متن کی قرأت کے باب
میں سب سے مضبوط نظریہ فرانسیسی ادیب رولاں بارتھ نے پیش کیا تھا۔ 1967 میں اس نے اپنے
ایک مضمون ''La
mort de l'auteur'' یعنی ’مصنف
کی موت‘ میں یہ اعلان کیا کہ متن پر متن کار کی ملکیت نہیں ہوتی۔ یعنی متن جب تخلیق
پا جاتا ہے تو وہ متن کار کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ
کسی متن کو اس کے لکھنے والے سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے
کہ غالب کا شعر غالب کا نہیں ہے۔ مصنف کی موت کا مطلب یہ ہے کہ قاری کسی بھی متن کا
مطالعہ متن کار کے نقط نظر سے کرنے کا پابند نہیں ہے۔ متن میں کیا لکھا ہے اس کا فیصلہ
ہر قاری اپنے طریقے سے کرے گا۔ ایک بار متن تخلیق پا جائے تو پھر وہ آزاد ہو جاتا
ہے۔ قاری کے لیے تو ایسے بھی ممکن نہیں کہ وہ مصنف کے مطابق ہی سوچے۔ کیونکہ مصنف اور
قاری کی اپنی اپنی علمیات ہوتی ہے۔ کبھی دونوں کے درمیان زمانی بعد ہوتا ہے اور کبھی
کبھی ان کے بیچ جغرافیائی دوری حائل ہوتی ہے۔ ایسے میں ممکن ہی نہیں ہے کہ قاری ایک
متن سے وہی سب کچھ معنی اخذ کرے جو صاحب متن نے لفظوں کی مدد سے اس میں چھپا رکھے ہیں۔
معنی کے التوا یا غیاب میں رہنے کا ایک نقصان یا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی متن کی
قرأت کی جائے گی اس کے معنی ہمیشہ ایک سے برآمد نہیں ہوں گے۔ یہاں کوئی یہ سوال بھی
قائم کر سکتا ہے کہ یہ تو مصنف کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہوگی اگر متن سے وہ معنی
برآمد ہی نہ ہو سکے جو مصنف نے لفظوں میں یا بین السطور میں پیش کیے ہیں۔ اس حوالے
سے دریدا نے لکھا ہے کہ There is nothing outside of the text یعنی متن سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ کوئی بھی قاری کسی متن سے ایسے معنی نکال ہی نہیں سکتا جو متن میں موجود نہیں
ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ جو معنی اخذ کرتا ہے وہ منشائے مصنف سے کبھی زیادہ قریب
ہوتا ہے اور کبھی کم۔ اس الجھن کو زیادہ خوش اسلوبی سے شمس الرحمن فاروقی نے سلجھانے
کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’متن سے وہ معنی برآمد نہیں ہو سکتے جو اس میں نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ
کہنا غلط ہے کہ منشائے مصنف کو بنیادی اہمیت نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں من مانی
کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ متن کی صحت پر اصرار کرنے سے یہ اصول مستحکم ہو جاتا ہے کہ
جو معنی متن میں نہیں ہیں ہم انھیں برآمد نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو
معنی نہ بیان کریں گے بلکہ اپنے مفروضات بیان کریں گے۔‘‘
ـــ (بحوالہ
قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 19)ـــــــ
فاروقی کی مذکورہ بالا
باتوں سے یہ الجھن تو دور ہو جاتی ہے کہ قاری اگرچہ متن سے معنی اخذ کرنے کے معاملے
میں آزاد ہے لیکن وہ متن سے ایسے معنی برآمد کر ہی نہیں سکتا جو اس میں ہے ہی نہیں۔
فاروقی کی یہ بات بہت اہم ہے کہ متن کی صحت پر اصرار ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ ہوتا کیا
ہے کہ ہم مصنف سے مرعوب ہو کر یا ذاتی تعلقات کی بنا پر متن کے ساتھ انصاف نہیں کرتے
ہیں۔ تعصب کے زیر اثر ہم ایمانداری سے متن کی قرأت نہیں کرتے ہیں اور ایک قدرے کم
درجہ کے مصنف کو دوسرے بڑے درجہ کے مصنف پر فوقیت دے دیتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی
’آب حیات‘ اور شبلی کی ’موازنہ انیس و دبیر‘ دونوں کتابیں اس کی زندہ مثال ہیں۔ بعد
کے دور میں بھی اس طرح کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں متن سے زیادہ
شخصیت کو اہمیت دی گئی۔متن کو اہمیت دینے سے اس کی غلط تعبیر و تفہیم کے سارے چور دروازے
بند ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ متن سے مختلف معانی اور مفاہیم نکل سکتے
ہیں اور نکلتے ہیں لیکن میں اس بات سے متفق نہیں کہ کسی بھی متن کی متفقہ قرأت ممکن
نہیں۔ یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قاری صاحب علم و بصیرت ہو اور وہ متن
کے ساتھ مکالمہ کرنے کے ہنر سے واقف ہو۔ متن کی عمارت لفظوں کی اینٹ سے تعمیر ہوتی
ہے۔ ہر لفظ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ لفظ میں
صرف معنی نہیں ہوتے بلکہ اس میں متعلقہ زبان کی تہذیب اور اس کے بولنے والوں کی ثقافت
بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ قاری کے لیے ضروری ہے کہ متن کی قرأت کرتے وقت جب کسی لفظ کا
معنی متعین کرے تو اس کے ثقافتی عناصر کو نظر انداز نہ کرے۔ دوران قرأت اگر ان باتوں
کا خیال نہیں رکھا گیا تو ظاہر ہے کسی بھی ادبی متن کی متفقہ قرأت ممکن نہیں۔ متن
کی قرأت کے معاملے میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ متن کے معنی التوا میں ہوتے ہیں، مصنف
کی موت ہو جاتی ہے یا معنی اخذ کرنے کے معاملے میں قاری آزاد ہے۔ سب سے اہم بات یہ
ہے کہ متن کی قرأت کیسے کی جارہی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے:
’’یک طرفہ مکالمے کو وہ جھوٹا مکالمہ کہتا ہے۔ مکالمہ دوطرفہ ہونا چاہیے۔
اس میں طرفین اپنی اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔
گدامر کا کہنا ہے کہ کسی متن کو سمجھنا ایسا ہے جیسے کسی شخص کو سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 11)
یہاں لفظ کے ساتھ مکالمے
والی بات بہت اہم ہے۔ جب دو شخص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو دراصل دونوں ایک دوسرے
کی باتوں پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان مکالمہ اسی صورت میں ممکن
ہے جب دونوں ایک دوسرے کی باتیں سمجھ رہے ہوں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک کسی کی بات
نہیں سمجھتا ہے تو اس کی وضاحت طلب کی جاتی ہے۔ یعنی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتی
ہے تو استفہامیہ رد عمل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ متن اور قاری کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور
ہونا چاہیے۔ قاری جب کسی متن کے روبرو ہوتا
ہے تو دراصل وہ اس کے ساتھ مکالمہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں متن بھی اتنا ہی Active ہوتا ہے جتنا کہ قاری۔ جب کوئی متن کسی قاری کی سمجھ
میں نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ استفہامیہ انداز اختیار کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ
متن سے متعلق دوسری چیزوں کو ٹٹو لنے کی کوشش کرے۔ اس سے اسے متن کے معنی تک پہنچنے
میں کامیابی مل سکتی ہے۔
نثری متن عام طور پر
یک رخی ہوتا ہے۔ وضاحت و صراحت اس کی خوبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نثری متن ایک سے زیادہ
مرتبہ قرأت کا متقاضی نہیں ہوتا۔ بہت سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کیے بنا بھی معنی
تک رسائی ممکن ہے۔ لیکن شاعری کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ خاص طور پر غزل کے اشعار
کے معنیاتی نظام کو سمجھنا دشوار ہے۔ گوپی چند نارنگ شاعری کے اس نکتے کے حوالے سے
لکھتے ہیں:
’’معنیاتی نظام انتہائی مبہم اور گرفت میں نہ آنے والی چیز ہے۔ بحث
و مباحثہ کی سہولت کے لیے اسے چند الفاظ میں مقید تو کیا جا سکتا ہے لیکن معنیاتی کیفیات
کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 187)
اس اقتباس سے اتنی
بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ شعر کی تفہیم مشکل ہے۔ غزل کی زبان ایک مخصوص نوعیت کی ہوتی
ہے۔ اس میں رمزیاتی عناصر کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اس کے اظہار و بیان کے طریقے مشکل
اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ غزل کا شاعر مضامین کو شعری علامتوں اور استعاروں کے حریری نقاب
میں چھپا کر پیش کرتا ہے۔ غزل کے معنیاتی نظام تک رسائی اس کے اشعار پر وجد کی کیفیت
میں مبتلا ہوکر نہیں ہوسکتی۔ ایک شعر سن کر اس کی مخصوص ہیئت اور ساخت سے وقتی طور
پر محظوظ ہوا جا سکتا ہے لیکن ایک بار میں اس کے معنی کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ غزل جو اردو شاعری کی آبرو اور ادب کی شناخت ہے اس کی تنقید میں
اس کی روایتی خصوصیت اور محاسن کا ذکر کیا گیا لیکن اس کے گہرے ایمائی نظام اور طول
وعرض میں پھیلے اس کی تہذیبی، عمرانی، اور فکری و ذوقی پس منظر کو نظر انداز کر دیا
گیا۔ حالی نے وقت کے جبری تقاضوں کے تحت غزل کے اصلاحی نسخے تیار کرنے میں اپنی توانائی
صرف کر دی۔ کلیم الدین احمد نے غزل سے اس کی شناخت سلب کرنے کے لیے اس کی نئی تعریف
وضع کرنے کی سعی لا حاصل کی اور جب اس میں نا کام ہوتے نظر آئے تو اسے ’نیم وحشی صنف
سخن‘ قرار دے دیا۔ رشید احمد صدیقی نے غزل سے جذباتی طور پر منسلک ہو کر اس کی تشریح
وتوضیح کی۔ غزل کے ساتھ ان کا رشتہ مدافعانہ قسم کا تھا۔ غزل کے مخالفین اس کی مخالفت
میں ایک انتہا پر تھے اور اس کے حامی اس کی مدافعت میں ایک دوسری انتہا پر۔ غزل ان
دو انتہاوں کے بیچ میں معلق ہو کر رہ گئی۔ غزل کے فن پر گفتگو ہوئی ہے لیکن اس کے تفہیمی
مسائل پر کم بات ہوئی۔ عملی تنقید کے ذریعے اس کی قرأت اور تفہیمی مسائل پر جس طرح
بات ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ کلیم الدین احمد، اختر انصاری، شمس الرحمان فاروقی،
گوپی چند نارنگ، ابوالکلام قاسمی، اسعد بدایونی اور دیگر نقادوں نے عملی تنقید کے ذریعے
غزل اور شاعری کے معنیاتی نظام کو سمجھنے اور سمجھانے کی جو کوششیں کی ہیں اس سے انکار
نہیں لیکن غزل کی قرأت اور اس کی تفہیم کا مسئلہ آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آخر کیا
وجہ ہے کہ ہم آج بھی کلاسیکی شاعری سمجھنے
سے قاصر ہیں۔ دیوان غالب کی تشریح لکھ دینے سے غزل کی تفہیم کا مسئلہ حل نہیں ہو جا
تا۔ ہمیں مطالعہ غزل کے طریقۂ کار متعین کرنے ہوں گے۔ اختر انصاری نے غزل اور متعلقات
غزل کے باب میں جن امور کا خیال رکھنا ضروری سمجھا ہے ان میں غزل کی ہیئت، اس کا عہد
بہ عہد ارتقا، اس کے مختلف دبستان اور اسلوب، اس کا رمزیہ اور کنایتی انداز بیان اہم
ہیں۔ غزل کی قرأت سے قبل قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے خارجی امور سے واقفیت بہم
پہنچائے۔ غزل کے خارجی امور میں اس کی ہیئت کا علم ضروری ہے۔ بہت بنیادی بات یہ ہے
کہ غزل کا ہر شعر اپنا معنی ادا کر نے میں خود مکتفی ہوتا ہے۔ غزل کی اس ریزہ خیالی
سے کلیم الدین احمد دھوکہ کھا گئے اور ادبی شرک کے مرتکب ہو گئے۔ غزل جس کو خالص مشرقی
شعریات کے تناظر میں پرکھنا تھا، کلیم الدین احمد مغربی اصول و نظریات کے سامنے سجدہ
ریز ہو گئے۔ غزل اتنی مقبولیت کے باوجود آج بھی اس کی ریزہ خیالی یورپ کے لوگوں کو
ہضم نہیں ہوتی۔
غزل کی تفہیم میں اس
کے ارتقائی سفر کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ غزل اور شاعری کے ڈکشن میں وقت کے ساتھ
ساتھ ایک ہی لفظ نے معانی کے کئی رنگ و روپ اختیار کر لیے ہیں۔ میر و غالب کے عہد میں
عاشق و معشوق کا جو تصور تھا وہ اقبال کے یہاں کسی اور شکل میں سامنے آیا اور فیض
کے یہاں کسی اور روپ میں۔ آپ غالب کے یہ اشعار دیکھیں ؎
غم اگر چہ جاں گسل
ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا
غم روز گار ہوتا
آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا
سیلاب بلا میرے بعد
یہی عشق سفر کرتے کرتے جب اقبال
تک پہنچتا ہے تو اس طرح شعر میں نمودار ہوتا ہے ؎
بے خطر کود پڑا آتش
نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے
لب بام ابھی
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و
زندیق
عشق بھی ہو حجاب میں
حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار
کر
فیض احمد فیض کا معشوق
گوشت پوست والا انسان بھی ہے اور ان کا ملک اور وطن بھی۔ فیض نے چونکہ زیادہ نظمیں
تخلیق کی ہیں اس لیے یہاں ان کی نظم کے حوالے دیے جا رہے ہیں۔ ’ہم جو تاریک راہوں میں
مارے گئے‘ نظم میں وطن سے اپنی محبت کا اظہار ایسے کیا جیسے کوئی اپنے محبوب سے کرتا
ہے ؎
تیرے ہونٹوں کے پھولوں
کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ
وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں
کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں
مارے گئے
غالب کا روایتی عاشق
اقبال کے یہاں مرد مومن بن جاتا ہے اور فیض کے یہاں مرد مجاہد جو سرمایہ داروں کے خلاف
آزادی کا پر چم لیے کھڑا نظر آتا ہے۔ مطالعہ غزل میں مرور ایام کے ساتھ لفظوں اور
استعاروں کے بدلے ہوئے رنگ و روپ کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب کی
مختلف تحریکوں اور رجحانوں کے اسباب و مقاصد سے ہماری آگہی ضروری ہے۔ تمام تحریکوں
کے اثرات اصناف ادب پر مرتب ہوئے ہیں۔ غزل کی تفہیم میں یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوگا
کہ ہم غزل کو اس کے ادوار میں رکھ کر اس کا مطالعہ کریں۔ آپ کسی ایک دور کی شاعری
کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس دور کی شاعری پر اس وقت کے رجحان کا کتنا گہرا
اثر ہے۔ غزل کی روایت میں ایک دور ایہام گوئی کا گزرا ہے۔شاکر ناجی اور آبرو کے کلام
کا مطالعہ کرتے وقت ایہام گوئی کا تصور ہمارے ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ ناجی کا ایک
شعر ہے ؎
اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں
عارضی میری زندگانی
ہے
یہاں دوسرے مصرعے میں
لفظ عارضی کا ایک مطلب وقتی اور Temporary
ہے۔ قاری مزید غور و فکر کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پہلے
مصرعے کی مناسبت سے اس کا ایک مطلب رخسار اور عارض بھی ہوسکتا ہے۔ قاری کی نظر جب اس
نکتے پر پڑتی ہے تو وہ اس شعر سے زیادہ لطف اٹھاتا ہے۔مطالعۂ غزل میں غزل کی روایت
پر نظر نہ ہو تو ہم شاعری کے اصل لطف سے محروم رہ سکتے ہیں۔
غزل کے معنیاتی نظام
تک رسائی حاصل کر نے کے لیے سب سے اہم اس کے استعاراتی نظام کی مکمل آگہی ہے۔ استعارات
و تشبیہات اور معروف صنعتوں کو سمجھے بنا غزل کی صحیح تفہیم تقریبا ناممکن ہے۔ مطالعۂ
غزل میں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی ہوگی کہ غزل میں بات سیدھے انداز میں نہیں کی جاتی
ہے۔ غزل کا شاعر اشارات و تمثیلات کے ذریعے معنی کو لفظوں میں چھپاتا ہے۔ اردو غزل
کے عامۃ الورود الفاظ و تراکیب جیسے عشق و جنوں، لیلی و مجنوں، گل و بلبل، شمع و پروانہ،
برق و شرر، دام و صیاد، طور و کلیم، جام و صہبا، دیوانہ و صحرا، ساقی و ناصح، دیر و
حرم اور اس نوعیت کے دوسرے الفاظ محض الفاظ نہیں بلکہ غزل کے مخصوص علائم کا درجہ رکھتے
ہیں۔ اس نوعیت کے الفاظ شاعری میں گہری معنویت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح کے الفاظ ظاہری
مفہوم کے ساتھ اپنا باطنی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ جب جب ہمیں اس طرح کے الفاظ و تراکیب
کا سامنا ہو تو ہمارے لیے ہر شعر پر عمل جراحی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ تبھی ہم اس کے
ظاہری مفہوم کے ساتھ اس کے باطنی مفہوم کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اس پوری بحث کو میر تقی
میر کے اس مشہور شعر سے سمجھیں ؎
ابتدائے عشق ہے روتا
ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا
ہے کیا
ظاہر ہے اس کا ایک
مطلب تو یہی ہے جو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں آ تا ہے، یعنی ؎
یہ عشق نہیں آساں
بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے
اور ڈوب کے جانا ہے
یعنی عشق کرنا آسان
نہیں ہے۔ اس میں روز بروز پریشانیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم سنجیدہ ہوکر لفظ
عشق پر غور کرتے ہیں تو پھر اس سے یہ معنی بھی نکل کر آتا ہے کہ عشق کی طرح ہم جب
بھی کسی بڑے مقصد کے حصول میں نکلتے ہیں تو ہمیں کئی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ جب تھوڑی اور مغز ماری کرتے ہیں تو اس سے عشق کا ہی یہ پہلو بھی سامنے آتا
ہے کہ شروع شروع میں معشوق ناز و نخرے تو دکھاتا ہی ہے لیکن رفتہ رفتہ عشق میں وہ منزل
بھی آتی ہے جہاں عاشق ہجر کا رونا نہیں روتا۔ وہ وصال کی مسرت کا نغمہ گنگناتا ہے۔
ممکن ہے یہاں شاعر یہ بھی کہنا چاہ رہا ہو کہ ابھی تو آغاز عشق ہے پریشان کیوں ہوتے
ہو، حوصلہ رکھو کچھ دن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہیں سے یہ معنی بھی پیدا ہو جاتا
ہے کہ کسی بھی کام کے آغاز میں دقتیں تو پیش آتی ہی ہیں۔ ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت
نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں یا ہر پریشانی کے بعد آسانی
پیدا ہوتی ہے۔
میں نے مضمون کے شروع
میں رولاں بارتھ کا نظریہ ’مصنف کی موت‘ کا ذکر کیا ہے لیکن میں اس نظریے سے پورے طور
پر اتفاق نہیں رکھتا کہ متن آزاد ہوتا ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ متن کا مطالعہ آزادانہ
طریقے سے کرنا چاہیے۔ متن کا آزاد ہونا اور متن کا آزادانہ طریقے سے مطالعہ کرنا،
دونوں میں فرق ہے۔ اگر متن آزاد ہوتا ہے تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ اسلوب میر کا
ہے یہ غالب کا ہے اور یہ اقبال کا ہے۔ دراصل ہر متن میں صاحب متن کی علمی و فکری دنیا
موجود رہتی ہے اور بعض دفعہ اس کی شخصیت کی پوری کہانی اس کے متن میں پنہاں ہوتی ہے۔
اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ مطالعۂ غزل میں شاعر کی زندگی کا مطالعہ بھی اہم ہے۔ میر
کی زندگی کا مطالعہ کریں یا ان کی غزلوں کی بات ایک ہی ہے۔ ہم ان کی غزلوں کی مدد سے
ان کی شخصیت کا ایک خاکہ بنا سکتے ہیں اور ان کی زندگی پڑھ کر ان کی غزلوں کی روح تک
رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف کی موت والی بات میرے نزدیک اپنی اہمیت
کھو دیتی ہے۔ متن کی قرأت کے حوالے سے جتنے بھی نظریات ہیں وہ سب کے سب بے معنی اور
بکواس ہیں اگر قاری کی اپنی لیاقت اور علمیت قابل اعتبار نہیں ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری
صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ہے:
’’میرا ذاتی ادراک اور Perception
یہ ہے کہ متن کی قرأت کے لیے کسی بھی ایزر فش، دریدا، بارتھ، لاکاں
فوکو کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ آپ کے اپنے شعوری بالیدگی اور قدرے Episteme کی اہمیت ضرور ہے۔‘‘ (قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری،
ص: 24)
قاری کا اپنا شعور
اگر بالیدہ اور مطالعہ وسیع نہ ہو تو وہ جب جب کسی غزل کی قرأت کرے گا تب تب غیب سے
یہ آواز آئے گی ؎
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں
گے میری بات
دے اور دل ان کو جو
نہ دے مجھ کو زباں اور
آگہی دام شنیدن جس
قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے
عالم تقریر کا
اس سے کوئی فرق نہیں
پڑتا کہ قاری کس نظریے کے تحت متن کی قرأت کر رہا ہے۔
Dr. Md.
Raihan
Dept of
Urdu, Jamia Millia Islamia
New Delhi-
110025
Mob.:
7366083119