ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
زمیندارانہ
معاشرے میں زمینیں بالا دستی کی علامت تھیں۔ دولت و ثروت کا منبع اور اثر و رسوخ
کا سرچشمہ تھیں۔ زمینداری کے خاتمے کے ساتھ ہی سماج میں زمینداروں کا اثر اور
دبدبہ جاتا رہا کیوں کہ یہ معاشی بدحالی کے شکار ہونے لگے۔کشادہ حویلیوں میں عیش و
عشرت کی زندگی گزارنے والے اور عیش و نشاط کی محفلیں سجانے والے دانے دانے کے لیے
محتاج ہو گئے تھے۔ مفلسی،ناداری، بے کاری اور تنہائی ان کا نصیب بن گئی تھی۔باوجود
اس کے یہ پرانے اقدار وروایات کی اب بھی پاسداری کر رہے تھے اور ان کے محافظ بنے
ہوئے تھے۔ حالانکہ اس فعل پر وہ خود شرمندہ تھے اور ا ن کا ضمیر لعنت و ملامت کر
رہا تھا۔سماج میں ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی جو انھیں جبر و تشدد کی
علامت سمجھ رہے تھے اور ان کی بے بسی،کنگالی اور دست نگری پر قہقہہ لگا رہے تھے۔
واقعی نئی تبدیلیوں کے سبب ان کی زندگی قابل رحم ہو گئی تھی۔ رفتہ رفتہ ان کی زندگی
کی تمام رنگینیاں پھیکی پڑ گئیں۔ ان کی وضع داریوں نے چہار دیواری کے اندر کی خستہ
حالی کو باہر نہیں آنے دیا۔ لیکن عسرت میں ان کی وضع داریوں کا نباہ بھی کب تک ہو
سکتا تھا! بہرحال ان کی مفلسی اب پوشیدہ نہیں رہی۔ معاشی دیوالیہ پن نے انھیں دست
نگر ہونے پر بھی مجبور کیا۔ اب سماج میں ان کی حیثیت ایک مقروض کی تھی۔ کوئی ذریعہ
معاش نہیں تھااور یہ محنت و مشقت کے عادی تھے نہیں! جمع پونجی کا ساتھ کب تک چلتا!
نتیجتاًگھر کی قیمتی اشیا فروخت ہونے لگیں۔ جن حویلیوں کے دروازے پر لنگر بانٹے
جاتے تھے انھیں حویلیوں کے مکینوں کو لنگر کی صف میں کھڑا ہونا پڑا۔لذیذ اور ذائقے
دار کھانے نوش فرمانے والے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے
اور نان بائیوں کی گلی میں جا کر لذیذ کھانوں کی خوشبو سے تسکین حاصل کر رہے تھے۔
مہمان نوازی کو اپنے وقار سے وابستہ کرنے والے دوسروں کی چوکھٹ پر اس آسرے میں بیٹھے
رہتے کہ اس گھر کے مکین جب خود کھا چکیں گے تو انھیں بھی کھانے کے لیے پو چھیں
گے۔زمینداری کے خاتمے نے زمیندار خاندانوں کے آپسی رشتوں میں بھی دراڑیں ڈال دیں۔ان
کے باہمی تعلقات میں وہ پچھلے زمانے کی گرمی باقی نہ رہی۔ ان کے رشتے میں رسہ کشی
اور تنائو کے عناصر پیدا ہو گئے۔ رشتوں کا زوال بھی انھیں اندر سے کمزور کرتا گیا۔دوست
دشمن بن گئے۔ جائیداد کے بٹوارے کی نوبت آئی۔ جائیداد جو غریبی اور عسرت میں زندگی
کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے وہ بھی جاتی رہی۔ غرض کہ چاروں طرف سے مصیبتوں نے انھیں
آگھیرا۔ان سے نجات پانے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ ہر حال میں انھیں مصیبتوں کا
سامنا تھا۔ جب زمیندار گھرانے کے خاندانوں کا یہ حال تھا تو سیکڑوں کی تعداد میں
ان خاندانوں سے منسلک وہ تمام شاگرد پیشہ افراد کا کیا حشر ہوا ہو گا جن کی روزی
روٹی ان حویلیوں سے وابستہ تھی!وہ تمام پیشہ ور جو زمینداروں کی حویلیوں سے منسلک
تھے اور اپنی قسمت کی روٹی کھا رہے تھے وہ سبھی اچانک سے بے روزگار اور بے گھر ہو
گئے۔ جو لوگ پشتوں سے ملازمت کرتے آئے تھے بہت بڑی تعداد میں بے روزگاری کی مصیبت
میں مبتلا ہو گئے تھے۔ کسانوں اور دستکاروں کے ساتھ ان پیشہ وروں کی زندگی بھی
تباہ و برباد ہو گئی۔ ہندوستان میں زمینداری کے خاتمے کا اثر صرف زمیندار طبقے تک
ہی محدود نہیں رہا بلکہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی شدید طور پر متاثر ہوئے
تھے کیوں کہ ان کی روزی روٹی زمینداری کی بدولت ہی چل رہی تھی۔ تقریباً ایک دہائی
تک غریبی اور تنگ دستی کی مار جھیلنے کے بعداعلیٰ طبقے نے بھی روزگار کی تلاش شروع
کر دی اور اسی سلسلے میں بڑے بڑے شہروں کی جانب روانہ ہوئے۔کچھ خاندانوں نے غیر
ملکوں کی سرحد میں قدم رکھا۔اب یہ اپنی معیشت کو از سر نو مستحکم بنانے کے لیے بلا
جھجک محنت و مشقت کرنے لگے۔ان کی اولادوں نے خود کو زندگی کی رفتار میں شامل کرنے
کے لیے جدو جہد شروع کر دی اور اس جدو جہد میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
اردوناول
نگاری کے زمانہ آغاز سے لے کر بیسویں صدی تک لکھے گئے اکثر ناولوں میں جاگیردار و
زمیندار طبقے کی زندگی موضوع بحث رہی ہے۔ بیشتر ناولوں میں اس طبقے کے خصائص،ان کے
عادات و اطوار،ان کا روزمرہ، ان کی وضع داری، ان کی انصاف پسندی،ان کی غریب پروری،
ان کی بے عملی، ان کے مظالم،ان کی آسائش و زیبائش اور ان کی مذہبی رواداری کی سچی
عکاسی ملتی ہے۔ زمینداری کا خاتمہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے اردو ادیبوں کو سب سے
زیادہ متاثر کیا تھا۔دراصل اردو کے ایسے قلم کاروں کی کثیر تعداد تھی جو بذات خود
زمیندار گھرانے کے پروردہ تھے۔ انھیں اپنے آبا و اجداد کی وراثت کے لٹنے کا غم بھی
تھا اور آنے والی نئی تبدیلیوں کا احساس بھی۔ اس لیے ان کی تحریروں میں اس نظام
کے زوال کی نوحہ گری بھی ملتی ہے۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار، مرزا ہادی رسوا، پریم چند،
عصمت چغتائی،عزیز احمد، قرۃالعین حیدر،کرشن چندر،قاضی عبدالستار،خدیجہ مستور،
عبداللہ حسین، جیلانی بانو اورعبدالصمدوغیرہ ایسے ہی ناول نگار ہیں جنھوں نے نظام
زمینداری سے پیدا ہو نے والی صورت حال کا مختلف پہلوئو ں سے احاطہ کیا ہے۔ کچھ نے
زمینداری کے تاریک اور استحصالی پہلوئوں کو پیش کیا ہے اور کچھ نے صرف زمینداری کے
سائے میں پلنے والے اقدار کے خاتمے کو موضوع بنایا ہے۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ زمینداروں
کا نام آتے ہی ہماری نظروں کے سامنے ظلم و استحصال اورجبر و استبداد کی بہت ہی
صاف ستھری تصویر بنتی ہے لیکن یہ تصویر زمینداروں کی زندگی کا محض ایک رخ ہی پیش
کرتی ہے۔ ان کی زندگی کا دوسرا رخ بھی ہے جو انسانی قدروں کا طرف دار، مثبت اقدار
و روایات کا پاسدار اور مشترکہ تہذیب اور مذہبی رواداری کا علمبردار ہے۔ انیسویں
صدی کی آخری دہائی میں جو ناول لکھے گئے ان میں اس جاگیردارانہ معاشرے کی عکاسی کی
گئی ہے جو زوال پذیر تھی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ معاشرے کے افراد کو خود ان کی
اور ان کے معاشرے کی پستی کا علم نہ تھا یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم ہوتے ہوئے بھی یہ
حقیقت سے نظریں چرارہے تھے۔انیسویں صدی میں رتن ناتھ سرشار اور مرزا ہادی رسوا
دونوں ایسے ناول نگار تھے جنھوں نے اپنے ناولوں میں اس معاشرے کے جیتے جاگتے نقوش
پیش کیے ہیں۔ان کے ناولوں میں جاگیرداروں کی زندگی کے مختلف پہلوئوں مثلاًمذہبی
عقائد، شادی بیاہ کی تقریبات ورسومات، تفریحی مشاغل، معاشی مسائل اورطبقاتی امتیازات
کے علاوہ نظریاتی اختلافات،سماجی برائیاں اور خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔یہ دونوں
فنکار اسی معاشرے کے افراد تھے جو معاشرتی مسائل کو لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز
ہوتے دیکھ رہے تھے۔ واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد لکھنؤ کی رنگینیوںکا دور ختم
ہو چکا تھا لیکن لکھنؤ کی فضا میں ان رنگینیوں کا خمار باقی تھا۔لکھنؤ کی گلیوں
میں شادیانے اب بھی بجتے تھے۔ محفلیں اب بھی سجتی تھیں۔ہر روز کی طرح شامیں اب بھی
گلزار تھیںلیکن فطری طور پر ان محفلوں کارنگ مدھم پڑ چکا تھا۔ لوگ ماضی کی یادوں میں
کھوئے رہتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ از سر نو اختر پیا کی حکمرانی لوٹ آئے گی۔ پھر
سے دربار لگے گا اور صاحب فن کو منھ مانگا
انعام ملے گا۔ لیکن یہ سب خام خیالی تھی،حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ اسی امید
کے ساتھ دن گزر رہے تھے۔حقیقی زندگی بہت آگے نکل چکی تھی جبکہ ان لوگوں کی زندگی
ابھی مجلسوںتک ہی محدود تھی۔
بیسویں
صدی کے نصف اول میں کسانوں اور زمینداروں کی زندگی کو موضوع بنانے والوں میں پریم
چند کا نام سر فہرست ہے۔ پریم چند کے ناول’گوشۂ عافیت‘ اور ’گئو دان‘ کے بغور
مطالعہ سے پریم چند کا نظریہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ پریم چند خودبھی اسی معاشرے کے
باشندہ تھے۔ زمیندارانہ اقدار و روایات، زمینداروں کی وضع داریاں اور مہمان نوازیاں
انھیں عزیز تھیں۔ اس لیے برطانوی عہد میںٹوٹتے ہوئے ان قدروں کا انھیں ملال
تھا۔ دراصل اس طبقے کی زندگی میں جو اچھائیاں
تھیں پریم چند بھی ان اچھائیوں کے مرید تھے۔وہ مشترکہ خاندان کے قائل تھے اور اس
سے بھی زیادہ بڑوں کی عزت کے قائل تھے، لیکن جاگیرداروں اور زمینداروں کے سپوتوں
کے ہاتھوں ہی یہ قدریں تیزی سے بدل رہی تھیں جو پرانے زمینداروں کی طرح پریم چند
کے لیے بھی تکلیف کا باعث تھی۔پریم چند کو ان سے ہمدردی تھی اور معاشرے میں ان کی
گرتی ہوئی ساکھ سے یہ بیزار تھے۔ پریم چند پرانے زمینداروں اور کسانوں کے رشتوں میں
باوجود استحصال کے ایک اپنا ئیت بھی پاتے ہیں۔ یہاں استحصال تو ہے مگر استحصال کا
پر تشدد اور جابر روپ نہیں ہے۔ اس لیے محنت کش انسانوں کی مظلومی کی تصویریں تو ان
کے ناولوں میںملتی ہیں مگر ظلم کے خلاف نفرت اور بغاوت کا وہ جذبہ نہیں ملتا ہے جس
میں اس نظام کو جلا کر راکھ میں تبدیل کر دینے کی قوت بھی ہو۔ یہ پریم چند کی
ہمدردانہ کوشش کاہی نتیجہ ہے کہ ناول کے اخیر میں زمیندار طبقے کے کردار اپنی
حرکتوں پر نادم ہوتے ہیں اور اپنی غلطیوں پر پچھتاتے ہیں۔ قاری بھی اس طرح کرداروں کی بدلتی ہوئی سوچ کے
سامنے ان کی غلط روشوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ پریم چند قاری کی ہمدردی بھی ساتھ لے
کر چلنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں جو اس طبقے کو محض ظالم
نہیں بناتابلکہ وہ بھی ہمیں حالات کا شکار نظر آتا ہے۔ پریم چند نے پربھا شنکر کی
جس نیکی، شرافت، معصومیت، سادگی، وضع داری، سادہ لوحی اور داد خواہی کا ذکر کیا ہے
وہ بیسویں صدی میں معدوم ہو چکی تھی۔ اس لیے زمینداروں کی یہ تمام خوبیاں ہمیں انیسویں
صدی کی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ خاندان کے
وقارکے تحفظ کے لیے اپنی ساری دولت قربان کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ وہ وضع داری اور
خاندانی آن بان کی بیڑیوں سے بندھے ہوئے تھے اس لیے بیٹے کی گرفتاری پر بھی عدالت
جانا انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اسامیوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر بے جا
ظلم و زیادتی پسند نہیں کرتے کیوں کہ یہ ان کی روایتی وضع داری اور اخلاقی رویے کے
منافی تھا۔ ہم اس ہمدردی کو ان کی اصول پسندی، حق پروری اور انسانی اقدار کا پاس و
لحاظ نہیں کہہ سکتے۔ ایک طرف تو پریم چند ’گوشۂ عافیت‘ کے ایک کردارپریم شنکر سے یہ
کہلواتے ہیں کہ ’بڑے بڑے زمیندار اور تعلقہ دار سب کے سب ڈاکو ہیں‘ مگر انھیں
قصوروار نہیں مانتے بلکہ اس نظام کو مانتے ہیں، جس نظام کے زیر سایہ یہ طبقہ عیش
پرست بن چکاتھا۔
گئو
دان کو پریم چند کا فنی معجزہ کہا جاتا ہے۔ اس ناول میں ایک طرف تو یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ کسانوں کے استحصال پر ہی جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے لیکن
دوسری طرف فنکار کے دل میں زمیندارانہ نظام کے تئیں ہمدردانہ رویے کو بھی ہم محسوس
کرتے ہیں۔ یہی ہمدردانہ جذبہ ہے جو انھیں قطعی طور پر اس طبقے کی مخالفت سے انھیں
باز رکھتا ہے۔ دراصل اس نظام کی جو چند اچھائیاں ہیں وہ انھیں باغیانہ رویہ اختیار
کرنے سے روکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جگہ تو وہ رائے صاحب پر طنز کرتے ہیں لیکن
دوسری جگہ ان کے ہر فعل کو مجبوری کا نام دے کر اسے حق بجانب ٹھہرانے کی کوشش کرتے
ہیں۔ باتوں سے تو وہ کسانوں کے بڑے ہمدرد بنے ہوئے تھے مگر ان کا عمل ظالمانہ اور
سفاکانہ ہی رہتا ہے۔ وہ اپنے مظالم کا ذمہ بہت خوش اسلوبی سے مختاروں اور کارندوں
کے سر ڈال دیتے ہیں۔ رائے صاحب کے یہ دوہرے معیار صرف ان کی ذاتی تصویر پیش نہیں
کرتے بلکہ یہ اس پورے طبقے کی بھی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مگر پریم چند ان تمام
الزامات سے بری کرنے کی ایک شعوری کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب بھی وہ اس طبقے
کے ظلم پرور افراد کو پیش کرتے ہیں تو ساتھ میں اسی طبقے کے کچھ ایسے افراد کو بھی
ابھارتے ہیں جن کی نیکیاں ان کی برائیوں کو بھلا دیتی ہیں۔پریم چند ’گئو دان‘میںرائے
اگر پال کے ہر فعل کو درست ثابت کرتے ہیں۔ اس طبقے کے بعض افراد میںرحم دلی،
سخاوت، بہادری، خودداری، شرافت نفس وغیرہ دیکھنے کے بعد وہ ان کے مظالم کو نظر
انداز کر دیتے ہیں۔اس طبقے کے خلاف پریم چند کوئی باغیانہ جذبہ نہیں رکھتے بلکہ
ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کسانوں کے استحصال کے پیچھے انھیں ان کی مجبوریاں
نظر آتی ہیں۔ ہوری بھی ہر جگہ رائے صاحب کے اعمال کو حق بجانب قرار دیتا نظر
آتاہے۔ شاید پریم چند کی جاگیر دارانہ نظام سے ہمدردی اسے اصلی رنگ میں دیکھنا یا
دکھانا پسند نہیں کرتی تھی۔جاگیر داروں کے متعلق پریم چند کا ذہنی رویہ یہی ہے جو
ہم ’گئو دان‘ میں دیکھتے ہیں۔ پریم چند ایک طرف کسانوں کے ہمدرد نظر آتے ہیں تو
دوسری طرف زمینداروں کے بہی خواہ ہیں۔ جب وہ کسانوں کی نظر سے جاگیرداروں کو دیکھتے
ہیں توزمیندار انھیں ظالم نظر آتا ہے۔ لیکن جب وہ جاگیر داروں کی نظر سے دیکھتے ہیں
تو اس مظالم کے پس پردہ انھیں جاگیر داروں کی مجبوریاں نظر آتی ہیں۔
قرۃالعین
حیدر اکثر و بیشتر ان زمینداروںکی زندگی پیش کرتی ہیں جن کی معیشت کا انحصار دیہاتوں
میں ان کی زمینداریوں سے حاصل ہونے والی لگان پر تھا مگر شہروں کی وسیع اور کشادہ
حویلیوں میں بڑی بڑی پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔مصنفہ نے جاگیر دارانہ طبقے کی تہذیبی
اقدار و روایات،مذہبی رواداری اور اخلاقی پستی کی پیشکش تک ہی خود کو محدود رکھا
ہے۔ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ میںتقسیم ہندکے سانحہ تک پہنچتے پہنچتے قرۃالعین حیدر
کی تحریروں میںجذباتیت کا رنگ کافی گہرا ہو جاتا ہے۔ مشترکہ تہذیب، مذہبی رواداری
اور قومی آزادی کے سنہرے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔مصنفہ جاگیر دارانہ طبقے کے جدید
تعلیم سے آراستہ روشن خیال نوجوانوں کو مشترکہ ہندوستانی تہذیب اور مثبت اقدار و
روایات کا علمبردار خیال کرتی ہیں اورتقسیم ہند کو’ بلائے ناگہانی‘ کے طور پر پیش
کرتے ہوئے تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ مصنفہ نے جذباتی لگائو، ذاتی
ہمدردی اور ایک مخصوص طبقے میں ہر دلعزیزی کی بنا پر جاگیردارانہ طبقے کو کہیں سے
بھی تقسیم کے لیے ذمے دار نہیں ٹھہرایا ہے۔ تقسیم اور ہجرت کے بعد زمینداری کے
خاتمے نے ہندوستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جاگیردارانہ اقدار و روایات
ٹوٹنے بکھرنے لگیں جس کا مصنفہ کو ملال ہے۔حالانکہ اس طبقے کی زندگی خود کھوکھلی
اور مصنوعی ہو چکی تھی مگر یہ اپنے ’خاندانی ‘ہونے پر ناز اں تھے اور اپنی تہذیبی
وراثت پر بہت حد تک مغرور بھی تھے۔ باوجود مختلف خامیوں کے خود کو برتر سمجھنے کے
مغالطے میں مبتلا تھے۔ ان تمام نقائص کے باوجود بھی یہ مصنفہ کی اپنی دنیا کے لوگ
تھے جو روایات، وضع داری اور کلچر کے پابند تھے اور اسی لیے یہ لوگ انھیں عزیز
تھے۔
قرۃالعین
حیدر نے’آگ کا دریا ‘میں ہندوستان کی ڈھائی ہزار سال کی تہذیب کا خاکہ پیش کیا
ہے۔ناول ویدک عہد سے شروع ہو کر مغلیہ خاندان کے دور حکومت، مغلیہ سلطنت،انگریزی
مداخلت اور پھر ملک کی تقسیم اور اس کے بعد ہندوستان پاکستان میں پیدا شدہ مسائل
کو اجاگرکرتا ہوا ختم ہوتا ہے۔ انگریزی حکومت میں تحریک آزادی کے دور اور تقسیم
کے بعد کے چند سالوں میں زمیندارانہ طبقہ اپنے مخصوص کلچر اور اقدار و روایات کے
ساتھ اپنے معاشرے کا احساس دلاتا ہے۔اس ناول میں مصنفہ نے نئے لکھنؤ کو ہی اپنی
توجہ کا مرکز بنایاہے۔ لیکن اس نئے لکھنؤ میں بھی پرانا شہر ہر جگہ موجود نظر
آتا ہے۔ انھیں اس شہر کے وضع دار لوگوں سے بڑی عقیدت اور محبت تھی۔ اسی عقیدت نے ان کی عینک کو دھندھلا کر دیا
تھا۔ مصنفہ صرف ان کا ہنر د کھاتی ہیں اور ان کے عیب پوشیدہ رکھتی ہیں۔حالانکہ کہیں
کہیں ان کی خامیاں بھی اجاگر ہوتی ہیں مگر مصنفہ ارادتاً ایسا نہیں کرتیں۔قرۃالعین
حیدر کے ناولوں میں طبقہ اشرافیہ کی عورتوں کی جوتصویریں ملتی ہیں ان کی دنیا
غفران منزل،گلفشاں،سنگھاڑے والی کوٹھی سے لے کر کلبوں اوریونیورسٹیوں تک پھیلی ہوئی
ہے۔ یہ لڑکیاںبیک وقت فلسفہ،سائنس،تاریخ، جغرافیہ، آرٹ، کلچر، تہذیب اور سیاست
سارے علوم پر دسترس رکھتی ہیں اور ایک رومانی دنیا میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ دراصل
ان کی خوب صورت اور قابل رشک زندگیوں کو پیش کرنے میں وہ ہندوستان کے نوے فیصد
عوام کی کراہتی ہوئی زندگیوں کونظر انداز کر دیتی ہیں۔ وہ اسی جاگیردارانہ معاشرے
میں پس ماندہ طبقے کی عورتوں کے استحصال، ان کی مظلومیت اور بے بسی کی جانب توجہ
نہیں دیتیں۔ قرۃالعین حیدر کو مخصوص طبقے کی نوحہ گر بھی کہا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے
کہ اس الزام سے بری ہونے کے لیے انھوں نے ’چاندنی بیگم‘کی تخلیق کی۔ اس ناول میں
ناول نگار نے اعلیٰ طبقے کے علاوہ معاشرے کے نچلے اور کمزور طبقے کو بھی شامل کیا
ہے۔ اس ناول میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے والی سیاست بھی ہے اور جاگیر دارانہ نظام
میں پسماندہ و نادار طبقوں کا معاشی استحصال بھی۔ بعد میں حقارت آمیز لہجے میںپکارے
جانے والے پست طبقے کو اعتماد حاصل کرتے اور معاشی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن
ہوتے دکھایا گیا ہے، لیکن یہ محنتی طبقے مصنفہ کی پسند نہیں ہیں اس لیے متوسط طبقے
کی طرح انھیں بھی ان کے کلاس بیک گرائونڈ سے الگ کر کے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ جاگیردار
طبقہ انگریزوں کی رہائش اور طرز زندگی کواپنا کر فخر محسوس کرتا تھا، لیکن جاگیرداری
کے خاتمے کے بعد جب معاشی بد حالی کا دور شروع ہوا تو ان کے طرز زندگی میں بھی
گراوٹ آنے لگی اور یہ عام لوگوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ معاشی بد حالی
نے مزدوری کرنے پر مجبور کیا۔ اودھ کے جاگیر دارانہ معاشرے کے زوال کی عکاسی اور
قدیم گنگا جمنی تہذیب کی موت قرۃالعین حیدر کے بنیادی موضوعات ہیں، جن کی گرفت سے
ان کا فن مکمل طور پر آزاد نہیں ہو پاتا۔
قاضی
عبدالستارنے زمیندارانہ معاشرے کو پیش کرتے ہوئے ایک سے زائد ناول اور مختلف
افسانے لکھے ہیں۔ قاضی عبدالستار خود جاگیردار گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور اسی
گھرانے میں ان کی پرورش و پر داخت ہوئی تھی۔ اس لیے اس طبقے کے شب و روز کو قریب
سے سمجھنے کا نہ صرف موقع حاصل ہوا تھا بلکہ انھیں اس کا ذاتی تجربہ بھی تھا۔اس لیے
ان کے ناول تصوراتی کم اور تجرباتی زیادہ ہیں۔ زمینداروں کی مٹتی ہوئی تہذیب، ایک
نئے نظام کی نمود،بدلتے ہوئے حالات سے پیدا شدہ بے اطمینانی اور ماضی کی بازیافت
نے ان کی ذہنی،فکری اور تخلیقی میلان کو توانائی عطا کی ہے۔اودھ کے جاگیر دار
گھرانوں کا معاشی زوال ان کا محبوب موضوع ہے۔ قاضی صاحب نے بیشتر ناولوں میں
خصوصاً آزادی سے قبل اور آزادی کے کچھ بعد کے زمیندار اور تعلقہ دار طبقے کے
ٹوٹتے بکھرتے اقدار،تہذیبی میراث اور وضع داریوں کے پس منظر میں ان کی المناکی اور
کرب کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’شب گزیدہ‘ بھی اسی زمرے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں
آزادی سے قبل کے زمینداروں کے مابین آپسی رسہ کشی،دو نظریوں اور دو اقدار کے بیچ
جنگ اور جاگیر داروں کی شکست خوردگی و بے بسی کو دکھایا گیا ہے۔ ناول ’شب گزیدہ
‘ اودھ کے تعلقہ دار کنبے اور ان کے جاگیر
دارانہ اقدار و طرز معاشرت کے گرد گھومتا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ
ناول کسانوں اور زمینداروں کی زندگی کا جیتا جاگتا مرقع ہے۔ کسان صدیوں سے اپنی
محنت و مشقت سے زمینداروں کا پیٹ بھرتا اور ان کی عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتا
آ رہا ہے جبکہ وہ خود دانے دانے کا محتاج ہے۔قاضی عبدالستارجاگیر دارانہ نظام سے
جذباتی لگائو رکھنے کے با وجود اس کی خامیوں پر پردہ نہیں ڈالتے بلکہ انھیں اجاگر
کرتے ہیں۔ اس معاشرے میں مزدوروں اور کسانوں پرظلم کیے جاتے تھے، انھیں ستایا جاتا
تھا اور ان کاجنسی، ذہنی اور معاشی استحصال کیا جاتا تھا، مصنف نے ان تمام نکات کو
ایمانداری سے اجاگر کیا ہے۔ دیہات اور قصبات کے شب و روز پر فنکار کی گرفت بہت
مضبوط ہے۔ تاریخی شعور اور بدلی ہوئی سچوئشن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں
زمیندار محض ظالم نہیں اور کسان محض مظلوم نہیں۔بلکہ لٹتے ہوئے زمیندار جو آن بان
کو قائم رکھنے کے جتن کرتے ہیں،خاموش فریادی کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف
کسانوں کا ابھرتا ہوا طبقہ دولت اور طاقت کو حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس طبقاتی
شعور اور اقدار کی کشمکش کو قاضی صاحب نے بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی
روایتی تصویر انھیں ظالم و جابر بنا کر پیش کرتی ہے لیکن ان کا ایک نقش اور ابھرتا
ہے جو ان کی نیک نیتی،رحم دلی اور انصاف پسندی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ناول میں بڑے
سرکار کا کردار جاگیر داروں کی روایتی تصویر پیش کرتاہے۔ وہ شان و شوکت اور وضع
داری کے نام پر اپنے فرسودہ تصورات اور ذہنی سخت گیری کو تقویت پہنچاتے ہیں جواس
طبقے کے خاتمے کی بڑی وجہ تھی۔جبکہ جمی کے کردارسے ایک روشن خیا ل اور جدت پسند
جاگیردار کی شبیہ اجاگر ہوتی ہے۔ سرشار،رسوا، پریم چند اور قرۃالعین حیدر کی طرح
قاضی صاحب نے بھی اودھ کی زندگی کو موضوع بنایا ہے لیکن فیوڈل تہذیب کے جس المناک
پہلو کوانھوں نے ’شب گزیدہ‘میں پیش کیا ہے، وہ زمیندار معاشرے کی بہت ہی سنگین اور
مکروہ صداقت ہے۔
زمیندارانہ
نظام کوعام طور سے کسانوں،مزدوروں اور غریبوں کا استحصال کرنے والا نظام سمجھا
جاتا ہے اور ہمارے افسانوی ادب میں زیادہ تر اسی پہلو کو پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس
کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا اظہار قاضی عبدالستار کے ناولوں میں خاص طور سے ’شب گزیدہ‘
میں ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے عہد میں جاگیر داروں کی
شکست خوردہ ذہنیت کی مکمل عکاسی کی ہے۔ مروجہ نظام سے کہیں مصنف کی ہمدردی کا
احساس ہوتا ہے تو کہیں نفر ت کا۔ قاضی صاحب کی یہ فکری کشمکش، ان کی حقیقت نگاری
کا ترجمان ہے۔ قاضی صاحب کی ہمدردی زمینداروں سے ہے، اس کی وجہ یہ نہیںکہ ان کا
تعلق زمیندار گھرانے سے تھا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جاگیر داروں کے
زوال کو دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ پریم چند کے دیہات سے قاضی صاحب کے دیہات تک
آتے آتے بنیادی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ پریم چند کے زمانے میں
زمیندار دیہی معاشرے کا حکمران تھا اور قاضی صاحب کے دیہات کا زمیندار حاشیے پر آ
چکا تھا۔ انھوں نے زمیندار وں کو دوسروں
کا دست نگر ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ حالات اتنے بدل چکے تھے کہ کسان،زمینداروں کو
کھانا کھلا رہا تھا،کپڑا پہنا رہا تھا۔ معاشرہ اس قدر تبدیل ہو چکا تھا کہ زمیندار
جن پر ظلم و ستم کرتے تھے، بہت حد تک بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ ان کے
احسان مند تھے۔
اردو
فکشن نگارو ںکے متعلق یہ بات سچ ہے کہ ان کی پرورش و پرداخت جاگیردارانہ معاشرے میں
جاگیردارانہ اقدار و روایات کے زیر اثر ہوئی تھی اوران میں سے بعض فنکار تو بڑے
بڑے جاگیردار خاندانوں کے ہی چشم و چراغ تھے اور بعض فنکار کسی نہ کسی صورت میں ان
سے وابستہ تھے۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ان کی وابستگی نے ہی انھیں زوال پذیر
زمیندارانہ معاشرے کی زندگی کے تاریک اور روشن ہر پہلوکے تجربے و مشاہدے کا موقع
فراہم کیا۔ اسی مشاہدے اور تجربے کی بنا پر اردو کے تمام ناول نگاروں نے اعتراف کیا
ہے کہ جاگیردار طبقہ ہی دیہاتی معاشرے کا مرکز و محور تھا اور یہاں جاگیردار طبقے
کا ہی حکم چلتا تھا۔اس لیے اس مرکز سے وہ تمام زندگیاں جڑ جاتی ہیں جو اس کے اطراف
میں سانسیں لے رہی تھیں۔ اس طرح یہ کہنا نا مناسب نہ ہوگا کہ یہ طبقہ محض ایک طبقے
تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک وسیع فکر کے دائرے میں یہ ایک مکمل معاشرہ تھا جس کا
مرکزی نقطہ ایک جاگیردار ہوتا تھا۔ اس لیے فنکاروں نے جب قلم اٹھایا تو انھیں مرکز
میں رکھ کر اس پورے زوال پذیرمعاشرے کی عکاسی کی جس کے رگ رگ سے وہ واقف تھے۔انیسویں
صدی میں یہ کام سرشار اور رسوا جیسے ناول نگاروں نے بہت ہی خوش اسلوبی سے انجام دیا
ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دو تین دہائیوں میں بھی پریم چند جیسے بڑے فنکار نے سب
سے پہلے جاگیرداروں اور کسانوں کے باہمی رشتے کو اپنا مطمح نظر بنایا۔بعد کی دہائیوں
میں عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر اور عزیز احمد جیسے فنکاروں نے بھی اس زوال پذیر
طبقے کی زندگی پر اپنے مخصو ص نظریے سے خامہ فرسائی کی۔ ان فنکاروں نے جو ناول
لکھے ہیں وہ معاشرتی نوعیت کے ہیں۔ تقسیم کے بعد معاشرتی نوعیت کے ناول بہ نسبت زیادہ
تعداد میں لکھے گئے۔ تقسیم اور ہجرت کے سانحے سے اردو معاشرے کو بحرانی دور سے
دوچار ہونا پڑا تھا۔ مصیبتوں کے بادل چھنٹنے کے بعد مصنفین نے جب قلم اٹھایا تو زمینداری
کے زوال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی و ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کیا۔
اس ضمن میں تخلیق کاروں نے اس معاشرے کے مسائل اور معاشرے کے سربراہ طبقے کی
الجھنوں اور پریشانیوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے ناولوں میں قدیم اقدار اور
جدید تقاضوں کے مابین عدم ہم آہنگی، مشترکہ تہذیب اور ز میندارانہ نظام کے خاتمے
پر اضطراب اور مایوسی کی کیفیت کا اظہار ملتا ہے وہیں دوسر ی طرف اس نظام کے
تاریک اور استحصالی پہلو کی بھی عکاسی ہوئی ہے۔
زمیندارانہ معاشرے کے خصائص اور نقائص دونوں پہلوئوں کی پیشکش میں اردو کے ناول
نگار زندگی اور سماج کی مختلف حقیقتوں کو پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروںمیں
قاضی عبد الستار کے ساتھ عبدالصمد اور جیلانی بانو و خدیجہ مستور کا نام بھی لیا
جانا چاہیے جنھوں نے اس طبقے کی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا اور ان کے
جبر و ظلم کے ساتھ ان کی مجبوریوں اور مظلومیوں کو بھی غیر جانب دار ہو کر پیش
کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے نظام جاگیرداری کے زیر سایہ پلنے والی منفی قدروں کو
بھی بڑی حقیقت پسندانہ انداز سے ظاہر کیا ہے۔ قاضی عبدالستار نے ترقی پسند تحریک کی
دی ہوئی اس طبقاتی شناخت پر بھی ضرب لگائی ہے جس میں زمیندار ہمیشہ ظالم و جابر
تھا اور کسان ہمیشہ سے مظلوم و محروم۔قرۃالعین حیدر نے زمینداری کے خاتمے کے بعد
زمیندار طبقے کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والے سانحے کو بڑے ہمدردانہ اور عقیدت مندانہ
جذبے سے پیش کیا ہے۔تقسیم کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت
کر گئے،نتیجتاً وہ اقدار، وہ تہذیب اور وہ پوری دنیا جو ایک خاص مقام سے تعلق رکھتی
تھیں اچانک ختم ہو گئیںاور ان کی جگہ ایک ملی جلی دنیا نے لینی شرو ع کر دی۔یوپی میں
لکھنؤ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سب سے زیادہ
مہاجر پہنچے۔لکھنؤ اس وقت تک اپنی مخصوص تہذیب،مخصوص اقدار اور روایتوں سے مسلسل
وابستہ تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جو اہل زبان کی بستی کہلاتی تھی۔ اسی شہر نے پرانی روایتوں
اور پرانی قدروں کو برقرار رکھا تھا۔
مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی یہ روایتیں،یہ اقدار،یہ تہذیب سبھی مائل بہ
زوال ہو گئیں۔ قرۃ العین حیدر نے نہ صرف ان حالات کو بیان کیا ہے بلکہ ان اقدار کے
مٹنے کا ناسٹلجیا بھی ان کے ناولوں میں صاف نظر آتا ہے۔ نہ صرف قرۃالعین حیدر
بلکہ کم وبیش ان تمام فکشن نگاروں کی ہمدردیاں دم توڑتے ہوئے زمیندارانہ طبقے کے
ساتھ نظر آتی ہیں جنھیں زمیندارانہ معاشرے کی وضع داریوں اور تہذیبی آب و تاب نے
بے حد متاثر کیا ہے۔
Dr.Simmi Iqbal
Assistant Professor
Dept.of Urdu
S. N. Sinha College , Jehanabad
(Bihar)
Mobile No:8130845047
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں