13/5/24

میر تقی میر ایک تذکرہ شناس تذکرہ نویس شاعر (بہ حوالہ نکات الشعرا): محمد رضا اظہری

 

اردو دنیا، فروری 2024

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جس طرح اپنی زندگی کے حقائق کو دوسروں تک منتقل کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اسی طرح دوسروں کی روداد حیات سے بھی آشنا ہونا چاہتا ہے ۔مختلف افراد کے ذکر کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اظہار کو پسند کرتا ہے۔ اسے اس با ت کی بھی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اسلاف کے کارناموں سے آشنا ہو۔ تذکرہ وہ ذریعہ ہے جو فن کاروں کی حیات و کارگزاریوں سے ہمیں آشنا کرتا ہے۔

دنیا میں نہ جانے کیسی کیسی شخصیات پیدا ہوتی ہیں اور اپنے کارنامے چھوڑ جاتی ہیں۔ زمانے کا طوفان ان کو بھی بہا لے جاتا ہے اور کبھی دبیز گرد ڈال دیتا ہے۔ ایسی صورت میں تذکرے انھیں اپنے دامن میں پناہ دیتے ہیں اور عظیم شخصیتوں کی عظمت کے راز سے واقف کرانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیںبہ الفاظ دیگر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تذکرہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو علم و فن کے مختلف خزانوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے بلکہ اہم شخصیتوں کے کارناموں کو یادگار زمانہ بنادیتا ہے۔ تذکرے کی اسی افادیت کی بناپر اسے ادب میں ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر منصور عالم تذکرہ نگاری ایک کمپوزٹ آرٹ ہے،اس سے علم و ادب کے کئی سرچشمہ پھوٹتے ہیںلسانیات، عمرانیات، تاریخ ادب، تنقید و تحقیق، سوانح، خاکہ جیسے اصناف سخن کے علاوہ مختلف ادوار کی مختلف النوع تحریکات نیز دوسرے پہلو بھی اس سے ملحق ہیں۔ میر تقی میر جیسے عظیم المرتبت شاعر کا ’’تذکرہ ٔ نکات الشعرا‘ بھی اردو ادب میں جام ِ جم کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اردو تذکرہ نگاری کی روایت اور اس کے آغاز کا مشاہدہ ہوسکتا ہے اور یہ کہ میر نے کس طرح بغیر کسی نمونے کے اس پائے کا تذکرہ تصنیف کیا ہے جو بذات خود ان کی شاعری سے ہٹ کر ان کے علوّ درجا ت کے لیے کافی ہے۔

ملک الشعرا،امام المتغزلین،خدائے سخن میر تقی میر 1723 کو آگرہ میں پید اہوئے ۔ان کا اصلی نام میر محمد تقی اور تخلص میر تھا۔ ان کے والد محمد علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ میر کے والد نہایت درویش صفت انسان تھے۔ میر ابھی گیارہ ہی برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ بڑے بھائی کی بے مروتی کی وجہ سے میر اکبر آباد سے دہلی چلے گئے۔ کافی عرصے تک مختلف رئیسوں اور نوابوں کے یہاں ملازمت کرنے کے بعد لکھنؤ پہنچے۔ یہاں نواب آصف الدولہ کے ملازم ہوئے اور یہیں 89 برس کی عمر میں 1810 کو میر اپنے حقیقی رب سے جاملے۔ یہ دور ٹوٹتی ہوئی قدروں کا دور تھا،غیر مستحکم روایتوں کا دور تھا۔ ایک طرف ہند میں فارسی ادب اپنی تمام تر حلاوتوں اور غنائیوں کے باوجود مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ روبہ زوال تھا تو دوسری طرف اردو شاعری کا بحر بے کراں دنیائے شعر و ادب کو اپنی گرفت میںلینے کے لیے اپنی بانہیں پسارے دنیا و مافیہا سے بے خبر تخیلات کی دنیا میں میر  کا منتظر تھا کہ کہیں سے میر آئے اور گیسوئے اردو سنوار جائے،ہر ذی روح گویا میر سے یہ چاہتا تھا کہ        ؎

سنوار نوک پلک ابرؤں کو خم کردے 

گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے

اور پھر یہی ہوا،میر ردائے غم اٹھائے مزاج شاہانہ سکندری اور گداگرانہ قلندری کے ساتھ عاشقانہ،رندانہ اور صوفیانہ غزل کے تخت طاؤس پر براجمان ہوئے اور اردو شاعری کو ایک نئی دَشا،دِشا اور سمت ملی۔مولوی عبد الحق کہتے ہیں کہ ’’میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں،ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی شیرازی کا کلام فارسی میں ۔اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور شامل ہوگا۔‘‘

میر کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہر دور میں کیا گیا ہے۔ کلام میر کی معنویت آج بھی تسلیم کی جارہی ہے۔یہ بات سچ ہے کہ بزم کا فن کارر زم میں شاہکار نہیں دیکھا سکتا اور رزم کا سپاہی بزم میں اپنے کمالات کا فن منصہ ظہور تک بہم نہیں پہنچا سکتا مگر میر کے لیے اس اصطلاح کی تعبیر حقیقت سے تعبیر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ جہاں وہ شعر و شاعری میں یکتائے روزگار ہیں بعینہٖ اس طرح نثری میدان میں بھی یکہ تاز نظر آتے ہیں ۔اگرمیر کی شخصیت کے آفتاب کی کرنوںمیں شاعری اور غزل سے پرے ہوکر دیکھا جائے تو اس سرچشمۂ صلاحیت سے نظم کی شعاعوں کے مماثل اور ہم پلہ نثر کی شعائیں بھی پھوٹتی نظر آتی ہیں۔میر صاحب نے نثر میں تین کتابیں تصنیف کی ہیں:  فیض میر،  ذکر میر،  تذکرہ نکات الشعرا

یہ تینوں کتابیں اس زمانے کے رواج کے مطابق فارسی میں تصنیف ہوئی تھیں۔’فیض میر‘پانچ حکایتیں ہیں جن میں اللہ والوں کے حالات اور کرامات بیان کیے گئے ہیں اور ان کی آنکھوں دیکھی باتیں لکھی ہیں۔ دوسری کتاب ’ذکر میر‘ ہے۔ دریائے عشق کی طرح اس کا بھی ذکر تذکروں میں نہیں ہے ۔صرف اسپرنگر نے اپنی فہرست میں ذکر کیا ہے۔ ’ذکر میر‘میر کی خودنوشت سوانح عمری ہے اور اس سے میر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم اور یادگار وزندہ جاوید کارنامہ ’تذکرہ نکات الشعرا‘ ہے۔ ان کے تنقیدی شعور کی عکاسی نکات الشعرا میں ہوتی ہے۔ سورت (گجرات ) کے ایک ذی علم اور نامور شاعر میر عبد الولی عزلت دہلی آئے تھے اور میر تقی میر کی اپنی شہاد ت کے مطابق یہ تصنیف انھیں کی فرمائش پر لکھی گئی تھی۔ میر صاحب نے اپنے تذکرے کے سنہ تالیف کے متعلق کہیں کوئی صراحت نہیں کی۔ البتہ آنندرام مخلص کے حال میں یہ فقرہ ان کے قلم سے ایسا نکل گیا جس سے اس کی نسبت قیاس قائم ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’قریب یک سال است کہ درگذشت ‘‘یعنی جس وقت یہ تذکرہ زیر تالیف تھا اس وقت مخلص کے انتقال کو ایک سال ہوچکا تھا ۔مخلص کا سنہ وفات 1164 ھ ہے،لہٰذا یہ قیاس بالکل بجا ہے کہ اس کا سنہ تالیف 1165 ھ ہے۔یہ تذکرہ عہد احمد شاہ میں لکھا گیا ۔

 انیسویں صدی عیسوی میں تذکرہ نویسی کے فن کو بہت فروغ حاصل ہوگیا تھا اور شعر و سخن اور ادبی مجلسوں کے عام ذوق و شو ق نے بھی ادب کی اس شاخ کو بہت تیزی دے دی تھی ۔میر صاحب نے اپنے پیش لفظ میں دعوی کیا ہے کہ نکات الشعرا اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ہے۔  ملاحظہ ہو: ’’پوشیدہ نماند کہ در فن ریختہ کہ شعری ست بہ طور شعر فارسی بہ زبان اردوئے معلی شاہ جہان آباد دہلی،کتابی تا حال تصنیف نشدہ کہ احوال شاعران این بہ صفحۂ روزگار بماند۔ بنائً علیہ این تذکر ہ کہ مسمی بہ ’ نکات الشعرا ‘ است نگاشتہ می شود‘‘ بعدکی تحقیق کے مطابق ان کا دعوی حق بہ جانب قرار دیا گیا،گو وہی زمانہ ہے کہ جب مخزن نکات مولفہ قائم چاند پوری، تذکرہ ریختہ گویان مولفہ سید فتح علی حسینی گردیزی اور گلشن گفتار مولفہ حمید اورنگ آبادی یہ تمام تذکرے لکھے جارہے تھے مگر سب سے پہلے تکمیل کو پہونچنے والا تذکرہ ’نکات الشعرا ‘ہی ہے۔ یہ تذکرہ لکھتے ہوئے میر صاحب کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہیں تھا فارسی شعرا کے تذکرے البتہ وجود میں آچکے تھے مگر میر صاحب کی اختراعی طبیعت نے نکات الشعرا کا بیش بہا تحفہ اردو دنیا کو پیش کیا اور اس کو علم پروری کے نئے اسلو ب سے آشنا کیا۔

نکات الشعرا میں بلا شبہ فارسی تذکروں کی تقلید کی گئی ہے ۔اس میں شعر ا کے کلام اور سیرت پر مختصر فقرے لکھے گئے ہیں لیکن یہ بیانات اس قدر جامع،اس قدر موزوں ہیں اور اتنی صحیح رائیں پیش کی ہیں کہ ذوق اور سخن شناسی کے ساتھ ساتھ میر کے استادانہ کمال کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔ نکات الشعرا کی انھیں خصوصیات نے اس عہد کے تنقیدی ذوق کی تربیت میںبہت مدد دی اور آنے والے تذکروں پر ایک گہرا نقش چھوڑا ہے۔ ہماری تنقید بھی اپنی تہذیبی اور تاریخی بنیادوں سے بیگانہ نہیں ہے۔ اس میں بھی وہی انسانی اور سماجی تصویر موجود ہے جو ہماری زندگی میں کارفرما تھی، اس میں ان ہی تہذیبی قدروں پر زور دیا گیا ہے جو اس وقت ہمیں عزیز تھیں۔ اس زوال آمادہ ماحول میں ہمیں معنی و مواد کے مقابلے میں صورت و ہیئت، حرکت اور تبدیلی کے بجائے جمود اور آسودگی اور واقعیت اور اصلیت کے بجائے آرائش و تکلف ہی عزیز ہوسکتا تھا۔ تنقید ایک سماجی عمل ہے اس لیے میر تقی میر کا تذکرہ نکات الشعرا بھی اپنے عہد کے عمومی رجحانات کا پابند ہے لیکن میر کی ادبی شخصیت اتنی بلند تھی کہ ا نھوں نے شعر و ادب کی تمام مروجہ روایتوں کو الہامی سمجھ کر قبول نہیں کیا بلکہ ان پر تنقیدی نظر ڈالی،بعض کو قبول کرلیا،بعض سے رشتہ توڑلیا اور بعض بالکل نئی روایتیں قائم کیں۔ یہ اجتہاد بغیر ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور کے ممکن نہیں ہے۔ بہرحال یہ تذکرہ ایک ایسے شاعر کے قلم کا نتیجہ ہے جس نے غزل کی تقدیر بدل دی ۔

میر کی تنقیدوں پر سخت اعتراضات ہوئے ہیں۔ ان کی تنقید کو خردہ گیری،عیب چینی اور ہنر پوشی سب کچھ کہا گیا ہے۔ ان معترضین میں خاص طور پر قابل ذکر فتح علی گردیزی (صاحب تذکرہ ریختہ گویاں)، حکیم قدر ت اللہ قاسم (صاحب مجموعہ نغز) شفیق اورنگ آبادی (صاحب چمنستان شعرا) مولوی کریم الدین (صاحب طبقات الشعرا) اور مولوی محمد حسین آزاد (صاحب آب حیات) ہیں ۔میر کی تنقید میں ان کی سیرت پورے طور پر جلوہ گر ہے ۔دوسروں کی سیرت سے بحث کرتے ہیں لیکن خود ان کے بھی خلوت کدۂ ذات کا حجاب اٹھ گیا ہے اور دوسرے شاعروں کے جوہر پرکھنے میں خود ان کے جوہر بھی درخشاں ہوگئے ہیں۔ میر میں تنقیدی قوت بدرجۂ اتم موجود ہے اور اس کا اظہار بھی وہ بڑی بے باکی اور بے دردی سے کرتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کے لب و لہجے میں تلخی اور ترشی ہے اور اس نے ہمدردی کے اس عنصر کو نقصان پہنچایا ہے جو اچھی تنقید کا لازمی جزو ہے، لیکن بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ تذکرہ میر کی امتیازی خصوصیت اس کی یہی تلخ تنقید ہے۔ وہ اندھی و بہری عقیدت جو قدیم مشرقی اخلاق کا ایک جزو ہے اور وہ عام رواداری جو اکثر حالات میں ہیرو کے معائب بیان کرنے سے روکتی ہے نکات الشعرا سے عموماً مفقود ہے ۔نکات الشعرا متنازعہ فیہ کتاب رہی ہے۔ میر نے اس میں دو ٹوک باتیں بھی کہی ہیں۔ اپنے زمانے کے شعرا کی تنقید بھی کی ہے۔ ان کے اشعار میں ترمیمیں اور اصلاحیں بھی کی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تنقیدوں میں ذاتی عناصر بھی کارفرماہوں گے جن کی نشاندہی تحقیق نگاروں نے کی ہے اس کو بہتر بنادیا ہے بلکہ آسمان پر پہنچا دیا ہے، محرک بھلے ہی ذاتی پرخاش ہو مگر ان کا فرمانا البتہ مستند ہوا ہے اور کسی نے بعد میں اس کو مسترد نہیں کیا ہے ۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تنقید ایک سماجی عمل ہے تو اس سے سماجی حالات بھی واضح ہوسکتے ہیں۔ تذکرہ ٔ نکات الشعرا میں میر کی تنقیدوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ:

1                    اس زمانے میں ہندو اور مسلمان میں بڑا اتحاد اور میل جول تھا اور بعض شعرا قید مذہب وملت سے آزاد تھے ۔

2                    اہل قلم اہل سیف بھی تھے اور سخن فہمی اور شمشیر شناسی میں تضاد نہیں تھا۔

3                    درویشی اور شاعری دوش بدوش چلتی تھی۔

4                    زمانے پر ایک انحطاطی رنگ چھایا ہوا تھا اس لیے بعض شعرا ہزل کی طرف مائل تھے۔

5                    مشاعرے معاشرے کا جزو لاینفک بن گئے تھے اور ان کی حیثیت ادبی جلسے کی ہی نہیں تھی،تنقیدی ادارے کی بھی تھی۔

6                    سلطنت مغلیہ کے زوال کے ساتھ فارسی بھی زوال پذیر تھی اور اس کی خاکستر اردو کے لیے سامان وجود بن گئی تھی ۔

یہ سماجی حالات اس جگہ ہمارے دائرہ بحث سے خارج ہیں ۔

عربی اور فارسی کے مروج اصول تنقید کو مد نظر رکھتے ہوئے نکات الشعرا میں ربط کلام،خوش فکری، تلاش لفظِ تازہ، صفائیِ گفتگو، ایجاد مضامین، تہہ داری،درد مندی اور طرز خاص کے اصولوں پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ نکات الشعرا کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ میر تقی میر نے ضروری نہیں سمجھا کہ شاعروں کے حالات زندگی اور خاص گوشوں کو اجاگر کیا جائے۔ اگر کہیں کوئی ذکر ہے بھی تو تسلی بخش نہیں ہے۔ تصویر کو مکمل کرنے یا معمہ کو حل کرنے کے لیے محقق کو دیگر ذرائع سے مدد لینی پڑتی ہے، لیکن یہ ہلکے اشارے بھی بڑے دلچسپ اور گتھیاں سلجھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔نکات الشعرا میں تقریباً 30 شاعروں کے ذکر میں صرف ان کے نام اور تخلص کے ساتھ اشعار نقل کردیے گئے ہیں۔ 64 شاعروں کے حالات میں میر نے ان کی شعری تخلیقات کے حسن و قبح سے متعلق کوئی بحث نہیں اٹھائی ہے، لیکن دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کہیں کہیں سیرت و شخصیت کی ایسی دلکش تصویریں کھینچی گئی ہیں کہ اختصار کے باوجود یہ زندگی سے بھرپور جیتی جاگتی اور جاذبِ نظر معلوم ہوتی ہے ۔

مطبوعہ نسخوں کے مطابق نکات الشعرا 103  ریختہ گو شاعروں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ میر نے یہ تذکرہ بڑی روا روی میں لکھا۔ان کے سامنے شعرا کی ترتیب کا کوئی اصول نہیں تھا۔ انھوں نے شعرا کی تقسیم نہ تو طبقات کے لحاظ سے کی اور نہ ان کا ذکر حروف تہجی یا حروف ابجد کی ترتیب سے کیا۔ تذکرے کا آغاز شمالی ہند کے شاعروں کے ذکر سے ہوتا ہے اور دیباچے میں اس کی وضاحت بھی کردی ہے:

’’اگر چہ ریختہ در دکن است،چون از آن جا یک شاعر مربو ط برنخاستہ لہٰذا شروع بہ نام آن ھا نکردہ و طبع ناقص مصروف این ھم نیست کہ احوال اکثر آن ھا ملال اندوز گردد، مگر بعضی از آن ھا  نوشتہ خواھد شد۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امیدکہ بہ دست ہر صاحب سخنی بیاید بہ نظر شفقت بگشاید۔‘‘

 ڈاکٹر محمود الٰہی کا قیاس ہے کہ:

 ’’شعرائے دکن والے حصہ کی بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے۔ یہ حصہ عبدالولی عزلت کا رہین منت معلوم ہوتا ہے۔ عزلت 1164 ھ کے وسط میں دہلی آئے ۔  ان کی ملاقات میر سے بھی ہوئی ۔میرنے ان کی بیاض سے بھر پور استفادہ کیا۔ جوں ہی میر کو عزلت کی بیاض ملی ہوگی انھوں نے اس کی مدد سے اپنے تذکرے میں شعرائے دکن کا حصہ شامل کرلیا اور پھر شمالی ہند کے باقی شعرا کا ذکر مکمل کرلیا۔‘‘ تذکرے کا آغاز امیر خسرو دہلوی سے ہوتا ہے اور میرزا عبد القادر بیدل دہلوی، رائے آنندرام، ولی اورنگ آبادی(دکنی)،سید عبد الولی عزلت، سراج اورنگ آبادی،لالہ ٹیک چند بہار  جیسے نامی شعرا کے ذکر سے ہوتے ہوئے میر عزت اللہ یکدل  کے احوال پر اختتام پذیر  ہوتا ہے البتہ اس کے بعد حسن خاتمہ شاعر کا خود اپنا نہایت مختصر تعارف مگر طویل اشعار سے ہوتا ہے ۔اعجاب کی بات تو یہ ہے کہ میر نے اردو (ریختہ) شعرا کے حالات بیان کرنے کے لیے فارسی زبان اختیار کی ہے اور اردو اور فارسی زبان پریکساں عبور کا مسلم ثبوت دیا ہے ۔فارسی زبان کا انتخاب کرنا اس زبان کی افادیت، عام و سہل پسند اور رائج زبان ہونے پر دلالت کرتی ہے مگر بات یہ بھی تو ہے کہ جس شاعر کو اردو غزل کا شہنشاہ کہا جا تا ہے اگر وہ اس تذکرے کو اردو میں لکھتا تو پھر کیا عالم ہوتا!مگر پھر بھی اس باغ کی سیر کرتے ہوئے ’ماتشتھیہ الانفس و تلذ الاعین‘ کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نکات الشعرا کی اہمیت کئی طرح سے ہے۔ اول تو یہ اردو شعرا کا پہلا تذکرہ ہے اس لیے اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ دوم یہ تذکرہ میر تقی میر نے لکھا جو خود ایک عظیم شاعر ہیں۔ سوم اس میں ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کے بڑے شگفتہ اور نایاب و کامیاب خاکے ہیں اور ان کے بہترین اشعار ہیں۔ چہارم اس میں اردو شاعری کی تنقید کے اولین خدو خال نظر آئے ہیں۔ اس زمانے کے تنقیدی پیمانے ہیں جواب گم ہوگئے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کو کلاسیکی کسوٹیوں کے ساتھ اگر پڑھا جائے تو شاید سخن فہمی کا حق زیادہ اد ا ہوگا اور کیا خبر ان پیمانوں کی آج بھی ضرورت ہو،اس لیے ان کو سامنے آنا چاہیے۔ پنجم یہ کہ میر کے تنقیدی پیمانے جان کر ہم ان کی شاعری کا بہتر شعور کرسکتے ہیں۔

منابع و مآخذ

1                      اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاریڈاکٹر فرمان فتح پوری :ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان1998

2                      اردو تذکرہ نگاری 1835 کے بعدڈاکٹر نیاز سلطان پوری : ناشر ڈاکٹر نیاز سلطان پوری،دسمبر 1998

3                      تذکرہ نکات الشعرامیر تقی میر :مرتبہ ڈاکٹر عبد الحق،ناشر انجمن ترقی پاکستان،1979

4                      تذکرہ نکات الشعرامیر تقی میر:مترجم حمیدہ خاتون،ناشر حمید ہ خاتون،1994

5                      مجموعہ مقالہ جاتایک روزہ قومی سمینار ’اکیسویں صدی میں کلام میر تقی میر کی معنویت‘،ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2014

6                      محمد تقی میر ؛ڈاکٹر جمیل جالبی :ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1990

7                      تذکرہ نکات الشعرامیر تقی میرمرتبہ ڈاکٹر محمود الٰہی، ناشر اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1984

8                      میر تقی میر حیات اور شاعریپروفیسر خواجہ احمد فاروقی،ناشر انجمن ترقی اردو(ہند)،نئی دہلی،2015

9                      بہار میں تذکرہ نگاریڈاکٹر منصور عالم :وی آرٹس پریس، سلطان گنج پٹنہ،مارچ 1980

 

Mohd Reza Azhari

Research Scholar, Dept of Persian

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 7985371677

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فاصلاتی تعلیم آج کی ضرورت، مضمون نگار: محمد فیروز عالم

  اردو دنیا،دسمبر 2024 فاصلاتی تعلیم، تعلیم کا ایک ایسا شعبہ ہے جو درس و تدریس، ٹکنالوجی، اور تدریسی نظام کی ساخت   پر توجہ مرکوز کرتا ہے او...