اردو دنیا، فروری 2024
سنیما ایک عوامی ذریعہ ابلاغ ہے جس کا حلقہ وسیع سے وسیع تر اور جس کا اثر شدید و دیرپا ہے۔ اس میں ایک سادی سی چادر، روشنی اور سائے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، پھر بھی اس بے وقعت سے مثلت نے پوری دنیا کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ اس کی مقبولیت اور دلکشی پہلی نمائش سے عصر حاضر تک جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ وقت نے نہ جانے کتنے تہذیبی و ثقافتی وسیلوں کو زیر و زبر کیا لیکن سنیما کی دلکشی اور مقبولیت کا دائرہ دریائے ناپید اکنار کے مانند برقرار ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی قصہ یا واقعہ صرف پڑھا یا سنا ہی نہیں جاتا بلکہ وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھا بھی جاتا ہے اور دیکھا ہوا سنے یا پڑھے ہوئے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
سنیما ایک ایسا ذریعہ ترسیل ہے جو تصویر اور آواز کے ذریعے ترسیل کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ میڈیا دیکھنے اور سننے کا میڈیم ہے۔ کہانی فلم میں بھی ہوتی ہے اور ناول میں بھی، ناول کو پڑھ کر کہانی کی تفہیم ہوتی ہے لیکن فلم کو پڑھا نہیں جا سکتا اس کی تفہیم صرف دیکھ کر اور سن کر ہوتی ہے۔
سنیما میں بنیادی مسئلہ تصویروں کے حرکت کرنے کا تھا۔ پردے پر حرکت ہوتی تصویریں قطعاً حرکت نہیں کرتی ہیں ، یہ فریب نظر ہے کہ وہ حرکت کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ رنگین، کالی یا سفید (ٹرانسپیرنٹ) فلم کی پٹی پر ساکت تصویروں کا سلسلہ ہوتا ہے۔ ہر تصویر میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے یعنی ایک تصویر میں ہاتھ آگے بڑھا ہوا ہے تو دوسری تصویر میں تھوڑا اور آگے بڑھا ہوا ہے۔ یہ تکنیک اگلی تمام تصویروں میں برقرار رہتی ہے۔ پروجیکٹر ایک کے بعد دوسری تصویر کو چوبیس تصویر فی سکینڈ (جسے ایک فریم کہا جاتا ہے) کی رفتار سے پردے پر پھینکتا ہے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ تصویریں حرکت کر رہی ہیں۔
فلم کا کیمرہ فلم کی ایک لمبی پٹی پر فی سکینڈ چوبیس تصویریں اتارتا ہے۔ ہر فریم پر تصویر اترنے کے بعد فلم کی لمبی پٹی اپنے آپ کھلتی رہتی ہے چونکہ فلم کا کیمرہ اسی رفتار سے منظرکشی کرتا ہے جس رفتار سے پروجیکٹر چلتا ہے۔ اس لیے تصویر کا سلسلہ یکساں رفتار سے ظاہر اور غائب ہوتا رہتا ہے۔ یہ رفتار کافی تیز ہوتی ہے اسی لیے تصویر متحرک نظر آتی ہے۔ حقیقی تصویر ایک ڈاک ٹکٹ سے ذرا بڑی ہوتی ہے۔ مگر جب ان کا عکس پردے پر پھینکا جاتا ہے تو یہ کئی سو گنا بڑی نظر آنے لگتی ہے۔ ان تصویروں کا عکس دکھانے کے لیے سنیما آپریٹر کے کیبن سے روشنی کی ایک طاقتور شعاع پردے پر پھینکی جاتی ہے۔
تصویر متحرک ہوجانے کے بعد دوسرا مسئلہ آواز کا تھا۔ ابتدا میں متحرک فلمیں خاموش ہوا کرتی تھیں۔ نیچے ان کے ٹائٹل لکھے ہوئے آ جاتے تھے۔ چند سازوں پر مشتمل آرکسٹرا دھنیں بجاتا رہتا تھا۔ لیکن صحیح معنوں میں فلمیں فردوس گوش اس وقت بنیں جب آواز کو فلم میں فوٹوگرافی کی شکل میں ہی ریکارڈ کیا جانے لگا اور یہ اس وقت ممکن ہوا جب فلم کی پٹی کے بائیں کنارے ساؤنڈ ٹریک بھی پرنٹ ہونے لگا۔
تصویر کے متحرک ہوجانے اور آواز کو اس میں داخل کر دینے سے ہی فلم مکمل نہیں ہوجاتی بلکہ اسے مکمل کرنے کے لیے بہت سے پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے جیسے اسکرپٹ لکھنا، مکالمے لکھنا، اداکاری، ڈائریکشن، ساؤنڈ ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ وغیرہ۔ اس میں سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے اسکرپٹ نگاری کا۔ فلم یا ٹیلی ویژن کے لیے جو بھی پروگرام بنایا جاتا ہے خواہ وہ تیس سکینڈ کا ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے پہلے اسکرپٹ تیار کی جاتی ہے۔ بغیر اسکرپٹ کے کوئی بھی پروگرام آگے کے مرحلے سے نہیں گزر سکتا۔ لہٰذا اسکرپٹ کسی پروگرام کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے اسکرپٹ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سنیما داستان گو کی طرح ہزاروں لوگوں کو کہانی سنانے کا جدید ترین طریقہ ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے کسی کہانی کار کو کہانی سوچنی پڑتی ہے۔ پھر کہانی کار پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کو کہانی سناتا ہے جو اسے فلمانے کے امکانات پر غور کرتے ہیں اور خاص طور سے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا یہ کہانی ناظرین کو پسند آئے گی۔ اگر وہ کہانی فلمانے پر راضی ہوجاتے ہیں تو کہانی کار اسکرپٹ تیار کرنا شروع کرتا ہے۔ اسکرپٹ اسکرین پلے کی شکل میں لکھی جاتی ہے۔ اسکرین پلے کی ہیئت ڈرامے کی سی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اسٹیج کی نہیں بلکہ پردۂ سیمیں کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کر لکھا جاتا ہے یعنی مناظر کے تسلسل کو ذہن میں رکھا جاتا ہے۔
اسکرپٹ لکھنے سے پہلے اسکرپٹ نگار کو اپنے موضوع پر ریسرچ کر لینا چاہیے۔ ریسرچ کے ذریعے اسکرپٹ سے متعلق بنیادی معلومات اکٹھا کی جاتی ہیں۔ اچھی طرح ریسرچ کر لینے کے بعد اسکرپٹ لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ تخلیقیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے لطف حاصل ہوتا ہے۔ بغیر ریسرچ کے اسکرپٹ لکھنا اکثر ذہن پر بار ہو جاتا ہے۔ جلد اکتاہٹ ہونے لگتی ہے اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک فرحت بخش تخلیقی عمل ہونے کے بجائے ایک پریشان کن مرحلہ ہوجاتا ہے۔ ان تمام چیزوں سے بچنے کے لیے ریسرچ کے دوران دو قسم کی معلومات اکٹھا کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پروگرام کو کس طرح ترتیب دیں۔ دوسرے موضوع کے بارے میں مکمل معلومات۔
کسی منصوبے یا تجویز کو آگے بڑھانے سے پہلے اسکرپٹ نگار کے ذہن میں یہ بات صاف رہنی چاہیے کہ پرنٹ میڈیا اور ویژول میڈیا میں بنیادی فرق ہوتا ہے اور یہ فرق بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہنا مختلف ہے دکھانے سے۔ جب آپ کچھ کہتے یا لکھتے ہیں تو الفاظ کے ذریعے موضوع کی صراحت کرتے ہیں اس میں ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن میں وہی تصور پیدا کرے جو آپ ترسیل کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اس طریقہ کار میں الفاظ کا استعمال فن کارانہ طریقے سے کیا جاتا ہے جو پڑھنے یا سننے والے کے تخیل کو متحرک کر دیں۔ لیکن جب اسکرپٹ نگار فلم یا ٹیلی ویژن کے لیے کچھ لکھتا ہے تو کہنے پر کم توجہ دیتا ہے بہ نسبت دکھانے کے۔ گو کہ یہاں بھی الفاظ کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ لیکن یہ اہمیت فنی کے بجائے تکنیکی ہوتی ہے۔ یہاں پیغام کی ترسیل آواز اور تصویر سے ہوتی ہے مگر پڑھنے والے کو نہیں بلکہ دیکھنے والے کو۔ یہاں اسکرپٹ نگار کے سامنے یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ کون سے الفاظ استعمال کرے بلکہ اس کے سامنے یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی تصویر تخلیق کرے۔ چنانچہ اسکرپٹ نگار کو چاہیے کہ وہ جو منصوبہ تیار کر رہا ہے پہلے اسے متحرک تصویروں کے ذریعے اپنے دماغ میں ترتیب دے۔ بلکہ اسے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے کہنے کے بجائے دکھانے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔
اسکرپٹ نگار کو مکالمے اور بیانیہ لکھنے میں بھی مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ گو کہ ٹیلی ویژن اور فلم میں مکالمے اور بیانیہ کی اولین اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ ان میں اکثر اجسام کو پیش کر دینا کافی ہوتا ہے۔ انھیں بیان نہ بھی کیا جائے تو صورت حال مکمل ہوجاتی ہے اور پلاٹ آگے بڑھ جاتا ہے۔ پھر بھی مکالمے اور بیانیے کے بغیر کسی منصوبے کا مکمل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بیانیے اور مکالمے کے خوبصورت الفاظ اور الفاظ کی بہترین ترتیب سے پیدا ہوئی غنائیت پھر انھیں ادا کرنے میں آواز کا زیروبم، لہجے کی شیرینی اور گداز کسی منصوبے یا تجویز کو مؤثر اور پرکشش بناتے ہیں۔ یہ کرداروں کی شخصیت کو استحکام بخشتے ہیں۔ الفاظ کرداروں کے اندر زندگی پیدا کرتے اور انھیں متحرک بناتے ہیں۔ الفاظ ہی سے کسی رول میں اصلیت و واقعیت پیدا ہوتی ہے۔
اسکرپٹ مکمل ہوجانے کے بعد اسکرپٹ نگار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ضرورت پڑنے پر اسے بلا لیا جاتا ہے۔ اب یہاں سے ڈائریکٹر کا کام شروع ہوتا ہے اور ساری توجہ اسکرپٹ پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہیں ڈائریکٹر اور پروڈیوسر وغیرہ مل کر وہ سارے انتظامات کرتے اور ان تمام ساز و سامان کا بندوبست کرتے ہیں جو شوٹنگ کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہیں پورے پروڈکشن کا طریقہ کار اور پروگرام طے ہوتا ہے۔ اسکرپٹ میں جتنے کردار ہوتے ہیں اسی لحاظ سے ان کا انتخاب اور ان سے معاہدہ ہوتا ہے۔ اسکرپٹ میں دیے گئے مقامات یا سین کی مناسبت سے مقام کا انتخاب کر کے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے کہ کیا وہ پروڈکشن کی ضروریات کے لیے مناسب ہیں۔ کیا یہاں پروڈکشن میں استعمال ہونے والے آلات کو استعمال کیا جا سکے گا اور پروڈکشن ٹیم کی ذاتی ضروریات کی چیزیں فراہم ہو سکیں گی۔ اگر اسکرپٹ کسی عالیشان سیٹ کی مانگ کرتی ہے تو تفصیلات کے مطابق اسے بنایا، سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ اسکرپٹ نگار جہاں جزئیات کو مکمل کرنے کی تاکید کر دیتا ہے وہاں صرفے اور وقت پر دھیان دیے بغیر جزئیات کو مکمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تمام تیاریاں مکمل کر لینے کے بعد شوٹنگ کا کام شروع ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ کم سے کم وقت میں شوٹنگ مکمل ہوجائے کیونکہ یہ بہت مہنگا اور گنجلک کام ہوتا ہے۔
شوٹنگ کے لیے عموماً تین سے سات لوگوں کے عملے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہوتے ہیں۔
1 ڈائریکٹر۔ اس شخص پر اسکرپٹ کو فلم، ویڈیو یا آڈیو ٹیپ پر منتقل کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے۔
2 اسسٹنٹ ڈائریکٹر۔ اس پر کام کا کافی بوجھ ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈائریکٹر کا دست راست ہوتا ہے۔
3 کیمرہ آپریٹر اور لائٹنگ ڈائریکٹر۔ یہ کیمرے کو استعمال کرتا اور روشنی کا انتظام کرتا ہے۔
4 ساؤنڈ انجینئر۔ یہ فرد آواز کو ریکارڈ کرنے کی ذمے داری نبھاتا ہے۔
5 گوفر۔ یہ لائٹ ڈائریکٹر کا پہلانائب ہوتا ہے۔
6 گِرپ۔ یہ عام لیبر اسسٹنٹ ہوتا ہے۔
7 پروڈکشن اسسٹنٹ۔ یہ پروگرام کا عام اسسٹنٹ ہوتا ہے جو عام انتظامات میں مدد کرتا ہے۔
اسکرپٹ کی شوٹنگ مکمل کرنے کے لیے ان لوگوں کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہت وقت صرف کرنا ہوتا ہے۔ فلم میں ڈائریکٹر کی حیثیت ایک جہاز کے کپتان کی سی ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جہاز کو کس سمت میں لے جانا ہے۔ عموماً ڈائریکٹر فلم کو اس سمت میں لے جاتا ہے جو اس نے فلم کے اسکرپٹ نگار کے مشورے سے طے کیا ہوتا ہے۔
شوٹنگ مکمل ہوجانے کے بعد ایڈیٹر کی باری آتی ہے۔وہ شوٹنگ کی ہوئی فلم کی ایڈیٹنگ کرتا ہے۔ایڈیٹنگ کا کام مرصع سازی سے کم نہیں۔ سونے کا ڈلا خواہ کتنا ہی قیمتی ہو نہ اس میں کوئی حسن ہوگا نہ اسے استعمال کیا جا سکے گا جب تک مرصع ساز اسے تراش خراش کر نگینوںکو جڑ کر اسے زیور کی شکل نہ دے دے۔ کچھ یہی صورت حال شوٹنگ کی ہوئی فلم یا ٹیپ کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر زائد چیزوں کوکاٹ چھانٹ کر الگ کرتا ہے۔ مختلف چیزوں کو جوڑ کر ربط و تسلسل پیدا کرتا ہے۔ کسی چیز کو ایک مقام سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھتا ہے۔ دو تین زاویے سے لیے گئے شاٹ کا موازانہ کر کے سب سے مناسب شاٹ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس طرح ایڈیٹر خام مال کو تیار مال میں تبدیل کرتا ہے۔ اس کے لیے ایڈیٹر اسکرپٹ کی اس ماسٹرکاپی کو اپنے ساتھ رکھتا ہے جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر یا پروڈکشن اسسٹنٹ نے نوٹ لکھے ہوتے ہیں۔ اگر فلم میں ڈائریکٹر کی حیثیت جہاز کے کپتان کی ہوتی ہے تو ایڈیٹر جہاز کا انجینئر ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پروجیکٹر اور کیمرہ وغیرہ سائنس دانوں نے ایجاد کیا۔ لیکن اس کو استعمال کرنے اور اس سے ایک نئے فن کو جنم دینے کا سہرا کچھ جدت پسند اور تیز قوت متخیلہ رکھنے والے پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں اور ٹکنیشینوںکے سرجاتا ہے۔
متحرک تصویریں سائنس دانوں کے لیے ایک کھلونا تھیں لیکن فن کاروں نے اپنی ذکاوت اور گہری بصیرت سے اسے تحریک دے کر عوام کے لیے الہام بنا دیا، کیونکہ ان کے ذریعے حقیقی زندگی کے خدوخال اور مناظر فطرت کے ہوبہو نقشے پیش کیے جانے لگے۔ جب سنیما نے پھلنا پھولنا شروع کیا اس وقت تھیٹر خصوصاً یورپی تھیٹر اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کو اسٹیج پر پیش کر رہا تھا۔ فلم کا مقابلہ کرنے کے لیے تھیٹر والوں نے بہت ہاتھ پیر مارا، اسٹیج پر پورا پورا جہاز بنا دیا، بازار لگا دیے، مختلف قسم کی دکانیں سجا دیں لیکن وہ فلم کے ایک کلوز اپ کا جواب پیش نہ کر سکے مثلاً موت کی سزاکامنظر تھیٹر میں صاف طور پر پیش نہیںکیاجاسکتا۔ مقتل میں مجرم کا سرجلاد کے سامنے جھکا دیا جاتا اور پردہ گر جاتا۔ لیکن فلم میں ایسا نہیں ہوتا۔ سر نیچے ہوا، جلاد کی تلوار چمکی اور سر لڑھکتا ہوا دور جا پڑا۔ فلم کی اسی ساحرانہ پیش کش اور فریب حقیقت نے عوام پر جادو کر دیا اور وہ اس کے دیوانے ہو گئے۔
ابتدامیں تصویر ساکت سے متحرک ہوئی تو یہی بہت بڑا عجوبہ تھا۔ ابتدائی فلموں میں نہ کوئی واقعہ ہوتا تھا نہ کہانی، لیکن یہی دیکھنے کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے تھے کہ ریل پردے پر کیسے دوڑرہی ہے۔ ہر چیز کا فطری عمل کیسے ہو رہا ہے۔ متکلم فلموں کی ابتدا ہونے پرجب ہرچیز اپنے فطری عمل کے ساتھ ساتھ فطری آوازیں بھی نکالنے لگی، ریل سیٹی بجانے ، جہاز گڑگڑانے اور انسان ہنسنے، رونے اور چیخنے چلانے لگا تو تعجب اور مسرت کی انتہا نہ رہی۔
سوال یہ بھی ہے کہ فلم کے آغاز کی محرک کیا چیزیں ہیں۔ دراصل خوب سے خوب تر کی تلاش انسانی ذہن کا خاصہ ہے۔ یہی جذبہ تمام ایجادات کا محرک ہے۔ بہرحال سنیماکے آغاز کے محرک میں بھی خوب سے خوب تر کی تلاش کو بروئے کار لانے کا جذبہ، مالی فائدہ حاصل کرنے کی سعی، تفریح فراہم کرانا اور ترسیل کا ایک نیا ذریعہ حاصل کرنا شامل تھا۔
اس ضمن میں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ سنیما ایک ایسا ذریعہ ترسیل ہے جس میں اطلاعات، تفریحات اور ہدایات شامل ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ فلم بڑے پیمانے پر تفریح فراہم کرتی ہے لیکن تفریح تفریح میں یہ بہت سی اہم باتیں بھی ترسیل کر دیتی ہے۔ پھر سماج کوصحت مند تفریح فراہم کرنا بھی تو کچھ کم اہم نہیں۔
مزیدیہ کہ فلم تعلیم و تدریس کا بھی ذریعہ ہے۔ کسی نہ کسی قسم کی تعلیم ہر فلم سے ملتی ہے خواہ وہ مثبت ہو یا منفی، زیادہ تر تعلیمی فلموں کا مقصد ہوتا ہے پرسوئیڈ کرنا۔ فلم تہذیبی و ثقافتی تعلیم کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ پھریہ کہ فلم کسی شے کے حسن کو اس سے بھی بہتر انداز میں پیش کر سکتی ہے جیسی کہ حقیقتاً وہ ہے۔ جس کے لیے ہزاروں الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلم کیمرہ اسے ایک جھلک یا ایک شارٹ میں پیش کر دیتا ہے۔ کبھی کبھی فلم کیمرہ ہمیں وہ بھی دکھا دیتا ہے جس کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر رہتے ہیں، البتہ فلم کیمرہ ایک چیز نہیں دکھا سکتا کہ انسان کیا سوچ رہا ہے۔
ابتدا میں سنجیدہ فکر رکھنے والے کچھ نقادوں نے فلم کو آرٹ تسلیم ہی نہیں کیا۔ کسی فلم کو تیار کرنے کے لیے تین طاقتیں مل کر کام کرتی ہیں موجد، فن کار (ہدایت کار) اور سرمایہ دار۔ آپس میں ان کا تعلق روح اور جسم کا ہے۔ ان تینوں نے مل کر فلم کی صورت میں بیسویں صدی کے سب سے بڑے عوامی آرٹ کو جنم دیا۔ اگر عوام اس آرٹ اور اس کے تفریحی پہلو سے مطمئن نہ ہوتے تو یہ آرٹ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔
اس مسحور کن اور مقبول ترین ذریعہ ابلاغ کی ابتدا 28دسمبر 1895 کو لومیئر برادرس نے سنیما آٹو گرافے کے ذریعہ پیرس کے گرانٹ کیفے کے بیسمنٹ میں کی اور اس خوف سے کہ ان کی اس ایجاد کی ندرت ختم نہ ہوجائے۔ اس کوشش میں مصروف ان کے مد مقابل ایسی ہی کوئی چیز لے کر میدان میں نہ آ جائیں۔ انھوں نے جلد سے جلد دولت و شہرت حاصل کر لینے کا منصوبہ بنایا۔ لہٰذا پیرس کی نمائش کے فوراً بعد لومیئر برادرس نے ایجنٹوں کی ایک ٹیم سنیما آٹو گرافے کے ساتھ اہم ممالک کے مختلف مراکز میں نمائش کی غرض سے بھیجی۔ ان ایجنٹوں کو یہ سخت ہدایت تھی کہ وہ اس مشین کا راز کسی پر منکشف نہ کریں خواہ وہ بادشاہ ہو یا خوبصورت عورت۔
لومیئر کی ٹیم میں دو گروہ ہوتے تھے۔ ایک گروہ کیمرے کے ذریعے نمائش کے لیے نیا نیامواد تیار کرتا تھا، دوسرا گروہ سنیما آٹو گرافے کے ذریعے فلم کی نمائش کر کے دولت اکٹھا کرتا تھا۔ لومیئر برادرس کی ایسی ہی ایک ٹیم نے Felicien Trewey کی سربراہی میں (جو کہ لومیئر برادرس کا دوست تھا) 20فروری 1896 کو لندن میں اپنا شو کرنا شروع کیا۔ پہلے اس کا شو ایجین پالو تکنیک میں شروع ہوا پھر امپائر تھیٹر میں منتقل ہو گیا۔ لومیئر برادرس کی ایک اور ٹیم نے سنٹ پیٹر برگ میں اسی سال 17 مئی سے فلم دکھانا شروع کیا۔
ہندوستان میں بھی لومیئر برادرس کی ایک ٹیم نے 7جولائی 1896 کو بمبئی کے واٹسن ہوٹل کے ہال میں فلم دکھانے کی ابتدا کی لیکن 14جولائی سے ناولٹی تھیٹر میں منتقل ہو گئے۔ ناولٹی تھیٹر میں صرف تین دن کے شو کا اعلان ہوا تھا لیکن برسات کے باوجود تیرہ دن تک چلتا رہا۔ اس گروپ کے پاس چوبیس فلمیں تھیں جس میں ’دی سرپنٹ‘، ’ارائیول آف اے ٹرین‘، ’لندن گرل ڈانسر‘ اور ’واٹرنگ دی گارڈن‘شامل تھیں۔ ان ابتدائی فلموں میں صرف چند مناظر ہوا کرتے تھے۔
ہندوستان میں پہلے سے ہی پارسی تھیٹر کے توسط سے تجارتی تھیٹر کی مستحکم روایت قائم تھی۔ لہٰذا ہندوستانیوں کا ان فلموں سے متاثر ہوجانا فطری تھا۔ اس سلسلے میں سکھا رام بھاٹویڈکر کو سبقت حاصل ہے۔ وہ پہلے ہی سے فوٹوگرافی کے پیشے میں تھے۔ لومیئربرادرس کی فلموں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ لندن سے مووی کیمرہ و پروجیکٹر منگایا اور گھوم گھوم کر کھلی جگہوں پر باہر سے درآمد کی ہوئی فلموں کی نمائش کرنے لگے۔ انھوں نے اپنے کیمرے سے بمبئی کے ہینگنگ گارڈن کی ایک کشتی کے مقابلے کو فلمایا اور لندن بھیج کر اس کی پروسیسنگ کروائی۔ ان کا دوسرا موضوع سرکس کے بندروں کی ٹریننگ تھا۔ اس کے علاوہ آر۔پی پرانجپئے کیمبرج سے ریاضی میں امتیازی نمبر حاصل کر کے لوٹے تو ان کے استقبالیہ جشن کو بھی انھوں نے فلمایا۔ 1903 میں سکھا رام نے Edward VII کی تاج پوشی کی رسم کے جشن کو بھی فلمایا اور بہت شان و شوکت کے ساتھ پیش کیا۔ لہٰذا ان کا شمار پہلے راہ نما نمائش کرنے والوں میں ہونے لگا۔ ان کی کامیابی کے پیش نظر دوسرے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔ امریکہ اور یورپ سے آنے والے مشن فلم پروجیکٹر وغیرہ اپنے ساتھ لانے لگے اور باہر سے درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی بڑے پیمانے پر فلمیں بننے لگیں۔ مگر سنیماکی تاریخ لکھنے والے امریکن اور یورپین مصنفین نے ایشیا خصوصاً ہندوستان کو بری طرح نظرانداز کر دیا۔
اس اختصار کی تفصیل یہ ہے کہ Bradech and Brasillach نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف موشن پکچر‘ (1935) میں جاپانی سنیما پرچار اور ہندستانی سنیما پر صرف ایک پیراگراف لکھا۔ Rotha نے اپنی کتاب ’دی فلم ٹل ناؤ‘ (1930-1951) میں جاپان کو چار اور ہندستان کو صرف ایک پیراگراف دیا۔ Knight نے اپنی کتاب ’دی لائیولی اسٹارٹ‘ میں جاپان کو پانچ صفحے اور ہندستان کو دو جملے دیے۔ جبکہ ہندستان اس وقت پوری دنیا میں متحرک فلمیں بنانے میں دوسرے نمبر پر تھا۔ ’انڈین فلم‘ کے مصنفین نے اس کی فہرست اس طرح دی ہے
جاپان پورے سال میں 516
ہندستان ؍؍ 292
امریکہ ؍؍ 288
ہانگ کانگ ؍؍ 240
اٹلی ؍؍ 137
روس ؍؍ 130
فرانس ؍؍ 126
برطانیہ ؍؍ 121
لیکن جب ستیہ جیت رے اور آپراجیتو کی فلموں نے عالمی پیمانے کے بڑے بڑے ایوارڈ جیتے تو پھر کسی تاریخ نویس کے لیے ہندستان کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گیا۔
1947کے بعد ہندستانی سنیما مختلف قسم کے نشیب و فراز سے گزرتا رہا۔ کبھی ٹیکس کا بوجھ بڑھا، کبھی سینسر کا شکنجہ کسا مگر کوئی بھی چیز اس کی ترقی میں حائل نہ ہو سکی، آج بھی یہ عوامی تفریح کا مقبول ترین ذریعہ ہے۔
Prof. Mohd Shahid Husain
603/7, Shahjahanabad Apt.
Sector-11, Plot.: 1, Dwarika
New Delhi- 110075
Mob-9891673443
Email-mshusain.jnu@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں