زمانۂ قدیم سے ہی تاریخی شہر اُجین علم وادب
اور فکر و فلسفے کا گہوارہ رہاہے۔ اس سر زمین
سے ادب کے ایسے درخشاں ستارے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ہیں جن کی تابانی لافانی ہے۔
شاعر اعظم کالی داس اور بھرترہری اسی خاک کے خمیر ہیں جو سنسکرت ادب میں ممتاز مقام
پر متمکن ہیں۔ کالی داس کی بے مثال اور با کمال تخلیق ’میگھ دوت ‘ میں اجین کا دلکش
انداز بیان موجود ہے۔ ہندو اساطیر کے مطابق و شوکر ما’خالق کائنات‘ نے خوبصورت عمارت
والے شہر بسائے۔ بودھ مذہب کی روایت میں اُجین مو جود ہے۔ مشہور سیاح البیرونی نے
’کتاب الہند‘ میں یہاں کے ایک سائنس داں اور علم کیمیا کے ماہر کا ذکر کیا ہے۔ـــــ’آئینہ
اکبری‘ اور’منتخب التواریخ‘ میں اُجین کے راجا و کر مادتیہ کا ذکر ملتا ہے اور اس کی
قدامت اور عظمت پر مورخین و ادبارطب اللسان ہیں۔ اس شہر کا شمار ہندوستان کے آٹھ قدیم
شہروں میں ہوتا ہے۔ محمود زکی کی نظم ’اُجین کی یہ سر زمیں‘ اس کی مہتم بالشان روایت
اور شان و شوکت کی آئینہ دار ہے۔انھوں نے ’شپرا‘ ندی کے دونوں کناروں پر بنے ہوئے
مندروں اور مسجدوں کی روح پر ورفضا کی منظر کشی اس طرح کی ہے ؎
شپرا کے گھاٹوں پر بجی وہ مندروں میں گھنٹیاں
اور مسجدوں میں گونجتی آوا ز حق یعنی اذاں
’ساندیپنی
آشرم ‘اُجین کی ایک قدیم درس گاہ ہے۔ جہاں ہزاروں سال پہلے 14علوم اور 64فنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔ روایت یہ ہے کہ اس
آشرم میں شری کرشن نے تعلیم حاصل کی تھی اور ایک بڑے سنیاسی سوامی جدروپ جو اپنی ریاضت
کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں مشہور و معروف تھے۔ مغل شہنشاہ اکبر نے ان سے ملاقات
کی تھی اور ا پنے بیٹے جہانگیر سے بھی ان سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔ سوامی جی کی قیام
گاہ آج بھی اُجین میں موجود ہے۔ بھرترہری کی شاہکار ’شتک‘ آج بھی یادگار زمانہ ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے دوسرے شعری مجموعہ کلام ’بال ِجبریل ‘کے سرورق پر ان کے شتک کو
اردو کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے
؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
جہاں تک اس سر زمین سے اردو کاتعلق ہے تو اس
کی خوشبواپنے تشکیلی دور سے ہی موجود ہے۔ قرین قیاس ہے کہ اس علاقے میں اردو شعر وادب
کی شروعات پہلی جنگ آزادی1857 کے بعد ہوئی۔جب مغربی یوپی اور نواح دہلی کے وہ باشندے
جن کی زبان اردو تھی ان پر انگریزوںنے ظلم و ستم کیا تو اس خطے کو جائے امن سمجھ کر
یہاں بود و باش اختیارکی۔ بعافیت گزران کرکے اردو شعرو ادب کی شمع روشن کی۔ انیسویں
صدی کی نصف آخر سے ہی یہاںاردو زبان و ادب کا خاصا چرچا رہا ہے۔
اُجین کے شعر و ادب میں اول الذکر نام سید کرامت
علی بشر کا ہے۔جنھیں’ فخرِ مالوہ‘ کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ وہ 1861 کو اجین میں پیدا
ہوئے۔ انھوں نے عربی اور فارسی کے علاوہ اردو کی بھی تعلیم حاصل کی اور ریاست گوالیار
میں ملازمت اختیار کی لیکن وہ ترک ملازمت کر کے تجارت کرنے لگے۔انھیں بچپن سے ہی شعر
و شاعری سے رغبت تھی۔ وہ شعری و علمی محفلوں میں شریک ہونے لگے تھے۔ انھوں نے نبی بخش
سے اصلاح لی اور کیفی کا کوروی سے بھی استفادہ کیا۔اپنے ذاتی شوق و کاوش سے انھوں نے
اُجین میں شاعری کا خوشگوار ماحول بنایا۔ اس سے ان کے ہونہار شاگردوں کا جم غفیر وجود
میں آیا۔ اس دور کے شعرو ادب کی نشر وا شاعت
میں ’آفتاب مالوہ‘نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا پہلا شما رہ 29 19میں آگرہ سے شائع ہوا۔اس میں اُجین کے علاوہ
ملک کے دیگر مقامات کے قلم کاروں اور شاعروں کی نمائندگی ہوتی تھی، جس میں بشرصاحب
کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ ان کی صدارت میں کل ہند مشاعروں کا انعقاد ہواکرتا تھا۔ ’انجمن
گلزار ادب ‘کچھوچھہ شریف (ضلع امبیڈکر نگر،یوپی ) کی جانب سے انھیںملک الشعرا کے خطاب
سے نوازا گیا تھا۔ وہ مذہبی اور اصلاحی شاعری کرتے تھے مثلاً ؎
یتیموں غریبوں سے بے زاریاں ہیں
یہ اے مسلموں کیسی خود داریاں ہیں
یہ کیسی اُخوت یہ کیسا ہے مذہب
یہ کیسی تمھاری ملن ساریاں ہیں
خدا واسطے کی نہیں ہے محبت
جہاں دیکھو مطلب کی غم خواریاں ہیں
عظیم خان عظیم سے ان کی شاعرانہ چشمک تھی۔ اس
دور کے اہم شاعروں میں منشی محمد تاج کا شمار ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش1852 میں اُجین
میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم اجین اور اعلیٰ تعلیم گوالیار سے حاصل کرکے منشی کے عہدے پر
فائز ہوئے۔ ان کے زیادہ ترکلام خردبردہو گئے جو کچھ باقی رہ گئے تھے اسے ان کے لائق
صاحبزادے نے 1984 میں’ کلام تاج‘ کے نام سے شائع کروایا۔
اجین کی پروقار ادبی شخصیت پربھو
لال گوڑ اشہرکی ہے۔ وہ اسی شہر میں1882 کو پیدا ہوئے۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے جید
عالم تھے۔ ان کے چار مجموعہ کلام ریاض اشہر،
اشعار نادرہ، حالات رنگیں، ترانہ اشہر منظر عام پر آچکے ہیں۔ وہ مجاہد آزادی بھی
تھے، گاندھی جی کی سودیشی تحریک سے متاثر ہو کر انھوں نے’ چرخہ‘ نظم لکھی جو بہت مشہورہوئی۔اس
کا ایک شعر اس طرح ہے ؎
جو دن رات بھارت میں چرخہ چلے گا
تبھی
مفلسی کا پھندا کٹے
گا
یہ حقیقت ہے کہ اُجین کی بہ نسبت
گوالیار کی شعری روایت مستحکم ہے۔ گوالیار ریاست میں کائستھ اور پنڈت عربی اور فارسی
کے عالم،ا علیٰ عہدو ںپر مامور تھے۔ ان میں اکثر شاعر بھی تھے۔ پنڈت سروپ نارائن ایمن،
پنڈت چاند نارائن رازداں مونس، پنڈت گوری پرشاد کچلو، رام لال شجاع جیسے نستعلیق شعرا
کی اُجین تشریف آوری پر شعر وادب کی شمع روشن تر ہوتی گئی۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی
عطا الٰہی صدیقی کی ہیں۔وہ گوالیار میں پیدا ہوئے وہیں ان کی تعلیم و تر بیت ہوئی۔
وہ نارائن پرشاد مہر کے شاگردہوئے۔ اُجین میں وہ اس وقت واردہوئے جب فخرِ مالوہ بشرا
ُجینی کے لائق و فائق شاگردوں گویا قریشی، حسرت قریشی اور کا شف الہاشمی و غیرہ کا
اردو شاعری میں چراغ جل رہا تھا۔وہ اپنی صلاحیت، لیاقت، نظامت اور ادبی سرگرمیوں کی
بنا پر جلد ہی اُجین میں ہر دلعزیز ہوگئے۔
کچلو صاحب کے تعاون سے اُجین کے کارتک میلے میں قومی مشاعرے کی شروعات ہوئی۔اس
مشاعرے کی شہرت پورے ملک میں ہے اور اس کی روایت آج بھی برقرارہے۔
عطا الٰہی کی شاعری آزادی اور وطن پرستی سے
لبریز ہے۔انھوں نے وطن کے جاں نثاروں کے کارناموں کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
یہ حق پرست ہیں کتنے خوش مذاق عطا
خوشی سے جھومتے گاتے جو سوئے دار چلے
بلا سے کہ جو دامن میںآج خار چلے
چمن میں غنچہ و گل کا تورخ نکھار
چلے
آزادی کے بعد وطن کا نقشہ بدل گیا اور حالات
دگر گوں ہو گئے۔ اس کی عکاسی ان کے کلام میں موجود ہے ؎
کلی کلی
کی زبان پر تھا شور آہ و فغاں
چمن میں خون بہا جشن نو بہار کے ساتھ
زندگی نشیب و فرازاوررَطب و یابِس سے آراستہ
ہے۔ حالات بد لتے رہتے ہیں جب آسمان اپنا رنگ بدلتا ہے تو شاعر کے دل سے یہ آواز
سنائی دیتی ہے ؎
عا شق بھی ترستے تھے دیدار کو جن کے
وہ صف میں نظر آئے دکانوں پر
عطا صاحب کی شاعری میں عصری آگہی
ہے،جس کا معتد بہ حصہ غم کاہے۔ان کے دو مجموعہ کلام ’سخن نامہ‘ اور ’غبار کارواں‘ زیور
طباعت سے آراستہ ہوئے ہیں جن کی بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔
بشر صاحب کے نمایاں شاگردوں میں عبد الغفور
قریشی المتخلص گویاجن کی پیدائش 1901 میں اجین
میں ہوئی۔وہ زود گو شاعر اور نامی گرامی وکیل تھے ان کاکلام ادبی رسائل میں شائع ہوتا
تھا نیز آل انڈیا ریڈیو سے بھی نشر ہوتا تھا۔ ان کے مجموعاتِ کلام ’خم خانہ‘ اور
’سخن گویا‘ ہیں۔ ان کا انتقال1978 میں ہوا۔پس از مرگ ان کا کلام 1994 میں ’نقش سویرا‘کے
نام سے منظر عام پر آیا۔ اسی سلسلے کی کڑی شاعر چشتی ہیں جو 1914 کو اجین میں پیدا
ہوئے۔ ان کاکلام ’آفتاب مالوہ ‘ کے علاوہ ملک کے دیگر معروف رسالوں میں شائع ہوتا
تھا۔ انھیں’مصور جذبات‘ اور’ سحر البیان‘ جیسے القاب سے نوازا گیا۔ان کا مجموعہ کلام
’متاع ساغر‘ 1941 میں شائع ہوا۔ان کا انتقال 1943 کو ہوا اس موقع پر سلطان احمد نے
کہا تھا ؎
بزم سخن سے ایک سخن داں چلا گیا
شعرو سخن کا ماہر دوراں چلا گیا
عبد الرحیم قریشی تخلص حسرت کی پیدائش 1916
کو اُجین میں ہوئی۔ انھیں عربی،فارسی اور اردومیں بڑی مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے قانون
کی سند بھی حاصل کی تھی۔ انگریزوں کے خلاف ’بھارت چھوڑو آندولن‘ میں وہ شریک ہوئے
تھے۔ باغیانہ نظمیں کہنے کی پاداش میں وہ جیل بھی گئے۔کالی داس، ترانۂ اردواورـ’ میری
جنم بھومی‘ ان کی قابل ذکرنظمیں ہیں۔ ’ترانۂ اردو‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجیے ؎
دنیا کی ہرزباں کو اپنے گلے لگا کر
آپس میں دوستی کا ہم کو سبق پڑھا کر
اپنا رہی ہے سب کو ہنس ہنس کر مسکرا کر
اردو زباں ہمار ی اردو زباں ہماری
حسرت
قریشی کے کلام میں تخیل کی بلند پر وازی کے ساتھ لہجے میں شائستگی اور خیالات
میں پختگی ہے۔ ان کے چند حوصلہ افزا اشعار ملاحظہ کیجیے۔ ؎
خضر ملتے ہیں نہ منزل نہ مقام آتے ہیں
غم کی راہوں میں فقط حوصلے کام آتے ہیں
اٹھ کھڑے ہوں گے تو ہم راستے بنائیں
گے
اور اگر بیٹھے تو منزل کا نشاں
ہو جائیں گے
حسرت قریشی کا انتقال 44 سال کی
عمر میں1962 کو اُجین میں ہوا۔پس از مرگ ان کا شعری مجموعہ ’صف مژگاں‘1984میں شائع
ہوا۔
امیر اجینی 1945 میں اجین میں پیدا ہو ئے۔ وہ
بشر اور گویا کے حلقہ احباب میں سے تھے۔ وہ ـ’بزم ادب
‘ کے متحرک رکن تھے۔ ان کا انتقال 1984 میں ہوا۔تقسیم ہند کے بعد تاریک راہوں میں ان
کا یہ شعر شمع رہ گزر اور حوصلہ افزا ہے ؎
بجلیاں گرتی ہیں گرنے دے مگراے باغباں
کیا چمن کو چھوڑ دوں اک آ شیانے
کے لیے
اجین کی اردو شاعری کو عظمت اور حرمت بخشنے
والے کا شف الہا شمی 1922 مندسور میں پید اہوئے۔ ان کا اصل نام سید ولایت ہاشمی ہے۔
وہ اردوو فارسی کے جید عالم اور شاعری کے محاسن و معائب سے بخوبی واقف تھے۔ گیارہ سال
کی عمر میں انھیں شیخ سعدی، عرفی، اقبال اور غالب کے سیکڑوں اشعار از بر ہوگئے تھے۔
ان کے مجموعہ کلام ’تپش حیات‘ کو مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے 1994 میں شائع کیا۔ دوسرا
شعری مجموعہ ’حرف تسکینـ‘ 2004کو
منظر عام پر آیا۔ اُجین کی اردو شاعری میں انھیں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ مسلم الثبوت
شاعر تھے۔انھیں اپنی عظمت کا خود احساس تھا چنانچہ وہ فرماتے ہیں ؎
ورق پر لکھا ہوا ہوں کہانیوں کی
طرح
مجھے سنبھال کر رکھنا نشانیوں کی
طرح
ان کا یہ دعویٰ درج ذیل اشعار میں سچ ثابت ہوتا
نظر آتا ہے ؎
زلفِ شب رنگ کے سائے میں عبادت کی ہے
ہم نے برسوں تیرے چہرے کی تلاوت کی ہے
ہم نے ہر شام جلا کر تیری یادوں کے چراغ
آبروئے شب ہجراں کی حفاظت کی ہے
—
کاشف ہمیں غزل سے محبت تھی اس لیے
برسوں غزل کے ناز اٹھا کر غزل کہی
کاشف الہاشمی کا انتقال 19اپریل 2004 کو اُجین
میں ہوا اور وہ لب شپرا مولاناموج قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ہندی اردو کے سنگم محمودز کی1924 میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے ذاتی طور پر اردوزبان و ادب میں دست
گاہ اور سخن وری میں مہارت حاصل کی۔ یوں تو وہ آزادی سے پہلے ہی شاعری میں قدم رکھ
چکے تھے مگر وہ آزادی کے بعد ادبی دنیا میں سرگرم عمل ہوئے۔ان کا مجموعہ ’اعتبار‘
1982 میں منظر عام پرآیا جس کی پرمغز تقریظ پروفیسرعتیق اللہ نے لکھی ہے۔ان کی شاعری
میں شباب کی دیوانگی اور سرشاری نہیں ہے بلکہ بیداری اور فرزانگی ہے تبھی تو وہ فرماتے
ہیں ؎
تری نظر کے اشاروں کی بات کون کرے
زمیں پہ رہ کے ستاروں کی بات کون کرے
——
مجھے نہیں ہے آرزو وصال یار کی زکی
وصال کو تو عشق کا زوال کہتے آئے ہیں
وہ عزم و حوصلہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی
دعوت دیتے ہیں ؎
منزلِ مقصود کی جانب بٹرھائو تو قدم
چاند تارے صرف گرد کارواں ہو جائیں گے
انھیں اردو زبان وادب سے از حد
لگاؤ تھا۔ اس کی بقا و تحفظ کی کاوش تا عمر کرتے رہے۔انھیں اپنے وطن عزیز کی روایت
اور وراثت سے بڑی انسیت تھی۔ ان کی نظمیں ’نذر کالیدا س‘ اور ’کالیداس کا ترانہ‘ اس
کا بین ثبوت ہے۔ انھوں نے2008 میں 84سال کی
عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔
محمود احمد سحر افغانی النسل ہیں۔ ان کی پیدائش
1937 کو اُجین میں ہو ئی وہ اپنی محنت و لگن
سے تعلیم کے مدارج طے کرتے رہے۔ اردو اور انگریزی دونوں مضامین سے ایم اے کیا۔سنسکرت زبان میں انھیں درک حاصل ہے۔ انھیں
نظم و نثرپر یکساںقدرت حاصل ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے مترجم اور پختہ مشق ناول نگار بھی
ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’گل پوش‘1960 میں شائع ہوا اور’دشت شب زندہ‘ 1982 میں مدھیہ
پردیش اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ انھوں نے ’کمار سنبھو‘کا منظوم ترجمہ
کیا ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی نے 2016 میں شائع کیا ہے۔ اس گرانقدر
کتاب پر ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔ تقریباً86سال کی عمر میں وہ رواں اور دواں
ہیں اور اپنے اس مصرعے کے مصداق ہیں ع
میں تندرست و توانا تھا شہر یاروں میں
ان کے برادرخورد شبیراحمد آرزو کا شمار زودگو
شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے ’سرِ دہلیز ‘2014 اور ’آواز کی آگ‘
2005 میںشائع ہوئے۔اُجین کے ادبی ماحول پر وہ چھائے ہوئے تھے۔ اب وہ با حیات نہیں ہیں
مگر ان کے یہ حیات آفریں اشعار دلوں کو تڑپاتے اور روح کو گرماتے ہیں ؎
خوابوں
کی تعبیر بدلنے والی ہے
اب راتوں میں دھوپ نکلنے
والی ہے
مجھے یقین
ہے روشن ضمیر ہو جاتا
اگر تو
شاہ کے بدلے فقیر
ہو جاتا
اس تناظر اور تواتر میں ان با کمال ہستیوں کا
تذکرہ لا زمی ہے جنھوں نے اس جہان رنگ و بومیں اپنی آنکھیں کھولیں اوریہیں تعلیم و
تربیت ہوئی۔انھیں استاذ شعرا کی تربیت اور سرپرستی میسر ہوئی۔وہ آگے چل کر دنیائے
ادب میں درخشاںستارے بن گئے۔کثیر المطالعہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک پر و فیسر عتیق اللہ
تابش 1941 میں اُجین میں پیدا ہوئے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں یہیں سے حاصل کیں۔ تدریس
کے میدان میں قدم رکھا تو اُجین سے اورنگ آباد اور اورنگ آباد سے دہلی کا سفر بڑی
کامیابی سے طے کیا۔ اپنی ذہانت و ذکاوت اور تخلیقات کی بنا پر اردو زبان و ادب کے افق
پر چھا گئے۔ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پرآچکے ہیں۔ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے لیکن
انھیںشہرت تنقید میں ملی سچ تو یہ ہے کہ تنقید میں ان کی حیثیت ایک مورخ اور معبرکی
ہے۔اردو ادب کے اعلیٰ ترین انعامات میں مد ھیہ پردیش کا ’اقبال سمّان‘ اور اترپردیش
اردو اکادمی کا ’مولانا ابوالکلام آزاد‘ شامل ہے۔عزت مآب کا ادبی سفر جاری ہے۔
مستحکم ادبی روایت کو آگے بڑھانے میں رشید
انوراُجینی غیر معروف نہیں ہیں۔ان کااصل نام عبدالرشید خان ہے۔وہ اُجین میں 4اپریل
1943 کو پیدا ہوئے۔ ان کا مجموعہ کلام 2005 میں منظر عام پر آیا۔وہ منفرد لب ولہجے
کے شاعرہیں۔ وہ شاعری کو عبادت تصور کرتے ہیں نیز الفاظ کے پرستار ہیں۔ انھو ں نے اپنے
تجر بات زندگی سے اپنے اشعار کو قارئین اورسامعین کے لیے کار آمد بنا دیا ہے ؎
بوڑھے شجر کے فیض کا عالم نہ پوچھیے
ہے گردشوں کی دھوپ میں سایہ کیے ہوئے
دشواریِ حیات ہے معراج زندگی
دشواریِ حیات ہے گھبرائیں کس لیے
و ہ قوم کو محبت اور یگانگت کا درس دیتے ہیں ؎
مل جل کر وہ کا م کریں ہم
نفرت سب کے دل سے جائے
بستی ساری گھر ہو اپنا
آنگن سارا جگ ہو جائے
وہ منفی سیا سی حالات سے نالاںہیں ؎
پھول دیں گے نہ ثمر ہم کو نہ سایہ
اپنا
یہ سیاست کے شجر صرف تباہی دیں
گے
یہ شعلہ تعصب کا بلا خیز بہت ہے
گلشن نہ جلا ڈالے ہوا تیز بہت ہے
دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں مجھ کو
مٹی تو میرے ملک کی زرخیز بہت ہے
آدمی بن کے بھٹکنے میں مزہ آتا ہے
میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ فرشتہ ہو جاؤں
پروفیسر سید صادق10 اپریل 1943
کو اجین میں پیدا ہوئے۔گریجویشن تک کی تعلیم یہیں سے حاصل کی۔ اردو مضمون میں ایم اے
اورنگ آباد سے کیا۔ مہاراشٹر میں پہلے ہائی اسکول اور بعد میں کا لج میں استاذ کی
حیثیت سے اپنی ذمے داریاں سنبھالیں۔یونین پبلک سروس کمیشن سے وہ Research Ass.
Production کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ دہلی
یونیورسٹی کے شعبۂ ا ردو سے وابستہ ہوئے اور شعبۂ اردو میں پروفیسر اور صدر کے عہدے
پر فائز ہوئے۔ وہ گونا گوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ مفکر،مصور، مترجم کے علاوہ ہندی،
مراٹھی اور پنجابی زبانوں پرانھیںدسترس حاصل ہے۔ ان کی دلچسپی تصوف میں ہے۔ انھوں نے
اپنی زندگی کی شروعات مزاحیہ شاعری سے کی اور صادق مولا کے نام سے مشہور ہوئے۔ پیروڈی
بھی خوب سے خوب ترانداز میں کی ہے۔ ان کے دستخط، سلسلہ، کشاد اور ’خواب جلنے کا منظر‘
جیسے مجموعات منظر عام پر آئے۔ افسانوی مجموعہ ’لفظ کی موت‘ بھی شائع ہوا۔ اردو ادب
میں ان کی شناخت ایک نقاد کی ہے۔’ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ‘ ان کی غیر معمولی تنقیدی کتاب ہے۔ ا نھیں بے شمار
اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں۔
احمد کمال پروازی11 مارچ 1944 کو اجین میں پیدا
ہوئے۔ 14 برس کی عمرسے ہی انھوں نے شاعری شروع کی اور ضمیر القادری صاحب کی شاگردی
اختیار کی۔ انھوںنے اردو شاعری میں ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ان کے کلام مشہور ومعروف
رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ـــ’مختلف‘
1988 میں اور دوسرا مجموعہ ’برقرار‘ 2005 میں
شائع ہوا۔ 29 دسمبر 2007کو وہ اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ ڈاکٹر ضیا رانا اور عبد
الحمید گوہر نے ان کا مجموعہ کلام ’چاندی کا ورق‘ ان کے ا نتقال کے بعد شائع کروایا۔
ان کا منفرد انداز بیان قارئین اور سامعین کا دھیان منعطف کرتا ہے۔چند اشعار بطور مثال
ملاحظہ کیجیے ؎
اب کے بھی میرے ہاتھ میں کیا آئے گا لوگو
اس قرض سے وہ قرض اتر جائے گا لوگو
——
فساد شہر میں بے ضابطہ نہیں ہوتے
یہ اک لگان ہے ہر سال بھرنا پڑتا ہے
عبد الرشید امکان،7 فروری 1947 کو اجین کے محلہ توپ خانہ میں پیدا ہوئے۔ مبدائے
فیض نے ا نھیں شعری صلاحیت سے نوازا تھا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ1988 میں ’ما بین
‘ کے نام سے اور دوسرا شعری مجموعہ ’کسی بوند کے لب پر‘ ـ2008 میں
شائع ہوا۔ان کی شاعری مسلم ہے۔ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے
ہوئے2009 میں ’جوہر قریشی ایوارڈ‘ سے انھیں
نوازا ہے۔ ان کا شعری سفر بڑی تندہی سے جاری تھا و ہ کوویڈ 19 کی زد میں آئے اور2021
میں جاں بحق ہو گئے۔ انھوں نے زندگی کے پیچیدہ مسائل کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کا
شکاربھی ہوئے ہیں۔اس لیے ان کے اشعار اس آگہی کی آگ میں تپ کر کندن بن گئے ہیں ؎
ایک سمت پیٹرول ہے ایک سمت آگ ہے
دونوں کے درمیاں ہے اپنا مکاں بھی
مشاعروں کے توسط سے بین الاقوامی شہرت یافتہ
شاعر احمد رئیس نظامی 26 جنوری 1962کو اُجین میں پیدا ہوئے۔ 1980 سے ہی وہ ملک اور
بیرون ملک کے مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں۔
اُجین کے کارتک میلے کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے روح رواں ہیں۔ان کا شعری
مجموعہ ’اب جگنو نکلتا ہے‘ شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو بڑے سلیقے
سے شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے شاعرانہ جو ہر کو چند اشعار میں ملاحظہ کیجیے ؎
آنسوئوں کی آگ نے سورج بنا ڈالا ہمیں
بجھ نہیں سکتے سمندر اب ترے پانی
سے ہم
آج ہم اترے ہوئے دریا سے ڈرتے
ہیں رئیس
کھیلتے تھے کل تلک موجوں کی طغیا
نی سے ہم
پاس رکھ کر کیا کرو گے تم میاں
احمد رئیس
اپنی دولت کو سبھی کے کام میں لایا کرو
قرض کے ملبے میں دب کر رہ گیا ہر اک مکیں
کتنا مہنگا پڑ گیا ہے خواب میں گھر دیکھنا
بیسویں صدی کے اواخر تک اُجین میں جن شعراء
کرام کی بدولت اردو شعروادب کا پودا سر سبز و شاداب ہے ان میں شاکر اجینی، قمر اجینی،عصیم
اجینی، راہی عنایتی، اقبال حیدری، اختر
گوالیاری، حسنات قریشی، نسیم چمن، اقبال حسین انصاری، قمر الزماں صدیقی، اعزاز شمس، شکیب
نیازی، واجدقریشی، نوراُجینی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ بہت سے ماہرفن اور استاد شعرا
کے مجموعہ کلام کے مسودات تیار ہیں اور جلد ہی منظر عام پر آنے والے ہیں ان میں بطور
خاص عبدالحمید گوہر، ضیا رانا اور زاہد خان
زاہدقابل ِذکر ہیں۔اقتضائے ارزِش کے تحت کچھ شعرا نے دیو ناگری رسم الخط کو استعمال
کیا ہے ان میں ثمر کبیر،راز رومانی، دھنی رام بادل اور پروفیسر رفیق احمد ناگوری جیسے
کہنہ مشق شعرا شامل ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی اُجین کا شعری سفر جاری وساری ہے لیکن اردو کی تعلیم و تربیت میں اب پہلی جیسی رغبت نہیں ہے۔اس نا خوشگوارماحول
میں تو کچھ ایسے شاعر ہیں جو اردو رسم الخط سے نا آشنا ہیں۔اس وجہ سے ان کی شاعری
غنائیت سے محروم ہے۔وہ اپنے ترنم سے کچھ دورتو چلتے ہیں مگر منزل سے پہلے تھک جاتے
ہیںپھر بھی موجودہ نسل شاعری کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ان میں سید
امروز حق،افروز سحر،امجد خاں، سرخاب بشر،آصف زیدی،عبدالواحد واحد ،شبنم علی،عائشہ
احمدزلیخا،انصاراحمدانصار وغیر ہ کے نام سے اہل شہر واقف ہیں۔ان میں زیادہ تر شعرا
سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔بے تامل شجر اردو جس زمین پر نشوو نماپا رہا ہے اب اس کی نمی
میں کمی آرہی ہے۔یہ سچ ہے ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز
ہے ساقی
Dr. Ghulam Husain
Head Dept of Urdu
Govt Madhav College
Ujjain- 456010 (MP)
Mob.: 9893853183
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں