13/6/24

اردو ذریعۂ تعلیم میں اختصاص، گنجائش اور امکانات، مضمون نگار: احمد حسین

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی2024

 


اردو جنوبی ایشیائی بر صغیر کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور ہندوستان کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ قومی زبانوں میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ہندوستانی ریاستوں میں اس کے بولنے والوں کی کافی تعداد موجود ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں  جیسے امریکہ، یوروپ اور عرب ممالک میں بھی لاکھوں افراد اردو بولتے ہیں۔ اردو ایشیاکی سب سے اہم ادبی اور ثقافتی زبانوں میں سے ایک ہے، جس میں ایک بھرپور ادبی روایت موجود ہے جو جدید معیاری زبان اور پہلے کی بولیوں میں لکھی گئی ہے۔

ہندوستان میں اردو زبان مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ثانوی زبان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ اسکولوں اور مدارس میں بطور مضمون اور بطور ذریعہ تعلیم استعمال کی جاتی ہے۔

کسی قوم کی تعلیمی ،معاشی اور عملی ترقی کا دار و مدار اس کی قومی تدریسی زبان پر ہوتا ہے،کیونکہ جب تدریسی زبان فطری اور قابل فہم ہوگی تو طلبا نہ صرف مضمون کو سمجھ سکیں گے بلکہ اس حوالے سے وہ اپنے خیالات و تصورات کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں گے۔ اگر زبان قابل فہم نہ ہو تو کوئی اصول یا نظریہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو طلبا اس کی گہرائی میں نہیں اتر سکیں گے اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

1871 میں جرمنی کی فوج نے فرانس کے سرحدی صوبوں پر قبضہ کیا تو وہاں کے ایک استاد (مسٹر ہیبل) نے طلبا اور شہر کے معزز افراد کو جمع کرکے کہا کہ:

 ’’فرانسیسی دنیا کی مضبوط ترین ،واضح ترین اور حسین ترین زبان ہے۔یہ ہمارے قومی ورثے کی واحد محافظ ہے۔جب ایک قوم غلام بن جاتی ہے تو جب تک وہ اپنی زبان کو محفوظ رکھے،اس کے پاس وہ چابی رہتی ہے جس سے وہ اپنے قید خانے کا دروازہ کھول سکتی ہے۔‘‘

((The Last Lesson Book by Alphonse Daudet

کسی بھی ملک میں ایک بین الاقوامی زبان پڑھانا ضروری ہے تاکہ دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی و تجارتی روابط کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ طلبا اپنی مادری اور قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک غیر ملکی زبان کو بھی بخوبی سیکھیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس غیر ملکی زبان کو اتنی ترجیح دے دی جائے کہ طلبا احساس کمتری کا شکار ہو جائیں اور مادری اور قومی زبان میں بھی خود کو ماہر نہ بنا سکیں۔

اپنی مادری زبان میں طلبا جتنا کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کریں گے تعلیم کی بنیاد اتنی ہی مضبوط ہوگی اور تعلیم کی مضبوط بنیاد اس بات کی ضامن ہے کہ قوم اور ملک کے سامنے ترقی کے راستے کھلتے جائیں گے۔ ہندوستان میں اردو دیگر تمام زبانوں مثلاً تمل، تیلگو، سنسکرت، کنڑ اور اڑیا وغیرہ کی طرح مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔

آزادی سے قبل فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی،لیکن رفتہ رفتہ مختلف زبانوں کے میل نے اردو کو جنم دیا۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی فورٹ ولیم کالج کا کردار بہت اہم ہے، جو 10 جولائی 1800 کو کلکتہ میں قائم کیا گیا اور 1854 تک قائم رہا۔ اس کالج کا سب سے اہم کام مختلف کتابیں تالیف اور ترجمہ کروا کر  ٹائپ میں شائع کروانا تھا۔ ان کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ ان کی زبان سادہ اور سلیس اردو نثر تھی۔

گجرال کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق،اس کالج کے قیام کا ایک اور اہم مقصد کمپنی کے عہدے دار اور عملہ جنھیں عام طور پر عوام سے معاملات کرنے پڑتے تھے اور انھیں اس میں مقامی زبانوں سے ناواقفیت کی وجہ سے دشواری پیش آ رہی تھی، ان  کے لیے ضروری محسوس کیا گیا کہ انھیں ہندوستانی زبانوں اور معاشرت کی تعلیم دی جائے۔

ابتدا میں فورٹ ولیم کالج میں انگریزی، عربی، فارسی،سنسکرت کے ساتھ تمل، تیلگو، کنڑ،  مراٹھی، بنگالی اور  ہندوستانی یعنی اردو کی تعلیم کا انتظام تھا۔

ترجمے کے ذریعے اردو کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والا ایک اور اہم ادارہ 1825 میں (اورینٹل کالج/ دلّی کالج) دہلی میں قائم کیا گیا۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا جس نے اردو زبان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ’ذریعہ تعلیم‘کے طور پر روشناس کرایا۔

ہندوستان کا ایک اور اہم ترین ادارہ جس نے اردو کی ترقی میں بطور ذریعہ تعلیم نمایاں کردار ادا کیا وہ 1919 میں قائم ہونے والا جامع عثمانیہ تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ جامع ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند کا قیام بھی عمل میں آیا جن کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران سر جان سارجنٹ نے مشیر تعلیم کی حیثیت سے سارجنٹ پلان بتایا جو 1944 میں شائع ہوا،اس پلان میں ثانوی سطح تک ہندوستانی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس پلان میں ہندوستانی کی تعلیم پر زور دیا گیا، جو دونوں رسم الخط (دیوناگری اور فارسی)میں ہو۔ کیونکہ  ہندوستانی یعنی اردو ہندوستان کی مشترکہ زبان تھی۔  یہ صورت حال ہندوستان کی آزادی سے پہلے کی تھی۔

آزاد ہندوستان میں مختلف تعلیمی کمیشن  وجود میں آئے،جن میں رادھا کرشنن کمیشن(1948)، سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن (1952-53)،کوٹھاری کمیشن (1964-66) وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی سفارشات میں ذریعہ تعلیم کے اعتبار سے علاقائی/ مادری زبان کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی۔ سہ لسانی فارمولہ(1956) میں اس بات پر زور دیا گیا کہ طلبا کو تین زبانیں لازمی طور پر پڑھنی چاہیے: مادری/علاقائی زبان،ہندی/انگریزی زبان(سرکاری زبان)،جدید ہندوستانی/غیر ملکی زبان۔

تقسیم ملک  اور آزادی کے بعد تقریباً ایک دہائی تک نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے بارے میں کوئی دور رس تبدیلیاں نہیں ہوئیں اور مختلف کمیشنوں کی سفارشات پر پوری طرح عمل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ 1956 میں لسانی بنیاد پر ملک کی تقسیم عمل میں آئی اور ریاست کی اکثریت کی زبان وہاں کی سرکاری اور تعلیمی زبان بن گئی۔ جس کی وجہ سے ان زبانوں کی ترقی کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ غرض لسانی تقسیم کے نتیجے میں بیشتر علاقائی زبانیں ریاستی زبانیں قرار پائیں لیکن بدقسمتی سے اردو کسی ریاست کی اکثریت کی زبان نہ بن سکی۔ موجودہ وقت میں اردو کو اترپردیش،بہار،دہلی،کشمیر،تلنگانہ اور ویسٹ بنگال کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔

میڈیم آف انسٹرکشن یا ذریعہ سے مراد زبان کا وہ ذریعہ یا واسطہ ہے جو ذریعہ ابلاغ ہو، اگرچہ ’ذرائع‘ اور ’واسطے‘ لسانی و غیر لسانی بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہاں ذریعہ تعلیم سے مراد وہ زبان ہے جو ذریعہ تعلیم یا میڈیم آف انسٹرکشن  اور تعلیم و تعلم کا ذریعہ بنائی جائے، اور جس کے ذریعے سے علم/ معلومات کا ارسال اور ابلاغ ہو۔ جو چیز انسان کو دوسری تمام مخلوقات سے برتر اور ممتاز بناتی ہے وہ اس کی فکر و تخیل کی صلاحیت ہے۔ اور فکر و تخیل کو جِلا بخشنا تعلیم کا ایک بنیادی مقصد ہے، جس کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی و کامیابی ناممکن ہے۔ تعلیم کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ تخلیقی تخیل یا Creative Imagination کی صلاحیتوں کو فروغ دیا جائے۔

دنیا کے تمام فلسفے،سائنس،آرٹ اور دیگر تمام علوم انسانی تخیل کی ہی بدولت ترتیب دیے گئے ہیں۔  تعلیم کا ایک اہم مقصد حصول معاش بھی ہے۔

 ایڈیسن کا قول ہے: ’’ہم اس تعلیم کو سرے سے تعلیم نہیں سمجھتے جو آدمی کو اس کی روزی کمانے کے لیے قابل نہ بنا دے۔‘‘

ایسے بہت سے افراد ہیں جو تعلیم کو صرف ذریعہ  معاش سمجھتے ہیں، اور اس کے برخلاف ایسے افراد بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جو ’علم برائے علم‘ کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ دور حاضر میں جہاں تعلیم علم برائے علم ہے، انسان کی نشو ونما کا ذریعہ ہے، وہیں تعلیم ذریعہ معاش بھی ہے۔

پروفیسر انعام اللہ خاں شیروانی (سابق لیکچرار ایم ای ٹی ٹیچرس کالج، سوپور کشمیر) اپنی کتاب ’تدریس زبان اردو‘ میں رقمطراز ہیں:  

’’ذریعہ تعلیم سے مراد وہ طریقہ کار ہے جس کی وساطت سے استاد طلبا کو سمجھاتا ہے اور جس کے ذریعے طلبا استاد کی باتیں سمجھتے ہیں۔ ہر ایک زبان ذریعہ تعلیم نہیں ہو سکتی۔ کسی زبان میں ذریعہ تعلیم بننے کے لیے درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:‘‘ (ص37)

1        معلم اور متعلم دونوں اس زبان کو سمجھتے ہوں۔

2        زبان میں خاطر خواہ وسعت ہو۔

3        ذخیرہ الفاظ کافی ہو اور مزید الفاظ کو وضع کرنے کی گنجائش ہو۔

4        اعلیٰ تحقیق و تدقیق ممکن ہو۔

5        زبان سہل اور آسان ہو ،اس میں قواعد کی پیچیدگی نہ ہو۔

6        اس زبان میں ادب اور دیگر علوم و فنون کی کتابوں کی کثرت ہو۔

7        اس میں دوسری کتابوں کا ترجمہ آسانی سے ہو۔ وغیرہ۔

اردو کی ترقی و ترویج کے لیے ہندوستان میں سب سے اہم سفارشات گجرال کمیٹی (1972) کی ہیں۔

قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہندوستانی بچوں کو 15 سال تک معیاری تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020  کے مطابق کم از کم گریڈ 5 تک کی تعلیم علاقائی یا مادری زبان میں ہو۔ بچے کو ابتدائی تعلیم اگر مادری زبان میں دی جائے تو وہ بہت آسانی سے زبان کے ساتھ ساتھ تمام مضامین بہت جلد سیکھ لیتا ہے اور دوسروں کی باتیں بھی با آسانی سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے ماہر تعلیم اور دانشوران تعلیم کی رائے ہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے۔ تاکہ بچہ آسانی سے علم حاصل کر سکے اور ساتھ ہی اسے دیگر زبانوں سے بھی واقف کرانا چاہیے جس سے کہ وہ باہر کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا سکے۔ مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی بھی ہے اور نکھرتی بھی ہے۔ اور ساتھ ہی بچے کی تخیلی صلاحیت  میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی تعلیم کے لیے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم لازمی قرار دیا ہوا ہے۔

        تمام ماہرین تعلیم اور ماہر نفسیات تعلیم کی متفقہ رائے کے مطابق تعلیم اور اس کی  جانچ مادری زبان ہی میں ہونی چاہیے۔

        ادبی تخلیق مادری زبان کے ذریعے ہی بہتر طور پر ہوتی ہے اور طالب علم کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت اسی کے ذریعے ظاہر ہو سکتی ہے۔

        فرد اور سماج میں ایک لگاؤ ہوتا ہے۔ فرد کو سماج کی ضرورت ہے۔ فرد اپنے اِرد گِرد ایک ماحول اور زندگی پاتا ہے۔اسے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے سماج کی زبان کو استعمال کرنا پڑتا ہے،جو اس کی اپنی مادری زبان ہوتی ہے۔

        مادری زبان کے ذریعے طلبا آزادی سے سوچتے، سمجھتے اور پرکھتے ہیں اس سے ان کو زبان اور ذہنی کاوش و صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

        مادری زبان سے ہمارے کردار، تہذیب اور ثقافت کو تقویت پہنچتی ہے۔

        آدم رپورٹ اور سیڈلر رپورٹ کی سفارشات کے پیش نظر مادری زبان ہی کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہیے۔

(1938 کی آدم رپورٹ میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی گئی ہے:

        تعلیم کا بنیادی مقصد بچے کی مجموعی توجہ ،صلاحیت اور اس کی خودی کی تکمیل۔ اس کی خودی کو ابھارنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے وہ مادری زبان ہے۔

مندرجہ بالا تمام نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو اپنی ان تمام خصوصیتوں کی بنا پر ذریعہ تعلیم بننے کی تمام صلاحیتیں رکھتی ہے۔

اردو ہندوستان کے ایک بڑے طبقے کی زبان ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خود اہل زبان نے اسے ایک مخصوص کمیونٹی کی زبان بنا دیا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ اردو کی تعلیم حاصل کرنے اور اردو ذریعہ تعلیم سے تعلیم حاصل کرنے سے ان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا ہے، اردو خود اپنے چاہنے والوں کے منفی/ دوہرے معیار کا شکار ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے،اردو وہ زبان ہے جسے سیکھنے میں اگر انصاف کیا جائے تو اپنے سیکھنے والے کو کبھی مایوس نہیں کرتی۔ فرد کی شخصیت ،اس کے لہجے،اس کی زبان،انداز بیان سب کچھ انفرادیت اختیار کر لیتا ہے۔

اردو کا اسکوپ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک مثلاً- برطانیہ،یوایس اے اور کینیڈا وغیرہ بالخصوص یو اے ای ان تمام ملکوں میں بہتر ہے۔ ان ملکوں میں آسانی سے ملازمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بہتر مواقع فراہم کرتی ہیں:

        اس کے علاوہ آپ علاقائی اردو صحافت اور نیوز ایجنسی میں بھی بہتر طور پر کام کر سکتے ہیں۔

        اردو پبلشنگ ایجنسیز ہندوستان  اور بیرون ملک میں ایک اور بہتر متبادل ہو سکتا ہے۔

        ملازمت کے شعبوں میں تدریس،پرنٹ میڈیا سے لے کر فلم اور ٹیلیویژن کی صنعتیں شامل ہیں۔ اس میں عام طور پر ڈیٹا مصنف، ایڈیٹرز، شاعر، ناول نگار، صحافی،مترجم وغیرہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔

        ملازمت کرنے والے افراد کو متن کے مطابق مواد تخلیق کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور تحریر کی عصری طرز کو مربوط کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

        موجودہ وقت میں اردو زبان جاننے والوں کے لیے اور بھی مواقع  میں اضافہ ہوا ہے، آن لائن پلیٹ فارم کے متعارف ہونے سے بڑی بھرتیاں آن لائن میگزین، پیپرز، آن لائن مٹیریل لکھنے والی کمپنیوں اور ترجمہ کرنے والی کمپنیوں میں ہوتی ہیں۔

        اردو ذریعہ تعلیم کے طور پر یا اردو کی تعلیم حاصل کرکے ڈگری لینے کے بعد عالمی سطح کی ملٹی نیشنل کمپنیوں تک کہیں بھی ملازمت حاصل کی جا سکتی ہے۔

        اس شعبے میں کیریئر کے مواقع متنوع ہیں، اس میں بہت سے ایسے پیشے ہیں جن کو با آسانی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:

اردو صحافی: اس میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنا ہوتا ہے اور ایک نیوز مصنف کے طور پر بھی کام کر سکتے ہیں۔

ٹرانسلیٹر/مترجم: پارلیمنٹ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک مختلف شعبوں میں مترجم بھرتی کیے جاتے ہیں۔ نجی اور سرکاری شعبوں میں مترجم کے لیے بہتر مواقع ہیں۔

ایڈیٹر: اردو پبلشنگ ہاؤس کا حصہ بن سکتے ہیں اور ایڈیٹر کے طور پر مواد،مضامین اور خبروں میں ترمیم کا کام کر سکتے ہیں۔

پروفیسر/استاد: تدریسی پیشے کو وسیع تر ترجیح دی جاتی ہے، یہ سب سے محفوظ اور اعلیٰ ملازمتوں میں سے ایک ہے۔

کانٹینٹ رائٹر: مواد کے مصنف کے طور پر آپ اپنا مواد شائع کر سکتے ہیں، یا کسی کمپنی میں ملازمت اختیار کی جا سکتی ہے۔ جب تک آپ کے پاس منفرد اور دلچسپ مواد ہے آپ کے پاس پڑھنے کے لیے قابل قدر سامعین ہوں گے۔

مصنف/شاعر: ایک مصنف یا شاعر کے طور پر، آپ خود کام کر سکتے ہیں اور ایسا کام تیار کر سکتے ہیں جس میں آپ کی دلچسپی ہو۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ کا کام تخلیقی اور نایاب  ہو۔

مندرجہ بالا مذکور تمام ملازمتوں کو حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے، بشرطیکہ آپ کے پاس اعلیٰ سطح کی مہارت ہو۔ جب تک آپ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے سیکھنے کے لیے تیار ہیں تب تک یہ آپ کی پہنچ سے دور نہیں۔

اگر آپ کے اندر صلاحیت ہے تو آپ اردو ذریعہ تعلیم سے کوئی بھی کورس کریں آپ ناکام نہیں ہو سکتے۔

بچے کی ذہنی نشوونما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے اکیسویں صدی میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کومادری زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں ساتھ ہی ساتھ دیگر علوم کو بھی سکھائیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔

دکن میں سب سے پہلے یونیورسٹی کی سطح پر اردو ذریعہ تعلیم کا آغاز عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآبادمیں عمل میں آیا تھا اور جہاں مختلف زبانوں اور علوم کے ساتھ ساتھ طب، سائنس اور قانون کی تعلیم اردو میں فراہم کی گئی تھی جس کے نتیجے میں بہت ہی ماہر اور قابل افراد ملک کی سیاست اور دیگر شعبوں میں ابھر کر سامنے آئے تھے۔ دورحاضر میں مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے قیام سے ہی اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا جس کے نتیجے کے طور پر آج سوشیل سائنس، پولیٹکنیک اور انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کی تعلیم اردو زبان میں رائج ہے اور وہ دن اب دور نہیں جب طب  اور قانون کی تعلیم بھی اردو میں فراہم ہوگی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو ذریعہ تعلیم کو اختیار کرنے پر طلبہ کو راغب کریں اساتذہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ طلبہ کو یہ احسا س دلائیں کہ اردو میں تعلیم حاصل کرنے سے ہی ہم اپنی مادری زبان میں اچھی طرح سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اور دیگر زبان و علوم پر مکمل عبور حاصل کرسکتے ہیں۔اور سائنس و ٹکنالوجی کے شعبوں میں بھی آج کل اردو زبان اس سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔والدین پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کی ابتدائی تعلیم کو اپنی مادری زبان میں حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اردوکو ہی اپنا ذریعہ تعلیم بنائیں اور یہ نہ سوچیں کہ اردو کا مستقبل تاریک ہے بلکہ یہ سوچیں کہ وہ اردو کے ذریعے ہی اپنے مستقبل کو بنائیں گے۔ آج ہمارے سامنے کئی ایک مثالیں ہیں کہ اردو ذریعہ تعلیم کو اختیار کرنے والے IAS,IPS,MBBS,CAاور انجنیئرنگ میں اعلی کارنامے انجام دے رہے ہیں ایک مثال ہمارے پاس ڈاکٹر شاہ فیصل IASٹاپر کی بھی ہے جن کا تعلق علاقہ کشمیر سے ہے۔

اردو روزگاراور اردو ذریعہ تعلیم کی اہمیت سے متعلق ڈاکٹر مہتاب عالم رقمطراز ہیں:

’’ہمارے اردو حلقوں میں ایک بات عام طور ر کہی جاتی ہے کہ اردو میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں بعض لوگ اسے مذہبی زبان سمجھ کر ناقابل اعتنا نہیں سمجھتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کا مستقبل اردو میں تاریک نظرآتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی زبان کو چھوڑ کر ملک کی تمام زبانوں میں روزگار کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی جس میں فلم،ریڈیو،ٹیلی ویژن اخبارات کے علاوہ محکمہ تعلیمات میں اردو اساتذہ اور مختلف سرکاری دفاتر میں اردو مترجمین اور نجی طور پر ترجمے سے متعلق کاموں کی کمی نہیں ہے مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی جیسے UPSC,PCSC اور پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات میں اردوکو بھی ایک اختیاری مضمون کی حیثیت حاصل ہے۔ یوپی ایس سی میں تو اردو میں امتحان دینے کی بھی سہولت موجود ہے۔‘‘

(اردو کاقومی منظر نامہ، ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی،ستمبر 2010 ص18)

اردوذریعہ تعلیم کے ذریعے اردو کے فروغ کے لیے ثقافتی سرگرمیوں اور طلبہ کی اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے ساتھ ہی ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعے اردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کو اردو کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ اردو ذریعہ تعلیم کے طلبا میں پائی جانے والی مایوسی کو کم کیا جائے اور انھیں بھی ترقی کے بھر پور مواقع فراہم کیے جائیں تو اردو کا اور اردو ذریعہ تعلیم سے آگے بڑھنے والے طلباکا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اسکول /کالج اور یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ کی تقرری ہو جو قابل ہونے کے ساتھ ساتھ جن کا لب و لہجہ صاف ستھرا،اندازبیان دلچسپ اور تلفظ اور املے سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہوں۔ اردو کا پورا پورا حق ادا کرتے ہوں۔ کیونکہ طلبا اساتذہ سے ہی سیکھتے ہیں، تلفظ کی ادائیگی اور تحریر میں املے کی درستگی بہتر ہو تو وہ طلبا بھی با آسانی اردو سیکھ سکتے ہیں جو دوسرے میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

کتابیات

1        خلیق انجم، گجرال کمیٹی اور اس سے متعلق دیگر کمیٹیوں کا جائزہ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،اردوبازار،دہلی 1998۔

2         ڈاکٹر محمد عبدالرشید ارشد،اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم، 1988۔

3         انعام اللہ خاں شروانی، تدریسِ زبان اردو، ساوتری آفیسٹ پرنٹنگ ڈویژن،کلکتہ، 1989۔

4         محی الدین قادر زور کشمیری، تدریسِ اردو (منہاجیات طریقیات اور مشمولات)، یونیک بک میڈیا،سرینگر

5         ڈاکٹر عزیز سہیل، اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری زمہ داریاں، جولائی 2020۔

 

Ahmad Husain

Asst Prof., College of Teacher Educational

Bhopal- 462001 (MP)

ahmadhusainamu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...