ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
بستی ریاست اترپردیش کاعلمی وتہذیبی خطہ ہے۔ شعروادب کے
میدان میں بھی اس ضلعے نے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ یہاں کے اہل علم نے شاعری اور
نثرنگاری دونوں شعبوں میں اپنی نمایاں خدمات کے ذریعے اس علاقے کا نام روشن کیاہے۔ان
ہی میں سے ایک معروف نام ممتازاحمدکا ہے، جنھیں ادبی حلقے میں ’سالک بستوی‘ کے نام
سے جاناجاتاہے۔
سالک بستوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھیں ایک کہنہ
مشق شاعر، مشہورادیب اورعالم دین کے طور پر شناخت ملی۔وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر
ہیں، ان کا کلام پاکیزگی فکر اور مثبت سوچ سے عبارت ہے۔ ان کی شاعری تفریح طبع کی بجا ئے اصلاح معاشرہ
اور اخلا قیات کی تر ویج و اشا عت کا بہترین وسیلہ بھی ہے۔
سالک بستوی متحدہ ضلع بستی اب سدھارتھ نگر گاؤں غوری میں2اپریل1960
کو پیداہوئے، جونیپال کی سرحد سے متصل ہے۔ان کے والد کا نام محمدعلی تھا۔ ابتدائی
تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھیں جامعہ دارالہدیٰ یوسف پور میں داخل کیاگیا، جہاں
انھوں نے عربی کی پہلی جماعت تک تعلیم حاصل کی، پھرجامعہ سراج العلوم بونڈیہار چلے
گئے۔یہاں انھوں نے دوسری جماعت میں داخلہ لیا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری
کاشغل بھی جاری رکھا۔ اس دوران انھیں یہاں منعقد ہونے والے مختلف پروگراموں اورشعری
محفلوں میں شرکت کاموقع ملا، جس سے ان کے فکر وفن کو جلاملی۔سراج العلوم بونڈیہار
میں انھوں نے عربی کی پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد 1980کے آس پاس
مئو(اعظم گڑھ)کے معروف تعلیمی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ میں انھوں نے داخلہ لیا، جو
ڈومن پورہ علاقہ میں واقع ہے۔ انھیںیہاں کی علمی فضا سے مستفیدہونے کا بھرپور موقع
ملا۔ مئوکایہ محلہ ہمیشہ سے علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ ’سرشاخ طوبیٰ‘کے مصنف اور
اُردوکے مستند شاعر فضاابن فیضی اور مجاز اعظمی یہیں کی خاک سے پروان چڑھے تھے۔
سالک بستوی کے لیے درسیات کے ساتھ ساتھ شعروشاعری کی راہیںبھی یہیں سے ہموار ہوئیں
اور اخبارات ورسائل میںان کاکلام شائع ہونے لگا اور ان کی پذیرائی ہونے لگی۔
سالک بستوی نے 1971 میں دارالہدی یوسف پور ( سدھارتھ
نگر) میں طالب علمی کے دوران ہی شعر گوئی شروع کردی تھی اورسب سے پہلے حمد کہی۔اس
وقت ان کی عمرمحض 13سال کی تھی،جس کی اصلاح انھوں نے مشہور شاعر حیرت بستوی سے لی
تھی۔اس وقت کہے گئے ان کے حمدیہ اشعارنہ صرف شاعری کے جملہ اصول پر کھرے اترتے ہیں
بلکہ معانی و تراکیب کے لحاظ سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔وہ اشعار اس طرح تھے ؎
رب عالم تو سب کا نگہبان ہے
نام تیرا رحیم اور رحمان ہے
تو نے مٹی کو بخشیں حسین صورتیں
تیری کاری گری کی عجب شان ہے
غزلیہ شاعری موصوف کوہمیشہ عزیز رہی۔ان کی غزلوں میں بھی
حسن وعشق اورمحبوب کے تذکرے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مسائل پوری شدت کے ساتھ بیان
ہوئے۔ذیل کے اشعاردیکھیے ؎
موسم ہے خوشگوار فضا جلوہ بار ہے
جلوہ فگن چمن میں وہ جانِ بہار ہے
روتے ہیں پھوٹ پھوٹ کے تلوؤں کے آبلے
منزل سے دور اور گھنا خارزار ہے
دل جلوہ زار حسن بنا بھی تو کیا ہوا
یہ تیری بے رخی ہے نظر سوگوار ہے
ہونٹوں پہ ہر کلی کے تبسم کا جشن ہے
گلشن میں جلوہ بار عروسِ بہار ہے
زخموں کو مل گئی ہے تری یاد کی مہک
سینہ ہے اپنا یا یہ کوئی لالہ زار ہے
سالک بچھڑ کے جب سے وہ جان چمن گئی
ہر آنکھ اشکبار ہے دل بے قرار ہے
(لالہ
صحرا:سالک بستوی، ص:51)
سالک بستوی نے تقریباً سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی
کی ہے۔ حمد و نعت،نظم، قصیدہ، رباعی، ترانے اور مرثیہ کے علاوہ غزل کی تخلیق پربھی
انھیں پوری قدرت حاصل ہے۔ 2007میںان کا مجموعہ کلام ’لالہ صحرا‘منظرعام پر آیا،
جس میں خالص غزلیہ اشعارشامل ہیں۔اس کے علاوہ ان کا ایک اورشعری مجموعہ ’کائنات
دل‘ بھی شائع ہوکرعوام میں اپنی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ان کی زبان میں
سلاست وروانی وشیفتگی پائی جاتی ہے۔ بطور نمونہ ایک غزل کے اشعارملاحظہ کیجیے ؎
غم یہ نہیں کہ میل کا پتھر نہیں ملا
کوئی ہماری راہ میں رہبر نہیں ملا
نکلا جو ان کی بزم سے میں جھومتے ہوئے
اپنی گلی میں اپنا مجھے گھر نہیں ملا
بہتا رہا میں موج میں اپنی ہی چار سو
دریا ہوں ایسا جس کو سمندر نہیں ملا
جنت کے سبز باغ نہ واعظ دکھا ہمیں
گھر کوئی میکدے کے برابر نہیں ملا
گو میرے قتل میں مرے بھائی کا ہاتھ تھا
پر اس کی آستین میں خنجر نہیں ملا
کمزوریاں خود اپنے ہی اندر ملیں مجھے
سالک جہاں میں کوئی بھی کمتر نہیں ملا
(لالہ
صحرا، سالک بستوی، ص:25،ایڈیشن:2007)
ایک اورغزل کے اشعاردیکھیں:
ہوا مغرب سے کچھ ایسی چلی آہستہ آہستہ
متاع دین ودانش لٹ گئی آہستہ آہستہ
تمنا یہ ہے صبح زندگی سے پیار اب کرلوں
یہ شمع زندگی بجھنے لگی آہستہ آہستہ
اندھیرے دھیرے دھیرے جہل کے روپوش ہوتے ہیں
بڑھاتی ہے قدم جب آگہی آہستہ آہستہ
تجلی جب ضعیفی کی اداکاری کی ہنستی ہے
مٹاتی ہے سیاہی زلف کی آہستہ آہستہ
گناہوں کے اندھیرے آنسوؤں میں خون کے ڈوبے
جگر میں شمع توبہ جب جلی آہستہ آہستہ
کوئی جب چپکے چپکے جام مے کو منہ لگاتاہے
لٹا دیتا ہے عزت آدمی آہستہ آہستہ
ہوا عزم سفر آراستہ جب قلب سالک میں
مرے نزدیک منزل آگئی آہستہ آہستہ
سالک بستوی کی شاعری میںاسلامی موضوعات کے ساتھ ساتھ جدیددورکے
بیشترمضامین نظم ہوئے ہیں، خاص طور پرمحبت، بھائی چارہ، ہم آہنگی و حب الوطنی ان
کی شاعری میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ملک ودنیا میں پیش آنے والے واقعات وحالات پربھی
ان کی گہری نظر تھی، وہ اپنی شاعری میں حالات حاضرہ پرنہ صرف تبصرہ کرتے ہیں بلکہ
سیاسی،سماجی برائیوں اورخرابیوں پر جم کرچوٹ کرتے ہیں ؎
کاش ارباب وطن تم نے وطن کی خاطر
مہر و اخلاص کا ماحول بنایا ہوتا
خار حصہ مرا تو خار سہی
فکر یہ ہے کہ گلستاں نہ جلے
آشیاں مرکز شرار سہی
دل تو سوزِ الم سے روشن ہے
(لالہ
صحرا، سالک بستوی، ص:60)
سالک بستوی کاتعلق ترقی پسندی سے کبھی نہیں رہا، مگر ان
کی شاعری میں ترقی پسندرجحانات کے عناصرہمیں کثرت سے ملتے ہیں۔ وہ روایتوں کے امین
تو ہیں مگر عصری تقاضوں سے چشم پوشی نہیںکرتے۔ شعردیکھیے ؎
میں چل پڑا تو چلنے لگی نبض کائنات
میں رک گیا تو جیسے سمندر ٹھہر گیا
جو شورشِ غم انساں سمجھ نہیں پاتے
مزاجِ گردشِ دوراں سمجھ نہیں پاتے
سالک بستوی برجستہ شعر گوئی میں بھی کمال رکھتے ہیں،کسی
کی وفات پر فوری تعزیتی کلام کہہ دینا اورطلبائے فارغین کے لیے الوداعی پیغام
لکھنا ان کا معمول تھا۔اس کے علاوہ نہ
جانے کتنے مدارس کے ترانے بھی ان ہی کے قلم کے مرہون منت ہیں۔ غرض کہ مشرقی اترپردیش
کے عصرحاضر کے شعرامیں سالک بستوی کی اہمیت مسلم ہے۔
سالک بستوی نے نظم ونثردونوں میں اپنے تخلیقی
جوہردکھائے ہیں۔نثری ادب میں بھی ان کی تخلیقات کم قابل رشک نہیں۔ ان کی تحریروں میں
سادگی اور متانت کے علاوہ زبان وبیان کی صفائی اورروزمرہ کااستعمال بھی کافی عمدگی
کے ساتھ کیاگیاہے۔ غزل کی تعریف میں ان کی ایک تحریرکا ایک اقتباس دیکھیے:
’’اصناف
اردو شعریات میں جو مقام و مرتبہ اور قدرو منزلت غزل کو حاصل ہے، وہ کسی دوسری صنف
کو نہیں ملی ہے۔ دوران سفر غزل نے برے دن بھی دیکھے ہیں اسے نیم وحشی صنف بھی کہا
گیا ہے اور جوش غضب میں اسے قابل گردن زدنی بھی قرار دیا گیا مگر کوئی اس کا بال
بھی بیکا نہ کر سکا۔ اردو شاعری کی آبرو غزل آج بھی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نہ
صرف زندہ و سلامت ہے بلکہ اس کا حسن و جمال پہلے سے زیادہ دو بالا اور دو آتشہ ہو
گیا ہے۔ عصر حاضر کی غزل کے دامن میں آج جتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے اتنی کبھی نہ
تھی، آج ہر طرح کے خیالات و افکار اور مضامین و موضوعات کو بڑی خوش اسلوبی اور
کامیابی کے ساتھ برتا جا رہا ہے۔ غزل اردو ادب کے ارتقائی سفر کے ہر موڑ پر ایک
خاص منظر بن کر ابھری ہے۔ آج نئی غزل بھی اپنے تازہ آب و رنگ اور توانا فکر و
احساس کے نو وارد اور آنے والے موسموں کی آہٹوں کا پتہ دیتی ہے۔‘‘
(کلیات
سراجی،پیش گفتار:سالک بستوی،ص:12)
غزل یقینا مشکل فن بھی ہے اور آسان بھی۔ آسان اتنا کہ
نوآموزشاعر پہلے اسی کے ذریعے شعرگوئی کا آغاز کرتا ہے اور مشکل بھی اتنا کہ غزل
ہی کسی شاعر کے تخلیقی فن کوجانچنے کا پیمانہ ٹھہرتی ہے۔ اسی بات کو انھوں نے کیا
اچھے اندازمیں کہنے کی کوشش کی ہے:
’’
غزل ویسے تو آسان صنف نظر آتی ہے مبتدی بھی جب اپنی شاعری کا آغاز کرتا ہے تو
غزل ہی سے کرتا ہے جبکہ اچھی اور بہتر شاعری کے لیے غزل ایک مشکل ترین صنف ہے جو
عرق ریزی، دماغ سوزی اورمسلسل غور و فکر کی متقاضی ہے مطالعے، مشاہدے،جذبے اور فکر
و شعور کے بغیر کوئی اچھا شعر تخلیق کرنا دیوانے کے خواب جیسا ہے۔‘‘
(کلیات
سراجی،پیش گفتار:سالک بستوی،ص:12-13)
سالک بستوی کاشعری سفر تقریباًچاردہائیوں سے بھی زیادہ
عرصے پرمحیط ہے۔ اس دوران وہ اپنے تصنیفی وتالیفی کاموں میں مصروف رہے اور ان کی
30سے زائد شعری ونثری تصانیف منظرعام پر آئیں۔ان کے شعری مجموعے میں نکہت
اسلام،نغمہ دلنواز، جرم تبسم (غزلوں کا مجموعہ)، سوز دروں،کائنات دل،قوس قزح،متاع
ہنر، سخن معتبر، بساط فکر، فردوس نظر، ارمغان اسلام، صہبائے اسلام، تنویرحرم
اورلالہ صحرا قابل ذکرہیں۔
سالک بستوی کی شاعری صوبہ اترپردیش تک محدود نہیں رہی،
بلکہ پورے ملک میںپڑھی اورپسند کی گئی۔ شاعری کے باب میں توان کی شہرت عام ہے ہی لیکن
وہ مشاعروں کی روایت کے امین بھی تصورکیے جاتے ہیں۔ مشاعرے کی تاریخ ان کے تذکرہ
کے بغیرنامکمل سمجھی جائے گی۔
ادبی سرگرمیوں کے علا وہ رفا ہی کا موں سے بھی
موصوف کودلچسپی رہی۔سالک بستوی نے زندگی کے بیشترایام دہلی، ممبئی، گجرات،
ناگپور،سورت وغیرہ میں درس وتدریس میں گزارے، مگرپھر وہ اپنے وطن غوری (سدھارتھ
نگر) میں واپس آگئے اوراپنے بھائی راشد احمد سراجی کے ساتھ مل کر’جامعۃ الاصلاح‘کی
ترقی میں مصروف ہوگئے،جس کی بنیادانھوں نے2 اپریل 1993 میں رکھی تھی۔ ان کا تدریسی
سفرکم وبیش50 برسوں پرمحیط رہا جہاں انھوںنے اپنے فرا ئض بحسن و خوبی انجام دیے۔ یہی
وجہ ہے کہ انھیں عوام میںبڑی مقبولیت حاصل رہی اورہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھے گئے۔
سالک بستوی اسی مدرسے کے کسی کام سے 3فروری 2024 کوکہیں جارہے تھے کہ نیپال میں ایک
سڑک حادثے کاشکارہوگئے اور اسی میں ان کی موت ہوگئی۔اس طرح شعروادب کادرخشندہ
ستارہ غروب ہوگیا۔ سالک بستوی کی شاعری کو ادبی دنیاکبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ جب
بھی مشرقی اترپردیش کی ادبی تاریخ مرتب کی جائے گی یا ضلع بستی کے شعری منظرنامے
کا ذکرہو گا، سالک بستوی کاذکرضرور آئے گا۔
Mohd Islam Khan
D-64, 3rd Floor, Thokar No.8
Behind Taj Apartment, Shaheen Bagh
Jamia Nagar, New Delhi-110025
Mob.: 9311440552
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں