سوامی وویکانندکی پیدائش 12،جنوری1863 کو کلکتہ
میں ہوئی۔ ان کا خیال تھاکہ ملک کا مستقبل نوجوانوں پر منحصر ہے۔صحت مند اور تعلیم
یافتہ نوجوانوں سے نہ صرف ملک کی ترقی ہوگی بلکہ یہ ترقی صحیح سمت میں ہوگی۔ملک کے
نوجوانوں کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے کے لیے سوامی ویوکانند کے یوم پیدائش کے موقع
پرہر سال 12جنوری کو قومی یوم نوجوان منایا جاتا ہے۔انھوں نے نوجوانوں کو کردار سازی
پر ابھارا اور کہا کہ عظیم بننے کے لیے شک، لالچ اور حسد چھوڑنا ہوگا۔انھوں نے نوجوانوں
کی کرادر سازی کے پانچ سوتر(خود اعتمادی، ایثاروقربانی، ضبط نفس، خود انحصاری اور خود
آگہی)بتائے۔رویندر ناتھ ٹیگور کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ بھارت کو جاننا چاہتے ہیں تو
سوامی ویویکانند کو پڑھیے۔ان میں آپ سب کچھ مثبت ہی پائیں گے، منفی کچھ بھی نہیں۔‘‘
سوامی ویویکانند نے اپنے استاد رام کرشن پرم ہنس کی تعلیمات کی تشہیر کے لیے۔ ’رام
کرشن مشن‘ قائم کیا اور جدید عالمی تناظر میں مختلف قدیم ہندو صحیفوں کی تشریحیں کیں۔
یوگا کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ویدانت کی تشہیر کے ساتھ تعلیم کی تشہیر
میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سوامی ویویکانند ملک کے لوگوں کی تعلیمی پسماندگی اور غربت
سے بہت فکرمند تھے اس لیے تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔
سوامی ویویکانند تعلیم کے ذریعے انسانوں کو
دنیاوی اور اخروی دونوں جہانوں کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک
ہم مادّی طور پر خوش نہ ہوں تب تک علم، عمل، عبادت اور یوگایہ سب تخیلاتی اشیا ہیں۔
دنیاوی نقطہ نظر سے انھوں نے نعرہ دیا کہ’ہمیں ایسی تعلیم چاہیے جس کے ذریعے کردار
کی تشکیل ہو، دماغ مضبوط ہو،ذہانت کی نشوونما ہو اور ہر فرد اپنے پیروں پر کھڑا ہو
سکے۔‘ اس طرح کی تعلیم کو’ انسان کی تعمیر کی تعلیم‘ کہتے ہیں۔ سوامی ویویکانند انسانی
زندگی کا حتمی مقصد فردکی کاملیت کے احساس کومانتے تھے۔ اخروی نقطہ نظر سے انھوں نے
اعلان کیا کہ ’’تعلیم انسان کی کاملیت کا ظہور ہے جو اس کے اندر پہلے سے ہی موجود ہے۔
ان کے مطابق جو تعلیم یہ دونوں کام کرتی ہے وہی حقیقی تعلیم ہے۔‘‘
سوامی ویویکانند انسان کے مادّی
اور روحانی دونوں پہلوئوں کو حقیقی مانتے تھے۔ اس لیے تعلیم کے ذریعے وہ انسانی شخصیت
کے دونوں پہلوئوں کی نشوونما پر زور دیتے تھے۔ جو تعلیم یہ دونوں کام کرے اسے سوامی
ویویکانند ’انسان کی تعمیر کی تعلیم‘ کہتے تھے۔
جسمانی نشوونما: سوامی ویویکانندمادّی زندگی
کے تحفظ اور اس کی ضروریات کی تکمیل اور خودشناسی دونوں کے لیے صحت مند جسم کی ضرورت
کو سمجھتے تھے۔ مادّی نقطہ نظر سے انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں ایسے طاقتور لوگوں کی
ضرورت ہے جن کے اعضالوہے کی طرح مضبوط ہوں اور اعصاب فولاد کی طرح سخت ہوں۔خود شناسی
کے لیے انھوں نے گیان یوگ، کرم یوگ، بھکتی یوگ اور راج یوگ کو ضروری بتایا اور ان میں
سے کسی بھی قسم کے یوگ کے لیے صحت مند جسم کی ضرورت کو واضح کیا۔ ان کے مطابق تعلیم
کے ذریعے سب سے پہلے انسان کی جسمانی نشوونما ہی کی جانی چاہیے۔
ذہانت اور دانشمندی کی نشوونما: سوامی ویویکانندملک
کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ اس کی ذہنی پسماندگی کو مانتے تھے۔ انھوں نے زور دیا
کہ ہمیں اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما کرنی چاہیے،انھیں جدید علوم سے متعارف کرانا چاہیے۔جہاں
سے جو بھی اچھا علم اور مہارت ملے اسے حاصل کرنا چاہیے اور بچوں کو دنیا کے سامنے خود
اعتمادی کے ساتھ کھڑے ہونے کی طاقت فراہم کرنی چاہیے۔
سماجی خدمات کے جذبے کی نشوونما: سوامی ویویکانند
نے واضح الفاظ میں کہا کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اپنا ہی بھلا کیا جائے۔انسان
کو پڑھنے لکھنے کے بعدنوع انسانی کی فلاح و بہبودکرنا چاہیے۔ انھوں نے ملک کے عوام
کی غربت کو خوداپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ
غریب اور لاچار لوگوں کی خدمت کریں، انھیں اونچا اٹھانے کی کوشش کریں، سماجی خدمات
کریں۔ سماجی خدمات سے ان کی مراد ہمدردی یا عطیہ نہیں تھی بلکہ سماجی خدمات سے ان کی
مراد غریب اور لاچار لوگوں کی ترقی میں معاونت تھی، ترقی تو وہ خود کریں گے۔سوامی ویویکانند
تعلیم کے ذریعے ایسے سماجی مصلحین کا گروہ تیار کرنا چاہتے تھے جو روحانی نقطہ نظر
سے سماجی خدمات کو اپنا فرض سمجھیں۔ وہ انسان
کو ایشور کا مندر مانتے تھے اور اس کی خدمت کو ایشور کی خدمت مانتے تھے۔
اخلاقی اور کرداری نشوونما: ان کا خیال تھا
کہ جسم سے صحت مند، ذہن سے بالغ اور معاشی طور پر خوشحال ہونے کے ساتھ انسان کو باکردار
بھی ہونا چاہیے۔ کردار ہی انسان کو سچا اور فرض شناس بناتا ہے، اس لیے انھوں نے تعلیم
کے ذریعے انسان کی اخلاقی اور کردار ی نشوونما پر زور دیا۔ اخلاقیات سے ان کی مراد
سماجی اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات دونوں تھیں اور کرداری نشوونما سے مراد ایسی خودی
کی نشوونما تھی جو انسان کو سچائی کے راستے پر چلنے میں معاون ہو اور اسے غلط راستے
پر چلنے سے روک سکے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایسے بااخلاق اور باکردار انسانوں سے ہی سماج
یا ملک ترقی کر سکتا ہے۔
صنعتی نشو و نما: سوامی ویویکانند نے ملک کے
غریب عوام کے جسم سے جھانکتی ہوئی ہڈیوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی طلب کرتے ہوئے دیکھا
تھا۔ مغربی ممالک کی خوشحال زندگی کو بھی دیکھا تھا، اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ
ان ممالک نے یہ مادّی ترقی، سائنس اور تکنیک کی ارتقا اور اس کے استعمال سے حاصل کی
ہے۔ انھوں نے یہ اعلان کیا کہ صرف روحانی اصولوں سے زندگی نہیں چل سکتی، ہمیں عمل کے
ہر شعبے میں آگے آنا چاہیے۔ اس کے لیے تعلیم کے ذریعے انسانوں کو پیداوار ی مہارت،
صنعت اور دیگر حرفت سے متعارف کرانے پر زور دیا تھا۔
قومی یکجہتی اور عالمی اخوت کے جذبات کی نشوونما:
سوامی ویویکانندکے زمانے میں ملک انگریزوں کا غلام تھا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ غلامی
احساس کمتری پیدا کرتی ہے اور احساس کمتری ہی تمام تکالیف کی وجہ ہے۔ اس لیے جب وہ
امریکہ سے ہندوستان واپس آئے تو انھوں نے ملک کی زمین پر پیر رکھتے ہی نوجوانوں سے
کہا کہ تمہارا سب سے پہلا کام ملک کو آزاد کرانا ہونا چاہیے اور اس کے لیے جو بھی
قربان کرنا پڑے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس وقت ایسے تعلیمی نظام کے قیام
پر زور دیا جو ملک کے لوگوں میں قومی شعور پیدا کرے، انھیں متحد کر ے اور ملک کی آزادی
کی جدوجہد کے لیے آمادہ کرے۔یہ بات ذہن نشیں کرنے کی ہے کہ سوامی ویویکانند تنگ قومی
نظریے کے قطعی طور پرحامی نہیںتھے،بلکہ وہ تمام انسانوں میں پرماتما کادرشن کرتے تھے
اور عالمی اخوت میں یقین کرتے تھے۔
مذہبی تعلیم اور روحانی نشوونما: سوامی ویویکانندتعلیم
کے ذریعے انسانوں کے مادّی اور روحانی دونوں پہلوئوں پر مساوی زور دیتے تھے۔ ان کا
واضح خیال تھا کہ انسان کی مادّی ترقی روحانیت کے پس منظر میں ہونی چاہیے اور اس کی
روحانی نشوونما مادّی ترقی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب انسان
مذہب پر عمل کرے۔ مذہب کو سوامی ویویکانند اس کے وسیع مفہوم میں استعمال کرتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ مذہب وہ ہے جو انسانوں کو محبت سکھاتا ہے، نفرت سے محفوظ رکھتا ہے،
نوع انسانیت کی خدمت کے لیے گامزن کرتا ہے، انسانوں کے استحصال سے حفاظت کرتا ہے اورمادّی
و روحانی دونوں قسم کی نشوونما میں معاون ہوتا ہے۔ ان کا مذہبی فلسفہ دنیامیں یکجہتی کا احساس کراتا ہے اور سب سے محبت کرنا سکھاتا
ہے۔
تعلیم کا نصاب: چونکہ نصاب تعلیمی مقاصد کے
حصول کا وسیلہ ہوتا ہے، اس لیے سوامی ویویکانند نے اپنے طے کردہ تعلیمی مقاصد کے حصول
کے لیے ایک وسیع نصاب پیش کیا۔ انھوں نے جسمانی نشوونما کے لیے کھیل کود، ورزش اور
یوگ پر زور دیا۔ ذہنی نشوونما کے لیے زبان، فن، موسیقی، تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات، معاشیات،
ریاضی، اور سائنس کو شامل کرنے پر زور دیا۔ زبان کے تعلق سے سوامی ویویکانند کا نظریہ
بہت وسیع تھا۔ ان کے خیال میں اپنی عام زندگی کے لیے مادری زبان، مذہب کو سمجھنے کے
لیے سنسکرت زبان، ملک کو سمجھنے کے لیے علاقائی زبانیں اور غیر ملکی علوم و تکنیک کو
سمجھنے کے لیے انگریزی زبان کا علم بہت ضروری ہے۔تاریخ کے ضمن میں سوامی ویویکانند
ہندوستان اور یورپ دونوں کی تاریخ پڑھانے کے حمایتی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان
کی تاریخ پڑھنے سے بچوںمیں حب الوطنی کے جذبات کی نشوونما ہوگی اور یورپ کی تاریخ پڑھنے
سے وہ مادّی ترقی حاصل کرنے کے لیے متحرک ہوں گے۔بچوں میں سماجی خدمات کے جذبات کی
نشوونما کے لیے تعلیم کی سبھی سطحوں پر سماجی خدمات کو لازمی طور پر نصاب میں شامل
کرنے پر زور دیا۔انھوں نے اخلاقی اور کرداری نشوونما کے لیے مذہب اور اخلاقیات کی تعلیم
پر زور دیا۔
طریقہ تدریس: سوامی ویویکانند نے مادّی علم
کے حصول کے لیے تقلیدی، بیانیہ،بحث ومباحثہ، تجرباتی طریقہ تدریس کی اور روحانی علم
کے حصول کے لیے خود احتسابی، غور و فکر، دھیان اور یوگ کے طریقوں کی حمایت کی ہے۔ انھوں
نے مادّی اور روحانی علم حاصل کرنے کا سب سے عمدہ طریقہ یوگ بتایا۔سوامی ویویکانند
یو گ طریقہ تدریس کو مادّی اور روحانی کسی بھی قسم کا علم حاصل کرنے یا علم کی دریافت
کرنے کاسب سے عمدہ طریقہ مانتے تھے۔ان کے مطابق مادّی علم حاصل کرنے کے لیے الپ یوگ
(جزوقتی دھیان)ہی کافی ہوتا ہے لیکن روحانی علم کے حصول کے لیے کامل یوگ (طویل مدتی
دھیان)کی ضرورت ہوتی ہے۔
انضباط: انسانی زندگی کے خاص طور پر فطری، سماجی
اور روحانی تین پہلو ہوتے ہیں۔ سوامی ویویکانندان تینوں پہلوئوں کو اہمیت دیتے تھے،
لیکن سب سے زیادہ اہمیت روحانی پہلو کو دیتے تھے۔ سوامی ویویکانند کے مطابق انضباط
کا مطلب ہے اپنے طرز عمل میں روح کے ذریعے متحرک ہونا۔ ان کے مطابق جب انسان اپنی فطری
خودی سے متحرک ہو کر عمل کرتا ہے تو ہم اسے منضبط نہیں کہہ سکتے۔جب وہ اپنی فطری خودی
پر کنٹرول رکھ کر سماجی خودی سے متحرک ہوتا ہے تو اسے منضبط کہاجا سکتا ہے۔ ان کے مطابق
؛درحقیقت منضبط وہ ہے جو روح سے متحرک ہوکر عمل کرتا ہے۔ سوامی ویویکانند معلم اور
طلبا دونوں کو ضبط نفس کا حکم دیتے تھے۔ بچوں میں ضبط نفس کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے
سوامی ویویکانند کا خیال تھا کہ جب معلم طلبا کے سامنے ضبط نفس کا اعلیٰ معیار پیش
کریں گے تو بچے بھی ان کی تقلید کریں گے اور پھر رفتہ -رفتہ ویسا ہی سوچنے اور کرنے
کی انھیں اندر سے تحریک حاصل ہوگی اور وہ ضبط نفس کی جانب گامزن ہوں گے۔
معلم: سوامی ویویکانند قدیم گروگرِہ نظام کے
حمایتی تھے۔ ان کے خیال میں معلمین کو مادّی اور روحانی دونوں قسم کا علم ہونا چاہیے،
جس سے وہ بچوں کو دنیاوی اور اخروی دونوں زندگی کے لیے تیار کر سکیں۔ سوامی ویویکانند معلمین سے یہ بھی امید کرتے تھے
کہ وہ نفسیات کی مدد سے بچوں کے انفرادی تفاوت کو سمجھ کر ان کے مطابق تعلیم کا نظم
کریں۔ اس طرح سوامی ویویکانند معلمین کی قدیم
اور جدید دونوں ساخت کے حمایتی تھے۔
متعلم: سوامی ویویکانند کے مطابق مادّی اور
روحانی، کسی بھی طرح کا علم حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلبا ’برہما چاریہ‘ کی
تعمیل کریں۔ ان کا یقین تھا کہ جب تک متعلمین نفس پر قابو نہیں پاتے، ان میں سیکھنے
کے لیے شدید خواہش پیدا نہیں ہوگی اور وہ استاد سے عقیدت رکھ کر سچائی کو جاننے کی
کوشش نہیں کریں گے۔ایسی حالت میں وہ روحانی اور مادّی دونوں علم حاصل نہیں کر سکتے۔
سوامی ویویکانند کے مطابق استاد اور شاگرد کا تعلق صرف دنیاوی ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ
روحانی تعلق بھی ہونا چاہیے۔
اسکول: سوامی ویویکانند گروگرِہ نظام کے حمایتی
تھے لیکن جدید تناظر میں ان کا خیال تھا کہ گروگرِہ عوامی شور و غل سے دور فطری ماحول
میں قائم کیا جا ئے۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسکول کا ماحول پاکیزہ ہو اور وہاں
جسمانی ورزش، کھیل کود، پڑھنے پڑھانے اوران سب کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات اور عبادت
کا کام بھی انجام دیا جائے۔
الغرض سوامی ویویکانند اس زمانے کے پہلے ہندوستانی
تھے جنھوں نے مشرق کی روحانی عظمت اور مغرب کی مادّی ترقی دونوں کے امتزاج کی جانب
لوگوں کو راغب کیا۔ انھوں نے لوگوں کو اس بات کی جانب متحرک کیا کہ روحانی نشوونما
کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی بھی ضروری ہے اور ان دونوں کے لیے تعلیم اساس فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے یہ اعلان کیا کہ بھارت کے ہر شہری کو تعلیم یافتہ بنایا جائے اور تعلیم کے
ذریعے اسے زندگی کے ہر شعبے میں مہارت کے ساتھ عمل کرنے کا اہل بنایا جائے، انھیں خود
مختار، خودکفیل، بہادر، باوقاربنایا جائے اور ان سب سے پہلے اسے ایک سچا انسان بنایا
جائے جو انسانی خدمت کے ذریعے خود شناسی کے حصول میں کامیاب ہو۔
مآخذ و مصادر:
- Bist, U.S. , Contemporary Philosophy, Satyam Publishing House, New Delhit, (2013)
- Seetharamu. A. S.,Philosophies of Education, APH Publishing Corporation, New Delhi, (2004) Bhatnagar, S. & Kumar .M, Contemporary India and Education, R.Lall Book Depot, Meerut, (2016)
- Latchanna. G. & Viswanathappa. G., Foundations of Education, Neelkamal Publications Pvt. Ltd., New Delhi, (2014)
- Lal, R.B. Pilosophical & Sociological Principles of Education, Rastogi Publications, Meerut, (2012)
Dr.
Afaque Nadeem Khan
)Assistant
Professor(
Maulana
Azad National Urdu University,
College
of Teacher Education,
Bhopal-
462001 (MP (
Mob:
9981995549
Email: afaquenadeem@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں