7/12/23

رسالہ فیض میر: میر کی فسانہ طرازی اور سلوک و معرفت کی دنیا: محمد حنیف خان

 

میر شاعری کے خدائے سخن ہیں اس میں کوئی کلام نہیں لیکن وہ اعلی درجے کے نثر نگار بھی تھے،اگرچہ انھوں نے شاعری کی طرح ریختہ میں نثر نگاری نہیں کی،اس کے لیے انھوںنے فارسی کا انتخاب کیا،نکات الشعرا، ذکر میر اور فیض میر ان سے یادگار ہیں۔یہاں’فیض میر‘ سے متعلق گفتگو مقصود ہے۔یہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میں پانچ حکایتیں بیان کی گئی ہیں۔میر نے یہ رسالہ اپنے بیٹے فیض علی فیض کی تربیت کے لیے لکھا تھا۔جس کے چند سطری مقدمے میں اس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’درایں ایام فیض علی پسر من ذوق خواندن ترسل پیدا کردہ بود،لذا حکایات خمسہ متضمن فوائد بسیار راباندک فرصت نگاشتم و مراعات اسم او نمودہ نام نسخہ ’فیض میر گذاشتم‘‘ ہر کہ ایں حکایات بخواند،غالب کہ در رنج و سختی نماند‘‘

(میر تقی میر۔فیض میر مرتبہ سید مسعود حسن رضوی ادیب، ص 44،نسیم بک ڈپو لکھنؤ، سنہ درج نہیں)

یعنی ان ہی ایام میں میرے بیٹے فیض علی کو ترسل پڑھنے کا شوق پیدا ہوا(ترسل نوع بنوع کے خط کو کہتے ہیں)اس لیے حکایات خمسہ لکھی جس کے بہت سے فوائد ہیں،بیٹے کے نام کی مناسبت سے اس رسالے کا نام فیض میر رکھا،جو بھی یہ حکایات پڑھے گا  غالب امید ہے کہ اس کے رنج و غم دور ہو جائیں گے۔

فیض میر‘ کا مطالعہ سلوک و معرفت کے تناظر میں کیا گیا ہے،تحریر کا انداز ایسا ہے جیسے آپ بیتی ہو لیکن صفدر آہ سیتاپوری اپنی کتاب ’میر اور میریات ‘میں لکھتے ہیں:

یہ پانچوں کہانیاں انھوں نے ’جگ بیتی‘ کی صورت میں سنی ہوں گی جس کو زیادہ پر اثر بنانے کے لیے ’آپ بیتی‘ کی ٹکنک میں لکھ دیا۔یعنی بصورت موجودہ میر خود ان کہانیوں کے واقعات کے عینی شاہد بن گئے ہیں۔‘‘

(صفدر آہ سیتا پوری: میر اور میریات،ص200علوی بک ڈپو ممبئی، 1972)

میر نے یہ قصے کہاں سنے اور کس سے سنے،ان کا ماخذ کیا ہے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی ہے،چونکہ میر نے حقیقی مقامات کا ذکر کرتے ہوئے راوی واحد متکلم کا استعمال کیا ہے،اس لیے ان حکایات کو سچ مان کر ان کی قرأت کی گئی ہے،البتہ واقعات کی حقیقت پر سوالات بھی اٹھائے گئے لیکن واقعات کے حقیقی اور فرضی ہونے سے قطع نظر اگر مذکورہ حکایات یعنی کہانیوں کے تفکیری بیانیے اور اس کی تکنیک پر غور کیا جائے تو کئی باتیں نکل کرسامنے آتی ہیں۔جہاں تک مسئلہ تکنیک کا ہے تو اس باب میں میر تقی میر پہلے شخص ہیں جنھوں نے حکایات یعنی کہانیوں میں راوی واحد متکلم کا استعمال کیا ہے۔یہ اردو افسانے کا وہ راوی ہے جو ہمہ داں نہیں اور نہ ہی وہ ہر جگہ موجود ہوتا ہے بلکہ یہ ایک ذمے دار راوی ہوتا ہے جس پر صدق و کذب کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کہانیوں کے حوالے سے میر پر صدق اور کذب دونوں  چسپاں کیے گئے۔اگر انھوں نے واحد متکلم کی جگہ راوی واحد غائب کا استعمال کیا ہوتا تو وہ اس سے بچ جاتے لیکن میر ذرا الگ ڈھب کے تھے، انھوں نے حکایات نویسی میں بھی اپنے لیے نئی راہ نکالی اور ایسا انداز اختیار کیا کہ قصے کے باوجود اس پر سچ کا احتمال ہونے لگا۔یہ معاملہ بھی مرزا ہادی رسوا کے امراؤ جان ادا کی طرح ہے۔ وہاں بھی تخلیق کار نے واحد متکلم کا استعمال کرکے قارئین کو شک میں ڈال دیاہے۔تمکین کاظمی نے اس پر لکھے اپنے مقدمے میں صدق اور کذب دونوں صورتوں میں تخلیق کار کی بڑائی کا اعتراف کیا ہے کہ اگر کہانی سچ ہے تو اس کو ناول بنادینا ایک بڑی فنکاری ہے اوریہ حقیقی نہیں ہے اور ایک فرضی قصے کو ایسے بیان کرنا کہ لوگ اس کے کردار کا پتہ پوچھنے پہنچ جائیں تو یہ اور بڑی فنکاری ہے۔یہی معاملہ میر تقی میر کے ساتھ ہے۔ حکایات خمسہ میں سے ابتدائی چار حکایات کا ایسا رنگ ہے جنھیں عقل حقیقی تسلیم نہیں کرتی البتہ پانچویں حکایت ایسی ضرور ہے جسے حقیقی تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے کرداروں کی تشفی بخش تحقیق اب تک نہیں ہوسکی ہے اس لیے وہ بھی شک کے ہی دائرے میں ہے۔

میر نے اپنی حکایات کے لیے دور جدید کے افسانوں کی طرح کردار خلق کیے ہیں،آخری حکایت کو چھوڑ کر دیگر سبھی چار حکایتوں میں کرداروںکی بھی بہتات نہیں ہے۔ پہلی کہانی میں شاہ ساہا اور ایک تیلن مرکزی کردار ہیں جس میںمتعدد ضمنی کردار بھی ہیں جن میں حشرات الارض بھی شامل ہیں۔اس حکایت کا راوی صرف ایک راوی نہیں بلکہ کردار بھی ہے،جو جگہ جگہ نہ صرف اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے بلکہ اپنے جذبات کا بھی اظہار کرتا ہے۔مثلا شاہ ساہا نے بھوک کے عالم میں راوی سے جو کی روٹی کھانے کی خواہش کا اظہار کیا،دیر رات وہ اپنے گھر گیا لیکن اس وقت تک سب سوچکے تھے،ایک بوڑھی خادمہ جاگ رہی تھی جس سے روٹی پکوائی،جس نے جز بز ہوکر روٹی پکائی جب راوی یہ روٹی لے کر شاہ ساہا کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ یہ روٹی کسی انسان کے کھانے کے لائق نہیں کیونکہ اس پر ایک کتیا بھونکی ہے،اسے لے جاؤ اور کتوں کے آگے ڈال دو۔راوی بیان کرتا ہے :

غرض اس نے وہ روٹی کسی طرح نہ کھائی اور مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔

اس طرح راوی کہانی میں بار بار دخل دیتا ہے اور شاہ ساہا کی کرامات بیان کرکے اس کی عظمت کا سکہ قاری کے دل میں بٹھانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔یہیں سے شاہ ساہا کی معتقد ایک بوڑھی تیلن کا داخلہ ہوتا ہے جس کے یہاں سے وہ اکثر روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر کھا لیتا تھا اور پانی پی لیتا تھا۔ایک بار اس فقیر پر حالت طاری ہوئی تو اس کے جسم کے جوڑ جوڑ الگ ہوگئے اور سر ہوا میں معلق ہوگیاجسے دیکھ کر بڑھیا نے چیخ وپکار مچادی اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو کسی نے شاہ ساہا کو قتل کر ڈالا،اس کے شور سے وہ اپنی اصلی حالت پر آگئے،جس کے بعد انھوں نے یہ کہتے ہوئے بد دعا دی کہ جس نے میرا راز فاش کیا ہے اس کا لڑکا آج رات ہی قتل ہوجائے،وہ خود ذلت کی موت مرے،ناگہاں آگ لگ جائے،میرا نشان نہ رہے۔ آبادی ویرانہ ہوجائے،ایک سانپ کا ادھر سے گذر ہو، آدمی تباہ ہو اور گھر سیاہ ہو جائیں،یہ محلہ بہہ جائے، یہاں ایک چڑیا تک دکھائی نہ دے۔یہاں سے کہانی میں دلچسپی بڑھتی ہے جو دھیرے دھیرے بڑھتی ہی جاتی ہے،کہانی میں دلچسپی اس قدر ہے کہ قاری تخلیق کار کے ساتھ انگلی پکڑ کر چلنے لگتا ہے۔ابتدا میں تو لگتا ہے کہ راوی کوئی بہت عام واقعہ بیان کر رہا ہے لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے وہ دلچسپ ہوتی جاتی ہے۔شاہ ساہا کے منھ سے جو بھی نکلتا ہے جس کا بیان اوپر ہوا وہ سب ہوتا ہے جسے میر نے اس حکایت میں دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔میر راوی واحد متکلم کے طور پر اس درویش کے قول کی صداقت کا عینی مشاہدہ کرنے کے لیے ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ بڑھیا کا بیٹا اسی رات ڈاکؤوں کے ہاتھ قتل ہوا،وہ گھر میں آگ لگا کر سب مال و اسباب لوٹ لے گئے،رات اس قدر بارش ہوئی کہ مکان تک بہہ گئے،بڑھیاکو کالے سانپ نے ڈسا جسے کالی آندھی کی طرح بڑھیا کی جانب جاتے ہوئے خود میر نے بطور راوی دیکھا،درویش ساہا نے راوی سے بتایا کہ وہ سانپ آج رات مجھے بھی کاٹے گا اور ایسا ہی ہوا لیکن طرفہ تماشا یہ کہ ان سب کے باوجود راوی زندہ ہے۔ایسے میں اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ یہ حکایات ہی ہیں جنھیں میر نے زبان و بیان کی چاشنی اور افسانوی حیلے بازی کے ساتھ بیان کرکے انھیں دلچسپ بنا دیا۔اردو فکشن کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے،جتنی عمر اردو فکشن کی ہے کم و بیش اتنے ہی برس پہلے یہ رسالہ لکھا گیا، اس کے باوجود اگر ان حکایتوں کا مطالعہ جدید فکشن کے تناظر میں کیا جائے تو اس کے بہت سے عناصر ان میں ملتے ہیں۔ابتدا میں افسانہ کے لیے پلاٹ لازمی تھا لیکن چونکہ فن نامیاتی ہوتا ہے اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں رہی،اس تناظر میں اگر ان حکایات کا مطالعہ کیا جائے تو دونوں صورتیں ان میں دکھائی دیتی ہیں۔پہلی حکایت کا ابتدائی حصہ پلاٹ سے خالی ہے جبکہ کہانی میں تیلن کے داخلے کے بعد ایک مربوط پلاٹ نظر آتا ہے، واقعات کی فنی ترتیب ہے،وقوعے ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔اسی طرح سے دوسری کہانیاں بھی ہیں جن میں کچھ وقوعے پلاٹ پر مبنی ہیں تو کچھ فرداً فرداً بیان کیے گئے اور سب مل کر ایک حکایت /کہانی کی تکمیل کرتے ہیں۔

دوسری حکایت میں میر نے اکبر آباد کے ایک محلہ ممتاز گنج کی کہانی بیان کی ہے،جس میں ایک بزرگ کو دیوانہ سمجھ کر لوگ ڈھیلے مارنے لگتے ہیں،وہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ اگر ان ڈھیلوں سے ہمیں کوئی گزند پہنچی تو پورا محلہ جل کر خاک ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا۔یہاں بھی راوی واحد متکلم ہی ہے جو ایک شعلے کو اٹھتے ہوئے اور بازار کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔جس نے پورے بازار کو جلا کر خاکسترکردیا۔اس میں صدق و کذب کو میر نے مدغم کردیا ہے،اکبر آباد حقیقت ہے،لیکن واقعات خارق عادت ہیں کہ انھیں عقل درست ماننے کو کسی صورت تیار نہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک فقیر احسن اللہ ہے جس کا لقب رام تھا۔اس میں میر نے ہندو میتھا لوجی کا بھی بڑی چابکدستی سے استعمال کیا ہے،جس سے کہانی کے انسلاکات اور معنوی امکانات کی دنیا واقع ہوجاتی ہے اور میر کی فکرپر بھی روشنی پڑتی ہے۔

متعدد وقوعوں سے یہ کہانی تکمیل کو پہنچتی ہے جس میں ایک خوبصورت،خوش رنگ عورت شوخ وشنگ چھینٹ سازوں کے قبیلے کی صبح و شام دریا پر پانی بھرنے آیا کرتی تھی جس پر ایک عالم فریفتہ تھا۔ایک دن وہ مٹی کا گھڑا کندھے پر رکھے بڑے ناز و انداز سے فقیر کے سامنے سے گزری،فقیر نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا اے دل و دین کو غارت کرنے والی،اس قدر گمراہی۔جا رام رام کہا کر یہ سنتے ہی اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے،منھ پر خاک ملی اور رام رام کہتی ہوئی ادھر ادھر دوڑنے لگی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ عورت مثنوی سحر البیان کی نجم النسا ہے جو جوگن بن کر بے نظیر کی تلاش کے لیے نکل جاتی ہے۔لیکن یہاں فرق اتنا ہے کہ اس پر جنون طاری ہوجاتا ہے اور چند دنوں میں موت کے بے رحم ہاتھوں کا شکار ہوجاتی ہے۔

احسن اللہ کالقب رام اور عورت کو رام رام کی تلقین کہانی کا صرف وقوعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت میر کی ذہنیت،بقائے باہم،صلح کل اور ہندستانی معاشرت ہے،جس میں مذہب کی دیواریں نہیں تھیں،طالب متعدد ہوسکتے تھے مگر ان سب کا مطلوب ایک تھا،راہیں جدا ہوسکتی تھیں مگر منزل سب کی ایک تھی۔جب بھی سلوک و معرفت کی بات ہوتی ہے تو اس کے مرکز میں وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا نظریہ ہوتا ہے۔’فیض میر‘ کا مطالعہ بھی سلوک و معرفت کے تناظر میں ہی کیا گیا ہے لیکن جس طرح سے میر نے ہندو مذہبیات کا یہاں استعمال کیا ہے اور لفظ ’رام‘ کے اثرات بیان کیے ہیں،وہ اس ادغام و انضمام کے ساتھ کسی دوسری کتاب میں نہیں بیان کیے گئے ہیں۔میر کہہ بھی چکے ہیں          ؎

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہوان نے تو

قشقہ کھینچا،دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا

چوتھی حکایت میں ایک مجذوب فقیر اسد دیوانہ اور جوگی کے درمیان گفتگو بڑی اہم ہے۔جس میں بعث بعد الموت اور حشر کا بیان کیا گیا ہے۔اس میں ’آواگون‘ یعنی حلول روح کا انکار ایک ہندو جوگی کے ذریعہ کیا گیا ہے۔در اصل اس کا تعلق سلوک ومعرفت سے کہیں زیادہ عقیدے سے ہے۔اس پوری حکایت میں بعث بعد الموت کو موضوع بنایا گیا ہے،جس میں وہ انسان اور روح کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ہندو جوگی کہتا ہے :

’’روح انسانی بذات خود قدیم ہے اور موت کے معنی روح کا معدوم ہونا نہیں،بلکہ قالب سے اس کے تعلق کا قطع ہوجانا ہے،بعث و حشر کے معنی یہ نہیں کہ روح کو وہی قالب ملے گاقالب ایک سواری سے زیادہ نہیں۔‘‘

چونکہ میر نے یہ رسالہ اپنے بیٹے فیض علی فیض کی تربیت کے لیے لکھا تھا،جس میں سلوک و معرفت کے مضامین بیان کیے،واقعات اور اس کے تفکیری بیانیے کے ذریعے میر نے اس میں انسان کے عدم و وجود، روح، بہشت و دوزخ کی حقیقت  مکالمے کی صورت میںبیان کی ہے۔

وہ اپنے بیٹے کی تربیت ایک ایسے انداز میں کرنا چاہتے تھے جس سے وہ للہیت اور انسانیت سے متصف ہوجائے، وجود و عدم کی حقیقت سے آگاہ ہوجائے جس کے لیے وہ صرف اسلامی تعلیمات اور سلوک کے قائل نہیں تھے، وہ ہندستان میں رہتے تھے،جہاں کے غالب مذہب کی عقیدت سے بھی ان کا دل لبریز تھا جس کی جانب انھوں نے رہنمائی کی ہے۔

 اسی طرح وہ ماقبل تاریخ کے واقعات سے بھی کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہیں،تیسری حکایت میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس کا مرکزی کردار ایک درویش شاہ برہان ہے،راوی نے اس میں بزرگ کی زبانی مصر میں خشک سالی کا واقعہ بیان کیا ہے،جب لوگوں نے اس کی شکایت کی تو ذوالنون کو باطنی توجہات سے معلوم ہوا کہ ایک سورنی نے جنگل میں بچے دیے ہیں، بارش کی صورت میں ان کی جانوں کے اتلاف کا خطرہ ہے اس لیے بارش نہیں ہورہی،جب لوگ ان بچوں کی حفاظت کے لیے دوڑے تو بارش ہوئی،اس طرح کے واقعات کے ذریعے میرنے اپنی حکایتوں کی معنوی دنیاکے امکانات کو وسیع تر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔میر فسانہ طرازی کے گر سے خوب آگاہ تھے جنھوں نے فنی حیلے بازیوں کے توسط سے اپنی حکایات کو دلچسپ بنادیا۔

 

Mohd Haneef Khan

Dept of Urdu, Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 9359989581

Email.: haneef5758@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...