ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
حالیہ برسوں میں تعلیم میں مصنوعی ذہانت (Artificial
Intelligence) کے استعمال سے تدریس و اکتساب کی رفتار اور
آموزش کے طریقوں میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کمپیوٹر کا خاطرخواہ
استعمال کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت نے گذشتہ چند برسوں میں ہمارے
سوچنے سمجھنے، جواب دینے اور کام کرنے کے طریقوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ پہلے کسی بھی
موضوع پر مواد یکجا کرنے اور اسے ترتیب دینے میں کافی محنت کرنی پڑتی تھی۔اسی طرح
تعلیم سے متعلق انتظامی امور میں وقت کافی ضائع ہوتا تھا۔ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی
نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس طرح کا کام پلک جھپکتے ہی ہو جاتا ہے۔ تدریس واکتساب
کے بعض خشک سمجھے جانے والے موضوعات کو اب کمپیوٹر سوفٹ ویئر پروگراموں اور اپلی کیشنز
کی مدد سے دلکش اور دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔ پہلے ایک وقت میں طلبہ کی محدود تعداد
کی ہی رہنمائی کی گنجائش ہوتی تھی۔اب مصنوعی ذہانت پر مبنی تعلیمی ٹیکنالوجی کی
مدد سے بیک وقت ہزاروں طلبہ کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت سے متعلق بنیادی تحقیق کے حوالے سے اکثرمشہور انگریز ریاضی داں ایلن ٹیورنگ (Alan Turing)کا
نام لیا جاتا ہے۔
انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے ایک مقالے میں دعویٰ
کیا تھا کہ مصنوعی ذہانت پر بہتر تحقیق کمپیوٹر پروگرامنگ سوفٹ ویئر کے ذریعے ہی
ممکن ہے۔ اردو میں سائنسی مضامین لکھنے والے معروف مصنف باقر نقوی ایلن ٹیورنگ کو
بابائے مصنوعی ذہانت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایلن نے ہی عددی کمپیوٹر
کے خطوط پر ایک مشین کا خاکہ پیش کیا اور
اس کام کے دوران اس نے کمپیو ٹر اور قدرتی صلاحیتوں کے درمیان رشتہ بندی پر
کام شروع کیا اور ذہین مشین (Intelligent Machinery)کے
عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔یہی وہ پہلی اینٹ تھی
جس پر مصنوعی ذہانت کی عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔‘‘
(مصنوعی ذہانت: ایک نیا فکری تناظر، ص 60)
اسی طرح مصنوعی ذہانت کی اصطلاح کا بھر پور استعمال جان
میک کارتھی (John McCarthy) نے اس کے چند برسوں بعد کیا۔وہ بنیادی طور پر ایک
ریاضی داں تھے، مگر کمپیوٹر سائنس میں بھی انھوں نے نمایاں کام کیا۔ ہندوستان میں
مصنوعی ذہانت کا استعمال برسوں سے ہو رہا ہے۔ مگر، اب دن بہ دن اس کی ضرورت بڑھتی
جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں تدریس و اکتساب میں اس کا استعمال
ناگزیر ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں ماہر عمرانیات دیپانکر گپتا کا خیال قدرے مختلف
ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مصنوعی ذہانت نہ تو کبھی انسانی ذہانت کے مد مقابل ٹھہر سکتا
ہے اور نہ ہی ہر معاملے میں مصنوعی ذہانت
پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے انسانی ذہن کی طرح
اختراعی کام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انسان کا ذہن مصنوعی ذہانت کے بغیر اختراعی
کام انجام دے سکتا ہے، مگر انسانی ذہن کے بغیر مصنوعی ذہانت کوئی کام نہیں کر
سکتا۔ البتہ یہ کام کو بہت آسان بنا سکتا ہے اور اس کی رسائی بہت زیادہ ہے۔
مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر چلنے والے سوفٹ ویئر
پروگراموں کا بہتر اور مؤثر استعمال انسان اپنی ذہانت کوبروئے کار لاکر ہی کر سکتا ہے۔حصول زبان اور
مؤثر آموزش کے ساتھ ہی بہترین دلیلیں پیش کرنے اور مسئلوں کا مناسب حل
تلاش کرنے میں مصنوعی ذہانت سے مدد لی جا سکتی ہے، مگر کسی مشین یا ٹیکنالوجی سے
استفادہ کرنے کے لیے انسان کا ہنر منداور باسلیقہ ہونا ضروری ہے۔ کسی مخصوص کام کو
مسلسل انجام دینے کے لیے عام طور پر معمولی یا ناتواں مصنوعی ذہانت سے کام چلایا
جاتا ہے، جب کہ انسانوں کی طرح دانشورانہ کام انجام دینے کے لیے قوی مصنوعی ذہانت
کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٹول فری فون نمبروں کے
ذریعے کمپیوٹر کی مدد سے صارفین کو جس طرح کے جوابات موصول ہوتے ہیں انھیں اول
الذکر کی مثال سمجھ سکتے ہیں۔ جب کہ آخرالذکر زمرے میں چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT)، بارڈ/جیمنی (Bard/Gemini)، جیسپر چیٹ (Jasper
Chat)، یو چیٹ (YouChat)، بنگ اے آئی (Bing
AI) وغیرہ
شامل ہیں جو پوچھے جانے والے ہر قسم کے سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس
ضمن میں خان اکیڈمی کی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر چلنے والے ٹول خامنگو (Khamingo
AI) کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے، جس کا تعارف
’آموزش کے لیے بہترین ٹیوٹر‘ کے طور پر کرایا جاتا ہے۔ یہ فی الوقت صرف متحدہ امریکہ
کے صارفین کے استعمال تک محدود ہے، مگر مستقبل قریب میں اسے دنیا بھر کے صارفین کے
لیے متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ یہ بیک وقت اساتذہ، طلبہ اور سرپرستوں کے لیے کار آمد
ثابت ہو رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرامز طالب علموں کی
استعدادوں، سیکھنے کے طریقوں اور آموزش کی رفتار کا تجزیہ کرکے اکتسابی مواد کو
ترتیب دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں طالب علم کی مہارتوں کے ساتھ ہی اس کی دلچسپیوں اور
دوسرے رجحانات کوبھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر آموزش سے
متعلق طالب علموں کی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اور ان کی اصلاح کی
جا سکتی ہے۔ اس سے طلبہ کو انفرادی طور پر مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے
تیار کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
مصنوعی ذہانت اکتساب کو انفرادی تقاضے کے مطابق ڈھالنے
میں کافی معاون ہوتی ہے۔ اسی طرح امتحانات کے دوران طلبہ کے لیے سوالنامے تیار
کرنے اور جوابات کی جانچ کرنے میں مصنوعی ذہانت سے خوب استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ اس
سے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ طلبہ کی اصلاح اور بہترین رہنمائی آسان ہوجاتی
ہے۔ یعنی پہلے جو کام افراد کے ذریعے انتہائی احتیاط کے ساتھ خاصا وقت لگاکر انجام
دیاجاتا تھااب وہ مصنوعی ذہانت پر مبنی کمپیوٹر سوفٹ ویئر کی مدد سے جھٹ پٹ ہوجاتا
ہے۔مختلف انتظامی امور کو انجام دینے اور طالب علموں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے
متعدد سوفٹ ویئر پروگرامزاور اپلی کیشنز مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی کام کرتے ہیں۔
مثلاً ایپل کمپنی کی سیری (Siri)، گوگل اسسٹنٹ، امیزن الیکسا (Amazon
Alexa) وغیرہ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر چلنے والے
ورچول اسسٹنٹس (Virtual Assistants) ہیں، جن کے پاس
عام طور پرصارفین کے ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے۔ پہلے کمپیوٹر یا موبائل کے کی بورڈ پر ٹائپ کرکے سوالات پوچھے جاتے
تھے، اب تو انداز ایسا جادوئی ہوگیا ہے کہ چند سیکنڈوں میں بول کر پوچھا جانے والا
سوال جب ختم ہوتا ہے تو اگلے چند سیکنڈوں میں اس کا جواب حاضر ملتا ہے۔ اسے اکیسویں
صدی کی مصنوعی ذہانت کا کمال ہی کہیں گے۔اتنا ہی نہیں، مصنوعی ذہانت کی مدد سے
طلبہ سے متعلق ڈاٹا کا تجزیہ کرکے ان کے رجحانات کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے اور
ن کی تعلیمی کارکردگی کی پیشین گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کے اندازوں سے ایک
بڑا فائدہ یہ ہے کہ طالب علموں کو درپیش چیلنجوں پر قابو پایا جا سکتا ہے، مناسب
وقت پر ماہرین کی مدد سے خدشات کو دور کیا جا سکتا ہے اور متوقع منفی نتائج کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی طلبہ کے لیے
تعلیمی مواد تیار کرنے میں بھی مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹولز اور اپلی کیشنز سے خوب
مدد لی جارہی ہے۔ اب الگ الگ نوعیت کے طلبہ کے سیکھنے کے مختلف انداز کے مطابق
اسباق کو تیار کرنا آسان ہو گیا ہے۔ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ہندوستان میں اس
نوعیت کے بیشتر ٹولز اور ایپس اب تک مفت میں بھی دستیاب ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے آموزش کو پرکشش اور معنی خیز بنانے
میں بھی کافی مدد ملتی ہے۔ خاص طور پر تعلیمی کھیلوں کے ذریعے اکتساب کو خوب دلچسپ
بنایا جا رہا ہے۔ آموزش کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے تعلیمی سرگرمیوں میں کھیل
کودکے عناصر کو شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے چلائے جانے
والے روبوٹس (Robots) کا
استعمال تعلیمی آلات کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ بنگلور کے بعض اسکولوں میں تو
روبوٹ کو معلم کے معاون کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ خاص طور پر کمپیوٹر
پروگرامنگ اور انجینئرنگ کے شعبوں میں یہ اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ مزید برآں، آن
لائن کلاسز کے دوران مصنوعی ذہانت کی مدد سے طلبہ کے چہروں کی شناخت کرکے ان کی
حاضری اور اکتساب میں ان کی مشغولیت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مصنوعی ذہانت
کی بنیاد پر کام کرنے والے بعض ٹولز طالب علم کے چہرے کے تاثرات، اس کی آواز کے
اتارچڑھاؤ اور بعض دیگر اشاروں کا تجزیہ کرکے اس کی جذباتی کیفیت کے بارے میں
معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سے کسی طالب علم کے تناؤ کی سطح کا پتہ چل جاتا ہے
اور متعلقہ عوامل کو دور کیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے ٹولز طالب علم کے رویوں کا بھی
تجزیہ کر سکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر طلبہ کی بہتر کارکردگی اور مجموعی بہتری کے
امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے۔
آن لائن تعلیم کو معنی خیز بنانے والی فعال امریکی کمپنی کوگنی (Cognii)
کی مصنوعی ذہانت پر مبنی تعلیمی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں
دھوم مچا رہی ہے۔ یہ کمپنی دنیا بھر کے طالب علموں، تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو
نت نئی معلومات فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی آن
لائن تعلیم کو مؤثر بنانے میں اس کمپنی کا اہم رول ہے۔ کوگنی ورچول لرننگ اسسٹنٹ
(Cognii VLA) تو
طلبہ کے سوال کی تصحیح کا کام بھی کرتا ہے۔ یہ طالب علم کو یہاں تک بتاتا ہے کہ وہ
اپنے مخصوص سوال کے جواب کو خوب سے خوب تر کیسے بنا سکتا ہے۔ اس کمپنی کی مصنوعی
ذہانت پر مبنی تعلیمی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اب کوئی بھی طالب علم اپنے
تحریری جواب کی گھر بیٹھے فوری اصلاح کرا سکتا ہے اور اس سلسلے میں مزید رہنمائی
حاصل کر سکتا ہے۔آزادانہ طور پر سیکھنے کے لیے یہ طالب علموں کے لیے بہت معاون ثابت
ہو رہا ہے۔ اسی طرح آئی بی ایم واٹسن اسسٹنٹ (Watson
Assistant IBM) بھی
چیٹ بوٹس بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو طلبہ کے سوالات کے فوری جوابات
فراہم کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر چلنے والی ٹیکنالوجی کی مدد
سے تعلیم و تربیت کے شعبے میں کام کرنے والی چینی کمپنی اسکویرل اے آئی (Squirrel
AI) طلبہ کے سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے میں
سرگرم ہے۔ چین کے بیشتر اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اس سے استفادہ کیا
جارہا ہے۔اس کے ذریعہ طلبہ کو انفرادی پروگرام فراہم کرکے آموزش کو بہتر بنانے کے
لیے ٹکنا لوجی کا استعمال کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اس سے بہتر آموزش کے ساتھ ہی تعلیم
و تربیت کو کارگر بنانے میں بھی کامیابی مل رہی ہے۔اس سلسلے میں طلبہ سے متعلق
ڈاٹا کا تجزیہ کرکے ہر طالب علم کی انفرادی تعلیمی ضرورتوں کے پیش نظر اس کی
رہنمائی کی جاتی ہے۔ اکتساب سے متعلق ہر طالب علم کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کیا
جاتا ہے، ان کی فہم کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر حسب ضرورت اضافی توجہ دی جاتی ہے
اور سیکھنے کی رفتار کے مطابق اکتسابی مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹولز کی مدد سے کسی بھی زبان کا
سیکھنا آسان ہو گیا ہے۔ بلکہ ان سے معیاری تلفظ سیکھنے اور الگ الگ لہجہ اختیار
کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ زبانیں سیکھنے سے متعلق مفت میں دستیاب موبائل ایپ
ڈولنگو (Duolingo) بھی
مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی کام کرتا ہے۔ رسم الخط سے معمولی واقفیت رکھنے والا
کوئی بھی فرد اس ایپ کی مدد سے متعدد زبانیں خود بخود سیکھ سکتا ہے۔ یہ ایپ مصنوعی
ذہانت کی بنیاد پر سیکھنے والے کی انفرادی استعدادوں کے مطابق مواد اور اسباق
فراہم کرتا ہے، مشق کراتا ہے، صارفین کے دیے گئے جوابات کی تصحیح کرتا ہے اور ساتھ
ساتھ مسلسل تعین کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
تعلیم میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اساتذہ کی
کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اساتذہ پر کام کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔مصنوعی ذہانت پر مبنی
تعلیمی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کم وقت میں زیادہ کام کی گنجائش ہے۔ساتھ ہی طالب
علم کی انفرادی ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا
ہے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بیک وقت
طلبہ کی بڑی تعداد تک رسائی ممکن ہے۔ علاوہ ازیں، کمپیوٹر میں ایسے بے شمار
ٹولز ہیں جن کی مدد سے اساتذہ دلکش اور دیدہ
زیب تعلیمی مواد تیار کر سکتے ہیں۔ اس میں مواد مضمون کی بہترین تفہیم کے لیے متن
سے متعلق متعدد نوعیت کے ڈیزائین ڈال سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض میں مصنوعی ذہانت سے
چلنے والے ٹولز کا استعمال ہوتا ہے اوربعض
میں مختلف نوعیت کی اپلی کیشنز سے مدد لی جاتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے اساتذہ کلاس روم میں پڑھائے
جانے والے مخصوص سبق کا منصوبہ جھٹ پٹ تیار کر سکتے ہیں، آموزشی ماحصل دریافت کر
سکتے ہیں اور اس کے اطلاق کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کی مدد سے
اکتسابی مواد تیار کرنا آسان ہو گیا ہے۔اس کی وجہ سے اب تعلیم میں تعین قدر کا
کام آسان ہو گیا ہے۔ سوالات تیار کرنے،
ان کی درجہ بندی میں اور صحیح جواب معلوم کرنے کے سلسلے میں اساتذہ کا بوجھ کم ہوا
ہے۔ جو اساتذہ صاحب علم ہیں اور اپنے مضامین
پر جن کی گرفت بہت مضبوط ہے، ان کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے کمپیوٹر
پروگرامز نعمت ثابت ہو رہے ہیں۔ ان سے نہ صرف
اساتذہ کے وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ انسانی غلطیوں کے امکانات بھی کم ہوتے
ہیں۔یوں تو اساتذہ اپنے طالب علموں کے مزاج سے واقف ہوتے ہیں۔ مگر،
امتحانات میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے
کے لیے جوابی پرچوں کی جانچ منصفانہ انداز میں کرنا ہوتا ہے۔ ایسے مرحلے میں
اساتذہ مصنوعی ذہانت سے استفادہ کرتے ہیں۔اس سے ہر طالب علم کی کمزوری کی نشاندہی
ہو جاتی ہے اور تصحیح کا کام آسان ہو
جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی طالب علم کی تنقید ی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں
بھی مزید باریک بینی سے جانچنے کا سراغ مل
جاتا ہے۔مصنوعی ذہانت سے اساتذہ کے لیے مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوئی ہیں۔اس سے
اساتذہ کو جدید ترین تعلیمی رجحانات اور
طریقوں سے واقف ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اساتذہ کی انفرادی ضروریات کی بنیاد پر
متعلقہ وسائل، ورکشاپس اور تربیتی پروگراموں
کے بارے میں بھی مصنوعی ذہانت سے خاصی مدد ملتی ہے۔
اردو میں سرقہ کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔مگر انگریزی
میں لکھے گئے جوابات پڑھ کر مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز فوراً سرقہ کا پتہ لگا
سکتے ہیں۔اس طرح مصنوعی ذہانت کی مدد سے طلبہ کی نقل نویسی پر قابو پایا جا سکتا
ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی طلبہ کو بہتر اور جامع تحریر لکھنے کے لیے بھی کافی مدد ملتی ہے۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز طلبہ کی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں
مدد کرتے ہیں۔ یہ ٹولززبان سے متعلق قواعد، اسلوب اور مواد کا تجزیہ کر کے تعمیری
آرا اور بہتری کے لیے تجاویز فراہم کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرنے والے مذکورہ سوفٹ ویئر ٹولز اور اپلی کیشنز کو صرف ایک نقطہ آغاز کہا
جا سکتا ہے۔اس شعبے میں جس رفتار سے ترقی ہو رہی ہے، اسے پہلے بعید از قیاس سمجھا
جاتا تھا۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں آج ہر لمحہ باقاعدہ نئے ٹولزتیا ر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں
خاص طور پر مغربی ممالک میں ہونے والی تحقیق اور متعلقہ صنعت کے جدید رجحانات سے
واقفیت ناگزیر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تدریس و اکتساب میں مصنوعی ذہانت پر مبنی
ٹولز اور کمپیوٹر سوفٹ ویئر کے استعمال سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔مستقبل
میں ان کے خوب سے خوب تر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔مگر انسانی ذہن اور انسانی اقدار
کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ سچ ہے کہ مشینوں کی مدد سے ترقی کے لامحدود
امکانات ہیں۔مگر کسی بھی سطح پر ٹیکنالوجی اور انسانی اقدار کے مابین اچھے تال میل
کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہ تو سارے معاملات ٹیکنالوجی کے حوالے کیے جا
سکتے ہیں اور نہ ہی انسانی اقدار سے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں
کی اہمیت ہے۔ دونوں میں مناسب توازن قائم
کرتے ہوئے تدریس و اکتساب کو خوب سے خوب تر بنایا جا سکتا ہے۔اس حقیقت سے کون
انکار کر سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹولز میں کام کی رفتار اور اس کے انداز
کو بدلنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ کوئی بھی طالب علم یا معلم مصنوعی ذہانت کو ایک
معاون کے طور پر اس سے خوب استفادہ کر سکتا ہے، مگر بہتر آموزش کے لیے یا مؤثر
تدریس و اکتساب کے لیے اس پر منحصر نہیں رہ سکتا۔
کتابیات
1 باقر
نقوی، مصنوعی ذہانت: ایک نیا فکری تناظر، اکادمی بازیافت، کتاب مارکیٹ، اردو
بازار، کراچی، 2006
2 Dipankar
Gupta, No HI, No AI, Times of India, Hyderabad, 13.02.2024
3 Miao,
Fengchun & Holmes, Wayne, Guidance for Generative AI in Education and
Research, UNESCO, Paris, France, 2023 (unesdoc.unesco.org)
Dr. Misbahul Anzar
CPDUMT, MANUU
Hyderabad-500032 (Telangana)
Mobile -
9948412484
misbahanzar@manuu.edu.in
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں