اردو دنیا، فروری 2024
اردو زبان کے تعلق سے یہ شدید
غلط فہمی ہے کہ یہ بدیسی یا مسلمانوں کی زبان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان نہ تو بدیسی
ہے او رنہ ہی مسلمانوں کی ہے۔اس کے بارے میں یہ غلط بات بھی مشہور ہے کہ اس زبان میں
عربی اور فارسی کے الفاظ حد سے زیادہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں ہی
پیدا ہوئی، یہیںپروان چڑھی اور اس نے اپنے دامن میں عربی، فارسی، ترکی، پرتگیزی، ہندی،
سنسکرت، اور انگریزی زبان کے الفاظ کے ساتھ ہندوستان کے بیشتر علاقائی الفاظ کو بھی
جگہ دی۔ اس لحاظ سے یہ خالص ہندوستان اور ہندوستانیوں کی زبان ہے،جو دنیا کے بیشتر
ممالک میں بولی، سمجھی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔
اردوزبان و ادب کے دوسرے شعبوں
کی طرح فکشن میں بھی ہندو ادیبوں کی لائق افتخار خدمات اور ان کے افسانوی ادب کا ناقابل
فراموش سرمایہ موجود ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے۔ جنھوں
نے فکشن کی مشرقی روایات سے انحراف کرنے اور انگریزی اصولوں پر اولین ناول لکھنے کا
دعویٰ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے فکشن کی تنقید بھی لکھی اس ضمن میں ان کا مضمون
’ ناول نگاری ‘ بے حد اہم ہے۔ اس مضمون میں
انھوں نے داستان اور ناول کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ناول کے متعلق اپنے خیالات کا
اظہار کیا ہے۔ چونکہ یہ مضمون بعد کا ہے۔ اس سے قبل وہ فسانہ ٔ آزاد کے مقدمہ میں
اپنے جدید ناول نگار ہونے اور انگریزی طرز پر ناول لکھنے کا دعویٰ کرچکے تھے، لہٰذا
فسانۂ آزاد کی جلد چہارم کے مقدمے کو بھی اسی زمرے میں رکھنا چاہیے، کہ یہ بھی ان
کے مضمون کی طرح ان کے نظریۂ ناول کی تفہیم کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
دعوے کے مطابق سرشار انگریزی طرزمیں
جدید ناول کی بنیاد ڈال رہے تھے مگر درحقیقت غیر شعوری طور پر وہ قدیم افسانوی ادب
کے اثر سے پوری طرح آزاد نہ ہوپائے تھے، کہ فسانۂ آزاد ایک حقیقی دنیا کا قصہ ہونے
کے باوجود اپنی ساخت (مثالی کردار، آرائشی زبان، قصہ درقصہ کی تکنیک اور غیر معمولی
مبالغہ) اور کہانی کی تشکیل کے اعتبار سے ناول کے مقابلے داستان سے زیادہ قریب ہے۔کہ
اس میں بھی مختلف واقعات کی مدد سے ایک ایسے شخص کی کہانی گڑھی گئی ہے جو داستان کے
شہزادوں کی طرح علوم وفنون کا ماہر ہے اور ایک حسینہ کے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد
اس کے ایما پر ایک بڑی مہم سر کرنے نکلتا ہے اور مختلف مراحل ومنازل طے کرنے اور طرح
طرح کی مشکلات سے نبر د آزما ہونے کے بعد بالآخر کامیاب وکامران واپس لوٹتا اور اپنی
محبوبہ سے شادی رچاتا ہے۔ فسانۂ آزاد میں واقعات کی کثرت، تنوع اور سنسنی خیزی یقینا
کسی داستان سے مختلف نہیں ہے، اس کے باوجود ’فسانۂ آزاد ‘پر داستان کا اطلاق یوں
نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا پس منظر تصوراتی عالم کی بجائے حقیقی دنیا ہے۔ جس میںناول
کے فن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جیتا جاگتا شہر، ایک خاص عہد کا معاشرہ اور اس میں
رچتے بستے لوگ اپنی اپنی فطرت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔
’فسانۂ آزاد‘ پنڈت رتن ناتھ
سرشار کا پہلا ناول ہے اور سب سے زیادہ مشہور بھی یہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں فنی
اعتبار سے ان کا ناول ’جام سرشار‘ اپنے مربوط پلاٹ اور کہانی کے ایک آغاز، ارتقا اور
انجام کی وجہ سے کافی حد تک ناول کے فارم کو پیش کرتا ہے۔ رتن ناتھ سرشار نے فسانہ
آزاد اور’جام سرشار‘ کے علاوہ اور بھی کئی ناول لکھے ہیں جن میں سیر کوہسار، کامنی،خدائی
فوجدار، پی کہاں، ہشو، کڑم دھم،بچھڑی ہوئی دلہن، طوفان بے تمیزی، چنچل نار‘ اور’ گور غریباں،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چنچل نار
’دبدبۂ آصفی‘ میں قسط وار شائع ہوتا تھا لیکن اس کے مکمل ہونے کی نوبت نہیں آئی،
جب کہ ’گور غریباں‘ کا مسودہ مکمل ہونے کے باوجود اشاعت کے مرحلے سے بوجوہ نہیں گزر
سکاتھا۔ان کی ماخوذ و مترجمہ تصانیف میں ’اعمال نامۂ روس‘ شمس الضحیٰ،اور ’الف لیلیٰ
‘کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔
پنڈت برج نرائن چکبست اچھے
شاعر اورنثر نگار تھے اور شاعری، فکشن کے نقاد بھی۔چکبست کا اردو فارسی ادبیات کا مطالعہ
کافی وسیع تھا۔ ’گلزارنسیم‘ سے متعلق مباحثے کے سلسلے میں انھوں نے معترضین کے فنی،
لسانی، معنوی اور ادبی اعتراضات کے جواب جس خوبی سے دیے ہیں وہ ان کی علمیت کے اعتراف
کے لیے کافی ہے۔ ان کی ادبی زندگی کا جب آغاز ہوا اس وقت تک حالی اور شبلی کی تنقیدی
نگارشات سامنے آچکی تھیں۔البتہ تب اردوفکشن کی تنقید کا باضابطہ آغازنہ ہوا تھا،لیکن
فکشن سے متعلق مرزا محمد ہادی رسوا کے خیالات خطوط اور دیباچوں کی شکل میںاور پنڈت
رتن ناتھ سرشار اورمولوی عبدالحلیم شررکے ابتدائی مضامین منظر عام پر آچکے تھے۔چکبست
نے پہلی بار اردو کی بعض اہم ادبی شخصیتوں بالخصوص لکھنؤ کے نثر نگاروں مثلاً منشی
سجاد حسین، منشی جوالا پرشاد برق، تربھون ناتھ ہجر اور مرزا مچھو بیگ ستم ظریف وغیرہ
پر مضامین لکھے،جن میں ان کی نثر کی فنی خصوصیات پر معتبر اور معتدل گفتگو کی۔
فکشن کی تنقید کے تعلق سے
ان کا نظریہ ان کے صرف ایک مضمون ’پنڈت رتن ناتھ سرشار‘ میں ملتا ہے، جو رسالہ’ کشمیر
درپن ‘ کے مئی 1904 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔اس طویل مضمون کی حیثیت سرشاراور ان
کی ناول نگاری کے سلسلے میں متوازن تنقیدی اورتقابلی مطالعے کی ہے۔ مضمون میں چکبست
نے سرشار اور فسانۂ آزادپر عائد الزامات اور ان دونوں کی بیجا تعریف سے قطع نظر ناول
کے فن، بالخصوص فسانۂ آزادسے متعلق اصولی بحث کی ہے۔ گو کہ مضمون کی نوعیت کسی دفاعی
اور انداز ِ بیان مناظرانہ ہے اس کے باوجود انھوں نے بڑی حد تک اس میںاعتدال برتنے
کی کوشش کی ہے۔ ’فسانۂ آزاد‘ کی اہمیت اور قدروقیمت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لفظوں کی نئی تراش، ترکیبوں کی خوبصورتی، کلام کی گرمی، مضامین کی
شوخی، طرز تحریر کی نزاکت، جواب وسوال کی نوک جھونک، زبان کی پاکیزگی، محاوروںکی صفائی،
روز مرہ کی لطافت، ظرافت کی گل کاری، تراشوں کی نئی پھبن، ایجادوں کے بانکپن نے لوگوں
کو حضرت سرشار کا والہ وشیدا بنالیا۔۔۔ محض قصہ سمجھ کر فسانہ آزاد کی وقعت کا اندازہ
کرنا سراسر نا فہمی ہے، اس فسانہ کا انحصار اس کی داستان کے مسلسل ہونے پر نہیں ہے۔
حضرت سرشار نے اس میںلکھنؤکی مٹی ہوئی تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ
لکھنؤ اس مٹی ہوئی حالت پربھی ایک عالم ہے۔‘‘ ( مضامین چکبست، لکھنؤ،1344ھ، ص40)
فسانۂ آزاد کی خوبیوں کا ذکرکرنے
کے بعدوہ اس کے کچھ عیوب بھی گنواتے ہیں اور شرر اور سرشارکے فن کا تقابلی مطالعہ بھی
پیش کرتے ہیں۔پورے مضمون میں چکبست نے فنی معیار، تنقیدی اصول اورگفتگو کی سطح کو برقرار
رکھا ہے۔
چکبست نے ناول کے واقعات کے
انتخاب، پلاٹ کی تنظیم، واقعات میں سبب اور نتیجے کی منطق، کرداروں کی تخلیق اور ناول
کی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا جس طرح اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان
کا ناول کا تصور خود سرشار اور شرر (جنھوں نے ناول کے علاوہ ناول کی تنقید یںبھی لکھی
ہیں) کے مقابلے میں زیادہ واضح اور فن کے جدید اصولوں سے بے حد قریب ہے۔
منشی پریم چند ہمارے پہلے
باضابطہ اہم افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں، ناول لکھے
ہیں اور ناول اور افسانے بلکہ یوں کہیے کہ فکشن کی تنقید بھی بہ نسبت زیادہ لکھی ہے۔
ناول سے متعلق،منشی پریم چندکے چار مضامین خاصے اہم ہیں۔یہ مضامین ہیں: ’اردوزبان اور
ناول‘، ’شرر و سرشار‘ ، ’ناول کا فن‘ اور’ناول
کا موضوع‘،جن کا زمانۂ تحریر 1910 سے لے کر 1931 تک کے عرصے کو محیط ہے۔ لیکن حیرت
کی بات یہ ہے کہ جس زمانے میں پریم چند عالمی پیمانے کے ناول لکھ رہے تھے اس زمانے
میں ان کی فکشن تنقید کسی حد تک مبتدیانہ نوعیت کی ہے۔ پریم چند کا ذہن در اصل خلاقانہ
تھا، ناقدانہ نہیں۔پریم چند اپنے پہلے مضمون’اردو زبان اور ناول‘میں لکھتے ہیں:
’’اردو دنیا کے لیے ناول ایک اچھوتی چیز تھی۔ زبان میں ایک ایسی چیز
کا رواج ہورہا تھاجو معمولی افسانوں سے زیاد ہ دلآویز،اور معمولی مثنویوں سے زیادہ
پر لطف تھی اس لیے پبلک نے حسب حیثیت ناولوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور برائے چند، ناولوں
کی خوب گرم بازاری رہی۔‘‘
(مضامین پریم چند،مرتبہ عتیق احمدانجمن ترقی اردو پاکستان، 1981، ص،228)
دوسرے علوم و اصناف کے مقابلے
میں پریم چند ناول کی وکالت کرتے ہوئے اس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بتاتے ہیں کہ
تاریخ،پالیٹکس یا فلسفے کا مطالعہ ہر خاص وعام کے لیے اس طور ممکن نہیں کہ دنیا کی
بیشتر آبادی جو تلاش روزگاراور کسب معا ش کی فکر میں پریشان رہتی ہے اس کے لیے ایسے
علوم کا مطالعہ دلچسپی کے بجائے ایک بے رس مشکل ترین عمل ثابت ہوگا۔ ’’سویہ غریب یا
تو ناول پڑھ سکتے ہیں یا کچھ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘ چنانچہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کی طرح یہ
باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس فن کے توسط سے دوسرے اہم اور مفید علوم کی تحصیل
کہیں زیادہ بہتر اور آسان طریقے سے کی جاسکتی ہے۔
بلاشبہ پریم چند عالمی ادب
اور اس کے فنی طریق کار سے آشنا اور اس کے حامی تھے،کہ وہ خود زندگی اور معاشرے کی
اصلاح کو ناول کے فرائض میں شامل کرتے تھے،ساتھ ہی وہ اس نزاکت سے بھی واقف تھے کہ
ا نسانی فطرت پر اثر انداز ہونے والی یہ لطیف تحریر کب تک فن رہتی ہے اور کب فن کے
دائرے سے خارج ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ ناول نگاروںکو استادانِ فن کی تخلیقات کا مطالعہ،
انسانی نفسیات کا بغور مشاہدہ،سچے جذبات کی عکاسی اور خیالات میں تازہ کاری کا مشورہ
دیتے ہیں۔پریم چند کے آخری تین مضامین سے ناول کی تعریف و تقسیم اور اس کے منصب و
مقصود کی تعیین ہوتی ہے۔گو کہ انھوں نے ’ناول کا فن‘میںلکھا ہے کہ’’ ناول کی تعریف
انتہائی مشکل ہے،آج تک اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہوسکی جس پر سب لوگ متفق ہوں۔‘‘
لیکن اپنے ایک دوسرے مضمون ’شرر وسرشار‘میں اس کی مفصل تعریف یوں کرتے ہیں:
’’ناو ل انگریزی لفظ ہے اور اگر ا س کا ترجمہ ہوسکتا ہے تووہ فسانہ
ہے۔لفظی حیثیت سے دونوں میں کچھ فرق نہیںمگر مفہوم کے لحاظ سے البتہ نمایاں فرق ہے۔
ناول اس فسانہ کو کہتے ہیں جوزمانہ کا،جس کا وہ تذکرہ کر رہا ہو،صاف صاف چربہ اتارے۔
اور اس کے رسم و رواج، مراسم و آداب، طرز معاشرت وغیرہ پر روشنی ڈالے اور مافوق العادات
کو دخل نہ دے،یا اگر دے تو اس کی تاویل بھی اس خوبی سے کرے کہ عوام ان کو واقعہ سمجھنے
لگے،اسی کا نام ہے ناول یا فسانہ۔‘‘(ایضاً، ص، 237-38)
پریم چند ناول کو ناول کے
خالق کی شخصیت،اس کے کردار، اس کے فلسفئہ حیات اور اس کے نتائج فکر کا آئینہ قرار
دیتے ہیں،چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مصنف اگر رجائی ہے تواس کی تخلیقات میں بھی امیدوں
کی روشنی اور حوصلوں کی تازگی نظر آتی ہے،اور اگر وہ قنوطی ہے توہزار کوششوں کے باوجود
بھی اپنے کرداروں کو زندہ دل بنانے میںناکام رہتا ہے۔وہ ناول میں طرز بیان کی دلکشی
اور اثرانگیزی کو لازمی قرار دیتے اور اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں کہ مصنف الفاظ
کا گورکھ دھندا رچاکر قاری کو اس مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرے کہ ناول میں کوئی حسن،خوبی
یااعلیٰ مقصد پوشیدہ ہے۔ ان کے نزدیک’’ناول نگار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے
پڑھنے والوں کے دل میںبھی ان ہی جذبات کو بیدار کردے جو اس کے کرداروں میں رونماں ہوں،اور
پڑھنے والا یہ بھول جائے کہ وہ کوئی ناول پڑھ رہاہے۔‘‘
مختصر افسانے کے فن اور اس
کی خصوصیات کے تعلق سے بھی پریم چند نے کافی کچھ لکھا ہے۔اس سلسلے میں ایک اہم اور
مزے کی بات وہ یہ لکھتے ہیں کہ :’’مذہبی کتابوں میں جو تمثیلی حکایتیں بھری پڑی ہیںوہ
مختصر کہانیاں ہی ہیں۔‘‘
(مضامین پریم چند،انجمن ترقی اردو پاکستان،1981، مضمون،مختصر افسانہ، ص، 252)۔
اس زمرے میں وہ بجا طور پر
مہابھارت، اپنشد، بائبل،حکایات لقمان اور بودھ جاتک وغیرہ کو شامل کرتے ہیں۔کردار نگاری
سے متعلق ان کا خیال ہے کہ افسانہ نگار کرداروں کی تحلیل نفسی کرنے نہیں بیٹھتا،صرف
اس کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔بعض اوقات تو مکالموں میں صرف ایک دو الفاظ ہی سے کام نکالتا
ہے۔وہ حقیقت کی بعینہ تصویر کشی کو فن تسلیم نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ’’ اگر ہم
حقیقت کی ہو بہو نقل کر بھی لیںتو اس میں آرٹ کہاں؟ فن صرف حقیقت کی نقل کا نام نہیں
ہے‘‘۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں’’یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے افسانے سے جو نتیجہ حاصل
ہو وہ مقبول عام ہو اور اس میں کچھ باریک نکتے بھی ہوں۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ رجحانات سے قطع
نظرفکشن کی تفہیم ا و رتشریح کے تعلق سے جن مسائل پر گفتگو کی جانی چاہیے ان تمام مسائل
کو پریم چند نے موضوع بحث بنایا ہے۔منشی جی نے فکشن کی جڑوں کی تلاش،اس کا ماخذ، افسانہ
و ناول کی تعریف وتقسیم، پلاٹ، کردار، کردار کی قسمیں، مکالمے، زبان وبیان، ان کے آغاز
وانجام،ان کے منصب ومقصد، پھر ناول اور افسانہ
کے فرق اوراس کے امتیازات پرکسی قدر اختصار سے لیکن کافی حد تک اطمینان بخش گفتگو کی
ہے۔
کرشن چندر ہمارے سب سے بسیار
نویس ترقی پسند فکشن نگار ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کے تحت لکھے جانے والے فکشن سے وہ خاصے
ناراض تھے، بالخصوص انٹی اسٹوری، غیرمربوط واقعات،بے پلاٹ کے افسانوں اور مبہم کرداروں کی پیش کش سے۔فکشن کی تنقید سے
متعلق ان کاایک اہم مضمون ’ہاتھی دانت کا ٹاور
‘ ہے۔جس میں انھوں نے جدید افسانے کے حوالے سے اپنے خیالات بیباک، تردیدی لہجے اورقدرے
جارحانہ اندازسے رکھے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’ادھر کہانی کے میدان میں کچھ نئے لوگ آئے ہیں۔ ۔۔۔۔ آپ جب ان سے
بات کریںگے تو ان کی گفتگو بالکل ٹھیک ٹھیک آپ کی سمجھ میں آئے گی۔ مگر جب یہ کہانی
لکھیںگے تو آپ کے پلے کچھ نہیں پڑے گا، سوائے ایک مجہول چپستان کے۔ وہ کافی ہائوس
جانے کا راستہ تو جانتے ہیں مگر اپنی کہانی کا راستہ انھیںمعلوم نہیں۔ انھیں اپنی ملازمت
کا مقصد معلوم ہے اپنی کہانی کا نہیں۔ جب وہ اپنے گھر جاتے ہیں تو دو ٹانگوں کے سہارے
قدم اٹھاتے ہوئے جاتے ہیںمگر اپنی کہانی میں سر کے بل رینگتے ہیں اور اسے آرٹ کہتے
ہیں۔ میں انھیں کہانی کار نہیں شعبدے باز کہتا ہوں۔ یہ لوگ رنگین الفاظ کے فیتے اپنے
منہ سے نکالتے ہیں، اپنی ٹوپی سے خرگوش، آپ کی جیب سے انڈا اور آپ کو حیران و ششدر
چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ بعد میں آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی جیب کی آخری چونی بھی شعبدے
بازی کی نذر ہوگئی اور ملا کچھ نہیں اور آپ کو کچھ ملے بھی کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ آپ
سے کچھ لینے کے قائل ہیں۔ عوض میں کچھ دینے کے قائل نہیں ہیں۔‘‘
(مضمون ہاتھی دانت کا ٹاور، از کرشن چندر، مشمولہ جدیدیت، تجزیہ و تفہیم
لکھنؤ، 1985، ص 293)
کرشن چندر کے مذکورہ اقتباس
سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ بیشتر ادیبوں کے تئیں نئے لکھنے والوں کی یہ شکایت درست
ہے کہ وہ اپنے فوراً بعد آنے والی نسل کو جو باغیانہ رویہ رکھتے ہوئے مروجہ ادبی اسالیب
سے انحراف کرتی ہے، یکسر رد کردیتے ہیں یا پھر ان کی تحریروں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔
اوپندرناتھ اشک نے اپنے افسانوی
مجموعے ’کونپل ‘ میں دیباچے کے طور پر’افسانہ: اس کا فن اور ترقی پسندی‘ کے عنوان سے
ایک مضمون شامل کیا ہے،جس میں انھوں نے افسانے، افسانے کی تھیم، اس کے پلاٹ، مقصد اور
کردار نگاری سے متعلق اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
’’… اٹھو، بولو اور بیٹھ جائو۔‘‘
کسی نے مقرر کو یہ قیمتی مشورہ
دیا ہے لیکن افسانہ نگار کے لیے بھی یہ کم قیمتی نہیں، جس طرح اچھے مقرر سے امید کی
جاتی ہے کہ فوراً اپنی تقریر شروع کرکے جو کچھ کہنا ہے، صاف اور عیاں الفاظ میں کہہ
کر بیٹھ جائے، نہ شروع میں فضول اور بے معنی تمہید باندھے، نہ درمیان میں سامعین کو
بلاضرورت ادھر سے ادھر لے جائے اورنہ خاتمہ کو غیرضروری طور پر طول دے۔ اسی طرح افسانہ
نویس سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک کامیاب مقرر کی طرح پہلے ہی فقرے سے ناظر کی
دلچسپی میں اضافہ کرتا جائے حتیٰ کہ کلائمکس پر پہنچ کر اس طرح افسانہ کوختم کردے تاکہ
جو اثر وہ اپنے ناظر پر ڈالنا چاہتا ہے، وہ تمام ترشدت کے ساتھ اس کے دل و دماغ پر
مسلط ہوجائے۔‘‘
(دیباچہ، ’کونپل‘ مکتبہ اردو لاہور، 1940، ص 9)
اس اقتباس سے افسانے کی تین
صفات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اول افسانے میں ’فضول اوربے معنی تمہید سے احتراز‘ دوم خاتمہ
کو غیرضروری طور پر طول دینے سے اجتناب اور سوم آغاز سے ہی قاری پر افسانے کی مضبوط
گرفت۔ اور یہ سب اس لیے کہ افسانہ نگار اپنا جوتاثر دینا چاہتا ہے، وہ تمام تر شدت
کے ساتھ قاری کے دل ودماغ پر مسلط ہوجائے۔ اشک کے خیال میں وہ افسانہ جسے پڑھ کر قاری
کو ایک طرح کی تسلی، ایک طرح کا اطمینان ہو،اور یہ احساس کہ اس نے کہانی پڑھ کے وقت
ضائع نہیں کیا اور ذاتی طور پر کہانی کے بنیادی خیال سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ
یقین کہ افسانہ نگار نے اس بنیادی خیال کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے، کامیاب افسانہ ہے۔
ترقی پسند افسانہ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ افسانہ اب اپنی حد تکمیل کو پہنچ گیا
ہے لہٰذا قاری کو اپنے خیال یا نظریے سے متاثر کرنے کے لیے انتہائی احتیاط اور ہنرمندی
سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
دوسرے ترقی پسندوں کی طرح
اوپندرناتھ اشک بھی افسانہ کو محض لطف و انبساط کے ذریعے کے بجائے زندگی کا ترجمان
مانتے ہیں، لیکن وہ مقصد پر فن کو قربان کرنے یا اسے اپنے معیار سے گرانے پر کسی طور
راضی نہیں، لکھتے ہیں:
’’آرٹ، آرٹ کے لیے ہے میں اس میں یقین نہیں رکھتا۔ آرٹ زندگی کے
لیے ہے اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہے اور اگر کوئی کہانی زندگی کا مرقع نہیں یا
ہمیں زندگی کو سمجھنے میں امداد نہیں دیتی تو وہ دلچسپ ہوسکتی ہے، فن کے لحاظ سے کامیاب
ہوسکتی ہے، لیکن نوع انسان کے لیے سود مند نہیں۔‘‘(دیباچہ، کونپل، ص،23)
دیوندر اسر اردو کے معروف
فکشن نگار اور فکشن کے اہم ناقد ہیں۔فکشن تنقید کے حوالے سے انھوں نے کافی لکھا ہے۔
ادب اور جنسیات، ادب اور فحاشی، مطالعہ اور نفسیات، ’اردو افسانہ : ایک مطالعہ‘ اور
’ادب اور فرائڈ‘ وغیرہ ان کے اہم مضامین ہیں۔’ادب اور نفسیات‘ اور ’نئی صدی اور ادب
‘فکشن تنقید کے حوالے سے ان کی اہم کتابیں ہیں۔ آخرالذکر کتاب میںا نھوں نے فکشن کے
متعدد مسائل، رجحانات، خدشات اور مشرق و مغرب کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ اہم
فکشن نگاروں مثلاً پریم چند، قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو اور دیوندر ستیارتھی وغیرہ
کے فکر وفن کوبھی زیر بحث لائے ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے تنقیدی مجموعوں میں بھی انھوں
نے فکشن کی مختلف جہات پر روشنی ڈالی ہے۔مذکورہ مجموعوں کے علاوہ ’فکر اور ادب‘، ادب
اور جدید ذہن‘،’مستقبل کے روبرو ‘ اور ’ادب کی آبرو‘ ان کے اہم تنقیدی مجموعے ہیں۔
جدید افسانہ نگارسریندر پرکاش اور
بلراج مین را بنیادی طور پر جدیدیت کے رجحان کے افسانہ نگار ہیں۔ سریندر پرکاش نے فکشن
سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اپنے مضمون ’نیا اردو افسانہ میری نظر میں‘ میں کیا
ہے۔ مین را ایک اہم رسالہ ’شعور‘ نکالا کرتے
تھے۔ انھوںنے کوئی باضابطہ تنقیدی مضمون تو نہیںلکھا لیکن ان کے تین ایسے مضامین ہیں
جن میںفکشن اور فکشن نگاروں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ان کا لہجہ ذرا سخت اور قدرے
مبہم ہے۔ ان کے مضامین ہیں ’تنبولا‘، ’ایک ناپسندیدہ کہانی‘ اور ’ایک اور نا پسندیدہ
کہانی‘۔ وہ جدیدیت کو نہ تو کوئی تحریک مانتے ہیں اور نہ ہی کسی تحریک کا ردعمل، ان
کے مطابق جدیدیت کا اطلاق ایک خاص طرح کے لوگوں کی ایک خاص طرح کی تحریر پر ہوتا ہے
جسے نباہنا ان کے مطابق آسان نہیں۔ لکھتے ہیں:
’’جدیدیت جسے ایک رجحان کہا جاتا ہے نہ تو تقسیم وطن کے بعد کسی سماجی
تحریک سے پھوٹا ہے اور نہ ہی رجحان کوئی تحریک بن پایا ہے جوصورت حال کو سمجھنے اور
سنوارنے کی ناکام یا کامیاب کوشش ہوتی۔ جدیدیت کا آغاز چند ایک حساس، دکھی اور برہم
نوجوانوں کی تحریر تھی۔ ان چند لکھنے والوں کی برہمی جو غلط یا صحیح تو ہوسکتی ہے،سچی
تھی۔ اس لیے نئی تحریر کا مشکل اور خطرناک کام ہوتا رہا۔‘‘
(مضمون ’تنبولا‘ مشمولہ اردو فکشن، مرتبہ آل احمد سرور، شعبہ اردو
علی گڑھ، 1973، ص 412)
گویا بلراج مین را کے نزدیک
جدیدیت ایک رویے کا نام ہے جبکہ سریندر پرکاش اسے ایک ایسی اصطلاح مانتے ہیں جس میں
اسلوب کے تجربے اور موضوع کی جدت کے ساتھ سماجی رشتوں کے پیچیدہ عمل کے نتیجے میں ظاہر
ہونے والے کرب کو محسوس کرنے اور کرانے کی صفت موجود رہتی ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
’’ایک بار نئے کی اصطلاح پھر دہرائی جانے لگی اور اس بار نیا ادیب محض
اسلوب کے تجربوں کے نئے پن کی بات نہیں کر رہا تھا، مواد کے نئے پن کی بھی بات ہورہی
تھی، واقعہ نگاری اور فرد کے سماجی رشتوں کی سطحی بات نہیں ہورہی تھی، بلکہ سماجی رشتوں
کے پیچ در پیچ عمل سے جو ہولناک نتائج برآمد ہورہے تھے، ان کے کرب کو محسوس کیا جارہا
تھا اور اس کرب کو ایک ذات کے وسیلے سے دوسری ذات تک منتقل کرنے کی بات ہورہی تھی۔‘‘
(سریندرپرکاش، مضمون ’نیا اردو افسانہ میری نظر میں‘ مشمولہ اردو فکشن،
ص 360)
یہ ہمارے وہ فکشن نگار ہیں
جنھوں نے فکشن اور فکشن کی تنقید میں اہم کارنامے انجام دیے ہیںاور اردو زبان و ادب
کو مختلف النوع فکر و خیالات، میلانات و رجحانات اور بیان و اسلوب کے جواہرات سے ثروت
مند بنانے میں بھر پور حصہ لیا ہے۔
Abu Bakar Abbad
Dept of Urdu
Delhi University
Delhi- 110007
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں