5/12/23

وادیِ چناب میں اردوافسانہ:ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

نثری اصناف میں جس صنف نے اپنے ابتدائی دَور سے تاحال قارئین کی دلچسپی کے ساتھ خاصی مقبولیت حاصل کی ہے وہ افسانہ ہے۔میری اس بات سے آپ ضرور اتفاق کریں گے کہ اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں جہاں انٹر نیٹ اور دیگر سائنسی وتکنیکی سہولیات نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں قاری سے کتاب کا رشتہ بھی کسی حدتک منقطع ہوچکا ہے۔کتابیں اشاعت پذیر ہورہی ہیں لیکن انھیں پڑھنے والے اب پہلے کے مقابلے میں کم نظرآرہے ہیں۔  اب ہمیں موبائل فون پر ایک ایسی دنیا دستیاب ہے جو بیسویں صدی کے لوگوں نے نہیں دیکھی تھی۔ہمیں کیادیکھنا چاہیے اور کیا نہیں دیکھنا چاہیے یہ شعور قدرتی طور پر ہمارے دل ودماغ میں موجود رہتا ہے۔مانا کہ سائنسی وتکنیکی ترقی کے باعث ہماری بہت سی الجھنیں،مسائل ومشکلات آسان ہوگئی ہیں لیکن کتاب کی اہمیت،وافادیت اور عظمت پہلے بھی تھی اب بھی ہے اور آگے بھی رہے گی۔

یہ بات باعث مسرت ہے کہ کہانی یا افسانے میں زندہ رہنے کے امکانات موجود ہیں۔دو ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ناول پڑھنے کے لیے اب ہمارے پاس وقت نہیں رہا لیکن کہانی یا افسانہ قلیل وقت میں ہمیں زندگی کے کسی ایک واقعے، حادثے، تجربے، مشاہدے، فکر، احساس، جذبے، تصور اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنادینے کاانداز سکھا دیتے ہیں۔

جب ہم وادیِ چناب(جموں وکشمیر) کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ضلع ڈوڈہ،ضلع کشتواڑاورضلع رام بن کے وہ تمام علاقہ جات شامل ہیں جن کے درمیان دریائے چناب بہتا ہے بھدرواہ اور کشتواڑ کو چھوڑ کر باقی تمام علاقے انتہائی پہاڑی اور ڈروانی صورت حال کو پیش کرتے ہیں۔ وادیِ چناب اپنے مخلوط کلچر، تہذیب، روایات اور مختلف بولیوں کے اعتبار سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔سائنسی،سیاسی،مذہبی،تعلیمی اور ادبی لحاظ سے یہ وادی نہایت زرخیز رہی ہے۔

وادیِ  چناب میں دیگر ادبی وشعری اصناف کے مقابلے میں افسانہ نگاری آٹے میں نمک کے برابر ہوئی ہے۔جب ہم اس خطے کی تاریخی اور تحقیقی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عشرت کشتواڑی جن کا پورا نام شیخ غلام مصطفیٰ تھا،نے سب سے پہلے افسانے لکھے۔ اس بارے میں ولی محمد اسیر کشتواڑی نے اپنی ضخیم کتاب ’’صوبہ جموں کے اردو قلم کار( حصہ اوّل) میں عشرت کشتواڑی کی افسانہ نگاری کے متعلق نرسنگھ داس نرگس کا ایک بیان نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’نرسنگھ داس نے اپنی تصنیف ’پردیسی پریتم‘ میں عشرت کی افسانہ نگاری کاان لفظوں میں تذکرہ کیا ہے ’’آپ ایک اچھے شاعر اور بہترین افسانہ نگار ہیں۔انداز بیان دلنشیں اور پر تاثیر ہے۔قلم برداشتہ لکھتے ہیں اور لکھتے وقت خیالات کا ایک طوفان امڈ آتا ہے۔زبان بڑی میٹھی اور رسیلی ہے۔آ پ کے افسانوں کا پس منظر بھی اگر چہ ترقی پسندی ہے لیکن اس ترقی پسندی میں یہ خوبی ضرور ہے اس سے مخالف وموافق طبیعتیںایک ساتھ مخلوط ہوسکتی ہیں۔ متوسط طبقے کے خارجی اور داخلی حالات کو ایک اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں۔مجھے آپ کا مستقبل بہت روشن دکھائی دے رہاہے اور آپ کا افسانہ’ تشنہ تکمیل‘ ادبی دنیا میں بڑے فخر سے پیش کرتا ہوں ۔‘‘1

مندرجہ بالا اقتباس کے حوالے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ عشرت کشتواڑی پہلے شخص ہیں جنھوں نے وادیِ چناب میں سب سے پہلے اردو میں افسانے لکھے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا کوئی بھی افسانوی مجموعہ کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آیا۔یہاں یہ یاد رہے کہ نرسنگھ داس نرگس نے اپنے دَور میں جموں وکشمیر کے نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا ایک انتخاب ’پردیسی پریتم‘کے نام سے شائع کروایا تھاجس میں عشرت کشتواڑی کاافسانہ ’تشنہ تکمیل‘بھی شامل تھا۔

بھدرواہ کی طرف رخ کریں تو یہاں ہمیں 1960 کی دکھائی کے بعد اردو افسانے سے شغف رکھنے والوں میں ملک غلام رسول اور ماسٹر غلام علی کیلوکے نا م نظر آتے ہیںجو  افسانے لکھتے تھے۔البتہ ان کے افسانے نہ تو کسی مجموعے کی صورت میں دستیاب ہیں اور نہ ہی کسی ا خبار یا رسالے میں چھپے ہیں۔لیکن یہ بات طے ہے کہ بھدرواہ میں افسانہ نگاری کی ابتداکا سہرا انہی کے سر بندھتا ہے۔ ان کے بعد بھدرواہ میں جس شخص نے سب سے پہلے اپنے افسانوں کو مجموعے کی صورت میں شائع کروایا وہ طالب حسین رند ہیں۔ان کے پندرہ افسانوں کا مجموعہ ’سرابوں کا سفر‘کے عنوان سے یاسر گولڈن پبلشنگ ہاوس ڈوڈہ نے 1996 میں شائع کیا تھا۔جو 124،صفحات پہ محیط ہے۔ طالب حسین رند نے اپنے افسانوں میں علامتوں، استعاروں کی بھر مار کے بجائے ایک عام فہم زبان وبیان کا استعمال کرکے اس سماج کی تلخ سچائی کو بے نقاب کیا ہے جس میں وہ سانس لے رہے ہیں۔ولی محمد اسیر کشتواڑی نے طالب حسین رند کے افسانوی مجموعہ ’سرابوں کا سفر‘ میں شامل پندرہ افسانوں کا موضوعاتی اور فنی اعتبار سے ایک بھرپور جائزہ پیش کیا ہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’سرابوں کے سفر‘کی کہانیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ رند  نے اپنی شاعری کی طرح ہی اپنے مشاہدات وتجربات کو صاف،سادہ،شستہ اور عام فہم زبان میں پیش کرکے افسانہ نگاری کا ایک بڑا تخلیقی کام کیا ہے۔وہ صرف کہانیاںہی نہیں بننا جانتے بلکہ اردگرد سے مناسب کردار تلاش کرنے کے فن پر بھی اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ چند افسانوں کو چھوڑ کر باقی سب افسانے مختصر افسانوں کے زمرے ہی میں آتے ہیں۔ایک بڑے حساس تخلیق کار ہونے کے ناطے وہ عمدہ سے عمدہ افسانے تحریر کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی بھی افسانے کی کہانی غیرمتوازن،بورنگ اور دور ازکار نہیں لگتی۔مجموعی طور پر رندکے افسانے ہئیتی، فنی اور معنوی اعتبار سے اچھے اور دلچسپ ہیں۔‘‘2

’سرابوں کا سفر‘ کے بعد طالب حسین رند کا افسانوی سفر رک گیا۔اس کی بنیادی وجہ ان کی طبیعت میں شاعری اور مضمون نویسی کی طرف رجحان زیادہ ہوا۔افسانوی دنیا کے لوگ ان کے پہلے مجموعے کی اشاعت کے بعد یہ توقع رکھے ہوئے تھے کہ وہ کچھ اور افسانے تخلیق کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

طالب حسین رند کے بعد بھدرواہ کی خوب صورت وادی میں جن حضرات نے اپنے جذبات واحساسات، تجربات ومشاہدات اور حالات وواقعات کو افسانے کی صورت میں پیش کیا ان میں مرحوم پروفیسر عبدالرّحیم مغل، ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی،مرحوم شازشرقی،مرحوم عبدالمجید راز، جسونت منہاس،مرحوم علی محمد شاد،مرحوم غلام رسول ملک، ڈاکٹر محمد اقبال زرگر،سعادت علی کیلو،نوین کمار کوتوال، نیک چند کوتوال اور مرحوم ساغر صحرائی کانام شامل ہے۔ ان ناموں میں مرحوم شاز شرقی،جسونت سنگھ منہاس اور ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کا افسانوی مجموعہ ’چبھن‘ 2021  میںزیور طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین تک پہنچ چکا ہے۔جہاں تک مرحوم پروفیسر عبدالرحیم مغل کی افسانہ نگاری  سے دلچسپی کا تعلق ہے ان کے کچھ افسانے ان کے اپنے زمانے میں گورنمنٹ ڈگری کالج بھدرواہ کی میگزین ’شاہین ‘ میں شائع ہوئے۔اسی طرح ان کے معاصرین  کے چند ایک افسانے کسی مقامی اخبار کی زینت بنے۔ مرحوم ساغر صحرائی بنیادی طور پر ایک شاعر، ڈرامائی اداکار، غزل گائکی میں ماہر ہونے کے علاوہ افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے لکھے چند افسانے جنھیں ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی ان میں ادھورے سپنے، خوب صورت وادی، بدصورت لوگ، میرے جوتے واپس کرو اور’میں لٹتی رہی‘شامل ہیں۔

مرحوم شاز شرقی کا پورا نام شبیر احمد قاضی تھا لیکن وہ شازشرقی کے نام سے آخر وقت تک لکھتے رہے۔ان کی حیثیت اردو ادب میں ایک شاعر،مصور،مضمون نگار، بچوں  کے ادیب ہونے کے علاوہ ایک افسانہ نگار کی رہی ہے۔ اگر چہ ان کے افسانوں میں طنزورمز اور انشائیے کا عنصر غالب نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ افسانے کہانی پن کے حامل ہیں۔شاز شرقی نے بہت زیادہ افسانے نہیںلکھے، ان کا ایک ہی مجموعہ’اساطیر اقران‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں ان کے بارہ افسانے شامل ہیں۔یہ 146، صفحات پہ مشتمل  ہے۔ان انشائیہ نما افسانوں میں شاز شرقی نے اس سماج کی تصویر پیش کی ہے جہاں جھوٹ،مکّاری،غداری،فریب،لالچ،خود غر ضی،رشوت خوری اور بہت سی ذہنی خباثتیں پروان چڑھی ہیں۔ان افسانوں یا کہانیوں کا مطالعہ کرنے کے دوران ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ شازشرقی نے اپنی آنکھوں کے سامنے رقص ابلیس دیکھا ہے۔ان کے کچھ افسانے موضوعاتی اعتبار سے رومانی اور کچھ احساساتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان افسانوں کے عنوانات ہی سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ ان میں مصنف نے کن موضوعات کو افسانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً فرضی پروفیسر، کھیل کھیل میں، انتظار، الجھن، خون کے رشتے اور’ غلط فہمی ‘ ان کا ایک افسانہ ’موت کا ڈر‘ نصیحت آموز ہے جس میں انھوں نے موت جیسی ابدی سچائی کی طرف ہماری توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔یہاں یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم دنیا میں جینے والے لوگ،مذہب،دھرم،ذات پات، فرقہ بندی،مسلک اور مختلف مسائل پر ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن موت سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ہے۔اس لیے کہ ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

بھدرواہ ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور افسانہ نگار جسونت منہاس ہیں جنھوں نے تاحال اپنے پانچ افسانوی مجموعے شائع کروائے ہیں۔ 2002 میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’توجہ‘ 2006 میں ’مسکراتے ناسور‘ 2009 میں ’یادیں‘ 2012میں ’کم ظرف‘ اور2019 میں’انصاف‘شائع ہوا۔ان تمام افسانوی مجموعوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جسونت منہاس ایک حسّاس طبیعت کے آدمی ہیںجس کے باعث انھوں نے اپنے سماج اور ماحول میں  وقوع پذیر کسی واقعے،حادثے اور فکر وخیال کو افسانہ بنانے کی بہتر کوشش کی ہے۔ وہ جموں اینڈ کشمیر فاریسٹ کارپوریشن میں ایک اونچے عہدے سے سبکدوش  ہوچکے ہیں۔ان کے موضوعات اگرچہ روایتی ہیں  لیکن ان موضوعات کی پیشکش قاری کو ذہنی اکتاہٹ میں مبتلا نہیں کرتی۔ ان افسانوں کی زبان سادہ،صاف اور دلچسپ ہے۔بیان اور بیانیے کاخیال رکھا گیا ہے۔ کرداروں کی گفتگو اور ان کی حرکات وسکنات پورے کہانی پن کے ساتھ قاری کو ذہنی حظ فراہم کرتی ہے۔بقول ولی محمد اسیر کشتواڑی:

’’ان افسانوں کی کہانیاںپوری طرح ہماری اصلی زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔کردار بھی جانے پہچانے اور موزوں ہیں۔مکالمہ نگاری بھی اچھی ہے۔زبان بہت ہی سادہ،سلیس اور عام فہم ہے۔چونکہ جسونت منہاس فاریسٹ کارپوریشن کی ملازمت کے سبب قدرتی نظاروں کو قریب سے دیکھتے رہے ہیں۔اس لیے ان کا مشاہدہ اور تجربہ زیادہ وسیع اور وقیع ہے۔‘‘3

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی اردو کے ایک معروف افسانہ نگار ہیں جن کا افسانوی سفر کئی دہائیوں سے جاری ہے۔موصوف نے آج تک درجنوں افسانے لکھے  جو زیادہ تر روزنامہ کشمیر عظمیٰ،اڑان، لازوال،تعمیل ارشاد، کشمیر ایکسپریس کے علاوہ اوربھی اخبارات میں شائع ہوئے۔ ان کی افسانہ نگاری بتدریج ارتقا پذیر ہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’چبھن‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں ان کے 65،افسانے شامل ہیں۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی پیشے سے ایک میڈیکل آفیسر سے ترقی کرتے کرتے بالآخر ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ جموں سے 2002 میں سکبدوش ہوگئے۔اردو زبان وادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔افسانہ نگاری کے جراثیم ان کی شخصیت میں موجود ہیں۔اسی لیے وہ کم وبیش اسّی سال کی عمر میں بھی مسلسل افسانے لکھ رہے ہیں۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے بیشتر افسانے مختصر ہوتے ہیں جو زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کی عکّاسی کرتے ہیں۔مجھے ان کے بیشتر افسانے پسند ہیں البتہ ان کے وہ افسانے جنہوں نے میرے دل ودماغ کو متاثر کیا ہے ان میں یادوں کے مہیب سائے، جان من، بہتان، تنہائی کا آسیب، خواب اور آنسو، جلتا گلاب، پڑیے گر بیمارتو، یادوں کی پتوار، وہ ماں کا آنچل، کچھ دیر تو رک جاتے، ماں، اور’چبھن‘ شامل ہیں۔ یہ تمام مختصر افسانے افسانہ نگار کی داخلی خود کلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ نگار نے سماج میں جو کچھ دیکھا،سنا اور محسوس کیا ہے اسے بیانیہ انداز میں پیش کردیا ہے۔ ذاتی تجربے اور  مشاہدے کو افسانہ بنانے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگ بیتی سے زیادہ آپ بیتی ہے۔لیکن اگر ان افسانوں میں پیش کیے گئے مسائل اور معاملات پر غور کریں تو اس بات کا انکشاف ہوگا کہ یہ مسائل ذاتی ہوتے ہوئے بھی عمومی حیثیت رکھتے ہیں۔عاصم فریدی عبدالمجید بھدرواہی کے افسانوں کو موضوع بناتے ہوئے ایک جگہ رقمطراز ہیں:

’’ان کے افسانوں میں نفسیاتی میلان کے ساتھ ساتھ رومانیت بھی پائی جاتی ہے۔ان کے نفسیاتی افسانے حسن پرستی اور ہوس ناکی کی علامت ہیں۔وہ کہیں نسوانی کردار کی پاکدامنی اور اعلیٰ ظرفی ظاہر کرکے ہوس پرست کرداروں کو عبرت دلاتے ہوئے راہ ِ راست کا درس دیتے ہیں۔‘‘5

بہر کیف ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کی مختصر افسانہ نگاری میں ہمیں چھوٹے چھوٹے حالات وواقعات، احساسات وحادثات نظر آتے ہیںجو غور  وتدبر کی دعوت دیتے ہیں،ہمیں جھنجھوڑتے ہیں اور اچھے برے کا خیال رکھنے کا درس دیتے ہیں۔

پروفیسر محمد اسدللہ وانی کا تعلق بنیادی طور پر وادیِ چناب کے ایک پسماندہ اور انتہائی پہاڑی علاقہ مرمت سے ہے اور اب وہ ایک طویل زمانے سے جموں میں رہائش پذیر ہیں۔ان کی تعلیم کا آغاز علاقہ مرمت ہی سے ہوا۔بعد میں دسویں کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول ملوٹھی سے پاس کیا (جو بھدرواہ سے نزدیک کا علاقہ ہے )بی اے کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج بھدرواہ سے پاس کرنے کے بعد 1996 میں جموں یونیورسٹی نے انھیں ’اقبال اور جموں وکشمیر کا اردوادب‘ کے موضوع پہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔

پروفیسرمحمد اسداللہ وانی کی حیثیت اردو ادب میں ایک معتبر محقق،بے باک نقاد،شاعراور افسانہ نگار کی ہے۔ ایک طویل زمانے تک وہ اردو کی خدمت درس وتدریس  اور تحریر وتقریرکی صورت میں انجام دیتے رہے ہیں۔ایک محنتی، باذوق اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں سرگرم رہنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔زبان وبیان کی باریکیوں پر خاص دھیان دیتے ہیں۔جہاں تک ان کی افسانہ نگاری سے دلچسپی کا تعلق ہے،اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے 1973 میں جب وہ اردو میں جموں یونیورسٹی کے تحت ایم  اے کررہے تھے اسی دوران پروفیسر منظر اعظمی کی نگرانی میں ’جموں وکشمیر میں اردو افسانہ 1947 کے بعد‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ایم اے اردو کا امتحان اوّل درجے میں پاس کیا تھا۔ظاہر ہے اس موضوع پر تحقیق کے دوران ان کے مطالعے میں مشہورو معروف افسانہ نگاروں کے افسانے رہے ہوں گے جس کے باعث افسانے سے ان کی دلچسپی کا بڑھنا لازمی تھا۔ان کے بہت سے افسانے مختلف  روزناموں اور کچھ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ سماجی نابرابری،انسانی درد وکرب،بے وفائی، ناآسودگی اوروقت وحالات کی ستم ظریفی ان کے افسانوی موضوعات ہیں۔پروفیسر موصوف آج بھی گاہے بہ گاہے افسانے لکھتے ہیں جو اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ولی محمد اسیر کشتواڑی ایک جگہ رقمطراز ہیں:

’’تحقیق ا و رتنقید کے علاوہ پروفیسر وانی کو افسانہ نگاری سے بھی دلچسپی ہے۔ان کے افسانے عصر حاضر کے  حالات اور واقعات کے ترجمان ہیں۔وہ کہانی لکھنے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں۔‘‘6

لیکن یہ اردو والوں کی محرومی سمجھیے کہ ابھی تک پروفیسر صاحب کاایک بھی افسانوی مجموعہ کتابی صورت میں قارئین کی نظروں سے نہیں گزرا ہے۔امید ہے وہ بہت جلد اپنے افسانوی ادب کو کتاب کی صورت میں محفوظ کرنے کی فکر کریں گے۔ان کے جن افسانوں کو ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ان میں روشنی، میراث، آخری سہارا، عید کا تحفہ، تعاقب، بڑے صاحب کی حویلی، اظہار کا فالج، ادھورے تاج محل، انتظار کا قیدی، توی نے کہا، تخلیق کا کرب،  اوڑھنی، اور’ ٹھاکر کی گائے‘شامل ہیں۔

ضلع ڈوڈہ کے صدر مقام ڈوڈہ سے ایک خاتون افسانہ نگار نیلوفر کے نام سے ادبی دنیا میں اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ ’دستک‘ (2023) لے کر آئی ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ نیلوفر ضلع ڈوڈہ کی پہلی خاتون ہیں جو افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اس سے قبل ہمیں کوئی ایسی خاتون نظر نہیں آتی جو افسانے لکھتی رہی ہو یا جس کا کوئی افسانوی مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا ہو۔نیلوفر کی افسانہ نگاری کے بارے میں مشتاق فریدی ایک جگہ لکھتے :

’’نیلوفر کو انسانی جذبات وخیالات کو بیان کرنے میں اچھی دسترس ہے۔ان کی زبان وبیان میں تاثیر اور فنی نزاکت ہے جس کی مثال رنجش ہی سہی، دستک، چاہت، کتنے اچھے لوگ پرانے وغیرہ ہیں۔ان کے افسانوں کے عنوانات بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔‘‘

نیلوفر نے اپنے افسانوں میں عورت ذات کے مسائل  اور اس کے جذبات واحساسات کی عمدہ عکّاسی کی ہے۔ ایک سنجیدہ خاتون ہونے کے ناطے وہ سماج میں عورت کو ہر طرح سے خود کفیل اور خوشحال دیکھناچاہتی ہیں۔ ’دستک‘ میں شامل افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نیلوفر کو افسانہ نگاری کے ساتھ خاص دلچسپی ہے۔وہ موضوعاتی اور لسانیاتی اعتبار سے کامیاب نظر آتی ہیں۔کوئی بھی ادیب یا شاعر معراج کمال کو تب پہنچتا ہے جب وہ مسلسل معیاری ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔ مشق سخن جاری رکھتا ہے،اپنے خیالات،جذبات واحساسات میں پاکیزگی کے ساتھ آفاقیت کا عنصر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اورفنی لوازمات کی پابندی کرتا ہے۔نیلوفر کو ابھی بہت دور جانا ہے۔مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ اپنے قارئین کے دل ودماغ پر دستک دے چکی ہیں۔ ضلع ڈوڈہ سے ایک خاتون افسانہ نگار کا پیدا ہونا باعث مسرت ہے۔

کشتواڑ میں عشرت کشتواڑی کے بعد کوئی ایسا افسانہ نگار سامنے نہیں آیا جس نے ریاستی یا ملکی سطح پہ اپنی شناخت قائم کی ہو۔البتہ کچھ نوجوانوں نے اس نثری صنف میں طبع آزمائی کی ہے یعنی ان کے چند افسانے اخبارات میں شائع تو ہوئے لیکن باضابطہ طور پر کوئی مجموعہ سامنے نہیں آیا۔ان میں الطاف کشتواڑی، عبدالرشید فدا، اسلم شہزاد،طارق تمکین،عشاق کشتواڑی،بشیر احمد بشیر اور پرویز ابن طیب شامل ہیں۔

فرید آبادڈوڈہ میں مشتاق فریدی ایک معتبر نام ہے جو شاعری اور مضمون نویسی کے علاوہ افسانے بھی لکھتے ہیں لیکن ان کا کوئی افسانوی مجموعہ ہماری نظروں سے نہیں گزرا۔ ان کے علاوہ سید اللہ شاد فریدی،فرید احمد فریدی، عاصم فریدی،صلاح الدین،تمنا منشی،صفیہ بیگم اور ڈاکٹر نسیم وغیرہ بھی افسانے سے دلچسپی رکھنے والوں میں شامل ہیں۔

ضلع رام بن میں پوگل پریستان کے علاقے میں جو حضرات اردو افسانے اخبارات میں کبھی کبھار لکھتے رہے ہیں ان میں آنجہانی صورت سنگھ، عبدالرحمن رونیال، عبداللطیف اور عبدالخالق شامل ہیں۔گویا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف افسانے پڑھتے تھے بلکہ لکھتے بھی تھے۔گول سنگلدان میں بھی افسانے سے دلچسپی رکھنے والوں میں عبدالحمید بٹ اور محمد شفیع میر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

بانہال جیسی خوب صورت وادی میں جہاں مرحوم پروفیسر مرغوب بانہالی  اور منشور بانہالی جیسے قابل لوگ پیدا ہوئے کہ جنھوں نے اپنی علمی،ادبی  اور شعری صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ بیرون ریاست بھی منوایا تو وہیں بہار احمد بہار بانہالی،ڈاکٹر خالد رسول،بشیر بانہالی اورظاہر بانہالی جیسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے افسانے لکھے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام اردو افسانے کے حوالے سے ظاہر بانہالی کا ہے کہ جن کے دو افسانوی مجموعے ادبی حلقوں میںخاصے مقبول ہوئے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’شیطان پورے کا باغی‘(2017) اور دوسرا ’توی کنارے‘ (2020) زیور طاعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئے۔ ظاہر بانہالی نے ان افسانوں میں اپنے ماحول  ومعاشرے میں پنپ رہی ان برائیوں کی تصویریں پیش کی ہیں جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ بانہال کو یوں بھی کلچر، زبان اور آب وہوا کے اعتبار سے کشمیر ہی کاایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔اسے گیٹ وے آف کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ظاہربانہالی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’شیطان پورے کا باغی‘ 97 صفحات پہ مشتمل ہے جس میں بارہ افسانے شامل کیے گئے ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں شیطان پورے کا باغی، چندر بھاگا کی لہروں میں، سسکتے ارمان، بے آواز لاٹھی، ادھورے سپنے، وارث، پیر پنچال کے کوے، کم ذات، کشمکش، ثبوت اور’کھمبا‘ مرحوم پروفیسر ظہورالدین نے ان افسانوں پر اپنی رائے ان الفاظ میں تحریر فرمائی ہے:

’’دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم‘‘ کے مصداق ظاہر بانہالی نے بھی زندگی سے جو کچھ پایا ہے۔اسے ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ زندگی کے اس منتھن میں اس کی کوشش یہ ضرور رہی ہے کہ زہر کا کوئی قطرہ اس کے قارئین تک نہ جائے۔صرف وہ صداقتیں ہی ان تک پہنچیں جو زندگی کی تاریک راہوںکو منّور کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔‘‘8

ظاہر بانہالی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’توی کنارے‘ 144 صفحات پر محیط ہے۔اس میں جو افسانے شامل ہیں ان کے عنوانات پر بھی غور کیجیے توی کنارے، آدھارکارڈ، مطلبی دنیا، فیس بک، کاغذی قتل، جنگل کا پھول، کتا، بدقسمت فائل، بے آواز لاٹھی، روٹھی محبت، ادھورا آدمی، جس کو پالا، بھروسہ، یتیم خانہ، ملاقات، کتّے کی دم، تنہائی، ان دیکھا حسن، میکے کی مرغی، چالاکی، ثبوت، انسانی گوشت، اغوا، سایہ، اور’دھوبی کاکَتّا‘گویا اس مجموعے میں کل25، افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ان افسانوں کے عنوانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ظاہر بانہالی نے اپنے گردونواح میں یا جن جن لوگوں کے ساتھ ان کی نشست وبرخاست رہی ہے ان کے تلخ وشیریں مزاج کو افسانہ بنادیا ہے۔یہاں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر بانہالی اپنے تجربے اور مشاہدے کو فنی طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہیں۔بہرحال یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بانہال سے ظاہر بانہالی کی افسانوی پیشکش بہت اچھی اور متاثر کن ہے۔اگر وہ اسی طرح افسانے لکھتے رہے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ جموں وکشمیر کے معتبر افسانہ نگاروں کی صف میں شمار کیے جائیں گے۔

وادیِ چناب میں اردوافسانے کی صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں ہے یعنی شاعری کے مقابلے میں اردو افسانہ نگاری بہت کم ہوئی ہے یا ہورہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو کی نوجوان نسل شاعری کی طرف زیادہ مائل ہے کیونکہ شاعری میں ایک دو غزلیں لکھنے کے بعد آدمی شاعر ہوجاتا ہے۔ان غزلوں میں استاد کا کتنا حصہ ہوتا ہے اور شاگرد کا کتنا یہ ایک الگ مسٔلہ ہے۔ افسانہ تیار کرنے میں بہت محنت لگتی ہے۔فنی باریکیوں پر دھیان دینا پڑتا ہے۔بار بار سوچنا پڑتا ہے۔قاری کی نفسیات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے،غرضیکہ موضوعاتی،فنی،لسانی اور اسلوبیاتی اعتبار سے آپ کو اپنے قاری کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سب بغیر محنت،کثیر مطالعے،وسیع تجربے ومشاہدے اور ذوق وشوق کے ممکن نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ کاغذ یا لیپ ٹاپ پر لکھی ہوئی ہر تحریر ادب نہیں ہوتی۔

حواشی

  1. صوبہ جموں کے قلم کار( حصہ اوّل)مصنف،ولی محمد اسیر کشتواڑی، اقرا پبلشرز بہروٹ راجوری،جموں وکشمیر، 2021،  ص148
  2. ایضاً، ص 489-90
  3. ایضاً، ( حصہ سوم)، 2023، ص 175
  4. ایضاً
  5. ایضاً، ( حصہ دوم)،2021، ص 160
  6. ایضاً، حصہ سوم، 2023، ص 198
  7. ایضاً، ص 518
  8. ایضاً، ص 263

 

Dr Mushtaq Ahmed Wani

Lane No,3 House No, 7

Firdousabad  Sunjwan

Jammu-180011 (J&K)

Mobile No:7889952532

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...