ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں
بہت سی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں زیادہ تر زبانیں ایسی ہیں
جن کی حیثیت علاقائی ہے۔ جن کا دائرکار بہت حد تک سمٹا ہوا ہے۔مگر اردو ہندوستان کی
ان چندزبانوں میں سے ایک ہے جس کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک مختلف
علاقوں میںپھیلی ہوئی ہے۔ اردو اپنی سحر آفرینی اور کشش کے سبب عوام کی زبان پر
چڑھی ہوئی ہے۔ اردو زبان صرف ایک کلچر ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مشتر کہ تہذیب کی
علامت،گنگا جمنی تہذیب و معاشرت کی علم بردار اور اتحاد و مساوات کی ترجمان ہے۔ اس کا دامن اتنا وسیع و عریض ہے کہ
اس میں نہ صرف ہندوستان کی مٹی کی خوشبوہے بلکہ بر صغیر اور وسط ایشیائی تہذیب و
ثقافت کی بو قلمونی اور رنگا رنگی بھی اس میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو زبان کا
وجودہی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی دین ہے یہ خالص ہندآریائی سلسلے کی ہندوستانی
زبان ہے جس میں ہندوستانیت کے عناصر جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ عام بول چال سے لے
کرادب اور شاعری تک ہر جگہ ہندوستانی عناصر موجود ہیں۔ اس کے خمیر میں یہ بات شامل
ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو،سکھ عیسائی اور دوسرے
مذاہب کے لوگ بھی بہت سرگرم رہے ہیں مثنوی کدم رائو پدم رائوسے لے کر آج تک بہت سی
کتابیں غیر مسلموں کے قلم سے لکھی ہوئی ہیں جو شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔
اردو ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں
ان سب میں ہندوستان کی علمی و ادبی،سیاسی و سماجی تہذیبی وتمدنی، قومی اور وطنی جیسے
عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شاعری انسانی جذبات و احساسات کی
آئینہ دار ہے وہ اپنے ماحول سے اثر انداز ہوکر انسانی اقدار کی عکاسی کرتی ہے، جس
نے مشترکہ تہذیب کی علامت کواجاگر کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح
ہے کہ شاعری میں نظم نے سب سے زیادہ ہندو
مسلم اتحاد، بھائی چارگی، اخوت، ہم دردی، میل جول اور اپنے پن کے احساس کو نمایاں
کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔اردو نظم ہمیشہ اپنے عصری ماحول سے متاثر رہی، اس
نے ہر عہد کی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ اس نے ہندوستان کے سیاسی،تہذیبی
اور ثقافتی تقاضے کو بھی بحسن خوبی ادا کیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو
نظموں میںاتحادو مساوات کا پیغام،وطن پرستی کے جوہر، وطن پرستی کی شان میں ترانے،
حب الوطنی کے جذبات سے سرشارنظمیں کثرت سے ملتی ہیں۔ ایسے بہت سے شعرا ہیں جنھوںنے
ہندوستان کی عظمت ورفعت میں ایسے دلکش اور جذبات آمیز ترانے اور گیت گائے ہیں جن
میں اپنے ملک سے والہانہ محبت و عقیدت اور وطن پرستی کے جذبات ابھرتے ہیں۔
گائتری منتر کو اردو کے بیشتر
نظم نگاروں نے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے گائتری منتر،ویدوں کا ایک خاص منتر ہے جس
کی اہمیت تقریباً ’اوم‘ کے برابر ہے۔ گائتری ایک چھند بھی ہے جو رگ وید کے سات
مشہور چھندوں میں ایک ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اس منتر کے پڑھنے سے خدا کا عرفان
حاصل ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئیں ہیں۔گا ئتری منتر کونظم کرنے
والے عرش ملسیانی اردو کے معروف شاعر ہیں انھوں نے بڑی تعداد میں نظمیں کہیں ہیں
جو مختلف موضوعات پر ہیں یہاں ہم گائتری منتر کے حوالے سے کچھ شعر دیکھتے ہیں ؎
اے آفتاب!روح و روانِ جہاں ہے
تو
شیرازہ بندِ دفترِ کون ومکاں
ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود
کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست
وبود کا
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی
سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضہ تجھی
سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے
ثبات ہے
تیرا یہ سوز و سازسراپا حیات
ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور
ہے
دل ہے ،خرد ہے، روحِ رواں ہے،
شعور ہے
اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور
دے
ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز
تو
یزدانِ ساکنانِ نشیب وفراز تو
تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلہ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا تری نہ کوئی انتہا تری
آزادِ قید اول وآخر ضیا تری
——
اوم جس کاسب سے پیارا نام ہے
روحِ عالم قاطعِ آلام ہے
جو چلاتا ہے نظام کائنات
مایہ رحمت ہے جس کی نیک ذات
بخشتا ہے جو ہمیں مال ومنال
روح کو دیتا ہے جو نورِ جمال
ہے سزاوارِ پرستش جس کی ذات
پاک ہے سب سے جو ہے والا صفات
دل میں ہو اس کا تصور ہر گھڑی
یاد میں اس کی بسر ہو زندگی
تاکہ بخشے عقل کو ایسی جلا
ہر عمل میں ہو صداقت کی ضیا
چھوڑ دیں اعمال بد کو چھوڑ دیں
گائتری منتر میں سورج کو مرکزی
حیثیت حاصل ہے قدیم گرنتھوں میں سورج برہما کی علامت مانا گیا ہے شعرا کی بڑی
تعدادنے اسے اپنی نظموں میں علامت کے طور پر پیش کیا ہے مثلاًشہاب جعفری کی ایک
نظم ذرے کی موت کا ایک شعرہے ؎
اپنے سورج سے بچھڑا ہوا تارہ
ہوں
اپنی فطرت سے بکھرا ہوا پارہ
ہوں
اس شعر میں سورج ایک علامت ہے
کیوں کہ اسے نظام شمسی میں مرکزیت حاصل ہے اور باقی تمام ستارے اور سیارے فروع ہیں۔مسلمان
اور ہندو کے عقائد،رسوم و رواج اور تہذیب و معاشرت کے تمام عناصرایک دوسرے سے
مختلف کیوں نہ ہوںلیکن ان کا اثرایک دوسرے پر گہرا ہے۔
آزادی کے بعد جو فرقہ وارانہ
فسادات پورے ملک میں برپاہوئے وہ ہندوستان کی قدیم روایتوں کے لیے کلنک تھے۔تقسیم
کا یہ زخم اردو ادب کے لیے بہت ہی مہلک اور روح فرسا تھا۔ ان حالات میں اردو نظم
نگاروں نے اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں برتی اپنے خون دل سے صدیوں کی آبیاری کے بعد
جس پودے کو انھوںنے سر سبز و شاداب بنایا تھا،اسے آگ اور خون سے بھری ہوئی ہوائوں
سے مرجھاتا ہوا نہ دیکھ سکے۔چنانچہ اردو شعرا نے پوری قوت کے ساتھ ان فسادات کے
خلاف آواز بلند کی۔
تقسیم کے کرب پر کئی نظمیں ہیں۔ وامق جونپوری کی ایک نظم دیکھیے ؎
اب یہ پنجاب نہیں ایک حسیں
خواب نہیں
اب یہ دو آب ہے سہ آب ہے پنجاب نہیں
اب یہاں وقت الگ شام الگ
ماہ و خورشید الگ نجم فلک گام
الگ
اسی تقسیم نے پنجاب تجھے لوٹ لیا
مرغزاروں کو تیرے کھاگئی منحوس
نظر
سوہنی اب نہ میہنوال کوئی گائے
گا
اب یہاں ہیر کو رانجھا نہ کبھی
پائے گا
کیوں کہ ان نغموں میں عرفاں کی
جھلک آتی ہے
ایسے گیتوں سے اخوت کی مہک آتی
ہے
انگریزوں نے آزادی کے ساتھ ہی
اپنی شاطرانہ چالوں سے ہندوستانی قوم کی صدیوں کی بنی بنائی قومی یکجہتی کو توڑنے
میں کامیابی حاصل کرلی اور دونوں کو آپس میں لڑا کر خوب فائدہ اٹھایا اور ایک
دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا ایسے میں اردو شعرا نے اپنے قلم کے جادو سے اس طوفان
کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔قومی یکجہتی کا وہ دھاراجو برسوں سے ہندوستانی
تہذیب میں رواں دواں تھاایک بار پھر نمودارہواجوش ملیح آبادی اپنی شاعری میں قومی
یکجہتی کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎
کوثر گنگا کو ایک مرکز پر لانے
کے لیے
ایک نیاسنگم بنائوںگا زمانے کے
لیے
ایک اپنی نوع کی لکھوں گا کتاب
زرفشاں
ثبت ہوگا جس کی زریں جلد پر
ہندوستاں
افسر میرٹھی بھی ہندوستانی
عناصر کو اپنی نظموں میں اس طرح بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؎
مذہب کچھ ہو ہندی ہیں،ہم سارے
بھائی بھائی ہیں
ہندو ہیں مسلم ہیں یا سکھ ہیں یا
عیسائی ہیں
پریم نے سب کو ایک کیا ہے پریم
کے ہم شیدائی ہیں
بھارت نام کے عاشق ہیں ہم
بھارت کے شیدائی ہیں
مخدوم محی الدین کی نظموں میں
ہندوستانی عناصر، یہاں کی تہذیبی جھلکیاں جابجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہندوستان کی
دھرتی، مندر، مسجد، کھیت، موسم، دہقان کی تان،کوئل کی کوکو وغیرہ کی منظر کشی بڑے
والہانہ طور پر کرتے ہیں۔ چاند تاروں کابن نامی نظم میں مخدوم نے ہندوستانی عوام کی
آزادی سے قبل آزادی کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیا ہے ان کے مطابق دونوں طرح
سے ہندوستانی عوام غلام اور مظلوم رہے ہیں پہلے انگریزوں کی غلامی کرتے تھے۔ اب
جاگیرداروں اور افسرشاہوں کی نوکری کرتے ہیں پہلے انگریز لوٹتے تھے اب مہاجن اور
کارپوریٹ سیکٹر انھیں لوٹ رہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ گوروں کی جگہ دوسری چمڑی
بلکہ اپنے ہی ملک کی چمڑی نے لے لی نظم کو دیکھیے اس وقت کے ہندوستان کو مخدوم نے
کس طرح پرونے کی کوشش کی ہے ؎
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں
کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح
وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند
تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاس آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مردو زن
مستیاں ختم،مدہوشیاں ختم تھیں
ختم تھا بانکپن
رات کے جگمگاتے دہکے بدن
یہاں سے آزادی کے بعد کا منظر
امیدوں کا بھرم ٹوٹتا ہوا دیکھائی دیتا ہے
؎
صبح دم ایک دیوار غم بن گئے
رات کی شہہ رگوں کا اچھلتا لہو
جوئے خون بن گیا
کچھ امامان صد مکرو فن
ان کی سانسوں میں افعی کی
پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا
دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوک زباں
خون نور سحر پی گئے
جان نثار اختر نے خاموش آواز
نامی نظم میں صفیہ کے مزار پر لکھی گئی اس نظم میں صفیہ نے اپنے محبوب زائر سے جو
باتیں کی ہیںہندوستانی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں ؎
کتنے دن میں آئے ہو ساتھی؟
میرے سوتے بھاگ جگانے
مجھ سے الگ اس ایک برس میں
کیا کیا بیتی تم نہ جانے
دیکھا کتنے تھک سے گئے ہو
کتنی تھکن آنکھوں میں گھلی ہے
آئو تمھارے واسطے ساتھی
اب بھی میری آغوش کھلی ہے
چپ کیوں؟ کیا سوچ رہے ہو؟
آئو سب کچھ آج بھلا دو
قبر میں مدفون محبوب اپنے زیارت
کرنے والے کو ہمت دلاتی ہے اور حوصلہ بلند رکھنے کی تاکید کرتی ہے اس سے انقلابی
شان نمایاں ہوتی ہے اور ہندوستانی ماحول کے خد و خال بھی ابھرتے ہیں ؎
میں جو تمھارے ساتھ نہیں ہوں
دل کو مت مایوس کرو تم
تم ہو تنہا تم ہو اکیلے
ایسا کیوں محسوس کرو تم
آج ہمارے لاکھوں ساتھی
ساتھی ہمت ہار نہ جائو
آج کروڑوں ہاتھ بڑھیں گے
ایک ذرا تم ہاتھ بڑھائو
اچھا اب تو ہنس دو ساتھی
ورنہ دیکھو روسی پڑوں گی
جھل مل جھل مل کرنیں آئیں
مجھ کو چندن ہار پنھانے
جگ مگ جگ مگ تارے آئے
پھر سے میری مانگ سجانے
آئیں ہوائیں جھانجھ بجاتی
گیتوں سے مورا انگنا جاگا
جاگ اٹھا ہے سارا عالم
جاگ اٹھی ہے رات ملن کی
آئو زمیں کے گود میں ساجن
سیج سجی ہے آج دلہن کی
چندن ہار، مانگ سجانے، جھانجھ،
جھمر، دمکااور مورے ہاتھوں کنگنا وغیرہ ایسی ترکیبیں ہیں جن سے ہندوستانی تہذیب و
ثقافت جھلکتی ہے۔اس کے علاوہ جاں نثار اختر کی بہت سی نظمیں ہیں جس میں ہندوستانی
عناصر جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سردار جعفری کی بہت سی نظمیں ہیں
جہاں ہندوستانی عناصر کا عکس پایا جاتا ہے اور ہندوستانیت پوری طرح جلوہ گر دکھائی
دیتی ہے،یہاں کے زمینی مسائل اور ماحول و تہذیب کا عکس نظر آتا ہے۔
اخترالایمان بھی آزادی کے بعد
ابھرنے والے نظم گو شعرا میں اہم مقام رکھتے ہیں انھوں نے اردو نظم کو نئی بلندیوں
اور نئی جہتوں سے آشنا کیا اور صنف نظم کو اعتبار و استحکام بخشا۔ان کی نظم ڈاسنہ
اسٹیشن کا مسافر ؎
کون سا اسٹیشن ہے ؟/ڈاسنہ ہے
صاحب جی
آپ کو اترنا ہے /جی نہیں نہیں
لیکن
آگے مزید لکھتے ہیں ؎
لیکن اب یہی بستی /بمبئی ہے دلی
ہے
قیمتیں زمینوں کی /اتنی بڑھ گئیں
صاحب
اخترالایمان کی ایک نظم دلی کی
گلیاں تین منظر میں ہندوستانی عناصر کو پیش کیا ہے ؎
لال قلعے پر آزادی کا
سہہ رنگا پرچم لہرایا
دلی کی گلیوں میں سب نے
آزادی کا جشن منایا
ہریجن بستی کی کٹیا
خون سے لت پت لہو لہان
کٹیا جیسے ایک شمشان
گاندھی جی کی لاش پڑی ہے
آزادی کچھ دور کھڑی ہے
کشمیر اپنے حسین مناظر کے لیے
مشہور و معروف ہے وہاں کی پہاڑیاں،سبزہ زار،پانی کے جھرنے نہایت دل کو لبھانے والے
ہیں دور ہوتے ہوئے بھی ہمارے نظم نگاروں نے اپنی نظموں میں وادی کشمیر کا ذکر بہت
اچھے انداز میں کیے ہیں نازش پرتاب گڑھی نے وادی کشمیر کو زندگی کا خواب حسین بتایا
ہے ؎
سلام وادی کشمیر اے عرش زمیں
ترا دیار ہے یا زندگی کا خواب
حسین
جہاں حسین ہے لیکن ترا جواب نہیں
بجا کہا تجھے جس نے کہا بہشت
بریں
ترے وجود سے قائم ہے ناز مصوری
ترے شہود پہ خود روح ارتقا
جھومی
باقر مہدی، منیب الرحمان، خلیل
الرحمان اعظمی، شہریار اور زبیر رضوی کے یہاں بھی نظموں کی ایک کائنات ملتی ہے ان
کا لہجہ اور ان کی فکری کائنات مختلف ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی نظموں میں اس معاشرے
کے دکھ سکھ اور محرومیوں اور مظلومیوں کی داستان سناتے ہیں۔ زبیر رضوی ماضی کی تہذیبی
میراث کے امین ہیں اور وہ گزشتہ عظمتوں کی بازیافت اپنی نظموں میں کرتے ہیں۔ان کی
نظم پرانی بات میں داستانوی فضا ملتی ہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
مخمور سعیدی کے یہاں بھی ایسی
بہت سی نظمیں ملتی ہیں جس میں انھوں نے مناظر فطرت،سیاسی و سماجی ہیجان، معاشی
زبوں حالی انسانی ناقدری اور تہذیبی روایات کی پاسداری بھی انھوں نے خوب کی ہے۔ان
کی نظم اے ارض وطن اس کی بہترین مثال ہے یہ نظم مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔ اس کے
علاوہ ہندوستان،وہ شہر بھی اسی جگہ ہے،ترکمان گیٹ دہلی اسلام عقیدت اور موسم بہار وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مظفر
حنفی بھی نمائندہ شاعروں میںسر فہرست نظر آتے ہیں ان کا شعری سرمایہ کافی وسیع ہے
ہندوستانی تہذیب کی روح ان کی شاعری میں سموئی ہوئی ہے۔
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ
اردو نظموں نے ہیئت کی جکڑبندیوں سے آزاد ہوکر موضوعات اور خیالات کی ایک وسیع دنیا
آباد کی ہے۔ اپنے قارئین کا ایک حلقہ پیدا کیا آزادی کے بعد جدید نظموں کے بہت سے
انتخاب شائع ہوئے جو اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔جدید نظموں نے اردو شاعری کی تنوع اور
رنگینی میں اضافہ کیا ہے گزشتہ چند برسوں میں نظم نگاروں کی جو نئی کھیپ سامنے آئی
ہے اس میں بھی ہمیں کہیں نہ کہیں ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں۔غرض
مشترکہ ہندوستانی تہذیبی عناصر کی روایت کی ابتدا قدیم شعرا نے کی تھی اس روایت کو
برقرار رکھتے ہوئے بلکہ یہ کہا جائے کہ اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے نئے شعرا نے اہم
اور قابل فخر ثبوت پیش کیا ہے۔
Dr
Mohd Akbar
Assitant Professor
CPDUMT,MANUU,
Hyderabad-
500032 (Telangana)
Mob.: 8373984391
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں