17/5/24

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024


بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے  اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولانا عثمان خاں راغب ہاشمی کا شعری رشتہ خدائے سخن میر تقی میر سے ملتا ہے۔ ان کی ایک نظم بہ عنوان ’فغانِ زندگی‘ ہے۔ یہ بیس اشعار پر مشتمل ہے،جو غزل کے فارم میں قافیہ ردیف کے ساتھ نظمائی گئی ہے۔ اس کا مطلع و مقطع اور تین اشعار درج ذیل ہیں          ؎

تو شریک حال ہے تو شادماں ہے زندگی

ورنہ ایک مجموعۂ آہ و فغاں ہے زندگی

ایک چھلاوا ہے ادھر آئی ادھر چلتی ہوئی

مٹنے والی موج دریاے رواں ہے زندگی

صدمۂ رنج و الم سے مجھ کو کیوں کر ہو نجات

لمحہ لمحہ کے لیے مجھ پر گراں ہے زندگی

در حقیقت زندگی اپنی ہے بیداری کا نام

ہم اگر سوتے رہے تو رائیگاں ہے زندگی

یہ ایک طویل نظم ہے جو زندگی کی مختلف کیفیات کے عکس کو پیش کرتی ہے۔اسی طرح ایک اور نظم ’نوائے وقت‘بہ زبانِ شاعر معاشرتی نظام میں ستیزہ کاری، ظلم و ترہیب کے عناصر کے تدارک کو نوائے وقت بنا کر زبوںحالی کے سد باب کی ترغیب دیتی ہے۔ ملاحظہ کریں         ؎

غم کی دنیا میں محشر خیز شورِ داروگیر

جس کو دیکھوں پنجۂ جوروستم میں ہے اسیر

سر پہ ہر انساں کے اب بھی سایۂ افلاس ہے

مفلسی ہے، تیرہ سامانی ہے بیم و یاس  ہے

بستیاں غم کی نظر آئیں جدھر اٹھی نظر

دل میں ہے ہنگامۂ محشر بپا شام و سحر

اک زمانہ ہے حوادث کے مرض میں مبتلا

جاں بلب سب ہیں کوئی کرتا نہیں اس کی دوا

مولانا موصوف کے تلامذۂ ارشد میں قابل ناز اردو نظم کا ایک ایسا شاعربھی رہا ہے جو اپنے دورحیات میں بے حد معروف و مقبول تھا۔ انھوں نے ایک نظم جو 1846 ناگپور کے عظیم الشان مشاعرہ میں پڑھی تھی۔ اس نظم کو سن کر ’طورِ درخشاں‘کے مدیر طرفہ قریشی بھنڈاروی نے خصوصیت کے ساتھ ’میرا ماحول‘ عنوان دے کر شائع کیا تھا۔ اس طویل نظم کے چند اشعار پیش ہیں          ؎      

کفِ جبرئیل میں تاجِ سعادت ہے جہاں میں ہوں

بشر شایانِ اعزازِ خلافت ہے جہاں میں ہوں

ازل سے فرق پر چترِ فضیلت ہے جہاں میں ہوں

الوہیت بداماں میری فطرت ہے جہاں میں ہوں

ہر شئے سے نمایاں حسنِ فطرت ہے جہاں میں ہوں

حقیقت آئینہ دارِ حقیقت ہے جہاں میں ہوں

کہاں آغاز لے آیا میرا بختِ رسا مجھ کو

شریک قسمتِ عالم مشیت ہے جہاں میں ہوں

واجب التعظیم، مستند استاد راغب ہاشمی کے فرزند برکات احمد خاں جو گروہِ راغب کے جانشین تھے، اور عریضہ نویسی کے پیشے سے لے کرموصوف اپنے والد بزرگ گوار کی ادبی سرگرمیوں میں قدم بہ قدم ہمرکاب رہے ہیں۔ لائقِ تحسین اس فرزند دلبند نے برہان پور کے ادبی محاذ پر اپنی زیرک مزاجی کے مثالی نقوش بنائے ہیں۔ جو کم و بیش 80 سال تک نقشِ نگیں کی طرح نمایاں رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شعر برہان پور کی سرزمین پر یہ فردجلیل راغب ہاشمی کے نام سے معروف رہا ہے۔

ان کی ایک غزل بہ عنوان ’امتحانِ زندگی ‘ کے چند اشعار پیش  ہیں         ؎

صحیفے دے کے بھجوایا گیا ہوں

یہاں آخر میں جھٹلایا گیا ہوں

نیاز و ناز کے ہر امتحاں میں

بہر صورت کھرا پایا گیا ہوں

مولانا راغب ہاشمی کے تربیت یافتہ تلامذہ میں حضرت حمید اللہ خلیق ایک خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ  دارالادب برہان پور کے شعرا میں محمود درانی،شفیق راز، قیصر انصاری، گردوں فاروقی ہیں۔ فنِ سخن گوئی میں ان اصحاب نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے شعری کلام کے طلسمی جمال کے عرصۂ دراز تک اہل قلم، اہل ہنر گرویدہ رہے ہیں۔ نیا ادب اور بدلتی ہوئی ادبی فضا کے باوجود ان تمام نے اپنے ادبی شعری رجحان کو روایتی شعری تہذیب کا پاسدار بنائے رکھا۔ مثال کے طور پر گداز ریشمی لہجے کے ہر دل عزیز شاعر محترم خلیق برہان پور ی نے کثیر تعداد میں نظمیں تخلیق کی ہیں۔ان کی ایک نظم ’رقاصہ‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

دل شکستہ غم سے افسردہ جبینِ تابناک

دامن صبرورضا دست ہوس سے چاک چاک

آمدِ انفاس میں الجھا ہوا تارِ نفس

چتونیں کہتی ہوئی خاموش رودادِ قفس

اُف یہ دیوی اور رقّاصہ کے روپ میں

اک شگفتہ پھول زر کی شعلہ افشاں دھوپ میں

اس کو ملنا چاہیے تھا حورِ دنیا کاخطاب

اس کو ہونا ہی نہ تھا اسٹیج پر یوں بے نقاب

اس رنجور دل شاعر کے تفکر کی یہ سوزش کی رو آگے بڑھ کر ناخواندہ خواتین سے یوں ہم کلام ہوتی ہے    ؎

پاک سیرت محترم خاتون اے عالی صفات

آج کچھ کہنا ہے تجھ سے سن بگوش التفات

عالمِ انسانیت میں تیری ہستی فرد ہے

تیرے کوچے میں شکوہِ شہریاری گرد ہے

در حقیقت ہے تری آغوش ایک تعلیم گاہ

زندگی کی جس میںملتی ہے نئی اک شاہراہ

قوم کی بگڑی ہوئی حالت بنا سکتی ہے تو

قسمتِ خوابیدہ صدیوں کی جگا سکتی ہے تو

علم کی دولت سے تیری روح ہے ناآشنا

تو سمجھ سکتی نہیں نسوانیت کا فلسفہ

خلیقی زمرے سے تعلق رکھنے والے شاعر اور مدرس جناب ناصر شاہی نے دور حاضر کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوکر چند نظمیں، ہائیکو اور سانیٹ بھی تخلیق کیے ہیں، جو ان کے غیر مطبوعہ ذخیرے میں محفوظ ہیں۔یہاں کے مقامی اردو ادبی حلقوں کی فضا میں اس جدید اصنافِ سخن کا رواج عام نہ ہونے کے سبب موصوف نے غزل ہی کے دامن میں پناہ لی، اس کے پیچ و خم سنوارتے رہے۔ آپ ہی کے ہم ذوق، ہم پیشہ، دیرینہ دوست رشید آثار صاحب نے وافر تعداد میں مختلف النوع کیفیات سے مملو نظمیں تخلیق کی ہیں۔ لیکن آپ نے اب تک نظموں کا مجموعہ کتابی صورت میں شائع کرانے کی پہل نہیں کی ہے اور موصوف کے شاگردوں نے آپ کا شعری مجموعہ ( لمس کی خوشبو)نہایت عمدگی سے شائع کیا ہے۔

خلیقی گروہ سے وابستہ خلیل خانقاہی نے بھی اپنی معلمی کی خدمت سے منسلک رہتے ہوئے طفلی نظموں سے دبستانِ اردو میں اضافہ کیا ہے۔ مجموعہ بھی ’سہانے گیت‘ (رحمانی پبلی کیشن ،مالیگائوں مہاراشٹر) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اسی طرح راقم (بسم اللہ عدیم )نے بھی دلچسپ، من موہک معلوماتی نوعیت کی خاطر خواہ نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔’سنہرے خواب، تتلی کے پر‘ جیسے دو مجموعے بھی شائع کرائے ہیں۔ غزلوں کا مجموعہ ’لفظوں کی کائنات‘ بھی منظر عام ہوچکا ہے۔

گہوارۂ ادب برہان پور کا ایک اور ادبی حلقہ ناسخ لکھنوی کے سلسلے سے وابستہ ہے۔ الفاظ کے دروبست، شعری محاس اور نفاست کے معاملے میں سلسلہ ناسخ لکھنوی کے اس مقلد گروہ نے مذکورہ جملہ خوبیوں کو یہاں کے ادبی ایوان میں مقدم رکھا ہے۔  اس اسکول کے نگارخانے میں ہنر غازی پوری کے نقشِ قلم کی جولانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس ادبی نگار خانے کے نغزگو حضرات کے سرپرست، اتفاق رائے سے منشی علیم اللہ خیالی مقرر ہوئے۔

منشی علیم اللہ خیالی صاحب نے متعدد اصناف سخن میں اپنی پختہ گوئی کے جواہر ریزے ہنرمندی سے بکھیرے ہیں۔ آپ نے گراں قدر ادبی و شعری خدمات انجام دی ہیں۔ اپنے دورِ حیات میں جاری ادبی شعری نشستوں کی صدارت کے ساتھ کئی مشاعروں کے ذریعے سامعین کو بھی اپنے کلام بلاغت کی فصاحت سے محظوظ کیا ہے۔ ادبی رسائل و جرائد، اخبارات، گلدستوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔نظموں پر مشتمل ان کا مختصر مجموعہ ’دورِ جدید‘ بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آپ کا زیادہ تر کلام طباعت سے محروم رہا۔ آپ کے شاگرد،تلامذہ کا حلقہ انتہائی وسیع تھا۔ شہر برہان پور کے علاوہ اطراف میں برار، خاندیش اور مختلف شہروں تک آپ کے تلامذہ پھیلے ہوئے تھے۔ اہم شاگردوں میں علی محمد اوج، شکراللہ جلالی، امام علی خاں حاذق بنارسی، میر شجاع الدین، منشی حکیم اللہ حیرت(خلفِ خیالی)،محمد صدیق ذکی، حشمت اللہ ریاضی (جانشین خیالی)، حبیب اللہ شرر، محمد قاسم لطافت، منشی علیم اللہ ہلالی، ظہور حسین رضی، محمد اسماعیل فہمی (مترجم مآثر رحیمی)،منشی عبدالستار مضطر، جاوید انصاری(مصنف تاریخ زرنگار برہان پور) ہیں۔

برہان پور کے دبستانِ اردو ادب میں حشمت اللہ ریاضی(برادرم خرد جانشین خیالی)نے بھی استادی کے درجے پرپہنچ کر اپنی شعری بصیرت کا فنکارانہ ثبوت دیا ہے۔

حشمت اللہ ریاضی کے بعد اس گروہ کی سربراہی میں فاضل انصاری کی ادبی وشعری نگارشات اہمیت کی حامل ہوئی ہیں۔ حضرت ریاضی کی جانشینی اختیار کرنے کے بعد آپ نے علاقے کے نوجوان ابھرتے شاعروں کو ادبی نمائندگی کا اہل بنایا ہے،اور مبتدیوں کے کلام کی تندہی سے اصلاح کرتے ہوئے انھیں نکھارا ہے۔ اس میں اول درجے پر کلاسکی ترنم کے خوش گلو نمائندہ شاعراختر آصف، شعری مجموعہ آزاد پرندے کے خالق اور عزیز انصاری (آکاش وانی مدھیہ پردیش بھوپال کے پروڈکشن اسسٹنٹ )کے علاوہ ایڈوکیٹ سراج انصاری، ہزل گو واحد انصاری، عبدالخالق ساگر،ندیم فاضلی (شعری مجموعہ روشنی )، زاہد وارثی، تفضیل تابش اہم نام ہیں۔ بہر حال مرحوم فاضل انصاری خالص شاعرمزاج فرد تھے۔ نیز پختہ شعور کے ساتھ شعری محاسن اور نئے ادبی نکات پر بحث و تمحیص کرنا انھیں ازحد مرغوب تھا۔ کیونکہ آپ عمیق مطالعے کے حامل سخنور تھے۔

فضل حسین صابر پیشے کے اعتبار سے ایک خطاط اور ماہر سنگتراش تھے۔ آپ نے اردو ادب کے نظمیہ ڈکشن میں قابل قدر لحاظ سے مخمس کا نظمیہ پہلو اپنایاجو روایت کی لکشمن ریکھا کی طرف داری کو نمایاں کرتا ہے۔ اس ریکھا کی حد میں رہ کر جب بارِ الم سے بَولا جاتے ہیں تو تسکین قلب کی خاطر یوں گویا ہوتے ہیں          ؎

دشمن ہے آسماں اُدھر اور اِدھر زمیں

افسوس اس جہاں میں ٹھکانہ کہیں نہیں

اک جان رہ گئی ہے فقط اور کچھ نہیں

باتیں تھیں پیار کی نہ محبت کی تھی نظر

احساس نام کو نہ تھا بے حس تھے اس قدر

لیکن خدا کا شکر، یہ پیدا ہوا اثر

کل تک جو ہنستے رہتے تھے صابر کے حال پر

آج اس کی داستانِ الم سن کے رو دیے

محمد غلام حسین بہ تخلص شمیم اشرفی گردشِ آلام، معاشی فکر کی اذیت کو سہنے کے باوجود سحر دامانی کو تھامے اپنے اکہرے بدن کے ساتھ توانا شعری متاع سے دارالسرور برہان پور کے ادب میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ ان کا شعری سلسلہ شمشاد لکھنوی سے شرع ہوکر اس تاریخی ادبی شہر میں حاذقی گروہ کا فروغ رساں ہوا ہے۔ اس طرح جانشین استاد فضل حسین صابر کے خواجہ تاش علامہ سید مطیع اللہ راشد کے فیضانِ سخن سے جلا پاتے رہے ہیں۔ آپ ہی کے آئینۂ سخن سے اس شہر کا نام اردو ادب کی دنیا میں عظمت کا باعث بنا ہوا ہے۔

شمیم اشرفی کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے لیکن خصوصیت کے حامل صرف چند اشخاص کے نام درج کرتا ہوں۔ جن میں عبدالباقی پیرزادہ، عبداللطیف شاہد ، تسنیم انصاری، نعیم خادمی اور نئے ادبی رجحان، جدید فکر کے شاعر کلام آذر بھی شامل ہیں۔

مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر ضلع برہان پور کی اردو ادب کے لحاظ سے یہ نامکمل، تشنہ اور ایک ہی شعری صنف سے متعلق ایک ہلکی سی جھلک ہے۔

اب سے تقریباً 57-58 سال پہلے ایم عرفان صاحب نے پندرہ روزہ ’شعلۂ حیات‘بھوپال (مدھیہ پردیش) کا اردو نمبر یکم اکتوبر 1964 کو شائع کیا تھا۔ یہ 142 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس میں تقریباً 127صفحات بھوپا ل کے لیے مختص تھے،اوربقیہ 15 صفحات مدھیہ پردیش کے دوسرے شہروں جیسے کھنڈوہ، ساگر اور برہان پور پر نہایت قلیل معلومات تھیں۔ اس نمبرکے بعد ماہنامہ آجکل دہلی نے اگست ستمبر 1972 میں اردو نمبر شائع کیا دوسرے صوبوں کی طرح مدھیہ پردیش میں اردو موضوع پر سید قمرالحسن صاحب نے (22 تا 28 صفحاتی )مضمون لکھا۔ امید تھی کہ آنجناب کا یہ مضمون مدھیہ پردیش کے ادبی تعارف میں بھر پور ہوگا۔ کیونکہ، موصوف مرحوم ایک قابل قدر بھوپال کے صحافی تھے مگر اس مرتبہ بھی مدھیہ پردیش اپنی ادبی خدمات کے ذکر سے محروم رہ گیا۔ کچھ سال گزرنے بعد شاہد ساگری نے ’عکس کہکشاں‘پیش کیا وہ بھی مدھیہ پردیش کا ادھورا ادبی تعارف تھا۔چوتھا موقع مدھیہ پردیش اردو کادمی کو ملا۔کثیر سرمایہ صرف کرکے اکادمی نے ایک ضخیم کتاب (984 صفحات پر مشتمل) ’مدھیہ پردیش میں اردو ادب کے پچیس سال‘ شائع کی تھی جو کچھ معلومات اس میں درج ہوئیں، ان پر اکادمی نے شعوری طور سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی۔  اس طرح مدھیہ پردیش کا ادبی تعارف آج بھی نامکمل ہے۔

جب مدھیہ پردیش صوبے کی تشکیل نہیں ہوئی تھی اس وقت بھی دو ضخیم کتابیں ’تذکرۂ گلزار‘مؤلف جگن ناتھ پرساد مصر فیض (مطبع نول کشور)اور برج کرشن کول بیخبر نے 1931 میں انڈین پریس الٰہ آباد سے شائع کروائی تھیں۔ ان دونوں کتابوں کا ذکر یا حوالہ نہ ہی ’شعلۂ حیات‘ میں آیا اور نہ ہی ’آجکل‘ میں آیا۔ علاوہ اس کے اکادمی کی مطبوعہ کتاب میں بھی درج نہ ہوسکا۔ دورِحاضر میں مدھیہ پردیش سے دو ایسے ادبی جریدے (کاروانِ ادب، بھوپال۔ انتساب،سرونج) شائع ہوتے ہیں جو یہاں کے اردو ادب کا تعارف بہ حسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔

           

Bismillah Adeem Burhanpuri

Sant Kabeer Marg, Juheriwada Mahajnapeth,

Burhanpur- 450331 (M.P)

Mob.: 9630174593, 9754242468


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ تمدن ہند، مصنف: محمد مجیب

  اردو دنیا۔ اکتوبر 2024 فن تعمیر آٹھویںصدی تک مندر کے نقشے اور اس کے لازمی اجزا کا تعین ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تعمیری سرگرمی کا ایک دور ...