6/6/24

جگن ناتھ آزاد کی نظموں میں شعری عمل کی جہتیں، مضمون نگار: احمد امتیاز

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024


جگن ناتھ آزادکی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے لیکن ان کے کارنامے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں تھے۔ ان کے تفاعل کی جہتوں میں شاعری کا مقام بہت بلند ہے لیکن انھوں نے صحافت، درس و تدریس اور انتظامیہ کے فرائض بھی انجام دیے۔ شاعری میں غزلوں اور نظموں کے علاوہ رباعیات، قطعات،  نعت و منقبت،سلام اور شخصی مرثیے لکھے۔ نثر میں سفر نامے، خود نوشت، خاکے اور تنقید لکھی۔ تنقید میں اقبالیات ان کا خاص میدان تھا۔ وہ کلاسیکی ادب اور علم الشعریات سے بخوبی واقف تھے۔ انھیں مغربی ادب، تحریک اور رجحان کا بھی خوب علم تھا۔ ان تمام جہتوں نے اُن کی فکر کو ایک خاص قسم کی کشادگی اور فہم کو مختلف انداز کی وسعت عطا کی تھی۔ اسی فکر و فہم نے اُن کی شاعری اور تنقید کو زندگی کے گوناگوں تجربات سے مالا مال کیا تھا۔ انھوںنے اپنی شاعری میں اپنے عہد کی بھر پور عکاسی کی اور انسان کی پامال تہذیبی صورت حال کو پیش کیا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں تقسیم کے کرب کو ایک خاص عنوان عطا کیا اور مسلسل و متواتر خواب شکنی کو نئے اسلوب سے آشنا کیا۔ سیاسی اخلاقیات اور اخلاقی سیاسیات کے درمیان حواس باختہ زندگی اور زیست بسر ی کو شعری جامہ پہنایا۔ اس پیش کش میں اُن کا شعری لحن کبھی بلند آہنگ، کبھی نرم رَو، کبھی جذبات آمیز تو کبھی سادہ نظر آتا ہے لیکن غصّہ اورنفرت کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔

 جگن ناتھ آزاد کی نظموں میں محض جذباتی رَو یا میلان کار فرما نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے جن بہترین تفاعل نے مجھے متاثر کیا، اُن میں سے ایک یادوں کی باز آفرینی ہے۔ ایسی بہت سی نظموں میں ہمیں شکوہ، شکایت اورتلخ و شیریں تجربات  دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن انھیں نظم کے اجتماعی آہنگ سے کسی طور جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس قسم کے رویے سے اُن کی نظموں کا کینوس بہت وسیع ہو گیا ہے۔ ان کی اکثر نظموں میں تخلیقی جو ہراور لسانیاتِ شعری کی کشادگیوں کا احساس ہوتا ہے اور یہی کشادگی نظمیہ حقیقت کو ایک نئی حقیقت کے قالب میں ڈھالنے اور اُن میں نئے تخلیقی امکانات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں روز مرہ کو بڑی خوبی کے ساتھ برتتے ہیں بلکہ اسما و الفاظ اور مصطلحات کا بھی برجستہ استعمال کر تے ہیں۔ اس لیے ان کی نظموں میں تخلیقی رَو کے طور پر نئے نئے لسانی زمرے خلق ہوئے ہیں جو عمومیت پر قائم ہونے کے باوجود تخصیص کی کوئی نہ کوئی رمق اپنے جلو میں ضرور رکھتے ہیں۔

 جگن ناتھ آزاد کا ذہن مصورانہ فکر رکھنے والا ذہن ہے۔ وہ کسی شے کی بجائے اشیا  کی جُھرمٹ خلق کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کو کسی ایک اسلوب کا شاعر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال، جوش اور فیض کے اسلوبِ شعری سے انھوں نے خوب فائدے اٹھائے ہیں۔ بعض نظموں میں اگر انھوں نے اپنی آواز کو پایا بھی ہے اور انھیں ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی کی ہے تو بھی وہ زیادہ دور اور دیر تک اسے برقرار نہیں رکھ سکے ہیں۔اس کے باوجود آزاد نے بعض بے حد عمدہ مختصر نظمیں کہی ہیں جن میں تخلیقی رچاؤبھر پور ہے۔ آزاد طبعاً طویل نظم کے شاعر ہیں اس لیے توضیح، تعمیم اور طوالت میں انھیں زیادہ تسکین حاصل ہوتی ہے۔ غور کریں تو ایسی نظموں میں ہمیں فنّی ضبط اور ارتکاز کا گہرا شعور بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نظم کی بافت کو چست درست رکھنا، موضوع اور مقاصد کی مرکزیت کو قائم رکھنا، آسان نہیں ہوتا۔ آزاد کے دور کے بیشتر نظم گو شعرا کے یہاں زبان کو برتنے کی جو تکنیک رائج تھی اُس میں زبان کو گرفت میں رکھنے کے بجائے خود شاعر زبان کا محکوم ہوجاتا تھا۔ جہاں زبان کے بہاؤ پر قابو رکھنے کی ضرورت تھی وہاں نظم گو شعرا تمام تر حقوق زبان کو ودیعت کر دینے میں اپنی کامیابی سمجھتے تھے۔ آزاد کے شعری تجربوں میں بھی کم و بیش ویسی ہی طولِ کلامی موجود ہے۔ جو نظم کم سے کم الفاظ میں سمٹ سکتی تھی اسے وہ لفظ بہ لفظ اور مصرع بہ مصرع پھیلا دیتے ہیں۔ یہ طریقہ ان کی علیحدہ شناخت کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ وہ اکثر نظم میں چند عمدہ مصرعے کہنے کے بعد بیان کی کشش پر توجہ مرکوز کر لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ زبان و بیان کی کشش اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے تاہم بیان کا اختصار کسی بھی نظم کو پر اثر بنانے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ نظم میں مکررد ہرائے جانے والے موضوعات و مسائل گہری معنویت پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نظم کی خود رَوی بھی متاثر ہوتی ہے اور ایک نظم میں دوسری نظموں کی گونج بھی سنائی دینے لگتی ہے۔

جگن ناتھ آزاد کی شاعری پر ہم موٹے طور پر تین زاویوں سے گفتگو کر سکتے ہیں۔پہلا یہ کہ اردو کی شعری روایت کی توسیع میں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ دوسرا یہ کہ اپنے فکری اور فنی رویوں میں اُن کی ترجیح ’ انکار‘ کی کس روش پر ہے؟ یعنی یہ’ انکار‘ کی روش ا نحراف کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے یا بغاوت کی۔تیسرا یہ کہ ان کے شعری متن کے ترکیبی عوامل اور تخلیقی سرچشموں کے سراغ کی گنجائش کس حد تک ہے؟جگن ناتھ آزاد کے تعلق سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اردو کی ادبی روایت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ شعری زبان کی باریکیوں اور لطافتوں کا بھی انھیں بخوبی علم تھا۔ طبعاً ان کا ذہن کلاسیکی تھا اور وہ اپنی فکر میں جس قدر چست تھے، زبان و لسان کے تخلیقی عمل میں بھی اسی قدر محتاط تھے۔ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ تقسیم کے کرب کی نوعیت پر مشتمل ہے لیکن ان کی نظمیں اور بعض نظموں کے حصے تخلیقی احساس اور معنی خیز لسانی تجربے کے مظہر ہیں۔ جمنا کے کنارے، باد ِخزاں، دیارِ محبوب کو جاتے ہوئے، صدائے بازگشت، ترک ِتعلق کے بعد، پس ِپردہ، نئی محفل، طوفان کے بعد، ایک منظر، کنا رِ واد ی، امید موہوم، گم شدگی، وطن میں آخری رات، جیسی نظموں میں جگن ناتھ آزاد، اُس جگن ناتھ آزاد سے قطعاً مختلف نظر آتے ہیں جو اپنی کئی نظموں میں ایک واقعہ گو کا کردار ادا کرتے ہیں۔ فریبِ نظر، پناہ گزیں، کل رات کو، تیرے شہر میں مَیں نے دیکھا تھا، افکارِ پریشاں، تجدیدِ وفا، احساسِ ندامت، جنونِ وفا، یورپ کی پہلی جھلک،سوہو کی ایک رات، وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو محض ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہیں۔ تاہم ملک کی سیاسی بساط پر کھیلے گئے دل خراش کھیل کا اظہا ر اور تخلیقی لسانی تجربے کا عمل، ان نظموں میں نئے معنی کا سراغ ضرور دیتا ہے۔ آزاد کی بعض نظمیں ایسی ہیں جو بے حدPathetic ہونے کے باوجود اپنی فضا، سچائی، جذبۂ اِخلاص کی معصومیت اور پاکیزگیِ خیال کی وجہ سے عمدہ تاثر فراہم کرتی ہیں۔ جیسے ان کی ایک نظم ہے: ’پناہ گزیں‘، اِس نظم کی بافت، تفصیلات و جزئیات کے ساتھ بخوبی منسلک ہے۔ اس میں تقسیمِ ملک کے کرب کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ اس گونج میں آزاد کی آواز کو ہم بڑی آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔ نظم کچھ یوں ہے       ؎

خموشیوں میں حادثوں کی داستاں لیے ہوئے

 دلِ حزیں میں درد و غم کا اک جہاں لیے ہوئے

نگاہ میں حدیثِ جَورِ دوستاں لیے ہوئے

 رواں ہے ایک قافلہ

مکاں کسی کا جل گیا کسی کا گھر اُجڑ گیا

کسی سے کوئی زندگی کا آسر ا بچھڑ گیا

لٹی ہوئی بجھی ہوئی جوانیاں لیے ہوئے

 رواں ہے ایک قافلہ

اگرچہ دور آچکے دھڑک رہے ہیں دل ابھی

قدم میں کپکپی سی ہے نظر ہے مضمحل ابھی

خموش لب پہ حشرِ نالہ و فغاں لیے ہوئے

 رواں ہے ایک قافلہ

 بجھی بجھی نگاہ میں امید بھی ہے یاس بھی

 نظر میں حوصلے بھی ہیں محیط ہے حراس بھی

 غرض عجیب رنگ کی کہانیاں لیے ہوئے

 رواں ہے ایک قافلہ

بیانِ نطق میں زبانِ شعر میں نہ آسکے

جسے فقط نگاہِ غم نصیب ہی سنا سکے

تباہیوں کی وہ مہیب داستاں لیے ہوئے

 رواں ہے ایک قافلہ

ہدیۂ نیاز، گہے بر طارمِ اعلیٰ نشینم، بھوپال، حوری ندانم یا پری، ما تمِ سالک، یہ خاک ہے محرمِ جدائی،محسن کی راکھ وغیرہ جیسی طویل نظم میں شاعر کاداخلی تجربہ بھی عود کر آیا ہے۔ ایسی نظموں میں ہم ایک ایسی نار است زبان سے بھی دوچار ہوتے ہیں جس میں کہیں استعارے کی چمک اور پیکر کی دمک نے سارے تناظر کو متحرک بنا دیا ہے۔ جگن ناتھ آزاد کے یہاں اُس دور کے دیگر نظم گو شعرا مثلاً: وحید اختر،سلیمان اریب، را ہی معصوم رضا، ندا فاضلی وغیرہ کی طرح اسلوبی تنوع پیدا کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ زبان کا استعمال اوربحور و آہنگ کے برتاؤ کے اعتبار سے بھی ہمیں ان کے یہاں تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً: نظم’اے دلِ بے قرار دیکھ ‘ کا یہ بند      ؎

دا منِ  لالہ زار میں

عالمِ  پُر  بہار  دیکھ

کلّۂ  کوہسا ر   پر

جلوۂ  زر  نگار  دیکھ

آبِ رواں کی بات کیا 

خاک پہ ہے نکھار دیکھ

اے دلِ بے قرار دیکھ

یانظم ’اے کوہِ مسینا‘ کے یہ بند دیکھیں           ؎   

 در  ماندہ  مسافر  کے  لیے  منزلِ تسکین

 یا  بحر کی  موجوں  میں  ہے  تو  ایک سفینہ

اے  کوہِ  مسینا

سسلی کو یہ کہتے ہیں کہ اٹلی کی ہے خاتم

سسلی جو ہے خاتم تو ہے تُو اس کا نگینہ

اے  کوہ  مسینا

مذکورہ نظموں کی محض وقتی اہمیت ہے لیکن آزاد کے ذہنی سفر میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ نظمیں آزاد کے ایک خاص نقطۂ نظر کی غماز ہیں۔ انھیں زیادہ مؤثر اور پر کار بنانے کے لیے آزاد نے استعجابی لہجہ اختیار کیا ہے۔ آ زاد نے جن کو اپنا تخاطب بنایا ہے۔ان کی سائیکی کا خوب خیال رکھا ہے۔ کسی بھی شاعر کے انفراد کے تعین میں اس کا خاص انتخاب رہتا ہے۔ آزاد نے بھی زبان کی فہم کے ساتھ عوام کے ایک خاص طبقے سے خطاب کیا ہے۔ اسے ہم آزاد کے تخلیقی شعور کی بہترین نمائندگی کا نام دے سکتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد کی بیش تر نظمیں،جن میں چند کا نام او پر لیا جاچکا ہے، ہمیں اپنے طریق ِ لسان اور موضوع کو برتنے کے لحاظ سے بھی ایک مختلف قسم کے طرزِ احساس سے متعارف کراتی ہیں۔ ان کی نظموں میں خطابت کا انداز بھی ہے، شور آگیں آہنگ بھی ہے اور کہیں کہیں غیر متعلق طول کلامی بھی ہے لیکن ان سب کے باوجود نظموں میں جو تخلیقی رو یہ ہے وہ نظم کہنے کے مقصد کو بھر پور طریقے سے متعین کرتا ہے۔

جگن ناتھ آزاد نے اپنی نثری تحریروں میں 1857 سے لے کر1947 تک کے درمیانی وقفے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات نے ہر ایک کو کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تقسیمِ ملک کے بعد کے مسائل نے آزاد پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے کلام میں وطن سے ہجرت کا کرب سب سے زیادہ ہے۔ وہ بار بار ماضی کی طرف پلٹتے ہیں اور ناسٹلجیائی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ملک کی تہذیب اور قدروں کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ بے چین ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندوستان کی مختلف صورتِ حال کو نظم کیا گیا ہے جن سے ان کی شاعری کے مقصد کا تعین ہوتا ہے۔ ابتدا میں وہ بھی شاعری کو الہامی چیز ہی خیال کرتے تھے لیکن پھر’ آسمانی برکت‘ کہنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ماحول کے اثر سے نہ میںآزاد ہوں نہ میری شاعری‘‘۔ سیاسی صورتِ حال اور عوامی مسائل، ان کی شعری ترجیحات میں کیوں کر اہمیت اختیار کرتے ہیں اور اس کے پیچھے کون سے اسباب کار فرما ہیں؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ان کے تجربے اور مشاہدے جس طرح ان کی نظموں میں پیوست ہیں وہ اصلاً  ان کے باطن کی آواز ہی ہے۔ ان کی نظموں میں جس طرح پیکروں کا سلسلہ قائم ہوتا ہے اور وہ جس طرح احتساسی کیفیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، وہ جلال کے وجود کو جمال کے نرم آگیں احساس میں بدل دیتے ہیں۔ ان کی نظموں میں جہاں تخلیقی عمل کی طلسماتی کیفیت خود بخود الفاظ کا مناسب انتخاب کر لیتی ہے اور اسے استعاراتی و علامتی معنوں تک پہنچا دیتی ہے، وہاں تخلیقیت کے رنگ کو بھی گہرا کر دیتی ہے۔ تخلیقی، طلسماتی، پُر اسرار روحانی عمل اور سِرّی تجربوں سے گزرنے کے بعد ہی اس قسم کی نظم وجود میں آسکتی ہے      ؎

 اے کشورِ ہندوستاں؍ اے خطۂ جنّت نشاں ؍ اے سجدہ گاہِ قدسیاں ؍ اے منبعِ انوارِ حق؍ اے کعبۂ روحانیاں ؍ اے قبلۂ عرفانیاں؍ اونچا رہے تیرا نشاں؍وہ عرفیِ شیریں زباں ؍ وہ فیضیِ جادو بیاں ؍ وہ مشہدیِ نکتہ داں؍ سرمد، کلیم و آملی ؍ سب شاعرانِ دُرِّفشاں؍ تیرے ہیں گنجِ شا ئیگاں؍ اونچا رہے تیرا نشاں ؍ اے کشورِ ہندوستاں

یا           ؎

 ہرخشت میں آباد ہے افکار  کی  دنیا

ہر رنگ میں ہے جذبۂ بیدار کی دنیا

 ہر نقش میں خوابیدہ ہے  اسرار کی  دنیا

تعمیر ہے تیری کہ ہے انوار کی  دنیا

کیا تجھ سے کہوں کیا ہے تری اوجِ مقامی

تو عالمِ فانی میں ہے اک نقشِ دوامی

 اے معبد ِار باب ِ یقیں!حاصلِ ادراک

اے منزلِ انوارِ کُہن جلوہ گہہِ پاک

 ہستیِ دوامی سے عبارت ہے تری خاک

کیا گردشِ ایّام ہے کیا گردشِ افلاک

دنیا ہے تری نورِ فزا روزِ ابد تک

ہے ساز ترا نغمہ سرا روزِ ابد تک

 (نظم:’ دہلی کی جامع مسجد‘)

 علی سردار جعفری کے بعد جگن ناتھ آزاد ہی ہیں جنھوں نے پیکروں کو اتنی خلّاقی اور گہری حسّیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جگن ناتھ آزاد حسّی پیکر خلق کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی ترنم پر بھی بہت زور دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی بیش تر نظموں میں ترنّم کا بہاؤ قاری کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ کنا رِراوی، ایک مشکل، بُرا نہ مان، نظر میں نہ خبر میں، ماتمِ سالک و غیرہ ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں ترنّم کا بہاؤ،قرأت اور سماعت دونوں لحاظ سے، اپناگرویدہ بنا لیتی ہیں۔’ کنارِ راوی‘ کے چند اشعار ملاحظہ کریں جس میںترنّم کی داخلی رَو اور احتساسی پیکر کی عمل آوری سے نظم کس قدر مؤثر بن گئی ہے        ؎

یہ وقتِ شام یہ آبِ رواں یہ تنہائی

سکوت ِشام میں قدرت کی محفل آرائی

فضا میں تین طرف سے ہجو م ظلمت کا

اور ایک سمت شفق کا وہ رنگِ زیبائی

بجھی وہ چشمِ زدن میں شفق کی شمعِ حیات

فلک پہ چار طرف گِھر کے تیرگی چھائی

وہ بزمِ عالمِ بالا میں جلوۂ مہتاب

زمیں کا حسن بڑھانے کو چاند نی آئی

ہر ایک موج سے انداز ِدل کشی ظاہر

ہر اک حباب سے بے پردہ رازِ ر عنائی

کہاں وہ محفلِ رنگیں کہاں وہ بزمِ نشاط

کہاں یہ عالمِ ہُو او ر فضائے صحرائی

ٹھہر ٹھہر دلِ شاعر! یہ وہ نظارہ ہے

کہ جس کے چاند ستارے بھی ہیں تماشائی

تماشا گاہِ زمانہ کو دیکھنے والے!

یہ دیکھ خاک میں سوتا ہے نورِ سینائی

جگن ناتھ آزاد نے نقطۂ نظر کی فوقیت کو تسلیم کرنے کے با وجود اپنے عہد کے نظریات کی تبلیغ کو وسیلہ نہیں بنایا۔ انھوں نے فن کی جمالیات اور اس کی قدر کو اوّلیت دی۔ اس لیے جب ہم اُن کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو زندگی کی جبریت کے باوجود محبت اور ایثار و کرم کا جذبہ، حقیقت کے ارضی زاویے کے ساتھ منسلک نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں جو نیا احتساسی دائرہ مرتّب کیا وہ نہ تو ہنگامی موضوعات پر اساس رکھتا ہے اور نہ ہی رومان پر بلکہ ان کے یہاں بیانیہ کی تعبیر جذباتی لطافت پر فکری خشت بندی سے عبارت ہے۔ یہ اپنی نظموں کے ذریعے نہ تو احتجاج کی دعوت دیتے ہیں اور نہ ہی سماجی اقدار کے خلاف ردِّ عمل پر اُکساتے ہیں۔ ان کی نظموں کی داخلی آنچ مدّھم مگر غم کی آنچ تیز ہے۔ ان کے یہاں مبنی بر انصاف معاشرے کی تمنا کا اظہار ملتا ہے جو ان کی نظموں کو بامعنی بناتا ہے۔ اخلاصِ تجربہ اور کمالِ زبان دانی نے مل کر ان کی شعری دنیا کی تعمیر کی ہے۔ اس لیے ہر موضوع کے پیچھے احساس کی شدّت اور جذبے کا خلوص کارفرما نظر آتا ہے۔ اسی طرزِ خاص کے ساتھ زندگی بھر انھوں نے شاعری کی،جس کی جھلکیاں اُن کی اکثر نظموں میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ خاص انداز ہمیشہ تازہ دم رہے گا اور شعری ادب کی تاریخ میں وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔

 

Dr. Ahmad Imteyaz

Associate Professor

Department of Urdu

University of Delhi, Delhi-110007

Email: imteyaz.urdu@gmail.com

Mobile: 9899754685

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...