14/6/23

شمیم حنفی اور جدیدیت کی فلسفیانہ اساس: طاہر حسین



’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ پروفیسر شمیم حنفی کی وہ شاہکار کتاب ہے جس سے انھیں اردو کے ادبی منظرنامے پر وقار و اعتبار حاصل ہوا۔یہ کتاب دراصل ان کے ڈی لٹ کا تحقیقی مقالے ہے جو انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں 1974 میں پروفیسر آل احمد سرور کی نگرانی میں تحریر کیا تھا۔ اس مقالے کا اصل عنوان ’بیسویں صدی کی اردو شاعری میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، ہے۔ سات ابواب پر مشتمل یہ طویل مقالہ جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو اسے دو نیم کر دیا گیا۔ابتدائی چار ابواب جن میں مشرق و مغرب میں جدیدیت کی ارتقائی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کے فکری و فلسفیانہ مباحث کا نہایت تفصیلی اور معروضی تجزیہ کیا گیا ہے وہ ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ کے نام سے شائع ہوئی۔آخری تین ابواب جن میں اردو کی جدید شاعری کا مطالعہ کر کے اس میں جدیدیت کے حوالوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ’نئی شعری روایت‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ہندوستان میں یہ دونوں کتابیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے بالترتیب 1976  اور 1978 میں شائع کی ہیںجب کہ پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے انھیں ایک ہی کتاب کی صورت میں ’جدیدیت اور نئی شاعری ‘کے نام سے 2008 میں شائع کیاہے۔ یہ دونوں کتابیںجدیدیت کے فکری اور نظریاتی مباحث کو سمجھنے میں نہ صرف یہ کہ بنیادی حوالہ کا درجہ رکھتی ہیں بلکہ یہ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔اس لیے کہ یہ کتابیں اس وقت منظر عام پر آئیں جب جدیدیت کے مباحث ابھی بہت واضح نہیں تھے اور اردو میں اس پر بہت کچھ لکھا نہیں گیا تھا،بلکہ جدیدیت ابھی تشکیل کے مراحل سے ہی گزر رہی تھی اور لوگ اس کی مخالفت و موافقت میں بر سرِپیکار تھے۔خود شمیم حنفی کے بقول

’’جن دنوں یہ مقالہ ترتیب دیا جا رہا تھا جدیدیت کا ہنگامہ زوروں پر تھا،کچھ عالم فاضل لوگ اسے خلاصۂ کائنات سمجھنے پر مصر تھے اور کچھ اسے یکسر مسترد کرنے پر بضد۔ میری حیرانی نے اکسایاکہ انتہا پسندانہ رایوں کے اس شور میںنئی حسّیت کا معروضی تجزیہ کیا جائے اور ان عناصر کا سراغ لگایا جائے جو اسے فکری اساس فراہم کرتے ہیں۔‘‘ (نئی شعری روایت شمیم حنفی، ص 11)

شمیم حنفی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے موافق اور مخالف دونوں طرح کے بیانات کا نہایت غیر جانبدارانہ اور معروضیت پر مبنی عالمانہ محاکمہ کر کے حقیقت اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ان کتابوں کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر ہی شمس الرحمن فاروقی نے انھیں بیسویں صدی کے دوران چھپنے والی چند اہم کتابوں میں شمار کیا ہے اور ناصر عباس نیّر نے جدیدیت کی فلسفیانہ اساس کو جدیدیت کا Megnum Opusقرار دیا ہے۔

جدیدیت گرچہ ایک عالمگیر رویہ تھا لیکن اس کے بنیاد گزار یا یوں کہیے کہ اس کے بنیادی مباحث کو قائم کرنے والے لوگ چونکہ مغربی مفکرین ہیںاس لیے شمیم حنفی نے اس موضوع سے متعلق مواد کی تلاش اور ترتیب میں اصل مفکرین کی آرا کوہی بنیاد بنا کر تجزیہ کیا ہے۔اپنی گفتگو کو مدلل اور مستند بنانے کے لیے شمیم حنفی نے جگہ جگہ مغربی مفکرین کی آرا کو نقل کیا ہے اور حوالہ جات کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے جس کی وجہ سے بقول پروفیسر عتیق اللہ اور وارث علوی، کتاب اچھی خاصی گنجلک ہو گئی ہے۔

اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں شمیم حنفی نے جدیدیت پر باقاعدہ گفتگو سے پہلے مشرق و مغرب کے ان تمام فکری و فلسفیانہ افکار اور ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لیا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر جدیدیت کے لیے راہیں ہموار کر رہے تھے اور اس کی ماحول سازی میں کسی نہ کسی طرح شریک ہو رہے تھے۔ اس کتاب میں انیسویں اور بیسویں صدی کے علمی،فکری، تاریخی،سیاسی،سماجی،معاشرتی،تہذیبی اور ثقافتی حوالوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جو جدیدیت کی تشکیل کے پس منظر میں کارفرما رہے ہیں۔شمیم حنفی نے اس کتاب میں جدیدیت کی تعریف،جدیدیت اور تجدد میں فرق،جدیدیت کی تاریخ اور اس کے جواز سے متعلق نہایت تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔انیسویں اور بیسویں صدی میں بدلتے ہوئے مذہبی افکار و خیالات ہوں یا ترقی پسند مفکرین کے نظریات،ماہرین نفسیات ہوں یا تاریخیت و نو تاریخیت کے علمبردار، سیاسی مدبرین ہوں یا فنی مفکرین اس عہد کو متاثر کرنے والے ان تمام علمی و فلسفیانہ افکار کا جائزہ لے کر اس کتاب میں جدیدیت کی بنیادوں کو تلاش اور قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شمیم حنفی کے خیال میں جدیدیت کے اسباب تہذیبی،سماجی،معاشرتی،اور فکری و نفسیاتی بھی ہیں۔ بیسویں صدی کے ماحول نے زندگی سے متعلق کچھ نئے اور تازہ افکار کو جنم دیا جس کے نتیجے میں خود بخود فکر و فن کے ایسے معیار بھی سامنے آئے جن کی نوعیت و ماہیت عام فکری و فنی اور شعری رجحانات سے مختلف تھی۔ پھر جدیدیت کے جواز اور اس کے ایک ادبی ڈسکورس بننے کے بارے میں شمیم حنفی کا خیال ہے کہ دراصل انسانی زندگی اور کائنات کے تعلق سے کوئی بھی طرز نظر اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرتا اور عالمی سطح پر اس وقت تک اپنی اہمیت و مقبولیت کو قائم نہیں کر پاتا ہے جب تک کہ اس کی بنیادیں حقیقی اور سچّی نہ ہوں۔چنانچہ جدیدیت کے ایک عالمگیر ادبی و فلسفیانہ ڈسکورس کا حصہ بننے کے پیچھے بھی یہی عنصر کارفرما ہے کہ یہ ذات و کائنات کے ساتھ ایک مربوط اور منظم رشتہ رکھتی ہے اور اس کی تفہیم و تشریح کے کچھ نئے زاویے فراہم کرتی ہے جن سے سر مو روگردانی کرنا خود اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف عمل ہے۔

شمیم حنفی نے جدیدیت اور تجدد کے مابین اس فرق کی بھی وضاحت کی ہے جسے مد نظر نہ رکھنے کے سبب انھیں خلط ملط بھی کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کئی غلط فہمیاں راہ پاگئی ہیں۔اردو دنیا کا ایک بڑا حلقہ ایسا بھی ہے جو جدیدیت کو محض قدامت کی ضد اور ہر پرانے خیال کے بالمقابل نئے خیال کو جدیدیت سمجھتا ہے۔چنانچہ مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کی نئی شاعری (نظم جدید) کی تحریک کو بھی کچھ لوگوں نے جدیدیت کے نام سے ہی مو سوم کیا ہے۔لیکن شمیم حنفی کہتے ہیں کہ

’’جدیدیت جدید کے اس تصور سے کوئی تعلق نہیں رکھتی جس کی اساس پر حالی اور آزاد کی جدید شاعری کا ایوان قائم کیا گیا تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 16)

یہ ایک نہایت دلچسپ اور حیرت انگیز بات ہے کہ شمیم حنفی نے کتاب کے پہلے ہی باب میں دوسرے ناقدین اور دانشوران کے بر عکس جدیدیت کے لیے Modernity اور تجدد پرستی کے لیے Modernism کا لفظ استعمال کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ادب اور فنون لطیفہ کے تناظر میں جدیدیت ایک خاص قسم کا ذہنی اور تخلیقی رویہ ہے جبکہ تجدد پرستی کے مضمرات تاریخی اور مذہبی ہوتے ہیں۔تجدد پرستی کا تصور زمانی تقسیم اور وقت کے حوالوں کا محتاج ہوتا ہے اور ہر وہ نیا رویہ جو گزشتہ سے گریز اور انحراف کی صورت اختیار کرے وہ تجدد ہے۔گویا تجدد پرستی معاصریت کی ہم معنی ہوئی اور گزرے ہوئے زمانے کی وہ تمام حقیقتیں اور سچائیاں جن کو آج کا ذہن قبول کرنے سے گریز کرتا ہے وہ قدیم ٹھہرتی ہیں۔جدیدیت اس کے بر خلاف وقت کی اس میکانیکی تقسیم کو قبول نہیں کرتی  بقول شمیم حنفی

’’جدیدیت فی الاصل موجودہ عہد کے شعور اور وقت کے اس حصار میں گھرے ہوئے انسان کی عارضی اور ابدی الجھنوںاور اس کے تہذیبی رویوں اور تخلیقی میلانات کا ایک نا گزیر رخ ہے۔‘‘

 (جدیدیت کی فلسفیانہ اساس شمیم حنفی، ص 12)

اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو اردو میں تجدد پرستی کی روایت سر سید،حالی اور آزاد سے لے کر آج تک ہر عہد میں ہوتی رہی ہے۔حالی اور آزاد نے روایتی شاعری سے بغاوت کرتے ہوئے جس نئے شعری منشور کی وکالت کی تھی اور جس کی ترجمان شاعری کو اس وقت جدید شاعری کہا گیا تھاآج وہ ہماری شعری روایت کا حصہ بن گئی ہے۔حالی اور آزاد کی شاعری ہو یا بعد کی ترقی پسند شاعری اس کے پس پشت ہمیشہ ایک سماجی،معاشرتی یا اخلاقی تصور کار فرمارہا ہے اور اس کا ایک واضح نصب العین بھی رہا ہے۔اس کے بر خلاف جدیدیت کی ترجمان شاعری (جسے شمیم حنفی نئی شاعری کہتے ہیں)کے سامنے نہ کوئی سماجی و اخلاقی منصب ہے اور نہ ہی کوئی واضح دستور العمل جس کی پاسداری سے کوئی شاعر نیا یا جدید شاعر کہلایا جا سکے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جدید یا نئی شاعری کا کوئی فکری اور نظریاتی وجود نہیں ہے بلکہ بقول شمیم حنفی

’’فکری سطح پر جدیدیت کا منظرنامہ اتنا وسیع و بسیط ہے کہ متضاد عقائد و افکاراور ذہنی و جذباتی رویوںکے لیے بھی اس میں یکساں گنجائش نکل سکتی ہے اور فنی سطح پر نئی شعری جمالیات کی جہتیں اتنی کثیر ہیں کہ اظہارو بیان کی مختلف النوع ہیئتوں کو بیک وقت اس سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (نئی شعری روایت، ص 16-17)

شمیم حنفی نے اگر چہ جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادیں بیسویں صدی کے پورے علمی و ادبی ماحول میں تلاش کی ہیں اور مشرق و مغرب کے ان تمام حالات و حادثات کا جائزہ لیا ہے جنھوں نے جدیدیت کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اس سلسلے میں جدیدیت کے دیگر مفکرین کے بالمقابل شمیم حنفی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی کی مغربی فکر اور بالخصوص جدیدیت کے دھاروں کو مشرق میں مہاتما گوتم بدھ کے افکار و نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغربی افکار کی تشکیل میںزین بدھ مت کا کلیدی رول رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں وجودیت کا فلسفہ سب سے اہم اور قابل ذکر ہے جس نے جدیدیت کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔شمیم حنفی کے مطابق وجودیت بیسویں صدی کا سب سے اہم،منظم،معنی خیز اور مؤثر فلسفہ ہے۔ اس لیے کہ اس فلسفے نے جہاں ایک طرف نئے عہد کے انسان اور اس کے وجود کی حقیقت کو سمجھنے کے کچھ نئے پیمانے فراہم کیے تو وہیں دوسری طرف انسان کے تخلیقی اظہار کی قوتوں کو بھی بے حد متاثر کیا۔شمیم حنفی نے وجودی مفکرین خاص کر ہائڈیگر،کر کے گارڈ، سارتر، نطشے،کامیو،مارسل اور بوبر وغیرہ کے خیالات کا تفصیلی جائزہ لے کر ان میں مقامات افتراق و اشتراک کی نشاندہی کی ہے۔شمیم حنفی کے مطابق وجودی مفکرین میں بہت سارے معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن پر تمام وجودی مفکرین متفّق نظر آتے ہیں ایک جوہر پر وجود کی فوقیت اور دوسرے فرد کی انفرادی آزادی۔ اس لیے کہ وجود پر جوہر کو فوقیت دینے سے انسان کچھ طے شدہ ا قدار اور خصوصیات کا استعارہ بن جاتا ہے اوراپنا انفرادی وجود کھو دیتا ہے۔چنانچہ جب انسان کا انفرادی وجود ثابت ہو جائے تو پھر انفرادی آزادی کے بغیر انسانی وجود کی تخلیقی توانائیوں کا بھر پور اظہار نہیں ہو سکتا۔اسی لیے جدیدیت فرد کے وجود اور اس کی تخلیقی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور سماجی و اجتماعی تجربات و مسائل کو انفرادی بنا کر پیش کرنے کی وکالت کرتی ہے تاکہ فن کی آزادانہ حیثیت اور خود مختاریت قائم ہو۔

جہاں تک جدیدیت کے نقطہ آغاز کا سوال ہے تو شمیم حنفی کے مطابق مغربی شعر و ادب میں نئی فکر اور نئی حسیت کے زاویوں کا احساس انیسویں صدی کے اواخر سے ہی ہونے لگا تھا لیکن جدیدیت کے باقاعدہ خد و خال مغربی شعرا کے یہاں بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی سے نظرآ جاتے ہیں۔اردو شاعری میں جدیدیت کا باقاعدہ آغاز گرچہ بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی سے ناصر کاظمی اورخلیل الرحمن اعظمی کے یہاں سے ہوتا ہے تاہم اس کے ابتدائی نقوش کی نشاندہی اس سے پہلے کے شعرا یعنی علامہ اقبال،ن م راشد اور میراجی کے یہاں کی جاسکتی ہے۔

جدیدیت کی فلسفیانہ اساس کا دوسرا حصہ جو نئی شعری روایت کے نام سے منظر عام پر آیا وہ اردو کی جدید شاعری کے تفصیلی مطالعے پرمشتمل ہے۔اس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو کے کن شاعروں کے یہاں جدیدیت کا رجحان پنپ رہا تھا اور ان کی شاعری کے وہ کون سے عناصر تھے جو اسے روایتی شاعری کے حصار سے نکال کر جدید شاعری کے زمرے میں رکھنے پر مجبور کرتے تھے۔اس ضمن میں شمیم حنفی نے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہے کہ اردو کے جدید شعری سرمایے کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے ان نئے عناصر کی نشاہدہی کی ہے جو روایتی شاعری سے ایک طرح کا انحراف ہیں اور ایک جہان تازہ کی خبر دیتے ہیں۔بقول شمیم حنفی

’’اس مقالے میںدراصل نئی شاعری اور بیسویں صدی کے فلسفیانہ افکار کے مابین اسی رشتے یا مماثلت کے پہلوؤں کی دریافت کی جائے گی۔مقصد یہ نہیں کہ نئی شاعری کے نمائندہ عناصرکو فلسفیانہ افکار کے کسی چوکھٹے میںکھینچ تان کر سمو دیا جائے اور نئی شاعری کو معاصر فلسفوں کا مترادف قرار دے دیا جائے،بلکہ یہ کہ نئی شاعری سے جو خصائص وابستہ کیے جا سکتے ہیںان کی فلسفیانہ بنیادیں تلاش کی جائیں۔‘‘ (جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، ص 70)

شمیم حنفی نے جدیدیت کے عناصر کی نشاندہی جدیدیت کے باقاعدہ آغاز سے قبل علامہ اقبال،میراجی اور ن م راشد کے یہاں بھی کی ہے۔نئی شعری روایت میں اقبال اور جدیدیت کے مغربی مفکرین پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور شعر اقبال کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں جدیدیت کا رنگ نمایاں ہے۔اقبال کی جدیدیت کے بارے میں شمیم حنفی کہتے ہیں کہ

’’یہاں اس سوال سے بھی بحث نہیں کہ اقبال نے وجودی مفکّروں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا یا ان سے بالواسطہ طور پر متعارف ہوئے تھے۔یہاں صرف یہ حقیقت مد نظر ہے کہ اقبال کی فکر میں ارادی یا غیر ارادی سطح پر وجودی فکر کے ان عناصر کی باز گشت ضرور سنائی دیتی ہے جن سے جدیدیت کا فکری خاکہ معمور دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (نئی شعری روایت، ص 27)

اسی طرح شمیم حنفی نے ن م راشد اور میرا جی کی شاعری کا مطالعہ کرکے اس میں نئے تخلیقی تجربات اور نئے شعری احساس کی ترجمان شاعری کی نشاندہی کی ہے جو ایک طرف بالکل ایک نیاشعری منظرنامہ تخلیق کرتی ہے تو وہیں دوسری طرف یہ نئی جمالیات اور نئے انسانی اقدار سے بھی متعارف کراتی ہے۔

اس کے بعد شمیم حنفی نے جدید شاعروں میں خلیل الرحمن اعظمی، ناصر کاظمی، عمیق حنفی،منیب الرحمن، مختار صدیقی، افتخار جالب، شمس الرحمن فاروقی، ضیا جالندھری، محمد علوی، زاہد ڈار، انیس ناگی، ساقی فاروقی، شہر یار، شکیب جلالی، کمار پاشی، سلیم الرحمن، محمود ایاز، منیر نیازی، باقر مہدی، احمد مشتاق، ظفر اقبال اور وحید اختر وغیرہ کی غزلوں اور نظموں کا باقاعدہ مطالعہ کر کے ان میں جدیدیت کے اثرات کی نشاندہی کی ہے۔شمیم حنفی کے خیال میں نئی شاعری میں فکری مماثلت کے باوجود زبان و بیان اور صیغۂ اظہار کی تعیین ہر شاعر کی انفرادی استعداد سے مشروط ہے۔نئی شاعری نہ طے شدہ نتائج کی پابند ہے نہ کسی بیرونی ہدایت نامے کی پیروکار،بلکہ یہ شاعری جدید عہد کے انسان کی نفسیاتی اور داخلی الجھنوں کے ساتھ ساتھ اس عہد کے سماجی اور تہذیبی بحران کا اعلامیہ ہے۔ بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں،سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، عقلیت پسندی، اشتراکی حقیقت نگاری اور پھر ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات نے جو خوف،بے چینی اورداخلی ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی تھی،جدید شاعری ان تمام موضوعات و مسائل کے بیان سے عبارت ہے۔

Tahir Husain

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001

Mob.: 8492026733

Mob.: tahirh123@yahoo.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...