10/6/24

سید شکیل دسنوی، مضمون نگار: سید نفیس دسنوی

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024

 


بھائی جان مرحوم سے جڑی لگ بھگ نصف صدی کی خوشگوار اور قدرے کھٹی میٹھی یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ امڈا چلا آتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ مرحوم کی ان یادوں کا سلسلہ تقریباً نصف صدی کو محیط ہے جو ان کے لڑکپن اور میرے بچپن سے شروع ہوتا ہے،جب انھوں نے اپنے ادبی سفر کی شروعات کی تھی اور ان شروعاتی دور کی تخلیقات اس دور کے ادب اطفال پر مبنی مقبول اور معروف رسائل مثلاً کھلونا، کلیاں، چندا ماما، پھلواری، چاند وغیرہ میں تسلسل سے شائع ہوتی رہی تھیں۔ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ان کی تحریروں میں صلا بت فکری اور تخلیقی شعور پیدا ہوتا رہا اور پھر ان کی تخلیقات بڑوںکے رسائل مثلاً آستانہ، دین دنیا، پیامِ مشرق، شمع، روبی، بیسویں صدی، جمالستان، صبح نو وغیرہ کی زینت بننے لگیں۔ رسائل میں اپنی تخلیقات کو شامل دیکھ کر بھائی جان کو جتنی خوشی اور طمانیت ہوتی تھی اس سے کہیں زیادہ ہم چھوٹے بھائی بہنوں کے علاوہ بھیا کے قریبی دوست واحباب اور ہم جماعتوں کو ہوتی تھی۔ اس دور میں کہانیوں اور نظموں کے علاوہ قارئین کے تاثراتی خطوط بھی شائع ہوتے تھے بلکہ آج بھی شائع ہو رہے ہیں۔ ان خطوط میں بھائی جان کی تخلیقات پر مثبت تاثرات پڑھ کر ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھائی جان نے رفتہ رفتہ کہانی اور افسانہ نگاری کے علاوہ شاعری کی بھی ابتدا کی۔پہلے ہلکی پھلکی اور بعد میں سنجیدہ غزلیں کہنے لگے، جس کا سلسلہ چار دہائیوں تک جاری رہا۔ اس کے بعد انھوں نے پوری سنجیدگی اور متانت کے ساتھ نثر نگاری کا آغاز کیا۔ ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ نقدوتحقیق کے باب میں بھی انھوں نے جو گرانقدر اضافہ کیا ہے اس کی نظیر بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

ان کی تحریرنہایت شگفتہ اور بصیرت افروز ہوا کرتی تھی جس کے لیے شکیل نوازوں کی ایک بڑی تعداد ان کی حوصلہ افزائی میں آگے آگے رہی۔ان کے مداحوں کے تاثراتی خطوط سیکڑوں کی تعداد میں آج بھی راقم الحروف کے پاس محفوظ ہیں۔

ان کی غزلیہ شاعری کا دور کالج کے زمانے سے شروع ہوا تھا جس کا سلسلہ مختلف شعبوں میں ملازمت کے دوران بھی جاری رہا۔انجینئرنگ کی تعلیم اور حکومت اڈیشا کے محکمۂ انجینئرنگ میں ملازمت کے دوران بھی شاعری کرتے رہے۔ساتھ ہی مشاعروں میں شرکت اور اخبارات ورسائل میں کلام کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اب تک ان کے تین شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سول انجینئرنگ کے بھاری بھرکم خشک نصاب اور شاعری جیسی صنف لطیف کے مابین مرحوم نے نہ صرف زمانۂ طالب علمی بلکہ ملازمت کے دوران بھی ایک قابل تحسین توازن بر قرار رکھا، اور شوق کو تعلیم اور نوکری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ امتیازی درجوں سے سبھی امتحانات میں کامیابی حاصل کی اور دوران ملازمت بھی پورے 33  سال اس اعتدال اور توازن کو برقرار رکھا۔

ملازمت سے سبکدوشی 1999 کے بعد مرحوم شکیل دسنوی کی ادبی زندگی کا ایک نیا باب وا ہوا مگر سبکدوشی کے عین بعد ہی عارضۂ قلب جیسی مہلک پریشانی نے گھیر لیا مگر مرحوم نے بڑی جرأت وپا مردی سے اس عارضے کا مقابلہ کیا اور تحریر وتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ادبی سفر کے اس پڑاؤ میں آکر مرحوم نے شاعری کے مقابلے میں نثر نگاری پر زیادہ توجہ کی اور مختلف موضوعات پر ڈھیر سارے مضامین لکھے۔مضمون نگاری، تبصرہ نگاری، اور تنقید نگاری کے خوب جوہر دکھائے اور ان اصناف سخن میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ 2000 سے ان کی نثری تخلیقات کا سفر خاصا کامیاب رہا اور مداحوں نے ان کی شاعری کی طرح ان کی نثری اصناف فن کو بھی خوب سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔اس دورانیے میں انہوں نے اپنے قریبی دوست ہم عصر اور معتبر ادیب وشاعر جناب سعید رحمانی صاحب کے ساتھ مل کر سہہ ماہی ادبی ’ادبی محاذ‘ (پہلے ’سلسلہ‘کٹک) کی داغ بیل ڈالی اور اس کی اشاعت کے لیے مالی تعاون سے بھی نوازا ’ادبی محاذ‘آج  بھی الحمدللہ جاری اور ساری ہے۔ادبی محاذ کے ہر شمارے میں بھائی جان کے معرکۃ الآرااداریے بعنوان ’محاذِ اول‘ تواتر سے شائع ہوتے رہے اور قارئین میں مقبول بھی ہوئے۔ وہ گویا اس کے مستقل کالم نگار تھے اور ان اداریوں میں انھوں نے مروجہ موضوعات سے ہمیشہ ہٹ کر مختلف النوع موضوعات پر کچھ نئی بات کہنے کی کوشش کی تھی۔ان اداریوں کے علاوہ انہوں نے اس دوران ان گنت ہم عصر شعرائے کرام اور ادیبوںکے شعری و نثری مجموعوں پر بڑی ذمے داری اور دیانت داری سے بے لاگ تبصرے اور تنقیدیں تحریر کیں جو پورے ملک کے مقبول اور معتبر رسالوں کی زینت بنے جنھیں بعد میں ’اندازِ بیاں اپنا‘ کے عنوان سے 2021 میں شائع کروائی۔شکیل مرحوم نے ہمیشہ قلم کاروں کی تصنیفات کا باریک بینی اور خصوصی توجہ سے مطالعہ کیا اور ان تصنیفات پر بے لاگ تبصرے بھی کیے۔ اس صنفِ سخن میں انھوں نے مروجہ اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری کی اور حتیٰ الامکان بے جا تنقیص سے احتراز کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تبصروں اور تذکروں کو ہمیشہ اہلِ ادب نے قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا۔کئی ایک کتابوں کے مقدمے ‘پیش لفظ اور تقریظ بھی تحریر کی جنھیں صاحبِ کتاب اور قارئین نے پسند کیا۔

یادوں کا ایک ہجوم ہے جو امڈا چلا آتا ہے۔بیتے دنوں کی کھٹی میٹھی یادوں کا سیل رواں ہے کہ بہا جاتا ہے، اور یہی یادیں گویا میرا ادبی سرمایہ ہیں۔بھیا مرحوم اور ہم سبھی بھائی بہنیں اردو ناولوں کے رسیا تھے۔جاسوسی دنیا (ابنِ صفی ) رومانی دنیا (شکیل جمالی ) تاریخی دنیا (نسیم حجازی )طلسمی دنیا وغیرہ الغرض ہر طرح کی اردو کتابوں کا ہم بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔چونکہ وہ زمانہ وسائل کی کمی کا تھا،اس لیے بھیا مرحوم اور ان کے ادبی ذوق رکھنے والے احباب ’امداد باہمی‘ کے اصولوں کے مطابق ناولوں اور افسانوی کتابوں کا آپسی لین دین کیا کرتے تھے اور قسطوں میں گھنٹوں کے اعتبار سے شیئر کر کے پڑھا کرتے تھے۔ضخیم ناولوں میں اے آر خاتون،  فیاض علی، صادق علی سر دھنوی، عبدالحلیم شرر، خان محبوب طرزی اور تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول اور کتابیں خاصی مقبول تھیں۔ان کتابوں کے اتنے ذخیرے جمع ہو گئے کہ بھیا مرحوم کی ٹیم نے ’اقبال لائبریری‘ کی تشکیل کی جس سے شہر کٹک کے محبانِ اردو کو کتابوں اور رسالوںکے مطالعے کا سنہرا موقع ملا تھا۔

شکیل بھیا مرحوم ہم سبھی بھائی بہنوںسب سے بڑے تھے اور راقم الحروف چوتھے نمبر پر ہے۔ہم دونوں میں شروع ہی سے ذہنی قربت اور مزاج میں ہم آہنگی رہی۔ شعروادب میں مشترکہ شوق وذوق اور والد محترم پروفیسر سید منظر حسن دسنوی سے شرف تلمذ بھی حاصل رہا۔ بھیا مرحوم نہ صرف مشفق برادر اکبر تھے بلکہ احقر کے اولین استاد محترم بھی تھے ‘جن کی رہنمائی اور ذہن سازی نے میرے ادبی سفر کو قدرے آسان کر دیا۔ ان کی حوصلہ افزائی اور رہ نمائی میں میرا ادبی سفر طے ہوتا رہا۔ان کی اصلاح نے میری شعری اور نثری تخلیقات کو جلا بخشی۔ان کی رہنمائی میں مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔

میرے بھیا اپنی منصبی مصروفیات کے باوجود شعر و ادب میں اپنی تخلیقات سے اضافہ کرتے رہے۔ ان کا واسطہ ہمیشہ قرطاس وقلم سے رہا۔ سرکاری ٹور کے دوران میں نے انھیں کار کے ڈیش بورڈ سے ڈائری نکال کر نووارد اشعار کو نوٹ کرتے بھی دیکھا ہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی یہی حال رہا تھا۔ اپنے سرہانے قلم اور ڈائری رکھا کرتے تھے۔وہ دراصل شاعری میں ’آمد‘ کے قائل تھے اور آورد سے قطعی احتراز کرتے تھے۔میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ کبھی کبھی مہینوں میں وہ ایک شعر بھی نہیں لکھ پاتے تھے،اور کبھی ایک ہی دن میں کئی کئی معیاری غزلیں کہہ دیتے تھے۔اس طرح کی شاعری کو وہ الہامی اور سچی شاعری کہا کرتے تھے۔ان کی بیشتر غزلیں رات کے پچھلے پہر کہی ہوئی ہیں۔غالباً اسی لیے انھوں نے کہا تھا        ؎

آتے ہیں جیسے غیب سے افکار نو بہ نو

مجھ کو تو شعر گوئی بھی پیغمبری لگے

ایسی بہت ساری تخلیقات کا ذکر انھوں نے مجھ سے کیا ہے جو اکثر آخرِ شب مکمل ہوئی ہیں۔ ایسی تخلیقات میں متعدد نعت پاک شامل ہیں جن کو ’آمد‘ کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

اس کے قبل میں ’کھٹی میٹھی یادوں‘ کا ذکر کر چکا ہوں، وہ اس لیے کہ کبھی کبھی کسی ادبی نقطے پر ہم دونوں میں اختلاف رائے بھی ہوجاتا تھا مگر دائرۂ تہذیب میں رہ کر۔ میرا ماننا ہے کہ اختلاف رائے سرشتِ انسانی کا خاصہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ دو افراد کی رائے یکساں اور حتمی ہو مگر میں نے اپنے بڑے بھائی جو کہ میرے استاد محترم بھی تھے،ان کا احترام ہمیشہ پیش نظر رکھا اور اپنے اس شعر پر کار بند رہا          ؎

اختلاف رائے گر حد میں رہے تو ٹھیک ہے

ورنہ اک دن ہاتھ ملتی دوستی رہ جائے گی

ایک استاد کامل کی طرح انہوں نے مجھے شاعری کے اسرار ورموز سے روشناس کرایا۔رسالوں اور مجلوں میں اشاعت کے طور طریقے بتائے، مشاعروں میں موقع محل اور سامعین کی پسند اور مزاج کے مطابق کلام کے انتخاب اور پیش کش کے گر بتائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کلام پڑھتے وقت اختصار کی روش اورسامعین میں احساس تشنگی چھوڑ آنے کی عادت اور شروعات میں تمہید سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ شاعر کا شعر ہی اس کا اصل تعارف ہے۔

شاعری کے حوالے سے مرحوم کی ہمیشہ یہی رائے رہی کہ یہ اشاروں کنایوں میں کہنے اور سمجھنے کی چیز ہے اور وہ بھی ایسی کہ ’ازدل ریزدبر دل خیزد‘ جیسی کیفیت رکھتی ہو۔ یعنی شعر شاعر کے دل سے نکلے اور سامع کے دل میں اتر جائے۔ اشعار میں گہرائی وگیرائی کا خیال رکھتے اور اکہرے پن سے وہ ہمیشہ احتراز کرتے تھے۔غزل کہنے کے بعد بار بار اس پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی نوک پلک سنوارا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ غزل کہنے کے بعد بھی اس میں مزید نکھار کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

شکیل دسنوی اپنے عہد کے ایک منفرد شاعر تھے۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو حیات وکائنات کے روشن اور تاریک پہلوؤں کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں سادگی، سلاست اور بے ساختگی ہوتی تھی جس کی بنا پر قاری اور شاعر کے درمیان ترسیل  و ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ غزلیہ شاعری کے لیے عموماً مترنم بحروں کو ترجیح دیتے اور الفاظ کا انتخاب اس طرح کرتے کہ وہ صوتی اعتبار سے خوش آہنگ ہوں۔ لفظ و معنی میں گہرا ربط اور ہم آہنگی سے اشعار میں معنویت اور تہہ داری پیدا ہوتی ہے اور مضمون آفرینی اور تفکر کا عمل نمایاں طور پر کارفرما نظر آتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ پیکر تراشی کا عمل ان کے اشعار کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔موصوف کے پاس موضوعات اورتجربات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ شاعری میں کسی ایک رنگ و آہنگ تک محدود ہونا پسند نہیں کرتے۔خاص طور سے صنفِ غزل کے مختلف شیڈس(Shades)سے ان کی رغبت گہرے شعری اور تخلیقی شعور اور زبان و بیان پر گرفت اور فنی لوازمات پر ان کی گہری دسترس کا پتہ چلتا ہے۔

اپنی شاعری میں انھوں نے اردو اور ہندی الفاظ کی بڑی خوبصورت آمیزش کی ہے۔ اس نوع کے طرزِ بیان کو مرحوم شاد عظیم آبادی نے قدرے وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ شکیل دسنوی نے بھی اسی فکری رویے کوبڑی کامیابی سے برتا ہے۔اس طرز کی شاعری میں جہاں تہہ داری، ندرتِ بیان، تازگی نظر آتی ہے وہیں سادگی اور بے ساختگی بھی قاری کو اپنے سحر میں اسیر کر لیتی ہے۔ اہلِ اسلام کے پیغامِ مساوات اورخود داری کے جذبات میں ہندوؤں کی فراخ دلی‘ لطافت اورشائستگی کی دل کش آمیزش نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی خوب آبیاری کی ہے۔ شکیل دسنوی نے اسی روش کو اور آگے بڑھاتے ہوئے اردو شاعری میں ہندی کے کومل شبدوں اور روز مرہ مستعمل ہونے والے ہندی محاورات کا برملا استعمال کرکے ’سبک اردو شاعری‘ کی اختراع کی ہے۔ اس طرح انھوں نے اس صنفِ غزل کوگنگا جمنی تہذیب کا نمائندہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ان کی غزلوں کا یہ مخصوص رنگ و آہنگ ہندوستانی تہذیب کی اکائی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔

انھوں نے اردو اور ہندی کی ملی جلی زبان میں بہت ساری غزلیں کہی ہیںجن کو لوگوں نے پسند بھی کیا ہے۔ ایسی غزلوں میں گاؤں کے رومان پرور ماحو ل کی تصویر کشی‘ گاؤںکی کنواریوں کے جذبات و احساسات کی عکاسی ان غزلوں میں بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ پنگھٹ پر گوریوں کا ہجوم‘ کھیت کھلیان کی منظر کشی‘ ہجر کی پیڑا‘دلہن کی بندیا‘ جھومر اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ‘ ہجر و وصال کے قصے‘ حالاتِ حاضرہ کی عکاسی‘ حیاتِ انسانی کی فانی اور ناپائیداری کا ذکر عمدہ لفظوں کا انتخاب اور دروبست‘ محاورات‘ استعارات اور تشبیہات کا برملا استعمال اور زبان میں بے انتہا سلاست وروانی‘قافیوں اور ردیفوں کا ہنر مندانہ انتخاب اور مصرعوں کی ساخت میں چابکدستی وغیرہ جیسے اوصاف کا ایک زمانہ معترف ہے۔

مرحوم شکیل دسنوی ایک ہمہ جہت شخصیت اور بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔اسکول اور کالج کی تعلیمی زندگی میں محنتی اور ذہین طالب علم کی حیثیت سے ان کی پہچان تھی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ انھیں کھیل کود میں بھی دلچسپی تھی۔ ہاکی کے ایک اچھے کھلاڑی تھے۔اتکل یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ ہاکی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ سرکاری منصب پر ایک انجینئر کی حیثیت سے فائز رہتے وقت انھوں نے اڈیشا کے سبھی اہم شہروں اور قصبوں میں بور ویل (Borewell) کے ذریعے پینے کے صاف شفاف پانی کامعقول انتظام کیا تھا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہر کٹک کے سب سے بڑے ذیلی رہائشی مرکز سی ڈی اے کے مختلف سیکٹروں کی کامیاب پلاننگ (منصوبہ بندی) کی جس کی وجہ سے یہ علاقہ آج ایک کامیاب رہائشی علاقہ میں شمار ہوتا ہے۔

اد بی حیثیت سے بھی انھیں بلند مقام حاصل ہے۔ شعروشاعری اور نقدوتحقیق کے باب میں انھوں نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کے نام ہیں ’زند گی اے زندگی‘ (1981)، ’تنہا تنہا‘(1989)، ’کتنی حقیقت کتنے خواب‘ (2005، ’دلِ نا آشنا‘ (2006)، ’طفلی ترانے‘ (پہلا ایڈیشن2010 اور دوسرا ایڈیشن 2011) ’سانجھ بھئی چودیس‘ (خسرو رنگ شاعری 2012)، ’بازدید‘ (تبصروں پر مبنی 2011)، ’اندازِ بیاں اپنا‘ (تنقیدوتجزیہ 2011)۔ ان ذاتی تخلیقات کے علاوہ تین شعری مجموعوں کی تالیف کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔یہ مجموعے ہیں ’یادوں کی دہلیز‘ (والد محترم پروفیسر منظر حسن دسنوی 2005)، ’وجدان‘  (محترم خالو ابا مرحوم اور خسر محترم سید شکیل دسنوی 2012) اور ’کہی ان کہی‘(سید آصف دسنوی فرزند سید شکیل دسنوی 2012‘، نوٹ: یہ ساری تخلیقات ریختہ ڈاٹ کام پر میسر ہیں )

مرحوم کی ایک اور شاندار پیش کش ہے پیرِ جمالیات ڈاکٹر شکیل الرحمن پر بہت عمد ہ اور مسبوط خاص نمبر جو ’ادبی محاذ‘ کٹک میں شائع ہو چکا ہے ڈاکٹرموصوف کی فرمائش پر یہ شمارہ بڑی جانفشانی اور لگن سے ترتیب دیا گیا تھا۔یہ خاص نمبر بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کی اشاعت پر ڈاکٹر شکیل الرحمن صاحب نے احقر کی موجودگی میں فون پر بھیا مرحوم کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کلمات تشکر ادا کیے تھے۔ اس خاص نمبر کی دستاویزی حیثیت آج بھی مسلم ہے۔ اس شمارے کی مانگ اتنی زیادہ تھی کہ ادارہ ان کی تکمیل سے قاصر رہا۔ ’ادبی محاذ‘ ملکی سطح پر اس لیے مقبول ہے کہ اس میں شامل مضامین، افسانے اور دیگر مشمولات لائق مطالعہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً اس کا چشم کشا اداریہ ’محاذ اول ‘فکر انگیز ہوتا ہے۔ اس رسالے کی ادارت کے ساتھ ساتھ سعید رحمانی صاحب تذکرہ نگاری کے ذیل میں مزید دو مجلے ’ایک شاعر اور ایک غزل‘ اور ’ایوانِ نعت‘ کے نام سے کئی برسوں تک شائع کرتے رہے ہیں۔

افتخارامام صدیقی کی ادارت میں ممبئی سے شائع ہونے والے رسالہ ’شاعر ‘کے فروری 2008 کے شمارے میں افتخار امام صدیقی صاحب نے ’فنکار اب بھی مستور ہے ‘کے عنوان کے تحت شکیل دسنوی مرحوم پر ایک سیر حاصل ادبی مکالمہ یا انٹرویو بھی شامل کیا تھا۔(یہ انٹرویو خاصا اہم اور لائق مطالعہ ہے )۔

سید شکیل دسنوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میںیوپی اردو اکادمی، بہار اردو اکادمی اور اڈیشا اردو اکادمی کے ذریعے اعزازواکرام سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کی ایک غزل کو ان کے مداحوں نے بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے جس کا مطلع ہے         ؎

اتنی مدت کے بعد ملے ہو

کچھ تو دل کا حال کہو

ادب اطفال پر مبنی ان کا ایک مجموعہ ’طفلی ترانے‘ ہے۔اس میں شامل کچھ نظموں کو محکمۂ سیاحت نے چند ہل اسٹیشنوں کے بورڈ پر چسپاں کر دیا ہے۔ دھوترے(Dhotrey) نامی ہل اسٹیشن جو جلپائی گوڑی سے دس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ وہاں کے سیاحتی مرکز میں شکیل دسنوی مرحوم کے نام کے ساتھ انگریزی زبان میں ان کی ایک نظم بھی تحریر کی ہے جو اس طرح ہے         ؎

بنجر ہیں،پتھریلے ہیں

اور کہیں برفیلے ہیں

دلکش ہیں شاداب بھی ہیں

خود میں سمیٹے خواب بھی ہیں

اسی طرح ایک ماہر ماحولیات شری پارس ناتھ بوس نے عالمی ماحولیات کے حوالے سے 5 جون 2021 کو ماحولیاتی آگہی کے لیے منعقدہ پروگرام میں شکیل دسنوی کے حوالے سے یہ نظم پیش کی ہے         ؎

دھوپ میں سایہ دار درخت

لدے پھندے پھل دار درخت

تازہ ان سے ہوا ملے 

جینے کا تب مزہ ملے

(اطلاعات بشکریہ سید آصف دسنوی )

اب سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے موبائل فون سے بھائی جان مرحوم کا نام حذف کرتے وقت کس کرب ناک اذیت کا احساس ہوا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، انگلیاں کانپ جاتی ہیں۔ اس دکھ اور رنج کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ اس تکلیف دہ موضوع پر مجھے پروفیسر کرامت علی کرامت مرحوم کی نظم بعنوان ’موبائل‘ یاد آگئی جو انھوں نے اپنی حیات میں سنائی تھی،وہ نظم حسب ذیل ہے     ؎

موبائل میں تمھارا نام اور نمبر ہے محفوظ

مگر تم اس جگہ جا کر بسے ہو

جہاں سے لوٹ کر آتا نہیں کوئی

موبائل میں یہ نمبر رہ کے آخر فائدہ کیا ہے

یہ سوچا بارہا میں نے           

یہ کیسے مان لوں  میں                                                                                 

کہ تم میرا موبائل کال پاکر چپ رہو گے 

انھیں خوش گوار اور سوگوار یادوں کے ساتھ بھائی جان مرحوم کے ان کی اپنی پسندکے چند لازوال اشعار کو پیش کرکے اجازت چاہوں گا

چھلک اٹھیں گی آنکھیں ناگہاں،جب ہم نہیں ہوں گے

بہت ڈھونڈو گے ہم کو مہرباں،جب ہم نہیں ہوں گے

عمر بھر مہمان بن کر میں یہاں ٹھہرا رہا

نام کی تختی مری تھی،یہ مکاں میرا نہ تھا

کہتے کہتے ہم فسانہ زیست کا چپ ہو گئے

بزم ہستی کی حقیقت وہ نظر آئی کہ بس

لاکھ ڈھونڈوگے مگر،مجھ کو کہاں پاؤ گے

یاد بن کر کہیں ماضی میں بکھر جاؤں گا

عمر دنیا میں کچھ اس طرح گزاری ہے شکیل

اجنبی کوئی سرِ راہ رکا ہو جیسے

کتنے ٹکڑے خوابوں کے آس پاس بکھرے ہیں

دیکھتے ہیں اک اک کو ہم بہ چشم نم تنہا

زلفِ عروسِ فن کی ملی چھاؤں میں پناہ

جب بھی غموں کی دھوپ کی حدت بڑھی شکیل

Syed Nafees Dasnvi

Plot No: 1481/B,

Sector-6 CDA, Bidanasi

Cuttack-753014 (Odisha)

Mob.: 9437067585

Email.: nafis.desnavi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...