اردو ادب میں اسلوب احمد انصاری کی حیثیت ایک مستند ناقد
کی ہے۔ وہ شاعری کے ہی نہیں فکشن کے بھی معتبرناقد ہیں نیز ان کی ادبی صحافت کسی تعارف کی محتاج
نہیں۔ وہ انگریزی ادب کے استاد ضرور رہے ہیں مگر ان کی عمر اردو کے عظیم سرمایے کی
تفہیم وتعبیر میں گزری۔
اسلوب احمدا نصاری نے مغربی ادبیات کے علاوہ اردو کے تمام
تر ادبی سرمایے کا گہرا مطالعہ کیا یہاںتک کہ فارسی اور عربی معیار نقد اور ادبیات
سے بھی کسب فیض کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقیدپر اکہرے ہونے کا الزام عائد نہیں
کیا جاسکتا۔ ان کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے کہ وہ مغربی اور مشرقی روایت نقد کے مابین
ایک خاص قسم کا اعتدال اور توازن رکھنے میں بڑی حدتک کامیاب رہے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری ان اہم ترین ناقدوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے
اپنے نظریاتی تنقیدی مضامین میں اردو شعروادب کی تعیین قدر کے لیے عالمی سطح کے طے
شدہ معیارات کی اہمیت اور ضرورت پر اصرار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ہرادب کا ظہور کسی
نہ کسی زبان کے وسیلے سے ہی ممکن ہے اور زبان سماجی اور ثقافتی صورت حال کی زائیدہ
ہوتی ہے لہٰذا ادب کی تعبیر وتفہیم کے لیے اس سے متعلقہ تہذیبی وثقافتی نظام اور لوازمات
کو جاننا ضروری ہے۔ مغربی ادبیات سے گہری وابستگی کے باوجود انھوں نے مغرب کی ادبیات
اور معیار نقد کو مرعوب ہوکر یا فیشن زدگی میںا ردو ادب پر منطبق نہیں کیا۔
اسلوب احمد انصاری نے تنقید کے نظری مباحث میں کسی تنقیدی
نظریے یا رجحان کو یونہی قبول کرنے کے بجائے چھان پھٹک اور غوروفکر کو ترجیح دی ہے۔
ان کے تنقیدی مضامین میں نظریاتی نوعیت کے مضامین میں قدیم اور جدید ادبی رجحانات اور
بہت سے تنقیدی زاویوں کی سائنٹفک انداز میں تعبیر وتفہیم کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے
کہ شعروادب کے تجزیے سے جو عرفان وانکشاف کی منزلیں طے ہوتی ہیں ان کو کسی فارمولے
یا نظریے کے تحت بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود تنقید کا کمال ہے کہ وہ
ادب کے عوامل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اسلوب احمد انصاری کے ادبی اور تنقیدی سفر کا محاکمہ کریں
تو اس کو کئی حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ابتدا میں ان کے یہاں ترقی پسند نقطۂ
نظر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ کسی حدتک وہ اس سے ہٹ کر نفسیاتی طریقۂ کار اور تاثراتی
نقطۂ نظر کو بھی عمل میں لاتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ ان کے اندر ایک واضح تبدیلی محسوس
کی جانے لگتی ہے اور وہ ہیئتی دبستان اور نئی تنقید سے متاثر نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے وقتاً فوقتاً ان
کی یہ تبدیلی ان کے سنجیدہ شعور، عمیق مطالعے، گہری ناقدانہ بصیرت کا پتہ دیتی ہے۔
اس سلسلے میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے مضمون ’اسلوب احمد انصاری کی تنقیدی فکر کا
ارتقا‘ کا یہ اقتباس اس صورت حال کا جائزہ لیتا ہے۔
’’...
بعض مقامات پر ان کے ناقدانہ تصورات میں ترقی پسند نقطۂ
نظر کی گونج بھی سنی جاسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تنقیدی زاویۂ نگاہ کبھی
بھی ترقی پسندی کے سکہ بند تصورات میں پوری طرح اسیر نہیں رہا۔ مگر ادب سے استفادہ
کرنے کی کوشش ضرورکی۔ ‘‘1
آگے لکھتے ہیں:
’’تاہم
ان کی نگاہ یہیں تک محدود نہیں رہتی۔ وہ سماجی اور سائنسی تنقید کی حتمیت پسندی کے
حدود پر بھی سوالیہ نشان قائم کرتے ہیںا ور تنقید کے اس منصب سے غافل نہیں ہوتے کہ
نقاد کو کس طرح اپنی پسند وناپسندسے بلندہوکر تخلیقی عمل میں شامل عناصر کی نشاندہی
میں مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘2
مزید آگے لکھتے ہیں
’’جب
کہ صورت حال یہ ہے کہ وہ تخلیقی عمل کے بارے میں آرتھر کو ئسلر اور بعض دوسرے ماہرین
نفسیات سے اس طرح کسب فیض کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ تخلیقی عمل کے نہاں خانوں تک نقاد
کی جزوی نارسائی کے اعتراف میں ذرا بھی تکلف محسوس نہیں کرتے۔‘‘ 3
اسی بحث کے آخر میں انھوںنے اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا
ہے کہ نئی تنقید کو اردو میں ایک روایت کے طور پر متعارف کرانے کا کام اسلوب احمد انصاری
نے ہی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں
’’انگریزی
تنقید میں آئی۔ اے۔ رچرڈ ان کے بعض تلامذہ اور ان کے بعد نئی تنقید کے بنیاد گزاروں
نے متن کے عمیق مطالعے کی جوروایت قائم کی تھی۔ اردو میں اگر کسی نقاد نے اس روایت
کو ایک رجحان میں کیا ہے تووہ اسلوب احمد انصاری ہیں۔‘‘4
یہ حقیقت ہے کہ اسلوب احمد انصاری نے تنقیدی مفروضات کو
مسلم اور مستند سمجھ کر قبول نہیں کیا بلکہ سیاق وسباق کے اعتبار سے اپنے معیارات پر
نظرثانی کرتے رہے۔ کبھی مارکسی نقطۂ نظر کو قبول کیا تو کبھی تاثراتی تنقیدکا سہارا
لیا تو کبھی نفسیاتی تنقید کے طریق کار کو اپنانے کی کوشش اوربڑی حدتک سائنٹفک اور
نئی تنقید کے عناصر کے اثرات سے بھی متاثر ہوئے اس سے ان کے تنقیدی ذہن کے ارتقا کا
اندازہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں وہ کھلے ذہن کے ایسے ناقد ہیں جنھوںنے عمومی
قسم کے شعورو ادراک پر اپنی تنقیدی تحریروں کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ ان کی تحریریں
گہری بصیرت، کافی غور وخوض اور حساس ذہن کا پتہ دیتی ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کی تنقیدی تحریروں کے پیش نظریہ بات بآسانی
کہی جاسکتی ہے کہ انھوںنے نظریاتی اور اصولی بحثوں پر آغاز میں اور قدرے بعد تجزیاتی
اور عملی تنقید سے زیادہ سروکار رکھا ہے۔ اردو کے عام ناقدوں کی طرح بغیر کسی ثبوت
اور دلیل کے حتمی فیصلے صادر کرنے اورنتائج طے کرنے کے بجائے انھوںنے متن پر ہی اپنی
توجہ مرکوز رکھی اور متن کو ہی اپنے عمیق ترین مطالعے کا محور بنایا۔ ان کا یہ کمال
ہے کہ اردو کے مختلف شعرا وادبا کے افکار اور فنی رموز کی تجزیاتی اور تقابلی طریق
کار سے تعبیر وتفہیم کی۔ اس نوع کی ان کی تنقیدی تحریروں کا بڑا حصہ غالب اور اقبال
کے متون پر مشتمل ہے اور ان دونوں شعرا میں بھی بالخصوص اقبال کی شاعری اور فکر کوترجیح
حاصل ہے۔ ’اقبال کی تیرہ نظمیں‘ اس اعتبار سے بے حد اہمیت کی حامل تصنیف ہے کہ اس کے
ضبط تحریر میں آنے کے وقت تک اردو میں تجزیاتی طریق کار کو استعمال کرنے کا رجحان
عام نہیں ہوا تھا۔ اقبال کی فکر اور شاعری پر ان کے کئی مضامین ہیں۔ انھوںنے اقبال
کی غزلوں اور نظموں کے تجزیے بھی کیے ہیں اور شاعری کے سیاق میں ان کی فکر پر سیر حاصل
گفتگو بھی کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلوب احمد انصاری نے علامہ اقبال کے افکار وتصورات
اور فن کے تمام تر پہلوؤں پر بحث کے سلسلے قائم کیے ہیں۔ افکار اقبال کے حوالے سے
انھوںنے تصور خدا، تصور عشق، تصور فقر واستغنا، تصور خودی، حرکت وعمل، تصور کائنات،
تصور جمال، نظریۂ تعمیر، مسئلہ وجود، نظریہ وجدان، نظریہ زمان ومکان، تصور حیات و
ممات، پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے علاوہ اقبال کی سیاسی بصیرت، مغرب کے مادی نظام پر
ان کے نظریات، اسلام کے نظام اقدار اور روحانیت کو لے کر ان کے خیالات، سیکولرزم، سوشلزم،
فاشزم اور دیگر رجحانات پر ان کی فکر کے تعلق سے بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ یہ تمام
مباحث اقبال شناسی کے باب میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ اسی طرح کلام اقبال کے فنی پہلوؤں
کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے علامت، استعارے کے تفاعل، پیکرسازی اور تجسیم، کردار سازی،
ڈرامائیت اور خاص قسم کے اسطوری انداز کو ان کے کلام کا اہم ترین جزوبتایا۔ اس کے علاوہ
وہ موسیقیت اور غنائیت کو بھی اقبال کے یہاں اہم گردانتے ہیں۔ ان کے لسانیاتی ڈھانچے
کو بھی غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ انھوںنے اپنے مضامین میں علامت اور استعارے کی معنویت
پر گفتگو کرتے ہوئے کلام اقبال میں اس کے مختلف زاویوں سے موجودگی کو فکر اقبال کی
وسعت کا سبب بتایا ہے۔ جیسے کہ لالہ اقبال کے یہاں نمایاں علامتوں میں سے ایک ہے۔ جس
پر اسلوب احمد انصاری نے دو مختلف اور غیر معمولی مضامین تحریر کیے ہیں۔ ان مضامین
میں انھوںنے لالہ کی علامتی معنویت اور کلام اقبال میں اس کے امکانات پر بحث کی ہے۔
اسی طرح وہ اساطیر کی اہمیت واضح کرتے ہیں اور کلام اقبال میں اساطیر کا استعمال یا
مکمل طور پر اساطیری پیش کش پر مبنی نظموں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس نوع کے جائزے اقبال
کو غیر رسمی اور منفرد انداز میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے۔ اسی طرح تصور خدا کے تحت انھوںنے
اقبال کے تصور خدا کو ارتقا پذیر ثابت کرتے ہوئے بندہ اور خدا کے درمیان ایک ربط تلاش
کیا ہے۔ یہاں وحدۃ الوجودی اوروحدت الشہودی نظریے کے ملے جلے اثرات سے ایک نئی صورت
نکلتی نظر آتی ہے۔ جہاں دونوں کی ذات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہوئے بھی بڑی حد تک ایک
دوسرے میں پیوست بھی ہے۔ اسلوب احمد انصاری کا اقبال کے حوالے سے اصرار رہا ہے کہ وہ
محض ایک شاعر یا محض ایک مفکر نہ ہوکر ایک مفکر شاعر ہے۔ انھوںنے ان تمام ناقدین کی
رایوں کو سختی سے مسترد کیا جواقبال کی فلسفیانہ شخصیت کوقبول کرتے ہیںاور ان کی شاعری
پر ان کے تصورات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مختلف مضامین میں وہ مستقلاً اس مسئلے کو
باربار اٹھاتے رہے ہیں۔ انھوںنے متعدد مثالوں اور متون اقبال کے حوالوں سے (باوجود
خود اقبال کے بیان کے کہ وہ ان کو ایک مفکر یافلسفی کے طور پر ہی سمجھا جائے) یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبال اردو کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے عظیم شعرا میں سے ایک ہیں
اور ان کے کلام کی تفہیم وتعبیر کے لیے بذات خود ایک نئے تنقیدی مفروضے یا سانچے یا
فارمولے کی ضرورت ہے۔ اقبال یا غالب جیسے شعرا کے لیے پہلے سے طے شدہ فارمولے کے تحت
تعیین قدر کرنا گمراہی اور ضلالت کا سبب ہوگا۔ انھوں نے اس امر پر توجہ دلائی کہ اقبال
کی فکر اور ان کا فن ایک دوسرے کے اس حد تک معاون اورمحتاج ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے
سے جدا کرکے نہیں سمجھا جا سکتاہے۔ یہاں اسلوب احمدانصاری کا یہ اقتباس درج کرنا ضروری
معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’
اقبال فلسفی بھی ہیں اور شاعر بھی۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک
فلسفیانہ شاعر۔ ان کے فلسفے کی افہام و تفہیم ان کی شاعری کے بعض پہلوؤں کو ادراک
کی گرفت میں لانے میں بڑی حد تک ممد و معاون ہیں اور اس پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس کا
کہنا ہے کہ کوئی شاعر اس وقت تک عظیم کہلائے جانے کا مستحق نہیں، جب تک کہ وہ ایک بڑا
مفکر نہ ہو۔ لیکن یہاں ہمارا سروکار مجرد فلسفے سے نہیں ہے بلکہ اس تفکر سے ہے جو اقبال
کے عمومی مزاج اور شعری مزاج کا جزو لاینفک ہے۔ ‘‘ 5
اقبال کے شاعرانہ امتیازات پر اظہار خیال کے علاوہ انھوںنے
غالب کے ادبی معیارات، شاعرانہ قدر وقیمت پر بھی گفتگو کی ہے۔ غالب کے فکری تصورات
کا جذبہ اور احساس میں ڈھل جانا، باضابطہ منظم فلسفے کا نہ ہونا اور اس کی وجوہات،
کلام میں حسی پیکروں کی کارفرمائی، پیکرسازی کا عمل، استعارے کا تفاعل پر انھوںنے متعدد
مضامین میں گفتگو کی ہے۔ یہ مضامین غالب شناسی کے باب میں نیا اضافہ ہیں۔
اسلوب احمد انصاری نے کلام غالب کے فنی محاسن کو نت نئے
انداز اور مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوںنے غالب کی شاعرانہ تدابیر کاحوالہ
دیا ہے جس کے ذریعے غالب ایک جہان معنی تخلیق کردیتے ہیں۔
استعارے کی بحث مغربی اور مشرقی معیار نقد کا مستقل حصہ
رہی ہے۔ نئی تنقید نے اس بحث کو مزید اہمیت دی اور استعارے کے تفاعل پر خصوصی توجہ
دلائی اور اسے فکر انگیز اور وسیع دائرہ کار پر محیط شاعری کے لیے بے حد اہم تصور کیا۔
اسلوب احمد انصاری نے بھی استعارے کے تفاعل کو اقبال اور غالب جیسے عظیم شاعروں کے
کلام سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انھوںنے استعارے کی اہمیت اور دائرہ
کار کو گہرائی سے سمجھا ہے۔ غالب کی شاعری پربحث کرتے ہوئے استعارے کی اہمیت پر ان
کا یہ اقتباس دیکھتے ہیں
’’استعارہ
کی تخلیق وجود کی اس یگانگت پر مبنی ہے جو انسانی ذہن، اشیا کے درمیان اولین ردعمل
میں محسوس
ہوتا ہے اور اسی لیے استعارے کا کوئی سچابدل تجویز نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر
استعارہ ایک مکمل اور قطعی بیان ہے۔ ایک طور سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مانوس اور جانی
بوجھی اشیا کے درمیان جو چیز ارتباط پیدا کرتی ہے وہ استعارہ ہی ہے۔ اس کی بدیہی خصوصیت
ایجاز اور جامعیت ہے۔‘‘ 6
اسلوب احمد انصاری کا ایک تنقیدی امتیاز متن کی روشنی میں
تقابلی اندازہے وہ ایک زبان کے شاعر یا ادیب کے تصورات وافکار اور فنی پہلوؤں کا دوسری
زبان کے شاعر یا ادیب سے یا ایک ہی زبان کے دوشاعروں کا تقابل کرتے ہیں۔ انھوںنے اپنے
کئی مضامین میں تقابلی تنقید کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ ’غالب اور اقبال‘ اور ’مومن
اور غالب‘ مضامین ایک زبان کے دوشعرا کے مابین تقابل کی عمدہ مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ
’اقبال اور بلیک‘ ایک زبان کا دوسری زبان کے شاعر اور کلام سے تقابل غیر معمولی اہمیت
کا حامل تنقیدی مضمون ہے۔ ان مستقل مضامین کے علاوہ ان کے تمام تر تنقیدی مضامین میں
دوران بحث تقابل اور موازنے کی صورتیں نظر آتی رہتی ہیں۔ وہ شیکسپیئر، گوئٹے، ایلیٹ،
دانتے، بلیک، ورڈزورتھ کو اقبال اور غالب کے بالمقابل کھڑا کرتے ہیں اور بڑی فکر انگیز
گفتگو کرتے ہیں۔ اردو میں اس نوع کے تقابل کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ اسی
طرح وہ ٹامس ہارڈی، موپاساں چیخوف اورایلیٹ جیسے فکشن نگاروں کو قرۃ العین حیدر، عزیز
احمد، شوکت صدیقی، مرزا ہادی رسوا اور نذیر احمد کے سامنے پیش کرتے ہیں اور حتمی نتائج
اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصورات اور نظریات پر بحث کے دوران وہ برگساں، دانتے، گوئٹے،ا
بن العربی، مولانا روم، ڈیکارٹ، لاک، افلاطون، ارسطو، سارتر اور مارکس وغیرہ سے اقبال
کے نظریات کاتقابل کرتے ہیں اورتفہیم وتعبیر کی نئی صورتیں تلاش کرتے ہیں۔ تجزیاتی
صورت میں عملی تنقیدکا ڈھلا ہوا یہ پہلو اسلوب احمد انصاری کے لیے تخصیصی شکل اختیار
کرلیتا ہے۔ غالب اورمومن کے تعلق سے تنقیدی مضامین میں دونوں شعرا کی ایک خوبی نکتہ
سنجی پر گفتگو کرتے ہیں جس کی ایک مثال ملاحظہ ہوں
’’مومن
اور غالب کے یہاں جو عنصر مشترک ہے وہ نکتہ سنجی یعنی Witکا استعمال ہے۔ برطانوی انشائیہ نگار ایڈیسن
نے سب سے پہلے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ نکتہ سنجی دوطرح کی ہوسکتی ہے۔ایک True Wit اور
اس کے بالمقابل
False Witان دونوں کا فرق ہی غالب کو مومن سے ممتاز کرتا
ہے۔‘‘ 7
اسلوب احمد انصاری کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان کی
پہلی ترجیح صرف اور صرف اقبال ہیں۔ انھوںنے دلائل کی روشنی میں انھیں اردو کا بلکہ
دنیا کا عظیم شاعر قرار دیا ہے۔ یہ بات کسی حدتک درست بھی کہی جاسکتی ہے مگر اس امر
سے انکار بھی کیا جاسکتا ہے کہ جہاں انھوںنے اپنی تنقیدی تحریروں میں اقبال کی خصوصیات
اور امتیازات کو دوسروں کی خوبیوں پر فوقیت دی ہے۔ وہیں انھوںنے بعض مفکرین اور شعرا
کو بعض خصوصیات کی بنا پر افضل بھی قرار دیا ہے۔ ان کا یہی انداز ان کو ایک بے لاگ
اور معروضی ناقد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ برگساں اور دانتے کے نظریات سے بحث کرتے ہوئے
انھوںنے دونوں کی اہمیت کوتسلیم کیا ہے اور ان کے نظریات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
ایک جگہ وہ دانتے اور اقبال کا تقابل کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
’’جاوید
نامہ کے شاعر کا شغف ان حوادثات اور کیفیات سے ہے جو کرۂ ارضی پر انسان کا احاطہ کیے
ہوئے ہیں۔ مشرق ومغرب کی سیاست، قوموں کی تقدیر سازی کے پس پشت محرکات، خیروشر کی باہمی
کشمکش، اخلاقی ضابطوں کی بالادستی، کفروایمان کا تنازعہ اور انسانی خودی کے عشق کے
وسیلے سے اثبات اور شعور ذات کی مختلف جہتیں یہی سب موضوعات ہیں جو اقبال کے لیے مرکزی
حیثیت رکھتے ہیں یہ تسلیم کرنے میں البتہ تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اقبال کے ہاں اشاریت
کا رنگ اتنا گہرا نہیں ہے جتنا دانتے کے ہاں۔‘‘
8
اقبال اور غالب کے علاوہ ناصر کاظمی، شکیب جلالی، احمد مشتاق،
شہریار، افتخار عارف اور سید امین اشرف کے شعری کارناموں پر بھی انھوںنے تواتر کے ساتھ
لکھا ہے۔ اس سے ان کی جدید شاعری کے منظر نامے سے گہری واقفیت اور تنقیدی بصیرت کا
اندازہ ہوتا ہے۔ فراق گورکھپوری پر ان کا مبسوط اور وقیع مقالہ اردو تنقید کے باب میں
اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلوب احمد انصاری نے شاعری کے علاوہ اردو فکشن کو بھی اپنی
تنقید کا مرکز بنایا۔ احمد علی، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، اختر انصاری اورراجندر
سنگھ بیدی پر تفصیلی مضمون کے علاوہ ’ اردو کے پندرہ ناول‘ تصنیف سے وہ فکشن تنقید
کو ایک نیا زاویہ اور اعتبار عطا کرتے ہیں۔
بقول شافع قدوائی
'’اردو
کے پندرہ ناول‘نے اردو ناول کی تنقید پر نہ صرف ایک نیا دریچہ وا کیا ہے۔ بلکہ یہ فکشن
تنقید کا ایک نیا محاورہ اور معیار ومنہاج قائم کرتی ہے۔‘‘9
اسلوب احمد انصاری کے تمام تر مضامین فکشن کی روایت، رسومات،
اصول وضوابط پر عمیق مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔ ان کی فکشن تنقید کا معیار بھی نہایت
بلند ہے اور تنقید کی یہ صورتیں زیادہ تر عملی اور تجزیاتی ہیں۔ وہ پہلی بار اس جانب
توجہ مبذول کراتے ہیں کہ’باغ وبہار‘ کی تفہیم کے لیے اس کے اسطوری اپروچ سے واقفیت
ضروری ہے۔ انھوںنے ان محاکمات پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ جن کی نوعیت Archetypalہے۔
اسلوب احمد انصاری ’باغ وبہار‘ کے ایک مکمل حصے کو فنٹاسی کے مماثل بھی قرار دیتے ہیں۔
اس اعتبار سے ’باغ وبہار‘ کا اس نوع کا مطالعہ فکشن تنقید کے باب میں نیا اضافہ ثابت
ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلوب احمد انصاری توبۃ النصوح کو باقاعدہ اردو کا پہلا ناول قرار
دیتے ہیں۔ کرداروں میں اکہرے پن کے باوجود اس کی اہمیت کے قائل ہیں۔ ’امراؤجان ادا‘
کو اودھ کی ثقافتی زندگی کا مظہر خیال کرنے کے بجائے انھوںنے اسے کرداری ناول قرار
دیا ہے اور ناول میں مکالموں کی لسانی ساخت پررک کرگفتگو کی ہے۔ ’میدان عمل‘ میں واقعات
کے بہاؤ میں خلل اور بیانیہ کی منطق میں کمی کی بنا پر کمزور ناول قرار دیا ہے۔ وہ
عزیز احمد کے ناول ’ایسی بلندی ایسی پستی‘ کا موازنہ ہارڈی کے ناول ’ریٹرن آف دی نیٹو‘
اور برونٹی کے ناول ’ودرنگ ہائیٹس‘ سے کرتے ہوئے تقابلی تنقید کی صورت بھی پیدا کردیتے
ہیں۔ وہ ناول میں موجود علامتوں اور استعاروں کو بھی بے حداہم تصور کرتے ہیں اور ناول
کے مجموعی تاثر کو ایک طرح کے ازالہ سحر سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ’آگ کا دریا‘ میں وہ شعور کی رو کی تکنیک کے بجائے ایک نئی اصطلاح
استعمال کرتے ہیں۔ جیسے وہ Shifting Identiesکا نام دیتے ہیں۔ انھوںنے
بلاتامل ناول کے تسامحات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اداس نسلیں، راجہ گدھ، کاروان وجود اور ’دشت سوس‘ میں پراسراریت
اور متصوفانہ تجربے کی اہمیت پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ مجموعی طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ
انھوںنے فکشن کی تفہیم کے نئے گوشوں کو بڑی وضاحت سے تجزیاتی اندازمیں اجاگر کیا ہے۔
شافع قدوائی کی یہ رائے اس مناسبت سے اس بحث کا تتمہ معلوم ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں
’’...اسلوب
احمد انصاری صاحب کی فکشن تنقید بیانیات Narratology کے نئے پہلو ؤں سے آگاہی،
مقدمات کی تدوین، نتائج کے استخراج اور متن سے براہ راست استنباط کے باعث فنی اور معنوی
امکانات کی ایک نئی اور خیال انگیز دنیا کی خبردیتی ہے اور اسلوب صاحب کو فکشن تنقید
کا ایک معتبر نام عطا کرتی ہے۔‘‘10
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلوب احمد انصاری اردو کے ایک
بلند پایہ ناقد اور باذوق قاری ہیں جنھوں نے بے لاگ اور معروضی انداز میں اپنی تنقیدی
تحریریں پیش کیں۔ اردو میں سائنٹفک انداز اختیار کیا۔ متن پر توجہ مرکوز رکھی۔ تجزیاتی
اور تقابلی طریقہ کار کا استعمال کیا۔ نظریاتی تحریروں کے علاوہ عملی تنقید کے عمدہ
نمونے پیش کیے۔ اس نوع کا انداز اسلوب احمد انصاری سے قبل صرف کلیم الدین احمد کی تحریروں
میں دیکھنے کو ملتاہے۔ مگر باقاعدگی سے اس مخصوص طریق کار کو تعبیر وتفہیم کے لیے مروج
کرنے کا کام اسلوب احمد انصاری کا ہے۔ یہ ان کا اختصاص ہے کہ وہ بیک وقت نظری اور عملی
تنقید سے سروکار رکھتے ہیں وہ اقبال شناس بھی ہیں اور غالب شناس بھی۔ انھوں نے شاعری
کے تعلق سے جس قدر عمدہ تنقیدی تحریریں پیش کیںاسی قدر اعلیٰ سطح کی تحریریں فکشن تنقید
کا بھی حصہ ہیں۔ وہ مشرق ومغرب کی روایت نقد میں ایک نوع کا توازن رکھنے میں بھی بے
حد کامیاب رہے ہیں اور انھوں نے کسی مسلمہ رجحان کو خودپر یا اردو کی
عظیم روایت پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
اسلوب احمد انصاری کی تنقید نگاری کا محاکمہ کریں تو چند
باتیں وثوق سے کہی جاسکتی ہیں۔ ان کی تحریریں متن کی تعبیر اور تفتیش کے دوران سخت
قسم کے محاسبے کے عمل سے گذرتی ہیں۔ ان کے یہاں جانب داری یا حمایت کا شائبہ بھی نہیں
ہوتا۔ مجموعی طور پر ان کے تنقیدی رویے میں تجزیاتی انداز غالب ہے لہٰذا ہم اسلوب احمد
انصاری کو نظری ناقد سے کہیں زیادہ عملی اور بالخصوص تجزیاتی ناقد قرار دے سکتے ہیں۔
ان کی تنقید ہمہ وقت تقابل اور توازن کے عمل سے بھی سروکار رکھتی ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں
تقابلی تنقید کا اختصاص قائم ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم اسلوب احمد انصاری کو تقابلی
نقاد کی صف اول میں رکھ سکتے ہیں۔ اقبال ان کا پسندیدہ اور خاص موضوع رہا ہے۔ ان کی
تحریروں کا ایک بڑا حصہ اقبال تنقید سے تعلق رکھتا ہے۔ جو لوگ اقبال کے حوالے سے ان
پر حمایت اور جانب داری کا الزام عائد کرتے ہیں ان کی رائے کو اس لحاظ سے قابل قبول
نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اسلوب احمد انصاری نے اقبال کی ان تخلیقات پر سخت رائے قائم
کرتے ہوئے کمزور اور پست درجے کی نظموں میں شمار کیا۔ جو محض خطابت اورپندو موعظت تک
محدود رہتی ہیں۔ ایسے مواقع پر وہ جواب شکوہ، مثنوی اسرار خودی ورموز بے خودی اور ابلیس
کی مجلس شوریٰ جیسی اہم ترین نظموں میں فنی کوتاہیاں اور بے اعتدالیاں تلاش کرتے ہیں
اور ان میں تخلیقیت کے عناصر نہ پائے جانے کے سبب کمزور نظموں میں شمار کرتے ہیں۔ اس
ضمن میں وہ لکھتے ہیں
’’اقبال
نے بعض ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں بڑی حد تک ایک بین، کھلی ہوئی اور واضح مقصدیت
کی جھلک صاف نظرآتی ہے۔ ان کا دائرہ اثر محدود ہے۔ ان کی دونوں مثنویوں اسرار اور
رموز میں شا عری برائے نام اور نظم نگاری سرتاسر ملتی ہے۔ یہاں اقدار ونظریات کی تشریح
اور وضاحت کی گئی ہے اور تاریخیت سے ان کا رشتہ جوڑا گیا ہے لیکن ان کی تحلیل اور انکشاف
سے کوئی واسطہ نہیں رکھا گیا ہے۔‘‘11
اسلوب احمد انصاری کا یہ کمال ہے کہ وہ اقبال کا صحیح معنوں
میں دفاع کرتے ہیں۔ اقبال کو زمانے تک مذہبی شاعر کے زمرے میں رکھ کر ان کی شاعری کو
غالب اور دیگر شعرا کے مقابلے کمتر قرار دیا گیا ہے۔ اسلوب احمد انصاری نے اس مفروضے
کو یکسر مسترد کیا اور مغربی ومشرقی روایت کو سامنے رکھ کر یہ ثابت کرنے کی کامیاب
کوشش کی کہ دنیا کے عظیم شاعر جیسے کالی داس کی شکنتلا، ٹیگور کی گیتانجلی، فردوسی
کا شاہنامہ اور دانتے کی طربیہ خداوندی، ایسے عظیم فن پارے ہیں جن میں مذہبی فکر اور
روحانی بصیرت موجود ہے اور ان کو اسی سبب استناد حاصل ہے۔ اسی طرح شیکسپیئر، ایلیٹ،
ولیم بلیک، سوفوکلیز، ہومر، ملٹن، ورڈزورتھ، ورجل اور گوئٹے وغیرہ کے یہاں روحانی بصیرت
اور مذہبی فکر بے حد پختہ اور مستحکم نظرآتی ہے اور اس کو ان کے فن پاروں میں ایک
خاص صفت کے طور پر تصور کیا جاتا ہے بلکہ یہ ان فن پاروں کی عظمت کی دلیل بھی ہے۔ انھوںنے
اس امر پر اصرار کیا کہ اقبال کی خلاقیت اور انفرادیت کو وسیع تناظر میں اور عالم گیر
روایت کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے تبھی اقبال کی صحیح معنوں میں تعبیر اور تفہیم
ممکن ہے۔
اسلوب احمد انصاری یقین رکھتے ہیں کہ فن پارے کے اندر ہی
متعین، واضح اور قابل اثبات معانی موجود ہیں لہٰذا ان کو دریافت کرنا اور اس کی قاری
تک ترسیل کرنا ہی تنقید کا مقصد اولین ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھوںنے اپنی تحریروں کا ایک
مخصوص اسلوب رکھا جو معانی ونکات سے پُر، بے حد واضح اور مدلل تھا۔ ان کی تحریروں میں
استحکام اور تیقن کی کیفیت نظر آتی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ بحث کے اختتام پر حتمی نتائج اخذ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ ظاہری
معنویت کو قبول کرنے کے بجائے معانی کی تہہ تک اترتے ہیں۔ لسانیاتی ڈھانچے کی ان کے
نزدیک بہت اہمیت ہے۔ وہ لفظوں کو ایک خاص تہذیبی سیاق میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ ان کی
تحریریں متعین معانی اور نکات سے پُر ہوتی ہیں اور ان میں ایک نوع کی تنظیم اور ترتیب
ہوتی ہے۔ ان کی بحث ایک وحدت میں ڈھل کر ابھرتی ہے۔ ان کا ایک بنیادی وصف معروضیت ہے
اور انھوںنے اس کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ان کی تنقید ی تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ بات
پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کا یہ دعویٰ مبنی پر صداقت ہے۔ وہ ’اندازے‘ کے پیش
لفظ میں رقم طراز ہیں
’’یہاں
عمومیت یعنی
Generalitiesپامال تراکیب یعنی Cliches بے عمل تزئین وآرائش یعنی
غلو اور لفاظی سے احتراز برتا گیا ہے۔ ان کا کوئی شائبہ ان تحریروں میں نہیں ملے گا۔
فقرہ طرازی اور مہمل لفظیات کا استعمال اردو کے بیشتر نقادوں کا طرۂ امتیاز اور بین
عیب ہے۔ اس تکیہ کلام کی جب چاٹ پڑجاتی ہے۔ تو وہ پھر جیتے جی ساتھ نہیں چھوڑتی اور
تنقید نگاری کی موزونیت اور وقعت کو مجروح کرتی اور نامعتبر بناتی ہے... ا ن مضامین
میں راقم الحروف کا رویہ نہ Cantankerous یعنی جھگڑالوپن کا ہے اور
نہ بلا وجہ طرف داری کا یعنی Discriminatory یہاں اعتدال، توازن اور حزم
واحتیاط کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یعنی محاکموں تک پہنچنے کے لیے معروضیت برتنے کی حتی
الامکان کوشش کی گئی ہے۔‘‘ 12
انھوں نے ادب کے باذوق قاری کی طرح واحد متکلم کے صیغے سے
بھی احتراز کیا ہے۔ اور یہی ان کی خوبی بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو اس قسم کی جانب
داری اور تعلّی سے بچا لینے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔
حواشی
پروفیسر اسلوب احمد انصاری
نقاد اور دانشور،مرتبہ شاہد ماہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی
دہلی، 2008، ص 30
ایضاً، ص31
ایضاً، ص32-33
ایضاً، ص 51
اقبال حرف و معنی، اسلوب احمد انصاری، ایجوکیشنل بک ہاؤس
علی گڑھ، 1998، ص 214
نقش ہائے رنگ رنگ،غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی، 1998، ص
110-11
ایضاً، ص221
نقش اقبال،اسلوب احمد انصاری،
مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، 1979، ص 132
پروفیسر اسلوب احمد انصاری
نقاد اور دانشور،مرتبہ شاہد ماہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی
دہلی، 2008، ص132
ایضاً، ص 141
اقبال کی منتخب
نظمیں اور غزلیں، اسلوب احمد انصاری، غالب اکیڈمی نئی دہلی، 1994،5-6
اندازے، اسلوب احمد انصاری، یونیورسل بک ہاؤس، علی گڑھ،2008،
پیش لفظ
Dr. Nazrana Shafi Mohd Shafi Hurra
Gund Jahanhir. Hajin
Bandipora - 193501 (J&K)
Mob.: 6005272845
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں