13/5/24

اردو اور ہندوستانی سنیما: مضمون نگار شکیل احمد خان

 

اردو دنیا، فروری 2024


اردو،ہندوستان کے مزاج اور خمیر میں  شامل ہے۔ اردو اخوت و محبت کی زبان ہے اور اتحاد و اتفاق کی علامت بھی، وطن دوستی، وطن پرستی،مساوات ، رواداری اور قومی یکجہتی کی ضمانت بھی، اس کا ادب ، اس کی شاعری اسی کی ترجمان ہے۔اس  میں ہندوستان کی علمی و ادبی، سیاسی و سماجی، تہذیبی و تمدنی، معاشی و معاشرتی، اخلاقی و اقداری، اقتصادی و ثقافتی، مذہبی و ملّی، قومی و وطنی وغیرہ جیسے عناصر بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اردو زبان صرف فلموں میں ہی نہیں بلکہ الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پربھی پروان چڑھ رہی ہے۔ہندوستانی تاریخ میں ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا ،تقسیم وطن کا،لیکن اس فرقہ وارانہ تقسیم نے ہندوستانی سنیما اور اردو زبان کو بہت زیادہ متاثر نہیں کیا۔بلکہ اردو نے  تو اپنی ہندوستانیت کو ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، یہ زبان تو  ہندوستانی مشترکہ تہذیب و تمدن کے آب وگل کی خوشبو سے ہندوستانی فضا کو معطر کرتی ر ہیں۔ 

جہاں تک ہندوستانی سنیما کا تعلق ہے، سنیما نے ایسے وقت میں اپنا ارتقائی سفر شروع کیا جب اردو ہندوستان کی سب سے بڑی  زبان رہی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی سنیما کو پہلی کلامیہ فلم ’عالم آرا‘ کی ریلیز کے ساتھ اردو نے ہی بولنا سکھایا۔اس فلم سے پہلے کی  ہندوستانی سنیما کی تاریخ خاموش فلموں کی رہی ہے۔ ’عالم آرا‘ 1931میں ریلیز ہوئی یہ وہی دور تھا جب اردو ادب میں ترقی پسند رجحانات داخل ہورہے تھے اور یہی دور ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں جدید سنیما کا ارتقائی دور ماناجاتا ہے، ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں اسی دور میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک بھی شدت اختیار کررہی تھی۔ 1936  میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا، اردوکے بے شمار ادیب، شاعراوردانشور اس ادبی تحریک سے متاثر ہوئے۔یہی وہ وقت تھا جب مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لیے اپنی آزادی کی تحریک کو تیز تر کردیا،اور ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کا نعرہ دیا۔اور اسی کے ساتھ اردو کا ایک نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ نے پورے ہندوستانی ماحول کو گرم کردیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب ہندوستانی سنیما، تحریک آزادی اور ترقی پسند تحریک  دونوں سے ایک ہی وقت میں متاثر ہورہا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اور متاثر کہانی کار،نغمہ نگار ، فلمساز اور ہدایت کارفلم انڈسٹری سے اپنا تعلق جوڑتے جارہے تھے۔ ان میں سب سے اہم محبانِ اردو منشی پریم چند، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، ساحر لدھیانوی، راجندر سنگھ بیدی، وشوامترا عادل، مجروح سلطانپوری، جاں نثار اختر،نجم نقوی، راجہ مہدی علی خان، عصمت چغتائی، سردار جعفری، اختر الایمان، کیفی اعظمی،حسرت جے پوری، رامانند ساگر ضیا سرحدی  وغیرہ اور ایسے کتنے ہی اہم نام ہیں جو ہندوستانی فلموں سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ فلموں کے لیے اردو ادیبوں کے لکھے مکالمے نہ صرف بہت پر اثر ہواکرتے بلکہ اپنا دیرپا اثر چھوڑ جاتے، اور بعض اوقات تو ضرب المثل بن جاتے۔ مثلاً فلم پاکیزہ سے  ’’آپ کے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں انھیں زمین پر مت اتاریئے گا،میلے ہوجائیں گے۔‘‘ فلم وقت سے ’’جن کے گھر شیشوں کے ہوں ، وہ دوسروں پرپتھر نہیں پھینکا کرتے‘‘ وغیرہ اس طرح کے بے شمار اردو کے مکالمے آج بھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہیں اور یاد کیے جاتے ہیں۔یہی نہیں جب بھی ہندوستانی سنیما میں اردو ادب کا ذکر ہوگا ،فلمی نغمہ نگاری سے خالی نہ ہوگا، جس کے لیے ایک مستقل کتاب در کار ہے ،اگر مختصراً ذکر کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب سے وابستہ کئی بڑے شاعروں نے ہندوستانی فلموں کو بے حد معیاری اور مقبول ترین گیت دیے ہیں۔ ساحر لدھیانوی، مجروح سلطانپوری  ، جان نثار اختر،نجم نقوی، راجہ مہدی علی خان، سردار جعفری، اختر الایمان، کیفی اعظمی،حسرت جے پوری،کیف بھوپالی، اسد بھوپالی،قمر جلال آبادی، شکیل بدایونی  اس طرح کئی ایسے اردو کے نامور شعراہیں جنھوں نے فلمی نغموں میں اردو ادب کا معیار برقرار رکھا۔یوں تو ابتدا سے ہی اردو ادب کا گہرا رشتہ ہندوستانی سنیما سے رہا ہے،اور جب بھی اردو اور ہندوستانی فلموں کا ذکرآئے گا ذہن میں اردو مکالموں کے الفاظ اور نغمے گونجنے لگتے ہیں۔نہ جانے کتنے ہی اداکاروں کی حرکات وسکنات،اداکاری جذبات سے پُر مناظر ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں۔

ہندوستانی سنیما اور اردو کے متعلق جب بھی ذکر ہوگا، منشی پریم چند کا نام سرِ فہرست ہوگا۔جیساکہ ان کے ناول سیواسدن پر سب سے پہلے ’بازارِ حسن‘ کے نام سے 1934میں ایک فلم بنی۔ اسی طرح 1941  میں ان کی اردو کہانی ’عورت کی فطرت‘ پر فلم بنی، فلم کا نام ’سوامی‘  رکھا گیا تھا۔1946میں  ناول ’چوگانِ ہستی‘ پر ’رنگ بھومی‘ کے نام سے فلم بنائی گئی اسی طرح فلم ’گئودان‘  جوکہ اردو ادب میں پریم چند کا شاہکار ناول تسلیم کیا جاچکا ہے۔منشی جی کی ایک کہانی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ جس پر مشہور فلم ساز اور ہدایت کا  ستیہ جیت رے نے فلم بنائی۔ جو منشی پریم چند کی کہانیوں پر بنی فلموں میں سب سے زیادہ عمدہ اور  مقبول ترین فلم  رہی۔ منشی پریم چند کا نام ہندوستانی فلموں سے وابستہ تو رہا ہی ہے لیکن اردو اور ہندوستانی سنیما ذہن میں آتے ہی ’امتیاز علی تاج‘ کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔ان کے  اردو  ادب کا شاہکار ڈرامہ’انار کلی‘  پر 1953 میں مشہور اور کامیاب فلم بنائی گئی۔ بعد ازاں اسی موضوع کو بڑے پیمانے پر ہندوستانی فلموں کے مشہور ہدایت کار کے آصف نے ’مغلِ اعظم‘ کے نام سے پیش کیا، یہ ایک زبردست کامیاب اور بہترین فلم تھی،اس فلم نے اپنے زمانے میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔  اردو کا  زندہ جاوید شاہکار اور پہلا مکمل معاشرتی ناول ’امراؤجان ادا ‘ جس کے مصنف مرزا ہادی رسوا تھے، اس ناول پر مشہور فلمساز اور ہدایت کارمظفر علی نے ایک کامیاب اور عمدہ فلم سب سے پہلے 1981 میں بنائی، اور اس میں اس زمانے کے لکھنؤ کے نوابی اور ادبی ماحول کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس فلم میں نغمے موسیقی وغیرہ سب ہی عمدہ اور بہترین ہیں۔ اس فلم سے متاثر ہوکر کمال امروہی نے بھی ایک فلم  ’پاکیزہ‘ کے نام سے بنائی جس کا مرکزی خیال بھی وہی تھا جو امراؤ جان ادا کا ہے۔ ایسے ہی اردو ادب کا ایک اور اہم ادیب ’خواجہ احمد عباس‘ جوایک زمانے میں فلم کمپنی ’بمبئی ٹاکیز‘ میں بحیثیت فلم پبلی سٹی انچارج منسلک رہے، اسی دوران انھوں نے ہندوستانی سنیما کو کئی یاد گار فلمیں دی، انھوں نے سب سے پہلے خود اپنی ہدایت میں اپنی پہلی فلم ’دھرتی کے لال‘ بنائی جو 1945  میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔اسی طرح ان کی کہانی پر ’بمبئی ٹاکیز‘ نے فلم ’نیا سنسار‘ بنائی۔ عباس صاحب نے اس کے علاوہ خود کئی فلمیں بنائی،جو کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن جو فلمیں انھوں نے راج کپور کے لیے لکھیں وہ بے حد کامیاب ہوئیں  اور ایسے ہی اردو ادب کابہت بڑا نام کرشن چندر جن کی ہندوستانی فلموں سے پوری طرح وابستگی رہی ہے،انھوں نے سب سے پہلے’ من کی جیت‘ نامی فلم کی کہانی لکھی جو ڈبلیو زیڈ احمد کی ہدایت کاری میں  1945  میں نمائش کی گئی،اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ رہی ہے کہ اس میں اردو کے نامور انقلابی شاعر ’جوش ملیح آبادی‘ نے نغمے لکھے۔اس کے بعد بھی کرشن چندر نے  بہت سی فلموں کی کہانیاں، مکالمے اورمنظر نامے  لکھے،ان کی یہ ادبی اور فلمی خدمات یکساں طور پر اردو ادب اور ہندوستانی سنیما میں مقبول رہیں۔ اس میں ایک اور اردو ادب کا اہم نام ’راجندر سنگھ بیدی‘ ہے، انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں ، مکالمے اور منظر نامے لکھے اور خود بھی فلمیں بنائی۔جس میں ان کی سب سے اہم فلم ’دستک‘ ہے، جس کے اداکاروں اور موسیقارکو ملکی سطح کے اعزاز سے نوازا گیا اور خودراجندر سنگھ بیدی کو حکومتِ ہند نے ’پدم شری‘ سے نوازا۔فلم ’دستک‘ کے بعد راجندر سنگھ بیدی نے’پھاگن‘ ، ’آنکھن دیکھی‘، ’اپنی دھرتی اپنا دیس‘، ’نواب صاحب‘ وغیرہ فلمیں بنائیں۔ راجندر سنگھ بیدی کا  اردو کا مختصرومقبول  ناول ’ ایک چادر میلی سی‘ جسے مشہور فلمساز و ہدایت کار کمال امروہی  نے بہت پسند کیا اور  1986میں راجندر سنگھ بیدی کے انتقال کے بعد ایک اچھی فلم بنائی جو کا فی پسند کی گئی۔بیدی کی ایک کہانی ’گرم کوٹ‘ پر بھی عمدہ فلم بنائی گئی۔

مرزا غالب اردو کا ایک ناقابلِ فراموش نام، اردو زبان وادب کے عالمی شہرت یافتہ شاعر، غالب کی زندگی کے واقعات اور ان کے خطوط کی مدد سے مشہور فلمساز و ہدایت کار سہراب مودی نے 1954میں ایک کامیاب فلم بنائی۔ جس کی کہانی، اردو ادب کے مشہور ادیب ’سعادت حسن منٹو‘ نے تحریر کی تھی مگر درمیان میں ہی منٹو  پاکستان ہجرت کرگئے، ان کے بعد اس کہانی کو راجندر سنگھ بیدی نے پائے تکمیل کو پہنچایا، اس فلم کے منظر نامے اور مکالمے خود راجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیے۔یہ فلم بے حد مقبول وکامیاب ہوئی،اور اس فلم کی غزلیں بھی بے حد مقبول تھیں۔ ایک اور اہم نام ’امرتا پریتم‘ جوکہ پنجابی زبان کی شاعرہ تھی، لیکن ان کی تمام تخلیقات اردو  زبان میں شائع ہوئی، ان کا شاہکار ناول ’ پنجر‘ بھی اردو میں شائع ہوکر کافی مقبول ہوا۔اس ناول پر بھی ہندوستانی فلم انڈسٹری نے ایک کامیاب فلم بنائی۔ اردو فکشن اور ہندوستانی  سنیما   ایک ایسا باب  ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،بے شمار ایسے فلمی اسکرپٹ نگار ہیں جن کی پرورش اردو فکشن کے سائے میں ہوئی تھی۔ جن کا تذکرہ اوپرگزر چکا ہے۔  اس کے علاوہ اردو کی مقبول داستانوں ، شیریں فرہاد،  لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا، وغیرہ نہایت کامیاب اور اردو تہذیب پر مبنی فلمیں ہیں۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں موجود ہیں۔

اردو اور بالی ووڈ کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں  اردو مکالمے اور نغمے مع دھن گونجنے لگتے ہیں۔ شاعری لکھی جاتی،پڑھی جاتی، سنی اور سنائی جاتی تھی۔ لیکن ہندوستانی سنیما کے ذریعے اردو شعر وادب کو ایسا پیرایۂ اظہار مل گیا جو فائن آرٹس کا خوبصورت سنگم تھا۔ہندوستانی فلموں کا پہلا نغمہ ؎

دے دے خدا کے نام پہ گر تجھ میں دینے کی طاقت ہے

یا مجھ سے کچھ لے لے اگر لینے کی طاقت ہے

 اردو شعر وادب جس کا خمیرہندوستان ہی میں تیار ہوا ،جس کی ابتدا  امیر خسرو کے ہندوی کلام سے ہوتی ہوئی میر، غالب و مومن سے اپنے دامن کو گنگا جمنی تہذیب کے گلشن سے پھول  و خوشبو لیے  ہندوستانی سنیما کو معطر کرتی رہی۔ اردو شاعری اور اس کی مختلف اصناف کے بغیر ہندوستانی فلموں کا تصور ممکن  نہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ کہ دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی کے سارے اردو شاعر وادیب  اپنی روایات کے ساتھ ہندوستانی فلموں میں داخل ہوتے چلے گئے۔ ان اردو شعراکی غزلیات، نظمیات، قطعہ، رباعی وغیرہ اردو شاعری کے سبھی فارم اپنی تکنیکی خوبیوں کے ساتھ مل جل کرہندوستانی نغمگی کو اس کی  شکل و صورت عطا کرتے ہیں۔ہندوستانی فلموں میں مسلم معاشرے کی عکاسی بھی ایک پہلو ہے جس کو فلموں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا، جو ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ فلموں میں مسلم کردار ہو کہ غیر مسلم کردار دونوں کی زبان وبیان میں اتنی یکسانیت ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔فلم پاکیزہ ہو،چودھویں کا چاند ہو، میرے ہمدم میرے دوست ہو یا کہ دیوداس ہو ،ان فلموں میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کی زبان وبیان میں مماثلت سے انکار ممکن نہیں۔ 

اردو زبان وادب نے ہندوستانی سنیما کی ایک اہم ہستی’ گلزار‘ صاحب کو  بلندیوں تک پہنچایا،اور کہا جاتا ہے کہ خودگلزار صاحب کی بدولت  اردو وہاں وہاں پہنچی جہاں اس کی رسائی تو ممکن تھی،لیکن لوگوں نے راستہ نہیں بننے دیا۔غرض یہ کہ اردو اور گلزار دونوں کو جدا جدا دیکھنا غیر ممکن ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ 1998 میں فلم ’دل سے‘ کا ایک گیت جسے گلزارصاحب نے لکھا تھا ؎ 

جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں

پاؤں کے نیچے جنت ہوگی

اور مزید آگے لکھتے ہیں کہ ؎

وہ یار ہے جوخوشبو کی طرح

ہے جس کی زباں اردو کی طرح

مری شام ورات مری کائنات

وہ یار مرا سیّاں سیّاں

یہ وہی فلمی نغمہ نگار گلزار صاحب ہیں جنھوں نے ’ اردو‘ کو زبانِ یار کا بہترین وصف بتایا ہے۔  

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو زبان وادب نے ہندوستانی سنیما کے ذریعے ہمارے پورے معاشرے پر کافی مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ اردو اپنی تہذیب کے ساتھ ہندوستانی سنیما کا ایسا حصہ بن چکی ہے ،جسے جدا کرنا یا اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔


Dr. Shakeel Ahmad Khan

Department of URDU

Government Vidarbha Institute of

Science& Humanities

Amravati- 444 604 (M.S)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...