ہمالہ کی ترائی میں بسا، نیپال کی سرحد سے بنگلہ دیش کی سیما تک پھیلا صوبۂ بہار کا شمال مشرقی زرخیز اور مردم خیز علاقہ جو کبھی قدیم پورنیہ ضلع کی حیثیت سے جانا جاتا تھا آج سیمانچل کے نام سے موسوم ہے۔ یہ وہی خطۂ ارض ہے جہاں پانڈوؤں نے اپنے ’ اگیات واس ‘ کے دوران راجا بَیراٹھ کے دربار میں اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے ملازمت کی۔ یہ وہی دھرتی ہے جہاں ست یگ میں ’ نر سنگھ اوتار‘ کا مشہور واقعہ پیش آیا تھا اور یہ وہی پورنیہ ہے جہاں بنگالہ کی راجدھانی ’ گَور ‘ یا ’ لکھنوتی ‘ راجا لکشمن سین کے دور میں اپنے عروج پر ہوا کرتی تھی۔ بعد ازیں ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے تصرف سے نکال کر گَور میں اپنے نام کا خطبہ پڑھا اور اس کا نام ’ جنت آباد‘ رکھا۔
سیمانچل کی تاریخ میں
اسلامی دورِ حکومت کا آغاز 1200میں سلطان قطب الدین ایبک کے جنرل اختیارالدین محمد
بختیار خلجی کے فتح بنگال سے ہوا۔ مسلم حکمرانوں کے عہدِ حکومت میں اس خطے میں علم
و ادب کا چرچا پروان چڑھا۔ حضرت شیخ تقی الدین مہسوی، حضرت شیخ سلیمان سہروردی مہسوی،
مخدوم حسین غریب دھکڑ پوش مہسوی، حضرت جلال الدین تبریزی، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی،
حضرت مخدوم نور قطب عالم پنڈوی اور حضرت مصطفیٰ جمال الحق وغیرہ صوفیائے کرام نے بھی
اس خطے پر بطور خاص توجہ فرمائی۔ ان میں سے کئی صاحبِ تصنیف بھی رہے۔
پورنیہ نے نواب سیف
خاں، نواب سعید احمد صولت جنگ اور شوکت جنگ جیسے فوجداروں کی فوجداری میں رہنے کا شرف
حاصل کیا ہے جو علم و ادب کی سرپرستی میں ملک گیر شہرت کے حامل رہے ہیں۔ یہ وہ فوجداران
ہیں جن کا تذکرہ مربیانِ سخن کے تحت ' شعرالہند ' میں آیا ہے۔
سیمانچل کی سب سے قدیم
تصنیف ’بدیا دھر‘ شیخ کفایت اللہ کے ذریعے 1728میں فوجدار نواب سیف خان کے عہد میں
قلمبند کی گئی۔ اس کا رسم الخط قدیم زبان ’کَیتھی‘ کے مماثل ہے۔ اس کی زبان مقامی اور برج بھاشا سے ملتی جلتی ہے، جو اب متروک ہے۔
ڈاکٹر عنصری بدر اپنی
کتاب ’اردو شاعری کے ارتقامیں قدیم پورنیہ کی خدمات‘ میں یوں رقمطراز ہیں ’’شیخ محمد آزاد بخش ساکن جھالا ( پورنیہ نے اسے اردو رسم الخط میں منتقل کیا ہے۔ سب سے پہلے
مولوی مقبول حسین پورنوی نے اسے ترتیب دے کر چھپوانا چاہا لیکن وہ کر نہ سکے۔ 1938
میں مولوی محبوب الرحمن کے محبوب عالم پریس کشن گنج، پورنیہ سے اسے شائع کیا۔ ‘‘
ڈاکٹر قمر شاداں نے اس کا مکمل ہندی ترجمہ کتابی
صورت میں شائع کیا ہے۔ یہ مثنوی ملک محمد جائسی کی ’پدماوت‘ کے طرز پر قلمبند کی گئی
ہے۔ اس میں ہندو مسلم اتحاد اور صوفیانہ تعلیم کے علاوہ عشقیہ داستان اور دوا دارو
وغیرہ بہت کچھ موجود ہے۔ بطور نمونہ کلام چند اشعار پیش ہیں ؎
بدیا بہت پڑھا من جانی
کتھا کہو جو رہے نِسانی
خلاف پیغمبر کسے رہ
گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ
خواہد رسید
کنیا روپ سنا جب راجا
پریم ان کو رہیا میں
جاگا
ترونا سامی ہم ابلہ
تھر تھر کانپے انگا
سیمانچل کی دھرتی پر
جنم لینے والوں میں ایسی کئی مشہور و معروف ہستیاں ہیں جنھوں نے عالمی ادب کو اپنی
لازوال تخلیقات سے مالامال کیا ہے۔ بنگلہ زبان کے پدم بھوشن شری بولائی چاند مکھوپادھیائے
عرف بن پھول (پ 19 جولائی 1899- 09 فروری 1978) اور اولین رابندر پْرسکار سے نوازے
گئے مشہور بنگلہ ناولز ’ جاگوری‘ اور ’ ڈھورائی
چرت مانس ‘ کے خالق شری ستی ناتھ بھادْری
(پ 27 ستمبر 1906 - ر 30 مارچ 1965 ) کو بھلا کون بھول سکتا ہے ؟ اسی طرح ہندی زبان
میں ’ مَیلا آنچل‘ ناول کے عالمی شہرت یافتہ تخلیق کار پدم شری شری پھنیشور ناتھ رینو
( پ 04 مارچ 1921- ر 11 اپریل 1977) کو بھی یقینا
فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
انگریزوں کے دورِ حکومت میں آخری نواب محمد علی خان کو معزول کر 14 فروری 1770 کو پورنیہ ضلع کا قیام عمل میں لایا
گیا۔ اس کے پہلے سپروائزر کلکٹر تھے مسٹر جارج گسٹاوس ڈوکاریل (George Gustous Ducarrel) اس طرح قدیم پورنیہ
ہندوستان کے قدیم ترین ضلعوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کی بدقسمتی یہ رہی کہ اکثر یہ
ضلع کتر بیونت کا شکار ہوتا رہا۔
1813 میں پورنیہ،
دیناج پور اور راج شاہی ضلعوں کے بڑے حصص کو یکجا کر ایک نئے ضلع ’ مالدہ‘ ( بنگال
) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آزادی کے بعد State re-organization
act 1956 کے
تحت 1898مربع کیلومیٹر اسلام پور سب ڈویژن
کا علاقہ مغربی بنگال میں شامل کر دیا گیا۔ اسلام پور سب ڈویژن میں اردو لکھنے پڑھنے
والوں کی بڑی آبادی واس کرتی ہے۔ یہ علاقہ
اب سیاسی طور پر ضرور صوبۂ بنگال کا حصہ بن
چکا ہے لیکن جغرافیائی، ماحولیاتی، لسانی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر آج بھی سیمانچل
کا اٹوٹ حصہ ہے۔ 1973 میں باقی ماندہ پورنیہ کے کٹیہار سب ڈویڑن کو سب سے پہلے اور
پھر 1990میں کشن گنج اور ارریہ سب ڈویژنوں کو بھی ضلع کا درجہ حاصل ہوا۔
اس طرح پورنیہ، کٹیہار،
ارریہ، کشن گنج ضلعوں اور اسلام پور سب ڈویژن ( ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) کو
ملا کر عرف عام میں ’سیمانچل‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
’کلیاتِ
عزیزی ‘ اب تک کی تحقیق کے مطابق اردو زبان میں سیمانچل کی پہلی مطبوعہ کتاب ہے جس
کے شاعر عبدالعزیز ولد الحاج منصف فرید بخش ساکن پلاس منی ضلع کشن گنج ہیں۔ اس شعری
مجموعے کا سال اشاعت 1314ھ بمطابق 1896ہے۔ تقریباً پوری کتاب فارسی زبان میں ہے لیکن آخر میں چند
اوراق غزلیاتِ اردو پر بھی مشتمل ہیں۔
سیمانچل میں یہ اردو
شاعری کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے کیونکہ اْس زمانے میں فارسی شاعری کا بول بالا
تھا اور اردو میں شاعری کم کم کی جاتی تھی۔ اردو زبان میں اگر شاعری کی بھی جاتی تھی
تو اس پر فارسی کا خاصا غلبہ رہا کرتا تھا۔
سیمانچل میں اردو شاعری کے کئی ادوار گزر چکے
ہیں۔ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے یہاں مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے چند قابلِ ذکر شعراکا
مختصر تذکرہ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا
ہوں۔
) الف
) فوجدارانِ پورنیہ کا عہد: فوجداروں کے عہدِ حکومت کے دوران پورنیہ کا گہرا تعلق بنگال اور عظیم آباد سے رہا۔
اسفند یار خاں، بہمن یار خاں، سیف علی خاں، صولت جنگ، شوکت جنگ اور میر قاسم وغیرہ
پورنیہ کے مشہور فوجداران رہے۔ ان کے دربار میں علما، شعرا و ادباکی نشست رہا کرتی تھی۔ جہانگیر نگر ( ڈھاکہ
)، مرشد آباد، عظیم آباد اور پورنیہ کے درمیان شعراکی آمد و رفت کا سلسلہ قائم تھا۔
خصوصاً سعید احمد خاں صولت جنگ جو نواب بنگالہ علی وردی خاں کے بھتیجے اور داماد تھے،
پہلے انھیں 1749 میں بہار کا نائب حکمراں مقرر
کیا گیا تھا لیکن سراج الدولہ کو یہ تقرری پسند نہ آئی۔ علی وردی خاں نے اپنے چہیتے
سراج الدولہ کو یہ جگہ دی اور صولت جنگ کو پورنیہ کی فوجداری۔ پورنیہ کا فوجدار بننے
کے بعد صولت جنگ نے اپنی تمام بے راہ روی ترک کر دی اور نہایت کامیاب فوجدار ثابت ہوا۔
غلام حسین طباطبائی
مصنف ’سیرالمتاخرین‘ اس کے خصوصی مصاحبین میں سے تھا۔ اسے پرگنہ سری پور کی زمینداری
حاصل تھی۔ اس کا قیام پورنیہ میں سات سال رہا، اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’نواب صولت
جنگ صبح اٹھ کر فجر کی نماز سے فارغ ہو کر دربار میں آ بیٹھتا تھا۔ عصر کی نماز کے
بعد بھی وہ مصاحبین کے ساتھ بیٹھا کرتا جس میں علما مثلاً ملا غلام یحییٰ بہاری، مفتی
ضیاء اللہ، میر توحید، مولوی لال محمد، شیخ ہدایت اللہ اور سید عبدالہادی وغیرہ ہوا
کرتے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر رفقا مثلاً سیف
علی خاں برادر سیف خاں، نقی علی خاں برادر غلام حسین، امیر علی خاں وغیرہ ہوا کرتے
تھے۔ 1756 میں صولت جنگ کا انتقال ہو گیا۔
اس کے انتقال کے بعد
اس کا بیٹا شوکت جنگ پورنیہ کا فوجدار مقرر ہوا۔
.1 میر محمد باقر حزیں جنھیں سودا نے اکابر
شعراکے ساتھ شمار کیا ہے صولت جنگ کے دربار
سے منسلک تھے۔ تذکرۂ شورش کے مرتب محمود الٰہی
نے لکھا ہے کہ ’’دہلی سے روانہ ہونے کے بعد میر باقر حزیں کو شعر و شاعری کی خدمت کا
زیادہ موقع نہیں ملا۔ وہ اس کے بعد پندرہ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے اور اس مدت میں
بھی انھیں عظیم آباد میں جم کر رہنا ممکن نہیں ہوا۔ انھیں ڈھاکہ اور پورنیہ میں قیام
کرنا پڑا۔ ‘‘
ان کے بارے میں مزید
لکھا ہے کہ ’’وہ نواب صولت جنگ کے ہمراہ میر محمد وحید صاحب قبلہ کے وسیلے سے پورنیہ
چلے گئے اور وہاں انتقال کیا۔ حضرت شاہ مصطفی، جمال الحق قدس سرہ کے روضہ میں چبوترے
کے نیچے مدفون ہوئے۔‘‘
میر باقر حزیں کے بارے
میں شورش نے لکھا ہے کہ ’’ریختہ کو سب سے پہلے بہار میں رائج کرنے والے حزیں ہی تھے۔‘‘
میر باقر حزیں کا تخلص
ظہور بھی تھا۔ مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ پروفیسر سید شاہ حسین احمد نے اپنی
کتاب ’ بہار میں اردو شاعری 1887 تک‘ میں سال
وفات 1164-65ھ درج کیا ہے۔
نمونۂ کلام مختلف
تذکروں میں ملتا ہے۔ طوالت کے مدنظر محض دو اشعار پر اکتفا کرتا ہوں ؎
اس بے وفا کے عشق میں
کچھ مجھ کو حس نہیں
پاؤں تلک بھی ہائے
مرا دست رس نہیں
کیا کیا گزرتی ہوگی
دلوں پر قفس کے بیچ
ان بلبلوں کا وائے
کوئی دادرس نہیں
.2 خواجہ احمدی خاں راسخ، دہلی نژاد تھے
جو 1757 سے 1760 کے درمیان سید خادم حسین خاں
فوجدار کے زمانے میں مرزا جھبو کی وساطت سے
پورنیہ آئے تھے۔ خواجہ محمدی خاں کے سوتیلے بھائی تھے۔ ان کا صرف ایک شعر دستیاب ہے ؎
خانہ خراب حلقہ میں
اس کے ہوئے ہیں جمع
ابرو کماں کے ملنے
سے تب میں کشیدہ ہوں
.3 میر مستقیم جرات کا ذکر میر حسن اور
عشقی نے اپنے تذکروں میں کیا ہے۔ سید زادے تھے اور درویشانہ طبیعت کے حامل تھے۔ بقول
عشقی ’’مردے درویش صورت، نیک سیرت، صاحب جرأت درعہد محمد شاہ بود۔ طبع کریم و مزاج
مستقیم داشت۔ از بعض تذکرہا بہ وضوح پیوست کہ بسمت پورنیہ ترک لباس کردہ بطاعت ایزدی
می گزاریند۔‘‘
ان کا ایک مشہور شعر
پیش ہے ؎
ہر بن مو سے مرے شعلہ
نمایاں کر دے
دل تو جلتا ہے بس اب
سرو چراغاں کر دے
.4 سلامت علی سلامت کا ذکر تذکرۂ شورش میں موجود ہے۔ پورنیہ کے عملہ پرگنہ ارول سرکار
کے رہنے والے تھے۔ ان کے صرف دو اشعار دستیاب ہیں ؎
تجھ ہاتھ سے کس کس
کے لیے روئے ظالم
سینہ میں نہ دل ہی
ہے نہ جی ہے نہ جگر ہے
کعبہ کو چلوں شیخ تیرے
ساتھ میں کیوں کر
پھر ان دنوں دلدار
کے کوچے میں گزر ہے
.5 میر محمد رضا جرأت کا بھی ذکر تذکرۂ
شورش میں موجود ہے ’’شاعر اہل مروت و فتوت میر محمد رضا جرأت شاعر فارسی ولد سید محمد
وحید تخلص مخاطب بجناب سید صدرالدین منصب دارِ شاہی صاحبِ جاگیر۔ در علم ظاہر فاضل
جید و منشی و متعدی و سپاہی و سنی و شجاع و شوخ..... درپورنیہ جاں بہ جاناں داد نماز جنازہ حضرت پیر دستگیر قمرالحق خواندہ....
میر ہادی تاریخِ وفات سید محمد رضا گفتہ...‘‘
جرأت شورش کے ماموں
زاد تھے۔ بیشتر کلام فارسی میں ہے لیکن ریختہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ بطور نمونۂ
کلام ایک شعر پیش ہے ؎
نہ پایا کوئی بلبل
نے گلوں سے مہرباں اپنا
کیا اس واسطے جا گرم
گلخن میں مکاں اپنا
.6 مرزا ندیم ندیم کو علی قلی خاں کا خطاب
حاصل تھا۔ دہلی کے رہنے والے تھے۔ پہلے عظیم آباد وارد ہوئے۔ تذکرہ نگار شورش عظیم آبادی سے وہیں
شناسائی ہوئی تھی۔ شورش کے مطابق وہ شوکت جنگ کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے لیکن عشقی
کے مطابق میر جعفر کی سرکار سے متعلق ہوئے اور وہیں پورنیہ میں جاں بحق ہوئے۔
آپ زیادہ تر فارسی
میں مرثیہ کہا کرتے تھے۔ شاداں فاروقی نے بزم شمال میں نو اشعار نقل کیے ہیں ؎
گلشن میں جوشِ گل سے
قیامت لگی ہے آگ
بلبل جلیں نہ تیرے
پر و بال دیکھنا
ایک یار نے زروئے نصیحت
کہا ندیم
کب تک تجھے بتوں کا
خط و خال دیکھنا
.7 شیخ غلام علی عشرت، شیخ غلام علی بنگالی
کے نام سے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ’جنگ نامہ‘ لکھا ہے۔ شیخ لطف اللہ عظیم آبادی کے
فرزند تھے جن کی وفات کے بعد خادم حسین خاں کے رسالے میں ملازم ہو گئے۔ تذکرۂ شورش میں لکھا ہے کہ ’’آخر میں پورنیہ میں تھے
کہ مزاج میں وحشت سما اور صحرا کی راہ لی۔‘‘
1785تک باحیات تھے۔ تذکرۂ شورش میں
ان کا درج ذیل شعر شامل ہے ؎
تھا نظر بند تو کرتا
تھا کبھی پھر اول
پائے زنجیر ہوا ہائے
کہیں میرا دل
.8 سرمست خان افغان مست، اصالت خاں ثابت کے بھتیجے یا بھانجے تھے۔ عشقی کے
شاگرد تھے۔ قیام زیادہ تر پورنیہ میں رہتا تھا۔ 1785 تک بہ قید حیات تھے۔ نمونۂ کلام ؎
نہ وہ بانکوں میں گنا
جائے نہ ٹیڑھوں میں یہ کیوں
خانہ جنگی تمھیں رہتی
ہے سدا مست کے ساتھ
.9 ہیبت قلی خاں حسرت۔ نواب شوکت جنگ کے
داروغہ دیوان تھے۔ یہ اتنے اہم شاعر تھے کہ حسرت موہانی نے ان کا انتخاب شائع کیا اور
اسما سعیدی نے ان کا دیوان مرتب کیا۔ ہیبت
قلی خاں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ’’حسرت میر باقر کے ہمراہ پورنیہ چلے گئے اور وہاں
نواب شوکت جنگ بہادر کے دیوان خانہ کے داروغہ ہو گئے۔ اس کے بعد میر باقر کی بہن سے
منسوب ہوئے۔‘‘
تذکرۂ شورش کے مطابق
’’عظیم آباد میں انھوں نے ہی سب سے پہلے ریختہ کی بنیاد رکھی۔ ‘‘
.10 میر غلام حسین شورش ولد میر محسن وطن
عظیم آباد تھا۔ پروفیسر شاہ حسین احمد اپنی کتاب‘ بہار میں اردو شاعری 1857تک
‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’شورش کا پورنیہ جانا
ثابت ہے۔ شورش اپنے تذکرہ ( تذکرۂ شورش )
میں رنگیں کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : در پورنیہ دیوان او بنظر آمدہ بود۔ ‘‘
مزید لکھتے ہیں کہ’’یہ
بات قرین قیاس ہے کہ وہ اپنے ماموں ملا وحید اور ماموں زاد بھائی میر محمد رضا جرأت
کے ہمراہ پورنیہ گئے ہوں گے، پورنیہ میں ان کے قیام کا زمانہ 1162 ھ سے 1167 ھ تک مانا
جا سکتا ہے۔‘‘
شورش میر باقر حزیں
کے شاگرد تھے۔ حزیں کے انتقال کے بعد شاہ رکن الدین عشق سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ دوران
قیام پورنیہ انھوں نے دو مثنویاں ’ درد و الم‘ اور ’باغ و بہار‘ لکھی تھیں۔
شورش کا انتقال بقول
ابوالحسن شعبان 1195 ھ میں ہوا۔ نمونۂ کلام ؎
داغ دل کی بہار تجھ
سے ہے
یہ چمن لالہ زار تجھ
سے ہے
عاشقی اور چیز ہے شورش
دل سے سب ننگ و عار
کھوتی ہے
ہم نے اس بینشاں کا
آج نشاں
اس دلِ بے نیاز میں
پایا
( ب) فوجداران
کے بعد کا دوسرا دور :
(1) اس
دور میں بھگوان دین تائب سرفہرست ہیں جو ارریہ کے باشندہ اور منشی شنکر لال صبا کے شاگرد تھے۔ صاحبِ تاریخ شعرائے
بہار کے مطابق 1854 میں باون برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ ' خمخانۂ جاوید‘ کے
مؤلف نے ’گلدستۂ شعرا‘ کے حوالے سے دو غزلیں پیش کی ہیں ؎
غضب ہے یار ترے پھول
سے بدن کی بہار
بنائے گی ہمیں دیوانہ
اس چمن کی بہار
ٹکڑے ہیں دامن نہ گریباں
کے
خوب وحشت کے ہاتھ چلتے
ہیں
(2) حضرت شوق نیموی کے شاگردوں میں تفسیر
پورنیوی تھے جن کا نام منشی معیذالدین تھا۔ ’ تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘ اور ’یادگارِ
وطن‘ میں ان کا ذکر ہے۔ شوق نیموی نے اپنے شاگردوں کی فہرست میں ان کا نام شامل کیا
ہے ؎
رنج و غم اپنا کوئی
کیا جانے
دردِ دل درد آشنا
جانے
(3) تسطیر پورنیوی، اصل نام منشی امیر الدین
تھا اور عالم گنج شہر پورنیہ کے رہنے والے تھے۔ شوق نیموی نے اپنے تذکرہ ’یادگارِ وطن‘
میں ان کی شاگردی کا ذکر کیا ہے۔ اکمل یزدانی جامعی نے اپنی کتاب ’ پورنیہ پر فوجداروں
کی حکومت‘ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ؎
کوچۂ عشق میں چلنے
کا ارادہ پھر ہے
خیر سے حضرتِ دل !
آپ یہ کیا کرتے ہیں
(4) حکیم محمد عسکری سالم لکھنوی ثم پورنیوی
ناسخ کے شاگردوں میں سے تھے۔ 1857کے غدر کے ایک سال بعد عظیم آباد اور پھر آرہ چلے
گئے۔ آرہ سے پورنیہ آئے اور 1872میں یہیں انتقال فرمایا۔ مرثیہ میں یدطولیٰ حاصل
تھا ؎
خاک میں بھی داغِ فرقت
نے حرارت خوب کی
کاہ آتش دیدہ سے تربت
پہ صورت ڈوب کی
(5) امیر بیگم امیر پورنیہ کی مشہور طوائف
تھیں۔ ’تذکرۂ نسواں ہند‘ کے مطابق 1892تک
باحیات تھیں۔ ’ تذکرہ شمیم سخن‘ مؤلفہ صفا بدایونی کے حوالے سے ان کے دو اشعار نقل
کیے گئے ہیں ؎
عرصہ محفل میں اس کا
قرب بھی مل جائے گا
اپنی جا ہم ڈھونڈ لیں
گے صاحبِ محفل کے پاس
(6) گلاب جان گلاب سیف گنج ( کٹیہار ) کی
پیشہ ور طوائف تھیں۔ کوئی غیر معروف شاعر حبیب نامی ان کے کلام پر اصلاح دیا کرتے تھے۔
1910تک باحیات تھیں۔ ’پیام یار‘ لکھنؤ جون 1904 کے شمارے سے شاداں فاروقی نے ان کی
طرحی غزل نقل کی ہے ؎
جانِ من تم کو پیار
کرتے ہیں
دل تمھیں پر نثار کرتے
ہیں
(7) پرتھوی چند صبا۔ پورنیہ کے مشہور رئیس
تھے۔ اصل نام پرتھوی چند لال تھا۔ عوامی طور پر راجا پی سی لال کے نام سے شہرت تھی۔
حضرت شوق نیموی کے شاگرد تھے۔ شعر و شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ‘تذکرہ ہندو شعرا‘ میں آپ کا تذکرہ موجود ہے ؎
عشق لیلیٰ کا اگر قیس
کو کامل ہوتا
مانع دید نہ کچھ پردۂ محمل ہوتا
(8) راجا پدمانند سنگھ افسر (1854-1910)
بنیلی اسٹیٹ کے مالک تھے۔ فارسی، اردو، ہندی، بنگلہ اور انگریزی زبانوں کے اچھے جانکار
تھے۔ شعر و سخن سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندی کے علاوہ اردو میں بھی شاعری
کی ہے ؎
قدرداں ہم ہیں ہمیں
آکے سنگھاؤ صاحب
مفت کیوں کرتے ہو تم
زلف کی نکہت برباد
(9) مولوی عبدالعزیز عزیز، ان کے والد فرید بخش ساکن پلاسمنی، حالیہ ضلع کشن
گنج تھے جو کہ انگریزی حکومت کے دوران منصف
کے عہدے پر فائز تھے۔ عبدالعزیز نے 1888 میں پورنیہ ضلع اسکول سے انٹرنس پاس کیا اور
پورنیہ سٹی مڈل اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ بعد ازاں 1892میں مختاری کا امتحان پاس کیا اور عدالت میں
مختاری کرنے لگے۔ محض تیس سال کی عمر میں 1902میں انتقال فرمایا۔ فارسی اور اردو زبان
پر دسترس حاصل تھی۔ فارسی اور اردو غزلیات
پر مشتمل ’ کلیات عزیزی ‘ 1314 ھ (1896) میں
شائع ہوا جو غالباً سیمانچل کا سب سے پہلا مطبوعہ شعری مجموعہ ہے۔ رکن الدین دانا سہسرامی
ندوی نے’ تحفۂ احسان ‘ مطبوعہ 1940 میں پانچ
اشعار کی ایک نعتیہ غزل شامل کی ہے ؎
مجھے اپنا جلوہ دکھاؤ محمد
مجھے عطر گیسو سونگھاؤ
محمد
(10) مولانا حفیظ الدین لطیفی رحمان پوری ( پ
1245ھ- ر 1333ھ) والد بزرگوار شیخ حسین علی موضع چشتی نگر کمہریا، حالیہ ضلع کٹیہار
کے زمیندار تھے۔ مولانا حفیظ الدین لطیفی نے پٹنہ اور دہلی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
پٹنہ میتن گھاٹ حضرت خواجہ رکن الدین عشق کی خانقاہ میں تشریف لائے اور صاحب سجادہ
حضرت لطف علی قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت طریقت فرمائی اور تخلص ’لطیفی‘ اختیار فرمایا۔ آپ مدرسہ خانقاہ سہسرام
کے صدر مدرس مقرر ہوئے، بعد ازاں کٹیہار لوٹ آئے اور رحمان پور میں خانقاہ قائم کی۔
آپ عربی، فارسی اور اردو زبان میں کلام فرماتے تھے۔ آپ کی رحلت کے پانچ سال بعد آپ
کے شاگرد اور خلیفہ مولانا محمد عابد چنڈی
پوری نے 1338 ھ میں ’ دیوانِ لطیفی‘ مرتب کرکے شائع کیا ؎
کس کس ادا و ناز پر
تیرے بھلا کوئی مرے
جادو نگاہے، کج کلاہے،
خوش لقا، خوش منظرے
بلبل نہیں پروانہ ہوں
اس شمع رو سے پر مرے
ہاں اے لطیفی سوختہ
شد، گشتم اکنوبے پرے
(11) مولانا شرف الدین شرف حفیظی، مولانا حفیظ الدین لطیفی کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔
پیدائش 1875کے آس پاس ہوئی اور 1949میں رحلت فرمایا۔ کشن گنج کے گانگی میں ان کا مزار
ہے۔ ایک شعری مجموعہ ’ دیوان حفیظی‘ یادگار ہے جس میں فارسی کی 26 اور اردو کی 20 غزلیں
شامل ہیں ؎
تمھاری راہِ طلب میں
ہم نے کیا ہے دل میں یہ عہدِ صادق
جفا کے بدلے وفا کریں
گے ستم کے بدلے کرم کریں گے
(12) تہذیب احمد غافل، پناس حالیہ ضلع کشن گنج کے
ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ آپ کی ولادت 1897 میں ہوئی اور 1972 میں انتقال فرمایا۔
پہلا شعری مجموعہ ’نیل و فرات ‘ 1953 اور دوسرا ’ بادۂ
عرفان‘ نامی 1961 میں شائع ہوا
؎
جمالِ حسن نے آنکھوں میں کر دیا جادو
کمالِ عشق دکھانا تھا
پر دکھا نہ سکا
(13) محمد سلیمان سلیماں ( پ : 1900 ر : 1975 ) منصف فرید بخش، پلاسمنی کے
پوتے اور عبدالعزیز عزیز کے بھتیجے تھے۔ کشن گنج عدالت میں وکالت کرتے تھے۔ 1915 میں
جبکہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے ’ گلبن فصاحت‘ کے عنوان سے شعرائے پلاسمنی کے فارسی
کلام کا ایک مجموعہ شائع کیا تھا جس میں ان کی بھی دو غزلیں شامل تھیں۔ ایک مثنوی
’ حسنہ و سیاہ فام ‘ 1921 میں شائع ہوئی تھی۔ ان کی نظموں اور غزلوں کا انتخاب ان کے
شاگرد اکمل یزدانی جامعی نے ’نوائے نے‘ کے عنوان سے 1952 میں شائع کیا ؎
خوش نوائی کی سلیمان
کی سنی ہے شہرت
آؤ دیکھیں کہ خیالات
میں رفعت کیا ہے
(14) حکیم رکن الدین دانا سہسرامی ، سہسرام کے محلہ
شاہ جمعہ میں 1305 ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد سرزمینِ عرب سے تعلق رکھتے
تھے۔ پیشے سے حکیم تھے اور شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ کشن گنج اور گرد و نواح میں اردو
زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کھگڑا میلہ میں مشاعرے کی بنیاد
ڈالی۔ 1940میں منعقد ہونے والے میلہ مشاعرہ کی روداد ’ تحفۂ احسان ‘
(تذکرہ و تاریخ شعرائے پورنیہ ) کے نام سے شائع کیا جس میں اس زمانے کے 28 شعرائِ
کرام کا تفصیلی تذکرہ اور ؎
نمونۂ کلام موجود
ہے ؎
نہ کردے مجھ کو بھی
خانہ خراب میلے کا
بہار میلے کی، رنگِ
شباب میلے کا
سنا ہے حضرتِ دانا
بھی پیتے کھاتے ہیں
شراب میلے کی، شامی
کباب میلے کا
(15) مولانا عیسی' فرتاب، پیدائش
بدھیسری رام پور حالیہ ضلع ارریہ میں محمد موسیٰ کے گھر 2 فروری 1911 کو ہوئی
تھی۔ فارغ دیوبند اور مولانا حسین احمد مدنی کے مرید تھے۔ نظم کے شاعر تھے اور کلام
پر اقبال کا گہرا رنگ تھا۔ غزلیں بھی خوب کہتے تھے۔ فارسی کلام کا مجموعہ ’ بوستاں
برائے دوستاں‘ 1958میں شائع ہوا تھا۔ اردو
شاعری کے دو مجموعے بالترتیب ’ ارمغانِ سخن‘
1932اور ’ رنگ و بو‘ 1940 میں منظرعام
پر آئے ؎
ہے سراپا نالہ بن جانے
کی تجھ کو آرزو
نقش تیرے دل میں ہے
اقبال کی تلقین کا
(16) مولانا یوسف رشیدی ہری پوری ، مولانا کی شہرت کی اصل وجہ یوں تو ان کی ’احسن التواریخ‘ یعنی تاریخ پورنیہ نامی کتاب ہے جو 1938میں شائع
ہوئی تھی جسے پورنیہ کی تاریخ کے حوالے سے مستند کتاب گردانا جاتا ہے۔ وہ شاعر بھی
اعلی’درجے کے تھے‘ خصوصاً نعت گوئی میں ملکہ
حاصل تھا ؎
فروغ شمع روئے مصطفی
سے ہے جہاں روشن
سمک روشن، سماؤ روشن،
زمیں روشن، زباں روشن
(17) قاضی نجم ہری پوری (پ: 1901-ر: 1949 )
اصل نام قاضی نجم الدین
احمد تھا۔ نجم اور رسوا تخلص تھا۔ پیشہ کاشتکاری اور درس و تدریس تھا۔ حافظ حامد حسین
علوی، اعظم گڑھ سے بیعت حاصل تھی۔ فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے لیکن 1938سے باقاعدہ
اردو شاعری کی جانب بھی توجہ کی۔ ان کے پڑپوتے محمد رضوان ندوی نے ان کا کلام ’ ارمغانِ
قاضی نجم ہری پوری ‘ 2013 اور ’غنچۂ عشق ‘
2019میں ترتیب دے کر شائع کیا
؎
آدمی وہ کیا جو تجھ
پر جان سے مائل نہ ہو
دل وہ کیا جو خنجرِ
غم کا ترے گھائل نہ ہو
(18) قاضی جلال ہری پوری ( پ: 1921- ر: 1997) قاضی
نجم ہری پوری کے بھتیجے تھے۔ پیشہ درس و تدریس تھا۔ سولہ سترہ سال کی عمر سے شعر گوئی
کا آغاز ہوا۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں نظمیں اور غزلیں کہا کرتے تھے۔ ان کے
کلام کو بھی ترتیب دے کر محمد رضوان ندوی نے شائع کیا ہے ’کلامِ قاضی جلال ہری پوری
‘ 2008 اور ’باقیاتِ قاضی جلال ہری پوری‘ 2017 میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں ؎
ہیں میرے ناشاد دل
میں سیکڑوں ارماں بھرے
دل کو اپنے دل کہوں
یا شوق کی دنیا کہوں
(19) ظہورالحسن حسن ( پ: 1899- ر: 1975 ) کمل داہا،
ارریہ کے زمیندار خاندان سے تعلق تھا۔ پیشے سے مختار تھے۔ 1923 سے شعر گوئی کی ابتدا
کی۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند زبیرالحسن غافل ایڈیشنل سیشن جج نے آپ کا مجموعۂ
نظم و غزل ’صحرا بھی سمندر بھی ‘ 2013 میں شائع کیا ؎
میں کھیلتا ہوں گود میں موجوں کے رات دن
منت کشِ کنارۂ ساحل نہیں ہوا
(20) مولوی عبد الوحید ثاقب نعمانی ( پ : 1919-ر
: 1989) جوگندر، ارریہ کے رہنے والے تھے۔ پیشہ کاشتکاری اور درس و تدریس تھا۔ اس کے
علاوہ ماہر فنِ کتابت اور خطاطی بھی تھے۔ اوائل عمری سے نظمیں اور غزلیں کہنے لگے تھے۔
اقبال سے متاثر تھے۔ 1970 میں مجموعۂ کلام ’ رختِ سفر‘ شائع کیا۔ ان کے انتقال کے بعد 1983 میں ان کے صاحبزادے
طارق بن ثاقب نے اسے دوبارہ شائع کیا
؎
نہیں میں خوگرِ منزل
ازل سے ہوں آزاد
سفر میں زندگی اپنی
گزار دی میں نے
(21) مظہرالقیوم مظہر ( پ : 1912، ر : 2008 ) کمل
داہا، ارریہ کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ 1950سے رسل ہائی اسکول، بہادر گنج میں معلم رہے۔ دوران ملازمت پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی
زبان میں ایم اے کیا۔ ابتدائی عمر سے شعر گوئی کا شوق تھا۔ منشی نور محمد سہسرامی ان
کے استاد تھے۔ تقریباً تمام اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی لیکن نظموں کے کامیاب شاعر
تھے۔ 2003 میں مجموعۂ کلام ’خیمۂ گل‘
زیور طباعت سے آراستہ ہوا
؎
یہ ہر موسم میں پھلتی
پھولتی ہے
محبت کا کوئی موسم
نہیں ہے
(22) وفا ملک پوری ( پ : 1922- ر : 2003 ) اصل نام
سید عباس حسین تھا۔ ملک پور، دربھنگہ میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ سے فاضل کی سند حاصل کی
اور پورنیہ سٹی مڈل اسکول میں ہیڈ مولوی بحال ہوئے۔ 1952میں پورنیہ سے ’ صبح نو ‘ رسالہ
شائع کیا جسے 59 سے پٹنہ سے شائع کرنے لگے۔ آخری دور پورنیہ میں گزرا
اور یہیں دفن ہوئے۔ غزل گو شاعر تھے اور آواز میں ترنم تھا۔ اکثر آل انڈیا مشاعروں
میں شرکت رہتی تھی۔ ’شاہراہِ وفا ‘ اعزا نظموں
کا مجموعہ ہے۔ شعری مجموعہ ’ حرفِ وفا ‘
1988 میں شائع ہوا ؎
یہ سچ ہے وفا نام ہمارا
ہے عزیزو
یہ سچ ہے کہ تقصیرِ
وفا ہم سے ہوئی ہے
اسی دور میں منشی مراد
حسین یتیم کھپراوی، تمنا دلشاد پوری، مشتاق دلشاد پوری، اشہد اللہ اشہد، سید عظیم الدین
احمد عظیم مونگیری، مہتر علی صبا، سید ابوالقاسم اختر، حکیم سید آغا علی احقر، محبوب
الرحمن محبوب، محبوب الرحمن کامل پناسوی (اکمل یزدانی ) وغیرہ نے سیمانچل کی اردو شاعری میں نمایاں کارنامے
انجام دیے۔
(ج) مذکورہ دور کے آخر میں شمس بمن گرامی
(جلتے خیموں کی چیخ )، شمس جمال ( سپنوں کا سمندر
( 2005 )، شمس جلیلی ( مکاں سے لامکاں تک 2010، شاہنامۂ سیمانچل 2018 )، حکیم
مظفر حسین بلگرامی، احمد حسین قیصر پورنیوی، مولوی الیاس احمد صدیقی الیاس، حکیم بشیر
احمد بشیر، مولوی محمد اسمٰعیل ندیم، حافظ مظفر حسین مظفر، پروفیسر طارق جمیلی (جذبِ
دروں 2009)، صبا اکرام (کراچی)، کبیر الدین فوزان ( گلگشت خیالات، زیر اشاعت )، قطب شاہین، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن
دانش ( پیکرِ سخن 2011)، زبیرالحسن غافل (
اجنبی شہر2006 )، نظام صدیقی، پروفیسر محمد رضا، شاہ اکرام الحق اکرم، اسمٰعیل کنول،
ظہورالحق مضطر، ریاست حسین صابر گیاروی، طہٰ خاموش وغیرہ ایسی قابلِ قدر شخصیات ہیں
جنھوں نے سیمانچل میں اردو شاعری کی آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
(د) 1970 کے بعد کا دور، اس
دور میں حازم حسّان (سبز پیڑوں کے سائے
2014، نغمۂ سروش 2014، اشعاعِ
آیاتِ کریمہ 2020 )، شاذ رحمانی ( شعور کی ردا 2003 )، احمد ندیم مورسنڈوی ( آئینۂ
سخن 2015، آئینۂ صداقت 2018 )، افتخار راز مورسنڈوی ( تحفۂ عالم (2016)، پروفیسر اصغر راز فاطمی ( وا نہیں ہے کوئی
در 2018 )، مشتاق احمد نوری، رضی احمد تنہا،
رہبان علی راکیش، دین رضا اختر ( پھر وہی برسات کی شام، زیر اشاعت)، مشتاق انجم، حامد
حسین حامی، فرمان علی فرمان، ہارون رشید غافل، مسیح الدین شازی، ارشد انور الف، نیلوفر
پروین، ڈاکٹر فرحت آرا، مجیب قاسمی ( نغمۂ بہار 2009، خمارِ سخن 2017 )، ایس ایچ معصوم ( خوشبو کولاژ، زیر اشاعت )، حشمت صدیقی ( اندازِ گفتگو 2022 )،
بیگانہ سارنوی ( گلہائے رنگ بہ رنگ 2022 )، سنجے کمار کندن (بے چینیاں 2022)، پروفیسر
انور ایرج، پروفیسر عبدالطیف حیدری، ممتاز نیّر، عادل بیگناوی، غلام محمد یحییٰ، ظہیر
انور، امام مظہر (حادثوں کے درمیاں ، زیر اشاعت)، قمر ادریسی ( وقت کی گونج 2018 )،
خضر نندنوی، سبطین پروانہ ( دردِ نہاں 2020 ) اور احسان قاسمی ( دشتِ جنوں طلب
2020 ) وغیرہ سیمانچل کی اردو شاعری کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
( ح ) نئی نسل،
سیمانچل کی نئی نسل میں مستحسن عزم ( ہموار نہیں کچھ بھی 2021 )، ڈاکٹر قسیم
اختر، جہانگیر نایاب ( ہوا کے خلاف 2020 )، ڈاکٹر خالد مبشر، شاہنواز بابل، مبین اختر
امنگ ( وقت کے ساتھ 2022 )، موصوف سرور، نجم السحر ثاقب، حسان کشن گنجوی، آفتاب اظہر
صدیقی، ڈاکٹر زاہدالحق، قیصر خالد، حسین احمد
ہمدم ، عبدالغنی لبیب، عبدالباری زخمی، خورشید قمر ، عنایت وصی، سلیم صدیقی عرف شوق
پورنوی، عبیدالرحمن، خورشید انجم، رضوان ندوی، افقر پورنوی، احمد صادق سعیدی، صدام
حسین نازاں،
شاداب وفا پورنوی،
ابراہیم سجاد تیمی، نورالدین ثانی ( عکسِ ثانی 2021 )، عذیق الرحمن صارم، ظفر شیرشاہ
آبادی، قیصر جمیل، ثاقب کلیم، حسن راہی، عامر قاسمی، نظیر اظہر کٹیہاری، نثار دیناج
پوری ( الہام ہوا ہے 2021 )، محسن نواز محسن دیناج پوری، شہباز مظلوم پردیسی، جاوید
سلطان وغیرہ ایسے نام ہیں جن سے سیمانچل کی
کافی امیدیں وابستہ ہیں۔
شعری مجموعوں کے علاوہ
حمد و نعت پر مشتمل چھوٹے بڑے کئی مجموعے منظرعام پر آ چکے ہیں۔ اسی طرح کئی مثنویاں
اور مرثیوں کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان پر الگ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمانچل میں شعر وسخن
کی شمع روشن کرنے والوں میں غیر سیمانچلی شعراکو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ایسی قابلِ
قدر شخصیات میں درد محمد آبادی، عنایت الرحمٰن عنایت ( ڈسٹرکٹ جج )، رمن پرشاد سنہا
رمن، رفیق انجم، پروفیسر ڈاکٹر عبدالمنان طرزی، شفیع مشہدی، صبا نقوی، عبد الحمید غم،
شاہد جمیل، ابھے کمار بیباک، پروفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر، ڈاکٹر اقبال واجد وغیرہم کے
نام نامی شامل ہیں۔
سیمانچل میں اردو شاعری
کے فروغ میں کئی تنظیموں نے نہایت فعال کردار ادا کیا ہے۔ بزمِ ادب کشن گنج جو کافی
پرانا ادارہ ہے ایک زمانے میں اس کی کافی شہرت تھی۔ کھگڑا میلہ مشاعرے کی بھی روایت
تھی جس میں قدیم پورنیہ ضلع کے اور باہر کے بھی شعرائِ کرام ہر سال بڑھ چڑھ کر حصہ
لیا کرتے تھے۔
انجمن ترقی اردو، کشن
گنج کے ذریعے 1934 میں ’ارمغانِ اتفاق‘ اور 1940 میں ’تحفۂ احسان ‘ یعنی شعرائے کشن گنج کی مختصر تاریخ اور
نمونۂ کلام حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی کی ادارت میں شائع کیا گیا تھا۔
پورنیہ شہر میں پورنیہ
اردو سوسائٹی، پورنیہ کی داغ بیل 1960 میں
پروفیسر طارق جمیلی اور جناب صبا اکرام نے ڈالی۔ یہ ادارہ اب تک قائم اور فعال ہے۔
ارریہ میں بزمِ جدید
کے زیر اہتمام ہر سال مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ ’ ہم سب ‘ اور ’رابطہ‘ کے ذریعے
بھی مشاعروں کا اہتمام اور رسائل کی اشاعت کا کام انجام دیا گیا ہے۔
فاربس گنج میں’گلشنِ
ادب‘ کے زیراہتمام مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ برسوں سے قائم ہے۔
کٹیہار میں ’ سخن
‘ کے زیرِ اہتمام ماہانہ مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں اکثر پورنیہ اور دیگر
شہروں کے شعراء کرام کی بھی شرکت ہوتی رہتی ہے۔
اسلام پور اور گوال
پوکھر میں نثار دیناج پوری اور محسن نواز محسن دیناج پوری کی قیادت میں مختلف تنظیموں
کے بینر تلے بھی اکثر و بیشتر مشاعروں / آل انڈیا مشاعروں کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔
اس خطے میں شعر و سخن
کے فروغ میں مقامی طور پر شائع ہونے والے رسائل و اخبارات کا بھی کافی اہم رول رہا
ہے۔ طلبا پورنیہ، الاحسان کشن گنج، انسان کشن گنج، ساحل کشن گنج، ماہنامہ جام کشن گنج
، نہار کشن گنج، پیامِ سحر کشن گنج، فانوسِ ادب کشن گنج، ہمارا پرچم کشن گنج، صبح نو
پورنیہ / پٹنہ، قافلہ پورنیہ، افکار پورنیہ، نشانِ منزل پورنیہ، فانوس کٹیہار، غالب
کٹیہار، عکس ارریہ، ابجد ارریہ ہفت رنگ ارریہ، بصارت بہادر گنج، وجدان گوال پوکھر،
نوائے بنگال گوال پوکھر ( اتر دیناج پور ) وغیرہ۔
خلاصہ یہ ہے کہ سیمانچل میں اردو شاعری کی جڑیں فوجداروں کے دور حکومت سے گہرائی کے ساتھ پیوست رہی ہیں اور شعر و سخن کا یہ شجر آج بھی بار آور ہو رہا ہے۔ ہم اسے ایک مختصر دبستان یعنی ’ دبستانِ سیمانچل‘ کے نام سے بھی موسوم کر سکتے ہیں۔
Md. Ehsanul Islam
Noorie Nagar, Khazanchi Hat
Purnea- 854301 (Bihar)
Mob.: 9304397482
Email.: ehsanulislam1955@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں