9/6/23

شمیم حنفی کی کالم نگاری: اویس سنبھلی

 


ماضی قریب میں اردو تنقید کو جن لوگوں نے اعتبار بخشااوراس کے سبب اپنی شناخت مستحکم کی، ان میں شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ 25؍دسمبر2020 کو فاروقی صاحب وبائی مرض کورونا کا شکار بنے تو 6؍مئی2021کو شمیم حنفی۔

شمیم حنفی (17 ؍نومبر 1938 - 6 ؍مئی 2021) ایک معروف نقاد، ڈراما نگار اور اردو ادب میں جدیدیت کے شارح و ترجمان تھے۔تنقید کے حوالے سے ان کا اہم کام،کہانی کے پانچ رنگ، اقبال کا حرف تمنا،قاری سے مُکالمہ، اردو کا تہذیبی تناظر، معاصر تہذیبی صورت حال، تاریخ، تہذیب، تخلیقی تجربہ،جدیدیت،نئی شاعری، اقبال اورعصرحاضر کا خرابہ،منٹو حقیقت سے افسانے تک، میرا جی اور اُن کا نگار خانہ،ادب، ادیب اور معاشرتی تشدداور خیال کی مسافت جیسی اہم کتابیں ہیں اور اسی میں جدیدیت سے متعلق ان کی کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، جدیدیت اور نئی شاعری، اور نئی شعری روایت شامل ہیں۔شمیم صاحب نے ریڈیائی ڈرامے لکھے جو مٹی کا بلاوا، مجھے گھر یاد آتا ہے اور بازار میں نیند کے نام سے شائع ہوئے۔تنقید، ڈرامہ کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے کالم بھی لکھے۔چونکہ شمیم حنفی اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی زبان و ادب پربھی نظر رکھتے تھے، انھیں ادبیات کے علاوہ فنون لطیفہ سے بھی خاصا شغف تھا،اسی وجہ سے ان کے کالم محض حالات حاضِرہ کے ترجمان نہیں ہوتے بلکہ ان کی حیثیت تہذیب و ثقافت کے آئینے کی بھی تھی۔

کالم نویسی کی تاریخ بہت پُرانی ہے۔ادارتی صفحے پر کالموں کا سلسلہ مغرب میں شروع ہوا۔ مشرق میں سجاد حسین کے رسالے’ اودھ پنچ‘ سے اس کی ابتدا ہوئی۔ کالم نگار سیاست، سماجی مسائل، ادبی معاملات اور دیگر اہم موضوعات پر اپنا زاویہ نظر اختصار سے لکھتا ہے۔کالم کے ابتدائی دور میں اخبارات کم تعداد میں شائع ہوتے تھے،ان کے صفحات بھی کم ہوتے تھے۔لکھنے والے بھی کم ہی ہواکرتے تھے۔ اس وقت جید اور بلند پائے کے قلم کار ہی اخبارمیں اہم موضوعات پر لکھتے تھے، جن میں بیشتر نے ادب کی دنیا سے کالم نگاری کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے پیچھے گراں قدر ادبی و علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔وہ ہمیشہ ذمے داری سے لکھتے اور بُردباری کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ ادبی کالم نگاری کا آغاز سجاد حسین کے رسالے’ اودھ پنچ ‘سے ہوا،جس میں مزاح نگاری اور لسانی لطافت سے بھی کام لیا گیا، کالم کے لیے لسانی چاشنی کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں شمیم حنفی کی کالم نگاری کو دیکھا جاسکتا ہے، کہ انھوں نے اسے حالات اور واقعات کا منظرنامہ بنانے کے بجائے علوم وفنون کی دستاویزاور تہذیبی پیکر عطا کیا۔اپنی تنقیدی تحریروں کے علی الرغم کالموں میں صاف و شستہ زبان استعمال کی۔وہ اپنے کالموںکو کس انداز سے دیکھتے تھے؟ خود بیان کرتے ہیں

’’یہ کالم زندگی کے ادوار کی یادگار ہیں۔ طالب علمی کے دور میں اس سلسلے کی شروعات ہوئی۔ کئی اردو اور ہندی اخبارات سے بالواسطہ تعلق رہا۔ گردوپیش کی دنیا میں جو صورت حال رونما ہوتی رہتی ہے، اس کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے رد عمل کو ظاہر کرنے کی ہوک بھی اُٹھتی رہتی ہے۔ زندگی نہ تو میرے لیے خواب ہے، نہ صرف آرٹ اور ادب کے اسالیب کی گرفت میں آنے والی سچائی۔ ادیب کے لیے صحافت کا میدان بھی کھلا ہوتا ہے، بقول جارج آر ویل، ہنگامی حالات میں لکھا جانے والا ادب، سویہ شغل بھی جاری رہنا چاہیے۔ ‘‘

(’یہ کس کا خواب تماشاہے‘مرتبہ خالد جاوید، عرشیہ پبلی کیشن، دہلی2014، ص13)

اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ کالم نگاری کے لیے صرف اس اضطراب کی ضرورت ہے، جو گردو پیش کے حالات سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ہنگامی ادب بھی ہے،جو حالات کے پیش نظر پیدا ہوتا ہے اور سوچ کے دریچے وا کرتا ہے اور اس دریچے سے سوچ کو رد عمل کے طور پر الفاظ کا لبادہ پہنا کر قلبی اضطراب کو باہر نکالنے کا نام کالم نگاری ہے۔ وہی ہوک اور اضطراب شمیم حنفی کے نوک قلم سے بھی کالم نویسی کی صورت میں نکلا، جسے خالد جاوید نے’’یہ کس کا خواب تماشا ہے‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ان کالموں کے بارے میں وہ( خالد جاوید) لکھتے ہیں

یہ کس کا خواب تماشا ہے‘ کی تمام تحریروں کا تعلق انسان سے ہے اور ان کے بنیادی سروکار صرف انسانی ضمیر سے ہی وابستہ ہیں۔ یہ کالم نہ تو محض سیاسی ہیں اور نہ ہی محض ادبی۔ اگرچہ موضوعات کے اعتبار سے یہ سیاسی اور ادبی دونوں کہے جاسکتے ہیں، مگر ہمیں بخوبی یہ علم ہے کہ کالم میں ہمیشہ اپنے ذاتی خیال کا اظہار کیا جاتا ہے اور کوئی بھی خیال اپنے اظہار کے لیے بیان و الفاظ کا محتاج رہتا ہے۔ اگر ان کالموں کے موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کی زبان اور اسلوب پر بھی بغور توجہ دی جائے تو ایک خصوصیت بہت واضح طور پر کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ ہے بیانیہ میں پوشیدہ افسردگی اور ملال کی کیفیت۔ افسردگی اور ملال بغیر انسان دوستی کے کبھی نہیں پیدا ہوتے، اگر کسی تحریر کے بنیادی سروکار ’’انسان‘‘ سے وابستہ نہیں ہیں تو اس میں شائستگی، شوخی، طنزو مزاح اور معنویت سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر افسردگی یا اداسی نہیں۔ شمیم حنفی کی زبان ایک زندہ وجودی تجربے کی بامعنی اور معتبر اداسی ہے جس کے بغیر انسان کا کوئی تعلق نہ تو کسی اخلاقی اقدار سے قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کائنات سے جہاں دوسرے انسان بھی زندگی گزارتے ہیں اور بے جان اشیا بھی اپنا مقام رکھتی ہیں۔‘‘(ایضاً ص15)

مندرجہ بالا اقتباس سے اس بات کی صراحت ہوتی ہے کہ ان کے کالم سیاسی بھی ہوتے ہیں اور ادبی بھی۔ ان کے کالم وقت اور حالات کی نبض پر قلم بیانی تو کرتے ہی ہیں،زبان بھی شیریں اور جادو بیاں ہوتی ہے

’’اردو زبان اور رسم الخط کا مسئلہ تقریباً اتنا ہی اُلجھا ہوا ہے جتنا کہ بابری مسجد کا مسئلہ۔ اس سلسلے میں ایک طرح کی جارحانہ جذباتیت کا اظہار اردو رسم الخط کے حامیوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور اس کے مخالفوں کی طرف سے بھی۔اردو رسم الخط کو پتہ نہیں جان بوجھ کر یا انجانے میں کچھ لوگ فارسی رسم الخط کہنے لگے ہیں۔ گویا کہ بات شروع اس نکتے سے کی جاتی ہے کہ اردو زبان چاہے دیسی ہو، اس کا رسم الخط بہرحال بدیسی ہے۔ راجندریادو نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے مسئلے پر جو معروف اداریہ’ہنس‘ میں لکھا تھا، اس میں اردو کا تذکرہ بھی تھا۔ اس طرح اردو کی فرقہ وارانہ حیثیت کی بالواسطہ طور پر تائید ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ موقف بھی درست نہ تھا، اسی لیے اس کے خلاف رد عمل بھی شدید ہوا۔ راجندر یادو کا کہنا یہ تھا کہ اس وقت سوال اُردو بھاشا کو بچانے کا ہے یا اُردو رسم الخط کو؟

اس ضمن میں ایک بات جو مجھے پریشان کرتی ہے، یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں یہ مطالبہ صرف اردو ہی سے کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ دیوناگری رسم الخط اپنا لے، اپنے بچائو کی خاطر۔ تو کیا صرف جان بچائی جاتی ہے، پہچان نہیں؟۔ تاج محل کاحسن اوردلآویزی کیا صرف اس کی بنائے تعمیر میں ہے، اس کی بناوٹ میں نہیں ہے؟ کیا کسی زبان کا وجود صرف اس کے مواد میں ہوتا ہے؟ اس کے بیرونی اسٹرکچر، اس کے روپ رنگ کا تصور کیا بے معنیٰ ہے؟ رشید احمد صدیقی نے جب یہ کہا تھا کہ مغلوں نے ہندوستان کو تین تحفے دیے۔ اردو زبان، تاج محل اور دیوان غالب، تو کیا ان کے اس قول میں یہ رمز بھی شامل ہے کہ ان تینوں کی حقیقت کا ان کی ہیئت سے، ان کے بیرونی شناس نامے سے کچھ بھی تعلق نہیں؟ کیا کسی انسان کے وجود کی حفاظت ا س کی کھال کھینچنے کے بعد بھی کی جاسکتی ہے؟‘‘ (کالم ’اردو ہندی تنازعہ‘، ص346-347)

شمیم حنفی کی کالم نگاری میں فرد سے لے کر سماج تک نہ جانے کتنے کردار، کتنی چیزیں،کتنے رویے ہیں جو نظر آتے ہیں۔ ان میں کتابوں کا ذکر ہے اور ان لوگوں کا بھی جن کی عمریں کتابوں میں بسر ہوئی ہیں۔ہندستان کے بھر ے پُرے سماج کی طرح اُردو کے علاوہ ادیبوں کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی مختلف النوع دلچسپیاں بھی، مثلاًکرکٹ، کپل دیواور پروفیسر دیوراج،کتابوں کا کمبھ میلے۔ ’مشتے نمونہ از خروارے‘ کے طور پر متذکرہ بالا دونوں کالموں کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں

عجیب اتفاق ہے کہ اس سال عابدصاحب کی برسی کے روز بنگلور میں ہندوستان اور انگلینڈ کا کرکٹ میچ برپا تھا اور اسلام اینڈ دی مورڈن ایج سوسائٹی کی طرف سے غالب اکیڈمی میں اسی روز ڈاکٹر سید عابد حسین لیکچر کی تقریب تھی۔ عابد صاحب کو کھیلوں میں سب سے زیادہ شغف کرکٹ سے رہا۔ بیماری کے آخری زمانے میں بھی بستر پر لیٹے لیٹے کمنٹری سنتے رہتے تھے۔ جن دنوں وہ ’نئی روشنی‘ نکال رہے تھے، انھوں نے ہندوستان اور ایم سی سی کے درمیان ایک میچ پر معرکے کا انشائیہ لکھا تھا۔ اس کا ایک جملہ یاد آتا ہےہندوستانی کھلاڑیوں نے انگریزوں کو وکٹوں کے دوران اتنا دوڑایا، اتنا دوڑایا کہ وہ تھکن سے بے حال ہوگئے۔‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس میچ میں ہماری ٹیم کا کیا حال ہوا تھا۔ اس بار عابد حسین میموریل لیکچر کے لیے فلسفے کے مشہور عالم پروفیسر دیوراج مدعو کیے گئے تھے۔ جلسے کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی اور اس بات سے بہت بے مزہ ہوئے کہ کہاں کپل دیو کا چھکا اور کہا فلسفے کے ایک استاد کی دھیمی دھیمی باتیں۔ طیب جی کمنٹری کا لطف چھوڑ کر جلسے میں آئے تھے اور بہت پچھتائے تھے کہ فلسفہ تو خیر کتابوں میں بھرا پڑا ہے مگر کمنٹری دہرائی نہ جائے گی۔ جلسے کے اختتام پر پروفیسر نثار احمد فاروقی نے شکریے کی تقریب میں طیب جی سے معذرت کی کہ اپنی دلچسپی چھوڑ کے وہ ایک غیر دلچسپ تقریب میں آنکلے تھے۔ پھر فاروقی صاحب نے غالب کا ایک مصرعہ پڑھا

جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں!‘‘

(کالم ’کرکٹ، کپل دیو ار پروفیسر دیوراج‘، ص167)

’’الٰہ آباد کا کمبھ میلہ اور دلّی شہر میں کتابوں کا میلہ، کم سے کم ایک معاملہ میں دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کمبھ میلے کے دوران الٰہ آباد میں لاکھوں یاتریوں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ ہوٹلوں، تفریح گاہوں، سنیما گھروں پر ایک مستقل یلغار۔ سنگم پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ کتابوں کے میلے میں آدم زادوں کی بھیڑ تو ہوتی ہی ہے، مگر اس سے کئی گنا زیادہ، کتابوں کی بھیڑ، ہزاروں چہرے اور لاکھوں کتابیں۔ بچے اور بڑے، نوجوان اور بوڑھے، عورتیں اور مرد جسے دیکھیے اسٹالوں پر پلاپڑرہا ہے۔۔۔‘‘

(کالم ’کتابوں کا کمبھ میلہ‘، ص118)

اس کے علاوہ شمیم حنفی کے کالموں کا وہ قسط وار سلسلہ’چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، جس سے ان کی سیاسی بصیرت اور ادبی منظرنامے پر غیر معمولی نظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔’چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے‘دراصل سارک ممالک کی ادبی کانفرنس(منعقدہ لاہور) کا سفرنامہ ہے۔ اجیت کور ہر برس بڑی پابندی سے اس کا اہتمام کرتی تھیں۔چھ قسطوں پر مشتمل یہ تحریر کئی نسلوں کے دکھ اور سیاسی بے بسی کو سمیٹے ہوئے ہے۔اس تحریر کا آخری اقتباس پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ شمیم حنفی کی زبان میں ایک چاشنی ہے۔ان کی نثر تخلیقی ہے لیکن اس میں جو بصیرت ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے

’’اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم پانچ دریائوں کی سینچی ہوئی اس سنہری، درخشاں، محبتوں سے چھلکتی ہوئی سرزمین تک ایک چھٹے دریا کو پار کرکے پہنچے تھے۔ اس چھٹے دریا کا نام 1947، 1960،1971، کشمیر اور کارگل ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے.....کوئی بھی ایک ندی میں دوبارہ نہیں نہاتا۔ کوئی لہر کہیں ٹھہرتی نہیں۔ کاش یہ چھٹا دریا بھی آگے صرف سراب ثابت ہو!‘‘

(کالم ’چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے‘(چھٹی اور آخری قسط)، ص 400)

شمیم حنفی کے کالموں میںعلم وفن کی ایک دنیا آباد ہے اور ہر کالم ایک نئے جہان معنی کی سیرکراتا ہے۔اپنے ز مانے کے حالات وواقعات اور ادبی مسائل و معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ان کالموں کو پڑھنا ضروری ہے۔ جہاں سیاسی منظر نامہ ہے تو تہذیب وثقافت کا حوالہ بھی ہے، ادب بھی ہے اور ادیب بھی۔ گویا کہ زندگی اور سماج کے جتنے اہم پہلو ہیں، ان میں سے بیشتر ہمیں شمیم حنفی کے کالموںکے مجموعے میں بیک وقت نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے کام کسی شخص کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ان کالموں کو پڑھتے ہوئے یک گونہ مسرت کا احساس ہوتا ہے۔کیونکہ ان میں اپنے ز مانے اور عصر سے باخبری کی متعدد جہتیں موجود ہیں۔لطف کی بات یہ بھی ہے کہ اس میں محض اردو زبان یا ادب کے حوالے نہیں ہیں بلکہ وہ تمام زبانیں اور فنون جن سے شمیم حنفی کا گہرا تعلق تھا ان کالموں میں موجزن ہیں۔ اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ شمیم حنفی کی شناخت میں ایک اہم حصہ ان کی کالم نگاری بھی ہے۔

n

Mohammad Ovais Sambhli

178/157 Barood Khana, Near Lal Masjid,

Golaganj, Lucknow - 226 018 (U.P.)

Mobile: 7905636448

Email: ovais.sambhli@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...