ستیہ جیت رے کی پیدائش 2مئی1921 کو کولکاتا (کلکتہ) میں
ہوئی اور 23 اپریل1992 کو ان کی رحلت ہوئی۔ سنیما پر ان کے نقوش اتنے گہرے اور دیر
پا ہیں کہ کسی نہ کسی موڑ پرہر ہدایت کار ان کی فلموں سے فیضان حاصل کرتا ہے۔ان کا
فلمی سفر ’پاتھیر پانچالی‘(نغمۂ راہ) 1955 سے شروع ہوتا ہے اور ’آگنتُک‘ (اجنبی)
1991 پر ختم ہو جاتا ہے۔اس دوران انھوں نے چھوٹی بڑی کل ملا کر تقریباًچالیس فلمیں
بنائیں جس میں بیش تر کسی نہ کسی کہانی، ناول یا افسانے پر مبنی ہے۔انھوں نے بنگلہ
زبان کے عالمی شہرت یافتہ اورہندوستان کے اکلوتے نوبل انعام یافتہ ادیب گرو جی ربیندر
ناتھ ٹیگورسے لے کربی بھوتی بھوشن بندھو پادھیائے، تارا شنکر بندو پادھیائے اور سنیل
گانگولی وغیرہ کی کہانیوں پر فلم بنائی۔ ستیہ جیت رے محض ایک بہترین فلم ساز ہی نہیں
تھے بلکہ وہ ایک بہترین کہانی کار بھی تھے اس لیے انھوں نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں
پر بھی فلمیں بنائیںجن میں ان کا ناول ’ جے بابا فیلو ناتھ‘ (فِیل دیو ) اور’سونار
کیلا‘ (سنہرا جنگل) بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ منشی پریم چند کے دو افسانے ’ سد گتی‘
اور ’ شطرنج کی بازی‘ پربھی ستیہ جیت رے نے بہترین فلم بنائی۔
ایک اعلیٰ پائے کے ہدایت کار
کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر بہ یک وقت کئی خوبیاں ہونی چاہیے۔ وہ کہانی،ادب،
شعر و شاعری، رقص و موسیقی، زیبائش و آرائش،زبان و بیان اور تخلیقی وجدان جیسی صلاحیتوں
کا متحمل ہواسی لیے اسے بعض معنوں میں جہاز کا کپتان یا کسی ٹیم کا لیڈر کہا جاتا ہے۔
ستیہ جیت رے میں یہ خوبیاں تھیں وہ کہانی کار اور موسیقاردونوںہی تھے جو اپنی فلموں
کے لیے اکثر کہانی بھی لکھ لیتے تھے اورخود ہی میوزک کمپوز کر لیتے تھے اس کے علاوہ
کرداروں کا لباس، پوشاک اور سیٹ بھی اپنے خاکوں کے ذریعے بنا لیتے تھے پھر ان کو اپنی
وضع کردہ وضع قطع میں سلوا کر کرداروں کو زیب تن کراتے تھے۔کسی بھی سین، میوزک، سیٹ،
لوکیشن اور کاسٹیوم کو لے کر کبھی وہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ فلم سازی کاہر پہلو ان
کے دماغ میں بہت واضح رہتاتھا جس سے وہ کسی بھی قسم کے اشکال کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ایک
فن کار یا آرٹسٹ سے وہ کیسی ایکٹنگ کے طلبگار رہتے تھے وہ اداکار یا کردارکے اندر
سے نکلوا لیتے تھے۔ کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنے معیار میں بہترین
کا قائل ہوتے تھے۔وہ کوئی کمرشیل فلم ساز بھی نہیں تھے کہ فلموں کو ذریعہ معاش سمجھ
کر اس کاروبارِ سود و زیاں میں اپنی قسمت آزما رہے ہوں۔ ایسی فلمیں جنھیں عرفِ عام
میںمصالحہ دار اور کمرشیل کہاجاتا ہے اورجن میں میلو ڈرامائی کیفیت ہووہ نہیں بناتے
تھے اس لیے ان کی فلموں کے ناظرین بھی عام اور سوقیانہ قسم کے ناظرین نہیں ہوتے تھے۔
ان کی زیادہ تر فلمیںباکس آفس پر سنیمائی ناظرین کو متاثر نہیں کرتی تھیں البتہ ان
کی فلموں کو ہمیشہ سنجیدہ ناظرین کی تلاش رہاکرتی تھی۔ عام ناظرین فلم میں تفریح کے
متلاشی ہوتے ہیں لہٰذا ان کو اگر زندگی کی حقیقتوں سے رو برو کرایا جائے تو ان کی طبیعت
اُچاٹ ہونے لگتی ہے کیونکہ ان کی اپنی زندگی خودہی بہت سی مشکلوں اور پریشانیوں سے
دوچار رہتی ہے۔’پاتھیر پانچالی‘ اور ’اپراجیتو‘ دونوں ہی فلمیںباکس آفس پر ناکام رہیں
کیونکہ ان میں زندگی کا تلخ حقیقتوں سے سامنا تھا لیکن غیر ملکی فلمی میلوں یا نمائشوں
میں ان فلموںکو اعزازات سے نوازا گیا۔
زمیندارانہ نظام یا جاگیردارانہ نظام کے خاتمے نے اس طبقے
کو بہت کسمپرسی اور دشواریوں میں ڈال دیا۔اس طبقے میں جہاں اور بہت سی خرابیاں رائج
تھیں وہیں کچھ خوبیاں یہ تھیں کہ انھوں نے کچھ فنی روایات اور وراثت کو سنبھال کر رکھا
ہوا تھا مگر جب خود کے جینے کے لالے پڑگئے تو منجملہ فنون کا کیا خیال رکھتے۔’ جلسہ
گھر‘(موسیقی خانہ) 1958 میں وہ بنگالی زمیندارانہ طبقے کی زوال آمادگی کا ماتم کر
تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جہاں جاگیردار طبقہ اپنی روایت اور وراثت کوسینے سے لگائے
ہوئے ہے۔ وقت، حالات اور زمانے کی تبدیلی نے ان کی شان و شوکت اور جاہ و حشم چھین لیا
ہے۔ معاشی حالات کافی بگڑ چکے ہیں مگر وہ اب بھی جاگیردارانہ جاہ و حشم اور دیرینہ
تزک و احتشام میں سانس لے رہے ہیں اور احساس برتری میں مبتلا ہیں۔ ان کے مشاغل، سامانِ
تفریح ا ور فنون لطیفہ بھی اسی زوال آمادگی کا شکار ہو گئے۔ ’ شطرنج کے کھلاڑی‘ ایک
ایسی فلم ہے جس کے ذریعے ستیہ جیت رے نے پہلی مرتبہ بنگالی تہذیب و تمدن سے الگ ہٹ
کر کسی دوسرے تمدن کی عکس بندی کی اور اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ تہذیب و تمدن،ثقافت،
معاشرہ اور اس کے عروج و زوال کو دیکھنے اور سمجھنے کاان کا طریقہ تاریخ نویسوں سے
بالکل الگ ہے۔ وہ کسی ایک خاص فریم میں بندھے ہوئے انسان نہیں تھے بلکہ ان کی فلموں
کی کہانیوں پر غور کرتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ویسے
تو ستیہ جیت رے کی فلموں میں موسیقی کا بہت اہم رول ہے اور وہ فلم کی کہانی کے موڈ
اور مزاج کے لحاظ سے بیک گراؤنڈ یا فور گراؤنڈ یعنی پس منظر یا پیش منظر کے لیے موسیقی
کا انتخاب کرتے ہیں۔
دوردرشن کو دیے ایک انٹر ویو سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ
دیہی یا گاؤں کی کہانی میں فوک میوزک کا استعمال کرتے ہیں جس میں ہندوستانی طرز کے
موسیقی کے آلات استعمال کرتے ہیں جیسے ستار، سرود،مردنگ، طبلہ، بانسری، شہنائی وغیرہ
جبکہ کہانی اگر قصباتی، شہری یا عروس البلادی ہے تو اس میں شہری میوزک کا استعمال ہوتا
ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں میں شہری پس منظر کی کہانیوں میں اول تو بہت مختصر میوزک کا
استعمال کرتاہوں یا اگر کرتا بھی ہوں تو اصل ساؤنڈ، صوت یا آہنگ کا استعمال کر تا
ہوں جس سے پس منظر کی موسیقی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
’پاتھیر
پانچالی‘ (1955) یعنی چھوٹی سڑ ک کا نغمہ فلم سے انھوں نے اپنی سنیمائی زندگی کے سفرکا
آغاز کیاجس کی کہانی بنگلہ زبان کے معروف ناول نگار بی بھوتی بھوشن بندھوپادھیائے
کے ناول’ پاتھیر پانچالی‘ پر مبنی ہے۔ اس فلم سے متعلق ستیہ جیت رے کا کہنا ہے کہ انھوں
نے جب اس فلم کی اسکرپٹ پر کام کیا تو انھیں بہت زیادہ زحمت نہیں ہوئی کیونکہ ناول
کی زبان ہی ایسی تھی جس کو فلمی میڈیم میںکہانی سنانے کے لیے بہت زیادہ تبدیل کرنے
کی ضرورت نہیں تھی۔یہ کہانی بنگال کی دیہی زندگی کے غربت و افلاس کا بڑا ہی دردناک
منظر پیش کرتی ہے جہاںاونچی ذات کے کسان ہری ہرکو معاشی تنگی کے سبب کنبے کی پرورش
میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ فلم میں ہری ہر کی بیٹی درگا کے انتقال کے بعد یہ کنبہ بنارس
کوچ کر جاتا ہے۔اسی طرح ’اپراجیتو‘(1956) بھی معروف ناول نگار بی بھوتی بھوشن بندھوپادھیائے
کے ناول پر مبنی ہے جو کہ پاتھیر پانچالی کا دوسرا حصہ ہے۔یہ فلم بھی بنگال کی دیہی
زندگی کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔یہاں بھی وہی معاشی تنگی پیش کی گئی ہے جس میں ہری
ہر کا بھی انتقال ہو جاتا ہے اور اس کی بیوی یعنی سارباجیا اپنے بیٹے اپّو کو لے کر
واپس بنگال کے ایک گاؤں آجاتی ہے۔اس سلسلے کی تیسری کڑی ’اپور سنسار‘ یعنی اپّو کی
دنیا ہے جو کہ ناول ’ اپراجیتو‘ کے بقیہ نصف حصے پر مبنی ہے جہاں اپوایک قلم کار بننے
کے فراق میں ہے۔
ستیہ جیت کا خاندان بڑا ہی تخلیقی اور فنی ذہن رکھتا ہے
ان کے دادا ایک ماہر موسیقی داں تھے حالانکہ جب وہ محض ڈھائی برس کے تھے اسی وقت دادا
جان کا انتقال ہو گیا اور ان کے والد کا بھی بچپن کے ایام میں انتقال ہو گیا۔ ستیہ
جیت رے کے دادا بچوں کے لیے رسالہ نکالتے تھے اور ان کا پرنٹنگ پریس کا کاروبار تھا
جس کو انھیں والد کے انتقال کے بعد چھوڑنا پڑا کیونکہ اس وقت ان کا کنبہ بھوانی پور
میں رہ رہا تھا مگر والد کے انتقال کے بعدماں کے ساتھ وہ اپنے ماموں کے یہاں مقیم ہو
ئے جہاں ان کی ماں کو بڑی مشقت کرنی پڑتی تھی۔ ماں کڑھائی، دستکاری کے ذریعے ستیہ جیت کی پرورش کر تی تھیں لیکن وہ
کئی خوبیوں کی مالک تھیں وہ موسیقی کے فن میں بھی طاق تھیں۔ ستیہ جیت رے کی چچی ایک
مقبول گلوکارہ تھیں جن کے ذریعے رے کی کئی میوزک اسٹوڈیو تک رسائی ہوئی جن میں ایچ
ایم وی اور کولمبیا جیسی میوزک کمپنیاں شامل ہیں۔ رے بچپن سے ہی ڈرائنگ(Drawing) اور
اسکیچنگ
(Sketching)کرنے لگے تھے جو آگے چل کر ان کی فلمی زندگی
میں بڑے ہی معاون فن ثابت ہوئے۔ ستیہ جیت رے پینٹنگ یا مصوری میں بھی بڑی مہارت رکھتے
تھے حالانکہ انھوں نے اس کے لیے کہیں کوئی ٹریننگ یا تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ستیہ جیت
رے ایک بہترین تخلیق کار بھی تھے انھوں نے فکشن کے تحت بہت سی کہانیاں لکھیں اور بچوں
کی میگزین کے لیے بھی کہانیاں لکھتے تھے جس کو بعد میں متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی
کیا گیا۔ ان کی مصوری میں ٹیگور کے شانتی نیکیتن کا رول رہا ہے جہاں ان کو مصوری، اسکیچنگ
اورڈرائنگ کے لیے ایک معقول اور سازگار فضا میسر ہوئی اور ان کا فن باریکیوں کی بلندی
پر پہنچ گیا۔
وہ ایک خود ساختہ مصور اور خاکہ نگار کے ساتھ ساتھ ایک خود
ساختہ فلم ہدایت کار بھی تھے۔ فلم سازی کی تربیت کے لیے بھی انھوں نے کسی اسکول یا
فلمی ادارے کا رخ نہیں کیا بلکہ امریکی فلمیں دیکھ کر انھوں نے فلم سازی کا کرافٹ یعنی
اس کی بُنت یا تانا بانا سیکھا۔ ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ستیہ جیت رے اتنے ماہر
تھے کہ وہ فلم کو دیکھ کر یہ بتا دیتے تھے کہ فلم کو کس اسٹوڈیو نے بنایا ہے کیونکہ
انھوں نے نامی گرامی اسٹوڈیو کے خصائص اور باریکیوں تک رسائی حاصل کر لی تھی جن سے
فلموں کو پہچانا جاسکتا ہے۔ان کو لوگ پیار سے مانک دا پکارتے تھے۔ سر رچرڈ نے مانک
دا کے متعلق بیان کیا ہے کہ ستیہ جیت رے کے متعلق ایک بات جو امتیازی ہے وہ یہ ہے کہ
فلم میکنگ کے اتنے سارے کام خود انجام دیتے ہیں جسے الگ الگ شعبہ ہائے فن کے ماہرین
انجام دیتے ہیں۔ وہ خود ہی اسکرین پلے لکھتے ہیں، خود ہی میوزک کمپوز کرتے ہیں اور
خود ہی ہدایتکاری بھی کر دیتے ہیں اور کیمرہ بھی خود ہی آپریٹ کر لیتے ہیں۔سیٹ پر
روشنی کیسی ہوگی اس میں بھی ان کا اہم رول ہوگا۔چارلی چیپلن کی طرح وہ خود ہی اپنی
فلم کو ایڈٹ بھی کر لیتے تھے۔
بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ ستیہ جیت رے ایک کہانی
کار بھی تھے اور انھوں نے کہانیا ں بھی خوب لکھیں۔وہ ایک ایسے قلم کار تھے جو اپنے
چہار جانب ہونے والے زمیندارانہ، سیاسی، سماجی اور مذہبی نا انصافیوں سے بخوبی واقف
تھے جس کو انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا بلکہ فلموں میں بھی اس
قسم کے موضوعات کو برتا جس کے لیے ان کو معتوب بھی ٹھہرایا گیا مگر وہ ان سے ذرہ برابر
بھی خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بڑی مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم رہے۔سنیما میں وہ ادب
کے ماننداستعارے اور علامتوں کا بخوبی استعمال کرتے تھے۔ فلم ’ اِ نر آئی ‘ جو کہ
شانتی نیکیتن میں آرٹ کے پروفیسر بینود بہاری مکھوپادھیایائے کی سوانح پر مبنی ہے۔
بینود بہاری ایک نابینا شخص ہیں جن کی ایک آنکھ پیدائش سے ہی خراب تھی البتہ دوسری
آنکھ ترپن برس کی عمر میں موتیا بند کے سبب خراب ہوگئی مگر آرٹ نے ان کی زندگی میں
روشنی برقرار رکھی۔ یہ فلم ہمیں انگریزی زبان کے شاعر جان ملٹن کی یاد دلاتی ہے جنھیں
اپنی آنکھوں کی بینائی سے محرومی نے بڑی ہی مایوسی میں ڈال دیا تھا لیکن ملٹن نے اپنے
دل یا روح کی آنکھ کے ذریعے دنیا کے سر بستہ راز کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی
ہے۔کچھ اسی قسم کا پیغام ہم ستیہ جیت رے کی اس فلم میں بھی محسوس کرتے ہیں۔
گرودیو رابیندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت سے متاثر ہو کر انھوں
نے ’رابیندر ناتھ ٹیگور ‘ پر ایک فلم بنا کر ایک عظیم علمی اور عبقری شخصیت کو بڑے
ہی موثر انداز میںادبی خراج پیش کیا ہے۔بہت سے لوگوں کی طرح ستیہ جیت رے بھی ان کے
پرستاروں میں شامل ہیں۔ فلم میں ان کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلوؤں کی طرف اشارے اور وضاحت کی گئی ہے جن کوستیہ
جیت رے اگر نہ اجاگر کرتے تو دنیا کو ٹیگور کی عظمت کے نقوش کا پتہ ہی نہ چلتا۔ٹیگور
کی پیدائش کے سو برس مکمل ہونے کے موقعے پر ’تین کنّیا‘ ( تین بیٹیاں، 1961) فلم بنائی
جو رابیندر ناتھ ٹیگور کے افسانے ’پوسٹ ماسٹر ‘، ’ مونی ہارا ‘ (گمشدہ زیور) اور ’سماپتی‘
(اختتام) پر مبنی ہے۔ ان تینوں کہانیوں کے متعلق ستیہ جیت رے نے ایک انٹر ویو میں بتایا
تھا کہ وہ گرودیو کی شخصیت اور ان کی تخلیقات سے بے حد متاثر تھے اس لیے انھوں نے ٹیگور
نام سے فلم بنانے کے ساتھ ’ تین کنّیا‘ بنا کر ان کو اپنی جانب سے ذاتی طور پر خراج
عقیدت پیش کیا ہے۔
ادب، تہذیب اور ثقافت کا مطالعہ کرنے والوں کو ستیہ جیت
رے کی فلمیںتاریخ، جاگیرداری،ترقی پسندی اور جمہوریت کا علامتی بیانیہ معلوم ہوگا۔’جلسہ
گھر ‘ سے لے کر ’ شطرنج کے کھلاڑی ‘ تک میں جاگیردارانہ تہذیب اور اس کے اجڑنے اور
مٹنے کا ایک بڑا ہی دل سوز منظر پیش کیا گیا ہے۔ جس میں طبقہء اشرافیہ اپنے زوال پذیر
اقدار سے لپٹے رہنا چاہتا ہے جبکہ تبدیلی یا انقلاب ان کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے
جس سے اشرافیہ طبقے کے نبردآزما ہونے کی سکت معدوم ہو چلی ہے۔’جلسہ گھر‘ (موسیقی خانہ)
بنگلہ زبان کے معروف کہانی کار تاراشنکر بندھوپادھیائے کے افسانے پر مبنی ہے جوکہ اسی
نام سے بنگلہ زبان میں مشہور ہے جبکہ ’ شطرنج کے کھلاڑی‘ پریم چند کے معروف افسانے
’ شطرنج کی بازی‘ پر مبنی ہے اور دونوں کے موضوعات میں ایک نقطے پر یکسانیت معلوم ہو
تی ہے۔ دونوں ہی فلموں میں تاریخ اور سیاست کی زیریں لہریں بھی محسوس کی جاسکتی ہیں
جن پر سوال کیا گیا ہے اور دونوں ہی ہمیں کہیں نہ کہیں غورو فکر کرنے پر مجبور کرتی
ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات میں آخر وقت کی نبض پر ہمارا بس نہیں تھا۔Satyajit
Ray: The Inner Eye کے
مصنف اینڈریو رابنسن
(Andrew Robinson) نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ ستیہ جیت رے
کی فلمیں سنیما کا بیش قیمتی خزانہ ہیں جنھیں ہر کوئی بڑی دلچسپی سے دیکھتا ہے۔سومترا
چٹو پادھیائے جنھوں نے ستیہ جیت رے کی تقریباً چودہ بڑی فلموں میں اداکاری کی ہے ان
کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ ستیہ جیت رے کی فلمیں نئی روشنی یا نئے
سیاق میں دیکھیں گے اور آپ کو ان کی فلموں میں انسانی اقدار کی فتح مندی نظر آئے
گی۔ایسا نہیں ہے کہ رے کا کوئی سیاسی موقف نہیں تھا بلکہ وہ اپنا ایک سیاسی اور سماجی
موقف رکھتے تھے البتہ انھوں نے اپنے سیاسی موقف کو فن یا آرٹ پر ترجیح نہیں دی۔
پنڈت روی شنکر نے ان کی بہت سی فلموں کے لیے سین اور سیچوئیشن
کے لحاظ سے میوزک کمپوز کیا جن میں ’پاتھیر پانچالی ‘،’ اپراجیتو‘،’ پارش پاتھر‘اور’اپور
سنسار‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔اس کے علاوہ استاد اکبر علی خان، ولایت خان جیسے مایہ ناز
موسیقاروں سے بھی اپنی فلموں کے لیے میوزک کمپوز کرائی۔موسیقی میں ستیہ جیت کی مہارت
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کنچن جنگا، ابھیجان، مہانگر، چارولتا، کاپُروش و مہاپُروش، نائک، چڑیا
خانہ ، پرتی دوندی، گوپی گئینے باگا بئینے،
سکم ، بالا، شطرنج کے کھلاڑی، جئے بابا فیلو ناتھ، سدگتی، گھر بائرے، گن شترو
اور آخری فلم ’ آگنتُک‘ تک میں انھوں نے خود ہی میوزک کمپوز کیا۔ان کی اس مہارت پر
پنڈت روی شنکر نے ایک جگہ انٹر ویو میں کہا کہ ستیہ جیت رے کو ہندوستانی کلاسکی موسیقی
کی سمجھ اتنی ہی تھی جتنا کہ وہ مغربی کلاسکی موسیقی سے خاطر خواہ آگاہی رکھتے تھے
اور وہ ایک ایسے ہدایت کا ر تھے جو کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی
مجھے اپنی کمپوزیشن سے باہر جانے دیتے تھے۔
Dr.
Muntazir Qaimi
Dept of Urdu
FAA Govt. PG College
Mahmudabad (Awadh)
Sitapur- 261203 (UP)
Mob.: 8127934734
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں