اردو دنیا، فروری 2024
کشمیری لال ذاکر کا شمار اردو کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔
انھوں نے اس دور میں قلم اٹھایا جب کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، اپندر ناتھ اشک،
خواجہ احمد عباس، احمدندیم قاسمی، بلونت سنگھ جیسے ناول نگار اپنی اردو ناول نگاری
میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے تھے۔
1950 ذاکرصاحب
کی زندگی کا ایسا دور ہے جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل کر رکھ دیا۔ دراصل ایک طویل
علالت کے بعد آپ کی بیگم شریمتی شیلا دیوی کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے یہ صدمہ تو
برداشت کر لیا لیکن اس تاثر کو کئی سالوں تک فراموش نہیں کر سکے۔ چونکہ ذاکر صاحب اپنی
بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے جس کا اظہار انھوں نے اپنے پہلے ناول ’سیندور کی راکھ‘
میں واضح طور پر کیا ہے۔ جب یہ ناول منظر عام پر آیا تو اسے ادبی دنیا میں کافی مقبولیت
حاصل ہوئی۔ مکتبہ جامعہ شاہراہ دہلی کے مالک شاہد احمد دہلوی اپنے خیالات کا اظہار
ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’ذاکر صاحب کا
جھکائو ابتدا سے رومان کی طرف رہا اور’ سیندور کی راکھ‘ ان کا پہلا ناول ہے جس میں
ان کی اپنی سرگزشت ہے اس میں ان کی اپنی زندگی کا شاید غم ہے اور اسی ناول میں غم جاناں
کو غم دوراں پر فوقیت ہے۔ ذاکر صاحب کی رنگین بیانی، منظر نگاری اور ماحول کی عکاسی
اس ناول میں پوری تابانی کے ساتھ جلو ہ گر ہے اس جزئیات نگاری پر ذاکر صاحب کی قدرت
کا پتہ چلتا ہے۔ اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیات یہ ہے کہ وہ قاری کو ابتدا ہی سے اپنی
گرفت میں لے لیتا ہے اور ازدو اجی زندگی کے شیریں اور طرب انگریز اسرار و رموز سے آہستہ
آہستہ پر دہ اٹھتا ہے۔‘‘ (کشمیری لال ذاکر’سندور کی راکھ‘؛ص8)
’سیندور کی راکھ‘
ذاکر صاحب کا ایسا ناول ہے جو کوئی خیالی یا تصوراتی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی زندگی کی
حقیقی ترجمانی کرنے والا ایسا ناول ہے جسے ہم خالص جذباتی اور تاثراتی ناول کہہ سکتے
ہیں۔ یہ 1950 میں ادبی دنیا سے شائع ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ذاکر صاحب نے اس تصنیف
میں اچھوتی تکنیک کا استعمال کیا ہے یا کم ازکم اس تکنیک کا چلن اس وقت عام نہیں تھا۔انھوںنے
اسے سچے و اقعات کو سرگزشت اور ڈائری کے تکنیک کو ملا کر تحریر کیا ہے۔ اس ناول کا
اصل موضوع ان کی شریکِ حیات کا دنیا سے گزرجانے کا غم ہے۔
’سیندور کی راکھ‘
کے بعد ناول لکھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آخری سانس تک اسی جوش و خروش کے ساتھ قائم
رہا۔ انھوں نے 29 ناول تحریر کیے ہیں اور
ہر ناول میں موضوع و مسائل کے اعتبار سے ایک نئی روشنی و ندرت پائی جاتی ہے۔ان کے ناولوں
کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوںنے جدید موضوعات کو مد نظر رکھ کر اپنے ناولوں کی
تخلیق کی ہے۔
انھیں اردو کے ادبی حلقوں میں خاصی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے۔ انگوٹھے کا نشان، میرا گانوں میری زندگی ہے، کرماں والی، دھرتی سدا سہاگن،
ڈوبتے سورج کی کتھا وغیرہ ایسے لاجواب ناول ہے جن میں ذاکر صاحب کا فن اپنے شباب پر
نظر آتا ہے اور یہ ناول کی فنی پختگی اور فنکارانہ چابکدستی کی روشن مثال ہے۔ ان ناولوں
میں انھوںنے دیہی زندگی کو بنیاد بنا کر کسانوں، مزدوروں، عورتوں، بوڑھوں کے مسائل
کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول ’کرماں والی‘ اور ’ڈوبتے سورج کی کتھا‘ تقسیم ہند
سے متاثر ہے لیکن ان کا مرکز بھی گائوں ہی ہے حالانکہ ان ناولوں میں کہیں کہیں شہر
کی کچھ جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اس کے بر خلاف میرا شہر ادھورا سا، اب مجھے سونے دو، لمحوں میں
بکھری ہوئی زندگی، ایک شہر ایک محبوب وغیرہ ناولوں میں ذاکر صاحب نے شہر کی چکا چوندھ
بھری زندگی کی عکاسی کی ہے۔ Modernity کے نام پر اپنے تہذیب و کلچر سے دور
بھاگتے لوگوں کی کہانی کو پیش کیا ہے۔ جدید تمدن نے کس طرح انسانی تہذیب کو متاثر کیا،
ان پر غلط اثر ڈالا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نئی نسل کس طرح آزادی کے نام پر اپنے آپ
کو تباہ و بربا کر رہی ہے۔ ذاکر صاحب نے ان سبھی پہلوئوں پر غور و فکر کیا اور اپنے
ناولوں میں انھیں جگہ دی۔کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری کے ذیل میں عبد المغنی مرحوم
یوں رقمطراز ہیں:
’’کشمیری لال
ذاکر کے متعد ناولوں میں سے انگوٹھے کا نشان، کرماں والی، دھرتی سدا سہاگن اور ’ڈوبٹے
سورج کی کتھا‘ زیادہ پسند ہیں۔ ان سب ناولوں کا تعلق دیہات سے ہے۔ گر چہ ان پر شہری
زندگی کی کچھ پرچھائیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ ان میں ’کرماں والی‘ اور ’ڈوبتے سورج کی
کتھا‘ تقسیم ہند کے اثرات کے آئینہ دار ہیں۔ ان میں پنجاب کا ماحول اور معاشرہ ہے۔بہ
طور خاص ان ناولوں کے نسوانی کردار اپنے عمل اور اپنے کرداروںسے قاری کو اپنی جانب
متوجہ کرتے ہیں۔‘‘
(عبد المغنی
’کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری‘ مشمولہ ’فن و شخصیت نمبر‘ کشمیری لال ذاکر، ص86)
ذاکر صاحب کے ناولوں میں ایک اور اہم موضوع غربت، بھوک اور افلاس
کا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں ان کے ناولوں میں ضرور مل جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں
نے اپنی ترقی پسندی اور اشتراکیت کو اجاگر کیا ہے، کیونکہ ذاکر صاحب نے اس دور میں قلم اٹھایا جب ترقی
پسند تحریک اپنے شباب پر تھی۔ اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا تھا وہ ادب برائے ادب کے تحت
تھا اب ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو کچھ لکھا جا رہا تھا اس میں ادب برائے زندگی
کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ذاکر صاحب کے بیشتر ناولوں میں ترقی پسند
تحریک کے اثرات نظر آتے ہیں۔
جب ملک تقسیم ہوااور آزادی وجود میں آئی تو اس وقت جو افراتفری
کا عالم تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس میں صرف انسان کے جذبات اور دل تقسیم نہیں
ہوئے تھے بلکہ اس تقسیم نے ہندو مسلم فرقو ں میں جو نفرت کی آگ بھڑکائی تھی اس کا
اثر سماج کے ہر فرد پر پڑا۔ ذاکر صاحب نے 1947
میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا صرف جائزہ ہی نہیں
لیا بلکہ اسے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ یعنی ذاکرصاحب تقسیم کے المیے سے اس قدر متاثر
ہوئے کہ اپنے ناول کرماں والی، ڈوبتے سورج کی کتھا، لمحوں میں بکھری ہوئی زندگی میں جو تاثرات اور جذبات بیان کیے ہیں وہ اس دور
کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتی ہے۔ جس وقت ملک تقسیم ہوا ذاکر صاحب پشاور میں تھے
اور آج بھی وہ علاقہ جسے آپ کا آبائی وطن کہا جاتا ہے یعنی قصبہ کنجاہ ضلع گجرات
(پشاور) یہ علاقہ اب پاکستان میں ہے ایسی صورت میں فسادات کا ذکر ذاکرصاحب کے ناولوں
میں فطری عمل ہے۔ بقول ذاکر صاحب:
’’1947کی جو نسل
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی اسے محرومی اور جدائی کا جو احساس ہوا، اس میں ایک تیکھا
درد، انوکھی کسک اور دم گھونٹ دینے والی تلخی تھی۔یہ تلخی سرحد کے دونوں پار صف باندھے
کھڑے ان لوگوں کے دلوں میں رچ رہی تھی جو اپنی آنکھوں میں انتظار کے چراغ جلائے ایک
ایسی صبح کے منتظر تھے جب ان کے عزیز دوست رشتہ دار محبوب بنا کسی رکاوٹ کے ان کے قریب
آکر ان سے گلے ملیں کے اور خوشی کے بھرپور احساس سے نکلے آنسوؤں سے وہ خلیج بھر
جائے گی جو اب تک ان کے درمیان پھیلی تھی۔‘‘
(خلیق انجم’ہمہ
جہت شخصیت‘ نند کشور وکرم، کشمیری لال ذاکر فن و شخصیت، دہلی عالمی اردو ادب 2009،ص302)
ذاکر صاحب کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں
کا موضوع دور حاضر کے مسائل کو بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک آزادہوااور زمیندارانہ
نظام ختم ہو گیا لیکن اس کے باوجود بھی ایک مزدور اور کسان کی حالت نہیں سدھری اور
نہ ہی ان کی غربت اور پسماندگی میں خاطر خواہ تبدیلی ہوئی بلکہ غریبی اور مفلسی اسی
طرح برقرار رہی تو ذاکر صاحب نے کئی خوبصورت ناول تحریرکیے مثلاً ’انگوٹھے کا نشان‘
بھولے بھالے اور ان پڑھ مزدوروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ تو وہی’بنجر بادل‘ ایسا ناول
ہے جس میں انھوںنے گائوں کی پسماندگی، قحط سالی اور طوفان سے رونما ہونے والے مسائل
کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ اس کے علاوہ ’سمندر صلیب اور وہ‘، ’بلیک باکس‘ میں انھوںنے
یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آزادی کے بعد بھی ہمارے گائوں کی حالت میں کوئی تبدیلی
نہیں آئی۔
اردو ناول نگاری میں مرد کے مقابل عورت کی سماجی اور نفسیاتی
صورت حال پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ لیکن ذاکر صاحب نے عورتوں کو موضوع بنا کر کئی ناول
تخلیق کیے ہیں۔ان کا یہ ماننا تھا کہ عورت کا سراپا محبت ہے جو ہر رشتے، ہر روپ میں
صرف محبت لٹاتی ہے۔ بیٹی بن کر ماں باپ کو، بہن بن کر اپنے بھائی کو، بیوی کی صورت
میں شوہر کو اور ماں بن کر اپنی اولاد کو صرف پیار دیتی ہے۔ عورت نفسیاتی اعتبار سے
بھی بہت حساس ہوتی ہے۔ اب مجھے سونے دو، کرماںوالی، لمحوں میں بکھری زندگی، سمندر خاموش
ہے، میرا شہر ادھورا سا، پربھات جیسے ناولوں
میں عورتوں کے مسائل اور ان کے مختلف زاویوں کوانھوں نے نہایت فنکاری سے پیش کیا ہے۔
’اب مجھے سونے دو‘ ذاکرصاحب کا ایک عورت کے جنسی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کے حوالے
سے عمدہ ناول ہے۔
ذاکر صاحب نے اپنے ناولوں میں زمان اور مکان کے تعلق سے کشمیر،
چنڈی گڑھ اور ہریانہ کو برجستہ پیش کیا ہے جس کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ذاکر صاحب کا
بچپن اور تعلیم کا زمانہ ریاست جموں کشمیر میں گذرا۔ ملازمت کی ابتدا پنجاب سے کی اور
پھر ہمیشہ کے لیے ہریانہ منتقل ہو گئے۔ اس لیے جموں کشمیر کی حسین وادیاں اور وہاں
کے واقعات منظر نگاری کی شکل میں آپ کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔ کشمیر ہو،
ہریانہ کے گائوںہوں یا پنجاب کے دیہی علاقے ان سب کے مقابلے میں ذاکر صاحب نے چنڈی
گڑھ کو بہت ترجیح دی۔آپ نے ہر اعتبار سے چنڈی گڑھ کے ہر پہلو کو ابھارا ہے۔ لہٰذا
’میرا شہر ادھورا سا‘‘ ماڈرن سٹی چنڈی گڑھ پر لکھا گیا بہترین ناول ہے۔
اس طرح ذاکرصاحب نے گائوں اور شہر سے جڑے ہوئے ہزاروں مسائل
کو پیش کیا ہے۔ اگران کے ناولوں میں تکنیک کا جائزہ لیا جائے تو ہر ناول میں انھوں
نے موضوع کو مدّنظر رکھتے ہوئے تکنیک کا استعمال کیا ہے۔انھوںنے زیادہ تر ناولوں میں
شعور کی رو (Stream of Conciousness) کا استعمال کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے ناولوں میں
فلیش بیک کی تکنیک کا بھی استعمال کرتے ہیں اوران کے ناول واحد متکلم سے شروع ہوتے
ہیں۔
تقسیم ہند کے موضوع پر لکھا گیا ان کا ناول ’کرماں والی ‘کی
کہانی میں واحد متکلم کے صیغے کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ناول کی ابتدا ’میں‘ کے عنوان سے ہوتی ہے اور
کرماں والی اپنی پوری داستان سناتی ہے۔ اسی طرح ’میرا شہر ادھورا سا‘ میں رچنا اپنی
اور ایک ادھورے شہر کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ’سمندر خاموش ہے‘ میں بھی شکیل اپنی کہانی
سناتا ہے۔’لمحوں میں بکھری زندگی‘ میں ارچنا اپنے ماضی اور حال کا جائزہ لیتی ہے کہ
آخر اس نے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا۔
جہاں تک ذاکر صاحب کے اسلوب کا تعلق ہے تو اس پران کو مہارت
حاصل ہے کیونکہ ان کا اسلوب نہایت ہی سادہ سلیس مگر بڑا ہی معنی خیز ہوتا ہے۔ تو وہی
انھوں نے زیادہ ترسادہ سپاٹ زبان کا استعمال کیا ہے جو کرداروں کے عین مطابق ہوتا ہے۔
ذاکر صاحب اپنے ناولوں میں لمبے لمبے جملوں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ چھوٹے اور چست
جملوں سے عبارت کو مزین کرتے ہیں اور جو کردار جس طرح کی زبان اپنے معاشرے میں بولتا
ہے ذاکر صاحب اسی زبان میں اپنے ناولوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں
میں انگریزی، پنجابی، ہریانوی اور ہندی زبانوں کے جملے برجستہ مل جاتے ہیں اور کہیں
ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مکالموں کو جبراً عبارت میں جوڑ دیا گیا ہے۔ عبدالمغنی ذاکر
صاحب کے اسلوب نگارش پر اپنے خیالات کا اظہار اس انداز میں کرتے ہیں۔
’’جناب کشمیری
لال ذاکر کا اسلوب سادہ و پرکار ہے۔ وہ عام طور پر چھوٹے جملوں کا استعمال بڑی سلاست
سے کرتے ہیں اور یہ جملے اپنے سیاق و سباق میں بہت معنی خیز اور خیال انگیز ہوتے ہیں۔
بعض اوقات تو کرداروں کے مکالمے اشعار کی طرح موزوں چست اور ایسے برجستہ فقروں پر مشتمل
ہوتے ہیں جن سے مضمرات اور اشارات کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے‘‘۔
(ڈاکٹرعبدالمغنی’کشمیری
لال ذاکر کی ناول نگاری‘ فن اور شخصیت (کشمیری لال ذاکر) (ممبئی) شمارہ نمبر (مارچ 1991-92) ص214)
ذاکر صاحب کے پلاٹ مربوط، سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ شروع سے لے کر
آخر تک کہانی میں دلچسپی قائم رہتی ہے اور قاری کا تجسس بنا رہتا ہے جو اسے پورا ناول
پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ چاہے وہ اپنے ناولوں میں دو شہروں، دو ملکوں، دو گائوں کی
کہانی کہہ رہے ہوں مگر پھر بھی کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا ہاںلیکن کہیں کہیں فنکار
کی جدّت نظر آتی ہے جیسے ’ڈوبتے سورج کی کتھا‘ کے پلاٹ میں کہیں کہیں تھوڑا ایہام
بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پہلے دو نسلوںکے قصے پھر اس میںبھی دو بھائیوں کی الگ الگ کہانیاں
ساتھ ہی کرداروں کے بیچ تقسیم ہند کی لکیر۔ ان سب باتوں سے پلاٹ میں پیچیدگی پیدا ہو
جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی قاری کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی۔
(کشمیری لال ذاکر’فن
و شخصیت‘آپ بیتی نمبر بمبئی صابروت جلد 4، شمارہ 7، ستمبر 1978؛ ص277)
کردار نگاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ذاکر صاحب نے اس
میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوںنے ایسے کردار تراشے ہیں جو ہماری زندگی کے
جیتے جاگتے کردار کہے جا سکتے ہیں۔وہ کرداروں کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور
کرداروں کو دلچسپ بنانے کے لیے گرما گرم اور پھڑکتے ہوئے فقرے و محاورے کا بھرپور استعمال
کرتے ہیں۔انھوںنے تمام کرداروں کو دلکش بنائے رکھنے کے لیے مرقع نگاری کا خوب سہارا
لیا ہے۔ مرقع نگاری اس طور سے کی ہے کہ کہانیوں کا خاص اہم حصہ نظر آتا ہے جیسے بیسویں
صدی کی شخصیتوں کی شکل و صورت، حرکات و سکنات، طبیعت کی رنگا رنگی، آواز کی کیفیت
وغیرہ کی بہترین مرقع نگاری ذاکر صاحب نے اپنے ناولوں میں کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ذاکر صاحب نے انھیں کرداروں کا انتخاب
کیا جو آپ کے آس پاس رہتے ہیں یا جن کوانھوںنے قریب سے دیکھا ہے لیکن انھوںنے اپنے
ناولوں میں غیر ضروری کرداروں کو اہمیت نہیں دی ہے۔ ذاکرصاحب نے اتنے ہی کردار اپنے
ناولوں میں شامل کیا ہے جن کی ضرورت پلاٹ اور واقعات کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ ان کے ناول مختصر اور جامع ہوتے ہیں اور ان میں بلا وجہ کی نہ تو کوئی تکرار ہوتی
ہے اور نہ واقعات اور کرداروں کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے۔
ذاکر صاحب کے ناول سادگی سچائی اور حقیقت نگاری کے مرقع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس منظر کی عکاسی وہ اپنے ناولوں میں کرتے ہیں تو اس کی تصویر ابھر کر
سامنے آجاتی ہے۔ ان کی منظر کشی کا ایک نمونہ پیش نظر ہے:
’’میں نے چاند
کی طرف دیکھا۔ وہ تیزی سے افق کی طرف بھاگ رہا تھا جیسے کوئی اس کا انتظار کر رہا ہو
اور اسے اشاروں سے اپنے پاس بلا رہا ہو۔ میں تمھارے اور قریب سرک گیا۔ تمہارے دونوں
ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر۔‘‘ (کشمیری لال ذاکر ’دھرتی سدا سہاگن‘؛
ص81)
ذاکر صاحب کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ناولوں
میں مذہب کا رنگ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے زیادہ تر انھوںنے سماجی سیاسی اور معاشی
مسائل پیش کیے ہیں۔ لیکن مذہب کا رنگ جھلکنے نہیں دیا ہے۔ ان کے ناولوں میں مندروں،
مسجدوں، گرجاگھروں اور دوسری عبادت گاہوں کا ذکر ضمنی طور پر آتا ہے۔ ’کھجوراہو کی
ایک رات‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں تاریخی مندروں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اس کا ذکر
اتنا ہی آیا ہے جتنا کہ ناول کے موضوع کے اعتبار سے ضروری تھا۔
بلا شبہ کشمیری لال ذاکر اردو ادب کے اچھے ناول نگار ہیں جنھوں
نے اپنے ناولوں کے ذریعے اپنے قارئین کو نئی راہیں دکھائی ہیں اور زندگی کی سچی اور
حقیقی تصویر بھی بڑی فنی مہارت سے پیش کی ہیں۔ان کے ناول موضوع کے اعتبار سے اردو ادب
میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں جو بدلتے وقت کی آواز ہیں۔انھوں نے نئے نئے اور
عصری موضوعات کا انتخاب کیا ہے اور انھیں حقیقت پسندی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ دوسرے
ناول نگاروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے کرداروں کے وسیلے
سے قارئین کے ایک وسیع طبقے اور حلقے کو متاثربھی کیا ہے۔
n
Rudra Shakti Jee Maharaj
H No. 12, Gali No. 2, Near Wooler Public School,
Wazirabad Gaon
Delhi-110084
Mob.: 9140276752
Email: rudrasj2014@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں