ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
وادیِ کشمیر میں غزل کی آبیاری کرنے والے افراد کی خاصی
تعداد ہے۔ یہاں ہر دور میں اردو شاعری کے حوالے سے بالعموم اور اردو غزل کے لحاظ
سے بالخصوص بعض اہم شعرا نے اپنی فکری بیداری اور فنی خصوصیات کی بنا پر اپنا نام
نہ صرف کشمیر بلکہ پورے اردو ادب کی دنیا میں روشن کیاہے۔ ایسے معروف شعرا میں ایک
اہم نام فاروق نازکی کا بھی ہے۔
فاروق نازکی وادیِ کشمیر کے سرحدی ضلع بانڈی پور کے دور
افتادہ گاؤں مانڈر میں 1940کو پیدا ہوئے۔ آپ ایک علم دوست اور پڑھے لکھے خاندان
کے چشم و چراغ ہیں۔ فاروق کے والد میر غلام رسول نازکی ریاست جموں و کشمیر کے
قدآور اُردو اور کشمیری شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔
ریاست میں اُردو شاعری کی جملہ اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا میں میر
غلام رسول نازکی ایک تناور درخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔آپ نے وادی کے کئی نو مشق
شعرا کی شاعری کی اصلاح کرکے ان کے مذاق کو سنوارا ہے۔ فاروق نازکی کی والدہ ماجدہ
کا اسم گرامی عائشہ بیگم تھا۔ موصوفہ نہایت ہی مخلص، ملنسار، ہمدرد اور جہاں دیدہ
خاتون تھیں۔فاروق نازکی نے اپنی زندگی کے ابتدائی ماہ و سال ایشیا کی سب سے بڑی جھیل
’’ولر ،،کے کنارے قدرت کی حسین اور خوبصورت آغوش میں اپنے گاؤں مانڈر کی کھلی
فضا میں گزارے ہیں۔ اسی گاؤں کی مشک بار فضا میں فاروق نے ابتدائی تعلیم کی
شروعات اپنے والدین کی نگرانی میں کی۔ فاروق کی عمر دس سال کی تھی جب وہ اپنے والدین
کے ہمراہ بانڈی پورہ سے ہجرت کر کے سرینگر کے ریناواری علاقے میں رہنے کے لیے
مستقل طور پر آگئے۔ موصوف نے باقاعدہ تعلیم کا آغاز سرینگر میں ہی کیا۔ ایس۔ پی
کالج سے بی۔اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ایم۔اے اُردو کشمیر یونیور سٹی
سے کیا۔اس کے علاوہ فاروق نے یو نیورسٹی آف برلن سے ’ڈپلو ما اِن جرنلزم‘ (Diploma
in Journalism) بھی کیا ہے۔ ایم۔اے کے
فوراً بعد فاروق نازکی ریڈیو کشمیر میں پہلے عارضی اور بعدازاں مستقل طور پر ملازم
ہوگئے۔ ریڈیو کشمیر میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے اسی دوران کشمیر میں دور درشن
کی سنگ بنیاد ڈالی گئی، اور فاروق نازکی ریڈیو سے دور درشن منتقل ہو گئے۔ دوردرشن
سرینگر میں نازکی نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے اس شعبے کو ترقی دینے میں اہم رول
ادا کیا ہے۔ فاروق نے دور درشن کیندر سرینگر میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فرائض انجام
دینے کے بعد آخر میں ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
فاروق نازکی کا ابتدائی کلام وادی کے نامور رسائل اور
اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے جن میں، شیرازہ ، تعمیر ، پرتاب ، الصفا ، سرینگر
ٹائمز کے علاوہ ملک کے معروف جرائد جیسے شاعر ، شب خون ، انتساب ، آجکل ، سب رس ،
سر سبز وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔موصوف نے اُردو دنیا کو اپنا پہلا شعری
گلدستہ 1989میں ’آخری خواب سے پہلے‘ کی شکل میں دے دیا۔ یہ شعری مجموعہ فاروق کے
فکر وفن اور انداز بیان کا بہترین آئینہ دار ثابت ہوا۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں
اور منظومات کو قارئین کے ایک وسیع حلقے نے پسند کیا اور خوب داد دی۔ ’آخری خواب
سے پہلے‘ کے بعد فاروق نازکی کا دوسرا
مجموعہ ’لفظ لفظ نوحہ‘ 1990میں منظر عام
پر آیا۔اس مجموعے میں حمد و نعت کے بعد غزلیات اور منظومات شامل ہیں۔ اس مجمو عے
کے مشمولات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروق نازکی فن شاعری کو برتنے میںکمال
رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی موضوع یا مضمون کو شعری سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔ شعروادب کی
بے لوث خدمات کے عوض فاروق کو بعض اہم اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔
جہاں تک فاروق نازکی کی غزل گوئی کا تعلق ہے۔ فاروق کی
غزلوں میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ فاروق کی غزلوں میں حسن و عشق کے رنگارنگ
موضو عات ان کے ابتدائی دور کے کلام میں زیادہ نظر آتے ہیں،جس کی خاص وجہ ان کا
عالم شباب ہو سکتا ہے۔ وہ رومان اور حسن پرورشاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں حسن و عشق
کی متنوع کیفیات کا بے ساختہ اور خوبصورت اظہار ملتا ہے۔ عشق اور معاملات عشق کے
اتار چڑھاؤ کی باریکیوں کا مظاہرہ فاروق نازکی جس انداز سے کرتے ہیں اس سے پتہ
چلتا ہے کہ وہ بھی عشق کی گلیوں کے راہی رہے ہیں۔ فاروق نازکی کے دل میں جب عشق کے
جذبات موجزن ہوتے ہیں تو وہ ان کو شعری سانچوں میں کچھ اس طرح ڈھالتے ہیں۔ ؎
بوئے گل بن کے جب تو آجائے
دشت میں بھی بہار اُترے گی
سر بہ سر عشق ہوں عنوان ِوفا دے
لوگ کہتے رہیں صدیوں وہ کہانی دے مجھکو
پردہ ٔ ذہن پہ اُبھرے ہیں ہزاروں سورج
رات دیکھا تھا کسی پردہ نشیں کا چہرہ
جانب شہر غزالاں پھر چلی شام فراق
دشت کی بے خوبیوں کا راز داں آئے گا کیا
ملن کی رُت ہے ہتھیلی پہ چاند ٹھہرا ہے
گڈ رئیے شام سے پہلے ہی گاؤں آپہنچے
آیا میرے قریب گل سیم تن کی طرح
سارا سکون صورت سیماب لے گیا
نہ پوچھ کیا تھا منظر تیری جدائی کا
فرشتہ ہوتا تو وہ بھی دہل گیا ہوتا
بُھلا دی آپ نے بھی وہ کہانی
محبت جس کے دم سے جاوداں ہے
اسی طرح محبوب کی جدائی اور ایک ساتھ گزارے حسین لمحوں کی یاد
کس طرح فاروق نازکی کو ستاتی ہے اس کا اظہار بھی اپنے دلکش انداز میں یوں کرتے ہیں ؎
میں سرِ دار بھی کچھ دیر ٹھہر جاؤں گا
تو نہیں آیا تو میں جاں سے گزر جاؤں گا
اب تو بس ایک ہی اُلجھن میں گرفتار ہوں میں
جو تیرے شہر سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں
میں جس کے واسطے دنیا سے لاتعلق ہوں
وہ میری یاد میں خود بھی سُلگ رہا ہو گا
میں اُس کو بھول جاؤں
نہیں میرے بس کی بات
فاروق نازکی پیدائشی شاعر ہیں۔ وہ شاعری کو اپنے جذبات کا
بہترین مظہر سمجھتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ عشقیہ موضوعات کو اپنے مخصوص رنگ اور
لفظیات میںبرتنے کے علاوہ جدید عصری حسیت اور سماجی و تہذیبی زندگی کو بھی اپنی
شاعری میںمتشکل کرتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات
اور مشاہدات کو عصری تقاضوں کے مطابق شعری لباس پہنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ فاروق
نازکی اپنے محسوسات اور واردات کو جدید غزل کے فنی لوازمات اور مخصوص لفظیات کے
ساتھ کچھ اس انداز سے ترجمانی کرتے ہیں ؎
میں ہوں مضطر بدن کی نگری میں
میرے حصّے میں لا مکاں لکھنا
روشنی آئے بھی کیسے مرے ماتم خانے میں
جن کے بوسیدہ دریچوں میں لگا ہے درنیا
دھوپ حالات کی سینک لی تو ہوا
میری آنکھوں سے خوابوں کا منظر الگ
چمن افسردہ گل مرجھا گئے ہیں
خزاں کی زد پہ سارا گلستان ہے
اسی بستی میں اندھے بس گئے ہیں
اسی بستی میں وافر آئینے ہیں
کانچ کے الفاظ کاغذ پر نہ رکھ
سنگ معنی کے ٹکراؤں گا میں
میں اپنی نیند کسی گھر میں کیسے
بھول آتا
وہ میرے خواب کے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا
میری بستی میں آکر
پاگل دریا ٹھہرا ہے
مذکورہ اشعار فاروق نازکی کی نئی تخلیقی اور ذہنی بالیدگی
کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں۔ انھیں ہر طرح کا موضوع غزل کی صورت میں پیش کرنے کا
ہنر خوب آتا ہے۔ جاوید انور فاروق نازکی کی غزل گوئی کے بارے میں اپنے تاثرات کچھ
ا س طرح بیان کرتے ہیں :
’’ فاروق نازکی کے غزلیہ اشعار کا مطالعہ کیا
جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ ان کی شاعری نہ تو کسی طے شدہ راستے پر سفر کرتی ہے اور
نہ ہی کوئی شعری عقیدہ یا نظریہ ہے ، جس کی فہرست کو سامنے رکھ کر شعر کہنے کے عادی
ہیں۔ حالانکہ مجموعی طور پر انھوں نے اپنی شاعری کا نصب العین بھی کہیں واضح اور
کہیں اشارتی طور پر بیان کر دیا ہے۔ لیکن اس کی نوعیت محض شاعرانہ ہے۔ نہ کہ
رحجاناتی یا تجارتی انھوں نے اپنی شاعری کے منظر نامے میں متضاد عقائد اور افکار
کو اپنے ذہن اور جذباتی رویوں کے ساتھ یکساں گنجائش کے ساتھ برتا ہے۔ فنی سطحوں پر
نئی شعری جمالیات کے آئینے میں بھی دیکھا جائے تو ان کا اظہار بیان مختلف النوع
سمتوں کا حامل ہے۔‘‘1
جاوید انور کی بات سے میں پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں کہ
فاروق نازکی کے کلام کے مطالعے سے جو شعری رویہ اُبھرتا ہے۔وہ کسی رجحان یا تحریک
کا ترجمان نہیں بلکہ خالص شاعرانہ اظہار ہے۔ موصوف نے اپنے ذہنی رویوں اور بلند
افکار سے ایک مخصوص اور منفرد شعری کائنات تخلیق کی ہے۔ان کے انداز بیان میں تازگی
اور برجستگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ فاروق احساس کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں
احساسات کا ایک لا منتہا سلسلہ دامن دل کو کھینچ لیتا ہے۔ موصوف اپنے احساسا ت کو
شعری قالب میں سمونے کے لیے کبھی کبھی موضوع اور ہیئت کے لوازمات کی پرواہ بھی نہیں
کرتے ہیں۔بقول علیم اللہ حالی :
’’
فاروق نازکی کی شاعری وسیع تر انسانی نفسیات کی ترجمان ہے۔ ان کے کلام میں یہ
ترجمانی ایک لطیف مابعدالطبعیاتی تصور اور احساس کے وسیلے سے ہوتی ہے۔ داخلی محسو
سات بسا اوقات موضوعاتی اور ہیئتی حدود اور قیود سے آزاد ہونے لگتے ہیں۔ پتھروں
کے دل چیر کر احساسات کا ابلتا ہوا ایک چشمہ فاروق نازکی کے یہاں خاص طور پر دیکھا
جا سکتا ہے۔‘‘2
فاروق نازکی کی غرل کا لہجہ نیا اور تازہ ہے۔ نازکی روایتی
غزل اور کلاسیکی شاعری کا گہرا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید شعرا کے کلام سے بھی
گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ فاروق ناز کی نے صنف غزل کے ہر شعر کونیا اور انوکھا رنگ
بخشا ہے۔ معنی و مفاہیم کے لحاظ سے بھی موصوف کی غزل اُردو شاعری میں اپنی انفرادیت
رکھتی ہے۔ فاروق نازکی نے اپنے مخصوص انداز بیان اور طرز ادا سے اردو غزل کو ایک
نئی زندگی عطا کی ہے۔ وہ سہل اور سادہ اسلوب میں بڑی اور پیچیدہ بات کہنے پر قادر
ہیں۔ سادگی سلاست اور روانی فاروق نازکی کی غزل کی منفرد خصوصیت ہیں۔چند اشعار دیکھیے ؎
موسم گُل سے برف زاروں تک
سینکڑوں رنگ میں بدلتا ہوں
طوفانوں کی آمد ہے
پنچھی لوٹ رہے ہیں گھر
اک اپنی ذات تھی جو فراموش ہو گئی
باقی جو زندگی نے دیا سب یاد رہا
قسمیں، رسمیں، پا س لحاظ
ان حربوں سے کام نہ لے
زمیںتنگ ہوئی ہے جنوں کے ماروں پر
میں جانتا ہوں نوازش ہے نازنینوں کی
چاندنی آسماں سے اُترے گی
میرے آنگن سے ہو کے گز رے گی
فاروق نازکی کی غزل میں نیا لہجہ اور تازہ اسلوب ایسی خوبیاں
ہیں جو انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز مقام عطا کرنے میں معاون ہیں۔فاروق کی غزل کا
تجزیہ کرتے ہوئے محمود ہاشمی لکھتے ہیں :
’’فاروق نازکی کی غزل میں بے شما راشعار ایسے ہیں،
جن کو پڑھنے کے بعد پہلا احساس تو یہ ہوتا ہے کہ نازکی نے جدید غزل کو اس منزل سے
اپنا ہمنوا بنایا ہے جہاں ناصر کاظمی نے اسے چھوڑا تھا۔دوسری بات جو نازکی کی غزل
میں نمایاں ہے وہ ہے ہیئت کی نئی ساخت۔ دو متضاد اور ناگفتہ مناظر، عوامل اور مفاہیم
کے درمیان ایک نئے معنوی رشتے کی تشکیل،اس مقصد کے لیے فاروق نے کلاسیکی غزل یا جدید
غزل کی رسمیات کا سہارا نہیں لیا۔ بلکہ ہر شعر کو مختلف رنگوں کی تیزی سے رقص کرتی
ہوئی مشعل بنایا ہے۔ جس میںابتدائی سطح پر رنگ الگ الگ نظر آتے ہیں۔ ہر ایک لفظ
اپنے منفرد رنگ کے ساتھ نمایاں ہے۔ تب اس چکر ویو سے مفاہیم کا سر چشمہ طلوع ہوتا
ہے اور فاروق نازکی انتہائی انوکھے،منفرد اورہمہ جہت شاعر کی حیثیت سے سامنے آتے
ہیں۔‘‘3
فاروق نازکی اپنے تجربات اور محسوسات کو عام فہم زبان میں پیش
کرنے کے روا دار ہیں۔ البتہ بعض اوقات علامتی پیرائے سے بھی اپنی غزل کی تجسیم کاری
کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں متعدد الفاظ
علامتوں کی صورت میں بھی استعمال ہوتے ہیںشہر، دھوپ، آسماں، گھر، برف، سمندر، شجر
وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جن کو علامت کے طور پر استعمال کر کے فاروق نازکی نے معنی و
مفاہیم کے بے شمار دفتر کھولے ہیں۔ لفظ ’گھر‘ فاروق کی غزلوں میں ایک کلیدی
استعارے کی حیثیت رکھتاہے۔ اس کا استعمال انھوں نے اپنی متعدد غزلوں میں مختلف
جگہوں پرالگ الگ معنوں میں کیا ہے۔ جس سے اس لفظ کی معنوی تہہ داری کو سمجھنے میں
آسانی ہوتی ہے۔جو فاروق نازکی کی فکر و احساس کے لا محدود کینوس کو آئینہ کرتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
جو نہی بام و
در جاگے
بستیوں میں گھر جاگے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی میں لگ جاتی ہے آگ
روز لٹ جاتا ہے کوئی مسکراتا گھر یہاں
ساری بستی جلا کے رکھ دو ںگا
اپنے گھر کو تو میں جلا ڈالو ں
راستے کے واسطے اک جام دو
نیم شب ہے اب تو گھر جاؤں گا میں
کئی دنوں سے بات نہیں کی اپنوں سے
آج ضروری خط اپنے گھر لکھنا ہے
آپ کی تصویر تھی اخبار میں
کیا سبب ہے آپ گھر جاتے نہیں
فاروق نازکی کی مختلف غزلوں سے لیے گئے مذکورہ بالا اشعار
اس امر کی طرف ہماری توجہ مرکوز کراتے ہیں، کہ فاروق نازکی کے یہاں بھی ایک عام
انسان کی طرح گھر کا ایک زمینی تصورہے جو نہ صرف سکون اور تحفظ کی علامت ہے بلکہ
اس کی نیند، اس کے خواب، اس کی یادیں، اس کی تنہائی کے لطیف ترین اور کرب انگیز لمحوں
کا گواہ بھی ہے۔ ان کے کلام میں گھر ایک زندہ علامت ہے۔ وہ مختلف منظروں اور بدلتے
کرداروںکے ساتھ جہاں ایک طرف گھر کی محبت میں بستی جلانے سے مانع رہتے ہیں، وہیں
دوسری جانب گھر کے لٹنے کا گواہ بھی بن جاتے ہیں۔خوف اور عدم تحفظ کا ایک کربناک
احساس پھیلتا ہے۔ وہ بھا گتا ہے لیکن چھوڑے ہوئے گھر کا خیال اسے دورانِ سفر بار
بار آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ خط بھی لکھنا چاہتا ہے اور اپنے اقربا سے بات بھی
کرنا چاہتا ہے۔ نیم شبی اسے گھر کی طرف لے جاتی ہے لیکن گھر اور راستے کے درمیان
کا منظر متقاضی ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ بھول جائے اور مدہوش رہے۔ گھر لو ٹنے کی تڑپ
اخبار میں تصویر کا چھپنا اور اس پر استفسار ،’’کیا سبب ہے آپ گھر جاتے نہیں‘‘سے
مختلف النوع سوالات و خدشات سر ابھا رنے لگتے ہیں۔
اپنے مخصوص موضوعات کو برتنے کے لیے نازکی الفاظ
کے انتخاب میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ فاروق کی غزلوں کی اہم اور منفرد خصوصیت
ان کی دلکش ترکیب سازی ہے۔ ان کے کلام میں متعدد تراکیب ایسی ہیں جو ان کی تخلیق
کردہ ہیں اور جو اُردو غزل میں ایک خوبصورت اضافہ کی اہمیت رکھتی ہیں۔ فاروق کی
غزلوں میں ذو حرفی تراکیب کے علاوہ سہ حرفی ترکیبوں کا بھی بھرپور استعمال ملتا
ہے۔جو ان کے ماہر زبان ہونے پر دال ہیں۔ کلام فاروق کی چند اہم تراکیب میں غیبت یاراں ، شرط سفر ، اذان ِتکلم ، خون سمندر ،
پاگل دریا ، جنوں آثار ، بدن نگری ، کا سئہ چشم ، دریائے خون ، رخ جمیل ، گرد
ملال ، جانبِ شہر غز الاں،شام فراق، بے صدا ساز ، بوئے گل بدن ، شیریں مقال ، شہر
نامراد ، پردۂ ذہن ،برگ چنار ، دریائے خون خلق ، سمن پاشیاں، پس ِدیوار شب ، سینۂ
برگ گُل تر ، گرد بیداری شب ، ، دیوارِبدن ، گہنگار ِ وفا ، احمریں ہونٹ، جبین
سادہ، زلف پرُ شکن ، پیکر وقت ، منت سنگِ ملامت ، سرِدار ، آبگینۂ دل ، وادی گل
وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔ نازکی اپنے تجربات اور محسوسات کو انہی تراکیب سے مزیّن
کرتے ہیں۔جن کی بدولت ان کی غزلوں میں معنوی تہہ داری ا ور غنائیت میں مزید اضافہ
ہوتا ہے۔ مذکورہ تراکیب کو فاروق کچھ اس طرح اپنے شعری تجربات میںاہم آلہ کار کے
بطور بروئے کار لاتے ہیں ؎
منت ِسنگ ملامت نہ اُٹھاؤں گا کبھی
کسی دیوار سے سر پھوڑ کے مر جاؤں گا
دامنِ شب پہ لرزتے ہوئے جگنو کی طرح
احمریں ہونٹ پہ ٹھہرا ہوا شعلہ رکھ
سینۂ برگ گُل تر پہ نظر تھی اپنی
زندگی آگ کے سانچے میں ڈھلی کیا نہ ہوا
برگ چنار اب کے حِنا سے تہی رہے
رنگ خزاں بھی اب کے برس کچھ عجب رہا
اسی نے سب کے رگ و پے میں زہر گھول دیا
وہ ایک شخص جو شیریں مقال ٹھہرا ہے
رات لمبی ہے چلو غیبت یاراں کرلیں
شب کسی طور تو ہو جائے بسر اپنا کیا
رُخ جمیل پہ گرد ملال
رہنے دو !
کسے پڑی ہے خوشا مد کرے حسینوں کی
فاروق نازکی کی غزل روایت کی امانت دار اور جدید فکر کی
پاسدار ہے۔ ان کے یہاں قدیم و جدید رنگ سے متشکل خوبصورت شاعری ہمارا من موہ لیتی
ہے۔ انھوں نے اُردو کے کلاسیکی شعرا میر، غالب، داغ کے کلام کے مطالعے کے ساتھ
ساتھ فیض، میرا جی، اخترالایمان، ناصر کاظمی، اختر شیرانی کی شاعری سے بھی اثرات
قبول کیے ہیں۔ اسی جدت اور ندرت نے فاروق نازکی کی غزل کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا
ہے جو اُن کو اردو غزل میں ایک نام و مقام سے سرفراز کرتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں ؎
تری مرضی نہ دے ثبات مجھے
بے یقینی سے دے نجات مجھے
عقیدت کی دیوار کچی نہیں
یہ وہ ریت ہے جو بکھرتی نہیں
پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے
راہ بھٹکے نوجوان گھر آئیں گے
دیار خواب و چشم دل فگا راں
جزیرہ نیند کا کیوں درمیاں ہے
جب تلک دم میں دم تھا میرے ساتھ تھے
اب میرے دوست رہتے ہیں اکثر الگ
فاروق صنف غزل میں اپنے تخیلات کو متصور کر نے کے لیے
عموماََ چھوٹی بحروں کو استعمال میں لائے ہیں۔
انھیں چھوٹی بحروں کو برتنے میں بڑا ملکہ حاصل ہے۔ مختصراورمعنی خیزا لفاظ
اور بحور کے علاوہ نئی زمینوں میں غزل کہنا فاروق کا خاص مشغلہ رہاہے۔ تخلص کا استعمال بہت کم کرتے
ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر شعری وسائل کا استعمال بھی موقع و محل کی مناسبت سے
بخوبی کرتے ہیں۔ نئے موضوعات کی دلکش ادائیگی ، نئے الفاظ اور
تراکیب کی حسین تجسیم کاری ، لہجے اور اسلوب کی تازہ کاری ، زبان و بیان کی
شیرینی اور روانی فاروق کی غزلوں کے امتیازات ہیں۔ فاروق کی غزل گوئی پر مظفر حنفی
کے تاثرات پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’وادی
کشمیر سے پہنچنے والی ایک دل دوز آواز نے مجھے نہ صرف چونکا دیا بلکہ گھنٹوں اپنی
گرفت میں رکھا،یہ آواز فاروق نازکی کے مجموعۂ غزلیات نے مجھ تک پہنچائی تھی۔ تلخ
ترش، شیریں، لگا جیسے کوئی سوختہ گردو پیش کے درمیاں نوحہ کناں ہو۔ محسوس ہوا جیسے
کوئی اپنی فردوس گمشدہ کی تلاش میں ہر آنے جانے والے سے استفسار کرتا ہو۔ عام طور
پر چھوٹی چھوٹی بحروں لیکن نئی نئی زمینوں میں کہی گئی مختصر ان غزلوں میں، میں نے
ایک ایسے جہان معنی کی سیر کی جس پر کسی دوسرے غزل گو کے قدم نہیں پڑے۔ ان کے
شعروں کے مطالعے سے تخلیق کار کے روحانی کرب، نفسیاتی پیچ و تاب، علوئے فکر، ترچھی
اُڑان اور شورش قلب کا پورا پورا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اپنے اندر کے طوفان کو جس
سہاراور سبھاؤ ، جس ندرت اور جدت ، جس مٹھاس اور رچاؤ کے ساتھ نازکی نے غزل کے پیرائے
میں ڈھالا ہے اس کے نتیجے میں انتشار وشور یدگی کے پہلو ان کے کلام میں غنائیت اور
تغزل بھی کم نہیں،اور یہی ان کے انفرادیت ہے ۔‘‘4
حواشی
1 جاوید انور، ’وادی کشمیر کے چند اہم
شعرا‘، ص 61
2 علیم اللہ حالی،مشمولہ، ’وادی کشمیر کے
چند اہم شعرا‘، ص 60
3 محمود ہاشمی، مشمولہ ’تحریک ادب‘ (وارانسی،شمارہ
14، 2012) ص 91
4 مظفر حنفی، مشمولہ ’سہ ماہی تحریک ادب‘
(وارانسی،شمارہ 14، 2012) ص 82
Dr. Mushtaq Ahmad Ganai
71,
Ganaie Mohallah Samboora,Pampore
Pin:192304 Kakapora,Pulwama,Kashmir.
Mob:7006402409 Email:mushtaqalamphd87@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں