ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
فراق گورکھپوری کے خطوط کا ایک مجموعہ ’من آنم‘ کے نام سے
شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد فراق کے خطوط کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہ آسکا۔ فراق
کے غیر مطبوعہ خطوط کی تعداد کتنی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ البتہ کچھ غیر
مطبوعہ مکتوب انجمن ترقی اردو ہند ، دہلی کے آر کائیوز میں موجود ہیں۔ اس کے
علاوہ مختلف مشاہیر ادب نے اپنے نام لکھے مکتوب کو مرتب کرکے شائع کیے ہیں، ان میں
فراق کے خطوط بھی شامل ہیں۔ اس طرح ’نقوش‘ کے خطوط نمبر میں دو خط شامل ہیں۔ پہلا
خط اردو کی مشہور افسانہ نگار اور ناول نویس واجدہ تبسم کے نام تحریر کیا ہے اور
دوسرا خط نادم سیتا پوری کو لکھا ہے۔
فراق گورکھپوری نے ایک خط 9اگست 1945 کو الہ آباد سے واجدہ
تبسم کو لکھا ہے:
’’مائی
ڈیئر واجدہ!
غیر متوقع طور پر تمھارا محبت بھرا خط ملا۔ میرکو غم نے
مغرور بنادیا تھا۔ مجھے میرے غم نے صرف غمگین بنادیا ہے، مغرور نہیں بنایا۔ اس لیے
تعریفیں مجھے غمگین ہی رہنے دیتی ہیں۔ اگر چہ ایک غم آمیز خوشی بھی بہ مقتضائے
انسانیت مجھے حاصل ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ تمہاری تعریف خلوص و محبت پر مبنی ہے۔ اس لیے
مجھے خوشی ہوتی اور مجھے اپنا یہ شعر یاد آگیا ؎
دی مجھے تم نے آج داد سخن
درد نے درد کو سلام کیا
’’واجدہ
! میرے اچھے اشعار(اگر میرے کچھ اشعار کو اچھا کہا جاسکے) خود میرے رقیب ہیں۔ اچھا
اب میرے جس سیدھے سادے شعر کی وضاحت تم نے چاہی ہے کچھ اس کے بارے میں۔ رونا غم
زندگی یا احساس زندگی کے اظہار کا ایک رد عمل ہے۔ رونے میں وہ رونا بھی شامل ہے
جسے گریۂ صدا، گریۂ بے اشک حتی کہ آہ بے نفس تک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اداسی بھی
رونے کی ایک لطیف قسم ہے۔‘‘
(نقوش
خطوط نمبر شمارہ نمبر 109اپریل مئی1968
ص430)
مندرجہ بالا اقتباس میںغالب نے غم کو اچھوتے انداز میں پیش
کیا ہے مولانا آزاد نے راحت و الم کافلسفہ بیان کیاہے ۔ لیکن فراق نے سیدھے طور
پر اپنی غم زدہ زندگی کاذکر کیا ہے۔ انھوںنے اپنی شادی کی جس ناکامی اور اپنی بیوی
کے متعلق اپنی آپ بیتی میںجو کچھ لکھا ہے اس کی رقت انگیزی، گداز اور درد کی باز
گشت ان کے خط میں صاف سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ رونے کی تشریح بھی بخوبی کیا ہے۔
فراق نادم سیتا پوری کو ایک خط میںلکھتے ہیں:
’’اردو
شاعری کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ وسیم تو کیا خود ریاض خیر آبادی اب اوراق پارینہ
ہوچکے ہیں۔ میرے پاس تو دو تین اشعار بھی حضرت وسیم کے نہ ہیں نہ کبھی تھے۔ بڑی
مشکل سے انھوںنے میری ایک یا ڈیڑھ غزلیں دیکھی تھیں اور کوئی خاص اصلاح نہیں دے
سکے تھے۔ احتراماً میں ان کو اپنا استاد تسلیم کرتا ہوں۔‘‘ (ایضاً، ص 452)
اس خط میں فراق نے واضح کیا ہے کہ انھوں نے وسیم
سے صرف دو غزلوںپر اصلاح لی اور انہیں احتراماً اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔
فراق گورکھپوری نے رسالہ ایشیا کے مدیر اور اردو کے مشہور
انشائیہ نگار ساغر نظامی کو بھی مکتوب لکھے جو رسالہ ایشیاجون1941کے مکاتیب نمبر میں
شائع ہوئے۔ ایک مجلس میں جب ساغر نظامی اپنا کلام پڑھ رہے تھے، تو فراق ہنس رہے
تھے۔ فراق کی یہ حرکت انھیں ناگوار گزری جس کا انھوںنے خط کے ذریعے اظہارکیا۔ اس
کے جواب میں فراق نے اپنی طرف سے ایک خط میں صفائی پیش کی۔ حالانکہ فراق ساغر نظامی
پر یا ان کے کلام پڑھنے پر نہیں ہنس رہے تھے بلکہ ان کی غیر موجود گی میںکچھ گھنٹے
پہلے ہوئی دلچسپ باتوں کو لے کر وہ خواہ مخواہ ہنس رہے تھے۔ پھر بھی فراق نے اپنی
اس حرکت پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ساغر نظامی کے ناراض ہونے پر اپنا غصہ بھی
جتایا ۔ معافی مانگتے ہوئے فراق لکھتے ہیں:
’’دوست
مجھے معاف کردو اور معاف نہ کرو تو جو سزا چاہو دو۔یہ الفاظ کسی فوری جذبے سے نہیںلکھے۔
میں کسی پر مضحکہ آمیز طریقہ پر ہنسنے کو گناہ سمجھتا ہوں خدا کے وجود سے انکار
کو گناہ نہیں سمجھتا ہاں یہ بھی صاف کردوں کہ بات چیت میںاس دن میں تم کو چھیڑ
ضرورر ہاتھا لیکن اس لیے کہ تمھیں بھی ہنسی آئے۔ تم پرہنسنے کو نہیں بلکہ تمھارے
ساتھ ہنسنے کو ۔ میرا ہی شعر سنو ؎
عشق کے صدق و صفا رشک جہاں ہیں لیکن
کوئی الزام دیا چاہے تو الزام بہت
(رسالہ
ایشیا، جون1941، ص99-100)
ساغر نظامی نے فراق سے رسالہ ایشیا کے لیے نثر میںکسی تخلیق
کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں فراق نے لکھا ہے کہ ’’نثر مجھ سے مانگ کر ہرن پر
گھاس کیوں لادنا چاہتے ہو‘‘ اور نثر کے بدلے ایک نظم ’تجدید امروز‘ کے عنوان سے بھیج
دی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فراق نثر میںجو لکھتے تھے وہ یا تو کسی مضمون کے
جواب میں لکھتے تھے یا پھر اپنی ضروریات کے مد نظر یا پھر بہت زیادہ تقاضا کرنے پر
لکھتے تھے۔ ساغر نظامی کے مطالبے پر ایک نظم بعنوان ’فلسفۂ دہریت‘ بھیجتے وقت ایک
خط میں اپنے مذہبی عقیدے کاذکر کرتے ہوئے فراق لکھتے ہیں:
’’حسب ارشاد اپنی ایک تازہ ترین نظم بعنوان ’فلسفہ
دہریت‘ ایشیا کے لیے حاضرخدمت کررہا ہوں۔ میں وحدت وجود کا قائل ہوں اور وہ وجود میرے
ایمان میںصرف مادہ ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 102)
فراق نے اسی طرح ’زمانہ کانپور‘ میں ایک مضمون ’کون سی راہ‘
پڑھنے کے بعد اس کی تعریف میں مراسلہ لکھا کہ میں بھی دنیا کے لیے اور خاص کر
ہندوستان کے لیے مادیت اور دہریت کے فلسفے کی بڑی ضرورت محسوس کررہا ہوں جہاں تک
شاعری کا تعلق ہے اس فلسفے کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کفر ،گناہ ، رندی
اور مستی، شراب اور عشق مجازی، صنم خانوں کے جلوے خشک مذہبیت کے خلاف نعرہ زنی کے
ثبوت ہیں۔ فراق کے مطابق ہندوستان میں گوتم بدھ نے سرے سے خدا، روح اور مادّہ سب
سے انکار کیا اور سنسار کو ایک ہستی نمانیستی قرار دیا اس کے متعلق فراق لکھتے ہیں:
’’جدید سائنس اور فلسفہ نے مادہ کی جو ماہتیں دریافت
کی ہیں ان سے فلسفۂ مادیت اور دہریت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ ہم میں
یہ صلاحیت پیدا کردیتا ہے کہ ہم ایک شخصی یا غیر شخصی خدا کے وجود سے انکار کریں۔
روح کے وجود سے انکار کریں، صرف مادّے کا وجود مانیں اور مادّے کے حیات بخش تصور
سے نئے عقائد نئے اخلاق ، نئی تہذیب قائم کریں اور اپنے شعور کی پوری پوری تشفی کریں۔‘‘ (زمانہ کانپور، اکتوبر 1940، ص258)
مندرجہ بالاخطوط سے فراق کا جو فلسفۂ زندگی ہے وہ پوری طرح
واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے متعلق اور بھی بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن سے فراق کے متعلق
معلومات فراہم ہوتی ہیں کہ وہ خدا، دیوی دیوتا، روح، یوم حساب، جنت، دوزخ وغیرہ پر
یقین نہیں رکھتے تھے۔
فراق گورکھپوری اور احمد صدیق مجنوںبہت اچھے
دوست تھے۔فراق کو جس نے بہت قریب سے دیکھا،وہ مجنوںگورکھپوری ہیں ان کی قربت اور
اخلاص کا اندازہ لگانے کے لیے یہ دو فقرے کا فی ہیں۔ کہتے ہیں:
’’میں
نے مشاعروں اور ادبی محفلوں سے باہر فراق کو فراق کبھی نہیں کہا۔ وہ روز اول سے میرے
لیے رگھوپتی تھے۔ جس طرح میں ان کے لیے ملاقات کی پہلی تاریخ سے مجنوں تھا۔‘‘ (ایضاً،
ص258)
فراق کی شاعری میںزبان و بیان کی غلطیوں کا اعتراف مجنوں نے
بھی کیا ہے لیکن وہ دوسرے معترضین کی طرح اسے اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ
متقدمین اور معاصرین کا کلام بھی ان خامیوں سے پاک نہیں۔ مجنوں گورکھپوری نے قائم
چاند پوری پر ایک مضمون لکھا جس میں انہو ںنے میراور درد کو قائم پر فوقیت دی تھی
اس کے متعلق ایک خط میں مجنوں کو فراق لکھتے ہیں:
’’اچھا
یہ بتائو کہ اگر میرا وردرد اپنی ’تغزلی جرأت‘ Lyrical courageاور رنج والم پر تغزلی فتحsorrow Lyrical
conqvest of pain & کی وجہ سے اگر یقین اور قائم وغیرہ پر فوقیت
رکھتے ہیں تو غالب اور مومن کہاں ٹھہریں گے؟ آتش اور مصحفی تو ’نشاط غم‘ ضرور دیتے
ہیں۔ جرأت اور داغ اس بلندی پر یا ان گہرائیوں میں ہیں ہی نہیں بلکہ نسبتاً سطحی
شاعر ہیں۔ باوجود اس دھوم دھام کے جوان کے کلام میںاتنے پر لطف انداز سے موجود
ہے۔‘‘
)مجنوں
نکات مجنوں (ادبی تنقیدیں) بزم احباب نمبر 1،کتابستان الہ آباد1957-ص195)
مجنوں نے فراق کے اس خط کو بہت اہم قرار دیا ہے
۔ فراق کو ایک خط میں اس مختصر مگر جامع
خط کی تعریف کرتے ہوئے اسے’ایوان‘ میں شائع کرنے اور خود اس پر اظہار خیال
کرنے کو کہتے ہیں۔ اس خط کو ایوان میں شائع کرنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مقصد
نہ صرف یہ تھا کہ ایسی دلچسپ اور مہتم بالشان بحث صرف دو ذاتوں تک کیوں رہے بلکہ
اردو خواں طبقہ دیکھ لے کہ تنقید دراصل کس کو کہتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں،
اور ہمارے دوست رگھوپتی سہائے جوگا ہے ماہے صرف اردو غزلیں اشاعت کے لیے بھیجتے
رہتے ہیں اس مشکل اور حوصلہ شکن فن میں کیسی دست گاہ رکھتے ہیںتم نے تو نصف خط میں
اردو غزل میں پورا محاکمہ کردیاجو مختصر اور مجمل ہوتے ہوئے بھی کسی طرح ناتمام نہیںکہا
جاسکتا ۔ اگر اس طرح کبھی کبھی خط ہی میں قلم برداشتہ اس قسم کی بحث چھیڑ دیا کرو
تونہ صرف مجھ پر اور ’ایوان‘ پر احسان کرو گے بلکہ اردو ادب کی اس سے بہت بڑی خدمت
ہوتی رہے گی۔‘‘ (ایضاً، ص188)
اس اقتباس سے فراق کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ بخوبی لگایا
جاسکتا ہے ۔ فراق مجنوں کے مضمون پر مزید بحث کرتے ہوئے اسی خط میں لکھتے ہیں:
’’تمھارے
مضمون سے مجھے اختلاف بالکل نہیں۔ تم کو شاید یاد ہو کہ جب پہلے پہل یقین وغیرہ کا
جادو تم پر چلا تھا تو تم نے مجھ سے حیرت ظاہر کی تھی کہ میر، درد وغیرہ سے آخر یقین
، تاباں یا قائم کو کم کیوں کر مانا جائے۔ میں نے اس وزن Weightاور
پختہ مغزی کی طرف کچھ سوچ کر اشارہ کیا تھا جو میر کے وہاں ہے۔ اور گھلاوٹ کی اس
انتہا کا ذکر کیا تھا جس میں انتہائی فکری قوت، اتنہائی جذباتی قوت اور انتہائی تخیل
سب ایک ہوجاتے ہیں اور جو درد کے وہاں اتنا نہیں ہے یا اس درجہ پر نہیںہے جتنا کہ
میرکے یہاں موجود ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ عہد ایلیزبتھ کے دوسرے شاعروں
کے کلام یا ڈراموں میں بھی شیکسپیئر سے ایک دلکش مگر پر فریب مشابہت مل جاتی ہے۔ لیکن
اس زورمند غزلیت Sineway Lyricism یا تغزل کے اس رگ وپے Lyrical mnscle کا پتہ نہیں ہے جو شیکسپیئر میں ہے یہی
نسبت میر او ران کے عہدکے دوسرے شعرا میںہے۔ معیار یہاں بھی زور مندی اور توانائیStrenghthہے۔‘‘
(ایضاً، ص 187)
فراق نے اردو کے مشہور ادیب رام لعل کے نام بھی مکتوب لکھے
ہیں۔ فراق سے رام لعل کی ملاقات 1960 میں الہ آباد میں فراق کی رہائش گاہ پر ہوئی۔
اس پہلی ملاقات کاذکر کرتے ہوئے رام لعل لکھتے ہیں:
’’میں
نے آگے بڑھ کر عقیدت کے جوش میںان کے پائوں چھولینے چاہے تو انھو ںنے جلدی سے
اپنے پائوں کھینچ لیے اوربولے ’’یہ بالکل غلط طریقہ ہے ۔ ملنے کا ایسا ہندی والے
کرتے ہیں تم تو اردو والے ہو ۔ میرے ساتھ ہاتھ ملائو اور سامنے کی کرسی پر بیٹھ
جائو۔‘‘
(رام
لعل: دریچوں میں رکھے چراغ، شانتی نکیتن ڈی2990لکھنؤ 1991، ص24)
فراق گورکھپوری نے 27؍ دسمبر1964 کو
مظہر امام کے مجموعہ کلام ’زخم تمنا‘ پر اپنے تاثرات بھیجے تھے اس خط میں فراق
مظہر امام کو ایک کہنہ مشق شاعر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مظہر
امام صاحب کے کلام کا مجموعہ ’زخم تمنا‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے ان کی شاعری
لطافت احساس اور طباعت احساس اور طباعت فکر کی خوبصورت مثال ہے ۔ ان کے یہاں ایک ایسا
چیٹلاپن اور نشاط آمیز دل گرختگی ہے جو ان کے کلام کو انفرادیت بھی عطا کرتی ہے
اور دل نوازی بھی۔ یہ مجموعہ اس لحاظ سے قابل ستائش ہے کہ شاعر نے حساس اور پرخلوص
انداز میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ یہ بات ریاضت اور مشق سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
(امام
اعظم ڈاکٹر مرتب، مظہر امام کے نام مشاہیر ادب کے خطوط نصف ملاقات، اردو ادبی سرکل
دربھنگہ، 1994 ص 196)
اسی طرح علیم صبا نویدی کے مجموعہ کلام ’طرح نو‘ پر اپنی
رائے کا اظہار کیا ہے۔ سرسری طور پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں مشق سخن جاری رکھنے کی
صلاح دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ اس بات کا خیال رہے کہ مضمون کا نیاپن کہیں آپ
کو لے نہ اڑے۔ جب ہم دونوں مجموعوں پر فراق کی آرا کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ ایک طرف مظہر امام کے مجموعہ کلام پر انھوں نے نہایت جامع او ربلیغ
تبصرہ کیا ہے ، اس کی وجہ ان کی خوبصورت شاعری ہے اس کے برعکس علیم صبا نویدی کے
مجموعہ کلام پر جو تبصرہ کیا ہے وہ ایک رسمی تبصرہ ہے۔
فراق گورکھپوری نے جگن ناتھ آزاد کو بھی خطوط
لکھے ہیں۔ آزاد نے فراق کو اپنے مجموعہ کلام پر مقدمہ لکھنے کو کہا تھا اس کے
جواب میںفراق 24جولائی 1949 کو لکھتے ہیں:
’’محبی
خطوط ملے اور آپ کے مجموعے کا چھپا ہوا مسودہ بھی… بتائو بھئی آزاد اب کیا کروں
کیا نہ کروں۔ اپنے آپ سے شرمندہ ہوکر رہ جاتا ہوں۔ دیکھو اقبال ایسا شاعر بھی
برسوں کی چپ سادھ لیا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے لیے آپ کو اوسر اوربنجر رکھتا ہے ۔
ممکن ہے وقت کی غیبی آبیاری سے تخلیق پھر شاداب ہوجائے آمین‘‘
(امین
بنجارہ مرتب، سلام وپیام (مشاہیر کے خطوط جگن ناتھ آزاد کے نام) جلد اول ۔ ایور
گرین کمپیوٹر رس پبلشرز جموں2002 ص 36 )
فراق اس خط میں جگن ناتھ آزاد کی کتاب پر مقدمہ لکھنے میں
ہوئی تاخیر پر بڑے دلچسپ انداز میں معذرت پیش کرتے ہیں۔ فراق علامہ اقبال کویا ان
کی شاعری کو پسند نہیںکرتے تھے۔ انھوںنے اقبال کی نظم پرایک مضمون تو لکھا لیکن
بدنامی اور ڈر کی وجہ سے اسے اپنے نام سے نہ چھپوانے کی گزارش کرتے ہوئے
24نومبر1949 کو جگن ناتھ کو لکھتے ہیں:
’’محبی
و مخلص! نوازش نامے ملے۔ بیمار پڑ گیا ہوں۔ پریشانی میں جواب لکھ رہا ہوں۔ بھائی دیکھو
اقبال کی نظم پر مضمون اگر ’ماحول‘ میں چھپوائو تو میرا نام ہر گز ہرگز نہ دیا
جائے۔ ان ناموںمیں سے کوئی نام چن لیجیے (1) آرگس (2) ایک نام کیا لوں کوئی اللہ
کا بندہ ہوگا (3) کیا کہنا ہے (4) ترجمان حماقت (5) نقاد‘‘ (ایضاً،ص 37)
فراق گوکھپوری نے ڈاکٹرفرمان فتح پوری کے نام بھی خطوط
ارسال کیے تھے۔ ان خطوط کو فرمان فتح پوری نے ’نصف الملاقات، مشاہیر کے خطوط مع
سوانح کوائف‘ میں شامل کیا ہے۔ اس کتاب میں فراق کے 14خطوط شامل ہیں۔8 مارچ 1952
کو کراچی پاکستان میںبین المملکتی مشاعرے کاانعقاد کیا گیا۔ فرمان فتح پوری نے
فراق کو اس مشاعرے میںشرکت کی دعوت دی اور ان کی دعوت پر فراق پاکستان تشریف لے
گئے۔ فرمان فتح پوری نے فراق سے اپنے بہت پرانے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا
ہے کہ مجھ سے پہلے بھی بعض اداروں اور انجمنوں نے انھیں پاکستان بلانا چاہا لیکن
کامیاب نہ ہوئے۔ فرمان فتح پوری کو لکھے گئے فراق کے خطوط اسی مشاعرے کے تعلق سے ہیں
یا اس کے بعد کے ہیں۔ خیر اسی مشاعرے کے بہانے فراق او رفرمان فتح پوری میں کچھ
دنوں تک خط و کتابت رہی۔
فراق نے فرمان فتح پوری کو جو مکتوب لکھے ہیں ان میں چند ہی
ایسے مکتوب ہیں جن میں ادبی بحث کی گئی ہے۔ورنہ تمام خطوط میںمشاعرے اور اس کی
آمدورفت میں ہونے والے اخراجات کے متعلق باتیں کی گئی ہیں۔ البتہ ’نگار پاکستان‘
کا جب ’نیاز فتح پوری‘ نمبر نکلنا تھا تو انھوں نے نہ صرف ایک جامع مضمون نیاز فتح
پوری کی ادبی خدمات پر سپرد قلم کیا بلکہ خطوط میں بھی ان کی علمی و ادبی اہمیت کا
کھل کر اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے تمام محاسن کا بھی ذکر کیاہے۔
مطرب نظامی نے اپنی کتاب ’فراق گورکھپوری ذہنی خاکوں میں‘ میںفراق
کے چند خطوط شامل کیے ہیں۔ اس کتاب میںشامل فراق کا ایک خط صابردت مدیر ’فن و شخصیت‘
کے نام ہے۔ فراق نے صابردت کی ادبی خدمات کی تعریف کی ہے۔ اس کتاب میں فراق کا ایک
خط جومحمد طفیل ایڈیٹر ’نقوش‘ کے نام ہے، شامل ہے۔ اس خط میں فراق نے محمدطفیل سے
اپنے روابط اور دوستی کو ہندو پاک کے درمیان دوبارہ بھائی چارے اور امن قرار دیتے
ہیں۔ فراق گورکھپوری لکھتے ہیں:
’’میرے
دل و جگر بھائی طفیل وہ دن تو آیا کہ میرے دل و دماغ اورکلیجے کے جو دو ٹکڑے ہو
گئے تھے جن میںسے ایک پاکستان میں رہ گیا اور صرف آدھا ہندوستان میں اب وہ دونوں
ٹکڑے پھرمل گئے میرا دل و دماغ اور کلیجہ پورے کا پورا پاکستان میں بھی ہے اور
پورے کا پورا ہندوستان میں بھی ہے محبت بڑے سے بڑے فاصلے کی بھی نفی نہیں شاعر
اعظم ٹیگور نے کیا خوب کہا ہے ع
کہ ہم کئی ہیں اس لیے اور بھی ہم ایک ہیں
کیونکہ جو خلائیں ہمارے ٹکڑے ہوجانے سے پیدا ہوجاتی ہیں انہیں
ہم محبت سے بھر دیتے ہیں۔‘‘
(مطرب
نظامی، فراق گورکھپوری ذہنی خاکوں میں، نظام آفسیٹ پریس لکھنؤ، 1993 ص450)
فراق نے اس خط میں یہ واضح کیا ہے کہ دونوں ممالک کے سیاست
داں چاہے جتنے نفرت کے بیج بوئیں لیکن عوام کے دلوں میںآپسی بھائی چارہ اور محبت
قائم رہے گی اور ایک دوسرے کوٹوٹ کر چاہتے رہیں گے۔
جوش ملیح آبادی کو لکھے گئے فراق کے دو خطوط بھی اس کتاب میںشامل
ہیں۔ فراق نے جوش کو بہت تفصیل سے لکھا ہے اس خط میں فراق نے جوش کو مصلحت سے کام
لینے اور ’پانی میںرہ کر مگر مچھ سے بیر‘ نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جوش کا ایک
انٹرویو جو علامہ اقبال کے تعلق سے تھا اور اسے جوش کی وفات کے بعد شائع ہونا تھا
لیکن اس انٹرویو کو کچھ لوگوں کی سازش کی وجہ سے جوش کی زندگی میں ہی شائع کردیاگیا
جس کی وجہ سے انھیں پاکستان میں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعہ
کے متعلق فراق لکھتے ہیں:
’’تمھارا
ایک بیان جو خفیہ انٹرویو تھا، یعنی اس کو تمھارے مرنے کے بعد شائع ہونا چاہیے تھا
مگر تمھارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل ازو قت شائع کرکے راز فاش کردیا اور تمھارے
اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمھاری غلطی تھی پاکستان میں رہ کر اقبال
کی مخالفت دانشمندی نہیں اور صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبال کو سمجھ بھی نہیںسکتے۔‘‘
(ایضاً، ص 455)
فراق گورکھپوری، جوش ملیح آبادی کے بہت اچھے دوست تھے۔ فراق نے اپنی رباعی کے مجموعہ
’روپ‘ کو جوش کے نام انتساب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق نے اس خط میں جوش کو ایک
مخلص دوست کی حیثیت سے ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا ہے ۔ فراق یوں
تو متعدد بار لکھ چکے اور کئی مواقع پر اپنے دہریہ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن
اس کے باوجود وہ مختلف مذاہب کے عظیم رہنمائوں کی عزت و احترام کرتے تھے۔ ’حرم‘ کے
ایڈیٹر مولانا مومن نے جب فراق سے اپنے رسالے کے لیے کچھ نگارشات کی درخواست کی تو
اس کے جواب میںفراق لکھتے ہیں:
’’آپ نے’حرم‘ کے لیے مجھ سے کچھ لکھنے کے لیے
فرمایا ہے ۔ لیکن اس کو میں اپنی بد قسمتی کہوں یا خوش قسمتی کہ ابھی تک حرم و دیر
سے واقف ہی نہیں ہوا بقول غالب ؎
جانتا ہوں ثواب ِ طاعت وزہد
پر
طبیعت ادھر نہیں جاتی
میں عام طور پر مذہبی شاعری کو پسند نہیں کرتا لیکن اس سے یہ
مطلب بھی نہیں کہ دنیا کے عظیم انسانوں کی قدر سے گریز کروں میںپیغمبر اسلام کو دنیا
کا سب سے بڑا جینیس مانتا ہوں۔ ان کے اخلاق حمیدہ، او صاف باطنی اور اوصاف ظاہری
روح انسانی میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ ان کی تعریف کرنا صرف مسلمانوں ہی پر فرض نہیں
بلکہ دنیا کے ہر انسان پر فرض ہے۔ جہاں تک میں نے تاریخ عالم کامطالعہ کیا ہے اس میں
دیگر اقوام کے مفکرین بھی آپ کے مداح ہیں۔ سرولیم سورجس نے پیغمبر اسلام کی سوانح
عمری مخالفانہ نقطہ نگاہ سے لکھی ہے۔ مگر وہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ جوانی میںبھی
آپ کا چال چلن پاک اور بے عیب تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 477)
اس خط میں فراق نے ایک نعتیہ رباعی بھی لکھی ہے۔ فراق کے
مکتوب کامطالعہ کرنے سے ان کی زندگی کے مخفی گوشے بھی وا ہو جاتے ہیں۔ان کے مکتوب
سے ہمیں ادبی بحث کے علاوہ اس دور کے سیاسی و سماجی حالات کا بھی پتہ چلتا ہے۔
Dr. Aziz Ahmad Khan
House No 9, 2nd Floor, Shadab Colony
Mahanagar,
Lucknow- 226006
(UP)
Mob.: 8684943650
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں