ممبئی کے جنوب میں ضلع تھانہ، ضلع رائے گڑھ، ضلع رتناگری اور ضلع سندھو درگ چار اضلاع ہیں، ان چار اضلاع پر مشتمل مغربی ساحل کا علاقہ ’کوکن‘ کہلاتا ہے۔ اہلِ کوکن نے دنیائے اردو میں رنگارنگ پھول کھلائے اور قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر میمونہ دلوی کا تعلق بھی کوکن سے تھا، وہ رتناگری کی تعلقہ داپولی میں 1934 میں پیدا ہوئیں اور 20 ستمبر 2009کو ممبئی میں وفات پائی۔وہ ڈاکٹر عبدالستار دلوی، سابق صدر شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کی رفیقۂ حیات تھیں۔انھوں نے قلیل مدت کے لیے کمو جعفر گرلز ہائی اسکول میں پڑھایا، اس کے بعد اسماعیل یوسف کالج کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہو گئیں اور صدرِ شعبہ رہ کر سبک دوش ہوئیں۔ خدا کے فضل سے راقم کو بھی کئی سال اس کالج میں تدریس کا موقع ملا۔
ڈاکٹر میمونہ دلوی کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے
ڈاکٹر زہرہ موڈک لکھتی ہیں:
حسد
اور جلن کی لعنتوں سے ان کا کردار بالکل پاک تھا، وہ دوسروں کی کمزوریوں کو نظر انداز
کرنے کی قائل تھیں۔ دوسروں کی علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں پروان چڑھانا
ان کی فطرت تھی۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو اعلیٰ علمی اور تہذیبی قدروں سے مالامال
کیا۔ سادگی اور خلوص نے ان کو قابلِ صد احترام بنا دیا(تھا)۔[1]
ڈاکٹر
میمونہ دلوی نے متعدد مضامین و مقالات کے علاوہ تین تحقیقی کتابیں تالیف کیں، یہ تینوں
ہی کتابیں اپنے موضوع و مواد کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔
[1]بمبئی میں اُردو 1914 تک:
بمبئی کے حوالے سے اردو زبان و ادب کی خدمات
کے سلسلے میں یہ کتاب نقشِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر میمونہ دلوی کی یہ اولین تحقیقی
کتاب دنیاے ادب میں ان کی شناخت کا ذریعہ بنی۔ یہ دراصل پی ایچ ڈی کے لیے لکھا گیا
سندی مقالہ ہے، اس پر انھیں ممبئی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی سند تفویض کی گئی۔
ڈاکٹر سید ظہیرالدین مدنی، سابق صدر شعبۂ اردو، اسماعیل یوسف کالج، ممبئی ان کے گائیڈ
اور رہنما تھے جب کہ اسماعیل یوسف کالج کے استاذ پروفیسر نجیب اشرف ندوی نے بھی اپنی
علمیت اور وسیع مطالعے کی بنا پر ان کا علمی تعاون کیا۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں پہلی
مرتبہ ستمبر 1970 میں’آج پریس‘ سے طبع ہو کر منظرِ عام پر آیا۔کتاب کا انتساب مصنفہ
نے اپنے رفیقِ حیات ڈاکٹر عبدالستار دلوی کے نام کیا ہے۔
موضوع کی تحدید کی خاطر ابتدا سے 1914 تک اس
کی حدبندی کی گئی، جیسا کہ پیش لفظ میں مرقوم ہے:
بمبئی
کی ادبی خدمات کی ابتدا کا اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے، کیوں کہ ابتدائی دور کا کوئی
مواد ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ 1790 کے بعد مخطوطات و مطبوعات کی روشنی میں بمبئی کی
ادبی تاریخ کے دور متعین کیے جا سکتے ہیں۔ اپنی سہولت کی خاطر میں نے صرف 1914 تک کا
جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس طرح کی حدبندی تحقیق و جستجو کے جذبۂ تشنہ
کی تسکین کا باعث بن سکے۔ [2]
پہلے باب میں بمبئی کی سیاسی و سماجی تاریخ،
وجہِ تسمیہ، آبادی اور اُردو کے سرپرست خاندانوں کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں بمبئی کے
شعرا و نثرنگاروں کو دو ادوار میں تقسیم کر کے پہلے ان کی خدمات کا سرسری تذکرہ اور
آخر میں اس پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا یہ باب خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تیسرے باب
میں بمبئی کی صحافت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، اور بمبئی کے اردو اخبارات کی فہرست
اور اردو مطابع کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں بمبئی کی علمی و ادبی تحریکوں کا
جائزہ لیا گیا ہےاور یہاں سے شائع ہونے والے گلدستوں، رسالوں، انتخابی مجموعوں، علمی
و تعلیمی اداروں نیز کتب خانوں کا تعارف کروایا گیا ہے، یہ باب بھی دلچسپ ہے۔ پانچویں
باب میں اردو ڈرامے کے آغاز، بمبئی کے تھئیٹر اور ڈراموں، بمبئی کے تھئیٹروں میں اردو
ڈراموں نیز اردو ڈراما نویسوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ چھٹے اور آخری باب میں
لوک گیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس کے بعد کتابیات اوراشاریہ شامل کیا گیا ہے۔
یہ کتاب ہر لحاظ سے قابلِ قدر ہے، دیگر مقامات
پر اردو کی حیات و خدمات کے تعلق سے علاقائی سطح پر کام سامنے آچکا تھا- ’پنجاب میں
اردو‘، ’دکن میں اردو‘، ’میسور میںاردو‘، ’بہار میں اردو‘ وغیرہ- لیکن کسی مردِ مجاہد
کو بمبئی میں اردو کی خدمات پر باقاعدگی سے لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی، ان حالات
میں اس حوصلہ و سلیقہ مند خاتون نے نہ صرف اس تشنہ موضوع کو مستقل تحقیق کا موضوع بنایا،
بلکہ اس کے اطراف و جوانب کا احاطہ بھی کیا۔ڈاکٹر صاحبہ اس صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے
لکھتی ہیں:
بمبئی
سے متعلق بابائے اردو مولوی عبد الحق، پروفیسر نجیب اشرف ندوی، جناب ضیاءالدین برنی،
جناب رئیس احمد جعفری اور سخاوت مرزا صاحب کے طویل اور مختصر مضامین اور مولانا امداد
صابری، عتیق احمد صدیقی اور اردو تھئیٹر پر ڈاکٹر نامی کی ایک مبسوط تصنیف موجود ہے،
ان حضرات نے بمبئی کے اردو ادب کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، لیکن بمبئی میں
اردو ادب کی مختلف اصناف میں جو کچھ کام ہوتا رہا، وہ جامع اور مکمل صورت میں اب تک
یکجا نہیں کیا گیا۔[3]
یہ کارنامہ روزِ ازل سے ڈاکٹر میمونہ دلوی
کے نام لکھا جا چکا تھا۔ کتاب کے آغاز میں مصنفہ نے اپنی دیگر متوقع کتابوں کی فہرست
بھی دی ہے: (۱)دُکھڑے (زیرِ طبع) (۲)کوکن کے لوک گیت (زیرِ تکمیل) (۳)بمبئی میں اردو:
1914 کے بعد (زیرِ ترتیب)۔ان میں اول الذکر دو کتابیں تو منظرِ عام پر آگئیں، لیکن
آخرالذکر آج تک منظر عام پر نہیں آسکیں۔
[2]دُکھڑے:
اُردو کی ایک غیرمعروف صنفِ سخن پر یہ ڈاکٹر
میمونہ دلوی کی دوسری تحقیقی کتاب ہے۔یہ کتاب اگست 1979 میں پہلی مرتبہ ’آج پریس‘
سے طبع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ جیسا کہ اوپر ذکر آیا؛ اس کی طباعت کا منصوبہ
1970 میں ’بمبئی میں اردو‘ کی طباعت کے وقت ہی بنایا جا چکا تھا، لیکن اس کی اشاعت
میں کافی تاخیر ہوئی۔اس کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے استاذ پروفیسر نجیب اشرف ندوی
کی جانب کیا ہے۔
کتاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر میمونہ
دلوی نے مقدمے میں لکھا ہے:
یونیورسٹی
لائبریری بمبئی کے کھٹکھٹے کلیشکن میں ایک مخطوطہ نمبر916 موجود ہے، جو اپنی قدامت
کے علاوہ چند نمایاں خصوصیات کی بنا پر قابلِ ذکر ہے۔ مخطوطے کی اس جلد میں کُل 34
مخطوطوں کی شیرازہ بندی کی گئی ہے۔ اگرچہ ہر مخطوطے میں کاتب کی تحریر محفوظ نہیں،
تاہم بعض کے اختتام پر کاتب کا نام اور سنِ کتاب رقم کیا گیا ہے۔ ان مخطوطات میں سے
جس نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے، وہ مخطوطہ نمبر 2 ہے، جس کو ’دُکھڑے‘ یا
’پندنامہ‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس مخطوطے میں اسی صفحات اور ہر صفحے پر تیرہ
سطریں ہیں۔ اس میں کل چھبیس نظمیں ہیں جن میں سے بعض کو ’دُکھڑے‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں یہ ذکر بھی ناگزیر ہے کہ کتب خانہ مدرسہ محمدیہ جامع مسجد بمبئی میں ایک
مخطوطہ ’بیاضِ اشعارِ شرفو و رحمت‘کے نام سے موجود ہے، اس مخطوطے میں نظموں کی تعداد
پندرہ ہے۔ ان نظموں میں جو ’دُکھڑے‘ کی ذیل میں آسکتی ہیں، ان کا بیان بمبئی یونیورسٹی
کے مخطوطے میں درج شدہ دکھڑوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بمبئی یونیورسٹی کے مذکورہ بالا
مجموعے ’مخطوطات‘ میں سے مخطوطات نمبر 27،28 اور 30 کو بھی موضوع کی یکسانیت کی بنا
پر زیرِ نظر کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کتاب میں مختلف شاعروں کی کُل بتیس
نظمیں درج کی گئی ہیں، جن کی تفصیل یوں ہے: رحمت (23)، شرفو (1)، فراقی(1)، عبدالنبی(1)،
فدوی(1)، جعفر(1)، خالص(1)، نامعلوم(3)۔[4]
اس طرح اردو کی ایک غیرمعروف صنفِ سخن کو مصنفہ
نے اردو دنیا میں متعارف کروایا ہے اور کتاب کو تحقیق کے جدید اصولوں کے مطابق ترتیب
دے کر اہم خدمت انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر میمونہ دلوی اپنے ایک مبسوط مضمون بہ
عنوان ’دکھڑے اور دوسرے عوامی گیت‘میں ’دکھڑے‘ کی ادبی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:
زندگی
اور موت کی مختلف تصویروں کو ان دکھڑوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے، ان میں جہاں ہندوستانی
سماج، مختلف رسم و رواج، کپڑوں اور زیورات کی تفصیل کو نظم کیا گیا ہے، وہیں جذبات
کے گہرے سمندر کو بھی سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ عوام کی زندگی کے آئینے ہیں۔ ان
میں حقیقت نگاری اور فطری سادگی پائی جاتی ہے۔ مقامی رسم و رواج، توہم پرستی، اعتقادات
اور روایات کو بےساختگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں مبالغہ، خیال آرائی اور تکلف
کے وہ عناصر نہیں پائے جاتے جو بعد کے دور میں اُردو شاعری کی خصوصیات بن گئے۔[5]
[3]کوکن اور ممبئی کے اردو لوک گیت:
اُردو کی ایک عوامی روایت یعنی لوک گیتوں پرمشتمل
یہ کتاب پہلی مرتبہ 2001 میں طبع ہو کر منظرِ عام پر آئی، جب کہ اس کے زیرِ تکمیل
ہونے کی اطلاع مصنفہ نے 1970 میں دے دی تھی۔ اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنی والدہ
محترمہ اور روشن آپا مرحومہ کے نام کیا ہے، جو کوکن و ممبئی کے سیکڑوں گیتوں کا مخزن
تھیں۔
کتاب کے بابِ اول میں لوک گیت کی تاریخ، ماہیت،
ارتقا و اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بابِ دوم میں کوکن اور ممبئی کی وجہِ تسمیہ، سیاسی
پس منظر، طبعی اور جغرافیائی ساخت پر گفتگو کی گئی ہے۔ بابِ سوم میں باشندگانِ کوکن
و ممبئی؛ خوجہ، میمن، مومن و انصاری، بوہرہ اور کوکنی مسلمان کو موضوعِ بحث بنایا گیا
ہے۔ بابِ چہارم میں مسلم کوکنی اور بمبیا زبان پر کلام کیا گیا ہے۔ بابِ پنجم میں کوکن
و ممبئی کے تعلیمی و تدریسی سلسلہ جات اور علمی و ادبی نیز سماجی و فلاحی خدمات کا
ذکر کیا گیا ہے۔ بابِ ششم کا موضوع کوکن و ممبئی کے رسم و رواج اور لوک گیت نیز کولتھار
کی شادی ہے۔ بابِ ہفتم میں چند گیتوں کا تجزیہ اور ان کی لسانی خصوصیات کا بیان ہے۔بابِ
ہشتم میں منتخب لوک گیت: (1)شادی بیاہ کے گیت (2)زچہ گیریاں (3)لوریاں (4)بسم اللہ،
عقیقہ، مونڈن، ہدیہ، آمین اور (۵)بچوں کے کھیل کے گیت درج کیے گئے ہیں۔ باب نہم میں
بہ طور ضمیمہ لوک گیت در زبانِ کوکنی، چکوے، محراب رانی کا گیت، لوک گیت در زبانِ فارسی،
کوکنی کلام اور ایک مضمون ’لوک گیتوں کا سفر‘ شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فرہنگ
اور آخر میں کتابیات کا ذکر ہے۔
ڈاکٹر میمونہ دلوی اس شکایت میں حق بہ جانب
ہیں:
ایسا
نہیں ہے کہ اردو میں لوک ادب پر کام نہیں ہوا ہے، لیکن یہ کام آٹے میں نمک کے برابر
ہے۔ مغربی دنیا میں محققین نے جس طرح لوک ادب کے سلسلے میں کارہاےنمایاں پیش کیے ہیں
اور ان کی جس طرح پذیرائی کی گئی ہے، ویسی صورتِ حال ہمیں اپنے ملک میں نظر نہیں آتی۔[6]
ڈاکٹر میمونہ دلوی طالبِ علمی کے زمانے سے
ہی گھر کی تقریبات وغیرہ میں سنے ہوئے گیتوں سے متاثر تھیں۔ اپنے گھریلو ماحول یعنی
ڈراموں اور راگ راگنیوں سے مشترکہ دلچسپی کے زیرِ اثر لوک گیتوں کا شوق ان کے دل میں
سمایا ہوا تھا۔اسی لیے انھوں نے ایک خاص مقصد
کے تحت یہ اہم کتاب ترتیب دی، وہ مقصد یہ تھا کہ کوکن اور ممبئی کے لوک گیتوں کی مختلف
شکلوں کو ان کے تدریجی مراحل، سماجی و ثقافتی اہمیت اور لسانی خصوصیات کے ساتھ محفوظ
کر دیا جائے، اور وہ اپنےاس مقصد میں کامیاب ہوئیں۔ اس کے لیے انھیں مختلف النوع مشکلات
کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے کے بہت سے گیت انھوں نے اپنی والدہ اور بہن سےحاصل کیے،
بہت سے گیتوں کو جمع کرنے کے لیے انھوں نے کولتھار، شری وردھن، دابیل، کولکوٹ وغیرہ
کی خواتین سے رابطہ کیا، نیز ملاحوں سے باقاعدہ اپائنٹمنٹ لیا۔ بالآخر متعدد افراد،
گھرانوں، گانْو اور شہروں کی نمائندگی کرنے والا یہ لوک ادب مرتب انداز میں منظرِ عام
پر آگیا، اس کے لیے مصنفہ یقیناً دنیاےادب کی جانب سے شکریے کی مستحق ہیں۔ ’کوکن کا
ادبی منظرنامہ‘ کے مصنف یعقوب راہی کے بہ قول:
انھوں
نے اردو زبان و ادب کو کتابی شکل میں اب تک صرف تین ہی کتابیں دیں۔۔۔لیکن چسپ و مربوط
زبان و بیان اور شگفتہ و دل گرفتہ پیرایۂ اظہار کی یہ تینوں کتابیں علم و ادب کے سنجیدہ
حلقوں کی توجہ اپنی جانب ضرور مبذول کرا گئیں۔[7]
حوالہ
جات:
[1]بمبئی کی بزمِ
علمیہ، ص: 439
[2]بمبئی میں اردو،
ص:5
[3]بمبئی میں اردو،
ص:4
[4]دکھڑے، ص:
8-9، ملخصاً
[5]اردو میں لوک
ادب،ص:191
[6]کوکن اور ممبئی
کے لوک گیت، ص:10
[7]کوکن کا ادبی
منظرنامہ اور دوسری تحریر، ص:112
Nadeem Ahmed Ansari
Flat no. 18, Second Floor,
Sai Prasad Nagar, A wing,
Bori Colony, Achole Road,
Nallasopara East, Taluka Vasai,
Pincode: 401209
Mobile: 9022278319
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں