19/6/23

یہ کیسے ممکن ہے کہ رسم الخط کے بغیر اردو زندہ رہ جائے گی: حبیب کیفی

سوال  زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں ؟

جوابمیرا یہ خیال ہے کہ بات کی شروعات منفی پہلو سے نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم سوال جب سامنے ہے تو اس کا معقول اور موزوں جواب بھی ہونا چاہیے۔ زبانوں کی اموات کی وجوہ اصل میں ان سے بے رخی کے علاوہ ہماری لاپرواہی کو بھی گردانا جا سکتا ہے۔ بے رخی ان معنوں میں کہ دانستہ ہم اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس شیریں زبان کا جادو اسے نہ جاننے والوں کے سر چڑھ کر بھی بولتا ہے۔ نہ جاننے سے مراد  رسم الخط سے ہے۔ رسم الخط سے ناواقفیت کے باوجودکثیر تعداد میں لوگ اردو بولنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم اردو دانوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ زبان کو زندہ رکھنے کی خاطر اس قبیل کے لوگوں کا گرم جوشی اور خوش مزاجی کے ساتھ خیر مقدم کریں۔ ظاہر ہے کہ اس پہل سے وہ اردو سے اور زیادہ قریب ہوں گے۔یہ اثباتی قدم اردو کو نہ صرف زندہ رکھنے بلکہ سندِ قبولِ عام دلانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ یہ تو جگ ظاہر ہے کہ کسی بھی زبان کی بقا اور زندگی کے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال بھی ہونا ضروری ہے۔

سوال  زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے ؟

جواباس سوال کا جواب اوپر والے پہلے سوال سے ہی منسلک ہے۔ اسی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک بار پھر یہ دہرادینے کی ضرورت ہے کہ اردو کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیے جانے کی ضرورت ہے۔اردو کے ضمن میں یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ بڑی تعداد میںکم فہم لوگ شعر و شاعری یا زیادہ سے زیادہ داستانوں اور افسانوں تک ہی اسے محدود مانتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیگر ترقی یافتہ زبانوں ہی کی طرح اردو میں بھی تمام اہم علوم کے ساتھ ہی اس میں آج جدید ترین ٹکنولوجی اور سائنس کے علاوہ دیگر ضروری مضامین کی تعلیم و تربیت کا بھی معقول انتظام ہے۔

مسئلہ یہاں اردو کے تعلق سے روزگار کا بھی ہے۔ یہ بڑا ہی اہم مسئلہ ہے جو انسانی زندگی اور اس کی بقا سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی تو ہے لیکن اس کی بقا کے لیے روزی روٹی کا انتظام ہی نہیں ہے تو ایسی زندگی تو بالعموم موت سے بھی بدتر بن کر رہ جایا کرتی ہے۔ حالات اور سوالات ہمارے سامنے ہیں۔ آج جب کہ اردو صرف شعر و شاعری اور داستانوں یا افسانوں ہی کی زبان نہیں ہے بلکہ اس میں تمام علوم کی درس تدریس کا معقول انتظام ہے تو محبانِ اردو کو روزگار سے جوڑنے والی تعلیم اور علوم سے بھی جوڑ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اردو کے حوالے سے روزی روٹی کے مسئلے مسائل اگر حل ہو جاتے ہیں تو پھر کسی خاص دیگر مہم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آدمی کی بنیادی ضرورتیں جب پوری ہونے لگیں گی تو اس کا رجحان از خود ہی اس طرف بڑھے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔اس طرح اس طریقے سے بھی اس زبان کو زندہ رکھا جا سکتاہے نیز اس کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

سوال  زبان کا تہذیب و ثقافت سے کیسا رشتہ ہے ؟

جوابچولی دامن کی بات یہاں ایک دم فِٹ بیٹھتی ہے۔تہذیب و تمدن کا تعلق زبان سے ہے۔اس کی کئی ایک مثالیں بھی بے حد ہی قدیم تہذیبوں کے اُجاگر ہونے سے معلوم ہوتی ہیں۔اس کی زندہ مثالیں  ’مایا‘  اور  ’مون جو داڑو‘  کی تہذیبیں ہمارے سامنے ہیں۔ دیگر بے شمار برتنوں، آلات اور اوزاروں وغیرہ کے علاوہ پڑھی نہ جا سکنے والی زبانوں کا بھی یہاں پتہ چلا ہے۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ ان زبانوں کو پڑھ کر سمجھ لینے کے بعد راز افشا ہو جائیں۔پھر بھی یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اس طرح بھی تہذیب و ثقافت کے رشتے کو سمجھا جا سکتا ہے۔

دورِ حاضر میں بھی ہم جس تہذیب کی بات کرتے ہیں اس میں زبان کا نہ صرف اہم کردار ہے بلکہ زبان کو جزوِ لا ینفک کی صورت میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں ( اور مانتے بھی ہیں ) کہ اردو خود اپنے آپ میں ایک ترقی یافتہ تہذیب کا نام ہے۔ کیا برا ہے اگر اسے ایک حقیقت تسلیم کر لیا جائے۔اس کے متعلق مفصل باتیں بھی کہی جا سکتی ہیں نیز یہ کہ اسی ایک موضوع پر مفصل بحث و مباحثے کی بھی ضرورت ہے۔

سوال  کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ بھی جۡڑا ہوا ہے  ؟

جواب وراثت کی بات اصل میں ماضی و حال سے تعلق رکھتی ہے اور تحفظ کا جہاں تک تعلق ہے وہ مستقبل کی بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحفظ کس کا اور کس کے لیے ؟ جواب ظاہر ہے کہ یہی ہوگا کہ بیتے ہوئے (ماضی) اور ابھی (حال ) کا۔ ماضی اور حال اگر محفوظ ہیں تو اس سے مستقبل از خود ہی محفوظ ہو جائے۔ انسانی وراثت میں دیگر باتوں کے علاوہ زبان کا اہم اور اعلیٰ مقام ہے۔ہم سب بخوبی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ یہ زبان ہی ہے جو ہمارے جذبات ، احساسات اور تجربات وغیرہ کی ترسیل کا کام کیا کرتی ہے۔ زبان سے نابلد لوگ گونگے ہوا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس قبیل کے لوگوں کی بھی اپنی زبان ہوا کرتی ہے۔مختصراً اگر کہا جائے تو انسانی وراثت کی ہر شے کا تعلق زبان سے ہے۔ اس لیے کہ جن اشیاکو ہم بے زبان گردان لیتے ہیں وہ بھی اپنی ہی زبان میں اپنی بات کہتی ہوئی لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر مصور ہی کو لیں تو مصوری کی اپنی زبان ہوا کرتی ہے، جس کی ابجد رنگوں اور ریکھائوں کو مانا جا سکتا ہے۔ یوں بھی کہاوت ہے کہ تصویریں ازخود ہی بولا کرتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سنگ تراشی اور موسیقی کے ساتھ بھی ہے۔ البتہ نگاہ اور دانش کی بات ضرور ہے۔ لب لباب یہ کہ انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ زبانوں کی زندگی سے بہت گہرائی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

سوال کیا کسی زبان میں خواندگی، زندگی، سائنسی، سماجی مواد کی کمی سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟

جواب زبان میں خواندگی، زندگی، سائنسی اور سماجی مواد کی کمی سے زبان پر یقینی طور پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت مند اور ترقی یافتہ زبانیں مختلف علوم کا انتظام اپنی زبانوں میں کیا کرتی ہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انگریزی، فرانسیسی، روسی، جرمنی یہاں  تک کہ عربی اور فارسی میں بھی اب تو یہ رواج عام پا چکا ہے کہ کیسا ہی علم اور اس کی تعلیم ہو ، وہ اپنی زبان ہی میں اسے پڑھائیں گے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طالب علم کو اپنی مادری زبان میں علم حاصل کرنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے اور نصاب کی باتیں جلدی سمجھ میں آتی ہیں، ذہن نشین ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے اس پر قدرت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے بر عکس جہاں کہیں بھی اس بنیادی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو نتائج منفی برآمد ہوتے ہیں۔ اس سے طالب علموں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور سرکاری سطح پر اخراجات میں بھی بیجا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

سوال  موجودہ حالات میں اردو زبان کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں ؟

جوابیہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں اردو والے ہی دانستہ یا نادانستہ طور پر زبان کے لیے خطرات پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑی اور خطرناک بات یہی ہے کہ اس کے رسم الخط کو بھی بدل ڈالنے کی باتیں گاہے بگاہے اۡٹھتی رہتی ہیں۔ میں تو کوئی چھہ دہائیوں سے اردو کے مصنّفین و شعراکا یہ رویہ دیکھ رہا ہوں۔ اس میں میں نے عصمت آپا کو پیش پیش پایا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسم الخط کے بغیر اردو زندہ رہ جائے گی۔ خطرات ہندی زبان سے بھی بتائے جاتے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اچھی اور رواں دواں ہندی کے لیے اردو کی اشد ضرورت مانی جاتی ہے۔ یہ بات میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ہندی داں طبقہ نیز لیکھک اور کوی اردو سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ توجہ یازورنہ دینے کے سبب وہ طالب علم بھی اردو سیکھنے یا لکھنے پڑھنے سے محروم کردیے جاتے ہیں جو کم تعداد میں ہونے کے با وجود اس زبان سے شغف رکھتے ہیں۔

سوال  اردو کا مستقبل کیا ہے  ؟

جوابزندہ زبانوں کے مستقبل ہمیشہ ہی روشن ہوتے ہیں۔ نا مساعد حالات میں بھی یہ زندہ رہتی ہیں تو اپنے محبان کے سبب ہی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ دھارے کے خلاف چل کر بھی زبانوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ضرورت ہے تو پختہ عزم اور حوصلے کی۔پھر تو راہیں از خود ہی ہموار ہو جایا کرتی ہیں۔اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اردو زبان کی حفاظت اور بقا کی خاطر اس کے محبان ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے بھی جو لوگ مثبت سوچ (Positive Thinking)  رکھتے ہیں ان کے لیے یہ راہ کوئی مشکل نہیں ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اردو جہاں کل تھی وہاں آج نہیں ہے اور جہاں آج ہے، اس سے آگے ہی بڑھنے والی ہے۔ ضرورت ہے تو بس اس بات کی کہ اس شیریں زبان کی بقا و ترویج کے لیے ہمیشہ ہی کوشاں رہا جائے۔

سوال  زبان کی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لیے کون سی ترکیبیں استعمال کی جا سکتی ہیں  ؟

جوابکہہ تو چکا ہوںکہ مضبوط ارادے حوصلے ہی اس سلسلے میں کام آسکتے ہیں۔سب سے پہلے تو اس بات کی نشاندہی کی ضرورت ہے کہ کتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تبھی تو اسے روکنے اور اس میں سدھار کی گنجائش دیکھی جائے گی۔ اسی مقام پر میں یہ بات دہرا دینا چاہتا ہوں کہ —اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ میں نے ابھی کہا تھا کہ اردو رسم الخط کو تبدیل کر دینے کی کوششیں سالہا سال سے چل رہی ہیں اور بد قسمتی سے اردو کے سبب ہی پھلنے پھولنے اور نام و دام کما لینے والے ہی اس مہم میں پیش پیش دیکھے گئے ہیں۔ لہٰذا ایسے ادبا و شعراکو ہموار نہ کیا جا سکے تو کم از کم ان سے دوری ہی بنا لی جائے۔ اسی طرح اردو جاننے ، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے کے معقول انتظامات کی طرف بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔

سوال  کیا اردو کے ادارے اور تنظیمیں زبان سے زیادہ ادب پر توجہ دے رہی ہیںاور زبان سے متعلق کتابوں کی اشاعت تقریباً رُک سی گئی ہے؟

جوابیہ ایک بڑا ہی اہم اور قابلِ غور سوال ہے۔ ایسا اس لیے کہ خود میں نے اپنے آپ سے کئی کئی بار پوچھا ہے کہ ان ادبی تنظیموں کو یہ کیا ہو چلا ہے کہ بہت بڑی رقم خرچ کر کے مشاعرے اور سمینار منعقد کروائے جاتے ہیں۔ مشاعروں کے معیار کے متعلق کچھ بھی کہنا بے سود ہے۔ رہی بات سمینار وغیرہ کی تو اکثر و بیشتر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ انھیں ادبی شخصیات کو بار بار موضوعِ بحث و مباحث بنایا جاتا ہے جن کے متعلق بیسیوں بار نہ صرف مفصل کیا جا چکا ہے بلکہ جو آگے ہی لمبے چوڑے مضامین اور کتابوں کی زینت بن کر Eternal   ہو چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے ادباو شعراکا انتخاب کہیں اس لیے تو نہیں کیا جاتا کہ جب پہلے ہی اتنا مواد موجود ہے تو کچھ خاص محنت کی ضرورت ہی نہیں ہے! زیادہ تر اردو اکادمیوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ میری نشاندہی کو کہیں میرے ہی گلے نہ ڈال دیا جائے،  اس لیے واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مشاعروں اور سمیناروں کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ اردو زبان اس کے موجودہ رسم الخط ہی میں سِکھانے اور لکھنے پڑھنے کے لیے بنیادی کتب کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام برسہا برس سے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، دہلی کر رہی ہے۔ مشاعروں اور سمیناروں کے ساتھ ہی اردو کے اداروں اور تنظیموںکو اس بات کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔

سوال کیا کلاسیکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے  ؟

جوابیہ ایک بڑی اچھی بات ہے کہ سوالات کا سلسلہ ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ بہرکیف کلاسیکیت، جدیدیت، ما بعد جدیدیت یا ترقی پسندی وغیرہ کی بحثیں تحریکوں کے ذریعے بھی ہوتی رہی ہیں۔ ان مباحث کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کی خاص اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسی تحریکیں لمبی مدت تک چلتی ہیں بلکہ چل رہی ہیں۔ ایک ترقی یافتہ زبان کے لیے ان کا وجود بھی لازمی ہے۔

سوال  آپ کے علاقے میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں اساتذہ کی تعداد کتنی ہے؟

جوابجہاں تک مجھے معلوم ہے اردو میڈیم اسکول یہاں شاید ایک بھی نہیں ہے۔ دیگر اسکولوں اور کالجوں نیز یونیورسٹیوں کی بات کیا کی جائے۔ یہاں یہی عالم ہے۔ حتیٰ کہ مولانا آزاد یونیورسٹی میں بھی شاید اردو میڈیم سے کسی بھی مضمون کی پڑھائی نہیں ہوتی ہے۔ شہر میں بیسیوں مدرسے ہیں۔ وہاں بھی اردو میڈیم کا انتظام نہیں ہے۔یہ ایک بڑا المیہ ہے۔

سوال  آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون سے اخبارات اور رسائل آتے ہیں؟

جواب لائبریریوں کی تعداد ہمارے علاقے میں خاصی ہے، لیکن افسوس کہ ان میں شاید ہی کہیں اردو اخبار یا رسائل آتے ہوں۔

سوال  آپ کے علاقے میں کتنی اردو تنظیمیں، ادارے اور انجمنیں ہیںاور وہ کس نہج پر اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں  ؟

جواباردو انجمنوں کی تعداد یہاں کل پانچ یا چھ ہے۔ یہ تمام انجمنیں اردو ادب کے فروغ اور مقبولیت کی غرض سے وقتاً فوقتاً مشاعروں، نشستوںاور سمیناروں وغیرہ کا انعقاد کرتی رہتی ہیں، لیکن زبان کے فروغ کے لیے زیادہ کچھ کر نہیں پا رہی ہیں۔ کافی برس پہلے راجستھان اردو اکادمی، جے پور کے تعاون سے شہر میں اردو کی درس و تدریس کی کوشش کی گئی تھی جو بدقسمتی سے زیادہ عرصے تک نہ چل سکی۔ یقینی طور پر وہ جذبہ اور بیداری پیدا نہ ہو سکی جس کی کہ ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ذاتی طور پر کوئی اپنے ذوق و شوق کی تکمیل کے لیے اردو پڑھتا ہے تو یہ الگ بات ہے۔

سوال آپ کے علاقے میں اردو سے جڑی ہوئی کتنی شخصیات ہیں، جن کی خدمات کا اعتراف علاقائی، قومی سطح پر نہیں کیا گیا ہے  ؟

جواباردو زبان اور ادب ایک ہی زمرے میں مان لیے گئے ہیں۔ جب کہ یہ دو الگ الگ شعبے ہیں۔ زبان اور ادب۔ اردو درس و تدریس کے ساتھ ہی جب دیگر اہم اور جدید تعلیم یا مضامین کا معقول انتظام ہی نہیں ہے تو پھر ایسی شخصیات کی نشاندہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح انعام و اکرام یا پدم پرسکار وغیرہ کی بات بھی پیدا نہیں ہوتی۔ ادب کا جہاں تک تعلق ہے تو اتنا ضرور ہے کہ اپنی ہی کاوشوں سے اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لینے کے بعدقومی سطح پرشاعری اور تنقیدکے میدان میں نام کما لینے والے شین کاف نظام کو صوبائی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ’راجستھان رتن‘ سے ضرور نوازا تھا۔

سوال  آپ مقامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کیا کوششیں کر رہے ہیں؟

جواب ملازمت اور خانگی مصروفیات کے سبب میں کچھ خاص نہیں کر سکا کہ اردو میں نے اپنے طور پر ہی لکھنا پڑھنا سیکھی، کسی اسکول میں نہیں۔ افسانے اور شاعری بھی اسی زبان میں کی۔ بعد میں ہندی کی طرف ضرور گیا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ کچھ شائقینِ اردو کو میں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، دہلی سے شائع شدہ ’ہندی سے اردو‘  ایسی کتابوں کی مدد سے لکھنا ، پڑھنااور بولنا ضرور سکھایا، ان میں صحافی ، فوجی اور کچھ کالم اسٹوڈنٹ بھی رہے۔

سوال  آپ کے ذہن میں فروغِ اردو کے لیے کیا تجاویز اور مشورے ہیں ؟

جواب مدرسوں اور مذہبی درسگاہوں کے علاوہ بھی اردو کو اسکولوں میں پڑھانے اور سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ جس بات کی کمی ہے، اس طرف بطورِ خاص توجہ دی جائے۔ یعنی دیگر مضامین کی طرح اردو کو بھی صرف اور صرف مضمون مان کر ہی نہ بیٹھا جائے بلکہ اردو کو تعلیم کا میڈیَم بھی بنایا جانا چاہیے۔

سوال  اردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جا سکتی ہیں؟

جواب رسم الخط کا تعلق لکھنے (Writing) سے ہے۔ اس لیے اس کی بقا کے لیے لکھنے میں اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال  دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں  ؟

جواباس کے لیے علاقائی زبانوں سے اردو کا اندرون رشتہ (Internal relation) ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ ایسے ضروری بلکہ بنیادی رشتے کے لیے اردو دانوں کو علاقائی زبانوں کے قریب جانے کی ضرورت ہی۔ غور کریں گے تو پائیں گے کہ کئی کئی علاقائی زبانوں میں اردو الفاظ مل جائیں گے۔

سوال  کیا آپ کے اہلِ خانہ اردو زبان لکھنا پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں؟

جوابکم کم ہی جانتے ہیں۔

سوال  آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی؟

جوابمیری طرح سے ذوق و شوق نیز کاوشیں رہیں تو یقینا یہ زبان گھر میں زندہ رہے گی۔

سوال  غیر اردو حلقے میں اردو کے فروغ کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جانی چاہیے  ؟

جوابغیر اردو حلقے میں اردو کے فروغ کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ سب سے پہلے تو اردواور اس کے رسم الخط سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ پھر اس کے بعد اس کا شوق پیدا کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس زبان کی شیرینی سے متأثر ہو کر اس کا ذوق از خود ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ تھوڑی کوشش سے ان حلقوں میں معقول درس و تدریس کا انتظام ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیر اردو حلقوں میں بھی اردو بولنے کے علاوہ لکھنا پڑھنا بھی عام ہو جائے۔

سوال  آپ کے علاقے میں کتنے کالجز یا یونیورسٹیز ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں اردو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟

جوابمیری دانست میں صرف ایک مہیلا پی جی کالج ہے جہاں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مولانا آزاد یونیورسٹی اور اس سے منسلک کالج میں بھی اردو کی تعلیم کا انتظام ہے۔ البتہ مدرسے کئی ہیں جہاں اس کی پڑھائی  کا بندوبست ہے۔

سوال  ملکی سطح پر سرکاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح مدد لی جا سکتی ہے  ؟

جوابملکی سطح پر مجھے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ، دہلی سے بہتر تو کیا اس سے اونے پونے بھی کوئی ایسی تنظیم یا ادارہ نظر نہیں آتا جو اردو کے درس کے علاوہ اس کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہو۔ کونسل اس کے لیے اردو سیکھنے والوں کے لیے بنیادی کتب تیار کرواتی ہے۔ اس کے علاوہ کونسل ہر ماہ ’اردو دنیا‘ کے علاوہ بچوں کے لیے ’بچوں کی دنیا‘ اور خواتین کے لیے بھی ایک ماہ نامے کے علاوہ سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کی بھی اشاعت کرتی ہے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر ’آجکل‘ اور ’یوجنا‘ وغیرہ کی بھی ہر ماہ اشاعت ہوتی ہے۔ صوبائی سطح پر اردو اکادمیاں بھی اردو کاز کے لیے سہ ماہی پرچوں کے علاوہ کتب کی اشاعت بھی کرتی ہیں۔ یہ سب سرکاری سطح پر ہی ہو رہا ہے۔ منصوبہ بندی یا پروجیکٹ بنا کر ان سے اردو کے لیے تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔

سوال  سینٹرل اسکولوں اور نَوودیہ وِدھیالیوں میں اردو تعلیم کا کوئی معقول انتظام ہے  ؟

جوابمیری نالج میں یہ بات نہیں ہے۔

Habib Kaifi

172, Lala Lajpat Rai Colony

5the Chopasni Road, Eidgah

Jodhpur-342003 (Rajasthan)

Mob. : 8000245673

e-mail : habibkaifi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...