ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
لفظ رومانیت کو انگریزی میں Romanticism کہتے ہیں۔رومانیت
اصل میں ایک ثقافتی تحریک تھی جس کا آغاز 17 ویں صدی کے نصف آخر میں فرانس میں
ہوا تھا۔ یہ تحریک Classismکلاسیزم
( یونانی اور لاطینی فنی تصورات ) کے خلاف ایک رد عمل تھی۔اس میں تخیل کو منطق پر
ترجیح دی جاتی ہے، لیکن اس کا طرۂ امتیاز داخلیت، جذبے اور وجدان کی ترجمانی ہے۔
کلاسکیت عقلیت کا نشان تھی اس میں لاطینی اور یونانی اصول و ضوابط کی بھرمار تھی۔
اس نے زندگی اور اس کی رعنائیوں کو محض چند اصولوں میں قید کر لیا تھا۔ عقلیت،
اصول پرستی، تقلید اور میانہ روی اس تحریک کے بنیادی لوازمات ہیں اور انہی اصول و
ضوابط کی زنجیر کو فرانسسی مفکر روسو نے توڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا ہے :
'' Man is born free and everywhere he is in chains'' یعنی انسان آزاد
پیدا ہوا لیکن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس قول کے بعد ایک زبر دست انقلاب برپا ہو
ا اور مختلف ممالک میں اس تحریک نے اپنے پر پھیلائے۔دوسرا محرک انقلاب فرانس اور
صنعتی انقلاب نے خاموش قوتوں کو نئی سوچ اور فکر عطا کی ہے۔ جاگیردارانہ سماج نے
جن قوانین پر لوگوں کولبیک کروایا تھا ان کی زنجیریں لڑکھڑا رہی تھیں۔ فرسودہ قوانین
کے خاکے بے جان نظر آرہے تھے اور وقت کا تقاضا تھا کہ نئے اصولوں کی بساط بچھائی
جائے۔اس طرح سے ایک نئے سانچے میں ادب کو فروغ ملا جسے دنیا رومانیت Romanticism کے نام سے یاد کرتی ہے۔
لفظ رومانیت کے حوالے سے محمد حسن یوں رقمطراز ہیں:
’’رومان
کا لفظ ’رومانس‘ سے نکلا ہے اور رومانس (رومان)
زبانوں میں اس قسم کی کہانیوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو انتہائی آراستہ
اور پر شکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سناتی تھیں جو عام طور
پر دور وسطی کے جنگ اور خطر پسند نوجوانوں کی مہمات سے متعلق ہوتی تھیں اور اس طرح
اس لفظ سے تین خاص مفہوم وابستہ ہوگئے۔
1: عشق و محبت سے وابستہ تما م چیزوںکو رومانوی
کہا جانے لگا۔
2: غیر معمولی آراستگی،شان و شوکت، آرائش،
فراوانی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانوی کہنے لگے اور
3: عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگاؤ
اور قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانوی کا لقب دیا گیا۔
(پروفیسر
محمد حسن، اردوادب میں رومانوی تحریک، عاکف بک ڈپو، دہلی، 1999، ص12-13)
کلاسیکی ادب کی تحریک نظم و ضبط،مختلف اشیا کے امتزاج
فکر جذبات اور عمل کو ایک منضبط طریقے سے دیکھنے کا نام ہے جبکہ رومانوی تحریک کا
دائرہ وسیع ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے لوگاس اپنی کتاب ''Decline
and fall of the Roman Empire'' میں لکھتے ہیں :
’’رومانیت
کی گیارہ ہزار تین سو چھیانوے تعریفیں ہیں، کسی نے اس کو تحیر کی نشاۃالثانیہ کہا
ہے اور کسی کی نظر میں یہ تخلیقی شعور کا غیر معمولی ارتقا ہے۔ـ‘‘
(A
History of English literature by Legouis, p .No. 99 )
جب اس تحریک نے فرانس سے اپنا سفر طے کر کے یورپ کے
مختلف نہاں خانوں میں جگہ پائی تو اس لفظ کی نوعیت ہی بدل گئی۔اب اس کو ایک اصطلاح
کے طور پر ادب میں استعمال کیا جانے لگا۔ روسو کے بعد جرمنی میں شیلے اور شیگل کے
خیالات نے رومانی آزادی کے خیالات عام کیے۔ انگریزی شاعری میں ورڈس ورتھ، کولرج،
گوئٹے، ولیم بلیک اور کیٹس نے اس تحریک کو تقویت عطا کی۔ اسی بنا پر ورڈس ورتھ
کوانگریزی شاعری میں رومانوی تحریک کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔اس میں خارجیت سے زیادہ
داخلیت پر زور دیا جاتا ہے اس لیے کئی مفکروں نے اس کا دوسرا نام ’انفرادیت ‘ رکھا
ہے۔
20
ویں صدی کے اوائل میں انگریزی زبان کو ہندستان میں تدریسی زبان کا درجہ حاصل ہوا
تو اس کا براہ ِ راست اثر نوجوانوں پر پڑا۔ انھوں نے مغربی فنون ِ لطیفہ کے ساتھ
ساتھ ادب میں کلاسکیت اور رومانیت کا بھی مطالعہ کیا۔اس طرح سے ان اصطلاحوں نے یہاں
کے پڑھے لکھے طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔اردو ادب میں رومانیت کو سرسید تحریک کے
ردِ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سرسید نے مقصدی ادب کو فروغ دیا جس کی کھلی
مخالفت رسالہ ’مخز ن‘میں ہوئی۔اردو ادب میں رومانیت 1900 سے 1935 تک کے عرصے پر محیط
ہے۔اگر چہ اس تحریک کی عمر اردو ادب میں زیادہ نہیں ہے اس کے باوجود اس نے ادب پر
دیر پا اثرات مرتب کیے۔ اس نے تخلیقی ادب، اجتماعی شعورــ،
ادراک اور اسالیب شعر پر جو اثرات چھوڑے ہیں وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد کیے
جائیں گے۔ اردو افسانے میںرومانیت کے بانی سجاد حید ر یلدرم ہیں بعد میں ان کے
اسکول سے وابستہ نیاز فتح پوری، حجاب امتیاز علی،مجنوں گورکھپوری وغیرہ نے اس کی پیروی
کی۔
اردو افسانے میں رومانوی اسلوب کا سر خیل سجاد حیدر یلدرم
(1880-1943)کو تصورکیا جاتا ہے۔ انھوں نے
حقیقت نگاری (Realism)کے مقابلے میں اردو ادب میں رومانوی تحریک (Romanticism)کو متعارف کر کے
اردو میں مختصر افسانے کو وسعت عطا کی۔ اس لیے اردو افسانہ میں رومانیت کے رجحان
کا اولین پیش رو سجاد حیدر یلدرم کو سمجھا جاتا ہے۔بقول سید احتشام حسین :
’’جس
افسانہ نگار نے باقاعدہ رومانیت کا صور پھونکا وہ سجاد حیدر یلدرم ہیں۔اگر غور کیا
جائے تو یلدرم کے ذوقِ نظر کا سلسلہ ترکی سے ہوتا ہوا یورپ تک پہنچتا ہے۔ ان کے
افسانوں میں رنگینی ہے۔بحثیں نتیجے نکالنے کے لیے نہیں، دلچسپی کے لیے ہیں۔ واقعات
ایک دوسرے سے اس لیے مربوط نہیں ہیں کہ ان سے حقیقت کی کیفیت پیدا ہوگی بلکہ اس لیے
کہ ان سے وہ فضا پیدا ہوگی جو جذباتی آسودگی اور سکون کا فریب دے سکے گی۔ یلدرم
بظاہر اس فضا کی تخلیق جانے پہچانے واقعی عناصر سے کرتے ہیں۔ لیکن ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان عناصر میں
حقیقت سے زیادہ تخیل کی رنگ آمیزی ہوتی ہے۔‘‘
(احتشام
حسین، اعتبار ِ نظر، کتاب پبلشرز چوک، لکھنؤ1965، ص 114-18)
اس رائے سے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یلدرم
نے ترکی افسانے سے خمیر تیار کر کے ہندستانی رنگ میں اس طرح شامل کیا ہے کہ افسانے
کا نیا باب متعارف ہوگیا ہے۔ انھوں نے رومانوی اسلوب کو اپنا مطمح نظر بناکر ایک
نئے رجحان کی داغ بیل ڈالی ہے جس میں تخیل کی آمیزش، محبت، تصوریت،ماورائیت،
آزادتلازمئہ خیال کی پیشکش دیکھنے کو ملتی ہے۔ رومانیت کے خمیر کے سلسلے میں یہ
بات بھی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ علوم و فنون کی حیرت انگیز پیش رفت نے انسانی
زندگی کے نظام اور اعتقادات و تصورات پر کاری ضرب لگائی جس کے نتیجے میں انسان کا یقینِ
محکم متزلزل ہوگیا۔ اس سمت میں افسانہ نگاروں نے اپنے قارئین کو خیالی دنیا میں نت
نئے تجربے دکھائے ہیں اور دیومالائی اور ماورائی کرداروں کے ذریعے ایک عام انسان
کو تسکین و مسرت پہچانے کی کوشش کی ہے۔اس طرح سے اردو افسانے میں ایک نئے اسکول کا
آغاز ہوا جسے اردو ادب میں’ یلدرم اسکول ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سجاد حیدر یلدرم اردو افسانے کا ایک اہم باب ہے جس نے
باضاطہ طور پر پریم چند کے مقابلے میں رومانوی افسانے کے پیچ و خم سنوارے ہیں۔ ان
کا افسانوی مجموعہ ’خیالستان ‘ 1911 میں شائع ہو ا ہے جس میں 10 افسانے اور 3 مضامین
شامل ہیں۔ ’حکایات و احتساسات‘ اس میں 13 افسانے اور 12 مضامین ہیں۔
مجموعہ ’خیالستان‘ میں پہلا افسانہ ’خارستان و
گلستان ‘ ہے جس میں انھوں نے داستانوی عناصر سے کام لیا ہے۔ اس افسانے میں انھوں
نے مافوق الفطرت عناصر، عشق و محبت کی رنگینیاں، طلسماتی فضا، دیومالائی عناصر جو
عقل کو حیران کرتے ہیں جیسی چیزیں دکھائی ہیں۔ افسانے کی تکنیک سراسر داستانوی ہے
جس کو افسانہ نگار نے رومانوی اسلوب کے رنگ میں پیش کر کے ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
افسانہ زبان و بیان کے حوالے سے سادہ اور آسان ہے۔ افسانے کی پہلی قرأت کے دوران
قاری کا ذہن داستان کی طرف چلا جاتا ہے۔افسانے کا پہلا حصہ ’گلستان ‘ کے نام سے
موسوم ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک مرکزی کردار ’نسرین نوش ‘ کی رومانوی زندگی کو
رومانوی اسلوب میں برتا ہے۔اس حصے میں عورت کی جنسی نفسیات کو ابھارنے کی ایک کامیاب
کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سے ایک عورت کے لیے ایک مرد کا ہونا ضروری ہے۔ حالانکہ
افسانے کے اس پہلے حصے میں ’نسرین نوش ‘ کو اُس کی ماں مردوں کے چنگل سے دور ایک
جزیرے میں پرورش کراتی ہے لیکن جب یہ لڑکی سن بلوغت کو پہنچتی ہے تب فطرتاً اسے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جسم اور روح کی جو انگڑائیاں ہیں وہ اسے کسی اورشے یعنی
مرد کی ضرورت کا احساس دلاتی ہیں اس کیفیت و ہیجان کو سجاد حیدر یلدرم نے اپنے
خوبصورت اسلوب میںاس طرح پیش کیا ہے :
’’ایک
ذات، ایک وجود آئے، جو اس پر قادر ہو، جو اس پر حاوی ہو... جو اسے دُکھ دے، اس کے
دل میں درد پیدا کرے، احساس پیدا کرے، اُسے مسل ڈالے ـ...‘‘
’’چاند
کو دیکھ دیکھ کر یہ امنگ پیدا ہوجاتی تھی کہ اس کے عریاں جسم سے جاکر لپٹ جائے۔‘ ‘
(افسانہ ’خیالستان و گلستان‘ ص31-32)
مندر جہ بالا سطورسے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ
موصوف نے کس طرح سے فنی چابکدستی سے اس افسانے کا تانا بانا تیار کیا ہے۔اس افسانے
میں رومانوی فضا ہر جگہ قائم ہوتی ہے اور ایک عورت کی نفسیات کو جس طرح افسانے میں
پیش کیا گیا ہے یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ رومانوی اسلو ب (Romantic
Style) کی
کامیابی کا راز موضوع اور ڈکشن میں پنہاں ہوتا ہے اور جہاں تک موضوع اور لفظیات کا
تعلق ہے مذکورہ افسانہ اس کی بہترین مثال ہے۔
اس افسانے کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ
’گلستان ‘ دوسرا حصہ ’خارستان ‘ اور تیسرا حصہ ’شیرازہ ‘ ہے۔ دوسراحصہ ’خارستان ‘
میں خارا یعنی مرد کی ویران زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ خارا نے اپنا بچپن ویران اور
سنسان خارستان میں گزارا ہے جس کے نتیجے میں اس کی زندگی غموں اور دکھوں کامجموعہ
بن گئی تھی۔اس کی جب نادانستہ طور پر حصہ سوم ’شیرازہ ‘ میں ’نسرین نوش ‘ سے
ملاقات ہوجاتی ہے تو انھیں ایک ایسی مسرت اور تسکین حاصل ہوجاتی ہے جس کا متمنی وہ
برسوں سے تھا۔ اُسے ایک ایسی عورت کی ضرورت تھی جس کا ذکر وہ اپنے بوڑھے ساتھی سے
سنا کرتا تھا :
’’بڈھا
مارے خوشی کے متوالا سا ہوگیا تھا، کچھ چپ ہوجاتا لیکن ترنگ میں آکر پھر کہنا
شروع کرتا :
عورت! عورت عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپٹ کر
اسے تازگی، اُسے زینت بخش دیتی ہے۔ وہ ایک
دھونی ہے کہ محبت کی لپٹ سے مرد کو گھیر لیتی ہے۔ بغیر عورت کے مرد سخت دل ہوجاتا
ہے، اکھل کھرابن جاتا ہے، یہ عورت کی شفقت و نوازش، یہ اُس کی مسکراہٹ کا ہی اثر
ہے کہ مردوں کا سینہ عالی اور رفیق حیات سے منور ہوجاتا ہے۔‘‘ ( افسانہ : ’خارستان و گلستان‘ ص66)
اس افسانے میں سجاد حیدر یلدرم نے زن و مرد کی عظمت کو
بیان کیا ہے کہ کس طرح سے مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں۔ اس اقتباس سے صاف
جھلکتا ہے کہ موصوف نے ایک عورت کو بطورطوائف کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ایک عظیم
شے تصور کیا ہے جس کے بغیر مرد اور سماج کا تصور ممکن نہیں ہے۔ عورت ایک ایسی زینت
ہے جو ایک خارستان کو اپنی محبت سے اس طرح سینچتی ہے کہ اس میں گل و گلزار نکل
آتے ہیں۔ یہی وہ حسن ہے جو بنجر زمین میں نمو پیدا کرتا ہے۔
اس طرح سے یلدرم نے اس افسانے میں داستانوی انداز کو
افسانے کے رنگ میں ڈھال کر ایک نئے رجحان کا آغاز کیا ہے اور اپنے معاصرین کے
سامنے ایک ایسا نمونہ رکھا ہے جسے بعد میں رومانوی اسلوب سے تعبیر کیا گیا۔
سجاد حیدر یلدم نے اپنے معاصرین سے ہٹ کر جدت سے کام لیا
ہے۔انھوں نے رومانیت کو باضابطہ طور اپنایا ہی نہیں بلکہ ا س کے لیے ایک ایسا Platformتیار
کیا جس کو بعد میں ان کے رفقاء کار نے انجام تک پہنچایا ہے۔ ان کے اسلوب کے حوالے
سے عبد الودود لکھتے ہیں:
’’سجاد
حیدر یلدرم شاعرانہ مزاج رکھتے تھے۔ انھوں نے نثر میں شاعری کی، ان کی طبع زاد اور
ترجمہ تخلیقات، افسانے اور ناولٹ اس کے شاہد ہیں، انھوں نے اردو کو ایک نئے اسلوب
سے آشنا کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں اس بات کا احساس تھا کہ اُردو کی ترقی
و ترویج کے لیے ضروری ہے کہ اسے مشرقی دائرے سے نکال کر ایک وسیع فضا میں پہنچادیا
جائے۔ انھیں ترقی زبان کی نفاست اور تخلیقات میں خیالات کی رعنائی عزیز تھی۔ اس لیے
انھوں نے اردو میں بھی وہی حسن پیداکرنے کی کوشش کی تاکہ اردو میں نئے اسلوب کا
اضافہ ہو اور اس کا حسن نکھر جائے۔ ‘‘
(عبدالودود،
ڈاکٹر، ’اردو نثر میں ادب لطیف ‘ نسیم بک ڈپو لکھنؤ، طبع دوم، 1980)
ا س اقتباس سے ا س بات کا تعین ہوجاتا ہے کہ انھوں نے
دانستہ طور پر اردو ادب میںایک نئے اسلوب نگارش کی داغ بیل ڈالی ہے۔حقیقی معنوں میں
انھوں نے اردو افسانے کو نئی پہچان دلانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔
یلدرم کی تحریروں میں رومانوی
رنگ غالب ہے۔ ان کے اس اسلوب کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو انھوں نے چار عناصر
کو اہمیت دی ہے۔ جن میں حسن، حواس، جذبہ اور تخیل قابل ذکر ہیںاور یہی عناصر ان کے
اسلوب ِ نگارش کا خاصہ بھی ہیں۔ افسانوں کے عنوانات بھی یلدرم نے رومانوی رنگ کے
چنے ہیں جن میں خارستان و گلستان، حکایات لیلیٰ و مجنوں، حضرت دل کی سوانح عمری،
اگر میں صحرا نشین ہوتا، فسانہ ہائے عشق، ایک مغنیہ سے التجا، جہاں پھول کھلتے ہیں،
ویران صنم خانے و غیرہ شامل ہیں۔
یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ شاعری Poetryکسی
خاص میڈیم کی محتاج نہیں ہو تی بلکہ اس کا تعین لکھنے والے کی ذہنی بالیدگی پر
منحصر ہوتا ہے۔یلدرم نے ایسی تراکیب باندھی ہیں جن سے شاعرانہ حسن پیدا ہوجاتا ہے۔
جب وہ نثر میں سلسبیل قمر، ملکہ ملاحت، آئین آفتاب پرستی، گلبانگ رقص و آہنگ،
شعر وخیال وغیرہ جیسی تراکیبیں استعمال میں لاتے ہیں تو اس وقت اندازہ ہوجاتا ہے
کہ ان کے اندر ایک شاعر انگڑائیاں لے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کبھی کبھی قاری
آزاد نظم اور نثری نظم پڑھتا ہے جس میں ایک آہنگ اور ترنم پیدا ہو تا ہے جو اپنا
گہرا تاثر قاری پر ڈالتاہے۔
سجاد حیدر یلدرم کا اسلوب ان کے فن کا طرئہ امتیاز ہے۔
ان کا رومانوی اسلوب ان کی اصل پہچان ہے۔ انھوں نے عورت کو حسن کی دیوی سے تعبیر کیا
ہے اور حسن ان کے رگ و پے میں سماچکا تھا،حسن کی اداکاری ا ور رنگارنگی نے انھیں ایک
صاحب اسلوب بنا دیا ہے۔ انھوں نے غیر سنجیدہ ہوتے ہوئے بھی ایسے مقصدی مضامین پر
خامہ فرسائی کی ہے جسے بعد میں رومانوی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا گیا۔ رومانوی
اسلوب کا سہارا لے کر سماج کی ایسی چیزوں پر قلم اُٹھا یا ہے جس کو حقیقت پسند
افسانہ نگاروں نے نظر انداز کیا تھا۔ البتہ انھوں نے داستانوی رنگ کو اپناتے ہوئے
اس میں ایک ایسا تاثر اور ماورائیت ابھاری ہے کہ قاری بھول بھلیوںمیں کھو کر ایسے
خواب تعمیر کرتا ہے جن کی تعبیر حقیقت میں ممکن نہیں ہوتی۔ انھوں نے اردو افسانے
کو مغربی Romanticism کے ہم پلہ لانے کی کوشش کی۔
سجاد حیدریلدرم کے معتقدین میں سے جس افسانہ نگار نے
رومانوی اسلوب کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا ہے وہ نیاز فتح پوری ہیں۔ نیاز نے رومانوی
افسانے کو نئی نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے۔ انھوں نے رومانوی موضوعات میں ’عورت ‘
کو ایک خاص وقار اور عظمت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک رومان پرست
اورجمال پسند انسان تھے۔انھوں نے مقصدی ادب کے مقابل میں تخیل آفرینی پر زور دیا
ہے۔ان کی اس حسن پرستی اور رنگین مزاجی کے بارے میں مجنوں گورکھپوری یوں رقمطراز ہیں
:
’’نیاز
کے افسانے اسی ٹھوس اور سنگین عالم ِ آب و گل سے وابستہ ہوتے ہیں۔وہ جب حسن و عشق
کے بیان پر آتے ہیں تو ہم کو ہوا اور بادل میں نہیں لے جاتے بلکہ جسم کی تمام
چُھپی ہوئی رنگینیوں اور کیفیتوں سے لذت آشنا کرتے ہیں۔‘‘
(احمد
صدیق مجنوں، پروفیسر، ’نکات مجنوں‘ کتابستان الہ آباد، 1975، ص 316)
نیاز فتح پوری نے اردو افسانے کو زندگی کے پر پیچ حالات
و واقعات سے نجات دلانے کے لیے تخیل کی نئی جوت جلاکر اس میں رنگینی اور نشاط انگیز
تصویریں پیش کی ہیں۔ انھوں نے ’عورت ‘ اور ’ محبت ‘ کو افسانے کا نبیادی موضوع
قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی افسانوی کائنات میں رومانیت غالب ہے۔رومان سے انھیں
والہانہ عشق تھا جس کا اندازہ ان کے افسانوں میں نمایاں طور پر ملتاہے۔
افسانہ ’شہاب کی سرگزشت‘ ان کے رومانوی اسلوب کا
شہکار ہے، جس میں انھوں نے داستان عشق بیان کی ہے۔ اس افسانے کے تین مرکزی کردار،
شہاب، محمود اور اختر ہیں جن کے گرد کہانی رقص کرتی ہے۔ افسانہ کافی طویل ہے۔ اس
طوالت کی وجہ سے کئی ناقدین اسے ناولٹ کے زمرے میں رکھتے ہیں۔
اس میں نیاز کا سحر انگیز اسلوب جلوہ گر نظر آتا ہے
اور طلسماتی فضا کی وجہ سے اس میں قاری ڈوب جاتا ہے۔ رنگینی و مرصع سازی، برمحل
استعاروں اور نادر ترکیبوں سے اس میں ایک انوکھا پن پیدا ہوجاتا ہے۔
افسانے میں محمود،شہاب کا دوست ہے جو ایک لڑکی سے عشق
کر بیٹھتا ہے لیکن جب یہ بات شہاب کو پتہ چل جاتی ہے تو وہ اپنے دوست محمود کو اس
عشق و عاشقی کے مرض سے دور رکھنا چاہتا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہیں :
’’شہاب
: میرے نزدیک محبت نام ہے ایک بے غرض انہماک کا ایک خود فراموش کیفیت کا جو پیدا
ہو حسن کو دیکھ کر خواہ وہ حسن ظاہری ہو یا باطنی ـ‘
واضح ہو یا غیر واضح ‘زمین میں ہو یا آسمان میں، رہا یہ امر کہ محبت کرنے والا
محبوب سے مل جانا چاہتا ہے یا نہیں یہ خواہش فطری ہے یا غیر فطری،اس کے متعلق صرف یہ
کہہ سکتا ہوں کہ وہ شخص جس کی محبت اس بات پر مجبور کرے حقیقتاً محبت نہیں ہے بلکہ
ایک جذبہ شہوانی ہے اور اس لیے غیر فطری نہیں۔‘‘
(افسانہ
’شہاب کی سرگزشت ‘ ص 10)
’’دیکھتے
ہو محمود ! یہ رونق تہذیب، یہ بیگانہ علم اور تمہارے خیال سے یہ طوفان حسن ! اگر ایک
لمحے کے لیے میں خدا ہوجاتا تو اس منظر کو اسی حال میں ہنگامے کے ساتھ اور انھیں نیرنگیوں
کو لیے ہوئے قائم اور منجمد کر دیتا اور صرف تمہارے لیے تاکہ تم ان عورتوں میں ہر
ایک کے ساتھ کامیاب محبت کر سکو۔‘‘ (ایضاً،ص12)
مندرجہ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ رومانوی
اسلوب مروجہ کلاسیکی اسلوب سے کس طرح منفرد ہے۔ رومانوی اسلوب میں ایک تخلیقی فضا
قائم کی جاتی ہے تاکہ قاری متاثر ہوجائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی کیفیت طاری
ہوجائے جو حقیقی دنیا سے کوسوں دور معلوم ہوئے۔
نیاز نے اس افسانے میں داستانوی اسلوب سے براہ راست کام
لیا ہے۔ا س میں داستان کی طرح تخیل، طوالت
اور سادہ اسلوب سے کام لیا گیا ہے۔ اس افسانے میں تخریب کی جگہ تعمیر کا جذبہ،
نفرت کی جگہ محبت کی جیت اور ابدیت دکھائی گئی ہے جو اسے اردو ادب کے بہترین
رومانوی افسانوں میں جگہ بنانے کے لیے کافی ہے۔
رومانوی اسلوب کو بعد میں جن افسانہ نگاروں نے تقویت
عطاکی۔ ان میں سلطان حیدر جوش، حجاب امتیاز علی، مجنوں گورکھپوری، ل۔ احمد (لطیف
الدین احمد )، چودھری محمد علی ردولوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حقیقت پسند افسانہ
نگاروں میں کرشن چندر نے رومانوی اسلوب کو اپنایا۔ انھوں نے اسی اسلوب کو لے کے اس
میں حقیقت نگاری کا رنگ ڈال کر نت نئے تجربے کیے ہیں۔کرشن چندر بنیادی طور پر ایک
رومانی افسانہ نگار تھے۔ رومانیت سے روشنی
لے کر انھوں نے اپنی افسانہ نگاری میں جاذبیت اور دلکشی پیدا کی ہے۔ ان کا پہلا
افسانوی مجموعہ ’طلسم خیال ‘ اس بات کی دلیل ہے کہ کرشن چندرکس حد تک رومانیت سے
متاثر تھے۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز رومانی کہانی اور رومانی اسلوب سے کیا
ہے لیکن بہت جلد خالص رومانوی اسلوب کو حقیقت نگاری کا رنگ چڑھا کر اس میں ایک نئی
روح پھونک ڈالی۔ انھوں نے تخیل کی کارفرمائی اور طلسماتی فضا تو قائم کی ہے لیکن
ساتھ ہی ساتھ ایسے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے کہ قاری سماجی ناہمواریوں پر
سوچنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’طلسم خیال ‘ پر رومانیت
کا غلبہ نظر آتا ہے۔اس مجموعے کا پہلا افسانہ ’جہلم میں نائو پر‘ ایک خوبصور ت
رومانی کہانی ہے جس میں ایک طرف انسان کے جذبات واحساسات کو موضوع بنا کر پیش کیا گیا ہے تو دوسری طرف کرشن چندر
نے خوبصورتی کا تقابل بدصورتی سے کیا ہے۔ انھوں نے ایک بدصورت عورت اور ایک
خوبصورت لڑکی کا تقابل اس طرح کیا ہے کہ قاری کے سامنے دونوں کا حلیہ آجاتا ہے،
جس سے ان کے رومان پسند ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے؟
’’میرے
سامنے کی نشست پر چار عورتیں بیٹھی تھیں، دو بالکل بوڑھی اور دو ادھیڑ عمر کی تھیں
مگر جو عورت میرے بالکل مقابل میں بیٹھی تھی اور جو اپنی گودمیں ایک چھوٹے سے بچے
کو لیے تھی وہ باقی عورتوں سے کم عمر اور زیادہ بدصورت تھی۔ وہ کبھی کبھی گھونگھٹ
کی آڑ سے مجھے دیکھ لیتی تھی۔اس دنیا میںہر کوئی ایک حسین کی تلاش میں ہے یہ تو میں
وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کی آنکھوں سے جچ گیا۔بہر حال اس میں کوئی شک نہیں
کہ میں بھی ایک حسین کی تلاش میں تھا...‘‘
’’لڑکی
نے میری طرف دیکھا اگر میں یہ کہہ دوں کہ اس جیسا خوبصورت اور بھولا بھالا چہرہ میں
نے نہیں دیکھا تو یقیناایک جھوٹ ہوگا لیکن یہ کہہ دینے میں مجھے ذرا بھی تامل نہیں
کہ اس کے چہرے میں کچھ ایسی عجیب کشش اور موہنی تھی جس نے مجھے ایک دم مسحور کرلیا۔
صرف ایک لمحہ کے لیے اُس نے میری طرف دیکھا۔پھر وہ گھنی گھنی پلکیں اس کے رخساروں
پر جھک گئیں۔ وہ کشمیر کے حُسن صبیح کا ایک نادر نمونہ تھی۔دلکش خد و خال،سروقد
دلآویز رنگت لیکن جس چہرے نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی ظاہری خوبصورتی سے بھی
بڑھ کر اُس کی نگاہوں کا حزن وملال تھا جسے میں ایک جھلک ہی میں پاگیا...‘‘
(افسانہ
:’ جہلم میں نائو پر ‘ ص 7-12)
ان اقتباسات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرشن چند رکس قدر
حسن کے دلدادہ تھے اور انھوں نے کس انداز سے عشقیہ موضوع کو رومانوی اسلوب میں
ڈھال کرایک حسین اسلوب کا نمونہ پیش کیا ہے۔ ان اقتباسات میں انھوں نے جس زبان و بیان
کا استعمال کیا ہے اس میں رومانیت صاف جھلکتی ہے۔اس میں انھوں نے حسن صبح، سروقد جیسی
تشبیہات کا خوبصورت استعمال کیا ہے جس سے اس کی چاشنی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس افسانے کے بین السطورسے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے
کہ رومانی افسانے کا کس قدر اثر براہ راست قاری پر پڑجاتا ہے۔ قاری اس افسانے کے
دوران راوی کے ساتھ ایک حسین سفر پر نکل پڑتا ہے اور ہر موڑ پر مسرت اور انبساط کا
مزہ لیتا ہے جو ایک کامیاب رومانی افسانے کی دلیل ہے۔ اس میں کبھی کبھار افسانہ
نگار قاری کوایسے خواب دکھا تا ہے جس میں حقیقت کا عنصر کوسوں دور ہوتا ہے لیکن
پھر بھی قاری خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔
کرشن چند ر کے افسانوں میں جو چیز حسن پیدا کرتی ہے وہ
ان کی منظر کشی ہے۔ وہ اس طرح سے مناظر فطرت کی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری کی
آنکھوںکے سامنے اس چیز اور اس جگہ کی تصویر رقص کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے تخیل کی
وجہ سے کائنات میں بیشتر چیزوں کو فن کے قالب میں ڈھال کر مزین کیا ہے۔منظر کشی میں
ان کا رومانوی اسلوب صاف جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے اسلو ب کی بدولت
اپنے افسانوں میں دلکشی اور حسن پیدا کیا ہے۔ خاص طور سے اپنے رومانی افسانوں میں
تخیل کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ ایک شستہ اور موزوں لفظیات کا استعمال کیا ہے۔ان کی
بیشتر تحریروں میں شاعرانہ آہنگ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے معاصرین
سے منفرد اور جامد ہے جس سے ان کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ اپنے ساحرانہ اسلوب سے وہ
قاری کو نت نئے تجربوں سے آشکار کراتا ہے۔وہ سماج کی ناہمواریوں کا رونا دھونا
ہو، یا عشق و محبت کی داستان کو بیان کر نا ہو،کرشن چندر اسے تمام تر رنگینیوں سے
آراستہ کرتے ہیں۔ ان کی منظر کشی کا ایک نمونہ ملا حظہ کیجیے:
’’آج
پورے چاند کی رات ہے۔ آئو !کنارے لگی ہوئی کشتی کھولیں اور جھیل کی سیر کریں
‘‘... اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اورمیں نے اس کی محبت اور حیرت میں گم پتلیوں
کو دیکھا جن میں اس وقت چاند چمک رہا تھا، جائو کشتی کھول کر پانی پر سیر کرو۔ آج
بادام کے پہلے شگوفے کا محبت بھرا تیوہار ہے۔ آج اس نے تمھارے لیے اپنی سہیلیوں،
اپنے ابا، اپنی ننھی بہن، اپنے بڑے بھائی، سب کو فریب میں رکھا ہے۔ کیونکہ آج
پورے چاند کی رات ہے اور بادام کے سفید شگوفے برف کے گالوں کی طرح چاروں طرف پھیلے
ہوئے ہیں اور کشمیر کے گیت اس کی چھاتیوں میں بچے کے دودھ کی طرح اُمڈآئے ہیں...
چاند نے یہ سب کچھ اس کی حیران پتلیوں سے جھانک کے دیکھا۔پھر یکایک کسی پیڑ پر ایک
بلبل نغمہ سرا ہو اٹھی اور کشتیوں میں چراغ جھلملانے لگے... میں نے اس کا ہاتھ
اپنے ہاتھ میں لیا اور اس سے کہا ’’آئو چلیں جھیل پر‘‘
(افسانہ
: ’پورے چاند کی رات‘ از مجموعہ: اجنتا سے آگے ، ص 7)
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرشن چند ر کو زبان و
بیان پر کس قدر گرفت تھی۔ وہ لفظوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ الفاظ و محاورات کا برمحل
استعمال ان کا خاصہ تھا۔ انھوں نے اردو افسانے میںرومانی حقیقت نگاری (Romantic
Realism)
کو باضابطہ طو پر متعارف کیا،یعنی جس میں انھوں نے سماجی حقیقت نگاری کو رومانوی
اسلوب میں ڈھال کر ایک نیا تجربہ پیش کیا ہے۔حالانکہ ان سے پہلے سجاد حیدر یلدرم
نے اس کا تجربہ کیا تھا لیکن کرشن چندر نے جس فنی چابکدستی سے اس کو افسانے کے
قالب میں ڈھالا ہے وہ انہی کی دین ہے۔ ان کے اس اسلوب کے حوالے سے محمد حسن عسکری
لکھتے ہیں :
’’اس
سچی رومانیت کے معنی ہیں زندگی اور انسانیت سے گہری محبت، فطرت کا شدید احساس۔
انسان کے مستقبل کو روشن بنانے کی آرزو، دنیا کے ظالموں کے خلاف بغاوت،انسانوں کی
روحوں کو سمجھنے کی صلاحیت، ان کے مصائب پر غم کھانا، دنیا کے دکھ درد کو یکسر مٹا
دینے کی خواہش، ایک نئی اور بہتر دنیا کی تلا ش، حسن اور حقیقت کی جستجو... اگر
رومانیت سے یہ مطلب لیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ کرشن چندر کی رگ رگ رومانی ہے
اور وہ اس میں رومانیت کی عظیم ترین مثال ہے۔‘‘ 5
کرشن چندر نے رومانیت سے ہوتے ہوئے اپنا سفرحقیقت نگاری
کی طرف منتقل کیا لیکن جو شعریت اور رومانوی رنگ تھا وہ انھیں برقرار رکھنا پڑا۔اسی
وجہ سے ان کی افسانہ نگاری رومان اور حقیقت کے بیچ کا سنگم ہے جسے بعد میں رومانوی
حقیقت نگاری کا نام دیا گیا۔ یہی اسلوب ان
کی انفرادیت کا سبب بنا۔ان کے ابتدائی افسانوں میں تخیل کی آمیزش کا غلبہ زیادہ
تھا لیکن بہت جلد انھوں نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھا نے میں اہم رول ادا کیا۔کرشن
چندر نے اسلوب کے حوالے سے جو بنیادی تجربہ کیا ہے وہ ان کا شعری اسلوب ہے۔ انھوں
نے شاعری کی زبان کو اردو فکشن میںاستعمال کر کے یہ تجربہ بھی کیا ہے۔
اس طرح سے رومانی افسانہ یلدرم سے ہوتے ہوئے کرشن چندر
تک معنی و مفہوم کی وسعتوں سے ہمکنار ہوا۔ اور بعد میں رومانوی حقیقت پسند افسانہ
نگاروں نے معاشرتی المناکیوں،بے چینی اور اضطراب وغیرہ کو افسانے کا موضوع بنا دیا۔البتہ
کہیں کہیں انھیں بھی جذبات و احساسات، تخیل آفرینی، حسن پرستی اور تلاش حسن کا
عمل، روح کی آزادی اور فطرت کی طرف مراجعت کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں
نے انسانی زندگی کے ٹھوس حقائق کو بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس میں رومانی رنگ بھی
چڑھایا ہے تاکہ قاری اکتا نہ جائے اوراسے مسرت و انبساط حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ
اپنے سماج میں پنپنے والی برائیوں پر بھی نظر پڑسکے۔
Irfan Rasheed Dar
R/o: Kochak Mohalla Hajin
Bandipora- 193501 (J& K)
Cell: 9622701103
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں