29/9/23

ادبی متن کی قرأت اور غزل کے تفہیمی مسائل:محمد ریحان



 پڑھنے کے عمل کو قرأت کہتے ہیں۔ قرأت کے ذریعے ہی متن کی اہمیت طے کی جاتی ہے کیونکہ متن اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وولف ایزر نے متن کے حوالے سے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ جب تک متن کی قرأت نہیں ہوتی ہے اس کے Inherent Characters غیاب میں ہی رہتے ہیں۔ دریدا کا بھی یہی ماننا ہے کہ متن کے معنی التوا میں ہوتے ہیں۔  پروفیسر کوثر مظہری نے متن یعنی Text کو بے جان شے کہا ہے اور اس کو جمادات کے زمرے میں رکھا ہے۔ متن جب تخلیق ہور ہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کا خالق یعنی متن کار صرف لفظوں کو جمع نہیں کرتا بلکہ ان میں معنی اور مطلب بھی شعوری طور پر داخل کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ مناسب اور موزوں الفاظ کی تلاش کرتا ہے اور زبان و ادب کے اصولوں کی پابندی بھی۔ اگر دوران تخلیق متن کے ساتھ یہ سارے امور کارفرما ہوتے ہیں تو پھر متن کے بے جان ہونے والی بات کہاں تک درست ہے؟ متن کوئی بھی ہو وہ معنی سے خالی نہیں ہو سکتا۔  معنی کے غیاب میں ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ قرأت سے پہلے متن معنی سے خالی ہوتا ہے۔ متن کے حوالے سے جو نظریات اوپر پیش کیے گئے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ متن کی اہمیت اس کی قرأت پر منحصر ہے۔ یعنی جس طرح ہم متن کی قرأت کریں گے اسی طرح اس کے معنی بھی ہم  پر واضح ہوں گے۔ ہم قرأت کے ذریعے متن کو متحرک کرتے ہیں اور متن قاری کی لیاقت اور علمیت کے مطابق ہی اپنے معنی کے دروازے کھولتا ہے۔

متن کی قرأت کے باب میں سب سے مضبوط نظریہ فرانسیسی ادیب رولاں بارتھ نے پیش کیا تھا۔ 1967 میں اس نے اپنے ایک مضمون ''La mort de l'auteur'' یعنی ’مصنف کی موت‘ میں یہ اعلان کیا کہ متن پر متن کار کی ملکیت نہیں ہوتی۔ یعنی متن جب تخلیق پا جاتا ہے تو وہ متن کار کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ کسی متن کو اس کے لکھنے والے سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ غالب کا شعر غالب کا نہیں ہے۔ مصنف کی موت کا مطلب یہ ہے کہ قاری کسی بھی متن کا مطالعہ متن کار کے نقط نظر سے کرنے کا پابند نہیں ہے۔ متن میں کیا لکھا ہے اس کا فیصلہ ہر قاری اپنے طریقے سے کرے گا۔ ایک بار متن تخلیق پا جائے تو پھر وہ آزاد ہو جاتا ہے۔ قاری کے لیے تو ایسے بھی ممکن نہیں کہ وہ مصنف کے مطابق ہی سوچے۔ کیونکہ مصنف اور قاری کی اپنی اپنی علمیات ہوتی ہے۔ کبھی دونوں کے درمیان زمانی بعد ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان کے بیچ جغرافیائی دوری حائل ہوتی ہے۔ ایسے میں ممکن ہی نہیں ہے کہ قاری ایک متن سے وہی سب کچھ معنی اخذ کرے جو صاحب متن نے لفظوں کی مدد سے اس میں چھپا رکھے ہیں۔ معنی کے التوا یا غیاب میں رہنے کا ایک نقصان یا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی متن کی قرأت کی جائے گی اس کے معنی ہمیشہ ایک سے برآمد نہیں ہوں گے۔ یہاں کوئی یہ سوال بھی قائم کر سکتا ہے کہ یہ تو مصنف کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہوگی اگر متن سے وہ معنی برآمد ہی نہ ہو سکے جو مصنف نے لفظوں میں یا بین السطور میں پیش کیے ہیں۔ اس حوالے سے دریدا نے لکھا ہے کہ There is nothing outside of the text یعنی متن سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی قاری کسی متن سے ایسے معنی نکال ہی نہیں سکتا جو متن میں موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ جو معنی اخذ کرتا ہے وہ منشائے مصنف سے کبھی زیادہ قریب ہوتا ہے اور کبھی کم۔ اس الجھن کو زیادہ خوش اسلوبی سے شمس الرحمن فاروقی نے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’متن سے وہ معنی برآمد نہیں ہو سکتے جو اس میں نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ منشائے مصنف کو بنیادی اہمیت نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں من مانی کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ متن کی صحت پر اصرار کرنے سے یہ اصول مستحکم ہو جاتا ہے کہ جو معنی متن میں نہیں ہیں ہم انھیں برآمد نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو معنی نہ بیان کریں گے بلکہ اپنے مفروضات بیان کریں گے۔‘‘

ـــ (بحوالہ قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 19)ـــــــ

فاروقی کی مذکورہ بالا باتوں سے یہ الجھن تو دور ہو جاتی ہے کہ قاری اگرچہ متن سے معنی اخذ کرنے کے معاملے میں آزاد ہے لیکن وہ متن سے ایسے معنی برآمد کر ہی نہیں سکتا جو اس میں ہے ہی نہیں۔ فاروقی کی یہ بات بہت اہم ہے کہ متن کی صحت پر اصرار ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ ہوتا کیا ہے کہ ہم مصنف سے مرعوب ہو کر یا ذاتی تعلقات کی بنا پر متن کے ساتھ انصاف نہیں کرتے ہیں۔ تعصب کے زیر اثر ہم ایمانداری سے متن کی قرأت نہیں کرتے ہیں اور ایک قدرے کم درجہ کے مصنف کو دوسرے بڑے درجہ کے مصنف پر فوقیت دے دیتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ اور شبلی کی ’موازنہ انیس و دبیر‘ دونوں کتابیں اس کی زندہ مثال ہیں۔ بعد کے دور میں بھی اس طرح کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں متن سے زیادہ شخصیت کو اہمیت دی گئی۔متن کو اہمیت دینے سے اس کی غلط تعبیر و تفہیم کے سارے چور دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ متن سے مختلف معانی اور مفاہیم نکل سکتے ہیں اور نکلتے ہیں لیکن میں اس بات سے متفق نہیں کہ کسی بھی متن کی متفقہ قرأت ممکن نہیں۔ یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قاری صاحب علم و بصیرت ہو اور وہ متن کے ساتھ مکالمہ کرنے کے ہنر سے واقف ہو۔ متن کی عمارت لفظوں کی اینٹ سے تعمیر ہوتی ہے۔ ہر لفظ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ لفظ  میں صرف معنی نہیں ہوتے بلکہ اس میں متعلقہ زبان کی تہذیب اور اس کے بولنے والوں کی ثقافت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ قاری کے لیے ضروری ہے کہ متن کی قرأت کرتے وقت جب کسی لفظ کا معنی متعین کرے تو اس کے ثقافتی عناصر کو نظر انداز نہ کرے۔ دوران قرأت اگر ان باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو ظاہر ہے کسی بھی ادبی متن کی متفقہ قرأت ممکن نہیں۔ متن کی قرأت کے معاملے میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ متن کے معنی التوا میں ہوتے ہیں، مصنف کی موت ہو جاتی ہے یا معنی اخذ کرنے کے معاملے میں قاری آزاد ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ متن کی قرأت کیسے کی جارہی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے:

’’یک طرفہ مکالمے کو وہ جھوٹا مکالمہ کہتا ہے۔ مکالمہ دوطرفہ ہونا چاہیے۔ اس میں طرفین اپنی اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ گدامر کا کہنا ہے کہ کسی متن کو سمجھنا ایسا ہے جیسے کسی شخص کو سمجھ رہے ہیں۔‘‘  (بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری،  ص: 11)

یہاں لفظ کے ساتھ مکالمے والی بات بہت اہم ہے۔ جب دو شخص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو دراصل دونوں ایک دوسرے کی باتوں پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان مکالمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ایک دوسرے کی باتیں سمجھ رہے ہوں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک کسی کی بات نہیں سمجھتا ہے تو اس کی وضاحت طلب کی جاتی ہے۔ یعنی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتی ہے تو استفہامیہ رد عمل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ متن اور قاری کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔  قاری جب کسی متن کے روبرو ہوتا ہے تو دراصل وہ اس کے ساتھ مکالمہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں متن بھی اتنا ہی Active ہوتا ہے جتنا کہ قاری۔ جب کوئی متن کسی قاری کی سمجھ میں نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ استفہامیہ انداز اختیار کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ متن سے متعلق دوسری چیزوں کو ٹٹو لنے کی کوشش کرے۔ اس سے اسے متن کے معنی تک پہنچنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔

نثری متن عام طور پر یک رخی ہوتا ہے۔ وضاحت و صراحت اس کی خوبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نثری متن ایک سے زیادہ مرتبہ قرأت کا متقاضی نہیں ہوتا۔ بہت سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کیے بنا بھی معنی تک رسائی ممکن ہے۔ لیکن شاعری کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ خاص طور پر غزل کے اشعار کے معنیاتی نظام کو سمجھنا دشوار ہے۔ گوپی چند نارنگ شاعری کے اس نکتے کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’معنیاتی نظام انتہائی مبہم اور گرفت میں نہ آنے والی چیز ہے۔ بحث و مباحثہ کی سہولت کے لیے اسے چند الفاظ میں مقید تو کیا جا سکتا ہے لیکن معنیاتی کیفیات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (بحوالہ: قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 187)

اس اقتباس سے اتنی بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ شعر کی تفہیم مشکل ہے۔ غزل کی زبان ایک مخصوص نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس میں رمزیاتی عناصر کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اس کے اظہار و بیان کے طریقے مشکل اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ غزل کا شاعر مضامین کو شعری علامتوں اور استعاروں کے حریری نقاب میں چھپا کر پیش کرتا ہے۔ غزل کے معنیاتی نظام تک رسائی اس کے اشعار پر وجد کی کیفیت میں مبتلا ہوکر نہیں ہوسکتی۔ ایک شعر سن کر اس کی مخصوص ہیئت اور ساخت سے وقتی طور پر محظوظ ہوا جا سکتا ہے لیکن ایک بار میں اس کے معنی کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ غزل جو اردو شاعری کی آبرو اور ادب کی شناخت ہے اس کی تنقید میں اس کی روایتی خصوصیت اور محاسن کا ذکر کیا گیا لیکن اس کے گہرے ایمائی نظام اور طول وعرض میں پھیلے اس کی تہذیبی، عمرانی، اور فکری و ذوقی پس منظر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حالی نے وقت کے جبری تقاضوں کے تحت غزل کے اصلاحی نسخے تیار کرنے میں اپنی توانائی صرف کر دی۔ کلیم الدین احمد نے غزل سے اس کی شناخت سلب کرنے کے لیے اس کی نئی تعریف وضع کرنے کی سعی لا حاصل کی اور جب اس میں نا کام ہوتے نظر آئے تو اسے ’نیم وحشی صنف سخن‘ قرار دے دیا۔ رشید احمد صدیقی نے غزل سے جذباتی طور پر منسلک ہو کر اس کی تشریح وتوضیح کی۔ غزل کے ساتھ ان کا رشتہ مدافعانہ قسم کا تھا۔ غزل کے مخالفین اس کی مخالفت میں ایک انتہا پر تھے اور اس کے حامی اس کی مدافعت میں ایک دوسری انتہا پر۔ غزل ان دو انتہاوں کے بیچ میں معلق ہو کر رہ گئی۔ غزل کے فن پر گفتگو ہوئی ہے لیکن اس کے تفہیمی مسائل پر کم بات ہوئی۔ عملی تنقید کے ذریعے اس کی قرأت اور تفہیمی مسائل پر جس طرح بات ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ کلیم الدین احمد، اختر انصاری، شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، ابوالکلام قاسمی، اسعد بدایونی اور دیگر نقادوں نے عملی تنقید کے ذریعے غزل اور شاعری کے معنیاتی نظام کو سمجھنے اور سمجھانے کی جو کوششیں کی ہیں اس سے انکار نہیں لیکن غزل کی قرأت اور اس کی تفہیم کا مسئلہ آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم  آج بھی کلاسیکی شاعری سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دیوان غالب کی تشریح لکھ دینے سے غزل کی تفہیم کا مسئلہ حل نہیں ہو جا تا۔ ہمیں مطالعہ غزل کے طریقۂ کار متعین کرنے ہوں گے۔ اختر انصاری نے غزل اور متعلقات غزل کے باب میں جن امور کا خیال رکھنا ضروری سمجھا ہے ان میں غزل کی ہیئت، اس کا عہد بہ عہد ارتقا، اس کے مختلف دبستان اور اسلوب، اس کا رمزیہ اور کنایتی انداز بیان اہم ہیں۔ غزل کی قرأت سے قبل قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے خارجی امور سے واقفیت بہم پہنچائے۔ غزل کے خارجی امور میں اس کی ہیئت کا علم ضروری ہے۔ بہت بنیادی بات یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنا معنی ادا کر نے میں خود مکتفی ہوتا ہے۔ غزل کی اس ریزہ خیالی سے کلیم الدین احمد دھوکہ کھا گئے اور ادبی شرک کے مرتکب ہو گئے۔ غزل جس کو خالص مشرقی شعریات کے تناظر میں پرکھنا تھا، کلیم الدین احمد مغربی اصول و نظریات کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ غزل اتنی مقبولیت کے باوجود آج بھی اس کی ریزہ خیالی یورپ کے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی۔

غزل کی تفہیم میں اس کے ارتقائی سفر کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ غزل اور شاعری کے ڈکشن میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک ہی لفظ نے معانی کے کئی رنگ و روپ اختیار کر لیے ہیں۔ میر و غالب کے عہد میں عاشق و معشوق کا جو تصور تھا وہ اقبال کے یہاں کسی اور شکل میں سامنے آیا اور فیض کے یہاں کسی اور روپ میں۔ آپ غالب کے یہ اشعار دیکھیں           ؎

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتا

 آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

 یہی عشق سفر کرتے کرتے جب اقبال تک پہنچتا ہے تو اس طرح شعر میں نمودار ہوتا ہے      ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

 اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

 نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

 یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

فیض احمد فیض کا معشوق گوشت پوست والا انسان بھی ہے اور ان کا ملک اور وطن بھی۔ فیض نے چونکہ زیادہ نظمیں تخلیق کی ہیں اس لیے یہاں ان کی نظم کے حوالے دیے جا رہے ہیں۔ ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ نظم میں وطن سے اپنی محبت کا اظہار ایسے کیا جیسے کوئی اپنے محبوب سے کرتا ہے         ؎

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

غالب کا روایتی عاشق اقبال کے یہاں مرد مومن بن جاتا ہے اور فیض کے یہاں مرد مجاہد جو سرمایہ داروں کے خلاف آزادی کا پر چم لیے کھڑا نظر آتا ہے۔ مطالعہ غزل میں مرور ایام کے ساتھ لفظوں اور استعاروں کے بدلے ہوئے رنگ و روپ کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب کی مختلف تحریکوں اور رجحانوں کے اسباب و مقاصد سے ہماری آگہی ضروری ہے۔ تمام تحریکوں کے اثرات اصناف ادب پر مرتب ہوئے ہیں۔ غزل کی تفہیم میں یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوگا کہ ہم غزل کو اس کے ادوار میں رکھ کر اس کا مطالعہ کریں۔ آپ کسی ایک دور کی شاعری کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس دور کی شاعری پر اس وقت کے رجحان کا کتنا گہرا اثر ہے۔ غزل کی روایت میں ایک دور ایہام گوئی کا گزرا ہے۔شاکر ناجی اور آبرو کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ایہام گوئی کا تصور ہمارے ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ ناجی کا ایک شعر ہے        ؎

 اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں

عارضی میری زندگانی ہے

یہاں دوسرے مصرعے میں لفظ عارضی کا ایک مطلب وقتی اور Temporary ہے۔ قاری مزید غور و فکر کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پہلے مصرعے کی مناسبت سے اس کا ایک مطلب رخسار اور عارض بھی ہوسکتا ہے۔ قاری کی نظر جب اس نکتے پر پڑتی ہے تو وہ اس شعر سے زیادہ لطف اٹھاتا ہے۔مطالعۂ غزل میں غزل کی روایت پر نظر نہ ہو تو ہم شاعری کے اصل لطف سے محروم رہ سکتے ہیں۔

غزل کے معنیاتی نظام تک رسائی حاصل کر نے کے لیے سب سے اہم اس کے استعاراتی نظام کی مکمل آگہی ہے۔ استعارات و تشبیہات اور معروف صنعتوں کو سمجھے بنا غزل کی صحیح تفہیم تقریبا ناممکن ہے۔ مطالعۂ غزل میں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی ہوگی کہ غزل میں بات سیدھے انداز میں نہیں کی جاتی ہے۔ غزل کا شاعر اشارات و تمثیلات کے ذریعے معنی کو لفظوں میں چھپاتا ہے۔ اردو غزل کے عامۃ الورود الفاظ و تراکیب جیسے عشق و جنوں، لیلی و مجنوں، گل و بلبل، شمع و پروانہ، برق و شرر، دام و صیاد، طور و کلیم، جام و صہبا، دیوانہ و صحرا، ساقی و ناصح، دیر و حرم اور اس نوعیت کے دوسرے الفاظ محض الفاظ نہیں بلکہ غزل کے مخصوص علائم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس نوعیت کے الفاظ شاعری میں گہری معنویت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح کے الفاظ ظاہری مفہوم کے ساتھ اپنا باطنی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ جب جب ہمیں اس طرح کے الفاظ و تراکیب کا سامنا ہو تو ہمارے لیے ہر شعر پر عمل جراحی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ تبھی ہم اس کے ظاہری مفہوم کے ساتھ اس کے باطنی مفہوم کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اس پوری بحث کو میر تقی میر کے اس مشہور شعر سے سمجھیں           ؎

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

ظاہر ہے اس کا ایک مطلب تو یہی ہے جو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں آ تا ہے، یعنی        ؎

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

یعنی عشق کرنا آسان نہیں ہے۔ اس میں روز بروز پریشانیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم سنجیدہ ہوکر لفظ عشق پر غور کرتے ہیں تو پھر اس سے یہ معنی بھی نکل کر آتا ہے کہ عشق کی طرح ہم جب بھی کسی بڑے مقصد کے حصول میں نکلتے ہیں تو ہمیں کئی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تھوڑی اور مغز ماری کرتے ہیں تو اس سے عشق کا ہی یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ شروع شروع میں معشوق ناز و نخرے تو دکھاتا ہی ہے لیکن رفتہ رفتہ عشق میں وہ منزل بھی آتی ہے جہاں عاشق ہجر کا رونا نہیں روتا۔ وہ وصال کی مسرت کا نغمہ گنگناتا ہے۔ ممکن ہے یہاں شاعر یہ بھی کہنا چاہ رہا ہو کہ ابھی تو آغاز عشق ہے پریشان کیوں ہوتے ہو، حوصلہ رکھو کچھ دن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہیں سے یہ معنی بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی بھی کام کے آغاز میں دقتیں تو پیش آتی ہی ہیں۔ ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں یا ہر پریشانی کے بعد آسانی پیدا ہوتی ہے۔

میں نے مضمون کے شروع میں رولاں بارتھ کا نظریہ ’مصنف کی موت‘ کا ذکر کیا ہے لیکن میں اس نظریے سے پورے طور پر اتفاق نہیں رکھتا کہ متن آزاد ہوتا ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ متن کا مطالعہ آزادانہ طریقے سے کرنا چاہیے۔ متن کا آزاد ہونا اور متن کا آزادانہ طریقے سے مطالعہ کرنا، دونوں میں فرق ہے۔ اگر متن آزاد ہوتا ہے تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ اسلوب میر کا ہے یہ غالب کا ہے اور یہ اقبال کا ہے۔ دراصل ہر متن میں صاحب متن کی علمی و فکری دنیا موجود رہتی ہے اور بعض دفعہ اس کی شخصیت کی پوری کہانی اس کے متن میں پنہاں ہوتی ہے۔ اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ مطالعۂ غزل میں شاعر کی زندگی کا مطالعہ بھی اہم ہے۔ میر کی زندگی کا مطالعہ کریں یا ان کی غزلوں کی بات ایک ہی ہے۔ ہم ان کی غزلوں کی مدد سے ان کی شخصیت کا ایک خاکہ بنا سکتے ہیں اور ان کی زندگی پڑھ کر ان کی غزلوں کی روح تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف کی موت والی بات میرے نزدیک اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ متن کی قرأت کے حوالے سے جتنے بھی نظریات ہیں وہ سب کے سب بے معنی اور بکواس ہیں اگر قاری کی اپنی لیاقت اور علمیت قابل اعتبار نہیں ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ہے:

’’میرا ذاتی ادراک اور Perception یہ ہے کہ متن کی قرأت کے لیے کسی بھی ایزر فش، دریدا، بارتھ، لاکاں فوکو کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ آپ کے اپنے شعوری بالیدگی اور قدرے Episteme کی اہمیت ضرور ہے۔‘‘ (قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص: 24)

قاری کا اپنا شعور اگر بالیدہ اور مطالعہ وسیع نہ ہو تو وہ جب جب کسی غزل کی قرأت کرے گا تب تب غیب سے یہ آواز آئے گی        ؎

 یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قاری کس نظریے کے تحت متن کی قرأت کر رہا ہے۔

 

Dr. Md. Raihan

Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 7366083119

قومی اردو کونسل میں ‘ہندی پکھواڑا’ کی مناسبت سے ہندی میں مسابقۂ مضمون نویسی

 کونسل کے ملازمین کی شرکت، پانچ کامیاب شرکا کو نقد انعام و توصیفی اسناد سے نوازا گیا

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں ‘ہندی پکھواڑا’ کی مناسبت سے 21 ستمبر کو ہندی زبان میں مسابقۂ مضمون نگاری کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں کونسل کے مختلف شعبوں سے 16 ملازمین نے حصہ لیا ۔ آج کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے اس مسابقے کے نتائج کا اعلان کیا اور اس موقعے پر پہلی،دوسری و تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے شرکا کے علاوہ دو شرکا کو تشجیعی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ تشجیعی انعام پانچ سو روپے نقد اور سند توصیفی کی شکل میں محمد طاہر صدیقی اور ہریش لال کو دیا گیا، جبکہ محمد افروز نے پہلی، محمد شاداب شمیم نے دوسری اور نشاط حسن نے تیسری پوزیشن حاصل کی، تینوں کامیاب شرکا کو بالترتیب تین ہزار روپے، دو ہزار روپے، ایک ہزار روپے اور توصیفی اسناد سے نوازا گیا۔

اس موقعے پر پروفیسر عقیل احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے مسابقے میں کامیاب ہونے والے شرکا کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ جو لوگ کامیاب نہیں ہوسکے ،وہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس مسابقے میں شرکت کی ۔ انھوں نے کہا کہ ہندی ہمارے ملک کی ایک اہم زبان ہے جس کے فروغ و اشاعت کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی تمام زبانیں اہمیت کی حامل ہیں، ہم اردو والے اس ملک کی تمام زبانوں سے محبت کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ اردو کے ساتھ ملک کی ساری زبانیں ترقی کریں۔انھوں نے کہا کہ آزادی کے طویل عرصے بعد بھی ہمارے یہاں زیادہ تر دفتری کام کاج انگریزی زبان میں ہوتا ہے، جس سے احتراز کرنے اور ملک میں ہندی زبان میں دفتری کام کا ماحول عام کرنے کے مقصد سے موجودہ سرکار متعدد اسکیمیں چلا رہی ہے، ’ہندی پکھواڑا‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پروگرام اس لیے کیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں ہندی کے حوالے سے عمومی بیداری پیدا ہو اور ہم اپنا دفتری کام ہندی  میں بھی  کریں۔اس موقعے پر کونسل کا تمام اسٹاف موجود رہا۔ 


26/9/23

تدوین متن میں قرأت کے مسائل:عبدالباری

کسی قدیم متن کو مصنف کے منشا کے مطابق تحقیق و تخریج، تحشیہ و تعلیق اور مقدمے سے مزین کرکے منظر عام پر لانے کا نام تدوین ہے۔تدوین متن کو متنی تنقید اور ترتیب متن سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔تدوین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مخطوطہ یا طبع شدہ کام کو کاتب کی غلطیوں یا ملاوٹ سے پاک و صاف کرکے مصنف کے منشا کے مطابق پیش کیا جائے۔مدون جب کسی مخطوطے یا کتاب کو مرتب کرتا ہے تو اسے بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے اور بہت سے مراحل کو عبور کرنے کے بعد وہ متن کو تحریفات، الحاقات اور سرقے وغیرہ سے پاک کرپاتا ہے۔ مرتب و مدون کو جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ان میں ایک اہم اور بنیادی مسئلہ متن کی قرأت کا ہے۔اگر مخطوطہ شناسی کے فن پر عبور حاصل نہ ہو تو مدون کے لیے مصنف کی خواہش اور اس کے منشا کے مطابق متن کی تدوین مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔قرأت عربی لفظ ہے اس کے معنی پڑھنا ہوتا ہے۔تدوین متن میں اس سے مراد مخطوطات یا مصنف کی تحریر کو پڑھنا ہے مدون جب کسی مخطوطے یاکتاب وغیرہ کو مرتب کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اسی مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اس لیے  مدون متن کے لیے  قرأت کے مسائل سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔

قدیم متون کے متعدد نسخوں میں بعض الفاظ اور عبارتوں کی قرأت کاتب نے غلط کی اور نادانستہ طورپر کچھ کا کچھ لکھ دیا۔اس قسم کی بہت سی مثالیں قدیم متون میں موجود ہیں۔ اس پرمرتب متن کی نگاہ ہونی چاہیے تبھی وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ قرأتوں میں یہ اختلاف عموماً نقل درنقل کی وجہ سے ہوتا ہے کہ مصنف نے تو کچھ لکھا، بعد میں کاتب نے اسے کچھ پڑھا اور پھر وہی اس نے نقل کردیا اور اسی طرح وہ متن چھپتا رہا۔ یہ کبھی کاتب کی غلطی سے ہوتا ہے یا وہ صحیح پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر پڑھ نہیں پاتا پھر جو اسے سمجھ میں آتا ہے وہی لکھ دیتا ہے۔ہرزبان میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اردو، عربی اور فارسی میں تو ایسے لفظوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہے کہ ان زبانوں میں محض نقطوں کے فرق سے الفاظ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کے معنوں میں بھی بڑا فرق واقع ہوجاتا ہے۔قرأت کی نادانستہ غلطیوں کی بہت سی مثالیں قدیم شعری دواوین اور مجموعوں میں موجود ہیں،جیسے انتخابِ میر مرتبہ مولوی عبدالحق (طبع چہارم)میں ایک شعر ہے       ؎

ٹک سن کہ سوبرس کی ناموسِ خامشی کھو

دوچار ’دن‘ کی باتیں اب منہ کو آئیاں ہیں

بعض نسخوں میں’دن ‘ کی ’قرأت‘ دل کی گئی ہے۔خلیق انجم1  نے دل ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔

بعض الفاظ شکل وصورت میں ایک جیسے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے پڑھنے اور نقل کرنے میں غلطی رونما ہوجاتی ہے جیسے کلیاتِ سودا مرتبہ آسی میں ایک شعر ہے        ؎

جیدھر کو جس کا منھ اٹھا اودھر کو چلا

سوجھے‘بغیر یہ کہ فلاں جا کروں قرار

شعر کے سیاق و سباق اور قرینے کے اعتبار سے دوسرے مصرعے میں لفظ’سوجھے‘ غلط ہے، چنانچہ اسی کلیات کے دوسرے نسخے(نسخۂ رچرڈسن) میں اسے ’سوجھے‘ کے بجائے’سوچے‘ پڑھا اور نقل کیا گیا ہے اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔

اسی طرح قرأت کا یہ اختلاف کبھی مرکب لفظوں کے درمیان بے جا فاصلے، کبھی ایک یا اس سے زیادہ لفظوں یا حرفوں کی بے جا تقدیم و تاخیر کی وجہ سے،کبھی شعر کے مصرعوں کی ترتیب بگڑجانے کی وجہ سے،کبھی الفاظ کی تبدیلی کی وجہ سے،کبھی شعر یا مصرعے کے کسی لفظ کے چھوٹ جانے کی وجہ سے،کبھی سہواً کسی لفظ یا فقرے کو مکرر سہ کرر لکھ دینے کی وجہ سے،کبھی اس وجہ سے کہ کاتب جس زبان کا متن نقل کررہا ہے اس سے وہ کماحقہ واقف نہیں،چنانچہ وہ کسی لفظ کو غلط پڑھتا ہے اور وہی لکھ بھی دیتا ہے،کبھی کسی اہم اور خاص اصطلاح کے نقل کرنے میں کاتب سے غلطی ہوجاتی ہے،کبھی اعداد و شمار کی نقل میں غلطی ہوجاتی ہے اورکبھی محاورات و ترکیبات کو مصنف اور شاعر کے منشا کے خلاف نقل کرنے کی وجہ سے قرأت کی غلطیاں رونما ہوتی ہیں۔اسی طرح بسا اوقات کاتب جان بوجھ کر شرارت کرتا ہے اور کسی لفظ کو بدل دیتا ہے،کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے،اپنے زعم میں کسی غلط لفظ کی تصحیح کرنا چاہتا ہے اور مصنف نے جو لکھا ہے اس کی جگہ کوئی اور لفظ لکھ دیتا ہے،تذکیر و تانیث وغیرہ کے سلسلے میں مصنف کی تحریر کے برخلاف کسی لفظ کو نقل کرتا ہے یااسی قسم کی غلطیاں کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے متنی نقاد یا مرتبِ متن کو تدوین کے دوران دشواری پیش آسکتی ہے اور اسے اپنے غور و فکر اور مصنف کے دوسرے مسودوں اور کتابوں کے مطالعوں سے بہت سی چیزوں کو سمجھنا اور زیر غور متن کو اسی کے مطابق مرتب کرنا پڑے گا۔

رسم الخط اور املا کے مسائل

تدوین متن کے مسائل میں جو سب سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ایک مدون کو پیش آتا ہے وہ قدیم مخطوطات کے رسم الخط اور طرز املا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک جبکہ دنیا کی تمام زبانوں کے املا کے قواعد تقریباً متفقہ طورپر طے پا چکے ہیں، اردو میں ایسے قواعد املا کا وجود نہیں جن پر تمام اردو دنیا کا اتفاق ہو اور جنھیں سب مانتے ہوں۔حالانکہ ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر بہت سے علمی و لسانی اداروں نے بھی املا اور قواعد املا پر کام کروایا ہے، اسی طرح متعدد ماہر لسانیات اور محققین نے اپنے طورپر بھی اردو املاکے قواعد مرتب کیے اوراردو والوں کو انھیں اپنانے کی تلقین و تبلیغ کی،مگر پھر بھی کوئی ایسا اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا،جس کی وجہ سے اردو الفاظ کے املا اور رسم خط کے سلسلے میں کوئی حتمی اور تمام اردو دنیا میںمتفقہ موقف پایا جاتا ہو۔جب آج اکیسویں صدی میں یہ حال ہے تو پچھلی صدیوں میں کیا حال رہا ہوگا،اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک اسکالر کسی سو دوسالہ قدیم متن کی ترتیب و تدوین کا بیڑہ اٹھاتا ہے تو اسے جہاں دیگر بہت سی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے،وہیں اس کے لیے متن کی قرأت و تفہیم کے سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ قدیم طرز املا اور لفظوں کے رسم الخط کی وجہ سے پیش آتا ہے، کیونکہ اس مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے اس کے پاس کوئی متفقہ اصول،منظم قاعدہ اور طے شدہ ضابطہ نہیں ہوتا،اسے اس معاملے میں کلیتاً اپنے علم و فہم پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔بہت سے الفاظ تو ایسے ہیں جن کا املا پچاس ساٹھ سال قبل جو تھا اور اب وہ جس طرح لکھے جاتے ہیں،اس کو پہچاننا مشکل نہیں ہے،مگر ایسے الفاظ کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے،جن کے املا کے تعلق سے نہ ماضی میں کوئی اتفاق رائے تھا اور نہ آج کوئی طے شدہ اصول ہے،چنانچہ جس مصنف یا تخلیق کار کو جیسا بہتر سمجھ میں آتا ہے ویسے انھیں تحریر کرتا ہے۔ذیل میں اس اہم ترین مسئلے کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

جیسا کہ ماقبل میں ذکر کیا گیا ہے،اردو الفاظ میں نقطوں کی بڑی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے،ان نقطوں کے ہونے اور نہ ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے معنوں میں بھی بڑی غیر معمولی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔مگر ماضی میں کاتب حضرات حروف پر نقطے ڈالنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے،جس کی وجہ سے ان متون کو پڑھنے اور سمجھنے میں بڑی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔جیسا کہ پروفیسر نذیر احمد نے لکھا ہے، ان نقطوں کی وجہ سے ان تمام زبانوں کے متون کے ساتھ یہ مسئلہ لگا ہواہے،جو عربی فارسی رسم الخط میں لکھے جاتے ہیں۔2

رسم الخط اور طرز املا کی وجہ سے متن میں بہت سی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، مثال کے طور پرمتعدد حروف صرف نقطوں کی کمی بیشی یا انھیں اوپر یا نیچے لگائے جانے سے بدلتے ہیں،ان کی شکل مفرد صورت میں کچھ اور ہوتی ہے اور مرکب صورت میں کچھ اور ہوتی ہے، جب ایسے حروف دوسرے حروف سے ملاکر لکھے جاتے ہیں تو بسا اوقات غلط پڑھے جاتے ہیں اور پھر وہی غلطی نقل درنقل چلتی رہتی ہے۔جیسے کہ ب،پ،ت،ث میں فرق صرف نقطوں کا ہے،نقطوں کی تعداد اور انھیں اوپر یا نیچے رکھنے کا،جب یہ حروف ملاکر لکھے جاتے ہیں تو شوشے کی صورت میں تبدیل ہوجاتے ہیں،ایسی صورت میں س، ش، ن،ی اور ے بھی اسی زمرمے میں شامل ہوجاتے ہیں،شوشے اگر درست طریقے سے استعمال کیے گئے ہیں تب تو ان کے درمیان امتیاز کیا جاسکتا ہے لیکن شوشے کم رہ گئے ہیں تو مشکل بڑھ جاتی ہے، جیسے دیوانِ اثر (مخزونہ جامعہ ملیہ اسلامیہ) میں ایک شعر ہے       ؎

حق تری تیغ کا ادا نہ ہوا

اپنی گردن پہ سر ’پہ‘ بار رہا

یہاں سر کے بعد ’پہ‘ کے بجائے ’یہ‘ کا موقع ہے۔ظاہر ہے کہ شاعر نے یہی لکھا ہوگا مگر کاتب کو نقطوں کا صیحح اندازہ نہیں ہوا ہوگا اور اس نے’یہ ‘ کو ’پہ‘ لکھ دیا۔

 کلیات سودا مرتبہ رچرڈسن میں ایک شعر ہے     ؎

سودا اس قوم سے کہہ بھاگیں اب اس پیشے سے

رگڑیں فرہاد صفت سر ’نہ‘ میرے تیشے سے

جب کہ کلیات سودا مرتبہ آسی میں دوسرا مصرع یوں ہے     ؎

رگڑیں فرہاد صفت سر’ یہ‘ میرے تیشے سے

یہاں نقطے کے اوپر نیچے ہونے سے مصرعے میں تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔

تذکرۂ سرور میں ایک شعر ہے:

گر ناقۂ لیلیٰ کے چرانے کی ہے خواہش

مجنوں تجھے لازم ہے لباسِ’سبزی‘ رنگ

یہاں دوسرے مصرعے میں صحیح لفظ ’شتری‘ ہونا چاہیے تھا۔ یہاں بھی شوشے اور نقطے کی وجہ سے لفظ بدل گیا ہے۔

بعض دفعہ پورا لفظ بدل جاتا ہے،جیسے میر اثر کا شعر ہے         ؎

کون پتھر ہے دل ترا ظالم

ایسے ’نالوں‘ سے جو پگھل نہ گیا

دوسرے مصرعے میں ’نالوں‘ کی جگہ کچھ نسخوں میں’باتوں‘ ہے۔

کبھی کبھی کاتب یا ناقل کسی مصرعے میں اپنی طرف سے کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے،جیسے راغب کا ایک شعر ہے       ؎

اے وائے بیٹھتے ہی یہ کیا جی میں آگیا

محفل سے اپنی تو نے ہمیں کیو ں’کر‘ اٹھا دیا

یہاں دوسرے مصرعے میں ’کیوں‘ کے بعد’کر‘ زائد ہے،کیونکہ اس کی وجہ سے مصرعے کا وزن مارا جاتا ہے۔

جب م،ق اور ف کو ملاکر لکھتے ہیں تو اس سے بھی متن کے پڑھنے اور نقل کرنے میں غلطی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے جیسے تذکرہ سرور مرتبہ خواجہ احمد فاروقی میں ایک شعر ہے         ؎

مے کے پینے سے تو ہاں ہم نے نباہی توبہ

پر’فغاں ‘ سے یہ خجل ہیں کہ الٰہی توبہ

یہاں دوسرے مصرعے میں’فغاں‘ کی جگہ ’مغاں‘ ہونا چاہیے تھا۔

یائے معروف و مجہول

اسی طرح اردو کے قدیم رسم الخط میں یائے معروف اور یائے مجہول میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا یعنی دونوں کو گول یا کے ساتھ لکھا جاتا ہے،اس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر کلیات سودا مرتبہ آسی میں ایک شعر ہے       ؎

سودا ’گلی‘ میں یاد کی گوبولتا ہے گرم

پر ہر سخن کے ساتھ دمِ سرد ہے سو ہے

جب کہ پہلا مصرع نسخۂ جانسن میں یوں ہے      ؎

سودا’گِلے ‘میں یار کے گو بولتا ہے گرم

 معلوم ہوا کہ شاعر نے یا اولین کاتب نے یائے مجہول کو گول یا کی صورت لکھا تھا،بعد میں جب آسی نے کلیات سودا مرتب کیا تو اسے یائے معروف سمجھ کر نقل کردیا،جبکہ دوسرے مرتب نے یائے مجہول کے طورپر نقل کیا ہے۔

اس یائے معروف و یائے مجہول میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بعض دفعہ بہت مضحکہ خیز صورت پیدا ہوجاتی ہے،جیسے غالب کا ایک شعر ہے       ؎

آئے‘ ہو کل اور آج ہی ’کہتے ‘ہو کہ جاؤں

مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

پہلا مصرع دیوان غالب کے نسخہ نظامی کانپور مطبوعہ 1863 میں اس طرح لکھا گیا ہے         ؎

آئی‘ ہو کل اور آج ہی ’کہتی‘ ہو کہ جاؤں

تشدید،ترکیب

قدیم متون میں حروف پر تشدید لگانے کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے بھی بہت سی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔اسی طرح قدیم متون میں ایسے بھی بے شمار الفاظ ملتے ہیں جہاں الگ الگ لکھے جانے والے دو یا ان سے زائد لفظوں کو ملاکر لکھ دیا گیا ہے،ایسے الفاظ کو پڑھنے اور سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے، جیسے کربل کتھا میں اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں:

ظلمکی (ظلم کی)

بغلمیں(بغل میں)

آہمارے کو(آہ مارے کو)

بہنکوں(بہن کوں) وغیرہ

لفظوں کو توڑ کرلکھنا

قدیم متون میں دو لفظوں کو ملاکر لکھنے کے ساتھ ایک ہی لفظ کو دو حصوں میں توڑ کر لکھنے کی روایت بھی عام رہی ہے اور اس کی مثالیں بھی بڑی کثرت سے موجود ہیں۔جیسے کربل کتھا میں ہی ’بیٹھتی‘، ’پہنتی‘، ’ٹوٹتا‘، ’ڈھونڈتا‘ اور مردانگی ‘جیسے الفاظ کو ’بیٹھ تی‘،’پہن تی‘،’ٹوٹ تا‘، ’ڈھونڈھ تا‘، ’مردانہ گی‘ لکھا گیا ہے۔ایسے ہی کلیات ناسخ میں ایک شعر ہے      ؎

دے دوپٹہ تو اپنا ململ کا

ناتواں ہوں کفن بھی ہو ’ہل کا

دوسرے مصرعے کے آخر میں ’ہل کا‘ در اصل’ہلکا‘ ہے۔

ہائے مخلوط

قدیم تصانیف میں ہائے مخلوط کا استعمال بھی بہت کم ہواہے،زمانۂ قدیم میں عموماً ایسی جگہوں پرجہاں ہائے مخلوط کا موقع ہوتا تھایاتو ہا استعمال نہیں کرتے تھے یا لٹکن والی ہا ہی استعمال کرتے تھے، اب آج کے زمانے میں ایسے متون کو پڑھتے ہوئے الجھن ہونا فطری ہے کیوں کہ ہم اس کے عادی نہیں ہیں۔ محمود شیرانی نے اپنے مرتبہ ’مجموعۂ نغز‘ کے رسم الخط پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ کی نشان دہی کی ہے جن میں ہائے مخلوط کا استعمال نہیں کیا گیا ہے،جیسے:

مجکو(مجھ کو)

اونگ(اونگھ)

سونگ(سونگھ)

پگلانا(پگھلانا)

ہاتوں(ہاتھوں)

مصوتوں کا مسئلہ

اسی طرح اردو رسم الخط میں بعض مصوتوں کے لیے باقاعدہ حروف نہیں ہیں بلکہ زیر زبر اور پیش سے ان کے تلفظ کا تعین کیا جاتا ہے۔اب پرانے متن میں ایک لفظ مستعمل ہے اور اس پر کوئی حرکت نہیں لگائی گئی ہے تو اس زمانے کے حساب سے اس کے تلفظ کا تعین تقریباً ناممکن ہے۔اردو میں ایسے الفاظ بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کے مصوتے بدل جانے سے ان کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مرتب متن کی ذمے داری ہے کہ وہ بڑی باریک بینی سے متن کو پڑھے اور حسب موقع و محل درست تلفظ طے کرنے کی کوشش کرے۔اعراب بالحروف کا رواج بھی قدیم زمانے میں عام تھاجیسے زیر کی جگہ ’ی‘ اور پیش کی جگہ’و‘ استعمال کرنا،اس پر بھی مرتب متن کی نگاہ ہونی چاہیے۔

عام طرز کے برخلاف املا

بعض دفعہ قدیم تحریروں میں روشِ عام کے برخلاف انفرادی طرزِ املا بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔مثلاً بالخیر، باللہ، بالکل اور بالفعل،بالکلیہ وغیرہ جیسے الفاظ جو عربی سے اردو میں منتقل ہوکر اب اردو ہی ہوگئے ہیں،ان کا املا عموماً اسی طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوایعنی ب اور لام کے درمیان الفِ غیر ملفوظ کے ساتھ، مگر بعض لوگ اس الف کو بھی لکھنے کا اہتمام کرتے ہیں یعنی ’بالفعل‘ کو ’باالفعل‘ لکھتے ہیں اور ’بالکل‘ کو ’باالکل‘ لکھتے ہیں۔آج کل تو اگر کوئی ایسے لکھے تو اسے لاعلمی پر محمول کیا جاتا ہے مگر قدیم عہد میں متعدد مصنفین و شعرا اس طرز املا پر ہی عمل پیرا تھے،جیسے حنیف نقوی کی تحقیق کے مطابق مرزا غالب نے ایسے تمام الفاظ کو الف کے ساتھ ہی لکھا ہے۔3

گول اور لمبی ت

گول اور لمبی ت(تائے قرشت اور تائے مدورہ) میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بھی قدیم متون کو پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔دراصل عربی میں دو قسم کی تائیں ہیں ایک مدورہ یعنی گول تا جو کہ وقفے کے موقعے پر ہا سے بدل جاتی ہے اور ایک ہے تائے قرشت یعنی لمبی تا جو ہمیشہ پڑھی جاتی ہے۔اردو میں جو ’تا‘ پڑھی اور بولی جاتی ہے وہ عموماً لمبی تا کے ساتھ لکھی جاتی ہے،ورنہ ’ہ‘ لکھی جاتی ہے،مگر عربی کی تقلید یا تاثر کے نتیجے میں بہت سے الفاظ مثلاً ’صلوۃ،زکوۃ ‘وغیرہ گول تاسے بھی لکھے جانے لگے ہیں،یہ چیزیں بھی مرتب متن کے ذہن میں ہونی چاہیے۔

کاف اور گاف

قدیم طرز املا میں بعض دفعہ کاف اور گاف کے درمیان فرق و تمیز کا بھی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ سے بھی بعض متون کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے،کیوں کہ اگر گاف کی جگہ کاف پڑھ لیا اور کاف کی جگہ گاف پڑھ لیا تو معنی میں بڑی تبدیلی واقع ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اور لفظوں کی ہیئت پوری طرح بدل جاتی ہے۔جیسے کہ ’باگ‘ اور ’ٹوٹ‘ کی ترکیب سے ایک لفظ بنا ہے ’بگٹٹ‘، اس لفظ کو ’فسانۂ عجائب‘ کے بعض نئے ایڈیشنز میں ’بکٹت‘ لکھا گیا ہے، یعنی یہ بالکل نیا ہی لفظ بن گیا ہے۔ ایک اور لفظ’لگان‘ جس کے معنی دریا کے کنارے کشتیوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ کے ہیں،نئے ایڈیشنز میں ’تکان‘ بنادیا گیا ہے،ظاہر ہے کہ اس سے نہ صرف لفظ بدلا بلکہ اس کے معنی بھی کلیتاً مختلف ہوگئے ہیں۔اس طرح کی بہت سی مثالیں قدیم متون کے نئے پرانے نسخوں میں موجود ہیں۔جیسے شورش عظیم آبادی کے تذکرے میں ایک جگہ میر کا درج ذیل شعر اس طرح منقول ہے      ؎

جو ترے کوچے میں آیا پھر نہیں کاڑھا اسے

تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاک دامن گیر کا

پروفیسر محمود الٰہی کے مرتبہ ایڈیشن میں ’کاڑھا‘ کو ’گاڑھا‘ بنادیا گیا ہے اور اس مناسبت سے ’نہیں‘ کو’یہیں‘ بنادیا گیا ہے۔

کیجیے اور کیجے،ایدھر اور ادھر،یاں اور یہاں

عام طورپر اشعار میں کہیں ’کیجیے‘ کا موقع ہوتا ہے اور کہیں ’کیجے‘ کا۔اس کا تعلق وزن شعری سے ہے،اگر ذرا بے توجہی برتی جائے یا کاتب کو شعر و سخن سے کوئی انسیت نہ ہو تو وہ کیجے کو کیجیے لکھ دیتا ہے اور اس کی وجہ سے شعر کا وزن بگڑ جاتا ہے۔اس کی مثالیں قدیم شاعری میں بھری پڑی ہیں۔یہی حال ایدھر اور ادھر،یاں اور یہاں، واں اور وہاں کا ہے۔ اسی طرح کسی لفظ کے آخر میں اگر ’نون‘ ہے تو اس کو ظاہر کرنا ہے یا نون غنہ کے طورپر پڑھا جائے گا یہ بھی اگر واضح نہ ہو تو شعر کی موزونیت متاثر ہوتی ہے اور بعض دفعہ معنی میں بھی خرابی واقع ہوجاتی ہے۔

املا اور رسم الخط کے اختلاف اور قدامت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ا ن مسئلوں کی وجہ سے ایک ہی متن کے مختلف نسخوں میں بعض الفاظ کی شکلیں بدل جاتی ہیں، عبارتیں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے معنوں میں تبدیلی کا بھی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مرتب متن کے لیے بڑی آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف قرأتوں والے ایک ہی متن کے متعدد نسخوں میں سے کس کو اختیار کرے یا ان کی تصحیح کا فریضہ کیسے انجام دے۔ایسے موقعے پر علمی وسعت کے ساتھ بڑی گہری بصیرت اور دانش مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلیق انجم نے اس کی مختلف شکلوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقوں کی نشان دہی یوں کی ہے:

  1.      اگر ایک نسخے کی قرأت میں ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جو مصنف کے عہد میں رائج نہیں تھا یا کم رائج تھا یا اس کا تلفظ مختلف تھا اور دوسرے نسخے کی قرأت اس عہد سے زیادہ قریب ہے تو دوسری قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔
  2. ایک بامعنی قرأت کو بے معنی قرأت پر ترجیح دی جائے گی۔
  3. اگر کسی قرأت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ زائد ہیں تو دوسری قرأت قابل ترجیح ہوگی۔
  4. اگر کسی قرأت میں ایک یا اس سے زیادہ الفاظ حذف ہوگئے ہیں تو دوسری قرأت کو ترجیح حاصل ہوگی۔
  5. اگر ایک قرأت با معنی ہے لیکن سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہے اور دوسری ہے،تو دوسری کو ترجیح ہوگی۔
  6. اگر کوئی قرأت کاتب کی غلطی سے مکرر ہوگئی ہے تو اس قرأت کو ترجیح دیں گے جو مکرر نہ ہو۔
  7. یہ ممکن ہے کہ دو نسخوں میں ایک مقام پر ایسی دو قرأتیں آجائیں، جن میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہو تو ایسی صورت میں بنیادی نسخے کی قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔جیسے دیوان تاباں کا ایک شعر ہے    ؎

کس پری رو نے ’چرایا‘ دل مرا معلوم نئیں

ڈھونڈھتا ہوں کیا ہوادل،ہائے دل،افسوس دل

بعض نسخوں میں پہلے مصرعے میں’چرایا‘ کی جگہ’چھپایا‘ بھی منقول ہے اور یہ دونوں ہی لفظ بامعنی اور موقع کے مناسب ہیں،ایسی صورت میں مرتب متن کو چاہیے کہ بنیادی نسخے میں جو قرأت ہو اسی کو ترجیح دے۔ 4

حواشی

  1. متنی تنقید،خلیق انجم،ص64
  2. تصحیح و تحقیق متن،پروفیسر نذیر احمد،ص18
  3. تحقیق و تدوین:مسائل و مباحث،پروفیسر حنیف نقوی، ص150
  4. متنی تنقید،خلیق انجم،ص98

Abdul Bari Qasmi

C-145/1, GF, Tayyab Lane

Shaheen Bagh, Jamia Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

Email.: abariqasmi13@gmail.com

تازہ اشاعت

تاریخ تمدن ہند، مصنف: محمد مجیب

  اردو دنیا۔ اکتوبر 2024 فن تعمیر آٹھویںصدی تک مندر کے نقشے اور اس کے لازمی اجزا کا تعین ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تعمیری سرگرمی کا ایک دور ...