12/6/24

ماہر عروض و لغت ڈاکٹر شعور اعظمی سے گفتگو، از عزادار ساجد

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024


عزادار ساجد: آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

شعور اعظمی: میرا تاریخی نام ’سید کلیم اختر‘ ہے۔ اس طرح 1374 ھ سنہ پیدائش ہے۔ میں اپنے ننھیال موضع احد پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوا۔

ع س: آ پ کا خاندانی پسِ منظر کیا ہے، اس پر روشنی ڈالیے۔

ش ا: میرا تعلق اثنا عشری سادات رضویہ کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔ جدِّ اعلیٰ سید سلیمان نیشاپوری (جن کی قبر موضع’اِترورا‘ میں ہے۔

سیّد سلیمان سے میرے ابا مرحوم کے پردادا میر مدد علی تک کا شجرہ نسب اکبر پور کی تحصیل کا تصدیق کردہ ہے۔ پدرم سلطان بود کیا کہوں، عہدِ حاضر میں پروفیسر مجاور حسین رضوی، ڈاکٹر پیام اعظمی، سفیر اعظمی، منہال سلمہ، قیصر سلمہ ایسی نامور ہستیاں ہیں۔ ماضی قریب میں مرحوم سجاد باقر لاہوری، فہیم اعظمی، زوّار حسین ندیم سبطِ حسن ایسی مشہور ہستیاں گزری ہیں۔ والد مرحوم مہدی اعظمی کے شعری مجموعے سرمایۂ عقبیٰ (قصائد)، سرمایۂ بکا (نوحے اورسلام)، سرمایۂ تغزل (غزلیات)، سرمایۂ تخیل (قطعات تاریخ ورباعیات)، شائع ہو چکے ہیں۔ 2005  کے بعد کے قصائد اور2013  کے بعد کے سلام اور قطعات تاریخ ’سرمایۂ نجات‘ کے نام سے آمادۂ اشاعت میں اس کے دیباچے میں خاندانی پسِ منظر تفصیل سے لکھا ہے۔

ع س:آپ کی تعلیم وتربیت کہاں ہوئی

ش ا:خاندانی مولوی مرزا اکبر مرحوم نے قاعدہ بغدادی پڑھایا۔ 7سال کی عمر میں ممبئی آگیا۔یعقوب اسٹریٹ میونسپل اسکول میں 1957یکم ستمبر تاریخ ولادت درج کروائی گئی۔ چونکہ ابا مرحوم مدنپورہ میونسپل اسکول میں ٹیچر تھے اس لیے تیسرے درجے میں مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ساتویں درجے میں ناگپاڑہ میونسپل اسکول میں داخلہ ہوا کیونکہ جے جے پاسپٹل کے چوراہے سے مدنپورہ کافی دور تھا۔ آٹھویں درجے میں احمد سیلر ہائی اسکول میں داخلہ ہوا۔ وہاں سے 1972 میں گیارہویں جماعت (S.S.C) کرنے کے بعد K.C.کالج بمبئی میں F.Y.SC. میں داخلہ لیا۔Maths کا پرچہ اتنا سخت تھا کہ اس کی گونج اسمبلی میں بھی سنائی دی تقریباً 800فیل ہونے والے پاس کیے گئے مگر میرا نمبر نہیں لگا۔

اسی دوران طبیہ کالج بمبئی میں D.U.MS.میں داخلہ ہو گیا اور 1978 میںسند بھی مل گئی۔ والد مرحوم مجلسوں اور محفلوں میں لازماً اور غزلیہ نشستوں میں کبھی کبھار اپنے ساتھ لے جاتے تھے یہی میری تربیت گاہیں تھیں۔  ایک خاص بات اور ہے کہ گرمیوں کی چھٹی یا دیوالی کی چھٹیوں میں دادی دادا سے ملنے چماواں(آبائی گاؤں) جاتاتھا۔ وہاں سید ناظر حسین عرف نجو(عمر میں ابا کے آس پاس لیکن رشتے میں بھائی) مجھ سے بیت بازی کیا کرتے تھے۔اکثر میرا دل بڑھانے کے لیے ہار جاتے تھے۔یہ بھی ایک اندازِ تربیت تھا۔

ع س:-آپ کے ادبی سفر کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟   

ش ا:موزونی طبع تو فطری ہوتی ہے مختلف عوامل سے اس پر نکھار آتا ہے۔ طبیہ کالج بمبئی میں علی گڑھ کے اساتذہ تھے اس لیے ادبی ماحول بھی تھا۔ غالباً 1975کا واقعہ ہے کہ مشہور شاعر مرحوم مظفر شاہجہاں پوری علاج کے لیے اسپتال میں داخل ہوئے۔ مجھے ایسے کچھ شعرپسند طلبہ نے خاص طور سے عیادت وخدمت کی۔ انھوں نے اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر اسحٰق جمخانہ والا مرحوم سے ہم لوگوں کی تعریف کی ماہر امراض اطفال ڈاکٹر ملِک مرحوم نے ایک مشاعرے کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر مرزا انور بیگ (خدا انھیں عمرِ خضر عطا فرمائے) نے فراق گورکھپوری کا مصرع ’تجھے قریب سے دیکھا تو آنکھ بھر آئی‘ طرح کے لیے دے دیا۔ جتنے طلبہ شعر کہہ لیتے تھے سب بے سرے تھے اس لیے کچھ خوش گلو طلبہ کو اشعار کہہ کے دیے گئے اور ایک اچھا مشاعرہ ہوا۔سند یافتہ طبیب ہونے تک شعر گوئی پر پابندی تھی اس لیے باقاعدہ ادبی سفر کی ابتدا  1979کہی جا سکتی ہے۔ اسی وقت میں نے تخلّص بھی رکھا۔

ع س:آپ کی پہلی تخلیق کسی رسالے میں شائع ہوئی؟

ش ا:تخلیق تو کیا کسی اخبار میں کوئی مراسلہ بھی میں نے نہیں بھیجا۔ ’شعور عروض‘ لکھی جو آج ممبئی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے بعد’اردو چینل‘ (مدیر قمر صدیقی) میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ کراچی کے رسالے نگار اور ماہنامہ شاعر ممبئی یونیورسٹی کے جریدے میں بھی کئی مضامین شائع ہوئے۔ جب تک کسی نے مجھے مضمون لکھنے کی فرمائش نہیں کی میں نے کسی رسالے کو غزل یا مضمون خود نہیں بھیجا۔ ممبئی سے ظہیر انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والے ’تحریر نو‘ میں اردو لسانی تاریخ کے تعلق سے کئی قسطیں شائع ہوئیں لیکن ذہنی مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے 1012 قسطوں کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ مرحوم ضمیر کاظمی نے ’وقت مِشن‘ نامی اخبار میں مجھ پر ایک مضمون شائع کیا۔ معاصرِ محترم الیاس شوقی نے میری کچھ غزلیں شائع کیں۔

ع س: اب تک آپ نے کتنی کتابیں لکھی ہیں یا ترتیب دی ہیں۔

ش ا:میں طبیہ کالج میگزین کا مدیر تھا۔ اسے آپ نقشِ اوّل کہہ سکتے ہیں، سرمایۂ عقبیٰ(قصائد مہدی اعظمی)، سرمایۂ تغزل، سرمایۂ تخیّل، سرمایۂ بکا، سرمایۂ نجات (2005 کے بعد کا کلام)

تصنیفات: شعور عروض، فرہنگ شعور، ترکی بہ تر کی، شعور مدحت (ہربحر میں کم از کم ایک نعت)، شعور مودّت (قصائدِ فاطمہ)

عنقریب شائع ہونے والی: شعور حجت، شعور ولایت، شعور تنقید، شعور اللغات (وہ الفاظ جن کی سند صرف مرثیوں سے ملتی ہے)

ع س:جہاں تک ہم نے محسوس کیا۔ آپ نے ہمیشہ عام راستوں سے ہٹ کر دشوار گزار راہوں کا سفر اختیار کیا اور علمِ عروض ایسی خشک اور سنگلاخ وادی کے مسافر بنے تو یہ دلچسپی آپ کو کب اور کیسے ہوئی؟

ش ا:میرے روایتی طالبِ علمی کے زمانے میں 10 ویں جماعت ہی سے مفعولن، فاعلن، مفاعیلن وغیرہ پڑھائے جاتے تھے۔ والد مرحوم نے نظامِ حرکات وسکونات اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔سونے پر سہاگا بنی پرتو صاحب کی خدمت میں حاضری۔

1982میں پرتو صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد لوگوں نے مجھ سے استفسار شروع کیا۔میں نے اپنی جہالت کم کرنے کی کوشش شدّومد سے شروع کی۔ معیار الاشعار، حدائق البلاغہ، عروض سیفی،شجرۃ العروض، محیط الدائرہ، امین الکافی وغیرہ کتابیں بہت غور سے پڑھیں۔ اردو کتابوں میں بحرالفصاحت، چراغ سخن، قواعد العروض ، مقیاس الاشعار وغیرہ کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا، مطالعے کے دوران اہم نکات لکھتا جاتا تھا نتیجتاً ’شعور عروض‘ وجود میں آئی مولانا ندیم اصغر سلمہ نے ’فرہنگ عروض فارسی‘ نامی کتاب بھیجی جسے دیکھ کر ’فرہنگ شعور‘ مرتب کرنے کا خیال آیا۔

ع س: آپ کی کتاب ’شعور عروض‘کی اہل ادب کے درمیان کافی پذیرائی ہوئی، اس پر کیا ارشاد فرمائیں گے۔

ش ا:میں نے جس طرح عروض کو سمجھا اسی طرح سمجھانے کی کوشش کی کہیں کہیں مزاحیہ انداز بھی اختیار کیا تا کہ قارئین اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں۔

اختلافی مسائل میں، میں نے فتویٰ نہیں دیا بلکہ سارے اختلافات ایک جگہ لکھ کے ان کا تجزیہ کیا اور یہ لکھا کہ میں نے کسی نظریے کو کیوں قبول کیا۔

ع س:کیا آ پ کی کوئی کتاب نصاب میں شامل ہے۔

ش ا:جی ہاں ’شعور عروض‘بمبئی یونیورسٹی کے B.Aمیں شامل ہے۔’فرہنگ شعور‘ M.Aمیں ہے۔

ع س:شہرِ ممبئی اردو ادب کا اہم مرکز رہا ہے۔

ترقی پسندوں سے فلمی شاعروںتک اس  میں سرفہرست رہے ہیں کیا آج بھی وہ سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔

ش ا:فی زمانہ بمبئی کے شعرا  اور ادبا کسی مخصوص ادبی روش سے وابستہ نہیں ہیں۔ انھوں نے ہر تحریک کی خوبیاں اپنائی ہیں، اچھی شاعری کر رہے ہیں۔

ع س:کیا آپ کو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے انعام واکرام ملے ہیں؟

ش ا:جی ہاں۔ سرکاری اداروں میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے 2 بار ، یوپی اردو اکیڈمی نے 2 بار اور فخرالدین علی احمد کمیٹی نے ایک بار مختلف کتابوں پر اعزاز وانعام دیے ہیں۔

ع س:طبّی خدمات کی مصروف زندگی میں آپ ادب کے لیے کیسے وقت نکال لیتے ہیں۔

ش ا:بہتا ہوا پانی چٹانوں میں بھی راہ بنا لیتا ہے۔اسی طرح ہر انسان اپنے شوق پورے کر ہی لیتا ہے۔

ع س: اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں۔

ش ا:سب ہے کہنے کا کہوں کم کر کے افسانے سے کیا۔

ع س:کلیم الدین احمد کے جواب میں ’ترکی بہ ترکی‘ لکھنے کا خیال کیوں آیا۔

ش ا:آ پ کلیم الدین احمد کی ’میر انیس‘ پڑھیے تو معلوم ہو جائے گا، کہ یہ تنقید نہیں تنقیص ہے۔ تنقیص بھی انتہائی گھٹیا درجے کی۔ میں نے اپنی کتاب کے سرورق پر لکھا ہے ’میر انیس‘ کو جنسی جنونی کہنے والے کلیم الدین احمد۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی وہ لکھتے ہیں کہ یہ شعوری گتھیاں انھیں اپنے پردادا سے ملی تھیں یعنی کہ ’میر ضاحِک‘ (معاصرِ سودا) سے۔ کتاب کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ میر انیس شاعر نہیں خطیب تھے۔میر انیس مصائب کے تذکرے سے جنسی لذت حاصل کرتے تھے۔ان کے اشعار میں کچلی ہوئی جنسیت کی غمازی ہے۔ وہ زخموں اور خون کے تذکرے سے جنسی لذت حاصل کرتے ہیں (یہ اعتراض تو ہر مرثیہ گو پر ہے)۔ وہ Sadist تھے۔ چونکہ کلیم الدین احمد کو ان کے ابّا عظیم الدین احمد کے علاوہ کوئی شاعر نظر نہیں آتا تھا۔(ملاحظہ فرمائیں دیباچۂ گل نغمہ)اس لیے میر، غالب، اقبال کی طرح میر انیس بھی شاعرنہ تھے۔ان کے نظریات 1942سے 1984تک کئی بار بدلے۔

1984میں کلیم الدین احمد کے انتقال کے ساتھ کتاب کا قصہ بھی ختم ہو جاتا لیکن ریختہ والوں نے اسے پھر اپ لوڈ کر دیا۔نئی نسلیں تو کلیم الدین احمد کے نام سے مرعوب ہو کر ان کے مزخرفات کو مستند مان لیں گی اس لیے اس کا جواب دینا میں نے واجب سمجھا۔کسی بھی نقاد کو یہ حق نہیں پہنچتا۔مجھ سے پہلے سید محمد عقیل اور فضل امام مرحومین نے چند اعتراضات کے جواب دیے کوئی تفصیلی جواب نظر نہیں آیا۔’ترکی بہ ترکی‘ کی خصوصیت یہ ہے کہ زیادہ تر جوابات خود کلیم الدین احمد کی کتابوں سے دیے گئے ہیں ان کی تحلیل نفسی(Psyco Analysis)  اِن کی تقریباً 1500 صفحات پر پھیلی سوانح عمری کی روشنی میں کی ہے۔

ع س:آپ کی ادبی خدمات مشاہیر ادب تسلیم کرتے ہیں کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟

ش ا: مشاہیرِ ادب کو پڑھنے کا وقت کہاں ملتا ہے وہ تو اخلاقاً ہوں ہاں کرتے رہتے ہیں۔ یہی صورتِ حال میرے ساتھ بھی ہے ہاں طلبہ کے استفساری ٹیلیفون سے پتا چلتا ہے کہ وہ میری قدر کرتے ہیں۔ یوں بھی بقول غالب’ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے‘

ع س:آپ کا تعلق اعظم گڑھ اور ممبئی دونوں سے ہے ان کی ادبی سرگرمیوں کے متعلق کچھ فرمائیں۔

ش ا:میں بچپن ہی میں بمبئی آ گیا تھا صرف اسکول کی چھٹیوں میں وطن جانا ہوتا ہے، اس لیے وہاں کے بارے میںکوئی چشم دید سرگرمی بیان نہیں کر سکتا۔ بمبئی میں مختلف اداروں کی ماہانہ شعری نشستیں ہوتی تھیں جن کی روداد اخباروں میں چھپا کرتی تھی۔ اخباروں میں دقیق ورقیق ہر طرح کی ادبی بحثیں بھی ہوتی تھیں۔ صابو صدیق گراؤنڈ میں انجمن اسلام، انجمن خیرالاسلام، مفیدالیتٰمیٰ اور دوسرے اداروں کے 5,6 سالانہ مشاعرے ہوتے تھے۔ مختلف خانقاہوں اور مزاروں کے عرس کے موقع پر بھی مشاعرے ہوتے تھے۔ منقبتی نشستیں اور بڑے پیمانے کی محفلیں بھی ہوتی تھی صوفیانہ قوالیاں دلچسپی کا باعث تھیں۔ آج کچھ لوگوں کو تعجب ہوگا کہ اس زمانے کے کشکول بردار فقیر مرادآبادی پیالوں میں سکے گھما کر موسیقی پیدا کرتے تھے اور طویل رزمیے اور مثنویاں سناتے تھے، کچھ فقراکلائی سے کہنی تک بتدریج بڑی ہوتی ہوئی چوڑیاں پہنتے ان پر ایک آبنوسی لکڑی کی ضرب لگا کر جھنکار پیدا کرتے تھے اور مسلسل اشعار سناتے تھے۔بڑا پر کیف ماحول تھا۔

ع س: ماشاء  اللہ عروض پر آپ کا مطالعہ نہایت وسیع ہے ’شعور عروض‘ میںایک مقام پر آپ نے لکھا ہے کہ میں نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں یہ نہیں بتاسکتا لیکن عروض پر پچاس کتابوں کے نام بلا توقف بہ یک وقت گنا سکتا ہوں اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟

ش ا:اس پر میں کیا کہوں مختصر یہ کہ نہ گھوڑا دور نہ میدان کسی دن آزما کر دیکھ لیں۔

ع س:آپ کی فارسی زبان پر معلومات بہت گہری ہے، سنا ہے کہ ایران میں آپ کی بہت عزت افزائی ہوئی؟

ش ا: میں تین بار حکومت ایران کا مہمان رہا ہوں ،وہاں ’بزرگ شاعر اہلبیت‘کے اعزاز سے نوازا گیا،ایک بار تو ان ایرانی شعراکے ساتھ جو صرف فارسی میں شعر کہتے ہیں۔

ع س:آج کل مصروفیات کیا ہیں؟

ش ا: فی الحال تو میں اپنا منقبتی کلام جمع کر رہا ہوں۔اس کے بعد ’شعور اللغات‘ مرتب کرنے کا ارادہ ہے جس میں وہ الفاظ ہیں جن کی سند میں صرف مرثیوں کے اشعار فرہنگ آصفیہ، نوراللغات وغیرہ میں ملتے ہیں۔ ’شعور تاریخ گوئی‘ اور ’شعور تنقید‘ (مختلف شعرا   پر لکھے ہوئے مضامین) ان تمام پر کچھ نہ کچھ کام ہو چکا ہے۔

ع س:اپنے قارئین کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

ش ا:اپنی زبان، اپنی تہذیب کی حفاظت کے لیے اردو کے رسائل اور اخبارات کے خریدار بنیں۔

ع س:اردو دنیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ش ا:یہ ایک ایسا رسالہ ہے کہ سرورق دیکھ کر اس کو خریدنے کا خیال آتا ہے۔ مندرجات دیکھ کر انھیں پڑھنے کا جی چاہتا ہے۔ اناپ شناپ، الول جلول چیزوں سے پاک اعلیٰ معیاری رسالہ ہے۔

ع س:اپنی پسند کے کچھ اشعار سنا دیجیے۔

ش ا:

بچپن جن سے وابستہ تھا اب وہ کھلونے بیچ رہا ہوں

جان سے پیاری چیزوں کو میں اونے پونے بیچ رہا ہوں

آج کے دن سے امیدیں تھیں بہت وابستہ

آج کا دن بھی مگر بیت گیا کل کی طرح

عشق میں یارو کیسے کیسے عالم سے دوچار ہوئے

اس نے پلٹ کر حال نہ پوچھا جس کے لیے بیمار ہوئے

آئینے میں ان کا عکس حسیں خود ان کے مقابل آ جائے

کیا جانیے کیا ہو قاتل کے جب سامنے قاتل آجائے

دل تو رونے پہ بھی نہ تھا مائل

مسکرانے کی بات کیا کرے

بگویمش حال قلب سوزاں کہ آگ جی ماں لگائے راکھوں

بترسم اومی شود پریشاں کہوں سکھی یا چھپائے راکھوں

پیامِ شامِ وصال آید، شنیدہ ام خوش جمال آید

نہ جانے کب آئے والا، میں دیپ دوارے جرائے راکھوں

بطرز خسرو غزل سدایم، شعور فکرو ہنر تمایم

ہر ایک مصرع پہ سوچتا ہوں، کہ ساکھ کیونکر بچائے راکھوں

غریب شہر تمنا سہی، مگر کچھ ہوں

گداگروں میں بھی رسوا سہی مگر کچھ ہوں

نہ جانے کب یہ خیال آئے گا بزرگوں کو

میں ان کے نام پہ دھبہ سہی مگر کچھ ہوں

 

Azadar Husain Sajid Jalal Puri

Mohalla : Jafrabad, Post: Jalalpur

Distt.: Ambedkar Nagar- 224149

Mob.: 7571867185

Email.: azadarhusainsajid@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...