً بن چکی ہے اور ان کی ادبی کا وشوں
اقبال اور
قومی یک جہتی 1994
اقبال عصری
تناظر 2000
فیض احمد
فیض اور صلیبیں مرے دریچے میں 2003
اعجاز نظر 2006
قومی وطنی
شاعری کا منظرنامہ 2006
ورق ورق اجالا 2009
کو ادبی حلقوںمیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوچکی ہے۔
’اقبال اور قومی یک جہتی‘ دراصل منظر اعجاز کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر بہار یونی ورسٹی مظفر پور نے انھیں نومبر 1991 میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند تفویض کی تھی۔ بعد میں اسے ہی انھوںنے فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اترپردیش لکھنؤ کی اشاعتی مالی امداد سے جون 1994 میں کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ کتاب اپنے ظاہری حسن میں نفاست وسادگی کے ساتھ ساتھ منظر اعجاز کے مزاج ومذاق کی طرف اشارے کرتی ہے لیکن معنوی اعتبار سے یہ فلسفہ وسیاست سے براہ راست متعلق ہے جو بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس معاملے میں اقبال کی شخصیت متنازعہ بھی رہی ہے کیونکہ اقبال کے معترضین اور ناقدین کا یہ عام خیال ہے کہ اقبال کی اولین دور کی شاعری حب الوطنی،انسان دوستی اور قومی یک جہتی کے شعور سے مالا مال ہے لیکن یورپ سے واپسی کے بعد ان کے لہجے اورفکر میں زبردست تبدیلی آئی اور انھوں نے ملت اسلامیہ کی بیداری اور نشاۃ ثانیہ کو اپنا مقصود بنالیا جس سے قومی یک جہتی کے جذبے کو زبردست ٹھیس لگی۔
اقبال پر اعتراضات کا دوسرا منطقی جواز یہ بھی ہے کہ اقبال
کے تصور خودی اور تصور مرد مومن پر جرمنی مفکر نطشے کا زبردست اثر ہے اور نطشے چونکہ
فاسسٹ ہے،وہ اپنی انفرادیت کے زعم میں جمہوریت کو رد کردیتاہے اس لیے اقبال کی خودی
اسے شاہینی فلسفے کا قائل بنا دیتی ہے۔ وہ وطنیت،قومیت اور جمہوریت کے شعور سے برگشتہ
وبیزار نظر آتاہے۔چنانچہ ایسے مفکر شاعر سے ’’قومی یک جہتی‘‘ کی تعلیم وتلقین کی توقع
ہی بے سود ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو اقبال کی شخصیت کو متنازع بنا دیتی ہیں لیکن منظر
اعجاز کی تقریباً تمام تر کاوشیں اپنے منطقی جواز سے اس تنازع کو حل کرنے سے متعلق
رہی ہیں۔
ڈاکٹر منظر اعجاز نے معقول منطقی جواز کے تحت اقبال کو محب
وطن، جمہوریت پسند، انسان دوست اور قومی وحدت کا نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے،اگر
’اقبال عصری تناظر‘ کے مشتملات پر نظر ڈالی جائے اور ان کے چند مضامین مثلاً تصورِخودی،
تصورِعشق، ’ساقی نامہ‘ ’شاہین‘ اور منظری شاعری کا گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ
کیا جائے تو وہ شکوک و شبہات دور ہوسکتے ہیں جن میں معترضین مبتلا رہے ہیں۔ منظر اعجاز
نے اس زاویۂ نظر سے ان فرسودہ موضوعات پر روشنی ڈالی ہے جس کے وسیلے سے اقبال بالکل
ہی عام اور روایتی ناقدین کے اندازِ نظر سے مختلف نظر آتے ہیں۔انھوںنے اقبال کی ملت
پسندی کا انکار نہیں کیا ہے لیکن فلسفۂ خودی کی ترتیب وتدوین میں اقبال کی اوّلین
دَور کی شاعری نیا شوالہ (گائتری کا ترجمہ) آفتاب،جگنو، قومی ترانہ، سارے جہاں سے
اچھا ہندوستاں ہمارا،رام اور نانک اور ہندوستانی بچوں کاقومی گیت، سے لے کر ساقی نامہ
تک کے حوالوں سے کام لیا ہے اور خودی کا فلسفہ مرتب کرنے میں ’ساقی نامہ‘ کو بنیاد
بنایا ہے۔ جو دوسری طرف خودی کے کامل تصور پر مبنی ہے یعنی جس بنیاد پر اقبال کو فاسسٹ
تصور کیا جاتارہاہے اسی بنیاد پرمنظر اعجاز نے اقبال کو قومی وحدت کا نمائندہ قراردیا
ہے اور یہی تصور جمعیت آدم کا نظریہ بھی واضح کرتاہے اس طرح یہی چیز انسان دوستی کے
شعور کی ضامن ہوجاتی ہے اور انسان دوستی کا جذبہ وطن کے مادی تصور کی واقعیت کو تسلیم
کرتے ہوئے آفاقیت اختیار کرلیتاہے اوریہی چیز جمہوریت اور انفرادیت کو بھی داخلی طور
پر مربوط کردیتی ہے ؎
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں
مگر عین محفل میں خلوت نشیں
’من
و تو‘ کی معنوی تخلیقی ہمکاری سے ہی ’ہم‘ یعنی اجتماعی شعور کی مستحکم تعبیر ممکن ہے۔یعنی
اختلافات کے تعین اور استقرار کے بغیر یک جہتی کا تصور ناقص ہے اور منطقی طورپر اس
خیال کا انکار نہیں کیا جاسکتاکہ وحدت کا تعین تضادات واختلافات کی ترتیب وتنظیم سے
ہی ممکن ہے اس سلسلے میں منظر اعجاز نے چارلس ڈبلیو بوڈیمر جیسے امرائیو لوجسٹ کا بے
حد مفید اور اہم حوالہ بھی پیش کیا ہے اور اپنے خیال کو زبردست تقویت پہنچائی ہے۔
’اقبال
عصری تناظر‘ مطبوعہ 2000 بنیادی طورپر ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو رسائل میں شائع
ہوچکے ہیں لیکن جب انھیں یکجا کرکے کتابی صورت میں لایا گیاتو اس کی معنوی جہت دوبالا
ہوگئی کیونکہ منظر اعجاز نے اس میں سات ابواب قائم کیے مثلاً
’تصورات عصری تناظر‘ یہاں خودی، پیکار، حریت، شاہین،مرد مومن، عشق، عورت کے حوالے
سے گفتگو کی ہے تو ’معجزات عصری تناظر‘ میں فن،بالِ جبریل، ضرب کلیم، نظم نگاری،
غزل گوئی اور منظری شاعری کے حوالے سے معجزات اقبال کا بیان ہوا ہے۔ ’تجزیات عصری تناظر‘ میں اقبال کی نظم خضرِراہ، طلوع اسلام، مسجد قرطبہ، ’لینن خدا
کے حضور میں، فرشتوں کا گیت اور فرمانِ خدا‘ ذوق وشوق، دین وسیاست، ساقی نامہ، فصل بہار، محاورہ مابین خدا وانسان، اگر خواہی حیات
اندر خطر زی کے حوالے سے گفتگو کی۔ ’الٰہیات عصری تناظر‘ میں مذہب، تصوف، تو’سیاسیات عصری تناظر‘ میں جمہوریت، اشتراکیت، وطنیت،قومی یک جہتی،انسان
دوستی کے حوالے سے گفتگو ہے اور بالآخر ’متفرقات عصری تناظر میں مولانا روم، غالب،نطشے کے حوالے سے گفتگو ہے
اور بالآخر ’متفرقات عصری تناظر‘ میں اقبال اور عالمی ادب، اقبال بحیثیت
مفکر، اقبال بحیثیت نثرنگار، تصور خودی اور اقبال وآزادکے حوالے سے اقبال عصری تناظر
کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ گویا یہ پرانی شراب کونئی بوتل میں منتقل کرنے کا فن بھی ہے لیکن
اس کی معنوی گہرائی اور گیرائی نیز وسعت و پنہائی کا اندازہ ڈاکٹر عبدالحق کی اس رائے
سے لگایا جاسکتاہے
’’ منظر
اعجاز نے دل ونظر کے سفینے کو اقبالیات کے بحر بے پایاں میں عزم و استقلال کے ساتھ
جس طرح جولاں کیاہے وہ صدآفریں ہے۔ اقبال پر تحقیقاتِ علمیہ کے ساتھ ایک گراں قدر
تصنیف کی پیش کش کے لیے ہم ان کی اقبال شناسی کے معترف ہیں۔ یہ ان کی دوسری مفید اور
منفرد کوشش ہے جس میں اقبال کی شعری وفکری جہات کے متنوع مباحث کو سہل و سادہ اسالیب
میں پیش کیاجارہا ہے۔‘‘ (ماخوذ اقبال عصری تناظر، سکنڈ فلیپ)
’فیض
احمد فیض اور صلیبیں مرے دریچے میں‘ منظر اعجازی کی مختصر مگرجامع تصنیف ہے جو فیض
کو مکتوب نگاری کے فن میں بھی یکتائے روزگار بنانے کی ایک کاوش ہے۔ دراصل فیض نے 9مارچ
1951 سے19اپریل 1955 تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلی تھیں اس دوران کئی مقامات کے جیل
خانوں کی ہوائیں کھائیں اور اس دوران اپنی اہلیہ ایلس فیض اور بیٹیوں کے نام انگریزی
میں کئی خطوط لکھے تھے لیکن 20اپریل 1955 کو رہائی کے بعد ان مکاتیب کو از خود اردو
میں ترجمہ کرکے شائع کیا تھا۔اس مجموعے میں 125خطوط بیگم کے نام اور آٹھ خطوط اپنی
دونوں بیٹیوں کے نام والے شامل ہیں۔منظر اعجاز نے ان مکاتیب کو چار ذیلی عنوان حبسیات،
اخلاقیات، انتقادیات اور ’فلسفۂ حیات‘ میں بانٹ کرپرکھنے کی کوشش کی ہے۔لیکن زیادہ
زور فیض احمد فیض کے اسلوب پر دیا گیا ہے اورکوئی نئی بات نہیں کہ فیض کے شعری سرمائے
میں اگر ڈکشن پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اردو غزل کی مروجہ
روایتی لفظیات کو اس سلیقے اور ایسے تیور کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ ان کے معنوی آفاق
پھیل گئے ہیں۔ ان کے جہانِ معانی میں وسعتیں پیدا ہوگئیں ہیں۔ فیض نے بہتیرے گھسے پٹے
اور فرسودہ الفاظ کو بھی اپنے استعمال کے سلیقے سے نئی زندگی بخش دی ہے۔ یہاں تک کہ
فیض نے حافظ شیرازی کے ڈکشن کوبھی اپنے کلام میں استعمال کیا تو فارسی کی ترکیبیں،
علامتیں اورتشبیہیں،استعارے پیکر اردو میں ڈھل کر اردو کا ہی سرمایہ بن گئے اور کچھ
ایسی ہی خوبیاں فیض کی نثر میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر منظر اعجاز نے اپنے وسیع مطالعے
اور مشاہدہ کی بنیاد پر فیض کے مکاتیب کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے وہ یقینا فیض کو
پہچاننے میں معاون ہے۔
’اعجاز
نظر‘ ڈاکٹرمنظراعجازکے پندرہ مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس میں منظر اعجاز نے اپنے
تنقیدی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ ’’ان مضامین کی نوعیت بہر حال تنقیدی
ہی ہے لیکن نظریاتی طورپر اس تنقید کا تعلق کسی مخصوص دبستان نقد ونظر سے نہیں۔ میں
ویسے بھی فن میں چاہے، وہ تخلیق کافن ہو یا تحقیق وتنقید کا فن، کسی نظریاتی وابستگی
کا قائل نہیں۔ حالانکہ نظریاتی وابستگی کے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن فائدے سے زیادہ نقصان
کا اندیشہ لگا رہتاہے۔
(اعجاز
نظر ’منظراعجاز‘، مکتبہ انعکاس،مظفرپور، 2006، ص56)
لیکن اس مجموعہ مضامین کا کلیدی
مضمون فیض احمد فیض کا فلسفۂ حیات اور مولانا ابوالکلام آزاد کا فلسفہ حیات ہے لیکن
اس مجموعے میں مختلف موضوعات کے ہوتے ہوئے بھی قدرے مشترک کی حیثیت رکھنے والی ایک
چیز جو مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے وہ منظر اعجاز کا لفظیاتی اور لسانی نظام ہے اور سب
سے بڑھ کر ان کا Philosophical approachجو
انھیں معاصر نقادوں میں ممتاز ومنفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔ یوںان کا مزاج ومذاق شروع
ہی سے فلسفیانہ رہا ہے اور اس کے لیے وہ حلقۂ احباب میں بدنام بھی ہیں اور نیک نام
بھی۔ مولانا آزاد کے فلسفہ حیات کی تعبیر وتفسیر سے بھی ان کے فلسفیانہ نقطۂ نظر
کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو
’’حیات
دراصل اناہی کاایک پہلو ہے اور انا زندگی کی حقیقی توانائی۔ یہ عمل شعور،ارادے اور
مقصد سے ہم کار ہے۔چونکہ یہ بامقصد ہے اس لیے اس میں حرکت ہے اور چونکہ اس میں حرکت
ہے اس لیے اس میں حصول مقاصد کے لیے شدت کی ضرورت ہے اور حرکت میں شدت پیدا کرنے کے
لیے رکاوٹ ضروری ہے۔ دراصل قوت حیات اپنے اظہار میں اسی وقت کا میاب ہوتی ہے جب اظہار
کی راہ میں رکاوٹ حائل ہو چنانچہ حیات اظہار کے لیے جہاں راہ بناتی ہے وہیں رکاوٹ بھی
خلق کرلیتی ہے اور اس میں الجھ کررہ جاتی ہے۔دراصل اظہار کی طلب ہی اس کے لیے حدود
فراہم کردیتی ہے اور یہی حدود یا رکاوٹیں ہیں جنھیں واقعیت بھی کہتے ہیں۔ خلق کی سطح
پر یہی افراد واشخاص ہیں یا دوسرے مظاہرو موجودات۔‘‘
(اعجاز
نظر، منظراعجاز، مکتبہ انعکاس،مظفرپور، 2006، ص56)
اس اقتباس اور دوسرے بیانات سے بھی یہ محسوس ہوتاہے کہ منظر
اعجاز کی فکر پر فلسفۂ اقبال کا گہرا اثر ہے۔ اس کے علاوہ مولانا آزاد اور فیض کے
مطالعات و اکتسابات نے بھی ان کی فکر اور اسلوب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
’قومی
وطنی شاعری کا منظر نامہ‘ (جلداول) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی
تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں حرفے چند کے علاوہ نظیر اکبرآبادی، محمد حسین آزاد،
حالی، اسمٰعیل میرٹھی،اکبرالٰہ آبادی، شادعظیم آبادی،شبلی نعمانی، ظفر علی خاں، سرور
جہان آبادی، چکبست، حسرت موہانی، تلوک چندر محروم، جوش ملیح آبادی،ساغر نظامی،پرویز
شاہدی، جمیل مظہری، اجتبیٰ رضوی، ظفر حمیدی اور محمد اقبال کی قومی وطنی شاعری کا تجزیہ
پیش کیا ہے۔ اس کے بیشتر مضامین موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے تھے بعدمیں کچھ اور
مضامین شامل کرکے کتاب کی شکل دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بہت پھیلا ہوا تھا جس کی
متحمل کوئی مختصر سی کتاب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لیے جو کام ہوچکا تھا اسے منظر عام پر
کتابی صورت میں لانے کی کوشش کی گئی۔
منظر اعجاز اپنے فلسفیانہ میلان
یا اپنے نسلی خاندانی متصوفانہ رجحان کی وجہ سے وحدت ویک جہتی کے قائل رہے ہیں اور
جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال، مولانا آزاد اور فیض کے غائر مطالعے نے بھی انھیں
فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کا مبلغ بنادیا ہے چنانچہ کم وبیش پینتیس برسوں
کی قلمی کاوش میں ان کے قلم کی نوک سے کہیں ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلا جس سے وحدت
انسانی کے جذبے کوٹھیس لگتی ہو۔ منظر اعجاز مزاجاً اور فطرتاً گوشہ نشیں قسم کے انسان
ہیں۔ نفسیات کی اصطلاح میں انھیں Introvert
Tendency کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ Extrovert
Tendencyکے حامل ہوتے تو انھیں امن عالم کا داعی، مبلغ
یا علمبردار قرار دیا جاتا۔لیکن ایسا نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ وہ زمانہ شناس نہیں
لیکن منظراعجاز خالص Humanistہیں۔
’ورق ورق اُجالا‘ منظراعجاز کا شعری مجموعہ ہے جس
میں ان کی فکری نیرنگی و بوقلمونی کا سر جوش ملتاہے۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا
تھا کہ
’’منظر
اعجاز کی غزلیں دیگر جدید شاعروں کی طرح عصری مسائل کی پیچیدگیوں اور تلخیوں سے عبارت
ہیں۔ ان کے یہاں تہذیبی قدروں کی شکست وریخت، عقیدے کی ٹوٹ پھوٹ، خواب اور تعبیر خواب
کی اذیتیں اور عصری انسانی رشتوں کے کھوکھلے پن کا انعکاس ہوا ہے۔ ان کی غزلوں میں
عشق کا سوز وگداز اور تڑپ و کسک بھی موجود ہے۔اور فلسفیانہ پیچیدگی اور لب ولہجے میں
دقت پسندی ہے پھر بھی زبان میں حلاوت اور شیرینی موجود ہے۔ایک خاص قسم کی متانت اور
سنجیدگی بھی ان کی غزلوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔سب سے بڑھ کر ان کا مخصوص لب ولہجہ
اور منفرد رنگ و آہنگ ہے جو انھیں اپنے ہمعصروں میں ممتاز بناتاہے۔‘‘
(مظفرپور
علمی ادبی اور ثقافتی مرکز، محمد حامد علی خاں، ادراک پبلی کیشنز، مظفرپور، 1988، ص
214)
اوریہ امتیازجو منظر اعجاز کو اپنے ہمعصروں سے الگ شناخت
عطا کرتاہے وہ ہے فکرکی گہرائی اورلفظوں کا اہتمام۔ کیونکہ منظر اعجاز کی غزلوں میں
ایسے ایسے قافیے اور ردیف کاا ستعمال ہوا ہے کہ اس پر اتنی رواں،دواں اور فکر انگیز
غزلیں کہنا بہتوں کے لیے ممکن ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور یہ سب نہ صرف بے وجہ ہے بلکہ
بقول خود اور بہ قلم خود منظر اعجاز
’’فن
شاعری شعور کے روشن نقطے کا وہ انعکاس ہے جس میں حیات وکائنات کی تجلیات سمٹ کر بے
مثال اور لازوال ہوجاتی ہیں۔ لیکن شعور کا یہ لفظ روشن کیسے ہوتاہے میں سمجھتا ہوں
کہ فطرت جب دل کے تاروں کو چھیڑنے لگے اور روح گنگنااٹھے تو اس کے آہنگ سے جو شرارے
پھوٹتے ہیں۔انہی شراروں سے یہ نقطہ روشن ہوتا ہے۔ کوئی بڑی شاعری یا غیر معمولی شاعری
اس کے بغیر ممکن نہیں اور یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ لیکن یہ معجزہ شاذ ونادر ہی ظہور
پذیر ہوتاہے۔ ساری زندگی کی ریاضت بھی اس کے لیے کم ہے۔غالباًاسی وجہ سے افلاطون نے
فن شاعری کو عطیہ الٰہی سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی دوسرے کمالات زندگی کی طرح فن شاعری
بھی خدائے بخشندہ کی بخششوں اور عنایتوں کا نتیجہ ہے۔
میرا علم، میرا فن بھی چاہے وہ جس معیار کا ہو، اسی خدائے
بخشندہ کی بخششوں اور عنایتوں کا نتیجہ ہے‘‘۔
(ورق
ورق اجالا، منظر اعجاز، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوں، دہلی، 2009، ص 9)
دراصل منظر اعجاز نے اقبال اور غالب وفیض کا مطالعہ اس قدر
دقیقہ سنجی سے کیا ہے کہ وہ بھی ان اصحاب فن کے ارادت مندوں میں شامل ہوگئے ہیں اور
اپنے فن کو کبھی اقبال کے اس مصرع ع
پاک رکھ اپنی زباں تلمیذ رحمانی ہے تو
توکبھی غالب کے اس بیان کہ ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال
میں‘ کے مصداق تصور کرتے ہیں اور جناب منظر اعجاز کا یہ دعویٰ کسی حد تک حق بہ جانب
بھی ہے۔میں نے اکثر انھیں دیکھا کہ ہم لوگ خوش گپیوں میں محو ہیں اور اچانک کچھ دیر
کے لیے چپ ہوگئے۔ گفتگو کا سلسلہ توڑ کر جیب (جو کبھی پوسٹ بکس ہواکرتا تھا) سے ایک
کاغذ نکالا اور شاعری شروع ہوگئی۔ پھر اشاروں میں کبھی چائے کی فرمائش کردی تو کبھی
سگریٹ کی اور درمیان میں کسی نے ٹوک دیا توان کا انداز ’اچھا چلتا ہوں‘۔ نہایت ہی بداخلاقی
کے ساتھ وہ چل دیتے اور انداز بھی ایسا کہ
کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہو اور وہ پناہ کے لیے بھاگ رہے ہوں اور یہ کیفیت نہ صرف ان
کی عملی زندگی کا خاصہ رہی بلکہ ان کے فن میں بھی درآئی ہے کہ کبھی وہ اپنے گردونواح
کے ماحول میں گھٹن محسوس کرتے ہیں تو کبھی اس سے نبر د آزما ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
پروفیسر وہاب اشرفی کا بیان ہے کہ
’’ ڈاکٹر
منظر اعجاز فنی اعتبار سے ایک پختہ شاعر ہیں جن کے یہاں Contradictionsکا
اجتماع اور ادغام ہے۔ وہ سامنے کے لفظوں سے Ironyکی
کیفیت پیدا کرنے میں بے حد چابکدست نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں صنعتوں کا استعمال روایتی نہیں ہے اور اس میں وہ حدت سے زیادہ
صلابت پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔ اب فکری نظام کی طرف واپس آئیے تو ایک صورت ان کے یہاں
ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف وہ زندگی کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے
ہیں تو ٹھیک اسی وقت کوئی احساس درد بھی کہیں نہ کہیں ابھر جاتاہے اس لیے اپنی فکری
روش میں مثبت رجحان کے باوجود انفعال کی کیفیت سے گزرتے رہتے ہیں ‘‘۔
(ورق
ورق اجالا، منظر اعجاز، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،2009، ص19-20)
اور اب پروفیسر وہاب اشرفی کا یہ بیان دیکھیں
’’منظر
اعجاز نے بحیثیت شاعر اپنی شناخت کروانی چاہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاعر یا افسانہ
نگار سے زیادہ ان کے مضامین متاثر کرتے ہیں۔دراصل ان کا تنقیدی ذہن مطالعہ اقبال اور
فیض سے مرتب ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کے تنقیدی مضامین میں ان جہات کی تلاش ملتی ہے۔ جن کے
پس منظر میں اقبال اور فیض شعر کہتے رہے تھے۔ ترفع کی تلاش ان کے مضامین کے وہ پہلو
ہیں جو ان کی ہرتحریر سے نمایاں ہے۔
منظر اعجاز نے کچھ افسانوں کے جائزے میں اپنی بصیرت کا احساس
دلایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک اچھا نقاد ان کے اندر پرورش پارہاہے۔‘‘
(تاریخ
ادب اردو، جلددوم، وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2007، ص 143)
مجھے پروفیسر وہاب اشرفی صاحب کے ان دونوں بیانات میں روایتی
طریقہ تنقید کی کیفیت ملتی ہے کہ ’میرے تو دونوں بھلے‘ یوں مجھے منظر اعجاز کی شاعری
خوب صورت، توانا، اور بڑی جاندار لگتی ہے کیونکہ ان کے ڈانڈے کلاسیکی شعری روایات سے
مل جاتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا لسانی وطیرہ ہر چندکہ عام نہیں پھر بھی
کوئی بیزارکن یکسانیت نہیں ملتی جبکہ 1980 کے بعدکی شاعری میں یہ چیز اکثر دیکھنے کو
مل جاتی ہے۔ منظر اعجاز کی شاعری’ازدل خیزد بر دل ریزد‘ کے مصداق نہیں ہوتی۔ان کے اشعار
میں جو فکری گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے،وہ جب تک گرفت میں نہ آئے،ان کے اشعار سے لطف اندوزی کی توقع
بیکار ہوگی مثلاً یہ شعر
ریزہ ریزہ ہوئے تابندہ خیالوں کے ورق
تیرگی چاٹتی جاتی ہے اجالوں کے ورق
یا ؎
میرے مورث کا جو ترکہ تھا نہ محفوظ رہا
دیمکیں چاٹ گئیں کہنہ رسالوں کے ورق
اقدار کی شکت وریخت اور پامالی کا یہ حزنیہ اظہار اس لب
ولہجے اور اس انداز و اسلوب میں ان کے معاصرین کے یہاں کہیں اور نہیں مل سکتا۔
ایک دوسری غزل کا مطلع اور ایک شعر ملاحظہ ہو ؎
فصیل سنگ اثر پہ پھیلے تو حدِّدشت انا نہ ٹوٹے
پھسل پھسل کر مرے لبوں سے کہیں یہ حرفِ دعا نہ ٹوٹے
حدودِ عرفاں کی منزلوں پر ہیں سنگ میل آگہی کے روشن
قیاس تیرہ نگاہ سے پھر تجلیِ نقش پا نہ ٹوٹے
——
خواب پلکوں سے لرز کر جو گرا ٹوٹ گیا
گرچہ شیشہ بھی نہ تھا کیسے بھلا ٹوٹ گیا
آٹھ اشعار پر مشتمل یہ پوری غزل
جس حزنیہ کیف کی حامل ہے وہ اشعار سے ظاہر ہے لیکن اس کے بعض اشعار میں جو Philosophical
Depthہے۔
ویسے کچھ اشعار ایسے بھی منظر اعجاز کی غزلوں میں
پائے جاتے ہیں جو سادہ نظر آتے ہیں لیکن ان کی پرکاری وہاں بھی مطالعے کی سنجیدگی
اور متانت کا تقاضا کرتی ہے ؎
وہ تو اک پتھر تھا اور پتھر کا پتھر رہ گیا
موم تو میں بھی نہ تھا کیسے پگھل کر رہ گیا
نیند کی لذت سے جب محروم آنکھیں ہوگئیں
ترجمان شب شکن آلود بستر رہ گیا
یا ؎
جب کسمسائی سانسوں میں خوشبو حیات کی
رکھ کر زباں کانٹوں پر پھولوں سے بات کی
اس طرح کے بہت سے شعر منظراعجاز کے مجموعہ غزل ’ورق ورق
اجالا‘ میں بھی ہیں اور ’مباحثہ‘ اور انتساب، وغیرہ میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سید محمد منظر الحق، منظراعجاز ابن سید مقبول احمد نے زندگی
کے سردوگرم موسم کے تقریباً 71 سال کا تجربہ جھیلا یعنی سند کے اعتبارسے 12دسمبر
1953 کو موضع رسول پور ترکی، ڈاکخانہ اسوئی، ضلع ویشالی میں پیدا ہوئے۔ 1965 میں مڈل
بورڈ کا امتحان پاس کیا۔ پھر بھگوان پور ہائی اسکول، ویشالی سے 1971 میں ہائر سکنڈری
کا امتحان پاس کرکے مظفرپور آگئے۔ اور مضافاتی طبیب کی حیثیت سے مظفرپور کے شکل روڈ
میں ایک مطب بنالیا۔ بلاکے ذہین تھے اس لیے یہا ںکے شعرا وادبا سے تعلق قائم ہوا جن
میں ظفرعدیم، اسدرضوی، قیصر صدیقی اور چند ر بریلوی ان کے رفقا میں رہے۔ 1979 میں پھر
تعلیمی سلسلہ شروع ہوا تو 1985 اور 1986میں بالترتیب ایم۔اے اردو، ایم اے فارسی کے
امتحانات میں شریک ہوئے اور بہتر نتیجہ حاصل کیا۔ دسمبر 1991 میں پروفیسر قمر اعظم
ہاشمی صدر شعبۂ اردو ایل ایس کالج کی نگرانی میں’اقبال اور قومی یک جہتی ‘کے موضوع
پر پی ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ 1992 میں یونی ورسٹی سروس کمیشن پٹنہ کی سفارش پر پہلے
ایس یو کالج ہلسہ میں اردو کے لکچرار مقرر ہوئے۔تقریباً سات برسوں کی تگ ودو کے بعد
ان کا تبادلہ اے این کالج،پٹنہ میں ہوگیا۔یہیں سے ریڈر اور پروفیسر تک کے عہدے تک پہنچے۔
18مارچ 2018 کو مگدھ یونی ورسٹی گیا سے الگ ہوکر پاٹلی پترا یونی ورسٹی، پٹنہ قائم
ہوئی تو پاٹلی پترا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے پہلے صدر شعبہ ہوئے لیکن دسمبر
2018 ہی میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ شومیِ قسمت کہ ابھی ادب کی خدمت کرنا باقی ہی
تھا کہ مسلسل امراض میں مبتلا ہوتے گئے اور بالا ٓخر 19مارچ 2023کو صبح کے تقریباً
تین بجے محبوب حقیقی سے جاملے۔
Prof.
Mohd Hamid Mahmood Ali Khan
Dept of Urdu, BRA Bihar University
Muzaffarpur- (Bihar)
Mob.: 9431073132
Email.: hamidalikhan546@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں