ماہنامہ اردو دنیاِ، مئی 2024
اردو میں تنقیدی شعور کا اظہار اولاً مشاعروں، استادی شاگردی
کے سلسلوں، اصلاح ِسخن اور ان میں مستعمل اصطلاحات سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ماقبل
ادوار میں تنقیدی شعور موجود تھا لیکن تنقید کی اصطلاح رائج نہیں تھی-اس تنقیدی
شعور کی دو سطحیں ہیں: ایک شاعر کا اپنا تنقید ی شعور جس کو داخلی سطح (Intrinsic) کہتے
ہیں اور دوسری سطح ادبی معاشرے میں مضمر
وہ روایات ہیں جو کسی ادب کے محاسن و معائب کی نشاند ہی کرتی ہیں۔ اسے تنقید کی
خارجی سطح(Extrinsic) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے اولین نقوش تذکروں میں نظر آتے ہیں۔
چنانچہ شعرا کے کلام پر پیش کیے گئے مشورے اور اشارے ابتدائی تنقید ی اصول و معیار
متعین کرتے ہیں۔ علمِ بیان و معنی پر محیط اصطلاحات کو ناقدین نے اردو کی اولین
تنقیدی اصطلاحات کا نام دیا ہے۔ اردو کی متعدد اصناف جو عربی اور فارسی سے مستعار
ہیں اور جو اصناف ان کے زیرِاثر اردو میں شامل ہوئیں ان کی شعریات میں اظہار کی
ترسیل اور ان پر تنقید کرنے کے اصول و نظریات بھی عربی/ فارسی ادبیات سے مستعار لیے
گئے ہیں۔ اس عہد میں رائج قدیم اردو تنقیدکے طرزعمل کا اطلاق بیک وقت سماعی تنقید
مثلاً مشاعروں اور شعری مشوروں، منظوم تنقیدجیسے سبیلِ ہدایت از سودا، نثری تنقید
مثال کے لیے تذکروں اور دیباچوں وغیرہ میں یکساں پایا جاتا ہے۔ تحریری شکل میں
اردو کی نظریاتی تنقید اور شعریات کے قدیم ترین اشاروں کا سلسلہ چودھویں صدی عیسوی
میں اس وقت قائم ہوا جب امیر خسرو نے ’روانی‘ جیسی اصطلاح کا تصور پیش کیا۔ یہ عہد
اردو کا ارتقائی عہد تھا۔ اس عہد میں تخلیقی شعور کے پہلو بہ پہلو تنقیدی
شعور کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ امیر خسرو سے
لے کر دکنی شاعروں اور بعد میں شمالی ہند کے سخنوروں نے اپنے کلام میں شعری تنقیدی اصول موزوں کیے ہیںجس
سے ان میں موجود تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثال کے لیے وجہی کہتے ہیں ’جو بے
ربط بولے بتیاں پچیس‘، ولی فرماتے ہیں ’ادا فہمی سخندانی بلا ہے‘ غواصی علم
بیان کی تعریف اس طرح کرتے ہیں’ جو کچھ تشبیہاں خوب معقول ہیں /میرے خیال کے
بن کے وہ پھول ہیں‘۔ سودا ’’تاثیر‘‘ سے
متعلق لکھتے ہیں ’نہیں آفاق میں دلکش سخن بے تا ثیر/گر اثر ہو تو کریں دل کو مسخر
اشعار‘۔ اس طرح کے شعری رـموز انتقادِ سخن میں شامل کیے جاتے رہے ہیں جو تنقید کی
داخلی سطح ہے۔ چودھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعد
تذکروں تک میں اردو کی کلاسیکی/ قدیم تنقیدی شعریات تشکیل پاتی ہے۔ اس ضمن میں
پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے تحقیقی کلمات ملاحظہ فرمائیے:
’’شعریات کے میدان
میں پہلی بڑی بات یہ ہوئی کہ مضمون اور معنی کے درمیان امتیاز دریافت کیا گیا-‘‘
آگے چل کر فاروقی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’اسی طرح شعری
قواعد سے متعلق بہت سے تصورات تھے جنھیں اٹھارویں صدی کے پہلے بحث میں نہ لایا گیا
تھا۔ مثال کے طور پر ’ربط‘ کا ذکر کر سکتے ہیں جس پر میر نے خاص زور دیا ہے۔ ’رعایت‘
اور’مناسبت‘کی اصطلاح بھی اسی زمانے سے رائج ہونے لگتی ہیں۔‘‘
(اردو کا ابتدائی
زمانہ، ص 56 اور 171)
شمس الرحمن فاروقی کے مطابق اردو شعرا نے معنی آفرینی کے ذیل
میں تین نئے طریقے:ایہام،رعایت اور مناسبت خود دریافت کیے ہیں۔اسی عہد میں شعرا نے
جمالیات کی دیگر اصطلاحات’کیفیت‘، ’جذباتیت‘ اور ’ایہام‘ وغیرہ کی تلقین
اپنے اشعار میں کی۔ساتھ ہی ان کی اطلاقی مثالیں بھی پیش کیں۔ شاعری سے متعلق یہ
مشورے یک رخے اور جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اردو میں فارسی طرز پر متقدمین اور
معاصرین کے کلام کی جانچ پرکھ اور تعین قدر کے لیے پہلی بار عملی طور پر ان تنقیدی
اشاروں اوراصطلاحوں کا استعمال تذکروں میں کیا گیا ہے۔ تذکراتی تنقید کی خوبی یہ
ہے کہ اس میں معنی سے زیادہ لفظ پر زور دیا جاتا ہے۔ شعر میں الفاظ کے درمیان
’مناسبت‘، ’ربط‘، ’رعایت‘ وغیرہ سے معنی کو زیادہ قوت ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی
قدیم مشرقی تنقید میں ’لفظ‘ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیںـ:
’’شاعر کے جذبات
کی بھی ایک مخصوص آواز ہوتی ہے۔ اس کے خیالات بھی ایک مخصوص آہنگ رکھتے ہیں۔ الفاظ کو اسی مخصوص آوازیا آہنگ کا پابند
ہونا پڑتا ہے جب شاعری میں یہ صورت حال ہو تو وہ زندہ نظر آتی ہیں... الفاظ شاعری
میں بڑا کام کرتے ہیں۔ وزن، آہنگ، علامتیں اشارے، رمزیت، ایمائیت جن کے ہاتھوں
شاعری کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ یہ سب کے سب الفاظ ہی کے سہارے وجود اختیار کرتے ہیں
الفاظ نہ ہوں تو شاعری کے ان لوازم وعناصر کا کوئی تصور پیدا نہیں ہو سکتا۔‘‘
(شاعری اور شاعری کی تنقید : ص(33
میر تقی میر نے فارسی زبان میںاردوشعرا کا پہلا تذکرہ’ نکات
الشعرا‘ 1752عیسوی میں لکھا۔میر نے اس تذکرے میں
103شعرا کا احوال، کلام پرتنقید واصلاحیں اور نمونۂ کلام پیش کیاہے۔ میر
لکھتے ہیں:
’’پوشیدہ امانت
کہ در فن ریختہ کے شعریست بطور شعر فارسی بزبان اردوئے معلٰی شاہجہان آباد دہلی
کتابے تاحال تصنیف نشدہ کے احوال شاعران ایں فن با صفحے روزگار بماند۔‘‘(تذکرہ
نکات الشعرا،ص: 23)
میر نے’نکات الشعرا‘ میں نقدِسخن اور اصلاحِ سخن کے لیے جن
علوم مثلاًبدیع،بیان و معانی، عروض وقواعد اور شعری جمالیات کی اصطلاحوںکو برتا
ہے، ان کی تفصیل اس طرح ہیں:خوش فکر، شور انگیز، ربط، تلاشِ لفظِ تازہ، ایجادِ معنی،
سخن فہمی، تاثیر، تہ داری، ایہام، شیریں گفتاری، مناسبت،رنگینی کلام، ہزل گوئی،
آورد اور معنی پروری وغیرہ۔ عہدِمیر تک تنقیدکی درجہ بندی نہیں ہوئی تھی اس لیے
ان اصطلاحات میں خلطِ مباحث بھی پایا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ششم انداز
است کے ما اختیار کردہ ایم و آں محیط ہمہ صنعتہا تشبیہ صفہ گفتگو فصاحت
بلاغت ادا بندی خیال وغیرہ ای ہما ہا درد ابن حمی است و فقیر ہم ازہمیں وتیرہ
محظوظم۔‘‘(نکات الشعرا: ص 163)
میر کے اس بیان میںتجنیس، تشبیہ، اور فصاحت وغیرہ کو ایک ہی
زمرے میں رکھا گیا ہے،جبکہ تجنیس علمِ بدیع، تشبیہ علمِ بیان اور فصاحت زبان کا
تصور ہے۔آگے چل کر ڈاکٹر وحید قریشی نے
اسے اپنی کتاب’تنقیدی مطالعے‘ میں واضح کیا ہے اور تذکروں میں استعمال کردہ
اصطلاحوں کی درجہ بندی پانچ زمروں میں کی ہے:(ا) منطق کی کتابوں سے اخذ کردہ
اصطلاحات جیسے تخیل، تصور (ب) معنی بیان سے متعلق اصطلاحات جیسے فصاحت، بلاغت (ج)
عروض و قوافی کے رسائل سے ماخوذ اصطلاحات جیسے مربوط گوئی، سرقہ (د) لغت سے اخذ
کردہ یا جن کا مفہوم ان کے محل استعمال سے معلوم ہو مثلاََ فکر رنگین،مرصع خوانی۔
قدیم اردو تنقید کو اس کے اختصار کے باعث کلیم الدین احمد نے عبارت آرائی
سے تعبیر کرتے ہوئے عنقا کہا ہے۔ جبکہ علما مثلاً سید عابد علی عابد، نیر مسعود، فیض
احمد فیض، آلِ احمد سرور،شارب ردولوی، سیدعبداللہ، شمس الرحمن فاروقی، ابوالکلام
قاسمی اور دیگر نقادوںنے سماعی اور تذکراتی تنقید کو قدیم تنقیدی سرمایہ مانتے
ہوئے جدید نقطۂ نظر سے ان نامانوس لفظیات کی تشریح و توضیح کرنے کی حمایت کی ہے
جس سے اردو تنقید کی ابتدائی شعر یات کی تفہیم و تسہیل ہو سکے۔ آلِ احمد سرور
لکھتے ہیں:
’’تذکروں کے دور
تک تو ہماری تنقیدی اصطلاحات منفرد تھی تذکروں کا اسلوب اشارات کا اسلوب تھا۔مگر ایک
سنجیدہ اور مثبت فکر ضرور مل جاتی تھی جب مغرب کے اثر سے تنقید کا آغاز ہوا تو
مغربی فکر سے گہرا اثر قبول کرنے کی وجہ سے ان قدیم ا صطلاحات کو نظریوں پر کما
حقہ توجہ نہ رہی۔‘‘(اردو شعریات :ص 7)
واضح ہو کہ شمس الرحمن فاروقی نے ’ شعرِ شورانگیز‘،’ اردو
غزل کے اہم موڑ‘ اور’ اردو کا ابتدائی زمانہ ‘میںکلامِ میر کی روشنی میں قدیم تنقیدی
شعریات کی تاریخ، اصطلاحات اور ـرموزِ علامت کی توضیح کی ہے۔ اس مقالے کا مقصد میر کی تنقیدی
صلاحیتوں کو مترشح کرنا اور نکات الشعرا میں مستعمل تنقیدی اشارات اور تصورات کی
توضیح کرنا ہے۔’’نکات الشعرا‘‘ میں مستعمل ان اصطلاحات کی توضیح حسبِ ذیل ہے:
آورد:
شاکر ناجی کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے میر لکھتے ہیں:
’آورد خود نمی
خندید‘‘ (نکات الشعرا:ص41)
ادا بندی:
شاعر اپنے کلام میں محبوب کی اداؤں کو موزوں کرے۔ عزلت اور کرم اللہ خاں
درد کی شاعری پر نکتہ چینی کرتے وقت میر نے ’دردمندی‘ کی اصطلاح کو برتا ہے۔ مثال
بالترتیب ملاحظہ فرمایئے:
’’از اسالیبِ
کلام شان واضح می گرود کہ بہرٔ بسیارے از دردمندی دارند‘‘
’’بسیار خوش
فکر،و عا شق سخن،خالی از درد مندی نیست‘‘ (نکات الشعرا:ص93اور75 )
ایجاد مضامین: ہم اسے مضمون آفرینی بھی کہہ سکتے ہیں اس کے
دو پہلو ہیں ایک کوئی نیا مضمون ایجاد کرنا یا کسی پرانے مضمون میں کسی نئے پہلو
کا اضافہ کرنا۔شمس الرحمن فاروقی کے الفاظ میں:
’’مضمون کی
تلاش‘ جو شعر میں بندھ سکیں اور پرانے مضامین میں کوئی نئے رنگ بھی باندھنے کی سعی
شاعر کے لیے قابل قدر مسئلہ ٹھہری۔ اسے مضمون آفرینی کہا گیا ہے۔‘‘ (اردو کا
ابتدائی زمانہ: ص 157)
ایہام: ہندوستانی
شعری اصطلاح: اس سے مراد جب شاعر اپنے کلام میں ایسا لفظ استعمال کرے جس کے دو معنی
ہوں ایک نزدیک کا دوسرا دور کا اور شاعر نے دور کے معنی مراد لیا ہو۔ جہاں کہیں بھی
ایہام کا استعمال سلیقے سے کیا گیا وہاں اس نے لطف اور معنی دونوں میں اضافہ
کیا۔ احسان اللہ احسن کے کلام کے متعلق میر لکھتے ہیں ؎
’’طبعیش بسیار
مائل بہ ایہام بود
ازیں جہت شعر او بے رتبہ ماند‘‘
(نکات الشعرا: ص
44)
ــبندش
:
میر سجا د کے کیے رقمطراز ہیں:
’’ہر مصرعہ بندش
را طرف لطف نا چنارے ‘‘(نکات الشعرا:ص66)
تاثیر:عام طور پر تاثیر شاعری کا بنیادی وصف ہے لیکن اس
اصطلاح کو وہاں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جہاں کیفیت کا عملی دخل زیادہ ہو چنانچہ
کیفیت والا شعر قاری یا سامع کو فورا اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اپنے تذکرے میں
محمد حسین کلیم کی شاعرانہ خصوصیت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’شعر پیچدار
پر تاثیر او تیر کا کل ربا۔۔‘‘
(نکات الشعرا :ص
55)
تلاش لفظ تازہ: شاعری میں استعمال کیا جانے والا ہر کلیدی
لفظ مجاز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ عموماً استعارہ ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ
ہر نیا لفظ ایک نیا استعارہ ہے، اور ہر نیا استعارہ ایک نئے معنی کی تشکیل کرتا
ہے۔ چنانچہ تلاشِ لفظِ تازہ اصل میں نئے معنی اور نئے مضمون کی بنیاد ہے۔ اٹھارویں
صدی میں ایہام گوئی کی تحریک تلاش ِلفظِ تازہ اختیار کرنے کا ایک ذریعہ تھی۔میر،شیخ
شرف الدین مضمون کے لیے لکھتے ہیں’’ ہر چند کم گو بود، لیکن بسیار خوش فکر اور
تلاش لفظ تازہ زیادہ -‘‘اور میر سجاد کے لیے رقمطراز ہیں’’ اگرچہ دربند لفظِ تازہ
است۔‘‘
(نکات الشعرا: ص
34 اور 66)
ٖٖتہ دار:پراز
معنی، ایک ایسی اصطلاح جو میر کے یہاں تو ملتی ہے لیکن دوسرے تذکروں میں اس کا
فقدان ہے جبکہ تنقید کے باقاعدہ آغاز کے بعد ’تہ داری‘ کا لفظ ہمیں کئی جگہ پڑھنے
کو ملتا ہے۔ ’تہ دار‘ سے مراد کسی معمولی سے تجربے کو اہم اور معنی خیز بنانے سے
ہے۔ محمد حسین کلیم کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے میر لکھتے ہیں: ’’درفہم شعر
تہ دار او فکر عاجز سخناں پشت دست برزمیں می گزاراد۔‘‘
(نکات الشعرا :ص
55)
تہ دار کی وضاحت ڈاکٹر غلام آسی رشیدی کے
الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ کلام جس میں
معنی کی کثرت ہو تہدار یا پیچدار کہلاتا ہے۔ کلام میں تہ داری پیدا کرنے کے بہت سے
ذرائع ہیں ان میں رعایت ایہام انشائیہ اسلوب استعارہ اور صرفی نحوی تراکیب کی بنیادی
اہمیت ہے۔‘‘
(اردو غزل کا
تاریخی ارتقا، ص 338)
میر نے یہ اصطلاح میر سجاد اور خاکسار کے لیے بھی استعمال کی
ہے۔
خوش فکر: نئے
مضامین کو اپنے خیال کی گرفت میں لے کر انھیں مناسب طریقے سے پیش کرنے والا شاعر
خوش فکر کہلاتا ہے۔خوش فکری سے مرادیہ ہے کہ شاعر اپنے کلام میں دلی جذبات اور
احساسات کو فطری طور پر موزوں کرے یعنی جو کچھ کہے اس میں وارداتِ قلبی اور کیفیت
موجود ہو۔میر’ نکات الشعرا‘ میں شرف الدین مضمون کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ہر چند کم گو
بود لیکن بسیار خوش فکر‘‘(نکات الشعرا :ص34 )
ڈاکٹر مسیح الزماں خوش فکری کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’نئے مضامین کی
تلاش اور انھیں مناسب طریقے سے پیش کر دینا شاعر کی خوش فکری کی علامت ہے۔اسی سے
کلام میں انفرادیت پیدا ہوتی ہے اور زبان کی ترقی میں بھی مدد ملتی ہے۔‘‘(اردو تنقید
کی تاریخ:ص85 )
میر نے سودا اور محمد حسین کلیم کے لیے بھی یہی اصطلاح
استعمال میں لی ہے۔
خیال:کلام موزوں کو شاعری کی سطح پر لانے والے اہم عناصر میں
سے ہے۔ تخلیق کار کا خیال عام انسانی خیال سے مطالعہ کائنات، ادراک،
اعلی اقدار اور جذبے کے موجب بالا تر ہوتے ہیں۔ مسعود رضوی ادیب کے مطابق:
’’خیال کی بلندی
سے مراد یہ نہیں کہ کوئی ایسی عجیب اور انوکھی بات کہی جائے جو عام آدی کی سمجھ
سے باہر ہو بلکہ خیال رکیک اور عامیانہ نہ ہو، شریفانہ ہو اور جو جذبہ اس خیال سے
وابستہ ہے اس میں حیوانیت نہ ہو انسانیت ہو اگر کہیں پست فطرت بندۂ نفس کے خیالات
دکھانا ہوں تو اس میں رکاکت اور عامیانہ پن اور حیوانیت سب کچھ ہونا چاہیے ورنہ
شعر اصلیت سے دور ہو جائے گا۔ ‘‘(ہماری شاعری معیار و مسائل: مسعود حسن رضوی ادیب،
ص...)
درد مندی: کلاسیکی شعریات میں کلام کے سوز و گداز اور درد
مندی سے پر ہونے کی سفارش کی گئی ہے۔یہ غالباً تصوف کا اثر بھی ہے اور تصور حیات و
کائنات کا زائیدہ بھی۔ خود میر کے کلام میں
رنج و غم اور درد و الم کا قابل لحاظ حصہ موجود ہے۔
ربط:شعر کی قواعد سے متعلق تصورات میں سے ایک۔ مربوط کلام
سے مراد ایسے کلام سے ہے جس میں تمام اجزا ایک وحدت کی تشکیل کرتے ہوں۔غزل کے شعر
میں اگر دونوں مصرعے مربوط نہ ہوں تو وہ غزل گوئی کا بڑا عیب ہے۔اسی لیے بے ربط
مصرعوں کو دولخت بھی کہا جاتا ہے یعنی شعر کے تمام اجزا ایک معنوی اکائی میں ڈھلے
ہوئے ہونے چاہیے۔ملا وجہی لکھتے ہیں جسے بات کے ربط کا فام نیں/ اسے شعر کہنے سے کچھ کام نیں‘‘۔ فضلی کے ایک شعر کے متعلق میرلکھتے ہیں:
’’رکھا ہوں نیم
جانا ںتصدق تجھ پہ کرنے کو /کیا سب تن کو میں درپن اجھو درسن نپائے ہوں‘‘ربط بین
المصرعین ایں شعر سبحان اللہ عجب ربط چسپانی است کو مطلق معلوم نمی شودکہ چہ گویدوچہ ارادہ است‘‘
(نکات الشعرا ،ص
101)
رنگینی کلام: زبان رنگین/ نثری اسالیب کی ایک قسم۔ نثر میں
تخلیقی زبان کا استعمال رنگین نثر کہلاتا ہے،اور شاعری میں چونکہ بلاغت نثر سے زیادہ
ہوتی ہے اور مجازی معنی کی تعمیر کی جاتی ہے،اس لیے وہاں زبان کی رنگینی بڑھ جاتی
ہے۔ میر نے اس اصطلاح کو عبد الحی تاباں کے کلام کی خصوصیت بیان(زبان رنگینش) میں
کیا ہے۔بقول پروفیسر محمد حسن:
’’رنگینی کلام
کو تنقیدی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس رنگینی سے محض الفاظ کی رنگینی
مراد نہیں لی گئی ہے بلکہ شعر سے پیدا ہونے والی کیفیت کی رنگینی مراد ہے۔ شعر میں
الفاظ اول تو راست لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوتے پھر ان کے استعمال کی مختلف مجازی
سطحیں ہوتی ہیں۔ یہی لفظ کہیں تشبیہ ہے تو کہیں استعارہ، کہیں مجاز مرسل ہے تو کہیں
کنا یہ، کہیں علامت ہے، تو کہیں ایہام اور ان حیثیتوں سے ان کے در میان مختلف قسم
کے رشتے ابھرتے ہیں اور نئے تلازمے پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہر لفظ کی اپنی موسیقی اور
ہر مصرع یا شعر کی اپنی مجموعی موسیقی بھی ہوتی ہے اور ہر لفظ کی اپنی محاکاتی یا
تصویری فضا اور ہر مصرع یا شعر کی اپنی بصری تلازموں سے پیدا ہونے والی فضا ہوتی
ہے اور رنگینی اسی موسیقی اور اسی تمثالی فضا سے پیدا ہونے والی کیفیت ہے جس کی
تشریح ممکن نہیں۔‘‘(مشرقی تنقید: ص 63)
سخن فہمی: شعر فہمی/سخن فہمی اور بیان شاعر کے لیے
اپنے طرز ِاظہار پر قادر ہونے کے ساتھ پیش رو اور ہم عصر شعری اظہارات کا سمجھنا
بھی اہم ہے اس سے خوش بیانی اور تازگی کے سرے بھی ملتے ہیں چنانچہ ’ یادگار غالب‘
میں شمس الرحمن فاروقی نے باذوق الفاظ کے ذریعے سخن فہمی کو نشان زد کیا ہے۔خان
آرزو اور انعام اللہ خاں یقین کے کلام پر
رائے دیتے ہوئے میر رقم طرازہیں:
’’شہرۂ آفاق
در سخن فہمی طاقــ‘‘
’’ذائقہ شعر فہمی
مطلق ندارد‘‘ ( نکات الشعرا ، ص 25
اور83)
محتشم علی خاں، کرم اللہ درد اور آرزو کے احوال میں اس اصطلاح کی معاونت سے ان کے شعری ذوق کی
جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی
شعر فہمی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شعر فہمی ایک
تنقیدی عمل ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یا قوت یہ ہے کہ یہ ذوق کے پیدا کردہ رد عمل
کے بعد بروئے کار آتا ہے مثلاََ جب میرا ذوق مجھے بتاتا ہے کہ دردشت جنون
من.......بہتر شعر ہے تو میں شعر فہمی کی کوشش کرتا ہوں اور نتیجے کے طور پر مجھے
محسوس یا معلوم ہوتا ہے کہ موضوع کی تقریباََ
وحدت کے باوجود خود ہی کو کر بلند اتنا.......معنی کے اعتبار سے کمتر ہے۔
اس لیے میں اسے کمتر شعر سمجھنے میں حق بجانب تھا یہ بات ملحوظِ خاطر رکھیے کہ تنقیدی
عمل سے میری مراد نقاد کا عمل نہیں ہے۔‘‘
(شعر، غیر شعر اور نثر :ص 154)
شاعر زبردست: میر اسے قادر الکلام شاعر کی تعریف میں
استعمال کرتے ہیں۔ اسے شاعر ِپرزور بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ شاعر جو مستند اور
معتبر ہو شعری نکات کی واقفیت رکھتا ہو، اسے اہلِ سخن میں اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
شور انگیزی: شور کے معنی غل اور شورش کے ہیں۔ بظاہر ایسے
کلام کو شور انگیز کہا جاتا ہے جس میں جذبات کی شدت معمول سے زیادہ ہو لیکن اس کی
خوبی یہ ہے کہ حیات وکائنات کے بارے میں شدت کے ساتھ اس طرح اظہار کیا جائے کہ خود
شاعر کی شخصیت اس میں نمایاں نہ ہو، گویا شور انگیزی شاعر کی نہیں اسلوب کی مانی
جائے گی۔ کریم اللہ درد کے کلام پر رائے دیتے ہوئے میر لکھتے ہیں:
’’طبع شور انگیزے
وارد.....‘‘( نکات الشعرا،ص 75)
’ شور انگیز‘کے
ضمن میںشمس الرحمان فاروقی کے خیالات ملاحظہ فرمائیے :
’’وہ کلام شور
انگیز تھا جس میں حیات و کائنات کے معاملے شدت جوش کے ساتھ بیان میں آئیں لیکن
اسلوب ایسا ہو کہ شاعر خود ذاتی حیثیت سے کلام میں موجود نہ دکھائی دے۔‘‘(اردو کا
ابتدائی زمانہ :ص170)
شیریں گفتاری: شیریں کلامی/ خوش لہجگی-اس سے مراد معنی،
مفہوم، لہجے اور صوتیات تک میں ایک ایسی ہم اہنگی ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو شیریں
اور پرـ عصر معلوم ہوتی ہے۔
صفائے گفتگو: میر نے اس اصطلاح کو صفائی بیان کے معنی
میں استعمال کیا ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی فرماتے ہیں:
’’مضمون آفرینی
کا ایک ذیلی تصور بیان کی صفائی بھی تھا بیان کی صفائی سے مراد یہ تھی کہ مضمون ایسا
نہ ہو یا اسے اس طرح نہ بیان کیا جائے کہ اس کو سمجھنے میں محنت اور مشکل صرف ہو
اور جب اسے سمجھ لیں تو محسوس ہو کہ ساری محنت بے کار گئی۔‘‘(تعبیر کی شرح :ص10 )
طرز: اسے اسلوب بھی کہا جاتا ہے۔طرز کے معنی طریقے کے ہیں
کسی بات کو ایک خاص طریقے سے ادا کرنے کا نام طرز ادا ہے۔یہ عام طور پر مروجہ طرز
سے الگ تخلیقی سطح کا اظہار ہوتا ہے جس میں شاعر کی انفرادیت مضمر ہوتی ہے۔میر محمد حسین کلیم کے لیے لکھتے ہیں:
’’طرزش بطرزکسے
مانا نیست۔‘‘(ایضاً،ص55 )
غالب، میر مہدی کو ایک خط میں لکھا:’’یہ طرز عبارت خاص میری
دولت تھی سو ایک ظالم پانی پت انصاریوں کے محلے کا رہنے والا لوٹ لے گیا مگر میں
نے اس کو باہر کیا اللہ برکت دے۔‘‘(بحوالہ یادگار غالب: ص 200)
مناسبت:مناسبت سے مراد یہ ہے کہ شعر میں جتنے الفاظ استعمال
کیے جائیں وہ سب شعر میں مضمر معنی سے نسبت رکھتے ہوں اور ایک لفظ دوسرے لفظ یا
الفاظ کی ناگزیریت کی جانب اشارہ کرے۔ مثال کے لیے یک رنگ کے اس شعر پر میر
کی رائے پر غور فرمایے ؎
اصل سچ کہے جو کوئی مارا جائے
راستیٖ ہے گی دار کی صورت
مصرعِ اولیٰ پر میر کی رائے ملاحظہ فرمائیے ’’حق کہے جو کوئی
سو مارا جائے ‘‘
اس شعر کے مصرع اولیٰ میں میرصاحب نے لفظ ’اصل‘ کی جگہ’
حق‘کر دیا جس کی مناسبت لفظ ’دار‘سے ملتی۔ اس باعث شعر کے معنی میں اضافہ ہوتا ہے
اور شعر میں لفظ’حق‘ اور’دار‘ کی مناسبت سے صنعت تلمیح یعنی منصور
حلاج کے واقعہ’انالحق ‘کی جانب بھی اشارہ مترشح ہوتا ہے۔
معنی پروری: کسی شاعر کو معنی پرور کہنے سے مراد معنی
آفرینی بھی ہو سکتی ہے اور کثیرالمعنویت کی خوبی بھی۔ دونوں صورتوں میں یہ فنکار
کی بڑی خوبیوں میں شامل ہیں۔ آگے چل کر معنی پروری کی جگہ معنی آفرینی کی اصطلاح
رائج ہو گئی۔سید عابد علی عابد کے الفاظ میں:
’’معنی پروری سے
مراد یہ ہے کہ شاعر پامال راستوں سے ہٹ کر حقیقت کو نئے پہلوؤں سے دیکھنے کی کوشش
کرے، مطالب کی بلندی کی طرف اشارہ بھی اس ترکیب میں موجود ہے۔‘‘(انتقاد و ادبیات
:ص 308)
ہزل:غیر سنجیدہ کلام- شاعری میں مزاح کے ساتھ فحاشی اور عریانی
شامل ہو جائے تب اسے ہزل کہتے ہیں۔ کمترین کی شاعری پر نکتہ دانی کرتے ہوئے میر
لکھتے ہیں:
’’ مزاجش میلان
ہزل بسیار دارد - موافق استعداد خود می گوید. بندہ شعر معقول او نہ شنیدہ ام ‘‘( ایضاً،
ص 140)
اسی طرح میر نے سلیقۂ شاعری کے حوالے سے میر ’تذکرہ نکات الشعرا‘ کے باب’ خاتمہ‘ میں ریختہ
کی اقسام کی وضاحت کے بیان میںاسے تیسری قسم میںشمار کرتے ہیں۔شارب ردولوی اپنی
کتاب جدید تنقید اصول و نظریات میں اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ نا مانوس اور معیوب
الفاظ کی پرکھ’ سلیقۂ شعری‘ پر رکھی ہے۔ سلیقۂ شعری کو تنقیدی شعور بھی کہا جاتا
ہے۔اس لیے کہ یہاں پر میر کی مراد اس لفظ
سے صحیح اور غلط .بہتر و بدتر،مناسب اور نا مناسب کی پرکھ نہیں بلکہ فصاحت اور
بلاغت اور تمام محاسن شعری سے ہے۔
مطالعہ’ نکات الشعرا‘ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میر
کی تنقید میں لفاظی نہیں تھی اور نہ ہی وہ تاثراتی تھی بلکہ اس عہد میں رائج ادب کی
شعریات مثلاً قواعد کی پابندی، شعری اظہار، عروض،فصاحت اور بلاغت سے آگاہی،
محاوروں اور الفاظ کا بر محل استعمال وغیرہ
پر مبنی تھی۔ادب کی شعریات میں مستعمل ان اصطلاحات کی روشنی میں کسی تخلیق کا معیار
متعین کرکے اس پر تنقید کی جاتی تھی۔ عہدِمیر سے لے کرعہد محمد حسین آزاد تک لکھے
گئے تذکروں میںموجود مشرقی تنقیدی اصطلاحات کو تذکراتی تنقید کے زمرے میں شامل تو
کیا گیا ہے لیکن باقاعدگی سے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ اس لیے تذکروں میں موجود
مشرقی معیارِ نقد کی اصطلاحات کی تشریح و تعبیر لازمی ہے۔
مآخذ
.1 اُردو
کا ابتدائی زمانہ از شمس الرحمن فاروقی، مکتبہ جامعہ نئی دہلی،2011
.2 اُردو تنقید کی تاریخ از ڈاکٹر مسیح
الزماں،اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ، 2003
.3 اردو شعریات مرتبہ پروفیسر آلِ احمد
سرور، اقبال انسٹیٹوٹ کشمیر یونیورسٹی، سری
نگر، 1987
.4 اردو غزل کے اہم موڑ از شمس الرحمن فاروقی،
غالب اکیڈمی، نئی دہلی،2006
.5 اصول انتقاد و ادبیات از ڈاکٹر سید عابد علی عابد
.6 جدیداردو تنقید اصول و نظریات ازپروفیسر
شارب رودلوی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ
.7 رموزِ بلاغت از ڈاکٹرارشد عبدالحمید،راجستھان
اردو اکادمی، جے پور،جون 2022
.8 شاعری اور شاعری کی تنقید از ڈاکٹر عبادت
بریلوی، ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،
1975
.9 شعر،غیر
شعر اورنثر از شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،2021
.10 مشرقی تنقید از محمد حسن
.11 مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت از
پروفیسر ابو الکلام قاسمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،2000
.12 نکات الشعرا
از میر تقی میر مرتب ڈاکٹر محمود
الہی، اثر پردیش اردو اکادی، لکھنؤ، 1984
Mohammed Baqir
Husain
Asst Prof. Govt.
College
Tonk- 304001
(Rajasthan)
Cell.: 9214000097
baquir97@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں