11/6/24

پروفیسر محمد اسلم خان: دہلی کی ایک نامور علمی شخصیت، مضمون نگار: مہتاب جہاں

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024

 


شعبۂ فارسی دہلی یونیورسٹی کا وہ قدیم شعبہ ہے جس کا قیام یونیورسٹی کے ساتھ ہی عمل میں آیا۔ اس شعبے میں فار سی  کے بہترین اساتذۂ کرا م کا تقرر ہوا۔ متقدمین اساتذہ نے شعبۂ فارسی کی ترقی وبہبودی کے لیے نمایاں کام انجام دیے اور شعبے کو ایک جدا شناخت دے کر ہندوستان کے دیگر فارسی کے مراکز میںمشہور ومعروف کیا۔ ان قابل اساتذہ کی فہرست کافی طویل ہے، اس میں سرفہرست نام ہے پروفیسر امیرحسن عابدی کا جو شعبۂ فارسی کے پہلے صدر تھے اوربابائے فارسی کے لقب سے جانے جاتے  تھے۔ ان کی شہرت آج بھی ہندوستان ہی نہیں بیرونی ممالک میں بھی فارسی زبان وادب اور قلمی نسخوں کی بازیافت کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔ شعبے کے دیگر اساتذہ میں  پروفیسر منظورحسن موسوی، پروفیسر بھگوت سروپ، پروفیسر مقبول احمدبیگ، پروفیسر نورالحسن انصاری، پروفیسراظہر ودود دہلوی، پروفیسر شریف حسین قاسمی، ڈاکٹر ادریس احمد، پروفیسر نرگس جہاں، پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی، پروفیسر ریحانہ خاتون(پدم شری)  قابلِ ذکر ہیں۔ ایک اہم نام اور ہے جو ان اسمائے گرامی میں اگر شامل نہ کیاجائے تونامناسب ہوگا۔ وہ نام ہے پروفیسر محمداسلم خان۔

پروفیسر محمداسلم خان نے یکم جنوری 1939 میں کٹرہ شیخ چاند بلی ماران دہلی میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازم تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اینگلو عربک اسکول سے ہوئی۔ بی اے، ایم اے فارسی زبان وادب میں دہلی کالج، دہلی یونیورسٹی سے کیا۔ آپ اینگلو عربک اسکول میں بھی معلم اور اس کے بعد 1960 میں پی ایچ ڈی (ڈی لٹ) کے لیے ایران تشریف لے گئے۔ آپ کے تھیسس کا عنوان تھا ’نقش ظفرخاں احسن در عہد شاہجہاں( ظفرخاں احسن عہد شاہجہاں کے گورنر، منتظم اور  نامور دانشور تھے)‘ استاد حسین خطیبی کی رہنمائی میںآپ نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔

جیسے کہ اوپر بیان ہوا آپ ایران جانے سے قبل ہی اینگلو عربک اسکول میں استاد کی حیثیت سے برسرکارتھے۔ ایران سے واپسی پر دوبارہ اسی اسکول میں درس وتدریس میں مشغول ہوگئے اور 1966 تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلم سر نے مختصر وقفے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ فارسی میں بھی پڑھایا۔ 1970 میں پروفیسر اسلم خان کی بحالی شعبۂ فارسی دہلی یونیورسٹی میں ہوئی جو تاحیات برقرار رہی۔ آپ نے استاد اور صدرشعبہ ان دونوں فریضوں کو بخوبی انجام دیا۔ شعبے کے استاد کے طور پر آپ ایک بہترین اور قابل استاد اورایک محقق کے طورپرجانے جاتے تھے اور جب شعبے کے صدر بنے تو ایک فعال اور منظم صدر ثابت ہوئے اور شعبے کی ترقی میں بے حد اہم رول ادا کیا۔ آپ اعلیٰ درجے کے منتظمین میں شمار کیے جاتے  آپ نے بڑے اہم موضوعات پر قومی و بین الاقوامی سمینار اور کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ ان میں بیرونی ممالک جیسے ایران، افغانستان، تاجکستا ن سے اسکالرز شریک ہوا کرتے تھے۔ بے حد کامیاب سمینار اسلم خان صاحب کی قیادت میں منعقد ہوئے۔ آپ نے چونکہ ایران سے ڈی لٹ کیا تھا، اس لیے ایرانی علما سے بھی آپ کی شناسائی بہت تھی۔ آپ کا شمار ہندایران کے نامور اساتذہ میں ہوتا ہے۔

اسی ضمن میں خود آپ کی تصانیف وتالیف کا ذکر یہاں لازم معلوم ہوتا ہے، جو درج ذیل ہیں:

(1) احوال وآثار واشعار ظفرخاں احسن، 1976، (2) ترتیب وتصحیح تذکرہ منتخب الاشعار از مردان علی خاں مبتلا 1975، (3) مثنویات ظفرخاں احسن، 1985،  (4) ترتیب وتصحیح طبقاتِ شاہ جہانی طبقہ دہم از محمد صادق خان ہمدانی، 1990،  (5) انتخاب نثر معاصر فارسی، بخش فارسی دانشگاہِ دہلی، 1991، (6) ادبیات فارسی درمیان ہندوان (ترجمہ از اردو بہ فارسی)، 1992، (7) ترتیب وتصحیح طبقاتِ شاہجہانی طبقہ نہم، 1993،  (8) دانشگاہِ دہلی وسہم آن در گسترش زبان وادبیات فارسی، 1997، (9) تذکرۃ الشعراء تالیف محمد عبدالغنی، تصحیح وحواشی با اضافات لازم، 1999، (10)مدارس دین ہند (ترجمہ از اردو بہ فارسی) از دکتر قمرالدین، 1999

’انتخاب نثر معاصر فارسی‘ بہت عمدہ ہے، تمام جدید ومعاصر فارسی ادب کے شہ پاروں کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔ جدید فارسی کی داستانِ کوتاہ کے جو نمونے اس میں شامل کیے گئے ہیں وہ آپ کی اس فیلڈ میں دقیق النظری کو واضح کرتے ہیں۔

ظفرخاں احسن پر جو آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تھا آپ نے اس پر جس قدر کام کیا وہ لائق تحسین ہے۔یہ ایک دقیق تحقیقی کام ہے، جو اس عہد کی مکمل اورعمدہ عکاسی کرتا ہے۔

شاہجہاں نامہ پر تحقیق کرکے آپ نے اس کی تصحیح کی اور آپ کے انتقال کے بعد پروفیسر جمیل الرحمن نے (ذاکر حسین دہلی کالج مورننگ) جو ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں’ملخص شا ہ جہان نامہ‘کے عنوان سے 2009  میں یہ کتاب مرکز تحقیقات نئی دہلی نے شائع کی۔

 کتابوں کے علاوہ اسلم خان کے مضامین اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں ہندوستان کے مختلف رسالوں میں شائع ہوئے۔ شعبۂ فارسی سے شائع ہونے والے ’مجلہ تحقیقات فارسی‘  میں تقریباً پندرہ مقالے شائع ہوئے۔ جو بے حد اہم موضوعات پرتھے۔ایران کلچرہاؤس سے شائع ہونے والے ’قندِپارسی‘ مجلہ میں بھی آپ کے گراں قد راور وقیع مضامین شائع ہوئے، جن کی تعداد تقریباً پندرہ سے زائدہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے شائع ہونے والے میگزینوں میں بھی آپ کے مضامین لگاتار شائع ہوتے رہے، جیسے حیدرآباد، کشمیر، کلکتہ، بہار، راجستھان، اعظم گڑھ، علی گڑھ وغیرہ۔ بیرونی ممالک ایران، افغانستان، پاکستان وغیرہ کے اہم اور معروف رسالوں میں محمداسلم خاں کے مضامین شائع ہوئے۔

ایک استاد، ایک محقق ایک جگہ بیٹھ کر یا رہ کرنہ پڑھا سکتا ہے اورنہ تحقیق کرسکتا ہے، اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہی پڑتا ہے۔ اسلم صاحب نے بھی کئی علمی سفر کیے مثلاً ایران، افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان او رہندوستان کے متعدد شہروں کے علمی سفر آپ نے کیے۔ دوسرے شعبوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں او رسمیناروں کے بھی آپ سرگرم رکن رہے۔

پروفیسر محمداسلم خاں بآسانی انگریزی سے فارسی، فارسی سے انگریزی، اردو سے فارسی اورفارسی سے اردو زبان میں ترجمے کرسکتے تھے۔ ان کی کئی ترجمہ شدہ کتابیں اس کی شاہد ہیں۔ اس کے علاوہ اسلم خاں صاحب کو جدید فارسی زبان وادب پرمکمل عبور حاصل تھا۔ کلاسیکل فارسی پر تو آپ کی نظر گہری تھی ہی۔ فارسی باستان (old persian)  اور خط میخی (Cuneiform)کے بھی آپ ماہر تھے۔ فارسی بہت روانی سے بولتے تھے، خاص پرانی دہلی کے رہنے والے تھے۔ اس لیے دہلی میں ایک خاص لہجے میں بولی جانے والی اردو زبان پر بھی آپ کو مہارت حاصل تھی۔ آپ کا محبوب مشغلہ تھا اپنے طالب علموں کو فارسی میں ترجمہ سکھانا۔ یہ آپ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کے بیشتر شاگرد آل انڈیاریڈیو، ایران کلچر ہاؤس اور ایران ایمبیسی میں ملازم ہوئے اور کئی تو آج بھی مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔

پروفیسر اسلم خان نے اردو کے مشہور محقق محمود شیرانی کے فردوسی پر چارمضامین کا بھی فارسی میں ترجمہ کیا۔

پروفیسر محمداسلم خاں کے خاندانی حالات پر نظر ڈالیں تو آپ کے والد داؤد خاں خاص دہلی کے رہنے والے تھے۔ یوسف زئی قبیلے سے آپ کا تعلق تھا اسی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ ’خان‘ لگتا ہے۔ ان کے والدداؤد خان وہ خوش نصیب شخص تھے جن کو خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار کے قریب دفن کے لیے جگہ ملی۔ پس ماندگان میں پہلے اہلیہ اور دوبیٹے سعود خاں اورودودخاں حیات تھے۔ اب تینوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ دونوں بیٹے جواں سالی میں ہی گزرگئے۔اب صرف دوبہویں اور دو پوتیاں او رایک پوتا باقی ہیں جوپرانی دہلی میں ہی مقیم ہیں۔

پروفیسر اسلم خاں کے معاصرین اور ہمکاروں کی فہرست بہت طویل ہے، سرِ فہرست جو نام آتا ہے وہ بابائے فارسی پروفیسر امیرحسن عابدی، ڈاکٹر بھگوت سروپ، ڈاکٹر منظورحسن موسوی، پروفیسر مقبول احمد، پروفیسر نورالحسن انصاری، ڈاکٹر اظہرودود دہلوی، اور پروفیسر شریف حسین قاسمی، ان کے علاوہ ذاکرحسین دہلی کالج کے قدیم استادوں میں ڈاکٹرمرسلین، ڈاکٹر یونس جعفری اور ڈاکٹر محمد یوسف خاں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

پروفیسر محمداسلم خاں ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ عادات واطوار کا اگر ذکر کیاجائے تو آپ ایک محنتی، مشفق اورمہربان انسان تھے۔ خوش اخلاقی اور خوش مزاجی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی۔

خاکسار نے پہلی بار اسلم صاحب کو ذاکرحسین دہلی کالج کے اسٹاف روم میں ڈاکٹرمرسلین کے ساتھ محوِ گفتگو دیکھا۔ بے حد اسمارٹ کوٹ پینٹ میں ملبوس ہاتھ میں سگریٹ، بڑے شاندار لگے تھے۔ خاکسار بی اے کے سکنڈایئر میں تھی۔ اسلم سر ہمیں شعبۂ فارسی دہلی یونیورسٹی سے گرامر اور ٹرانسلیشن کی کلاسیں پڑھانے آتے تھے۔ ہم طالب علموں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ ایک پروفیسر ہمیں دہلی یونیورسٹی سے پڑھانے آتے ہیں۔ کئی مہینے وہ ہمیں پڑھانے آتے رہے،پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ پھر جب خاکسار نے بی اے مکمل کیا تو ایم اے کے طالب علم کے طورپر شعبہ میں داخل ہوئی۔ تب آپ شعبے کے صدر تھے۔ پہلی بار شعبے میں اور میری دوست ان کی خدمت میں پہنچیں۔ آپ بڑی شفقت سے ملے۔ کلاس میں صدرشعبہ ہونے اوربے انتہا مصروف ہونے کے باوجود ہمیشہ وقت پر پہنچتے تھے۔خواہ صرف ایک ہی طالب علم ہو، آپ اسی کو پڑھانے میں مشغول ہوجاتے۔

   فارسی شعبے میں سالہا سال سے بدھ کے دن آج تک سمینار ہوتا ہے۔ اس میں چائے سموسے سے ضیافت ہوا کرتی تھی، مگر میں نے سر کوکبھی بہت زیادہ کھاتے یا پیتے نہیں دیکھا، ہمیشہ کاموں میں مصروف رہتے، چائے یا کافی تو پیتے مگر کھانا گھر جاکر کھاتے۔ اس معاملے میں بھی وقت کے بہت پابند تھے۔ سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ زیادہ تر سفاری سوٹ پہنا کرتے تھے یا سفید شرٹ اور پتلون زیب تن کیا کرتے تھے۔ شاگردوں کے ساتھ آپ کا رویہ بالکل دوستوں جیسا ہوتا تھا، اکثر آپ جب کسی کو پکارتے تو برادر کہہ کر مخاطب کرتے۔ اکثر طالب علم اور اساتذہ ان کے گھر جایا کرتے تھے کیونکہ ان کا گھر شعبے سے نزدیک تھا۔ ان کی ا ہلیہ سب کی خاطر مدارات کرتی تھیں۔ اسلم سر خود اٹھ کر سب کی خاطر کیا کرتے تھے اوربہت محبت اور دوستانہ ماحول میں باتیں کیا کرتے۔

آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو مفید مشورے دیا کرتے، ایم اے میں شعبے میں کئی طرح کے گروپ نصاب میں شامل تھے، کس کو کون سا گروپ لینا چاہیے، اس میں بھی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ شاگرد کی لیاقت واہلیت کو مدنظر رکھ کر گروپ کو منتخب کرنے کی صلاح دیتے تھے۔ پروفیسر اسلم خاں خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے انتہا مہذب انسان تھے، خواہ آپ کے ہمکار ہوں، شاگرد ہوں، آفس کا عملہ ہو سب کے ساتھ اخلاق وتہذیب سے پیش آتے۔ مالی امداد بھی اپنے ضرورت مند طلباء کی کیا کرتے تھے۔ آج بھی ان کے پرانے شاگرد، اسکالرز جو اب مختلف اہم عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں، بیشتر تو سبکدوش بھی ہوچکے ہیں، مگر آپ کی اس نوعیت کی مدد کا جب ذکر کرتے ہیں تو روبھی پڑتے ہیں۔ شعبہ کے تمام اساتذہ اور شاگردوں کو چائے ضرور پلاتے تھے، اس زمانے میں جگہ جگہ کیمپس کے ا ندر ہی چائے والے موجود ہوتے، پروفیسرز گھر سے آتے، اکثرکلاس میں جانے سے پہلے چائے کی دکان پر پہنچتے، سب کو چائے پلاتے تھے، جو کلاس کے لیے آتا تھا وہ استاد وںکی چائے سے محروم نہیں ہوتا تھا۔ آپ اکثر اپنے کمرے میں ہی چائے منگوایا کرتے تھے، تو اکثر دو تین کپ زیادہ منگواتے تھے۔ پوچھنے پر کہتے تھے بھائی لے آؤ زیادہ چائے کیونکہ لوبان جلے گی تومُردے تو آئیں گے ہی، یہ جملہ وہ ہنس کر بولتے تھے۔اور ہم دیکھتے کہ واقعی چائے جیسے ہی آتی لوگ آنے لگتے، تو آپ کہتے تھے دیکھا میں ناں کہتا تھا۔

خاکسار کو اسلم سر سے بے حد عقیدت تھی، خراجِ عقیدت کے طور پر اپنی ایک اسکالر کو آپ کی حیات و خدمات پر ایم فل کا اور تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔ جس کا عنوان تھا ’احوال وآثار پروفیسر محمداسلم خان‘ اس تحقیقی مقالے میں اسلم سر سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بیان کردی گئی ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلم سر پر خاطرخواہ اطلاعات ایک جگہ سے حاصل ہوجائیں۔

اس کے علاوہ شعبۂ فارسی سے شائع ہونے والے مجلے ’ تحقیقات فارسی‘ کی ادارت میرے حصے میں آئی تو 2021 کا شمارہ اس عظیم استاد کو معنون کیا۔ ان کی ایک خوبصورت تصویر بھی اس کے فرنٹ پیج پر شائع کی۔ اس خاکسار نے اس طرح ا ن کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

اسلم سر نے ایک کارنامہ اپنی وفات سے ایک سال پہلے یہ انجام دیا کہ شعبۂ فارسی کی تاریخ پر ایک کتاب مرتب کی جس کا عنوان ہے ’بخش فارسی دانشگاہِ دہلی وسہم آن درادبیات فارسی‘ اس میں آپ نے 1922 سے لے کر1999تک کی تاریخ مفصلاً تحریر کی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ کون کون اساتذہ رہے ہیں، ان کی تالیفات، ان کا تقرر، شعبۂ فارسی کی بنیاد کب پڑی، ریسرچ اسکالرز کی مکمل اطلاعات،کون کون صدر ِشعبہ رہے، ساری تفصیلات ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی اہم کتاب ہے، آج بھی شعبہ اس کتاب سے استفادہ کرتا ہے۔ خاکسار نے بھی اس کام کو شروع کردیا ہے اور جہاں تک اسلم سر نے اس کام کو کیا تھا، اس کے آگے سے تابحال خاکسار نے اس کام کو مکمل کرنے کابیڑا اٹھایا ہے۔امید ہے جلد ہی یہ کام منظرعام پر آئے گا۔

 اسلم صاحب اپنی صحت کا خاص خیال رکھتے تھے، وقت پر کھاناکھاتے اور ایک خاص گرو کی نگرانی میں یوگا کیا کرتے تھے، مگر سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ اچانک کینسر کی بیماری لاحق ہوئی اور اپنی ملازمت کی سبکدوشی سے چھ ماہ پہلے ہی 16اگست 2000کو  داغِ مفارقت دے گئے اورعلم وادب کا یہ روشن چراغ ہمیشہ کے لیے بے نور ہوگیا۔

Dr. Mehtab Jahan

Associate Prof. Dept of Persian

Delhi University,Delhi

 Mob.: 9717412946

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...